بدھ مت اور اسلام: مختلف طریقے، مشترک ہدف

ایشیا کے بہت سے خطوں میں بدھ مت اور اسلام کی باہمی عمل کاری ہوتی ہے۔ اگرچہ انہیں مل جل کر رہنا چاہئیے مگر بعض اوقات یہ میل جول اتنا پرامن نہیں ہوتا۔ بہر حال، دونوں گروہ ہی ماحولیاتی انحطاط، آلائش اور کرہ ارض کی افزوں پذیر حرارت جیسے مسائل سے دوچار ہیں۔ بدھ مت اور اسلام لوگوں کو ان مسائل سے عقلمندانہ اور درد مندانہ انداز سے نمٹنے کی تحریک دینے کی الگ الگ حکمت عملی پیش کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کے طریقوں کی بہتر فہم سے مفاہمت اور باہمی احترام جنم لیتا ہے۔ اس کے نتیجہ میں، دونوں گروہ ماڈرن زندگی کے ان مسائل سے نمٹنے کے لئیے ایک دوسرے سے بہتر، ہم آہنگ طور پر تعاون کر سکیں گے۔

بدھ مت اور اسلام عالمی مسائل سے نبرد آزمائی کے لئیے جن طریقوں کا اطلاق کرتے ہیں ان کی اساس ان کے بنیادی عقائد ہیں۔ ان طریقوں کو سمجھنے کی خاطر، ہمیں ہر ایک کے بنیادی مفروضوں کو جاننا لازم ہے۔

علت و معلول کی ابتدا

اسلام

اسلام ایک الوہی مذہب ہے۔ خدا نے دنیا بنائی اور کائینات میں نظم پیدا کیا معہ علت و معلول کے قوانین کے۔

بدھ مت

بدھ مت ایک غیر الوہی مذہب ہے، جس کا مطلب ادھرم نہیں، کہ خدا کا کوئی وجود نہیں ہے؛ یہ تخلیق کو نہیں مانتا۔ ہر شے علت و معلول کی تابع ہے – نہ صرف مادی دنیا میں بلکہ انفرادی اور مجموعی معاملات میں بھی – جس کا نہ کوئی ازل ہے نہ ابد۔ کسی نے بھی علت و معلول کو پیدا نہیں کیا؛ کارخانہ قدرت کا وجود بس ایسے ہی ہے۔

حاصل بحث

دونوں انداز فکر علت و معلول کے قانون کو مانتے ہیں، اور اس لئیے اس بات پر متفق ہیں کہ عالمی مسائل کو حل کرنے کی کلید ان کے اسباب کو مٹانا یا کم از کم ان میں تخفیف کرنا ہے۔

علت و معلول کے درمیان رشتہ

اسلام

یہ حقیقت کہ بے شمار اسباب کا پیچیدہ تانا بانا پیچیدہ نتائج پیدا کرتا ہے "تقدیر" کہلاتی ہے۔ اسباب اور اثرات کے بیچ اس ناطہ کو خدا نے تخلیق کیا اور اسباب کا نتائج پیدا کرنا "خدا کی مرضی" سے ہے۔

بدھ مت

بے شمار اسباب کا پیچیدہ تانا بانا اور پیچیدہ نتائج کے تانے بانے کے درمیان رشتہ کا انحصار محض دست نگر نمو پر ہے؛ اسے کسی نے جنم نہیں دیا۔ دوسرے لفظوں میں، اسباب اور اثرات دونوں ہی آزادانہ، خود مختار وجود کے حامل ہیں۔ کسی علت کا وجود اس کے معلول کے بغیر ناممکن ہے۔

حاصل بحث

دونوں نظام اس بات پر متفق ہیں کہ علت و معلول ایک خاص قانون کے تابع ہیں اور یہ کہ کچھ بھی بغیر سبب، بلا نظم وقوع پذیر نہیں ہوتا۔ کائنات ایک نظام کی مرہون منت ہے۔ اس بنا پر دونوں متفق ہیں کہ اگر عالمی مسائل کو حل کرنے کے لئیے مناسب اقدامات کئیے جائیں تو مسائل حل ہو سکتے ہیں۔

آزادیٔ انتخاب

اسلام

خدا نے انسان کو عقل دے کر پیدا کیا۔ 'عقل' سے مراد سوچنے کی صلاحیت ہے، خصوصاً معقول فکر اور منطق۔ تعقل کا ایک عنصر آزادیٔ انتخاب ہے، جس کا مطلب ہے فیصلہ کرنے کی اہلیت اور اختیار، جیسے کہ خریداری کے لئیے کپڑے کا بار بار استعمال ہونے والا تھیلا لے کر جائیں یا پلاسٹک کا قابل تلف بیگ لیں۔ قومی سطح پر ہمیں اس بات کا اختیار ہے کہ ہم گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کریں، اور اگر ہم ایسا کریں، تو کس حد تک۔ 

جب ہمیں ایسے فیصلے درپیش ہوں، تو ہم جو فیصلہ بھی کریں وہ خدا کی مرضی کے مطابق اس کا نا گزیر نتیجہ ہو گا۔ اس لحاظ سے نتیجہ پہلے سے خدا کے بناۓ ہوۓ علت و معلول کے قوانین کے مطابق ہو گا، مگر انتخاب بذات خود پہلے سے متعیّن نہیں ہے۔ اس لحاظ سے ہم خود اختیاری کی اہلیت رکھتے ہیں۔

بدھ مت

من کا وہ عنصر جو ہمیں کسی لائحہ عمل کا تیقّن بخشتا ہے 'امتیازی آگہی' کہلاتا ہے۔ یہ مختلف انتخابات پر توجہ مرکوز کرتا ہے اس بات کا تعیّن کرنے کی خاطر کہ ہر ایک لائحہ عمل کی اچھائیاں کیا ہیں اور کمزوریاں کیا ہیں، مزید یہ بھی کہ خوبیاں اور فوائد کیا ہیں اور خامیاں اور نقصانات کیا ہیں۔ اس امتیاز کے ذریعہ ہم اپنے انتخاب کا فیصلہ کرتے ہیں۔ 

ایک اور نقطہ نظر سے من کے اس عنصر کو ہم 'عاقلانہ آگہی' کہتے ہیں۔ یہ اس امر کا حتمی امتیاز ہے کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے، تعمیری کیا ہے اور تخریبی کیا ہے، سود مند کیا ہے اور ضرر رساں کیا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ یہ یا تو درست ہو گا یا غلط۔  اس چیز کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوۓ کہ ماحول کے لئیے کیا بہتر ہے ہم فیصلہ کرتے ہیں کہ کپڑے کا بارہا استعمال ہونے والا تھیلا لیں یا پلاسٹک کا قابل تلف بیگ استعمال کریں۔ گرین ہاؤس گیسوں کو کم کرنے کے لئیے بھی یہی حکمت عملی کارگر ہوگی۔ ہمارے فیصلہ کی بنیاد علت و معلول کے قانون پر ہو گی۔ 

بدھ مت میں 'کرم' سے مراد ہمارا اضطراری رویہ ہے – ایسا بے قابو رویہ جس کے تحت ہم اپنے پرانے اطوار اور انتخابات کو دوہراتے ہیں۔ لیکن ہمارے فعل اور فیصلہ کے درمیان ایک وقفہ ہوتا ہے۔ اس موقع پر ہم امتیازی آگہی کے توسط سے اس بات کا تعیّن کر سکتے ہیں کہ آیا ہم بے قابو اطوار کو اپنائیں یا انہیں رد کر دیں۔ اس لحاظ سے ہم فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ لیکن جب ہم اپنے فیصلے کو عملی جامہ پہنا دیں تو پھر یہ علت و معلول کے قوانین کے تابع ہو جاتا ہے۔

حاصل بحث

دونوں نظام افکار اس بات پر متفق ہیں کہ ہمیں اپنے لائحہ عمل کے تعیّن کا اختیار حاصل ہے۔ ہر کوئی اس قابل ہے کہ ایسے درست فیصلے کر سکے جو مسائل کو حل کریں اور دیر پا افادیت کے حامل ہوں۔ اس کی بنیاد اس امر پر ہے کہ ہم میں سے ہر کوئی صاحب عقل سلیم ہے جس کے توسط سے وہ بخوبی اچھے اور برے میں تمیز کر سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں سب لوگ ہمیشہ بہترین فیصلہ ہی کریں گے، اس کا مطلب محض یہ ہے کہ ہر کوئی معقول فیصلے کرنے کی دماغی صلاحیت رکھتا ہے۔ البتہ، ایک بار جب فیصلہ صادر ہو اور اس کا اطلاق کر دیا جاۓ تو پھر اس کا منطقی نتیجہ سامنے آۓ گا۔

فیصلوں کے نتائج کی ذمہ داری

اسلام

جب کسی بچے کی پیدائش کا تخم ڈالا جاتا ہے، تو خدا ایک فرشتے کو بھیجتا ہے کہ وہ اس کی (خدا کی) روح اس بچے میں پھونک دے۔ بیشتر مسلمان یہ مانتے ہیں کہ جب خدا کی روح انسانی جسم میں محصور ہوتی ہے تو اسے ہم "نفس" کہتے ہیں۔ نفس وہ صلاحیت پذیر عنصر ہے جو عقل کو استعمال میں لا کر فیصلے کرتا ہے اور اس وجہ سے فیصلوں کی ذمہ داری اس پر ہی عائد ہوتی ہے۔

بدھ مت

بدھ مت ایک آزاد نفس کے وجود کا قائل نہیں ہے، مگر یہ یہ بھی نہیں کہتا کہ بطور انسان ہمارا کوئی وجود نہیں اور یہ کہ ہم اپنے کئیے ہوۓ فیصلوں کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ ہم یوں محض رسماً کہتے ہیں "میں نے کوئی فیصلہ کیا،" اور یہ صحیح ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ فیصلہ کسی اور نے کیا یا کہ کسی نے بھی فیصلہ نہیں کیا۔ البتہ فیصلہ کرنے کا واقعہ اس طرح نہیں ہوا کہ جیسے ہمارے سر کے اندر کوئی آزادانہ وجود کی حامل "میں" بیٹھی ہو اور اس کے سامنے کئی ایک راستے پیش کئیے جائیں اور وہ ان میں سے کسی ایک کو امتیازی آگہی کے استعمال سے منتخب کر لے۔ کسی بھی صورت میں، فیصلہ کرنے والا، مختلف راستے اور کوئی فیصلہ باہمی طور پر محتاج ہوتے ہیں، نہ کہ آزاد، خود مختار ہستیاں۔ وہ سب نہ صرف ایک دوسرے کے محتاج ہیں بلکہ – اس وقت تک کوئی فیصلہ ہو ہی نہیں سکتا جب تک کہ بہت سے راستے موجود نہ ہوں اور کوئی فیصلہ کرنے والا نہ ہو – یہ تینوں بھی بے شمار اسباب اور حالات کے تابع ہیں۔

حاصل بحث

دونوں نظام افکار اس امر پر متفق ہیں کہ بطور فرد ہم اپنے انتخابات خود کرتے ہیں اور اس لئیے ہم اپنے فیصلوں کے ذمہ دار ہیں۔ لہٰذا یہ ہمارے اوپر منحصر ہے کہ ہم عالمی مسائل جیسے ماحولیاتی انحطاط سے نبرد آزما ہوں۔

عقل کے علاوہ فیصلہ پر اثر انداز ہونے والے عناصر

اسلام

خدا نے انسان کو بہترین شکل و صورت میں پیدا کیا اور انسان کے لئیے خدا کی محبت اس عمدگی سے قربت کا ثبوت ہے جو اس نے پیدا کی۔ اس کے بدلہ میں انسان کی خدا کے لئیے محبت وہ کمال حاصل کرنے کی تمنا ہے جس سے وہ عاری ہے اور جس کی اسے ضرورت ہے۔ یہ درد مند آرزو خدا کی عبادت کے فعل میں نظر آتی ہے جو اس وصف کمال کی پرورش ہے جو خدا نے ہمارے کردار اور اس کی مخلوق کی خدمت کے ذریعہ پیدا کیا۔ ایسا فعل ہمارے ایمان اور خدا کی بندگی کا ثبوت ہے۔ ہم خدا کی بندگی کا اظہار اس کے بناۓ ہوۓ قوانین پر چل کر کرتے ہیں، اور خدا کی منشا کے مطابق، مناسب نتائج پیدا کرتے ہیں جس کی بنیاد ان قوانین کو ماننا ہے یا ان کی خلاف ورزی کرنا ہے۔ 

خدا نے انسان کو قلب بھی عطا کیا جو کہ جذبہ کو، خواہ وہ مثبت ہو یا منفی، محسوس کرنے کی صلاحیت ہے۔ اس میں خدا کے بارے میں شک ہو سکتا ہے جو اسے اندھا قرار دے گا، یا یہ مضبوط اور ایمان سے بھرپور ہو سکتا ہے۔ اب اگر عقل کی آزادیٔ انتخاب کے نتیجہ میں ہمارا دل خدا کی نافرمانی جیسے منفی جذبات کا سزاوار ہو تو ہماری روح بھی ایسے منفی جذبات کی تابع ہو جاتی ہے۔ تو ایسی صورت میں ہم اپنی نفس پرستی کی بنا پر نفس کی مرضی جو اپنی ذات کی اہمیت، خود غرضی اور ایسے ہی منفی جذبات سے مغلوب ہوتی ہے کی پذیرائی کرتے ہیں، بالمقابل خدا کی مرضی کے۔ پس جو فیصلے ہم عقل کے ذریعہ کرتے ہیں ان کی بنیاد یا تو ہماری خود غرض، کوتاہ اندیش مرضیٔ نفس ہو سکتی ہے یا خدا کی اطاعت جو ہمیں اپنے عمدہ کردار اور خدمتِ خلق سے ودیعت ہوتی ہے۔

بدھ مت

ہمارے من کا تواتر جس کی کوئی ابتدا نہیں ہے دونوں قسم کے جذبات جیسے ایک طرف توغیروں کی فکر، پیار، درد مندی، سخاوت اور صبر اور دوسری طرف نفس پرستی، خود غرضی، لالچ، لگاوٹ اور بھولپن کا حامل ہے۔ جو فیصلے ہم امتیازی آگہی سے کرتے ہیں وہ ان جذبات کی شدت کے مطابق دست نگر نمو کے مرہون منت ہوتے ہیں۔ مزید یہ کہ، کسی بھی لمحہ، ان کی شدت کا انحصار کئی خارجی اور داخلی حالات پر ہوتا ہے – دوسرے لوگ کیا کہتے اور کرتے ہیں، سماج کی اقدار، اور معاشی حالات، ساتھ ہی اس میں ہماری صحت، تعلیم، مصروفیت اور پریشانی کی مقدار وغیرہ  بھی شامل ہیں۔ پس، ہمارے فیصلوں کا انحصار کئی عناصر پر ہے۔

حاصل بحث

دونوں نظام افکار اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ اگر ہماری عقل پر منفی جذبات مثلاً خود غرضی اور لالچ کا پردہ پڑا ہو تو ہم عالمی مسائل سے نبرد آزمائی کے معاملہ میں سادہ لوح، غیر معقول فیصلے کرتے ہیں۔ جبکہ اگر تمام دنیا کی بھلائی کا درد ملحوظ خاطر ہو تو ہمارے فیصلے معقول، عقلمندانہ اور دیرپا فوائد کے حامل ہوں گے۔

عالمی مسائل کو حل کرنے کی تحریک پکڑنا

اسلام

جب ہم دنیا اور انسانیت کے لئیے پر خلوص محبت استوار کرتے ہیں، تو ہماری محبت بذات خود دنیا اور انسانیت کے لئیے نہیں ہوتی، بلکہ یہ محبت خدا کے لئیے ہے جس نے ہمارے اندر وصف کمال پیدا کیا۔ لہٰذا ہماری عالمی ماحول کے لئیے درد مندانہ فکر خدا کی مخلوق کی خدمت کے راستے اس کی عبادت ہے۔

بدھ مت

تمام ہستیوں کی بھلائی کی فکر کی بنیاد اس امر پر ہے کہ خوشی پانے اور دکھ سے بچنے کے معاملہ میں ہم سب برابر ہیں۔ مزید یہ کہ ہم سب ایک دوسرے کے محتاج ہیں اور اس عالمی ماحول کے بھی جس میں ہم رہتے ہیں۔ ہم جو کرتے ہیں اس کا اثر دوسروں پر ہوتا ہے اور جو دوسرے کرتے ہیں اس کا اثر ہمارے اوپر ہوتا ہے۔ پس پیار اس امر کی تمنا ہے کہ سب لوگ خوش رہیں اور ان کے لئیے خوشی کے اسباب پیدا کرنا ہے؛ پیار کے توسط سے ہم سب کو خوشی دینے کے اقدامات کرتے  ہیں۔

حاصل بحث

بدھ مت اور اسلام دونوں ہی سب کی بھلائی کی فکر کی تلقین کرتے ہیں۔ دونوں عالمی پیار اور اس پیار کے بے لوث اظہار کی ضرورت  پر زور دیتے ہیں۔

خلاصہ

اس چیز کے قطع نظر کہ عالمی مسائل حل کرنے کے لئیے لوگ کیسے ترغیب پکڑتے ہیں، اہم بات یہ ہے کہ سب لوگ مل کر پوری دنیا کی بھلائی کے لئیے کام کریں۔ اس مہم کی اہمیت کے معاملہ میں بدھ مت اور اسلام دونوں پوری طرح متفق ہیں۔  

Top