حصہ دوم: بنوعباس کا ابتدائی دور (۷۵۰- وسط نویں صدی عیسوی)
۱۰۔ اسلامی مسلکی تنازعے اور جہاد کا اعلان
ابتدائی عباسی دور میں اسلام کے اندر مسلکی اختلاف
عباسیوں کو مغربی ترکستان سے تانگ چینیوں کو بے دخل کرنے میں کامیابی ملی تھی، اور ہان چین میں این لوشان کی بغاوت نے کوچا، ترفان اور بیشبالق میں تانگ گرفت کو شدت کے ساتھ کمزور کردیا تھا۔ اس کے باوجود عربوں نے نہیں، بلکہ قرلوقوں اور تبتوں نے طاقت میں خلا کے پیدا ہوجانے کا فائدہ اٹھایا۔ قرلوقوں نے جنوب کی سمت پیش رفت کی اور سویاب، فرغانہ اور بالآخر کاشغر پر قابض ہوگئے جب کہ تبتوں نے جنوبی تارم طاس کی شہری ریاستوں میں اپنی گرفت دوبارہ مضبوط کرلی، خاص طور سے ختن میں جسے انہوں نے ۷۹۰ء میں دوبارہ اپنے قبضے میں کرلیا۔ تبتوں نے ختن کے شاہی خاندان اور تانگ دربار کے درمیان سارے رابطے منقطع کروادیئے۔ بہرحال، تانگ ﴿لوگوں﴾ نے کوچا میں ایک چھوٹی سی چوکی برقرار رکھی اور تبتوں اور ویغوروں کے ساتھ ترفان اور بیشبالق کو لے کر ایک طویل سہہ جہتی جنگ میں مصروف رہے۔
بنوعباس کبھی بھی مغربی ترکستان کے سابقہ تانگوں کے زیر اقتدار رہنے والے علاقے میں، اپنا غلبہ پھیلانے میں کامیاب نہ ہوسکے، کیونکہ تقریباً فوراً ہی وہ سغد میں اسلامی مسلکی جھگڑوں میں الجھ کر رہ گئے تھے۔ دوسرے خلیفہ المنصور ﴿دور:۷۵۴۔۷۷۵ء﴾ نے جیسے ہی تخت نشینی اختیار کی، ابومسلم نامی ایک شیعہ باختری کو، جس نے اپنی حکومت قائم کرنے میں عباسیوں کی مدد کی تھی، موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ہر چند کہ اس کے پیش رو، ابوا، عباس نے اپنی وسیع سلطنت میں تمام غیرعرب رعایا کے ساتھ ایک غیرجانبدارانہ برتاؤ کے چلن پر قائم رہنے کی شہادت دی تھی، المنصور نے دیسی ﴿خالص﴾ عربوں اور اسلام کے سنیّ مسلک کے تئیں بنوامیّہ کی ترجیحات دوبارہ بحال کردیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سغد کے لوگ جو عباسی حکومت کے خلاف تھے، انہوں نے، پس ازمرگ، ابو مسلم کو عرب غلبے کے خلاف اپنی ایرانی ثقافت کا محافظ قرار دیا۔ اس کی موت کا انتقام لینے کے لیے، وہ لوگ ابومسلم کی شہادت کے نام پر اپنے باغیانہ مظاہروں میں ایک بھیڑ اکھٹی کرنے لگے، اور بالآخر ابومسلم کو ایک نبی تک بنا ڈالا۔
ابتدا میں ابومسلم نے علی کے گھرانے کی علامت کے طور پر اپنے پرچم کے لیے ایک سیاہ جھنڈے کا استعمال کیا تھا۔ عباسیوں نے یہ روش برقرار رکھی اور اپنے پرچم اور لباس دونوں کے لیے سیاہ رنگ کا انتخاب کیا۔ احتجاج کے طور پر ابومسلم کے باغیوں نے اپنے پرچموں اور ملبوسات کے لیے سفید رنگ اختیار کرلیا، جو مانویوں میں بھی مقدس رنگ سمجھا جاتا تھا اور اپنے لباس میں وہ اسی کا استعمال کرتے تھے۔ مانویوں کوشامی ﴿سیریائی﴾ لقب کے مطابق ٫٫سفید عباؤں والے،، کہا جانے لگا۔
مانویت کے کئی روپ تھے۔ زرتشتیت، عیسائیت یا بدھ مت، سب کا امتزاج تاکہ مختلف ثقافتوں کے لوگوں کے ساتھ ہم آہنگ ہوسکیں۔ اس کے سوفسطائی تصورات عباسی دربار کے بہت سے دانشورانہ ذہن رکھنے والے عہدیداروں کو پرکشش محسوس ہوتے تھے اور جنہوں نے آگے چل کر ایک مسلک کی حیثیت اختیار کرلی، جس نے مانویت کو شیعہ اسلام سے ملا دیا تھا۔ راسخ العقیدگی کے محافظوں کے طور پر، بنوعباس کے ﴿اعلی منصب رکھنے والے﴾ افسروں نے، بالآخر مانوی فرقے کو اپنے لیے ایک خطرے کے طور پر دیکھا۔ اسے ﴿مانویت کو﴾ بدعت قرار دیتے ہوئے۔ اس کے پیروکاروں پر وہ سغد کے ابومسلم باغیوں کی طرح، بنوعباس مخالف ہمدردیوں کے حامل ہونے کا شک کرنے لگے اور انہیں سزا کا موجب ٹھہرادیا۔ ہر چند کہ مانوی شیعہ ایک علیحدہ اسلامی فرقے کے طور پر اپنے آپ کو باقی نہیں رکھ سکے، مگر اس کے بہت سے ماننے والوں نے خود کو شیعوں کے اسماعیلی فرقے میں ضم کرلیا۔ انجام کار، یہ فرقہ بھی عباسیوں کے ذریعے سخت سزا کا مستحق سمجھا گیا۔
اگلے خلیفہ، المہدی ﴿دور:۷۷۵۔۷۸۵ء) کی حکومت کے دوران، سغد کا بیشتر حصہ سفید عباؤں والے باغیوں کے زیراقتدار چلا گیا، جن کی قیادت المقنعّ،" نقاب پوش پیغمبر "کر رہے تھے جو ابومسلم کے ایک رفیق تھے، اوغوز ترکوں نے، جو خود بھی سفید لباس پہنتے تھے، باغیوں کو فوجی مدد فراہم کی، گو کہ انہوں نے کبھی بھی اسلام قبول نہیں کیا۔ اس وقت تک سغدیائی باغی، اب ایک نئے اسلامی فرقے مسلمیہّ کی تقلید کرنے لگے تھے۔ جس کی رسموں نے بہت سی کٹّر روایتوں کو، جیسے کہ روزانہ پنچ وقتہ نمازوں کی ادائیگی کو ترک کر دیا۔ اس طرح، سغد کے باغیوں اور ان کے اوغوز اتحادیوں کو کچلنے کی عباسی مہمات، ساتھ ساتھ اسلام کی روح کی حفاظت کرنے والی مہمات بھی بن گئیں۔
۷۸۰ء میں عباسی فوجوں نے بخارا میں ایک بغاوت کو پسپا کردیا، لیکن مزید شورشوں کا سلسلہ جاری رہا۔ بنوعباس ان بغاوتوں کو کچلنے اور مسلمیہّ اور مانوی شیعہ فرقوں کے خلاف اسلام کی ورح کو برقرار رکھنے کی جدوجہد میں مصروف رہے۔ مانوی عناصر کی پیدا کردہ اور ان سے متعلق بدعات سے نپٹنے میں، ان کی فوری توجہ اور سختی کو شاید ان سابق زرتشتی کاہنوں سے زیادہ کمک ملی جو اپنا مذہب بدل کر مسلمان ہوگئے تھے اور حکومت کو یہ مشورہ دے رہے تھے کہ مذہبی معاملات میں وہ ساسانیوں کی جیسی سخت گیری کا رویہّ اختیار کرے۔
عباسیوں کے ذریعے والابھی کا انہدام
۷۸۰ء کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں سندھ کے عباسی حکمرانوں نے سوراشٹرا پر حملہ کیا اور والابھی کے مقام پر بودھی مت خانقاہوں کے لمبے چوڑے کمپلیکس ﴿عمارتوں سے بھرے ہوئے احاطے﴾ کو برباد کردیا۔ راشٹرکٹا سلسلہٴ سلاطین کے زوال کے بعد، ۷۷۵ء میں، یہ مذہبی ادارے اب سرکاری سرپرستی سے محروم تھے اور ان کا حال انتہائی کمزور اور غیرمحفوظ تھا۔ بہرحال، اس بربادی ﴿اورانہدام﴾ کو سغد کی شورشوں اور مسلمیہّ اور مانوی شیعہ تحریکوں کی پسپائی کے سیاق میں دیکھا جانا چاہیے۔
والابھی کو محض بودھی مطالعات کے ایک مرکز کی حیثیت حاصل نہیں تھی، یہ جینیوں کے شویتامبر فرقے کے مقدس ترین مقامات میں سے ایک کی حیثیت بھی رکھتا تھا۔ یہاں صرف بودھی ہی نہیں، جین مندروں کی ایک بہت بڑی تعداد بھی تھی، اور عباسی فوجی سپاہیوں نے انہیں بھی مسمار کردیا۔ اصل واقعہ یہ ہے کہ غالباً جین مندر ہی ان کا سب سے بڑا نشانہ تھے۔ ”شویتامبر” کا مطلب ہے” وہ جو سفید لباس میں ہوتے ہیں”، جیسا کہ اس روایت کے راہبوں میں ایسی رنگ کے کپڑے پہننے کا چلن ہے۔ بلاشبہ، اس جین فرقے کے اراکین کی غلط پہچان قائم کرکے، سندھی عرب قائدین نے انہیں ابومسلم مسلمیہّ باغیوں کے سفید پوش گروہ، ان کے اوغوز ترک حامیوں، اور مانوی شیعوں سے جوڑ کر، فطری طور پر اپنے لیے ایک خطرہ سمجھ لیا ہوگا اور یہ سوچا ہو گا کہ انہیں سرے سے ختم ہی کر دینا چاہیے۔ ایک بار جب وہ والابھی جاپہنچے ہوں گے تو پھر انہوں نے جین مندروں اور بودھی خانقاہوں میں کوئی تمیز نہ کی ہوگی، اس طرح سب کچھ تباہ کر ڈالا ہوگا۔
چونکہ مقبول عام تاریخیں اکثر والابھی کی بربادی کو دوسرے مذاہب کے تئیں اسلامی عدم رواداری کی مثال کے طور پر پیش کرتی ہیں، اس لیے یہاں ہم مجموعی طور پر، اب بنوعباس کی مذہبی پالیسی کا جائزہ لیتے ہیں تا کہ مورخوں کے فیصلے کی قدر وقیمت کا تعین زیادہ معروضیت کے ساتھ کیا جاسکے۔
مانویت اور دوسرے غیرمسلم مذاہب کی طرف پالیسی میں فرق
مسلمیوں، مانوی شیعوں اور سوراشٹرا میں جینیوں اور بودھوں کے خلاف، جنہیں غالباً وہ ان فرقوں کے حامیوں سے خلط ملط کرکے دیکھتے تھے، اپنی مقدس جنگ کے باوجود ابتدائی خلفائے بنوعباس نے غیرمسلم مذاہب کی طرف بنوامیہّ کی رواداری کی پالیسی کو جاری رکھا۔ انہوں نے اپنی بودھی، زرتشتی، نسطوری عیسائی اور یہودی رعایا کو نہایت وسیع دائرے میں ”ذمیّ” کی محفوظ حیثیت دینا منظور کیا۔ وہ واحد غیرمسلم فرقہ جس نے مانوی عقیدہ قبول کرلیا، اسے ان کی مملکت میں اذیت اور ایذا رسانی کے تجربے سے گزرنا پڑا تھا۔
عربوں نے غیرارادی طور پر سغد، ایرانی ساسانیوں اور تانگ چینیوں میں اپنے پیش رووں کی مانویت مخالف پالیسی کو جاری رکھا تھا، مگر مختلف اسباب کی بنا پر۔ پہلا تو یہ کہ بغیر کسی شک کے، عربوں کے ذہن میں مانویوں کی پہچان مانوی شیعوں کے طور پر قائم تھی۔ دوسرا یہ کہ اپنی توانا تبلیغی تحریک اور دنیا کی تاریکی اور گمراہی کی سطح سے ارتفاع کی دعوت کے ساتھ، عباسی دربار کے سوفسطائی مسلمانوں میں، مانویت راسخ العقیدہ اسلام کی اپیل کو چیلنج کررہی تھی۔ اسی لیے، کوئی بھی مسلمان جس کا میلان اور جھکاؤ روحانی معاملات میں مانویت کی طرف ہوتا، اس پر مانوی شیعہ ہونے کا الزام عائد کردیا جاتا، دوسرے لفظوں میں اسے بنوعباس کا مخالف باغی سمجھ لیا جاتا۔
ہندوستانی ثقافت سے عباسیوں کا گہرا شغف
نہ صرف یہ کہ شروع زمانے کے عباسیوں نے اپنی مملکت میں غیرمانوی غیرمسلموں کو محفوظ رعایا کا درجہ دینا منظور کیا، وہ غیرملکی ثقافت میں بھی گہری دلچسپی لے رہے تھے، خاص طور سے ہندوستان کی ثقافت میں۔ ہر چند کہ اسلام سے پہلے کے دنوں سے عربوں اور ہندوستانیوں کے مابین گہرے اقتصادی اور ثقافتی رابطے قائم ہوچکے تھے، اس طرح ہر گروہ کے تاجراور مہاجر دوسرے گروہ کے علاقے میں رہ رہے تھے، بنو امیہّ کی فتح اور اس کے نتیجے میں سندھ کی سرزمین پر ان کے قبضے نے اس لین دین کی رفتار اور زیادہ تیز کردی۔ مثال کے طور پر ۷۶۲ء میں خلیفہ المنصور ﴿دور:۷۵۴۔۷۷۵ء﴾ نے نئے عباسی دارالسلطنت بغداد کی تعمیر مکمل کرلی۔ نہ صرف یہ کہ ہندوستانی ماہرین تعمیر اور معماروں نے شہر کا نقشہ تیار کیا، بلکہ انہوں نے اسے سنسکرت کا ایک نام "بھاگ داد" بھی دیا۔ “بھاگ داد” جس کا مطلب ہے ”خدا کا تحفہ”۔
۷۷۱ء میں سندھ کا ایک سیاسی مشن علم نجوم پر ہندوستانی متون بغداد لے آیا، جس سے اس مضمون میں عربوں کی دلچسپی کی شروعات ہوئی۔ عباسی خلیفہ نے مذہبی مقاصد کے تحت اور زیادہ صحیح ومتعین فلکیاتی اور جغرافیائی تقویم ﴿حساب﴾ کی اہمیت محسوس کی، تاکہ مکہ کی سمت اور نئے چاند کے وقت کا درست تعین کیا جاسکے۔ اس نے اس بات کی بھی قدر کی کہ اس علاقے میں ہندوستانی تہذیب نے سائنس میں سب سے زیادہ ترقی کی تھی، صرف انہی مضامین میں نہیں، بلکہ ریاضی اور طب میں بھی۔ یہ حقیقت کہ ان علوم کو فروغ ایک غیرمسلم سیاق سے حاصل ہوا تھا، ان کے تئیں عربوں کی ذہنی کشادگی اور قبولیت میں ذرا بھی مانع نہ ہوئی۔
اگلے خلیفہ المہدی ﴿دور:۷۷۵۔۷۸۵ء﴾ جن کی فوجوں نے والابھی کو مسمار کیا، ترجمے کا ایک بیورو یا مرکز ﴿عربی:بیت الحکمۃ﴾ بنوایا جہاں تمام علاقائی ثقافتوں اور مذاہب کے علما عربی میں متون کی ترجمانی، بالخصوص سائنسی موضوعات پر، مامور تھے۔ ان کتابوں کی بہت بڑی تعداد اصلاً ہندوستانی تھی اور ان کے سندھی مترجمین تمام تر مسلمان نہیں تھے۔ ان میں ﴿مسلمانوں کے علاوہ﴾ بہت سے ہندو اور بودھی بھی تھے۔ عباسیوں کا رویہ واضح طور پر حقیقت پسندانہ تھا اور وہ علم سے شغف رکھتے تھے۔ بنیادی اعتبار سے، وہ ہندوستانی یا دوسرے غیرمانوی بدیسی مذاہب کے خلاف نہیں تھے۔ ان کے خلفا پیغمبر کی اس حدیث کے فرمان پر سنجیدگی کے ساتھ عمل پیرا دکھائی دیتے تھے کہ ”علم حاصل کرو خواہ اس کے لیے تمہیں چین جانا پڑے” ۔ ﴿اطلب العلم ولوبالصین﴾
حصول علم کی یہ کشادہ ذہن اور غیر فرقہ وارانہ پالیسی محض ایک عارضی اور وقتی شوق کا اظہار نہیں تھی بلکہ اگلے خلیفہ ہارون الرشید ﴿دور:۷۸۶۔۸۰۹ء﴾ کے عہد میں بھی جاری رہی جس نے اسے اور آگے تک وسعت دی۔ مثال کے طور پر، خلفیہ ہارون کا وزیر۔ یحییٰ بن برمک نووہارا خانقاہ کے بودھی افسر انتظامیہ ﴿سنسکرت: پر مکھ﴾ کا ایک مسلمان پوتا ﴿نبیرہ﴾ تھا۔ اس کے زیر اثر، خلیفہ نے بغداد میں مزید بہت سے علما اور اساتذہ کو، خاص طور سے بودھوں کو، مدعو کیا۔ وہاں ﴿پہنچنے والے﴾ بودھی اسکالر، بے شک، عباسی دربار کے دانشوروں میں مانوی شیعت کی طرف میلان سے اور اس سے خلیفا کے عہدے دار جس خطرے کا احساس رکھتے تھے، اس سے ﴿اچھی طرح﴾ آگاہ ہوتے گئے۔
سائنسی متون میں پہلے ہی خصوصی مہارتوں کی حصولیابی کے بعد، اب ترجمے کے مرکز ﴿بیورو﴾ میں مذہبی موضوعات پر کتابوں کی تیاری بھی شروع ہوگئی۔ مثال کے طور پر، اسی زمانے میں بدھ کے سابق جنموں کے احوال پر مبنی کتاب، جو دو سنسکرت متون سے ماخوذ تھی۔ کتاب البد، سامنے آئی، یہ متون تھے “جاتک مالا” اور اشوگھوش کی ”بدھ چرتر” ان ﴿کتابوں﴾ کے حصّے، بغداد کے ایک شاعر ابان الاحقی ﴿۷۵۰۔۸۱۵ء﴾ کے رزمیے ”کتاب بلوہروبوذاسف” میں شامل کر لیے گئے۔ اگرچہ اس کا یہ ترجمہ اب موجود نہیں ہے، مگر آگے چل کر بہت سی زبانوں میں، بہت سی اور ایسی کتابیں وجود میں آئیں۔ ان میں قدیم ترین عربی کتاب قم کے رہنے والے ابن بابویہ ﴿و:۹۹۱ء﴾ کی ہے۔ یہ کتاب اسلامی ماخذوں سے عیسائی اور یہودی لٹریچر بہرلام اور جوزافت کے قصےکی شکل میں منتقل ہوئی اور اس میں ابھی بھی بہت سی بودھی تعلیمات بچی ہوئی ہیں۔ بدھ مت کی طرف عباسیوں کی کشادہ ذہنی کی ایک اور مثال اس زمانے کے تیار کردہ مسلم اور غیرمسلم متون کے کیٹیلاگ پر مشتمل "کتاب الفہرست" ہے جس میں بودھی کتابوں کی ایک فہرست شامل ہے۔
مغربی ترکستان میں غیرمسلموں کے درمیان اسلام کا فروغ
ہارون الرشید عباسی خلفا میں عظیم ترین اور سب سے زیادہ مہذب تھے۔ ان کے زیراقتدار، عربی شاعری، ادب، فلسفہ، سائنس، طب اور تمام فنون نے خوب ترقی کی۔ خلیفہ ہارون الرشید کے دور میں اسلامی ثقافت مغربی ترکستان کے غیرعرب یا غیرمسلم اشرافیہ، زمیں داروں اور شہری باشندوں کے لیے ایک روزافزوں اپیل رکھتی تھی جن کی ذہنیت صحراؤں میں بودوباش اختیار کرنے والے خانہ بدوش جنگ جوؤں کی بہ نسبت کلّی طور پر مختلف تھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایسے لوگ ہمیشہ بڑھتی ہوئی تعداد میں، اپنا مذہب بدل کر مسلم عقیدہ اختیار کرتے گئے۔ غیرمسلم محفوظ مذاہب، جیسے کہ بدھ مت کے ماننے والے ﴿ذمیوں کی حیثیت سے﴾، بیشتر دیہی علاقوں میں غریب ترکسان طبقوں کی حیثیت سے اپنی طاقت برقرار رکھی اور یہ لوگ اپنے آبائی مذہب کی پیروی اب اور زیادہ شدت کے ساتھ کرنے لگے تھے، اس وقت کے مقابلہ میں جب سے انہوں نے دیسی اور مذہبی اقلیتوں کے طور پر رہنا شروع کیا۔ یہ بندگی ﴿عبادت کی﴾ رسوم ادا کرنے کے لیے مذہبی مقامات مقدسہ ﴿تیرتھوں﴾ میں خاص طور سے جمع ہونے لگے تھے۔
والابھی کی مسماری کا تخمینہ
اس پس منظر میں عباسیوں کے ذریعے والابھی کے مقام پر بودھی خانقاہوں کے انہدام کو ایک وسیع ترسیاق وسباق میں دیکھا جانا چاہیے۔ وقت کے اس مرحلے میں، اسلام نے سغد اور باختر کے لوگوں کو تلوار کے زور پرنہیں، بلکہ اپنی ثقافت اور علم دوستی کی بلند سطح کے باعث اس کی اپیل کے ذریعے، اپنے حلقے میں داخل کیا تھا۔ یقینی طور پر، اپنی فاضلانہ اسکالرشپ اور ثقافت کے لحاظ سے بدھ مت میں کسی طرح کی کمی نہیں تھی۔ مگر اس سے بہرہ ور ہونے کے لیے، بہرحال، کسی خانقاہ میں داخل ہونا ضروری تھا۔ ہر چند کہ اس دور میں نووہارا کی سرگرمی جاری تھی، مگر اس کی پہلی جیسی شہرت نہ تھی اور اس کی حیثیت بس تعلیم کے ایک ﴿عام﴾ مرکز کی تھی۔ اس زمانے کی عظیم ترین خانقاہی یونیورسٹیوں جیسے کہ نلندا ﴿یونیورسٹی﴾ میں بودھوں کی تعداد کثیر تھی۔ نلندا ﴿یونیورسٹی﴾ شمالی ہندوستان کے دور دراز وسطی حصے میں واقع تھی۔ لہٰذا، جیسے جیسے وسطی ایشیا میں اعلی اسلامی ثقافت اور تعلیم کا نظام زیادہ مضبوط اور سہل الحصول ہوتا گیا، اونچی سطح کے تعلیم یافتہ شہری طبقوں میں، یہ بدھ مت پر حاوی ہوتا گیا۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس کا یہ سارا طریقہ کار ﴿میکنیزم﴾ پر امن تھا۔
اس لیے، ابتدائی عباسی عہد کے عام مذہبی رجحانات اور سرکاری پالیسیوں کے پس منظر میں، والابھی کے مقام پر اس ساری انہدامی کارروائی کی حیثیت استشنائی تھی۔ اس کی دو ہی معقول تشریحیں کی جاسکتی ہیں۔ یا تو یہ کسی جنگ جو متشدد اور تنگ نظر جنرل کی من مانی کا نتیجہ تھا یا پھر عربوں کا ایسا اقدام جس کی بنیاد ایک غلط فہمی پر تھی اور انہیں، سفید لباس والے ﴿شویتامبر﴾ جینیوں پر ابومسلم کے حامیوں کا دھوکا ہوا ہوگا اور پھر وہ بودھوں کو جینیوں سے فرق نہ کرسکے ہوں گے۔ یہ ﴿واقعہ﴾ خصوصی طور پر بودھوں کے خلاف کسی جہاد کا حصہ نہیں تھا۔
عربی لفظ جہاد کے حقیقی معنٰی "جدوجہد" (اللہ کی عبادت واطاعت میں) کے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ کافروں کو طاقت کے ذریعہ صحیح عقیدے کی راہ پر لانے کے لیے ایک مقدس جنگ چھیڑ دی جائے۔ اس کے برعکس، یہ تو ایک فوجی کارروائی ہے جس کا مقصد ان ہم مذہب مسلمانوں کا دفاع کرنا ہے جو کسی حملے کی زد میں ہیں، جنہیں خالص اسلام پر چلنے سے اور اپنی ﴿مصدقہ اور مطبوع﴾ روحانی زندگی گزارنے سے کسی طرح روکا جارہا ہے۔ والابھی کے بودھی اسلام کو ﴿کسی قسم کی﴾ دھمکی نہیں دے رہے تھے، اسی لیے، انہیں ایک حق بجانب “جہاد” کا غلطی سے ہدف بنا لیا گیا۔
[دیکھیے: بدھ مت اور اسلام میں مقدس جنگیں۔]
گندھارا پرعباسی حملہ
اگرچہ ۷۵۱ء میں دریائے تالاس کے کنارے قرلوقوں اور عباسیوں نے تانگ چین کو شکست دی تھی، قرلوقوں نے سویات، فرغانہ اور کاشغر میں پھیلنے کے بعد، عربوں سے اپنا اتحاد توڑ لیا اور تبتوں اور ان کے باج گزار، کابل کے ترکی شاہیوں کے ساتھ شامل ہوگئے۔ سفید پوش اوغوز، جو ابومسلم باغیوں کی حمایت کرتے آئے تھے، وہ بھی عباسیوں کے زیر اقتدار سغد اور باختر پر اپنی حکومت قائم کرنے کے لیے انہی کے ساتھ ہولیے۔ اسی لیے، اس اتحاد نے عباسیوں کے خلاف ابومسلم وضح کی بغاوتوں، جیسے کہ ۸۰۶ء سے ۸۰۸ء تک سمرقند میں رفیع بن لیث کی قیادت میں رونما ہونے والی بغاوت کو، مزید حمایت دی۔ ان کی متحدہ افواج نے باغیوں کی مدد کے لیے سمرقند کا محاصرہ تک کر لیا۔
خلیفہ الرشید کا انتقال ۸۰۸ء میں اس وقت ہوا جب وہ بغاوت کو کچلنے کے لیے جارہے تھے۔ اس کی موت کے بعد، اس کی خواہش کے مطابق سلطنت اس کے دو بیٹوں میں تقسیم کر دی گئی۔ بہرحال، دونوں بیٹوں نے عارضی طور پر تبتوں اور ان کے اتحادیوں سے صلح کرلی تاکہ وہ اپنے باپ کی تمام تر وراثت پر مکمل قابو حاصل کرنے کے لیے ایک خانہ جنگی میں شریک ہوسکیں۔ المامون کو کامیابی ملی اور وہ اگلا خلفیہ ﴿دور:۸۱۳۔۸۳۳ء﴾ بن گیا۔ بلاشبہ تبتی۔ ترکی شاہی۔ قرلوق۔ اوغوز اتحاد کو اپنے باپ کی موت کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے اور انہیں سغد میں ابومسلم مسلمیہّ بغاوتوں سے جوڑتے ہوئے، اس نے ایک جہاد کا اعلان کیا اور جنرل الفضل بن سہل کو گندھارا میں ترکی شاہی ریاست پر ایک ہمہ گیر حملے کے حکام کے ساتھ روانہ کر دیا۔
عباسیوں نے ۸۱۵ء تک فتح حاصل کرلی اور ترکی شاہی حکمراں، جو کابل شاہ کے طور پر جانا جاتا تھا، اسے مجبور کیا گیا کہ مرو کے مقام پر وہ خود کو خلیفہ کے روبرو پیش کرے اور اپنا مذہب ترک کرکے خالص اسلام قبول کرلے۔ اپنے ملک کی اطاعت کے ایک نشان کے طور پر، اس نے بدھ کا ایک سنہرا مجسمّہ مکہ بھیج دیا۔ جہاں دو برس تک اسے کعبہ کے مال خانے میں رکھا گیا۔ عوام میں اس کی نمائش کے ساتھ یہ اعلان بھی کیا گیا کہ اللہ نے تبت کے راجہ کو اسلام کا راستہ دکھایا ہے۔ عربوں کو تبت کے راجہ پر اس کے حلقہ بگوش تعلق دار کابل کے ترکی شاہ کا دھوکا ہو رہا تھا۔ ۸۱۷ء میں عربوں نے کعبے میں بدھ کے مجسمے کو پگھلا دیا اور اسے سونے کے سکوں میں ڈھال لیا۔
ترکی شاہیوں کے خلاف اپنی کامیابی کے بعد عباسیوں نے تبتوں کے زیر اقتدار علاقے گلگت پر حملہ کر دیا اور بہت کم وقت کے اندر اسے بھی اپنی سلطنت میں شامل کرلیا۔ انہوں نے ایک تبتی کمانڈر کو حراست میں لے لیا اور اسے اہانت آمیز طریقے سے واپس بغداد بھیج دیا۔ اگرچہ تبتوں کے خلاف، اور قرلوقوں سے فرغانہ کو فتح کرنے میں انہیں کامیابی ملی تھی، مگر عرب جرنیلوں نے اپنی کامرانیوں کے سلسلے کو مشرق یا شمال کی طرف مزید آگے نہیں بڑھایا۔ ایسا اس وجہ سے تھا کہ مغربی ترکستان اور مشرقی ایران پرعباسیوں کی گرفت بڑی تیزی کے ساتھ ڈھیلی اور کمزور پڑتی جارہی تھی، کیونکہ مقامی فوجی قائدین نے ان علاقوں کے گورنروں کی حیثیت سے انہیں اپنے زیراقتدار لانا اور خود مختار اسلامی ریاستوں کی حیثیت سے ان پر حکومت کرنا شروع کردیا تھا۔
اپنی خود مختاری کا اعلان کرنے والا پہلا علاقہ باختر تھا، جہاں جنرل طاہر نے طاہری شاہی سلسلے ﴿۸۱۹۔۸۷۳ء﴾ کی داغ بیل ڈالی۔ عباسیوں نے جیسے ہی کابل اور گلگت سے اپنے آپ کو پیچھے ہٹایا، اور اپنی توجہ زیادہ اہم معاملات کی طرف مبذول کی، تبتوں اور ترکی شاہیوں نے اپنی سابقہ مقبوضات کو پھر سے حاصل کر لیا۔ ان علاقوں کے قائدین کی جبریہ تبدیلئ مذہب کے باوجود، عباسیوں نے وہاں بدھ مت پر کوئی زیادتی نہیں کی تھی۔ واقعہ یہ ہے کہ اس پورے عرصے میں، عربوں نے تبتوں کے ساتھ تجارت برقرار رکھی تھی، اور خاص طور سے مشک درآمد کرتے رہے تھے۔ مسلمانوں اور بودھوں نے ایک دوسرے کے ساتھ ثقافتی رابطے تک قائم کرلیے تھے۔ مثال کے طور پر، فضل اللہ نے، اسی زمانے میں فارسی کی کلاسیکی کتابوں کا شیخ سعدی کی گلستاں اور بوستاں کا تبتی زبان میں ترجمہ کیا۔
عباسیوں کی مہم اور فتح کا تجزیہ
خلیفہ المامون نے تبیتی۔ ترکی شاہی۔ قرلوق۔ اوغوزکے اتحاد کے خلاف اپنی مہم کو ایک مقدس جنگ، جہاد قرار دے دیا تھا۔ وہ اپنی اسلامی رعایا کا متشدد بدعتوں سے دفاع کررہا تھا جو اپنی دہشت اور بغاوت کی مہمات سے ان کے خالص عقیدے کی بجا آوری میں رکاوٹیں پیدا کر رہے تھے۔ اسی وجہ سے، جب وہ جیت گیا، تو نہ صرف کابل شاہ کو اپنا مذہب بدل کراسلام قبول کرنے پر اصرار کیا بلکہ بدھ کا وہ مجسمہ جس کی نمائش کعبے میں اسلام کی فتح کے ایک ثبوت کے طور پر کی جانی تھی، اسے واپس بھیج دیا۔
بلاشبہ جس چیز نے عبایسوں کو والابھی کی مسماری پر آمادہ کیا تھا، اسے یاد کرتے ہوئے، اپنے مفتوح دشمنوں کی پہچان مسلمیہّ اور مانوی شیعہ فرقے کے اراکین کے طور پر کرنے میں اس سے شاید سہو ہوا۔ ان کے خلاف اس کا جہاد اس کے والد کی گزشتہ گھریلو مہمات کی محض ایک توسیع رہا ہوتا۔ لیکن ہر چند کہ اس بدیسی اتحاد کے اراکین نے ابومسلم باغیوں کی حمایت کی، انہوں نے کسی بھی طرح ان کے یا مانوی شیعہ عقیدے کی پیروی نہیں کی۔ اگر انہوں نے ایسا کیا ہوتا تو اس پورے عرصے میں اس بات کے کوئی معنی نہ رہ جاتے کہ تبتی اور قرلوق لوگ ویغوروں سے بھی دست وگریباں رہے جو سغدیائی مانوی دنیا کےعلم بردار تھے۔
تبتی لوگ بلاشک و شبہ سغدیائی بغاوتوں کے اسلامی مذہبی مضمرات سے بے خبر تھے۔ مزید برآں، ساٹھ برس پہلے کی ایسی ہی تانگ چینی کوشش کی طرح، سغد میں عباسی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی تبتی کوشش کا مقصد لوگوں کا مذہب تبدیل کروا کے انہیں بدھ مت کے حلقے میں لے آنے کے کسی پروگرام کا حصہ نہیں تھا۔ یہ خالصتاً طاقت، علاقے اور شاہراہ ریشم کی تجارت کے حصول کا ایک سیاسی اور اقتصادی منصوبہ تھا۔ اس وقت تبتی مذہبی قائدین پہلے سے اپنی سرحدوں کے اندر بدھ مت کو مستحکم کرنے اور اسے اندرونی ﴿رشوت خوری﴾ کرپشن اور غیرمذہبی (سیکولر) کنٹرول، دونوں سے آزاد رکھنے میں الجھے ہوئے تھے۔ یہ لیڈر ان اگرچہ حکومت میں شریک تھے، مگر ان کے اثرات کا سلسلہ فوجی معاملات تک نہیں جاتا تھا۔ اندورنی امور میں ان کا سروکار پوری طرح تبت میں بدھ مت کے مستقبل کے بلمقابل ”پال ہندوستان” اور “تانگ چین” کے ساتھ ثقافتی رشتوں پر مرکوز تھا۔
ادھر، بنوعباس بھی، بلاشبہ ترکی شاہیوں اور تبتوں کے مذہبی عقائد سے ﴿بالکل﴾ ناواقف تھے۔ وہ توبس یہ دیکھ رہے تھے کہ غیرملکی طاقتیں مذہبی اعتبار سے متشدد اور تانگ نظریہ باغیوں کے ایک فرقے کو اپنی حمایت دے رہی ہیں جو نہ صرف یہ کہ ان کی رعایا کے اسلامی شعائر کی پابندی میں مداخلت کر رہی ہیں، بلکہ شاید اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ وہ انہیں سیاسی اقتدار سے بے دخل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ جہاد کا رخ، دراصل ترکی شاہی اور تبتوں کی سیاست کی طرف تھا، ان کے بدھ مت مذہب کی طرف نہیں۔
المامون کسی بھی لحاظ سے ایک تنگ ذہن والا مذہبی جنونی نہیں تھا۔ اپنے والد، ہارون الرشید کی طرح، ثقافتی اعتبار سے کشادہ ذہن تھا اور ہندوستانی متون کے ترجموں کی سرپرستی کرتا آرہا تھا۔ اس کی مملکت نے عباسیوں کے سائنسی عہد میں، نہ صرف یہ کہ نئی بلندیوں تک رسائی حاصل کی، بلکہ عربوں اور ان کے مسلم رعیت کے درمیان ہندوستان کی بابت مثبت اطلاعات کو اپنے اندر جذب کرنے کے روز افزوں عمل میں بھی اضافہ ہوا۔ مثلاً، ۸۱۵ء میں، اسی سال جب خلیفہ کے ہاتھوں کابل شاہ کو شکست ہوئی، الجاحظ ﴿پ:۷۷۶ء﴾ نے بغداد کے “فکیر” میں ”السویدان علیٰ ابیضان ”یعنی کہ“ سفید فاموں پر سیاہ فاموں کی برتری ”کی اشاعت کی جس میں ہندوستان کی عظیم ثقافتی کامرانیوں کی تعریف ہے۔ چنانچہ، اس وقت عباسیوں میں ہندوستان کی بابت مثبت خیالات پائے جاتے تھے، اور بلا شبہ، یہ خیالات تمام مذاہب بشمول بدھ مت، ہندوستانیوں کا احاطہ کرتے تھے۔
اگر المامون کا جہاد خود بدھ مت کے خلاف رہا ہوتا تو اس نے صرف تبتی۔ ترکی شاہی۔ قرلوق۔ اوغوز اتحاد پر نشانہ نہ سادھا ہوتا، بلکہ برصغیر ہندوستان پر ہوتا جہاں بدھ مت کہیں زیادہ نمایاں تھا اور بہتر حالت میں تھا۔ بہرحال، کابل میں فتح یابی کے بعد، خلیفہ کی فوجوں نے گلگت اور فرغانہ پر حملہ کیا، اڈیانہ پر نہیں۔
اب ہم گندھارا اور گلگت میں المامون کی کامرانیوں کے عین قبل، تبت کی صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں تا کہ مجموعی صورت حال کو اور زیادہ ہمہ گیر طریقے سے سمجھا جاسکے۔ اس سے ہمیں یہ سمجھنے میں بھی مدد ملے گی کہ کابل شاہ اور تبتی فوج کمانڈر کی اطاعت شعاری نے آخر کیوں، تبت یا اس کی تابعدار ریاستوں تک اسلام کی اشاعت پر مشکل ہی سے کوئی اثر ڈالا۔