نئی مذہبی جنگوں کے لئیے تازہ حل درکار ہیں

تازہ مذہبی جنگیں جن کے پس پشت مذہبی قومیت پرستی کا نظریہ کار فرما ہے عالمی امن کو تباہ کر رہی ہیں۔

یہ نئی نظریاتی وباء ۱۹۲۰ کی دہائی میں بطور روائیتی پروٹسٹنٹ عقائد پرستی کے منظر عام پر آئی، جسے بعد ازآں اسلامی پارٹیوں اور تاجداروں نے عرب اشتراک پسسندوں کے خلاف بطور دفاع کے اختیار کر لیا۔ ہندوستان کی خالصتان تحریک میں مذہبی بنیاد پرستی نے زور پکڑا اور ایران اور پاکستان میں اسلامی حکومتیں قائم کرنے میں کامیابی ہوئی۔ اب مذہبی بنیاد پرستی نے پھر سے ایک نیا روپ دھارا ہے – جو کہ مذہبی بنیادوں پر اغیار سے خوف پر قائم قوم پرستی ہے جس کے شواہد ملائیشیا، سری لنکا، بھارت، مینمار، نائیجیریا، پاکستان، فرانس، جرمنی اور امریکہ وغیرہ میں ملتے ہیں۔
 
یہ نئی مذہبی قومیت پرست جنگیں پروٹسٹنٹ احیا کے بعد ۱۵۲۴ سے ۱۶۴۸ میں ہونے والی یورپی عیسائی پرست جنگوں سے مختلف ہیں۔ وہ جنگیں ۱۶۴۸ میں صلح نامہ ویسٹفیلیا اور ادھرمیت سے اختتام کو پہنچیں، جس نے دین کو سیاست سے الگ کر دیا اور یہ نظریات نو آبادیت کے راستے قومی ریاستوں کے لئیے عالمی سطح پر نمونہ بن گئے۔
 
البتہ موجودہ مذہبی جنگوں کی بنیاد مذہب پر قائم نفرت اور اسطوری برتری ہے۔ یہ نیا مرض ںو آبادیات سے قبل کے مذہبی نظریات میں شامل نہ تھا، جو باہمی رواداری اور تجارت کے حق میں تھے – جس کی مثال جاپان سے بحیرہ روم تک قائم قدیم شاہراہ ریشم میں ملتی ہے۔
 
نئی مذہبی جنگوں کا ماخذ ادھرمیت کی مذہب پر عوامی سطح پر پابندی کا نفوذ ہے۔ ادھرمیت کے زیر اثر، یہ قیاس کیا گیا کہ ادیان مفقود ہو جائیں گے، مگر اس استیصال کے نتیجہ میں نسلی اکثریتوں کے سیاسی لائحہ عمل زیر استحصال آئے۔
 
پس یہ مقبول عام نظریہ کہ مذہب تمام جنگ و جدل کی بنیاد ہے ایک اتحاسی واہمہ ہے، جیسا کہ ماضی میں وقوع پذیر مذاہب کے مابین پر امن باہمی ہم آہنگی کی بے شمار مثالوں سے ظاہر ہے۔ پھر بھی دور حاضر میں، اقلیتوں پر یہ الزام لگانے اور ان کے خلاف خیالی خوف پھیلانے کہ ان کی کم تعداد جلد ہی افزائش پذیر ہو کر اکژیت پر حاوی ہو جاۓ گی، کے لئیے مذہب کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ ایسے خدشات سائینسی لحاظ سے بےبنیاد اور آبادی کے تعدد کے اعتبار سے نا معقول ہیں۔
 
۱۹۴۵ کے بعد نئی قوموں کی تعمیر سازی کے سلسلہ میں بہت سارے قومی جھگڑوں نے جنم لیا جن میں کشمیر، فلسطین، شمالی آئرلینڈ، کردستان، جنوبی تھائی لینڈ اور جنوبی فلپائن شامل ہیں۔ ان سب میں سے کسی میں بھی باغی قوتیں کوئی دینی حکومت قائم کرنے کی خواہاں نہیں ہیں۔ یہ سب دور جدید کی قومیت پرستی کے غیر حل شدہ جھگڑے ہیں جن کے لئیے سیاسی حل درکار ہیں۔
 
سرد جنگ کے بعد کے دور میں مذہبی قومیت پرستی نے پالیسی سازوں کے لئیے ایسے غیر متوقع مسائل پیدا کر دئیے ہیں جن کا کوئی کتابی حل نہیں ہے۔ اسکے بانی ایسے قومیت پرست ہیں جن کے لائحہ عمل مذہبی برادری پر قائم ہیں اور یہ لوگ اسرائیل، پاکستان، ہندوستان، ملائیشیا، انڈونیشیا اور امریکہ میں میدان کارزار میں اترے ہیں۔ مقبول عام ادھرمی قوم پرستی نے مذہبی رنگ اختیار کر لیا ہے۔ اس نئے مخلوط الاصل اطوار کو سمجھنے اور اس کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے اگر ہم عالمگیر شہریت کے تصور اور اس پر عمل کو تباہی سے بچانا چاہتے ہیں جو کہ جدید ریاست جس میں سب برابر کے شریک ہوں کی بنیاد ہے۔

(اس تحریک کے باعث) بین الاقوامی ایشیا کا مستقبل خطرے میں ہے جسے مذہبی قومی تحریکوں اور حد درجہ کی تجارتی مادہ پرستی سے نقصان پہنچ رہا ہے۔ نہ تو ماہرین عمرانیات اور نہ ہی دینی علماء کے پاس اس چیلنج کا کوئی حل موجود ہے۔ یہاں ایک بین النظریاتی لائحہ عمل اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
 
مذہبی قومیت پرستی اور اس سے منسلک تشدد کو موجودہ پالیسی کے مطابق بطور امن و امان کو خطرہ کے نمٹایا جاتا ہے۔ یہ حل ناکافی ہے اور دکھ کے اسباب کا تعیّن کرنے کی بدھ مت کی تعلیمات کو نظر انداز کرتا ہے۔
 
جنوب مشرقی ایشیا بڑی طاقتوں کی سیاسی کشمکش، اور عیسائی، مسلم اور بودھی نسلوں کے لوگ جو دن بدن تشدد پسند مذہبی قومیت پرستی کا شکار ہو رہے ہیں جو انہیں ایک دوسرے سے بر سر پیکار کرتی ہیں، کی لپیٹ میں ہے۔ اس سے اس علاقے کا مستقبل خطرے میں ہے، جو کہ اعلیٰ تربیت یافتہ کارندوں اور عمدہ ذرائع نقل و حمل کی بدولت سرعت سے اہم عالمی تجارتی مرکز بنتا جا رہا ہے۔ ایشیائی قومیں سرد جنگ کے اثرات سے تو بچ نکلیں؛ مگر یہ اندرونی مذہبی قومیت پرستی کے ہاتھوں تباہی کی متحمّل نہیں ہو سکتیں۔

مذہبی قومیت پرستی عالمی شہریت کے لئیے بہت بڑا خطرہ ہے، جس کی روک تھام بذریعہ تعلیم کرنا ہوگی اگر ریاستیں مستقبل میں دہشت گردی کو روکنا چاہتی ہیں تو۔ موجودہ تعلیم جس کا زور ٹیکنالوجی پر ہے اور ہماری روز مرہ زندگی جو سوشل میڈیا سے تشکیل پاتی ہے اس میں وہ عمیق فہم موجود نہیں جو ایسی نسلی بھوت زدگی اور بے بنیاد خوف سے نبرد آزما ہو سکے۔ نصاب میں تبدیلی کی ضرورت ہے تا کہ اس میں انسانیت کے تصور کو شامل کیا جا سکے جو تعصّب، ادیان میں باہمی لا علمی، عدم برداشت اوراس سے پیدا ہونے والے تشدد کا تریاق ہو۔ ہمارے پیش رو نے آزادی اور ترقی کی خاطر قربانیاں دی حتیٰ کہ اپنی جان تک نچھاور کی، تا کہ موجودہ نسل کو ایک پر امن ماحول ملے۔ ہمیں اپنے بچوں کے لئیے ایک متشدد مستقبل ورثے میں نہیں چھوڑنا چاہئیے۔
 
تو اس کا حل کیا ہے؟ ادھرمی قوتوں کو عوامی سطح پر مذہب کے مقام کو تسلیم کرنا ہو گا جب کہ دینی راہنماؤں کو مذہب کے عوامی کردار اور روحانیت کے درمیان توازن پیدا کرنا چاہئیے۔ اس دوران تمام دینی راہنماؤں کو ان کے اپنے ارکان کی تشدد کی کاروائیوں کی مذمّت کرنا ہو گی۔ شہریوں کے حقوق کا تحفظ، نہ کہ خود پرست دھڑوں کا، ایک قومی اہمیت کا معاملہ ہے۔
 
عالمگیریت کا یہ تقاضا ہے کہ  تنوّع، جمہوریت اور ہر انسان کے حقوق کے تحفظ  کو تسلیم کیا جاۓ۔ یہ نئی دینی جنگیں اس چیز کا ثبوت ہے کہ ہم ایک بعد از ادھرمیت دنیا میں قدم رکھ رہے ہیں۔ اس کی بنیاد مذہب نہیں بلکہ ادھرم کا دھرم کے اوپر اثر ہے۔ پرانی یورپی مذہبی جنگوں سے ادھرمیت، ترقی اور بنیاد پرستی وجود میں آئی۔ ادھرمی اور دینی بنیاد پرستی کا دور جا چکا ہے۔ اس وقت جس بات کی فوری ضرورت ہے وہ ہماری عالمگیر دنیا کے لئیے ایک تازہ انسانیت پرستی ہے – ایک ایسا نظام جو کہ محض تجارتی ادارہ یا دہشت گردی کے خلاف جارحانہ کاروائی پر مشتمل عمل کاری نہ ہو، بلکہ ایک ایسے عالمگیر تہذیب و تمدن کو تشکیل دے جو آزادی، درد مندی، انصاف اور تعقّل پر مبنی ہو۔ اس حکمت کا رابندر ناتھ ٹیگور نے ان الفاظ میں احاطہ کیا ہے: 

جہاں علم مفت ہو، جہاں تنگ نظری سے دنیا کے ٹکڑے نہ کئیے گئے ہوں، جہاں الفاظ حقیقت پر مبنی ہوں، جہاں انتھک محنت سے کمال حاصل کیا جا رہا ہو، جہاں تعقّل نے بے سدھ رسم و رواج سے ہار نہ مانی ہو، جہاں تم اپنے من کی پیش قدمی وسعت نظری اور عمل سے کرتے ہو -  آزادی کی اس بہشت کی جانب، میرے آقا، میرے وطن کو ہوش دلا۔

Top