تنگوتوں کے درمیان سیاسی اورمذہبی آب وہوا
منگولیا، منچوریا اور شمالی ہان چین میں، ۹۴۷ء میں خیتان لیاؤخاندان ﴿شاہی﴾ کے قیام، اور ۹۶۰ء میں ہان چین کے باقی ماندہ حصوں کے ازسرنو شمالی سونگ اتحاد کے ساتھ تنگوت باشندے شمال اور جنوب دونوں اطراف سے دباؤ میں آگئے۔ جنوبی گانسو، ننگزیا ﴿ننگ۔ ہسیا﴾، اور مغربی شانشی ﴿شان۔ ہسی﴾ میں، وہ وسطی ایشیا سے چانگ آن کو جانے والے سیدھے راستے جہاں شاہراہ ریشم کی آخری مشرقی منزل آتی ہے اور جس پر شمالی سونگ کا قبضہ تھا، اس سے ملحق ایک ایسے علاقے میں بسے ہوئے تھے جو فوجی اعتبار سے خاص اہمیت رکھتا تھا۔ ہر چند کہ مغرب کی طرف سے تجارت کے سلسلے میں گانسو کوریڈور سے تسونگکھا کے راستے گزرتے وقت، وہ تنگوتوں سے صرف نظر بھی کرسکتے تھے، مگر ان کی مملوکہ زمینوں پرسب سے سیدھی سڑکیں واقع تھیں، اور بہت سی طاقتیں ان سے اس علاقے کو چھیننے کی شدید خواہش رکھتیں تھیں۔ خیتانوں اور شمالی سونگ باشندوں سے طویل نبرد آزمائیوں کے بعد، تنگوت حکمراں جی قیان ﴿چی۔ چی آن﴾ ﴿دور: ۹۸۲۔۱۰۰۴ء﴾ نے خود کو ایک آزاد تنگوت شاہی سلسلے (۹۸۲۔۱۰۰۴ء) کا پہلا بادشاہ مشہور کردیا جسے چینی زبان میں شی شیا ﴿ہسی۔ ہسیا﴾ اور تبتی میں من یاگ ﴿می۔ نیاگ﴾ کے طور پر جانا جاتا ہے۔
اگلے پچاس برسوں تک، تنگوت باشندے جو شاہراہ ریشم پر اپنے اقتدار میں اضافے کی غرض سے اپنی سلطنت کو مغربی سمت میں مزید پھیلانا چاہتے تھے، اپنے سب سے نزدیکی ہمسایوں، زرد اویغوروں اور تسونگکھا کے تبتوں کے اتحاد کے خلاف لگاتار جنگوں میں مصروف رہے۔ شمالی سونگ دربار کے دوستانہ مراسم دونوں سے تھے، اس کوشش کے ساتھ کہ دونوں خیتانوں کے دائرہ اثر سے باہر نکل آئیں اور خود ان سے قریب ہوجائیں۔ اس کے نتیجے میں، تنگوتوں نے ہان چینیوں اور شمال میں ہمیشہ دھمکاتے رہنے والے خیتانوں، دونوں سے مخاصمانہ تعلق برقرار رکھا۔
بدھ مت پہلے پہل ساتویں صدی میں تانگ چین سے تنگوتوں تک پہنچا تھا۔ جس وقت تین تبتی بھکشو جو تبت میں بادشاہ لنگ درما کی ستم رانیوں سے بچنے کے لیے ﴿دور حکومت: ۸۳۶۔۸۴۲ء﴾، وہاں سے فرار ہوکر تسونگکھا پہنچے تھے، انہوں نے ایک مقامی بودھی کو، جسے انہوں نے گیوا سانگ ﴿ڈگے۔با۔ گسانگ﴾ کا روحانی نام دیا تھا، مذہبی ہدایت سے بہرہ ورکیا۔ آگے کی تعلیمات کے لیے اس نے اب تنگوت کے علاقے کا رخ کیا، یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ تنگوتوں میں، کم از کم ان کے اشرافیہ حلقوں میں، بدھ مت خاصی دور تک پھیل چکا تھا۔
تنگوتوں کا روایتی مذہب، شمن پرستی میں رائج اجداد کی عبادت والی ایک غیر کنفیوشیائی شکل اور تینگریت جس کی پیروی منگولیائی صحراؤں سے متعلق بیشتر وسطی ایشیائی کررہے تھے، ان دونوں کا مرکب تھی۔ ترکوں کی طرح، تنگوتوں میں بھی مقدس پربتوں کو اپنے حکمرانوں کا پایہٴتخت سمجھنے والا ایک فرقہ موجود تھا۔ ہر چند کہ تنگوت بادشاہ جی قیان نے تخت شاہی پر بیٹھنے کے بعد اپنے اجداد کا ایک مندر تعمیر کرکے اپنی دیسی روایت کا اعزاز کیا جسے زبردست جوشیلی حمایت ملی، مگر وہ بدھ مت کا احترام بھی کرتا تھا۔ مثال کے طور پر اس نے اپنے فرزند اور آئندہ حکمراں دیمنگ ﴿تی۔ منگ﴾ ﴿دور:۱۰۰۴۔۱۰۳۱ء﴾ کو بچپن میں بودھی متون پڑھائے۔
تبتی علاقوں کی صورت حال
اسی اثنا میں وسطی تبت اس خانہ جنگی سے دھیرے دھیرے بحال ہو رہا تھا جو لنگ درما کے قتل کے ساتھ ۸۴۲ء میں شروع ہوگئی تھی۔ آخری بادشاہ کے گود لیے ہوئے بیٹے اور اس کے ورثا کی متعدد کمزور حکومتوں کے بعد، ۹۲۹ء میں تبت دو مملکتوں میں تقسیم ہوگیا۔ وسطی تبت میں ایک مملکت تو خاصی کمزور سیاسی سطح پر چلتی رہی، دوسری نگاری ﴿منگا۔ ریس﴾ شاہی سلسلے کی مملکت نے زہانگ زہونگ کے وطن مغرب میں خود کو قائم کیا تھا۔ بالآخر دونوں ﴿مملکتوں﴾ کو تسونگکھا میں بھکشوؤں کی قائم کردہ بودھی خانقاہی روایت سے دلچسپی پیدا ہوگئی۔
لنگ درما کی ہلاکت سے کچھ اثر لیے بغیر تسونگکھا میں بدھ مت فروغ پذیر رہا تھا، ۹۳۰ء میں، اس علاقے سے تبتوں نے ویغور میں ان کی زبان سے بودھی متون کا ترجمہ کرنے میں مدد شروع کی۔ یہ واقعہ خیتانوں کے ویغور رسم الخط کو اپنے دوسرے نظام تحریر کے طور پر اپنائے جانے کے پانچ برس بعد کا ہے، اور اس طرح وہ دور آیا جب خیتانوں پر ویغور ثقافتی اثر اپنے عروج کو پہنچا۔ یہ بات صاف نہیں ہے کہ کیا ویغوروں کے ساتھ تسونگکھا کا مذہبی تعاون صرف شمال کی جانب ان کے قریب ترین ہمسایوں زرد اویغوروں تک محدود تھا یا آگے مغرب کی سمت قوچو ویغوروں کے لیے بھی تھا۔ دونوں ترکیائی ﴿ترکی بولنے والے﴾ گروہوں میں ایک ہی زبان اور ثقافت مشترک تھی۔
تبتوں اور ویغوروں کے مابین مذہبی رابطہ اور ترجمے کا کام دسویں صدی عیسوی کے نصف دوم میں اور آگے بڑھا، خاص طور پر اس دور میں جب تنگوتوں کے خلاف جنگ میں تبتی اور زرد اویغور ایک دوسرے کے اتحادی تھے۔ ہان چینی زائر وانگ یاندے ﴿وانگ یین۔ تے﴾ نے ۹۸۲ء میں زرد اویغوروں کی سلطنت کا دورہ کیا اور وہاں پچاس سے زیادہ خانقاہیں ہونے کا تذکرہ کیا ہے۔
مغربی تبت میں بدھ مت کو دوبارہ طاقت بخشنے کے لیے راجہ یے شے وو کی کوششیں
رہبانیت کے منصب پر مامور کیے جانے کے بودھی خانقاہی سلسلے کی تجدید، وسطی تبت میں دسویں صدی عیسوی کے وسط میں وسطی تبت کے تین بھکشوؤں سے ہوئی جو تسونگکھا کے کام آئے تھے۔ اس کے بعد مغربی تبت کے نگاری راجاؤں نے بدھ مت کو اس کے گزشتہ مرتبے تک اور آگے لے جانے کی زبردست کوششیں کیں۔ ۹۷۱ء میں راجہ یے شے وو ﴿یے۔ شیس اود﴾ نے رنچن زانگ پو ﴿ان چین بزانگ۔ پو۹۵۸۔۱۰۵۵ء﴾ اور اکیس نوجوانوں کو مذہبی اور لسانی ہدایات دینے کی غرض سے کشمیر بھیجا۔ انہوں نے شمالی ہندوستان کے وسطی حصے میں وکرم شلا خانقاہی یونیورسٹی کا دورہ بھی کیا۔
اس وقت کشمیر اتپل شاہی سلسلے (۸۵۱۔۱۰۰۳ء) کے آخری مراحل میں تھا جو کارکوٹا حکومت کے بعد اقتدار میں آیا تھا۔ اتپل دور نے کشمیرمیں بہت خانہ جنگی اور تشدد دیکھا تھا۔ بدھ مت کے بعض پہلو ہندومت کی شیوائی شکل میں گھل مل گئے تھے۔ بہر حال، دسویں صدی کی شروعات کے ساتھ کشمیری بدھ مت نے شمالی ہندوستان کی خانقاہی یونیورسٹیوں سے، بودھی منطق کے احیا کے ساتھ ایک نئی طاقت متحرک پائی تھی۔ راجہ کشیم گپت ﴿دور:۹۵۰۔۹۵۸ء) کے دور حکومت میں اسے ایک مختصر صدمہ بھی اس وقت پہنچا تھا جب اس پرجوش ہندو حکمران نے بہت سی خانقاہیں مسمار کردی تھیں۔ بہر حال، رنچن زانگ پو کے دورے کے وقت دھیرے دھیرے خود کو دوبارہ قائم کررہا تھا۔
ہر چند کہ حال میں بدھ مت نے اپنے نقطہٴعروج تک وہ رسائی حاصل کرلی تھی جو صدیوں تک، مغربی تبت سے ہی منسوب کی جاتی رہی تھی، مگر ختن اور قاراخانیوں کے مابین مسلح کشمکش کاشغر میں، رنچن زانگ پو کی رخصت والے سال میں شروع ہوگئی تھی۔ بودھی مطالعے کے لیے ختن اب محفوظ مقام نہیں تھا۔ علاوہ ازیں، تبتوں کو برصغیر ہندوستان میں پائے جانے والے ماخذ سے سنسکرت سیکھنے اور پھر اپنی اصل زبان میں اسے خود ترجمہ کرنے کی خواہش تھی۔ سنسکرت بودھی متون کے ختنی تراجم اکثر بس توضیح بن کررہ جاتے تھے جب کہ تبتی لوگ جو بودھی فلسفے کی بابت الجھنوں کا شکار تھے، کسی عبارت میں اور زیادہ درستگی چاہتے تھے۔ اس طرح، کشمیر میں بدھ مت کی خستہ حالی کے باوجود، یہی واحد نسبتاً محفوظ اور قریبی جگہ تھی جہاں سے تبتوں کو قابل اعتماد ہدایات موصول ہوسکتی تھیں۔
صرف رنچن زانگ پو اور لگپے شیراب ﴿لیگس پائی شیس راب﴾ کشمیر اور شمالی ہندوستان کے گنگائی میدانوں کے سفر اور تربیت کے متحمل ہوسکے۔ تبت سے ۹۸۸ء میں اپنی واپسی کے بعد یے شے وو پہلے ہی کشمیری اور ہندوستان کے ان بھکشو علما کے ساتھ بودھی تراجم کے کئی مراکز قائم کرچکا تھا جنہیں رنچن زانگ پو نے بہت سے متون کے ساتھ تبت بھیجا تھا۔ وکرم شلا سے مدعو کیے جانے والے بھکشوؤں نے خانقاہی اسناد تفویض کیے جانے کی ایک دوسری صف کا آغاز کیا۔
دسویں صدی کے آخری برسوں میں رنچن زانگ پو نے مغربی تبت میں، متعدد خانقاہیں تعمیر کروائیں، جو اس وقت لداخ اور آج کے ہمالیہ سے آگے کے ہندوستان میں سپیتی کے حصوں کا بھی احاطہ کرتا تھا۔ وہ دو مرتبہ کشمیر بھی گیا، زیادہ اس مقصد کے تحت کہ ان خانقاہوں کو آراستہ کرنے کے لیے فنکاروں کو مدعو کرے تاکہ عام تبتی کا جذبہٴعبودیت اس کی طرف مائل ہوسکے۔ یہ سب کشمیر میں شاہی ﴿خاندان کے﴾ سلسلے کی تبدیلی کے باوجود، پہلے لوہارا شاہی سلسلے (۱۰۰۳۔۱۱۰۱ء) کی بنیاد پڑنے کے ساتھ ہوا۔ شاہی سلسلوں کی یہ تبدیلی پر امن رہی اور اس نے کشمیری بدھ مت کی صورت حال کو ذرا بھی درہم برہم نہیں کیا۔
ختن کا قاراخانی محاصرہ، رنچن زانگ پو کی واپسی کے چھ برس پہلے، ۹۸۲ء میں شروع ہوچکا تھا۔ اس کی آمد پر بہت سے بودھی پہلے ہی پناہ گزینوں کے طور پر مغربی تبت کی طرف گروہ درگروہ بھاگ رہے تھے جس نے بلاشبہ، وہاں بدھ مت کے احیا میں بھی مدد دی۔ وہ لوگ غالباً کاشغر اور ان علاقوں کے رہنے والے تھے جو قاراخانیوں کے رسد پہنچانے والے راستے کے ساتھ ساتھ، اس جگہ اور ختن کے بیچ میں واقع تھے، گو کہ بھاگنےوالوں میں سے بیشتر، تبت جاتے ہوئے لداخ سے گزرے ہوں گے، مگر انہوں نے مغرب کی طرف مڑنے اور پاس کے کشمیر میں آباد ہونے کی کوئی کوشش نہیں کی جب کہ ان کا یہ سفر نسبتاً کم مشکل اور مختصر ہوتا۔ ایسا شاید اس لیے ہوا ہوگا کہ نگاری مملکت سیاسی اور مذہبی لحاظ سے، یے شے وو کی مستحکم حکومت اور سرپرستی کے پیش نظر، زیادہ پائیدار تھی۔ ایک اور عنصر اس علاقے اور تبت کے مابین طویل ثقافتی بندھن کا بھی رہا ہوگا۔ ۸۲۱ء میں ختن کے بھکشوؤں نے بھی ایذا رسانی سے بچنے کے لیے مغربی تبت کی جانب فرار کی راہ اختیار کی۔
ختن کو تبتی فوجی مدد
مغربی تبت کی نگاری مملکت ابھی بس کچھ ہی برس پرانی ہوئی تھی جب کاشغر کے قاراخانیوں نے ۹۳۰ء کے بعد کی دہائی میں بدھ مت کو چھوڑ کر اسلام قبول کرلیا۔ جانشینی کے ایک مسئلے پر ۹۲۹ء میں وسطی تبت سے ٹوٹ کر ایک سیاسی اکائی کے طور پر ابھرنے کے بعد شروع میں نگاری کی مملکت فوجی اعتبار سے کمزور تھی۔ مذہبی اختلافات کی وجہ سے یہ قاراخانیوں کے ساتھ دشمنی کا خطرہ مول لینے کی اہل نہیں تھی۔ اپنی بقا کی خاطر، اسے اپنے پڑوسیوں سے دوستانہ تعلقات بنائے رکھنے تھے۔
تبت کی بودھی تاریخوں کے مطابق، نگاری کا راجہ یے شے وو حصار میں گھرے ہوئے ختن کی مدد کے لیے گیارہویں صدی کے شروع میں آگے بڑھا۔ اس کا یہ اقدام، بلاشبہ، جس قدر قاراخانیوں کے مزید سیاسی پھیلاؤ کے ڈر سے تھا، اتنا ہی بدھ مت کے دفاع کی خاطر اس کے سروکار کی وجہ سے۔ اگرچہ تبتی اور قرلوق / قاراخانی صدیوں ایک دوسرے کے اتحادی رہے تھے، انہوں نے کبھی ایک دوسرے کی علاقائی سالمیت کے لیے کسی خطرے کی دھمکی نہیں دی تھی۔ مزید برآں، تبت نے ختن کو ہمیشہ اپنے جائز دائرہٴ اثر کے اندر تصور کیا تھا۔ اسی لیے، ایک بار بھی قاراخانیوں نے اس دائرے سے باہر قدم رکھا تو دونوں کے باہمی تعلقات میں تبدیلی آگئی۔
روایتی بودھی تاریخوں کے مطابق قاراخانیوں ﴿تبتی: گرلوگ، ترکی: قرلوق﴾ نے راجہ یے شے وو کو یرغمال بنا لیا تھا، مگراس کی رعایا کو یہ اجازت نہیں دی کہ وہ بدلے کی رقم ادا کریں۔ اس نے انہیں مشورہ دیا کہ اسے ﴿راجہ کو﴾ قید خانے میں مرنے کے لیے چھوڑ دیں، بجائے اس کے کہ ان رقوم کا استعمال شمالی ہندوستان سے مزید بودھی معلمین، بالخصوص وکرم شلا سے اتیشا کو بلانے کے لیے کریں۔ گیارہویں صدی کے آغاز میں بہت سے کشمیری اساتذہ مغربی تبت کا دورہ کررہے تھے اور ان میں سے متعدد وہاں بودھی آداب میں خرابیاں پیدا کررہے تھے۔ چونکہ تبت میں لنگ درما کے وقت سے مطالعے کے خانقاہی مراکز کی بربادی کے باعث، بدھ مت کے پہلے سے پست سطح کی تفہیم میں مزید پستی پیدا ہو رہی تھی، یے شے وونے اس الجھن اور پریشان خیالی کو دور کرنے کی خواہش کی۔
یے شے وو کی قربانی کے اس پاکیزہ تذکرے میں بہت سے تاریخی تناقضات ہیں۔ ختن کا محاصرہ ۱۰۰۶ء میں ختم ہوگیا، جب یے شے وو نے اپنے دربار سے ۱۰۲۷ء میں ایک آخری فرمان جاری کیا کہ بودھی متون کے ترجمے کو باضابطہ شکل دی جائے۔ اس طرح، وہ جنگ کے دوران قید خانے کے اندر نہیں مرا۔ رنچن زانگ پو کی سوانح کے مطابق، راجہ کی موت اس کے اپنے دارالسلطنت میں بیماری کی وجہ سے ہوئی۔
اس کے باوجود، یہ غیرموثق ﴿اور غیر معتبر﴾ تذکرہ بالواسطہ طور پر اشارہ کرتا ہے کہ مغربی تبت کے لوگ اس وقت ایک مضبوط فوجی طاقت کی حیثیت نہیں رکھتے تھے۔ ختن کے محاصرے کو ختم کرنے کے معاملے میں وہ موثر نہیں تھے اور شاہراہ ریشم کی جنوبی تارم شاخ کے ساتھ ساتھ آئندہ کسی بھی قاراخانی پھیلاؤ کے لیے وہ کبھی ایک سنگین خطرہ نہیں بن سکتے تھے۔ وہاں رہنے والے تبتی خانہ بدوشوں کو بچانے کے اہل وہ نہیں ہوسکیں گے۔
قاراخانیوں کی ممکنہ فوجی حکمت عملی
شاہراہ ریشم کی شمالی شاخ قوچو ویغوروں کے قبضے میں تھی۔ اگرچہ یہ حریف ترکیائی باشندے خاص طور پر جنگجویانہ مزاج کے مالک نہیں تھے، وہ خیتانوں کے باج گزار تھے جنہیں اس وقت ایک اچھی خاصی فوجی طاقت کی حیثیت حاصل تھی۔ اگر قریب ہی واقع کوچا میں، مثال کے طور پر، قاراخانیوں نے قوچو مملکت پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا ہوتا تو بلاشبہ، خیتانوں کو اس جنگ میں کھنچ لیا جاتا۔ دوسری طرف، ختن جو اسی طرح، جنگجویانہ روایت سےعاری تھا، کہیں زیادہ کمزور اور غیرمحفوظ تھا۔ اگرچہ وہ متعدد ہان چینی درباروں میں لوگوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کے طور پر، اپنے وفود بھیجتا رہا تھا، پھر بھی، بنیادی اعتبار سے، وہ الگ تھلگ ہی پڑا ہوا تھا۔ نگاری میں یہ ایک موثر دفاع کے ساتھ اس کی مدد کرنے کی صلاحیت نہ ہونے کے برابر تھی۔
شاہراہ ریشم کی جنوبی شاخ تقریباً ڈیڑھ صدی تک بے کار پڑی رہنے کے بعد، ختن والوں کے ذریعے ۹۳۸ء میں دوبارہ کھول دی گئی تھی اور اس راستے سے ہان چین کے ساتھ ایک بار پھر سبزیشم کی تجارت کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ بہر حال بیشتر یہ ویران ہی پڑی رہتی تھی سوائے کچھ تبتی خانہ بدوشوں کے لیے، اور اس کا دفاع بھی بہت معمولی تھا۔ شمالی راستے کو فتح کرنے کے لیے جنگوں کا ایک پورا سلسلہ درکار تھا تاکہ کوچا سے ترفان تک، قوچو ویغور نخلستانوں کو ایک ایک کرکے زیراقتدار لایا جائے، جب کہ جنوبی راستہ وہ بھی ختن کے لیے، صرف ایک حملے میں کامیابی کی وساطت سے جیتا جاسکتا تھا۔
قاراخانی ﴿لوگ﴾ اگر ختن کو فتح کرکے اپنی سلطنت میں شامل کرسکتے، جو کاشغر کے راستے سے ختن کے مغرب تک پھیلی ہوئی تھی اور اس سے آگے بھی سغد کے خاص شہروں تک، تو وہ لوگ خود کار طریقے سے وسطی ایشیائی شاہراہ ریشم کی تمام تر جنوبی شاخ کو، اتنے فاصلے تک جہاں دُن ہوانگ ﴿دون ہوانگ﴾ واقع ہے، اور جہاں یہ شمالی شاخ سے جا ملتی ہے، یہ سارا علاقہ اپنے زیر اقتدار لاسکتے تھے۔ اس کے بعد وہ ایک متبادل تجارتی راستے پر بھی اپنی گرفت قائم کرلیتے جو قوچو حکومت کے تحت شمالی تارم سے گزرتا تھا اور معاشی اعتبار سے نیز وقار میں اضافے کا ذریعہ بننے کے اعتبار سے، دونوں طرح نہایت منافع بخش تھا۔ انہیں قوچو سلطنت پر اپنی برتری کے حصول کے لیے کسی فوجی مہم کا آغاز کرنے کی ضرورت نہیں تھی، بلکہ شاہراہ ریشم کے راستے تجارت سے منقطع کرکے وہ انہیں اقتصادی لحاظ سے ناکارہ بنا سکتے تھے۔ ﴿شاہراہ ریشم کے اس﴾ راستے کو اپنے زیر اقتدار لانے کے لیے فوجی حکمت عملی کی تشکیل میں ایک اہم عنصر یہ تھا کہ قاراخانیوں کے اس اقدام پر مشرق کی ریاستیں کس قسم کا ردعمل ظاہر کریں گی۔
تنگوت سلسلہ
۸۹۰ء کی دہائی میں جب انہوں نے گوئی یی جون کی آزاد ریاست کو فتح کیا، زرد اویغوروں نے دُن ہوانگ ﴿دون ہوانگ﴾ جنوبی تارم راستے کے مشرقی نقطہٴ اختتام پر حکومت کی تھی جہاں یہ ﴿راستہ﴾ شمالی شاخ سے مل جاتا تھا۔ ۹۳۰ء کے بعد کی دہائی سے خیتانوں کی فرماروائی کے تحت، زرد اویغوروں کی مملکت وہاں سے جنوب کی سمت پھیل گئی اور گانسو کوریڈور کا احاطہ کرلیا جس سے ہوکر شاہراہ ریشم آگے کو جاتی تھی۔ اس کے بعد یہ راستہ ہان چین میں داخلے سے پہلے تنگوتوں کے مقبوضہ جنوبی گانسو سے گزرتا تھا، یا جنوب کی سمت مڑکر کوکونور کے علاقے کو چلا جاتا تھا جو عرب۔ تبتی تجارت کا اختتامی مقام یا اس کی آخری منزل بھی اور جس پر اس وقت تسونگکھا کے تبتی رجواڑے کی حکومت تھی۔
چونکہ اس وقت شمالی سونگ کی طرف تنگوتوں کا رویہ نہایت جارحانہ تھا، انہوں نے اپنے علاقے سے ہوکر ہان چین کے ساتھ کی جانے والی ساری تجارت پر پابندی لگادی، اور تمام تجارتی مال ﴿اشیاء﴾ کے سب سے بڑے وصول کنندہ خود ہی بن گئے۔ اس کے بعد، چانگ آن کو جانے والا تجارتی راستہ اس طرح موڑ دیا گیا کہ زرد اویغور علاقے سے جنوب میں تسونگکھا کو اور پھر وہاں سے ہان چین کو جاتے وقت، تنگوتوں سے صرف نظر کیا جاسکے یعنی کہ ان سے بچ کر نکلا جائے۔ اس طرح، ۹۸۲ء میں اپنی سلطنت کے قیام کے ساتھ، تنگوت بادشاہ، جی قیان نے فوراً ایک توسیعی جنگ، زرد اویغور اور تسونگکھا علاقوں کی بازیابی اور مغرب میں وسطی ایشیائی زمینوں کی جانب شمالی سونگ کی تمام رسائی کو منقطع کرنے کی غرض سے چھیڑ دی۔
اس مسلمہ ﴿کلاسیک﴾ حکمت عملی کو اختیار کرتے ہوئے کہ ”میرے دشمن کا دشمن میرا دوست ہے" قاراخانیوں نے فوراً تنگوتوں کے ساتھ دوستانہ مراسم قائم کرلیے۔ بدھ مت کے لیے ثانی الذکر کی ترجیح مصلحت آمیز گفت وشنید کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں دکھائی دیتی تھی۔ جب سوال معاشی نفع کا اٹھ کھڑا ہو تو جغرافیائی / سیاسی مصلحتیں مذہبی مصلحتوں پر فوقیت حاصل کرلیتی ہیں۔
تنگوتوں کے ساتھ ممکنہ فوجی سمجھوتے
اگرچہ اس کا کوئی واضح دستاویزی ثبوت ﴿ریکارڈ﴾ نہیں ہے، پھر بھی اس واقعے سے کہ قاراخانیوں نے ۹۸۲ء میں بھی ختن کے محاصرے کا آغاز کیا، یہ قیاس بظاہر معقول نظر آتا ہے کہ قاراخانیوں اور تنگوتوں کے مابین ایک سمجھوتہ ہوا تھا۔ اس ﴿سمجھوتے﴾ کی شرطوں میں ایک امکان اس بات کا بھی ہے کہ اگر جنوبی تارم میں قاراخانیوں کے ختن پر قبضے میں تنگوتوں کی طرف سے کوئی مزاحمت نہ ہو تو جواباً قاراخانی بھی گانسو کے باقی ماندہ علاقے اور کوکونورعلاقے پر تنگوتوں کے حملے کی صورت میں کسی طرح کی مداخلت نہیں کریں گے۔ اگر خیتانی لوگ زرد اویغوروں کی مدافعت کے لیے آئے تو قاراخانیوں کے مقابلے میں تنگوتوں کو کہیں زیادہ بہتر موقع اس بات کا حاصل ہوگا کہ وہ انہیں راستے سے ہٹا دیں۔ ثانی الذکر کے لیے زرد اویغوروں پر بجائے خود حملہ کرنا، اور خیتانوں سے نبرد آزما بھی ہونا اس امر کا متقاضی ہوگا کہ انہیں جنوبی تارم کے ویران دشت و بیاباں کے آر پار ایک ایسی سپلائی لائن ﴿رسد﴾ میسر رہے جس کا بوجھ اٹھانا ممکن نہیں۔
اگر قاراخانی اور تنگوت، دونوں اپنی جارحانہ فوجی پیش قدمیوں میں کامیاب ہوگئے تو انہیں شمال مشرقی تبت اور ہان چین کی سرحدوں سے سمرقند تک پوری جنوبی شاہراہ ریشم پر مکمل اور لاثانی قابو حاصل ہو جائے گا اور اس کے ذریعے سے وہ موثر طور پر شمالی سونگ اور قوچو ویغوروں پر اپنی تجارت میں کسی طرح کا حصہ بٹانے سے یکسر اور ہمیشہ کے لیے پابندی لگا دیں گے۔ ہر چند کہ ختن میں بودھوں نے ہوسکتا ہے کہ اسلام کے خلاف کاشغری مدافعت کی حمایت کی ہو، اس سے بلاشبہ، قاراخانیوں کو محض ایک اخلاقی بہانہ مل گیا ہوگا کہ وہ اپنی محاصرے کی کارروائی مسلط کر دیں۔ ان زمانوں میں، بہر حال، فوجی جارحیت اور پیش قدمی کے لیے قوموں کو کسی بہانے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔
واقعات کے اس سلسلے کی تشریح اس طرح کی کسی قیاس آرائی کے بغیر بھی کی جاسکتی ہے کہ ختن اور گانسو کوریڈور سے متعلق قاراخانیوں اور تنگوتوں کے مابین ایک دوسرے پر حملہ نہ کرنے کا کوئی باہمی سمجھوتہ اور معاہدہ ہوگیا ہوگا۔ گو کہ ان دونوں مملکتوں کو شاہراہ ریشم کے راستے تجارت پر اقتدار میں تقسیم ﴿اور حصے داری﴾ کی ضرورت تھی، تاہم قاراخانی قاغان کو بے شک یہ خواہش رہی ہوگی کہ تمام ترکیائی قبائل کے قائد کی حیثیت سے اپنے دائرہٴ اقتدار میں وہ زرد اویغوروں کو بھی شامل کرلے۔ اگر قوچو ویغوروں یا زرد اویغوروں سے براہ راست فوجی تصادم، خیتانوں کی ممکنہ مداخلت کے باعث بہت زیادہ اندیشہ ناک تھا، تو ان کی وفاداری اور اطاعت کے حصول کے دوسرے ذرائع بھی موجود تھے۔
مثال کے طور پر، اگر قاراخانی قاغان کو جنوبی تارم تجارتی راستے پر قبضہ کرنے اور اسے مغربی ترکستان میں اپنی مملکت کے علاقوں سے جوڑ دینے میں زبردست فوجی اور معاشی کامیابی مل گئی تھی تو دونوں ویغور گروہ اس کے برتر روحانی اختیار ﴿قوت﴾ کے قائل ہوجاتے۔ قاغان کی فتح کو تمام ترکوں اور مقدس پربت بالاساغون کے نگران کے طور پر اس کے استحقاق آمیز اور جائز اقتدار کی واضح نشانی سمجھتے ہوئے، یہ دونوں ﴿ویغور گروہ﴾ خیتانوں سے اوتوکان کی بازیافت کی اپنی ساری امیدیں اٹھا لیتے اور اپنا رخ اب اپنے اس حق دار رہنما ﴿قاغان﴾ کی طرف موڑ لیتے۔ یہ دیکھ کر کہ اسلام کو قبول کرکے، اور بالاساغون اور جنوبی تارم کو جیتنےکی غرض سے اسلام کی مافوق فطری طاقت حاصل کرکے، قاغان نے اپنے مذہب کا درست انتخاب کیا ہے، یہ ﴿ویغور﴾ گروہ بھی بدھ مت سے منحرف ہوکر، فطری طور پر، اسلام کے دائرے میں آجاتے اللہ کی اطاعت ﴿کی نشانی﴾ کے طور پر نہیں، بلکہ قاراخانی قاغان کی اطاعت کے طور پر۔
لہٰذا جنوبی تارم کی مہم میں قاغان کا بنیادی نصب العین، بلا شبہ، حق کی پاسداری یا شہیدوں کی قربانی کا بدلہ لینے کے اسباب کی بنا پر، اسلام کی حقیقی اشاعت نہیں تھا۔ یہ غالباً، اس سے زیادہ کچھ اور تھا، یعنی کہ کم مدت میں معاشی فائدہ اور علاقائی فائدہ اٹھانا، ایک طویل مدتی منصوبے کے طور پر ترکوں کا مذہب تبدیل کروانا اور ایک غیرملکی مذہب کے گرد لوگوں کو یکجا کرنا، قاغان کے لیے ان کی متحدہ سیاسی وفاداری کے حصول کا ایک طریقہ تھا۔
یہی وہ نتیجہ ہے جو اپنے عوام کو تبدیلئ مذہب کے ساتھ بدھ مت، شمن پرستی اور مانویت کا راستہ دکھانے والے سابق ترکیائی حکمرانوں کے تاریخی طرز سے رونما ہوتا ہے۔ بہر حال، قاغان کی منشا اور مقاصد سے قطع نظر، بہت سے ترک، بلاشبہ اسلام قبول کرنے کے معاملے میں مخلص تھے۔
ختن میں بدھ مت کا غائب ہو جانا
محاصرے اور اس کے بعد کی شورشوں کے ساتھ، ختن پر قاراخانی قبضے کے تذکروں میں وہاں کی دیسی آبادی کی بابت ایک خاموشی نمایاں نظر آتی ہے۔ متذکرہ شورش کی پسپائی کے ایک سال بعد، تجارتی یا خراج و نذرانے کی پیش کش کے لیے بھیجے جانے والے ختنی وفود صرف ترکیائی مسلمانوں پر مشتمل ہوتے تھے۔ قاراخانیوں کی ترکیائی ﴿ترکی﴾ زبان نے مکمل طور پر ختنی ﴿زبان﴾ کی جگہ لے لی اور پوری ریاست اسلام کے دائرے میں آگئی۔ بدھ مت پوری طرح غائب ہوگیا۔
اپنے سابقہ مقبوضات سے تبتوں نے اپنا رابطہ اس حد تک کھو دیا تھا کہ تبت کا ختنی نام ”لی” بھی اپنے اصل معنی سے محروم ہوگیا اور نیپال کی کھٹمنڈو وادی میں اپنے سابقہ حکمراں سلسلے لکچوی ﴿لکشوی﴾ (۳۸۶۔۷۵۰ء) خاندان کے سرنامے کے حوالے سے پکارا جانے لگا۔ ختن سے متعلق تمام بودھی اساطیر بھی کھٹمنڈو منتقل کردی گئیں، جیسے کہ اس کی ﴿ختن کی﴾ بنیاد گزاری، یوں کہ منجوشری کے ذریعے اس کی تلوار سے ایک پہاڑ کو چیر کر ایک جھیل کا سارا پانی نکال دیا جانا۔ بارہویں اور تیرہویں صدی تک تبتوں نے یہ بھی بھلا دیا کہ کبھی یہ اساطیر بھی ختن سے وابستہ رہی تھیں۔ اس طرح تبت کے بودھی تذکروں، راجہ یے شے وو کی قربانی کا بیان اس طرح آیا ہے کہ اسے ” گار لوگ” نے یعنی کہ قاراخانی قرلوقوں نے قید میں ڈال دیا تھا، اور ﴿بے قاعدگی کی بات یہ ہے کہ﴾ یہ واقعہ نیپال میں ہوا تھا۔ ہر چند کہ نیپال میں ۱۰۳۹ء اور ۱۰۴۵ء کے درمیان ایک خانہ جنگی ہوئی تھی، مگر وہاں اس وقت بمشکل کوئی ترکیائی قبیلہ رہا ہوگا، چہ جائے کہ قرلوق!
ہمارے پچھلے تجزیے میں اس ثبوت کے اضافے کے ساتھ، یہ تاثر ابھرتا ہے کہ ختن والوں میں بدھ مت کا غائب ہوجانا چوبیس برسوں کے محاصرے اور بعد میں باقی بچے ہوئے لوگوں کی بغاوت کے کچل دیے جانے کے باعث عام آبادی کی ہلاکت کا نتیجہ تھا، نہ کہ جبراً بودھوں کا مذہب بدل کر انہیں اسلام کے دائرے میں لے آنے کا۔ قاراخانیوں کا بنیادی سروکار ترکوں کا مذہب بدلنے سے تھا اپنے زیر اقتدار اور دوسرے لوگوں سے نہیں تھا کیونکہ ان کی کوشش یہ تھی کہ مقدس پربت بالاساغون کے رکھوالوں کی حیثیت سے وہ تمام ترکیائی قبیلوں کو متحد کرکے اپنے زیر اقتدار لے آئیں۔ مثال کے طور پر، ۱۰۴۳ء میں انہوں نے تبدیلئ مذہب کی ایک اجتماعی تقریب میں دس ہزار ترکوں کو اسلام کا حلقہ بگوش بنایا۔ اس ﴿واقعے﴾ کے ساتھ بیس ہزار مویشیوں کی قربانی دی گئی جو روایتی شمن پرستانہ آہنگ اور اس طرح اس واقعے کی نسلی معنویت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
قاراخانیوں نے بنوامیہ، بنوعباس اور سامانی مثالوں کی پیروی کی اور غیر ترکوں کو جو دوسرے مذاہب کے ماننے والے تھے، محفوظ رعیت ﴿ذمّی﴾ کی حیثیت دی۔ نسطوری عیسائیوں کا معاملہ اپنی پوری دستاویزی شہادت رکھتا ہے۔ اپنے قاراخانی دور میں سمرقند کو بدستور ایک نسطوری ام البلاد ﴿یااسقف اعظم﴾ کی حیثیت حاصل رہی۔ علاوہ ازیں، ۱۱۳۷ء میں قاراخانی سلطنت کے خاتمے کے بعد کاشغر کو بھی ایک اسقف اعظم ملا جس سے یہ نشاندہی ہوتی ہے کہ ان کی حکومت کے دوران نسطوری عیسائیت موجود تھی اور برداشت کی جاتی تھی۔ اس سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ یہی بات وہاں بدھ مت پر بھی صادق آتی ہے، خصوصاً اس لیے کہ کاشغر کے بعد میں آنے والے حکمراں بدھ مت کے حامی تھے اور ان کی فرماں روائی کے دوران کاشغر نے متعدد بودھی مدبرمہیا کیے۔
یہ واقعہ کہ محاصرے سے پہلے ختن، میں دو کلیساؤں کے ساتھ ایک مختصر نسطوری فرقہ بھی تھا، جس کا کوئی تذکرہ عیسائیت کے لیے قاراخانیوں کی رواداری کے باوجود بعد کےماخذوں میں نہیں ملتا، اس سے اسی نتیجے کی مزید توثیق ہوتی ہے کہ ختن کی مقامی ﴿دیسی﴾ آبادی کا بیشتر حصّہ، عیسائی اور بودھی دونوں، فوجی قبضے کے دوران نابود ہوگئے۔ بصورت دیگر، ختن کی نسطوری تاریخ کے تذکروں میں یقینی طور پر وہ پھر سے ابھرے ہوتے جیسا کہ کاشغر میں ان کے بھائیوں کے معاملے میں ہوا۔