علاقائی سیاق
خلافت عباسیہ کے ابتدائی دور میں تاریخی ارتقا پر گفتگو سے پہلے، ہم مختصراً اس عہد کی شروعات سے عین قبل وسطی ایشیا کی سیاسی صورت حال پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ امویوں کا اقتدار سغد اور باختر پر قائم تھا، جب کہ تانگ چینی فوج نے حملے کی دھمکی دیتے ہوئے شمال اور مغرب کی طرف سویاب، کاشغر اور کوچا کے علاقے پر قبضہ کر رکھا تھا۔ تانگ فوجوں کے پاس ترفان اور بیشبالق (کے علاقے) بھی تھے۔ سفید لباس والے اوغوز ترکوں جنوبی منگولیا سے نئے نئے ہجرت کرکے سغد کے ایک دور دراز شمال مشرقی کونے میں آباد ہوگئے تھے۔ شمال مغربی ترکستان اور دزونغاریہ کا باقی حصہ قرلوقوں کے قبضے میں تھا، اور منگولیا ابھی نیا نیا ویغوروں کے زیر اقتدار آیا تھا۔
تانگ چینی اور ویغور آپس میں اتحادی تھے۔ تبتوں کی حالت کمزور تھی، مگر جنوبی تاریم کی ریاستوں میں انہوں نے اپنی موجودگی قائم کر رکھی تھی، اگرچہ ختن کا بادشاہ تانگ دربار کے حق میں وفادار تھا۔ تبتوں کے سابق اتحادی، ترغشوں کا عملاً صفایا ہوچکا تھا۔ تبتوں کے پاس واحد متحدہ ریاست گندھارا میں ترکی شاہیوں کی تھی جن کا اتحاد شادی کے رشتے سے ختن کے ساتھ بس براۓ نام تھا۔
ہرچند کہ خاص اسلامی فرقوں، سنی اور شیعہ کی شکل تو گیارہویں صدی عیسوی تک متعین نہیں ہوئی تھی، مگر گفتگو کی آسانی کے لئے ہم ان اصطلاحات کے ساتھ ان کے پیش رووں پر نظر ڈالتے ہیں۔ مرجیہ تحریک، جسے امویوں نے اوپر اٹھایا، سنی (فرقے) کی پیش رو تھی۔ اس نے پیغمبر کے برادر نسبتی، معاویہ، جو پہلے اموی خلیفہ تھے، ان کے سلسلہ خلافت اور وراثت کی تائید کی۔ شیعہ (فرقہ) گروہ مخالف سے نمودار ہوۓ، جس کا دعوی تھا کہ وراثت جائز اس وقت ٹھہرتی ہے جب اس کا سلسلہ پیغمبر کے چچازاد اور داماد علی سے جوڑا جائے۔ چونکہ عربوں کی اکثریت بنوامیہ کی حمایتی تھی، اس طرح سنی اسلام کے ساتھ تھی، جبکہ زیادہ تر غیرعرب مسلمان شیعہ اسلام کے حمایتی تھے۔
اموی خلفا جزیرہ نمائے عرب سے تعلق رکھنے والے عرب تھے۔ وہ عمومی طور پر مسلمانوں سے کہیں زیادہ، تمام معاملات میں عربوں کی حمایت کرتے تھے، مثال کے طور پر، انہوں نے جنگ میں کامیابی کے بعد ہاتھ آنے والے مال غنیمت کو غیرعرب مسلمان فوجیوں کے ساتھ تقسیم کرنے پر پابندی لگا دی۔ اس کے برعکس، غیرمسلم عربوں، جیسے کہ عرب کے رہنے والے عیسائیوں یا یہودیوں کو غیرعرب مسلمانوں کی بہ نسبت زیادہ اعتبار حاصل تھا اور انہیں کھل کر ترجیح دی جاتی تھی۔ بعض لوگوں کو تو خلافت کے اندر غیرعرب علاقوں میں گورنر تک کی حیثیت سے نامزد کیا گیا۔ اس جانب دارانہ پالیسی نے زبردست ناراضگی پیدا کی، خاص طور سے ایرانی مسلمانوں میں جو اپنے آپ کو تہذیبی اعتبار سے عربوں کے مقابلے میں برتر سمجھتے تھے۔
بلخ کا باشندہ ابومسلم، اپنا مذہب بدل کر شیعی اسلام قبول کرنے والا ایک باختری تھا۔ اس نے پیغمر کے ایک چچا، عباس کی نسل کے ایک عرب، ابوعباس کی رفاقت اختیار کی جب وہ دونوں اپنی امیہ مخالف سرگرمیوں کے باعث باختر (خراسان میں) قید کر دیے گئے تھے۔ ایرانی اور وسطی ایشیائی بے اطمینانی اور بگاڑ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، ابو مسلم نے بعد میں قیادت سے بغاوت کی جس کے دوران ۷۵۰ء میں امویوں کا تختہ پلٹ دیا گیا۔ اموی دارالسلطنت دمشق پر فتح یابی کے بعد، اس نے اعلان کیا کہ ابوعباس، جنہیں الصفاح (دور:۷۵۰۔۷۵۴ء) کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، عباسی سلسلے کے پہلے خلیفہ ہیں۔ الصفاح نے ابومسلم کو انعام کے طور پر باختر کا گورنر مقرر کر دیا۔ خلافت عباسیہ ۱۲۵۸ء تک قائم رہی، مگر باختر اور سغد پر اس کی حکومت صرف وسط نویں صدی تک رہی۔
چونکہ عباسی خلفا ایک ایرانی ثقافتی علاقے کے (رہنے والے) عرب تھے، اس لیے ایرانی اور وسطی ایشیائی مسلمانوں نے شروع میں ان کے اقتدار غصب کرلینے کی حمایت کی۔ یہ سوچتے ہوئے کہ بنوعباس عرب سے اتنے فاصلے پر تھے کہ ان کے اندر امویوں کے جیسا نسلی تعصب نہ ہوگا، انہیں امید تھی کہ نئی حکومت اب ان کے ساتھ دوسرے درجے کے شہریوں کی طرح کا برتاؤ نہیں کرے گی۔
تانگ چین کی شکست اور این لوشان بغاوت
۷۵۱ء میں ابوعباس نے قرلوقوں کے ساتھ اپنی فوجوں کو ملا دیا اور تانگ چینی افواج کے طرف مڑ گئیں جو ان کو دھمکا رہی تھیں۔ انہوں نے موجودہ جنوبی قازقستان میں تالاس ندی کے کنارے تانگ فوج کو شکست دی اور (اس طرح) فیصلہ کن انداز میں مغربی ترکستان سے ہان چینیوں کی موجودگی کا صفایا کر دیا۔ اس واقعے نے طوفان کا رخ موڑ دیا جس کے بعد ہان چینیوں کا قبضہ اور مشرقی ترکستان پر اقتدار بتدریج کم ہوتے ہوتے ختم بھی ہو گیا۔
تانگوں کی شکست اور وسطی ایشیا میں بادشاہ شواندزنگ کی بظاہر بے ثمر مہمات کی بھاری قیمت چینی آبادی کے لیے اتنی زیادہ ہوگئی کہ اب اسے مزید برداشت کرنا مشکل ہوگیا۔ این لوشان جو تانگ کی ملازمت کرنے والے ایک سغدیائی سپاہی اور ایک مشرقی ترک ماں کا بیٹا تھا، اس نے تانگ کی راجدھانی چانگان میں ایک مقبول عام قیادت کی بغاوت کی۔ اگرچہ بادشاہ نے کاشغر، کوچا، بیشبالق اور ترفان سے اپنی افواج کی بڑی تعداد کو واپس بلا لیا، وہاں بس مٹھی بھر سپاہیوں کو رہنے دیا، ختن کے شہنشاہ نے بھی اس کو فوجی تعاون دیا، اس کے باوجود وہ اس بغاوت کو کچلنے میں ناکام رہا۔ اسے ذلت کے ساتھ سیچوآن کے پہاڑوں میں فرار کی راہ اختیار کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ تانگ فوجوں کو بالآخر اپنے بچاؤ کے لیے صرف منگولیا میں ویغوروں کی طرف لوٹنے سے کامیابی ملی۔
چانگ آن اور لویانگ میں باغیوں سے لڑتے ہوئے، ویغوروں نے بڑی تباہی مچائی اور بشمول ان میں موجود بودھی مندروں اور خانقاہوں کے، عملاً یہ دونوں شہر تہس نہس کر دیئے۔ اس کے باوجود وہاں کی سغدیائی سوداگر قوموں کے ساتھ ربط ضبط کے نتیجے میں، ویغور بادشاہ، بوگو قاغان نے ان سوداگروں کی اکثریت میں مروج مانویت کا عقیدہ اختیار کرلیا۔ اس کے بعد اس نے ۷۶۲ء میں، ایک اعلان کے ساتھ مانویت کو ویغور قوم کا ریاستی مذہب بنا دیا۔ این لوشان اگرچہ آدھا سغدیائی تھا۔ بظاہر زیادہ تر باغی ہان چـینی تھے اور غیرہان فرقے میں سے نہیں تھے۔ ورنہ تو پھر بوگو قاغان سغدیائیوں سے بھی نبرد آزمائی کرتا رہتا اور اسی لیے، ان کے مذہب کو اس نے قبول نہ کیا ہوتا۔
کئی صدیوں کے عرصے میں ویغوروں نے پہلے تو اپنا ریاستی مذہب شمن پرستی سے بدل کر بدھ مت کیا، پھر مانویت کو اختیار کرلیا اور پھر آخر میں اسلام قبول کر لینے سے پہلے بدھ مت کی طرف واپس گئے۔ ان سے پہلے مشرقی ترکوں نے شمن پرستی کو بدھ مت سے بدل دیا تھا اور پھر شمن پرستی کی طرف لوٹ گئے تھے۔ اب ہم ان دونوں ترکی لوگوں میں مذہب کی ان تبدیلیوں کے ممکنہ اسباب کا جائزہ لیں گے۔ اس سے ہمیں بعد کے ادوار میں بیشتر ترکی قبائل کے بدھ مت یا شمن پرستی سے اسلام کی قبولیت اختیار کرنے اور اپنا مذہب بدل لینے کے اسباب کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد ملے گی۔