پہلے مسلم معلم کی آمد کے وقت کا تبت

جس وقت الصالت بن عبد اللہ الحنفی نے تبت میں قدم رکھا، وہاں پہلے سے شاہی دربارمیں دو مذہبی روایات موجود تھیں، ایک تو نام نہاد "بون" اور دوسری "بدھ مت"۔ بون تبت کا دیسی عقیدہ تھا، جب کہ دوسرے کا تعارف تبت کے پہلے بادشاہ سونگ تسن گامپو (دور حکومت ۶۴۹۔۶۱۷ء) نے کروایا تھا۔ روایتی تبتی تذکروں کے مطابق ان دونوں کے درمیان بہت رقابت تھی۔ جدید تحقیق سے اور زیادہ پیچیدہ صورت حال سامنے آئی ہے۔

منظم بون مذہب اور دیسی تبتی روایت

گیارہویں صدی عیسوی کے بعد کے دور تک، جب اس میں اور بدھ مت میں بہت سے مشترک عناصر پائے جاتے تھے، بون مذہب ایک منظم عقیدے کی حیثیت اختیار نہیں کر سکا تھا۔ اس سے پہلے تبت کی قدیم بودھی دیسی روایت کو بعض اوقات مبہم طور پر "بون" کا نام بھی دیا جاتا تھا، جو بنیادی طور پر، ایک شاہی مسلک کی حمایت کی خاطر کچھ خاص رسوم پر مشتمل تھی جیسے کہ شاہی میّتوں کے لیے اور عہد ناموں کی تکمیل کے وقت، بڑے پیمانے پر قربانیوں کی ادائیگی۔ اس روایت میں علم غیب، نجوم، نقصان پہنچانے والی روحوں کو راضی رکھنے کے لیے علاج معالجے کی بعض رسموں اور جڑی بوٹیوں کے ذریعے علاج معالجے کے کچھ نظام بھی شامل تھے۔

اپنی تاریخی دستاویزات کے مطابق، بون مذہب کی تنظیم یافتہ شکل تاگزگ کے مشرقی سرے پر واقع اولمو لونگ-رنگ کی داستانوی سرزمین سے تعلق رکھنے والے ایک معلم شین راب سے شروع ہوتی ہے۔ اسی معلم نے ماضی بعید میں، یہ مذہب (بون) ژانگ ژنگ تک پہنچایا۔ ژانگ ژنگ ایک پرانی قدیم ریاست تھی جس کا پایہ تخت مقدس کیلاش پربت کے قریب مغربی تبت میں واقع تھا۔ کچھ جدید روسی اسکالر، لسانی تجزیے کا سہارا لیتے ہوئے، اولمو لونگ-رنگ کو "ایلم" کا مترادف بتاتے ہیں جو قدیم مغربی ایران میں ہے اور باختر کے حوالے سے تاگزگ کو "تاجک" سے ملا دیتے ہیں۔ بون مذہب کے مؤرخین کے اس اصرار کو تسلیم کرتے ہوئے کہ اس کے بودھی مماثل پہلوؤں کے پیش نظر، اس عقیدے کو سونگ تسن گامپو پر زمانی سبقت حاصل ہے، ان اسکالروں نے یہ حقیقت بغیر بحث کے تسلیم کر لی ہے کہ اس مذہب سے وابستہ نظام کو اولین توانائی باختر کے ایک بودھی معلم سے ژانگ ژنگ کی طرف جاتے وقت ملی تھی۔ اس نے یہ سفر کسی وقت، پہلے ہزاریے کی شروعات کے دور میں کیا تھا، شاید ختن یا گلگت اور کشمیر کے راستے سے۔ ژانگ ژنگ نے اپنے ان دونوں پڑوسی علاقوں کے ساتھ، روایتی طور پر، گہرے معاشی اور ثقافتی رشتے قائم کر رکھے تھے۔ ان بون تذکروں سے اتفاق کرتے ہوئے، وہ اس کی وضاحت یوں کرتے ہیں کہ اس معلم نے ژانگ ژنگ میں قدم جمانے کے بعد، بہت سے بودھی مماثل اوصاف اور عناصر کو مقامی دیسی رسوم کے ساتھ خلط ملط کر دیا۔

دوسرے علما بون مذہب کے ماخذ کا تذکرہ محض زبردستی من گھڑت طور پر چودہویں صدی سے جوڑتے ہیں جس کے پیچھے بہت سے عوامل یکجا ہو گئے تھے۔ اولمو لونگ-رنگ کا بون مذہب کو اس کے مشرق میں پھیلانا ویسا ہی ہوگا جیسے کہ بدھ مت کو تبت سے لے جا کر منگولیا اور تاگزگ میں پہنچا دینا۔ اس کا مطلب ہے واقعتاً "چیتوں اور تیندووں کے علاقے" میں جا بسنا یا دوسرے لفظوں میں، منگولوں اور خیتان والوں کی غضب ناک سرزمین پر ٹھکانا بنا لینا۔

بہر حال، تاگزگ (جسے "تازی" یا "تازگ" کے طور پر بولا جاتا ہے)، سنسکرت کی اصطلاح "تایی" کا تبتی نعم البدل ہے۔ کالچکر لٹریچر میں اس لفظ کا استعمال غیر انڈک (غیر ہندی) حملہ آوروں کے لیے کیا جاتا ہے۔ اسی طرح سنسکرت لفظ "تایی" یا تو عربی اور آرامی اصطلاح "طے (جمع طیایہ، طیایے) یا پھر اس کی جدید فارسی شکل "تازی" کا بدلا ہوا صوتی روپ ہے۔ "طیایہ" اسلام کی آمد سے پہلے عرب قبیلوں میں طاقتور ترین قبیلہ تھا اور طیی یا "طیایہ" اسی وجہ سے، شامی اور عبرانی میں پہلی صدی عیسوی کے عربوں میں ایک عام نام کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ "تازی" کا جدید ایرانی روپ ایران کے عرب حملہ آوروں کے لیے مروج ایک اصطلاح ہے، مثال کےطور پر، آخری ساسانی حکمراں یزدگرد سوئم (دور حکومت ۶۵۱۔۶۳۲ء) کے لیے جو بادشاہ سونگ تسن گامپو کا ایک ہم عصر تھا۔

یہاں یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ ژانگ ژنگ نے "تاگزگ" کی اصطلاح وسطی فارسی کے "تازگ" سے اخذ کی جس کا استعمال ساسانی سلطنت (۶۵۰۔۲۲۶ء) کے ابتدائی دور میں مروج تھا اور جو سلطنت صرف ایران تک ہی نہیں، باختر تک بھی پھیلی ہوئی تھی۔ ساسانی لوگ، بہر حال، کٹر زرتشتی تھے اور باختر میں واقع بلخ ہی زرتشت کی جائے پیدائش تھا۔ اس کے علاوہ، ساسانیوں نے باختر میں بدھ مت کو برداشت بھی کر لیا جہاں یہ مذہب پچھلی کئی صدیوں سے اچھی طرح قائم ہو چکا تھا۔ چونکہ بون مذہب میں کئی ایسی خصوصیات ہیں جو زرتشتی کے ساتھ ساتھ بدھ مت سے بھی مماثلت رکھتی ہیں، اس لیے "بون" کے مؤیدوں کا یہ اصرار ہے کہ اس کے بودھی مماثل پہلو بادشاہ سونگ تسن گامپو کے وقت سے پہلے کے ہیں اور تاگزگ سے ماخوذ ہیں، قرین قیاس محسوس ہوتا ہے۔

یہ بات بہ ظاہر انہونی سی لگتی ہے کہ ماقبل سونگ تسن گامپو ژانگ ژنگ نے، ان علاقوں کے لیے جن پر ساسانی حکومت کر چکے ہوں، اسی لفظ کو اختیار کر لیا ہوگا جو ساسانی لوگ عربوں کے لیے استعمال کرتے تھے۔ یہ واقعہ بہت ناقابل یقین ہے کہ ژانگ ژنگ نے اسی نام "تاگزگ" سے بجائے خود عربوں کو بھی موسوم کیا ہو۔ کچھ بھی ہو، عرب امویوں نے ۶۵۱ء تک ساسانیوں کے قبضے سے ایران کو نہیں نکالا تھا، نہ ہی وہ ۶۶۳ء تک باختر کو اور سغدیہ میں واقع بخارا کو اس کے کچھ برس بعد تک فتح کر سکے تھے۔ یہ (واقعہ) تو بادشاہ سونگ تسن گامپو کے ذریعے ژانگ ژنگ کی فتح کے کئی دہائیوں بعد کا ہے۔ چنانچہ، اگر یہ نام "تاگزگ" ماقبل سونگ تسن گامپو ژانگ ژنگ میں مروج تھا اور اسے اس کے بعد، تبتی میں منتقل کر لیا گیا، تو اس کا استعمال صرف ان ایرانی ثقافتی علاقوں کے نشاندہی کے لیے ہوا ہوگا جو بعد کے زمانوں میں عربوں کے زیر اقتدار آئے یا جن میں تبتوں نے بعد کے زمانوں میں عربوں سے جنگ کی۔ یہ بات معقول نہیں دکھائی دیتی۔

اس بات کاقوی امکان ہے کہ آٹھویں صدی عیسوی کے اوائل میں، جب باختر میں عربوں سے تبتوں کا رابطہ قائم ہوا، اس وقت ان کے لیے یہ نام تاگزگ انھوں نے سیکھا ہوگا، تبتی دربار سے وابستہ بون حلقے نے وہیں سے یہ نام لے لیا اور بطور نظیر اس کا اطلاق باختری علاقے پر کر دیا جہاں سے ان کا مذہب ماخوذ تھا۔ یہ نظریہ اس دلیل کورد نہیں کرتا کہ بون مذہب باختری مآخذ سے لیا گیا ہے۔

مزید برآں، اگر اس نام تاگزگ کے آغاز سے متعلق یہ نظریہ درست ہے، تو پھر تبتی زبان میں اس لفظ کی شمولیت، سنسکرت کے کالچکر لٹریچر میں اس اصطلاح کے سنسکرت لفظ "تایی" سے ترجمہ کیے جانے سے پہلے کی بات ہوگی۔ تبتی زبان میں سنسکرت کے کالچکر لٹریچر سے اولین ترجمے صرف وسط گیارہویں صدی میں کیے گئے؛ جب کہ وہ لٹریچر جس سے تبت میں تاگزگ کی اصطلاح کا تعارف ہوا، ۱۰۶۴ء کا ہی واقعہ ہے، اور اسی واقعہ سے کال چکر لٹریچر میں تبتی ترجموں کی شروعات ہوتی ہیں۔

نواں نقشہ: ابتدائی تبت
نواں نقشہ: ابتدائی تبت

سونگ تسن گامپو کا ژانگ ژنگ سے رشتہ

سونگ تسن گامپو یارلنگ کا بتیسواں حکمراں تھا جو وسطی تبت کی ایک چھوٹی سی مملکت تھی۔ اپنی مملکت کو وسعت دینے اور ایک وسیع و عریض سلطنت کو قائم کرنے کے عمل میں، جو باختر کی سرحدوں سے ہان چین کی سرحدوں تک اور نیپال سے مشرقی ترکستان کی سرحدوں تک پھیلی ہوئی ہو، اس نے ژانگ ژنگ پر فتح حاصل کر لی۔ اس کی تاریخی دستاویزات کے مطابق، ایک زمانے سے ژانگ ژنگ نے تبت کے پورے مرتفع میدان کا احاطہ کر رکھا تھا۔ بہر نوع، اپنی اس شکست کے وقت اس میں صرف مغربی تبت شامل تھا۔

سر دست ہم ژانگ ژنگ کی بعید ترین سرحدوں، یا اپنی سلطنت کے نقطہ عروج پر ژانگ ژنگ کے بودھی مماثل خصائص اور ان کے ممکنہ آغاز کے معاملات سے قطع نظر کرتے ہیں۔ تاہم، سونگ تسن گامپو کے پیشرو یارلنگ راجاؤں کے مقبروں سے جو شہادتیں دستیاب ہوئی ہیں ان کی روشنی میں معقول طور پر یہ مفروضہ قائم کیا جا سکتا ہے کہ کم از کم ژانگ ژنگ سے وابستہ درباری رسومات کا نظام، بادشاہ کے وطنی علاقے اور مغربی تبت کے مفتوحہ علاقے، دونوں میں مشترک تھا۔ بدھ مت کے بر عکس، ژانگ ژنگ رسومات، بدیسی رواجوں اور عقاید کے نظام پر مبنی نہیں تھیں، بلکہ ہمہ تبتی وراثت کا ایک جزو لا ینفک یا مکمل حصّہ تھیں۔

اپنے سیاسی اتحادوں اور اپنے اقتدار کی حیثیت کو مستحکم کرنے کے لیے، سونگ تسن گامپو نے پہلے تو ژانگ ژنگ کی راج کماری سے، پھر اپنی حکومت کے آخری دور میں، تانگ چین اور نیپال کی راج کماریوں سے بیاہ رچا لیا۔ ژانگ ژنگ کی راج کماری سے شادی کے بعد اس نے اس کے باپ لگ نیی-ہیا کو، جو آخری ژانگ ژنگ راجہ تھا، قتل کروا دیا۔ اس واقعے کے ساتھ شاہی مسلک کی دیسی رسوماتی حمایت کا رخ تبدیل ہو کر اب خود اس پر اور اس کی تیزی کےساتھ پھیلتی ہوئی مملکت پر اثرانداز ہوا۔

بدھ مت کا تعارف

سونگ تسن گامپو نے تبت سے بدھ مت کا تعارف اپنی ہان چینی اور نیپالی بیگمات کے اثر کی وساطت سے کروایا۔ مگر، بہر حال، اس مذہب نے وہاں جڑ نہیں پکڑی، نہ ہی اس پورے عرصے میں یہ عام آبادی تک پھیل سکا۔ کچھ جدید مؤرخ سونگ تسن گامپو کی نیپالی بیوی کی تاریخیت پر سوال اٹھاتے ہیں، لیکن اس عہد کی تعمیراتی شہادتیں اس امر کی نشاندہی کرتی ہیں کہ اس وقت کم از کم ایک خاص حد تک نیپال کا ثقافتی اثر یقیناً پڑا تھا۔

اس بدیسی عقیدے کا خاص مظہر تیرہ بودھی مندروں کا وہ سلسلہ تھا جس کی تعمیر بادشاہ نے کروائی تھی، اپنی مملکت، بہ شمول بھوٹان کے چاروں طرف خصوصی طور پر منتخب کی جانے والی کچھ رملی جگہوں پر۔ اس نقشے کے مطابق تبت کو ایک ایسی دیونی کے طور پر دیکھا گیا تھا جو پیٹھ کے بل دراز ہے اور اس کے ارد گرد کے مندروں کی جگہیں چینی علم طب کی روشنی میں اکیوپنکچر کے ضابطوں کے حساب سے چنی گئی تھیں جو جا بجا اس دیونی کے بدن پر سوئیوں کی مثال تبت کی جاتی تھیں۔ سونگ تسن گامپو کو امید تھی کہ اس طرح وہ مقامی کینہ توز بد روحوں کی طرف سے کسی بھی مخالفت کو بے اثر کر دے گا۔

ان تیرہ بودھی مندروں میں سب سے بڑے مندر کی تعمیر شاہی راجدھانی سے اسی میل کی دوری پر کی گئی تھی، اس مقام پر جو بعد میں "لہاسا" (دیوتاؤں کی جگہ) کےنام سے جانا گیا۔ اس وقت اسے "راسا" کہتے تھے (بکریوں کی جگہ)۔ مغربی علما کے قیاس کے مطابق بادشاہ کو اس بات پر آمادہ کیا گیا کہ وہ راجدھانی کے مقام پر مندر نہ بنوائے تاکہ روایتی دیوتاؤں میں ناراضگی نہ پیدا ہو۔ یہ واضح نہیں ہے کہ ان بودھی مندروں میں رہتا کون تھا، مگر شاید وہ (رہنے والے) بدیسی بھکشو تھے۔ پہلے تبتی خانقاہ نشیں جنھیں اپنے فرمان جاری کرنے کا حق دیا گیا، لگ بھگ ڈیڑھ صدی کے بعد مقرر کیے گئے۔

گرچہ مذہبی تاریخوں میں بادشاہ کو بودھی عقیدے کے خیر مجسم کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور ہر چند کہ بودھی رسوم کی ادائیگی، بلا شبہ، اسی کے فائدے کے لیے کی جاتی تھی، لیکن انھیں شاہی دربار کی کفالت میں انجام دی جانے والی مذہبی تقریب کے کسی خصوصی روپ کی حیثیت حاصل نہیں تھی۔ سونگ تسن گامپو اپنے دربار میں دیسی روایتوں کے حامل پروہتوں اور ان کے حامی اشرافیہ کو ہی رکھتا تھا اور "راسا" کے خاص مندر میں بودھیوں کے ساتھ ساتھ صرف مقامی دیسی دیوی دیوتاؤں کے مجسمے بنوانے کے احکام جاری کرتا تھا۔ اس کے پیش روؤں کی طرح، خود وہ اور اس کے تمام ورثا، ماقبل بودھی، قدیمی ہمہ تبتی رسموں کے مطابق یارلنگ میں سپرد خاک کیے گئے۔ بہت کچھ، چھے صدیوں بعد کے چنگیز خاں کی طرح تبتی بادشاہ نے صرف اپنی دیسی روایات کا ہی خیر مقدم نہیں کیا، بلکہ ایک بدیسی مذہب "بدھ مت" کو بھی خوش آمدید کہا جس سے بادشاہ کو ایسی مذہبی رسوم کی حصولیابی کی توقع تھی جو اس کے اختیارات میں اضافے اور اس کی مملکت کے فائدے کا وسیلہ بن سکیں۔

ختنی رسم خط کا اپنایا جانا

اپنے سیاسی اقتدار کو فروغ دینے کی غرض سے کسی بدیسی اختراع کو کام میں لانے کی سونگ تسن گامپو کی پالیسی کا مزید ثبوت، تبتی زبان کے لیے ایک رسم خط کا اپنایا جانا ہے۔ ختن، گلگت اور کشمیر سے اقتصادی اور تہذیبی رشتوں کی ژانگ ژنگ کی لمبی تاریخ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، بادشاہ نے تونمی سمبھوتا کی قیادت میں ایک ثقافتی وفد اس علاقے کی طرف روانہ کیا۔ کشمیر میں اس وفد کی ملاقات ایک ختنی معلم، لی چن سے ہوئی۔ "لی" کا تبتی لفظ جو ختن کے لیے مستعمل ہے، اس معلم کے وطن مولود کی طرف صاف اشارہ کرتا ہے، اس کی مدد سے، وفد نے تبتی زبان کو لکھنے کے لیے حروف تہجی وضع کیے جو ہندوستان کے عمودی گپت رسم خط کے ختنی تصرف پر مبنی تھے۔ تبتی تاریخی کتابیں اس نئے رسم خط کی تشکیل کے مقام کو اس کے نمونے یا ماڈل کی ابتدا کے مقام میں الجھا دیتی ہیں، اور اس طرح یہ تشریح کرتی ہیں کہ لکھی جانے والی تبتی زبان کشمیری حروف پر مبنی ہے۔

جدید تبتی علما کی دریافت یہ ہے کہ اس تشکیل سے پہلے، ژانگ ژنگ کا ایک رسم خط جس سے تحریر میں مدد لی جاتی تھی پہلے سے موجود تھا اور یہ کہ تبتی زبان کے حروف کو خط شکستہ میں لکھے جانے کی بنیاد اسی رسم خط نے فراہم کی۔ بہر نوع، ژانگ ژنگ خط تحریر کا نمونہ (ماڈل) بھی ختنی حروف تہجی رہے ہوں گے۔

سونگ تسن گامپو نے ہی بدیہی طور پر یہ فرمان جاری کیا تھا کہ سنسکرت کے ایک بودھی متن کے ترجمے کےلیے، جو دو صدیوں پہلے ہندوستان سے ایک تحفے کی شکل میں یارلونگ پہنچا تھا، اسی نئے خط تحریر کا استعمال کیا جائے۔ بہر نوع، اس وقت ترجمے کی خاص سرگرمی چینی علم نجوم اور چینی ونیز ہندوستانی طبی متون سے متعلق تھی، اور یہ عمل خاصا محدود تھا۔ بادشاہ نے تحریر کے اس نظام کا استعمال، بنیادی طور پر، میدان جنگ میں اپنے جرنیلوں تک خفیہ فوجی پیغام رسانی کے لیے کیا۔ اس کے بعد، ایسے ہی مقاصد کے لیے، ژانگ ژنگ کا اشاروں کی زبان میں اپنے پیغامات قلم بند کرنے کا رواج شروع ہوا۔

نام نہاد "بون" حزب اختلاف

تبتی شاہی دربار میں، ایک گروہ سونگ تسن گامپو کی بدھ مت کی سرپرستی اور بدھ مت پر اس کے بھروسے کا مخالف بھی تھا۔ بلا شبہ، یہی لوگ شاہی راجدھانی کے مقام پر، بلکہ یارلونگ وادی تک میں بڑے بودھی مندر کی تعمیر نہ کیے جانے کے اس کے فیصلے کی پشت پر تھے۔ بعد کی تبتی تاریخوں نے ان لوگوں کو "بون" مذہب کے مجوزین کا نام دیا۔ ایک صدی سے زیادہ عرصے تک، اور اس میں الصالت کے دورے کا وقت بھی شامل ہے، انھوں نے شاہی پالیسی کی زبردست مخالفت کی۔ تبت میں مسلمان مذہبی پیشوا کی ناکامی کو اسی سیاق میں سمجھنا چاہیے۔ لیکن "بون" کے یہ پیروکار جنھوں نے بدھ مت کی مخالفت کی، اور جن پر بعد کے دور میں، بلاشبہ، اتنی سرد مہری کے ساتھ اسلام کے خیر مقدم کی ذمے داری عاید ہوئی، یہ بھلا کون لوگ تھے؟ اور ان کی اس مخاصمت کے اسباب کیا تھے؟

تبتی اسکالرز کے مطابق، لفظ "بون" کا مطلب ہے "افسوں پڑھنا" یا "منتر پھونکنا" جس کا مقصد روحانی طاقتوں کو قابو میں کرنا تھا اور جس کا اشارہ بیس حصوں میں تقسیم ایک پورے نظام معالجہ کی طرف ہے جو علم غیب، علم نجوم، شفا بخشنے والی رسوم اور جڑی بوٹیوں سے بنی دواؤں─ ان سب کا احاطہ کرتا ہے۔

گیارہویں صدی سے پہلے، "بون" ایک منظم مذہب نہیں تھا۔ بعض علما کا بیان ہے کہ اس وقت تک اس بودھی دیسی نظام عقاید اور رسوم کے لیے لفظ "بون" کا استعمال بھی شروع نہیں ہوا تھا جو بیک وقت، چار روایتی شعبہ ہائے علم و فن، یعنی علم غیب، علم نجوم، منتر اور افسوں جس کے ذریعے بیماروں کا علاج کیا جا سکے اور جنگلی جڑی بوٹیوں سے تیار کی جانے والی دوائیں، ان سب کا احاطہ کرتا ہے۔ اس کا اطلاق شاہی دربار کے بس ایک خاص گروہ پر ہوتا تھا۔ گرچہ اس "بون" حلقے کے ساتھ کچھ ایسے پروہت بھی شامل تھے (جنھیں تبتی میں "گشین" کہتے تھے) جن کا تعلق دیسی روایت سے تھا اور ان کے ساتھ طبقہ امرا کے کچھ خاص لوگ منسلک ہو گئے تھے، مگر اس پورے گروہ کا تشخص ان کے مذہبی اعتقادات سے نہیں بلکہ بنیادی طور پر ان کی سیاسی حیثیت سے قائم ہوتا تھا۔ یہ لوگ "غیب دانی" کی دیسی روایت کے ماننے والے تھے، لہٰذا وہ چاہے دربار کے اندر کے ہوں یا باہر کے، یہاں تک کہ خود بادشاہ کو بھی، "بون کا طرف دار یا حامی" نہیں کہا جاتا تھا۔ دربار میں "بون" امرا بھی تھے، جو لازمی طور پر، متذکرہ بالا چاروں روایتی فنون پر بھروسہ نہیں کرتے تھے۔ دیسی روایت کے ہر پروہت تک کو اس گروہ کا فرد نہیں سمجھا جاتا تھا۔ مثال کے طور پر، دربار کے اندر وہ لوگ بھی تھے جو شاہی فرقے کی حمایت کرنے کے لیے کچھ خاص رسمیں انجام دیتے تھے اور بادشاہ کے انتقال پر میت کے روایتی آخری رسوم کی ادائیگی کرتے تھے۔ دربار کے باہر، وہ لوگ تھے جو بد روحوں کو قابو میں کرنے کے لیے غیبی یا معالجاتی رسمیں پوری کرتے تھے۔ ان میں سے کسی کو بھی "بون کے اراکین" کے طور پر نہیں دیکھا جاتا تھا۔

چنانچہ "بون" حلقہ ایک اقتدار دشمن، سخت گیر یا تنگ نظر اور اس سب سے زیادہ، دربار کی ایک خود غرض مفاد پرست اور اجنبیوں سے نفرت کرنے والی متعصب جماعت تک محدود تھا۔ یہ ایک حزب مخالف کے لوگ تھے جو خود اقتدار حاصل کرنا چاہتے تھے۔ بادشاہ کا مخالف ہونے کی وجہ سے، فطری طور پر، یہ لوگ ہر اس بات کے مخالف تھے جس سے شاہی اختیارات کو تقویت ملتی ہو، بالخصوص ایسی صورت میں جب یہ اختیار و اقتدار بدیسی یا غیر ملکی بنیاد رکھتا ہو۔ اسی لیے، بدیسی رسوم اور عقاید کی طرف اس گروہ کا مخاصمانہ رویہ محض مذہبی تنگ نظری اور عدم رواداری کا مظہر نہیں تھا جیسا کہ بعد کے تبتی بودھی مورخوں کا خیال ہے۔ گو کہ ان بون لوگوں نے اپنی بدھ مخالف پالیسی کی سفارشات کو بجا ٹھہرانے کے لیے ہو سکتا ہے کہ مذہبی بنیادیں وضع کر لی ہوں─ مثلاً یہ کہ کسی بودھی عقیدہ رکھنے والے کی موجودگی دیوتاؤں کی ناراضگی اور بربادی لانے کا سبب بن سکتی ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ وہ لوگ تمام تر دیسی مذہبی روایت کے حامی ہیں۔ "بون" حلقے میں بہر حال وہ پروہت شامل نہیں تھے جو بادشاہ کی حمایت کے لیے دیسی رسموں یا ارکان کی ادائیگی کرتے رہے ہوں۔

اس نام نہاد "بون" حلقے کا بودھی مخالف جذبہ بھی ژانگ ژنگ کی بغاوت اور سرکشی کی علامت نہیں تھا۔ مقامی پروہت اور ان کے حامی امرا جن سے حزب مخالف کی تشکیل ہوتی تھی، بلا شبہ وسطی تبت کے رہنے والے تھے، ژانگ ژنگ سے آنے والے غیر مقامی باشندے نہیں تھے۔ ثانی الذکر ایک مقبوضہ علاقہ تھا، سلطنت میں شامل اس کا لازمی حصہ یا اس کا ایک سیاسی ضلع نہیں تھا۔ یہ امر خارج از امکان ہے کہ اس کے قائدین نے شاہی دربار کے معتمد اراکین کے طور پر کبھی کوئی خدمت انجام دی ہو۔

مختصر یہ کہ وہ نام نہاد بودھی مخالف حلقہ "بون" جس نے آگے چل کر مسلمان مذہبی عالم کی آمد کو بے اثر اور ناکام کرنے میں مدد دی، اس کی حیثیت نہ تو کسی خاص مذہبی گروپ کی تھی نہ کسی خاص علاقائی پہچان رکھنے والے گروپ کی۔ یہ حلقہ ایسے افراد پر مشتمل تھا جو یارلونگ میں شاہی دربار کے مخالف تھے اور جنھیں اقتدار کی سیاست سے وابستہ حقائق یا اسباب سے تحریک ملتی تھی۔ وہ ان تمام غیر ملکی رابطوں میں روکاوٹ ڈالتے تھے اور ان سے مزاحم ہوتے تھے جو تبتی بادشاہ کی سیاسی پوزیشن کو مستحکم کرتے ہوں، جس سے خود ان کی اپنی حیثیت کمزور ہوتی ہو اور جو ان کے روایتی دیوتاؤں کو ناراض کرتے ہوں۔ یہاں تک کہ سونگ تسن گامپو کے انتقال کے بعد بھی اس حلقے کی یہ "بدیسی دشمنی" اور ان کے تئیں یہ بے اعتباری اسی طرح بڑھتی رہی۔

بعد کے دو تبتی بادشاہوں کی مملکت

تبتی دربار میں اس "بدیشی دشمن" حلقے کے داخلے کی ممانعت پوری طرح معقول ثابت ہوئی جب اگلے تبتی بادشاہ مانگ سونگ مانگ تسین (دور حکومت ۶۷۶-۶۴۹ء) کی حکومت کے پہلے پانچ برسوں کے دوران، تانگ چین نے تبت پر حملہ کر دیا۔ ہان چینی فوجیں فاصلوں کو عبور کرتی ہوئی "راسا" تک پہنچ گئیں اور اس سے پیشتر کہ پلٹ کر ان پر وار کیا جاتا اور انھیں شکست دی جاتی، انھوں نے زبردست تباہی مچائی۔

اپنی حکومت کے آئندہ برسوں میں، مانگ سونگ مانگ تسین پر ایک دوسرے دھڑے کا ایک طاقتور وزیر حاوی رہا جو سلطنت کو مزید وسعت دینا چاہتا تھا۔ اس وزیر نے "تویوہون" کو فتح کر لیا جو تبت کے شمال مشرق کی ایک بودھی مملکت تھی اور بدھ مت کے ختنی اسلوب کی اور کاشغر کی پیروکار تھی جو ختن ہی کے ثقافتی علاقے کے اندر تھا۔ ۶۷۰ء میں اس نے بجائے خود ختن پر فتح حاصل کی اور ترفان کو چھوڑ کر، تاریم طاس (نشیبی علاقہ) کی بقیہ تمام نخلستانی ریاستوں کو اپنے قبضے میں کر لیا۔ ختنی بادشاہ تانگ کے شاہی دربار کی طرف بھاگ کھڑا ہوا جہاں چینی حکمراں نے اسے تعاون کی پیش کش کی، اس واقعے کی داد دیتے ہوئے کہ اس نے کس طرح تبتوں سے مورچہ لیا تھا۔

ختن میں مرتب کی جانے والی رودادوں کے مطابق، (سرسبز علاقوں میں واقع) نخلستانی ریاستوں پر فتح یابی کے دوران، بہ شمول بودھی خانقاہوں اور درگاہوں کو نقصان پہنچانے کے، تبتوں نے خاصی تباہی مچائی۔ اس کے تھوڑے ہی عرصے کے بعد، بہر حال، انھیں اپنے پر ندامت کا احساس ہوا اور وہ بودھی عقیدے میں گہری دل چسپی لینے لگے۔ یہ پاکیزہ روداد، بہر نوع، بادشاہ اشوک کے لائق تقلید نمونے میں بعد کا کیا ہوا اضافہ بھی ہو سکتی ہے، جس نے اپنے کیے پر پشیمان ہونے اور بدھ مت کو اختیار کرنے سے پہلے بہت سے بودھی مندروں اور آثار کو برباد کر ڈالا تھا۔ باجود اس کے، کچھ مغربی اسکالرز اسی نقطے سے بدھ مت سے تبت کے زیادہ سنجیدہ رطب و تعلق کی شروعات کرتے ہیں۔ اگر تبتوں میں بدھ مت نے پہلے ہی سے زیادہ استحکام حاصل کر لیا ہوتا تو ختنی خانقاہوں کو مسمار نہ کیا گیا ہوتا بلکہ ان کا احترام کیا جاتا۔

ہر رکن تہجی کےلیے ایک صرفی علم کے ذریعے بودھی تکنیکی لفظیات کے ختنی طریقے کی ترجمانی کو اختیار کرتے ہوئے، اب تبتوں نے کچھ چنیدہ بودھی متون کو درآمد کرنا اور ان کا ترجمہ کرنا شروع کیا۔ یہ ایک دو طرفہ ثقافتی رابطہ تھا کیونکہ اسکالرز نے ایک ہندوستانی طبی کتاب کا، جو سنسکرت سے تبتی میں پہلے منتقل کی جا چکی تھی، ختنی زبان میں ترجمہ بھی کر ڈالا۔ شاہی دربار کی طرف سے اس قسم کے مضبوط غیر ملکی رشتوں کے قیام کے ساتھ، بدیسیوں کے تئیں بے اعتباری کے رویے پر مبنی مخالفت کی پیدا کردہ تشویش ایک بار پھر سے بڑھنے لگی۔

بعد کے تبتی بادشاہ، ٹری دوسونگ مانگ جے (دور حکومت ۷۰۴-۶۷۷ء)، اور اس کے گزشتہ وزیر کے قبیلے سے اقتدار کی ایک جنگ نے یارلونگ دربار کو نہایت کمزور کر دیا۔ تاریم طاس کی ریاستوں پر تبت کی فوجی اور سیاسی گرفت ختم ہو گئی، گرچہ اس کے جنوبی سرسبز علاقوں میں اپنی ثقافتی موجودگی کو تبت نے بدستور بنائے رکھا۔ بہر نوع، تبتی سلطنت کا حوصلہ ابھی برقرار تھا۔ ۷۰۳ء میں تبت نے اپنے آپ کو تانگ چین کے خلاف مشرقی ترکوں کے ساتھ متحد کر لیا۔

ملکاؤں کی حکومت

اس مدت کے دوران، چینی حکمراں خاتون ملکہ وو (دور حکومت ۷۰۵-۶۸۴ء) نے ایک ناگہانی انقلاب کی قیادت کی جس میں عارضی طور پر، تانگ خاندان کا تختہ پلٹتے ہوئے اس نے یہ اعلان کر دیا کہ وہی مائیتریا ہے، مستقبل کی بدھ۔ ٹریما لو، جو تبتی ملکہ مادر تھی، بادشاہ ٹری دوسونگ مانگ جے کی ماں، اس کا تعلق شمال مشرقی تبت کے ایک طاقت ور قبیلے سے تھا، جس کے ساتھ نہ صرف یہ کہ "تویو ہون" اثر کے باعث ختنی بودھی ہمدردیاں وابستہ تھیں، بلکہ تانگ چین سے بھی اس کے قریبی رشتے تھے۔ ملکہ وو سے اس کا مراسلت اور بات چیت کا تعلق تھا، اور جب ۷۰۴ء میں اس کے بیٹے کا انتقال ہوا، جو تبتی حکمراں تھا، تو اس نے اپنے ہی پوتے کو معزول کر دیا اور اپنے شوہر کی وارث اختیار بیوہ ملکہ کی حیثیت سے، ۷۱۲ء میں اپنی موت تک، وہاں حکومت کرتی رہی۔ اس نے ملکہ وو کے ساتھ ایک ہان چین شہزادی، جن چنگ کے اپنے پڑ پوتے مے اگتسوم کے لیے دولہن کے طور پر تبت آنے کا انتظام کیا۔ یہ پڑ پوتا جو ٹری دتسوگتن کے نام سے بھی جانا جاتا تھا اس وقت تک محض ایک نوزائیدہ بچہ تھا۔ شہزادی جن چنگ ایک راسخ العقیدہ بودھی تھی جو اپنے ساتھ ایک ہان چینی بھکشو کو بھی لے آئی تاکہ وہ تبتی دربار میں خواتین کو تعلیم دے سکے۔

دیسی پروہتوں اور امرا کا بدیسیوں کا مخالف حلقہ اس واقعے پر بہت مشتعل ہو گیا۔ اب ایک بار پھر، دربار میں اس حلقے کے لوگوں کو سونگ تسن گامپو کے دنوں کی طرح، ہان چینی بودھی بھکشوؤں کی طرف سے ایک چیلنج کا سامنا تھا۔ بہر نوع، ابکے بار یہ خطرہ زیادہ بڑا اور گمبھیر اس لیے تھا کیونکہ بدیسی لوگ اس وقت راجدھانی ہی میں آن موجود ہوئے تھے۔ اس اجنبی عیقیدے کی مافوق فطری طاقتوں کے دوبارہ مدعو کیے جانے سے تاکہ شاہی اختیار و اقتدار کو بڑھاوا دیا جا سکے، انھیں اپنے دیسی دیوتاؤں کی جانب سے سزا ملنے کا خوف تھا جیسا کہ ساٹھ سال پہلے بھی وسطی تبت پر تانگ حملے کے ساتھ وقوع پذیر ہو چکا تھا۔ بہر نوع، سردست تو "بون" حلقے کو بس اپنا وقت گزارنا تھا۔

چینی دربار سے دوستانہ ربط و ضبط کےباعث، بیوہ ملکہ ٹریما لو نے، اب اس طرف سے تبت کے فوجی عزائم کا رخ پھیر دیا اور ۷۰۵ء میں گندھارا اور باختر کے ترکی شاہیوں کے ساتھ، اس مرتبہ اموی عربوں کے خلاف ایک اتحاد کی تشکیل کی ۷۱۲ء میں جس وقت بیوہ ملکہ کا انتقال ہوا اور مے اگتسوم نے راج گدی سنبھالی (دور حکومت ۷۵۵-۷۱۲ء) اس وقت تک وہ نابالغ تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ آنجہانی بیوہ ملکہ کی طرح ملکہ جن چنگ نے بھی تبتی دربار پر ایک گہرا اثر مرتب کیا۔

تبتی اموی اتحاد

اس دوران میں مغربی ترکستان کو لے کر اقتدار کی کشمکش جاری رہی۔ ۷۱۵ء میں عرب جرنیل قتیبہ کے ترکی شاہیوں سے باختر کو پھر سے اپنے قبضے میں کر لینے کے بعد، تبت نے اپنی وفاداریاں تبدیل کر لیں اور ابھی تک وہ جن اموی افواج سے بر سر پیکار رہے تھے، انھیں کے ساتھ اپنے آپ کو متحد کر لیا۔ پھر تبتی دستوں نے عرب جرنیل کو ترغشیوں سے فرغانہ کی بازیافت اور ترغشیوں کے زیر اقتدار کاشغر کی جانب پیش رفت میں مدد دی۔ ترکی شاہوں سے، اور پھر امویوں سے تبتی اتحاد بلاشبہ ، ایک مصلحت کی وجہ سے تھا کہ باختر میں پھر سے وہ قدم جما لیں گے، اس امید کے ساتھ کہ تاریم طاس میں ان کا فوجی، اقتصادی، اور سیاسی تسلط ایک بار پھر سے قائم ہو جائے گا۔ شاہراہ ریشم کے راستے سے ہونے والی منافع بخش تجارت کے ذریعہ ٹیکس کی وصولی، ان کی سرگرمیوں کو ہمیشہ ترغیب دینے والی تھی۔

یہاں کسی کے لیے اس قیاس آرائی کی گنجائش بھی نکلتی ہے کہ امویوں سے باختر کو بچانے کے لیے، ترکی شاہیوں کے ساتھ پہلے کیا جانے والا اتحاد اس وجہ سے ہوا ہوگا کہ نام نہاد "بون" حلقہ اپنے آپ کو تاگزگ سے جوڑ کر دیکھتا تھا جو "بون" کی جائے پیدائش ہے، اور اسی کے ساتھ ساتھ، اپنی یہ پہچان بنانے کا ایک سبب یہ بھی رہا ہوگا کہ وہ اس کی خاص خانقاہ نووہار کو بے حرمتی سے بچانا چاہتے رہے ہوں گے۔

بہر نوع یہ نتیجہ ایسی صورت میں بھی موہوم ہو جاتا ہے اگر اس سے منسلک یہ دونوں مغالطہ آمیز مقدمے سچ سمجھ لیے جائیں کہ اس وقت "بون" ایک منظم مذہب تھا، اور یہ کہ "بون" حلقہ ایک مذہبی شناخت رکھنے والے گروہ پر مشتمل تھا۔ بالفرض اگر بون عقیدے کے کچھ پہلوؤں کی شروعات باختری بدھ مت سے رہی بھی ہوتی، تب بھی، بون مذہب کے پیروکار ان پہلوؤں یا خصوصیات کو بودھی خصوصیات کے طور پر نہیں دیکھتے تھے۔ بعد کے بون پیروکاروں نے تو، در اصل، یہ دعوا کیا ہے کہ تبت میں بودھوں نے اپنی بہت سی تعلیمات ان کے یہاں سے چرا لی تھیں۔

اسی لیے، تبتی دربار میں موجود بون حلقہ باختر میں کسی مقدس جہاد کی قیادت نہیں کر رہا تھا، مزید برآں، نہ ہی بودھی لوگ کوئی مذہبی جنگ لڑ رہے تھے، باختر کی شکست اور نووہار کی مسماری کے واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ تبتی باشندوں نے باختر میں بدھ مت کے دفاع کو جاری نہیں رکھا بلکہ اپنی وابستگیاں بدل کر مسلمان عربوں کے ساتھ جا ملے۔ تبتوں کی خارجہ پالیسی کے پس پشت متحرکہ طاقت اپنی نوعیت کے لحاظ سے سیاسی اور معاشی مفاد پرستی تھی، مذہب نہیں تھا۔

تبت کے مسلم مشن کا تجزیہ

اس خیال کے تحت کہ اموی اتحادی ناراض نہ ہو جائیں اور ان کا باہمی تعلق ختم ہو جائے، ۷۱۷ء میں، خلیفہ عمر دوم کے اصرار پر، تبتی دربار ایک مسلمان معلم کو مدعو کرنے پر رضامند ہو گیا تھا۔ بہر حال، اسلام کے اصولوں میں حقیقی دل چسپی سے اس کا تعلق بہت کم تھا۔ زیادہ سے زیادہ، ملکہ جن چنگ نے اس کی طرف ویسی ہی نظر ڈالی ہوگی جیسی کہ بادشاہ سونگ تسن گامپو نے شروع میں بدھ مت کو دیکھا رہا ہوگا، یعنی کہ مافوق فطری طاقت کے ایک اور وسیلے کے طور پر جس کے ذریعے اس کی شاہی حیثیت کو مستحکم کرنے کا امکان پیدا ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف، تبتی دربار کے رجعت پسند پروہت اور امرا، آنے والے عرب مذہبی معلم کے تئیں مخاصمانہ رویہ بھی رکھ سکتے تھے۔ انھیں یہ ڈر ہو سکتا تھا کہ عرب معلم کی یہ آمد ایک اور غیر ملکی اثر ہے جس کے آداب و رسوم شاہی مسلک کو مزید مستحکم کر سکتے ہیں۔ ان کی اپنی طاقت کو کم کر سکتے ہیں، اور تبت پر تباہی لا سکتے ہیں۔

چنانچہ تبت میں، مسلمان معلم کا خیر مقدم جتنی سرد مہری کے ساتھ کیا گیا، اس کا بنیادی سبب تبتی دربار میں حزب مخالف کی طرف سے پھیلایا جانا والا بدیسی یا اجنبی لوگوں کے لیے نفسیاتی خوف کا عام ماحول تھا۔ یہ کسی اسلامی۔بودھی یا اسلامی۔ بون مذہبی تصادم کی جانب اشارہ نہیں تھا۔ کم و بیش ستر برسوں تک اس مسلک کی مخاصمت کا رخ بدھ مت کی طرف رہ چکا تھا اور یہ صورت حال ابھی بھی باقی تھی۔ یہ سمجھنے کے لیے کہ اسلام کی طرف ان کا یہ رویہ اجنبی یا بدیسی لوگوں سے نفرت اور بیزاری کے خاکے میں سماتا کس طرح ہے، اب ہم مختصراً تبت میں رونما ہونے والے واقعات پر ایک نظر ڈالیں گے۔

ختن سے آنے والے مہاجر بھکشو، تبت میں

تانگ خاندان نے اپنی حکومت 705ء میں ملکہ وو کے تخت چھوڑنے کے بعد بحال کر لی تھی۔ بہر نوع، مجموعی صورت حال میں، ملکہ کے پڑپوتے شوان دزونگ (دور حکومت ۷۵۶-۷۱۳ء) کے اقتدار تک، استحکام نہیں آ سکا تھا۔ اس طاقتور نئے بادشاہ نے ایک بودھی مخالف پالیسی اختیار کی، اس کوشش میں کہ اپنی دادی کی تحریک کی حمایت کو کمزور کر سکے۔ ۷۲۰ء میں تانگ بادشاہ کے ایک بودھی مخالف حامی اور ہمدرد نے ختن کے مقامی بودھی راجہ کو معزول کر کے اس کا تخت چھین لیا۔ اس کے نتیجے میں مذہبی جور و ظلم کے خاصے مظاہر رونما ہوئے اور بہت سے بودھوں نے راہ فرار اختیار کی۔ چونکہ باختری بھکشو پناہ گزینوں کا ایک بہت بڑا جتھا، پانچ سال پہلے امویوں کے ہاتھوں نووہار کی بربادی کے باعث ختن پہنچ گیا تھا، اس لیے یہ گمان بے بنیاد نہیں ہوگا کہ باختر میں اپنے ہولناک تجربے کے دوہرائے جانے کے ڈر سے، ختن کی طرف بھاگ کھڑے ہونے والوں میں وہ پہلے لوگ رہے ہوں۔

۷۲۵ ء میں، ملکہ جن چنگ نے ختن اور ہان چین سے آنے والے پناہ گزیں بودھی بھکشوؤں کو تبت میں پناہ دینے اور بسانے کے لیے ان کی خاطر سات خانقاہیں بنوائیں جن میں سے ایک "راسا" میں تھی۔ اس اقدام نے دربار کے بدیسی بیزاری کے مرض میں مبتلا وزیروں کو اور زیادہ تشویش میں مبتلا کر دیا۔ جب ۶۳۹ء میں ملکہ نے چیچک کی ایک وبا کے دوران انتقال کیا تو ان لوگوں (وزیروں) نے ملک میں موجود تمام بدیسی بھکشوں کو اس موقعے کا استعمال کرتے ہوئے، ملک بدر کر کے گندھارا بھیج دینے کا انتظام کیا جو تبت کے روایتی اتحادی ترکی شاہیوں کے زیر حکومت تھا، اس یقین کے ساتھ کہ ان کے دیوتا ایک بار پھر ناراض ہو گئے ہیں اور انھیں سزا دے رہے ہیں، وزیروں نے یہ اعلان کر دیا کہ تبت میں ان کی مذہبی رسموں کے دوران بدیسیوں کی موجودگی ہی اس عام دور تک پھیلی ہوئی وبا کا سبب ہے۔ بھکشوؤں کے لیے گندھارا ایک معقول منزل تھی کیونکہ ترکی شاہیوں نے باختر پر بھی حکومت کی تھی جہاں سے زیادہ تر خانقاہ نشین بھکشوؤں کی آمد ہوئی تھی۔ ان کی ایک بڑی تعداد، بالآخر گندھارا کے اڈیانہ والے حصے کے شمال کی سمت پالتستان کے کہستانی علاقے میں جا کر بس گئی۔

اس بدیسی بیزاری حلقے کا اقتدار سولہ برس بعد، ۷۵۵ء میں اپنے انتہائی عروج تک پہنچا، جب انھوں نے بادشاہ مے اگتسوم کو تانگ چین اور بدھ مت کی طرف اس کے قوی میلان طبع جھکاؤ کے باعث موت کے گھاٹ اتار دیا۔ چار برس پہلے، اسی سال جب تانگ فوجوں نے بھاری ہزیمت اٹھائی تھی اور مغربی ترکستان کے باہر کھدیڑ دی گئی تھیں، بادشاہ نے بدھ مت کے بارے میں مزید جانکاری کے لیے ایک تبتی وفد کو ہان چین بھیجوایا تھا۔ اس کا سربراہ تانگ دربار میں ایک سابق تبتی سفیر کا بیٹا، باسانگشی تھا۔ جب تانگ بادشاہ شوان دزونگ ۷۵۵ء میں ایک بغاوت کے دوران معزول کر دیا گیا، تو "بون" حلقے کو یہ یقین ہو چلا کہ اگر انھوں نے مے اگتسوم کو اس حماقت کے جاری رکھنے سے، اور اس مشن پر جمے رہ کر تبتی دربار میں، بلاشبہ، مزید ہان چینیوں کو مدعو کرنے سے روکا نہیں تو نہ صرف یہ کہ وہ اقتدار سے محروم ہو جائیں گے، ان کے ملک پر یقیناً دوبارہ تباہی بھی نازل ہوگی جیسا کہ تانگ چین میں ابھی ابھی ہو چکا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بادشاہ کو قتل کرنے کے بعد انھوں نے تبت میں بدھ مت کو ایذا رسانی اور عقوبت کے ایک چھے سالہ سلسلے کی داغ بیل ڈالی۔ لہٰذا، شاہی دربار کی جانب سے ایک مسلمان معلم کے مدعو کیے جانے کے باوجود، اسلام کی قبولیت میں تبتوں کی سرد مہری بھی، تبت کی اس اندرونی سیاسی و مذہبی کشمکش کی تاریخ میں، بس ایک اور واقعہ بھر ہے۔

Top