چین میں عام مذہبی حالات
عوامی جمہوریۂ چین میں پچھلے دو سال، یعنی ۱۹۹۴ء سے ۱۹۹۶ء کے دوران مذہبی حالات بد سے بدتر ہوتے گئے۔ عام طور پر پہلے سے زیادہ پابندیاں عاید کر دی گئیں۔ مذہبی سرگرمیوں اور تقریروں کو مندر، مسجدوں اور گرجا گھروں اور اسکولوں تک، قطعی طور پر محدود کر دیا گیا اور دوسری جگہوں پر سختی کے ساتھہ عام اور نجی تقریروں کی ممانعت کر دی گئی۔ صرف چیگونگ جو کہ ایک قسم کا مارشل آرٹ اور جسمانی ورزش ہے اوریتوانائ کی سازبازی ہے۔ اسے سکھانے کی عام اجازت ہے۔ یہ بے انتہا مقبول ہے جس سے لوگوں میں روایتی تہذیب سے لگاؤ اور روحانیت سے شغف ظاہر ہوتا ہے۔
تبتی بدھ مت
دنیا کے تمام مذاہب میں اس وقت بدھ مت سب سے زیادہ مشکلات سے دوچار ہے، خاص کر بدھ مت کی تبتی روایت، یا پھر وہ روایت جو تبتی خود مختار علاقہ میں رائج ہے۔ تبتی خانقاہوں میں راہبوں اور راہباؤں کی تعداد حکومت کی طرف سے طے کر دی گئی ہے اور اس تعداد سے زائد راہبوں کو جو پچھلے دو برس سے خانقاہوں میں کام کر رہے تھے، اب الگ کر دیا گیا ہے۔ حالانکہ اس پالیسی کا نفاذ تبتی خود مختار علاقہ میں جتنی سختی سے کیا گیا تھا، اتنی سختی امدو (چینگهای) علاقے میں نہیں برتی گئی تھی۔ پنچن لامہ (۱۹۸۹ء - ۱۹۳۸ء) نے جو پانچ کالج قائم کئے تھے اب ان میں سے تبتی روایت کے بس دو سرکاری بودھ کالج، ایک بیجنگ اور ایک لبرانگ (گانسو) میں باقی رہ گئے ہیں اور ان میں بھی کمیونس ٹ نظریہ سکھانے پر انتظامیہ کو مجبور کر دیا گیا ہے۔
۱۹۹۶ء کے موسم گرما میں تبتی خانقاہوں کے بڑے راہبوں اور قائدین کو بیجنگ کے تبتی بودھ کالج میں سیاسی تربیت اور تلقین کی غرض سے تین ماہ کے ایک منضبط کورس میں بلایا گیا تھا۔ انھیں ہدایت دی گئی کہ اگروہ اپنے وطن کو "انتشار" سے بچانا اور اپنے "رفیع الشان وطنی اتحاد" کو قائم رکھنا چاہتے ہیں تو دلائی لامہ اور کمیونسم میں سے ایک کا انتخاب کر لیں۔ تبت میں بھی نہ صرف یہ کہ اور راہباؤں کو یہی کرنا ہوتا ہے بلکہ انہیں اس بات پر مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ دلائی لامہ کی تصویریں جو کہ پولیس اور ملٹری کے ذریعے جمع کی گئی ہیں، ان کو پیروں تلے دباتے ہوئے چلیں۔
ہان چینی بدھ مت
ہان چینی بودھ لوگ تبتوں کی طرح اتنے زیادہ چینی مظالم کے شکار نہیں ہیں۔ ان کی سرگرمی بھی صرف ان مندروں تک محدود ہے جنہیں عبادت کے لیے کھلا رکھا گیا ہے۔ بیجنگ کے ۶۰۰ ہان چینی مندروں اور خانقاہوں میں صرف تین ایسے ہیں جو اس زمرے میں شامل ہیں۔ ان کے علاوہ اس طرح کا بس ایک تبتی/منگول مندر اور ہے۔ باقی سب عجائب خانے ہیں۔ ابکے برس سالانہ، گوان-یئن، (آوالوکیت-ایشور) کی تقریب کے دن تقریباً ۲۰۰۰ لوگوں نے بیجنگ کے سب سے بڑے بودھ مندر کا درشن کیا جو گوانگچی-سہ میں واقع ہے۔ چین کی بودھ انجمن بھی وہیں پر ہے۔ بہر حال، عام طور پر قمری مہینے کے کچھہ خاص مذہبی اہمیت کے دِنوں میں ۱۰۰ کے آس پاس لوگ لوبان کا چڑھاوا دینے کے لیے آتے ہیں، اور باقی ماندہ دنوں میں چند ہی شردّھالو دکھائی دیتے ہیں۔ اس مندر/خانقاہ میں راہبوں کی تعداد صرف ۳۰ تک محدود ہے۔ حالانکہ مذہبی رسومات دن میں دو بار ایک ایک گھنٹے کے لیے ادا کی جاتی ہے۔ اور باقی اوقات میں راہب لوگ مندر کی دیکھہ بھال کا کام کرتے ہیں۔ پڑھنے پڑھانے کا کوئی کام نہیں ہوتا ہے کیونکہ کوئی استاد نہیں ہے۔ راہب لوگ اپنے طور پر مطالعے کی کوشش کرتے ہیں۔ ۱۹۸۸ء میں اپنے استاد کے انتقال سے قبل یہ لوگ ایک ساتھہ مراقبہ کرنا سیکھتے تھے اور اس کی مشق بھی کرتے تھے۔ اب انہوں نے اس مجموعی مشق کو ختم کر دیا ہے، جب کہ کچھہ لوگوں نے اپنے کمرے میں اس کو جاری رکھا ہے۔ مراقبہ کی تربیت دینے والے استاد ایک بزرگ ہیں جو کبھی کبھار ہی آ پاتے ہیں چونکہ ان کو اس طرح کے تقریباً ۲۰ مندروں/خانقاہوں میں اپنی خدمات انجام دینی ہوتی ہیں۔
ہر سال کم و بیش آٹھہ چینی راہبوں کو بیرون ملک جا کر پڑھائی کرنے کی اجازت دی جاتی ہے، اور یہ راہب زیادہ تر سری لنکا جاتے ہیں جہاں بدھ مت کی شکل چینی روایت سے بالکل مختلف ہے۔ اگرچہ ہان چینی لوگوں کے اندر بدھ مت سے کافی دلچسپی پائی جاتی ہے تاہم، حکومت باقاعدہ اسکولوں یا یونیورسیٹیوں میں اِس کو پڑھانے کی اجازت نہیں دیتی۔ نئے مندرتعمیر کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی اور پرانے مندروں کی مرمت کی رفتار دھیمی ہے۔ سرکار کی طرف سے یہ وجہ بتائی جاتی ہے کہ مندر بنانے کے لیے جو پیسے جمع کیے جاتے ہیں لوگ بڑے پیمانے پر ان کا غبن کر دیتے ہیں۔
بیجنگ کا سرکاری چینی بودھ اسکول فایون-سہ مندر/خانقاہ میں واقع ہے۔ یہ اُن پانچ اہم کالجوں میں سے ہے جنہیں ہان چینی روایت کے راہبوں کی تربیت کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ باقی کالج شنگھائی، نانجنگ اور جیؤ-ہوا میں ہیں جو انہوئی میں واقع ہے، اور منگنان میں ہیں جو فوجیان میں واقع ہے۔ ہان بدھ مت شنگھائی میں سب سے زیادہ طاقتور ہے، خاص طور پر فوجیان میں، اس معاملے میں سب سے زیادہ سرگرم علاقہ ہے۔ بیجنگ کے کالج میں ۸۰ راہبوں ہیں جو ایک چار سالہ نصاب کی تکمیل کر رہے ہیں۔ باقی کالجوں میں بھی تعداد لگ بھگ اتنی ہی ہے۔ اس کے علاوہ دیگر شہروں میں کچھہ تربیتی اسکول بھی ہیں۔ ان میں طالب علموں کی تربیت کا زیادہ حصہ سیاسی تلقین پر مبنی ہے۔
بیجنگ کی عوامی بودھ انجمن میں دو ستّر سالہ ہان چینی اساتذہ ہیں جو بالخصوص تبتی روایت کے ماننے والے ہیں اور اسی کا درس دیتے ہیں۔ اس انجمن کے تقریباً ۱۲۰۰ کارکن ہیں۔ ان کے پاس بس ایک بہت چھوٹی سی خستہ حال جگہ ہے، جبکہ ان لوگوں نے اپنی ہی زمین پر ایک نئی عمارت کی تعمیر کے لیے کافی سرمایہ اکٹھا کر لیا ہے۔ حکومت ان کو اس کی اجازت نہیں دیتی۔
چینی لوگوں نے نیپال کے لمبینی میں، جو کہ بودھ کی جائے پیدائش ہے، ایک مندر تعمیر کیا ہے اور پہلی مرتبہ حکومت چینی بودھ لوگوں کو اس مندر کی رسم اجرا کے موقعہ پر ہندوستان اور نیپال میں زیارت کے لیے جانے کی اجازت دے رہی ہے۔ یہ تعداد بس ۸۰ تک محدود ہے اور یہ اجازت صرف راہبوں کے لیے ہے۔ اِن ۸۰ میں سے دس تبتی۔ منگول روایت سے اور باقی سب ہان چینی خانقاہون سے تعلق رکھنے والے ہوں گے۔ مزید براں، تبتی- منگول روایت سے وابستہ راہبوں کو ہندوستان میں واقع زیارت گاہ میں جانے کی اِجازت نہیں دی گئی اِس خدشے کے تحت کہ وہ اگر گئے تو دلائی لامہ سے ملاقات کر لیں گے۔ اور دو ہفتوں کے اس سفر کا مجموعی خرچ ۳۰۰۰ ڈالر ہے جو کہ زیادہ تر لوگوں کی دسترس سے باہر ہے۔
اسلام
اسلام کے ساتھہ حالات بالکل مختلف ہیں۔ اگرچہ چینی مسلمانوں کی تعداد، بشمول ویغور اور ھُوِئی کے، ۲۰ ملین ہے، اُن کے پاس نو بڑے کالج ہیں اور ہر کالج میں طالب علموں کی تعداد ۱۰۰ سے زائد ہے۔ نہ صرف یہ کہ بیجنگ میں ایک اسلامک کالج ہے، بلکہ وہاں چینی اسلامی انجمن کے صدر دفاتر بھی ہیں۔ نے بودھ کو دی گئ سہولتوں کے مقابلے میں بیجنگ میں اسلامی کالج اور انجمن کے پاس ایک نہایت کشادہ اور ساز و سامان سے بھی اچھی طرح آراستہ عمارت ہے۔ ان دنوں ۱۹۵۰ء کی دہائ کے وسط میں بنائ گئی اس عمارت کی مرمت کی جا رہی ہے۔ اس کی ابتدائی تعمیر اور مرمت دونوں میں سرکاری مالی امداد شامل ہے۔ ینچوانکالج، جو ُوِئی لوگوں کے خود مختار علاقہ ننگزیا میں واقع ہے، سب سے بڑا ہے۔ سعودی عرب کی مالی امداد سے بنا ہوا یہ کالج نہایت شاندار ہے۔ بدھ مت کے برعکس ۰۵ چینی مسلم طلباء بیرون ملک اسلام کا مطالعہ کرنے ہر سال مصر، سعودی عرب، پاکستان، ملیشیا اور لیبیا جاتے ہیں۔
چین میں ۴۲۰۰۰ مسجدیں ہیں اور بودھ مندروں کے برعکس یہ تمام مسجدیں عبادت کے لیے کھلی ہوئ ہیں، اور یہ صرف عجائب خانہ بن کر نہیں رہ گئی ہیں۔ ان میں سے ہر ایک میں ایک امام مقرر ہے جو عام لوگوں کو اسلام کی تعلیم دینے کے لیے درسی جماعتوں کا اہتمام کرتا ہے۔ بہت سے بدھ مت کے پیروکار سے زیادہ تعلیم یافتہ مسلمان ثقافتی انقلاب سے بچ گئے۔ اس سال چھہ ہزار چینی مسلمان حج کے لیے مکّہ جا رہے ہیں جس کی اجازت ثقافتی انقلاب کے بعد سے دے دی گئ ہے۔ ۴۰ دنوں کے سفر پر مشتمل اس سفر کی قیمت ۲۵۰۰ ڈالر ہے۔
چین کی حکومت نے دلائی لامہ کوعوام کا دشمن نمبر ایک قرار دیا ہے، کیونکہ وہ دلائی لامہ کو "انتشار" برپا کرنے والی ہر تحریک کے پیچھے سرگرم سمجھتی ہے۔ تبتی بدھ مت پر جو سختی عائد کی گئ ہے، اُسے تقدس مآب کی حمایت پر گرفت سمجھا جانا چاہیئے۔ اس کے علاوہ ارباب اقتدار بالعموم بدھ مت سے بھی خوفزدہ ہیں۔ چونکہ چین کے مسلمانوں نے لوگوں کو حلقہ اسلام میں شامل کرنے کے سلسلے میں کسی طرح کی سرگرمی نہیں دکھائی ہے، اس لیے انہیں ہان چینی عوام کے لیے جو پوری آبادی کا ۹۲ فیصدی حصّہ ہیں، کسی طرح کا خطرہ نہیں سمجھا جاتا ہے۔ بہر حال چونکہ بیشتر ہان لوگ اپنے آپ کو ایک حد تک بدھ مت سے وابستہ کرتے ہیں اس لیے بدھ مت کو کمیونسم اور ریاست کے تئیں عام آبادی کی وفاداری اور اطاعت گذاری کو غصب کرنے کے سلسلے میں ایک براہ راست خطرہ سمجھا جاتا ہے۔