بدھ مت سے اولین روابط
۲۲۰ء میں ہان سلطنت خاتمے کے بعد حصوں میں بٹ چکی تھی، اور غیرہان چینی باشندوں اور ریاستوں کے ایک سلسلے کے زیر اقتدار تھی، بدھ مت کی سب سے بڑی سرپرست توبا شمالی وی سلطنت (۳۸۶۔۵۳۵ء) تھی جس نے اندرونیِ منگولیا اور شمالی ہان چین کا احاطہ کر رکھا تھا۔
سب سے پرانے ترک باشندے، ترکی (ترکیائی) زبان بولنے والوں کا سب سے پہلا مصدقہ گروہ جو تاریخ کے صفحات میں دھات کا کام کرنے والے ایک طبقے کی شکل میں سامنے آیا، توبا مملکت کے اندر واقع شہروں میں قیام پذیر تھا۔ بہر حال ان کا آغاز، شمال کی سمت کے وسیع وعریض اور سنسان ریگستانوں سے ایک خانہ بدوش قبیلے کے طور پر ہوا تھا کیونکہ ان کا مقدس پربت اوتوکان، وسطی منگولیا میں توبا اقتدار والی زمینوں سے صحرائے گوبی کے دوسری طرف واقع تھا۔
پرانے ترک اس مذہبی روایت کے مقلد تھے جس نے مغربی علما میں "تینگریت" کے نام سے موسوم ایک عقیدے کو شمن پرستی کے ساتھ خلط ملط کر رکھا تھا اور جس میں "ہیون" (ترک: تینگری) کی پرستش بطور سب سے بڑے خدا کے کی جاتی تھی، یہ لوگ کچھ خاص پہاڑوں کو اقتدار کے مراکز کی حیثیت سے دیکھتے تھے اور ان کے لیے احترام کا جذبہ رکھتے تھے۔ تینگریت کبھی بھی ایک منظم مذہب نہ بن سکی، اور وسطی ایشیا کے لق ودق صحراؤں میں آباد تقریباً تمام لوگوں ترک، منگول اور تینگریت، ان سب میں بیک وقت کئی شکلوں کے ساتھ سامنے آئی۔ اپنی ترکیائی (ترکی) شکل میں، یہ ترکوں کے سماجی ڈھانچے کی حامی تھی جس کی تشکیل قبائل کے نظام مراتب کی بنیاد پر کی گئی تھی۔ (اس کے مطابق) ایک قبیلے کو غالب مان لیا گیا اور اس کے سردار کو سب (قبیلوں) پر حکمراں سلسلے کے ماخذ کے طور پر دیکھا گیا۔
تینگریت کی ترکیائی شکل (وسطی ایشیا کے ترکی بولنے والوں میں مروّج)، اوتوکان کے سربراہ، ترکیائی سردار کو تمام ترکیائی قبیلوں کا اعلی ترین حکمراں (قاغان) اور اس معاشرے کی خوش حالی اور خوبیوں کا جیتا جاگتا پیکر تصور کرتے ہیں۔ اگر اس معاشرے کی دولت مندی میں زوال آئے تو اس کی ذمہ داری قاغان پر عائد کی جاتی تھی اور اسے (سزا کے طور پر) قربان تک کیا جاسکتا تھا۔ ایسی صورت میں اس کے بیٹے کو اس کے منصب پر مقرر کردیا جاتا تھا۔
عقائد کے اس نظام کے ساتھ، ترکوں کو پہلے پہل توبا کے شہروں میں بدھ مت کا سامنا پڑا۔ اس وقت یہ (بدھ مت) اپنی شمالی چینی شکل میں تھا اور اس کا زور اس بات پر تھا کہ عوام خوش عقیدہ ہوں اور ریاست کے مذہبی علما کی طرف ان کا رویہ اطاعت شعاری کا ہو۔ بدھ مت کا یہ سماجی انداز نظام مراتب سے متعلق ترک (ترکیائی) تینگری خیالات سے اچھی طرح ہم آہنگ تھا اور اس نظام میں بہ سہولت اس کی سمائی ہوسکتی تھی۔
توبا حکومت سے غیرمطمئن ہوکر، ترکوں کی اکثریت مغرب کی طرف، گانسو کو چلی گئی جو ریاست روآن روآن (۴۰۰۔۵۵۱ء) کی عملداری میں تھا۔ روآن روآن کے لوگ منگولیا کے ایک بڑے حصے کے ساتھ کوچا سے لے کر کوریا کی سرحدوں تک ریگستانوں، سبزہ زاروں اور صحرائی علاقوں پر حکومت کر رہے تھے۔ جیسے جیسے یہ لوگ بتدریج مشرقی ترکستان کے سرسبز نخلستانی شہروں میں موجود، بدھ مت کی تشاری اور ختنی شکلوں کو اپناتے گئے، انہوں نے اپنی پوری مملکت میں اس کی باگ دوڑ سنبھال لی اور اسے (ہر طرف) پھیلا دیا، اور یوں پرانے ترک بھی ایران سے اثر قبول کرنے والی بدھ مت کی اس شکل سے دو چار ہوئے۔ (اس طرح) ایک زرتشتی ماحول میں اب بدھ "راجاؤں کے راجا" "دیوتاؤں کے دیوتا" بن گئے۔
بومین خان نے ۵۵۱ء میں روآن روآن کا تختہ پلٹ دیا۔ اوتوکان پہاڑی کی نگرانی اختیار کرتے ہوئے، اس نے خود کو قاغان مشتہر کردیا اور پرانی ترک سلطنت قائم کی۔ دو برس بعد یہ سلطنت مشرقی اورمغربی، دو حصوں میں بٹ گئی۔
پہلی مشرقی ترک سلطنت (۵۵۳۔۶۳۰ء) کی بنیاد اس کے بیٹے موہان قاغان (۵۵۳۔۵۷۱ء) نے رکھی جس کا مرکز منگولیا میں تھا اور جس نے شمنیت اور تینگریت کی ترکی (ترکیائی) روحانی روایت ورثے میں پائی تھی۔ چونکہ اس روایت کا کوئی منظم ڈھانچہ نہیں تھا، اس لیے یہ کسی نئی قومیت کی تعمیر کے لیے ایک اتحادی طاقت کی فراہمی سے قاصر تھی۔ اپنے لیے نمونوں (ماڈل) کی تلاش میں "روآن روآن" اور توباوی ریاستوں کی جانب دیکھتے ہوئے، قاغان کی سمجھ میں یہ بات آئی کہ بدھ مت اس کام کا اہل ہے۔ اس لیے، چونکہ ترک لوگ بدھ مت کی شمالی چینی اور تشاری / ختنی شکلوں سے پہلے ہی مانوس تھے، قاغان کو زیادہ طلب اس کی تھی کہ اس نئے عقیدے سے وہ اور زیادہ ربط بڑھائے اور اسے روایتی ترکیائی عقیدے کے سانچے میں سمودے۔ عین اسی طرح جیسے بدھ بھکشو شمالی چینی بودھی ریاستوں کی فلاح کے لیے دعایئں کرتے تھے، وہ مشرقی ترک سلطنت کی بہتری کے لیے بھی ویسا کرسکتے تھے۔ علاوہ ازیں، ٹھیک اسی طرح جیسے بدھ کے حواریوں نے تمام زرتشتی دیوتاؤں کو، معہ بدھ کے بطور (ان دیوتاؤں کے) پیشوا کے، اپنے حلقے میں شامل کرنے کے لیے خور کو پھیلا لیا تھا، یہ (حوارین)، ترک (ترکیائی) دیوتاؤں کے انبوہ کو اپنے ساتھ جگہ دینے کے لیے، خود کو ابھی بھی مزید وسعت دے سکتے تھے۔
شمالی وی سلطنت کے بکھرنے کے بعد، اس کی نسبتاً چھوٹی وارث ریاستوں نے شمالی چینی بدھ مت کی سرپرستی کا سلسلہ جاری رکھا۔ ان میں سے دو ریاستیں شمالی قی (چی) (۵۵۰۔۵۷۷ء) اور شمالی زہاؤ (چاؤ) (۵۵۷۔۵۸۱ ء)، مشرقی ترکوں کی باج گزار ریاستیں بن گیئں۔ شمالی قی وزیر نے دوستی کی ایک نشانی کے طور پر شمالی چینی وضع کا بدھ مت مندر ان چھ ہزار ترکوں کے لیے تعمیر کروا دیا جواب تک چانگ آن میں قیام پذیر تھے۔ موہان قاغان نے خوشی کے ساتھ اس سلوک کے جواب میں متعدد ہان چینی بھکشوؤں کو شمال کی سمت منگولیا میں اپنے قلعے میں آنے کی دعوت دی، تاکہ وہ اس کی رعایا کو تربیت دے سکیں۔
غیردینی (سیکولر) مقاصد کے لیے سغدیائی زبان کا اختیار کیا جانا
مشرقی ترکوں نے روآن روآن کے ورثا کی حیثیت سے ترفان کے تشاری نخلستانوں اور سرسبز علاقوں پر حکومت کی۔ پہلے کے بہت سے خانہ بدوش قبیلوں کے نسلی گروہ جو منگولیائی ریگستانوں یا صحرا کے کناروں سے آئے تھے، جیسے کہ توباوی، انہوں نے ہان چینی ثقافت اختیار کرلی تھی اور پھر اپنا تشخص کھو بیٹھے۔ موہان قاغان اس واقعے سے باخبر تھے اور وہ اپنے لوگوں کے ساتھ بھی اس طرح کے تجربے سے نہیں گزرنا چاہتے تھے۔ لہذا اس نے (قاغان نے) اپنی مشرقی ترک سلطنت قائم کرنے کے بعد جلد ہی ترفان کے سغدیائی تاجروں کی قوم کا رخ کیا اور انتظامی ومالی مقاصد کی ادائیگی کے لیے اسے ایک غیرچینی تحریری زبان مہیا کی۔
ہان چین اور سغد میں مذہبی جبر اور ایذا رسانی
۵۷۴ء اور ۵۷۹ء کے درمیان دوسرے مشرقی ترک قاغان تاپر (دور حکومت ۵۷۲۔۵۸۱ء) کے عہد اقتدار میں مشرقی ترکی سلطنت کی شمالی قی اور شمالی زہاؤ باج گزار ریاستوں نے بدھ مت پر جوروستم کا ایک سلسلہ شروع کردیا۔ اس کی اصل وجہ داؤ مت کے وزرا کا اثر تھا جو خانقاہوں کو دی جانے والی سرکاری حمایت کے تئیں حسد کا جذبہ رکھتے تھے۔ بہت سے ہان چینی بھکشو، نیز کابل سے آئے ہوئے چار گندھاری بودھی مترجمین، جیناگپت (۵۲۸۔۶۰۵ء) کی سربراہی میں چانگ آن سے مشرقی ترک دربار کو فرار ہوگئے۔ وہاں، وہ دس چینی بکھشوؤں سے جا ملے جو ابھی ابھی ہندوستان سے ۲۶۰ء بودھی متون لے کر ان کا ترجمہ کرنے کے لیے واپس آئے تھے اور جنہیں، انہی کی طرح (دربار میں)پناہ مل گئی تھی۔
لگ بھگ اسی وقت جب شمالی ہان چین میں یہ واقعہ رونما ہوا، ساسانی بادشاہ خسرو اوّل (دورحکومت۵۳۱۔۵۷۸ء) نے مانویوں، ایران اور سغد کے ان زرتشتی مسالک پر، جنہیں وہ بدعتی تصور کرتا تھا، سخت ایذا رسانی کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ اس کی وجہ سے مشرقی ترکستان کے سرسبز شہروں کی طرف، مذہبی پناہ گزینوں کی ہجرت کا ایک نیا ریلا آیا۔ مانوی مبلغ (مشنری) مارشاداہرمزد (وفات:۶۰۰ء) کی کوششوں سے، جو مہاجروں کے ساتھ آیا تھا، سغدیائیوں نے (خاص طور پر ترفان میں) پہلی مرتبہ اصل پارتھیائی اور شامی زبانوں میں مانوی متون کا ترجمہ شروع کیا جو ان کے وطن میں مستعمل تھیں۔ ان کے اس اقدام کا سبب غالباً یہ ہوگا کہ انہیں اپنے مذہبی فرقے کی اس ضرورت کا یقین تھا کہ وہ وطن میں سیاست کے نشیب وفراز سے آزاد ہوں اور اس طرح خود کفیل ہو جائیں۔
تشاری زبان میں بودھی متون کے پہلے تحریری تراجم
اس وقت تک، مشرقی ترکستان میں، بودھی متون کی تحریر، مطالعے اور منتر خوانی کا سلسلہ بنیادی طور پر سنسکرت، گندھاری پراکرت کی اصل ہندوستانی زبانوں میں یا بعض اوقات چینی ترجموں میں جاری تھا۔ اس وقت تک اس امر کی کوئی شہادت نہیں ملتی کہ بودھی صحائف کے وسطی ایشیائی زبانوں میں تراجم کیے گئے ہوں، چہ جائے کہ ان زبانوں میں لکھنے کا رواج شروع ہو چکا ہو۔ اس قسم کی سرگرمی کے اولین نشانات ہمیں اب، وسط چھٹی صدی میں دکھائی دیتے ہیں۔
سب سے پرانی تحریری تشاری دستاویزات اسی تاریخ سے شروع ہوتی ہیں اور بودھی متون کے سنسکرت سے ترفانی بولی میں تراجم پر مشتمل ہیں۔ ترفان کے تشاری بودھوں کو شاید اپنے درمیان رہنے والے مانوی عقیدے کے سغدیوں سے اس اقدام کی تحریک ملی تھی، جس کا مقصد یہ بھی رہا ہوگا کہ ان کی آزادانہ اور انفرادی ثقافتی شناخت کو یقینی بنایا جاسکے۔ اگرچہ پہلے کے تشاری بودھی اساتذہ، جیسے کہ کمار جیو (۳۴۴۔۴۱۳ء) نے ہندوستانی متون کے چینی زبان میں ترجمے کے عمل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا، مگر تشاری لوگوں نے سنسکرت متون پر مبنی، اپنی بدھ مت کی مخصوص شکل کو بدستور قائم رکھا۔ چونکہ یہ لوگ تارم طاس کے شمالی کنارے کے ساتھ والے نخلستانی علاقے کو اپنے وطن کی حیثیت سے دیکھتے تھے اور اب ان کا اپنی اصل یورپی جڑوں سے کوئی تعلق نہیں تھا، اور کیونکہ ان کے شہروں پر متواتر غیرملکی خاندان حکومت کرتے آئے تھے، اس وجہ سے ان کے لیے ایک آزادانہ ثقافتی تشخص کو برقرار رکھنا اہم رہا ہوگا۔ ہان چین میں بودھوں کے ساتھ روا رکھی جانے والی زیادتیوں اور ایذا رسانیوں نے بے شک، ان کے اس فیصلے کو تقویت پہنچائی ہوگی کہ وہ اپنی ہی زبان میں لکھیں اور(اسی زبان میں) اپنے صحائف کا ترجمہ کریں۔
اس وقت سغدیوں نے بودھی متون کا خود اپنی زبان میں ترجمہ کرنا چھوڑ دیا
ترفان کی سغدیائی بودھی قوم نے بہرحال، خود اپنی زبان میں اپنے صحیفوں کا ترجمہ کرنے اور اپنے آپ کو لکھنے کے کام میں جی جان سے لگا دینے کی سغدیائی مانوی یا تشاری بودھی روایت کی تقلید نہیں کی۔ انہوں نے ممکنہ اسباب کے ایک پیچیدہ سلسلے کے سبب اپنے اس کام کو آئندہ صدی تک بھی نہیں پہنچایا۔ اب ہم ان میں سے کچھ (اسباب) پر نظر ڈالیں گے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ مشرقی ترکستان کے سغدیائی، پپیشے سے سوداگر اور تاجر تھے، اور تشاریوں کے برخلاف، شاید ان شہری ریاستوں کے لیے جہاں وہ قیام پذیر تھے، ان کے دلوں میں کوئی خاص نرم گوشہ نہیں تھا۔ انہوں نے کبھی بھی ان ریاستوں کو اپنے وطن کا درجہ نہیں دیا، بلکہ ان کے بجائے سغد کی طرف دیکھتے رہے۔ ایسی صورت میں، ایک مقبوضہ سرزمین کے لیے جہاں اب وہ رہ رہے تھے اپنی ایک انفرادی پہچان قائم کرنا، ان کے لیے اتنی زیادہ معقول اور مناسب بات نہیں تھی۔
دوسرا یہ کہ مشرقی ترکستان کا مہاجر سغدیائی گروہ کثیر المذاہب تھا۔ یہ لوگ اپنے پیشے اور کاروبار میں استعمال کی جانے والی تحریری زبان کی سطح پر آپس میں متحد تھے۔ تشاریوں کے برعکس، اس مقصد کے لیے انہیں مذہب کے استعمال کی ضرورت نہیں تھی۔ مزید برآں، مانوی سغدیائیوں کے برعکس جن کے پاس سغد اور ساسانی سلطنت کے باقی حصے کے علاوہ مذہبی حمایت و تعاون کے لیے کسی اور سمت میں دیکھنے کی گنجائش نہ تھی، ترفان کے سغدیائی بودھی ہان، چین کی طرف دیکھ سکتے تھے۔ پھر ایسا لگتا ہے کہ انہیں اپنے مذہبی صحائف کے متون کی زبان سے کوئی خاص وابستگی نہیں تھی۔ وہ اپنے وطن کی سرزمین میں مستعمل سنسکرت اور اس کی گندھاری پراکرت شکلوں کے ساتھ ساتھ، ان چینی تراجم سے بھی یکساں طور پر مانوس دکھائی دیتے تھے جن کی تیاری میں خود انہوں نے بھی مدد دی تھی۔ ہان چین میں بودھوں پر ڈھائے جانے والے ظلم وستم اور سغد کی غیر مستحکم مذہبی صورت حال کے باوجود، بظاہر اس وقت انہیں اس کا کوئی سبب نظر نہیں آتا تھا کہ وہ خود ان متون کا اپنی زبان میں ترجمہ کریں۔
مشرقی ترکستان کے سغدیائی بودھی اگر اس خواہش میں مبتلا ہوتے کہ اپنے وطن میں مذہبی عدم تحفظ سے خود کو فاصلے پر رکھیں تو وہ اپنی مذہبی رسوم میں چینی زبان کا زیادہ استعمال کرسکتے تھے۔ دوسری طرف، ان کے مانوی بھائی،جب ایسی ہی صورت حال سے دوچار ہوئے، تو ان کے سامنے اپنی دیسی زبان میں آپ اپنی روایتیں قائم کرنے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں تھا۔ مذہبی مقاصد کے لیے چینی زبان سے کام لینے میں سغدیائی بودھوں نے بظاہراپنی ثقافتی شناخت کے لیے کوئی خطرہ نہیں محسوس کیا کیونکہ وہ شناخت ان عوامل پر منحصر تھی، جو ان کی غیردینی (سیکولر) زندگی سے منسلک تھے۔ دراصل مشرقی ترکستان میں سغدیائی بودھوں کے اس میلان کو، کہ اپنی مذہبی زندگی میں وہ چینی زبان اور روایت پر زیادہ مضبوطی کے ساتھ انحصار کریں، اپنے درمیان مانوی سغدیائی مہاجروں کا ریلا آجانے سے بڑھاوا ملا تھا۔ نوآمدہ لوگوں نے بھی اپنی جائے پیدائش کی مذہبی زبانوں کو مسترد کردیا تھا۔
بودھی متون کا قدیم ترکی میں ترجمہ
تاپر قاغان کی ترجیحات، بہر حال، سغد سے مختلف تھیں۔ ایک نئی نئی قائم ہونے والی سلطنت کے حکمراں کی حيثیت سے وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کی مشرقی ترک آبادی پر مشتمل رعایا کسی بھی طریقے سے چینی زبان پر زیادہ انحصار کرے۔ اس کے پیش رونے سغدیائی زبان اور سغدیائی رسم الخط دونوں کو اپناتے ہوئے، غیر دینی (سیکولر) دائرے میں ایک بدیسی زبان کے استعمال کی پالیسی کا تتبع کیا تھا۔ چونکہ سغدیائیوں کے پاس خود اپنی کوئی ریاست نہیں تھی، اس لیے ان کے اس اقدام کو کسی طرح کا خطرہ بھی لاحق نہیں تھا۔ بہر حال، اپنی مملکت میں ہان چینی پناہ گزیں بھکشوؤں کے ریلے کے ساتھ، تاپر کو اب اپنے عوام کے لیے ایسی شناخت قائم کرنے کی ضرورت کا شدت کے ساتھ احساس ہوا، جو مذہبی امور میں بھی ہان چینیوں کے اثر سے یکسر آزاد اور مختلف ہو۔ اسی لیے، اس نے بدھ مت کے ہندوستانی، شمالی چینی اور تشاری / ختنی شکلوں (روایتوں کے امتزاج) سے تیار ہونے والے مرکب کا انتخاب کیا، اور اسے یوں پھیلایا کہ اس میں تینگریائی پہلوؤں کی شمولیت بھی ہوسکے۔ شمالی چین میں بودھوں پر جو ستم ڈھائے گئے تھے، وہ سغد میں مانویت کے ساتھ کی جانے والی زیادتیوں کی اتنی یاد تو دلاہی دیتے تھے کہ وہ ترفان میں تشاری بودھی اور مانویت کی پروردہ سغدیائی مثالوں کی پیروی کا قائل ہوگیا۔ چنانچہ منگولیا میں اپنے دارالسلطنت کے مقام پر اس نے ترجمے کا ایک مرکز (بیورو) قائم کیا تاکہ ایک منفرد وسطی ایشیائی شکل میں بودھی متون منتقل کیے جاسکیں۔
قاغان نے غیر دینی (سیکولر) معاملات کے میدان میں ثابت قدم رہنے اور اپنے عوام کے لیے ایک متحدہ اعلی ثقافت قائم کرنے اور مذہبی مقاصد کے لیے بھی سغدیائیوں کے استعمال کی خواہش کی۔ بہرحال، اس وقت بودھی متون سغدیائی زبان میں موجود نہیں تھے۔ سغدیائی باشندے اپنے ذاتی استعمال اور کام کاج کے لیے چینی تراجم پر زیادہ سے زیادہ منحصر ہوتے جارہے تھے۔ اگر قاغان کو سغدیائی زبان میں بودھی متن نہ مل جاتے اور اگر نئے تشاری ترجموں کے استعمال سے اس کے عوام کے لیے پھر ایک اور نئی زبان سیکھنے کی مشکل اور مزید پیچیدگیوں سے دوچار ہونے کا ڈر نہ ہوتا، تو ثقافتی اتحاد قائم کرنے کا واحد قابل عمل حل یہی تھا کہ قدیم ترک زبان میں بودھی متون دستیاب ہوں، لیکن انہیں سغدیائی سیکولر رسم الخط میں لکھا گیا ہو۔ اسی لیے اس نے منگولیاسے مزید سغدیائیوں کو مدعو کیا۔ ان سے کہا کہ منصوبے (پروجیکٹ) کی خصوصی ضرورتوں کے حساب سے وہ اپنے حروف تہجی میں تصّرف کریں اور پناہ گزیں ہان چینیوں کو اس مسئلے سے عہدہ برآ ہونے کے لیے، ترجمے کے مرکز (بیورو) میں ان کی مدد کریں۔
گندھاری استاد، جیناگپت جو ہان چینیوں کے ساتھ آیا تھا اور شروع میں ہی اسے (ترجمے کے مرکز (بیورو) کا سربراہ مقرر کر دیا گیا تھا۔ وہ قاغان کے اس فیصلے کو آسانی سے سمجھ سکتا تھا، کیونکہ اس سے پہلے بھی ختن میں اس کا طویل تجربہ رہ چکا تھا اور اس طرح، سخت ہان چینی شکلوں سے اس کی وابستگی نہیں تھی۔ لہٰذا، قدیم ترک تراجم میں، قاغان کی خواہش کے مطابق ہندوستانی، شمالی چینی اور تشاری/ ختنی بودھی عناصر کے ساتھ ساتھ تینگریت کے پہلوؤں کا امتزاج کر لیا گیا۔ یہ منصوبہ (پروجیکٹ) اتنا کامیاب ہوا کہ جلد ہی بدھ مت نے عام لوگوں میں، حتٰی کہ مشرقی ترک اقلیم کے سپاہیوں تک میں مقبولیت حاصل کرلی۔
تجزيہ اور خلاصہ
وسطی ایشیا کی تاریخ کا ایک مشترکہ وصف اس علاقے کی نئی سلطنتوں کے بانیوں کا اپنے عوام کو متحد کرنے کے لیے ایک اچھی طرح قائم کیے جانے والے، اچھی طرح منظم کیے جانے والے غیرملکی مذہب کو ریاست کے سرکاری مذہب کے طور پر اختیار کرنا ہے۔ ایسا بہت تواتر کے ساتھ ہوتا رہا جب ان کی دیسی مذہبی روایتیں یا تو مکمل طور پر عدم مرکزیت کا شکار ہوگیئں یا پھر ان کی قیادت ایسے با اثر رجعت پسند حلقوں کے ہاتھ آگئی جو نئی حکومت کے خلاف تھے۔ جس غیرملکی طاقت کا مذہب وہ اختیار کرتے تھے، بہت زیادہ مضبوط نہیں ہوسکتی تھی، ورنہ نئی مملکت کو (اس کے ہاتھوں) اپنی شناخت اور آزادی کے کھو جانے کا خطرہ درپیش ہوسکتا تھا۔
اس طرح، مشرقی ترک سغدیائیوں کی طرف مائل ہوئے، ہان چینیوں کی طرف نہیں، تا کہ وہ اپنی سلطنت کو متحد کرسکیں۔ اس انتخاب کا ایک اور سبب، بلاشبہ یہ تھا کہ سغدیائی سوداگروں نے صحراؤں کے باشندے، خانہ بدوش ترکوں کو اپنی مفتوحہ شاہراہ ریشم کی معنویت سمجھا دی تھی اور انہیں ان کی اہمیت کا قائل کر دیا تھا۔ ترک حکمرانوں نے فوراً یہ سمجھ لیا کہ سغدیائیوں کے ساتھ یکجہتی خود ان کے لیے زبردست معاشی فائدے کی بات ہوگی۔
مزید برآں، اگرچہ سغدیائیوں کا خاص مذہب مانویت تھا، بدھ مت نہیں، (پھر بھی) مشرقی ترک اپنے مذہب کو متحد کرنے کے لیے ثانی الذکر کی طرف متوجہ ہوئے، اول الذکر کی طرف نہیں۔ یہ شاید اس وجہ سے تھا کہ۵۷۰ء کی دہائی میں شمالی ہان چین میں، عارضی طور پر ہزیمت کے تجربے سے گزرنے کے باوجود، اس دور میں بدھ مت ہی علاقے کا سب سے طاقت ور مذہب تھا۔
مشرقی ترکوں کے نئے مذاہب کا انتخاب کرنے کے پیچھے جو دانش مندی تھی اسے نئی تقویت اس وقت ملی جب ۵۸۹ء میں سوئی سلسلۂ سلاطین کے بانی، ونڈی (ونٹی) کو، بدھ مت کے پرچم کے پیچھے فتح کا جشن برپا کرتے ہوئے، ہان چین کو پھر سے متحد کرنے میں کامیابی نصیب ہوئی۔ اس واقعے کے ذریعے ہندوستان کے اس مذہب نے ایک بار پھر ایک حکمراں خاندان کے سلسلے کو مستحکم کرنے میں اپنی فوق فطری طاقتوں کا اظہار کیا۔ اسی طرح اس مذہب پر آپ اپنی ہی زبان میں اور سغدیائی رسم الخط میں عمل درآمد کے فیصلے کے پیچھے، ترکوں کی جو دانش مندی چھپی ہوئی تھی، اس کی دوبارہ تصدیق ہوتی ہے، کیونکہ (اپنے ان اقدامات اور فیصلوں سے) اس طرح انہوں نے یہ دکھا دیا کہ شمالی ہان چین کے طول وعرض میں جس "سوئی" فوجی اجتماع کا اہتمام کیا گیا تھا، وہ انہیں ختم نہیں کرسکی۔
جب اس کے سو سے زیادہ برسوں کے بعد، تون یوقوق نے دوسرے مشرقی ترک قاغانوں کو اس بات پر قائل کر دیا کہ وہ بدھ مت سے دست بردار ہوکر تینگریت اور (ترکی) ترکیائی شمن پرستی کی روایت سے مربوط رسموں اور آداب کی طرف پھر سے مراجعت کریں، تو اس کا خاص سبب یہی تھا کہ بودھوں نے تانگ چین کو ۶۳۰ء کی دہائی میں پہلی مشرقی ترک حکومت کو ختم کرنے کی اجازت دے کر اپنے آپ کو کمزور ثابت کر دیا تھا۔ اس طرح فوجی اور سیاسی مفاد کے لیے ماورائی (اور فوق تجربی) طاقت مہیا کرنے میں کامیابی ہی خاص معیار کی صورت میں رونما ہوتی ہے، جس کا استعمال پہلے ترکوں نے اور بعد میں ترکیائی اور منگولیائی باشندوں نے، ایک مذہب کا انتخاب کرنے کی غرض سے کیا تھا۔