آج میں آپ سے مذہبی ہم آہنگی پر کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں۔ بعض اوقات مذہب اور عقیدہ بھی لڑائی جھگڑے کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر شمالی آئر لینڈ کے ماضی میں آویزش بنیادی طور پر سیاسی تھی لیکن جلد ہی ایک مذہبی مسئلے میں تبدیل ہو گئی۔ یہ بڑے افسوس کی بات تھی۔ اسی طرح آجکل شیعہ اور سنی مسلمانوں میں بھی لڑائی ہو جاتی ہے۔ یہ بھی بہت قابل افسوس ہے۔ سری لنکا میں بھی لڑائی تو سیاسی ہے لیکن بعض صورتوں میں لگتا یوں ہے کہ گویا ہندوؤں اور بودھوں میں لڑائی ہو رہی ہے۔یہ بہت درد ناک ہے۔ پچھلے زمانوں میں مختلف مذاہب کے ماننے والے زیادہ تر ایک دوسرے سے الگ تھلگ زندگی گزارتے تھے لیکن آج کی دنیا میں وہ ایک دوسرے کے کہیں قریب آگئے ہیں لھذا ہمیں چاہئیے کہ مذہبی ہم آہنگی کو بڑھانے کے لیے خاص طور پر کوشش کریں۔
۱۱ ستمبر کے سانحے پر سال گزرا تو واشنگٹن کے قومی کیتھیڈرل میں یادگاری دعا کی تقریب کی گئی۔ میں بھی اسی محفل میں شریک تھا۔ دوارنِ گفتگو میں نے ذکر کیا کہ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آجکل بعض لوگ یہ تاثر دیتے نظر آتے ہیں کہ چند شر پسند مسلمانوں کی وجہ سے سارے مسلمان ہی جھگڑالو اور تشدد پسند ہیں۔ اور مزید وہ اسلامی اور مغربی تہذیبوں کے ٹکراؤ کی بات کرنے لگتے ہیں۔ یہ سب غیر حقیقی ہے۔
یہ بات سرے سے غلط ہے کہ چند شر پسند لوگوں کی وجہ سے ایک پورے مذہب کو برا بنا دیا جائے۔ یہ نکتہ اسلام، عیسائیت، یہودیت، ہندومت، بدھ مت سب کے بارے میں یکساں درست ہے۔ایک مثال لیجیے۔ شوگدن کےکچھ پیروکاروں نے میرے گھر کے قریب تین لوگوں کو قتل کر دیا۔ ان میں سے ایک صاحب بہت اچھے استاد تھے لیکن شوگدن پر تنقید کرتے تھے۔ انہیں چاقو کے سولہ زخم لگے۔ دوسرے دو مرنے والے ان کے شاگرد تھے۔ ان کے قاتل واقعی شر پسند لوگ تھے لیکن اس بنا پر اگر کوئی شخص یہ کہنے لگے کہ سارے تبتی بدھ مت کے پیروکارجنگ جو اور دن گئی ہیں تو اس بات کوئی بھی تسلیم نہیں کرے گا۔ بدھ فلسفی کے زمانے میں بھی کتنے ہی شر پسند لوگ تھے۔ یہ کوئی خاص بات نہیں ہے۔
ستبر ۱۱ کے بعد سے، بدھ مت کا پیرو کار ہوتے ہوئے اور اسلام سے باہر کا آدمی ہوتے ہوئے بھی میں رضا کارانہ طور پر اسلام جیسے عظیم مذہب کے دفاع کی کوشش کرتا چلا آیا ہوں۔ میرے مسلمان بھائیوں، اور چند بہنوں نے مجھ پر واضح کیا ہے کہ جو شخص بھی خون ریزی کرتا ہے وہ اسلام سے باہر ہے۔ وجہ یہ ہے کہ سچے مسلمان، اسلام کی صحیح پیروی کرنے والے مرد یا عورت، کو تو ساری مخلوق خدا سے پیار کرنا چاہیے۔ اسی طرح جیسے وہ اللہ سے محبت کرتے ہیں۔ساری مخلوق کو اللہ نے پیدا کیا۔ اگر انسان اللہ سے محبت کرتا ہو، اس کے گن گاتا ہو تو اسے خلق خدا سے لازماً پیار ہونا چاہیے۔
ایک رپورٹر میرا دوست تھا۔ اس نے آیت اللہ خمینی کے دور میں تہران میں کچھ وقت گزارا تھا۔ اس نے بعد میں مجھے بتایا کہ مذہبی رہنما کس طرح دولت مند خاندانوں سے پیسے جمع کر کے غریب لوگوں میں تقسیم کرتے تھے تاکہ تعلیم کے لیے ان کی مدد ہو سکے اور غربت میں کمی کی جا سکے۔ یہ ہے سچا سماجی خدمت کا عمل۔ مسلمان ممالک میں بنکوں کا سود پسند نہیں کیا جاتا۔ غرض یہ کہ اگر ہم اسلام سے واقف ہوں اور ہماری نظر اس پر رہے کہ اسلام کے پیروکار اس پر دل سے عمل کیونکر کرتے ہیں تو دوسرے ہر مذہب کی طرح یہ بھی بہت شاندار عمل ہے۔ بلکہ عمومی طور پر یوں کہیے کہ اگر ہمیں دوسرے افراد کے مذاہب کا علم ہو تو ہم باہمی احترام، افزودگی اور داد ستائش پیدا کر سکتے ہیں، ایک دوسرے کی قدر کرنا سیکھ سکتے ہیں اور زیادہ بھر پور زندگی گزار سکتے ہیں۔ اس لیے یہ ہماری ضرورت ہے کہ مختلف مذاہب کے درمیان ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوششوں کو اور مذہبی ہم آہنگی بڑھانے میں مسلسل لگے رہیں۔
حال ہی میں مجھے لزبن کی ایک مسجد میں مختلف مذاہب کی ایک مجلس میں شریک ہونے کا اتفاق ہوا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ کوئی بین المذاہب مجلس مسجد میں منعقد کی گئی۔ اجلاس کے بعد ہم سب بڑے ہال میں چلے گئے اور سب نے خاموش دعا و مراقبہ کیا۔ یہ سب سچ مچ شاندار تھا۔ اس لیے بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے ہمیشہ کوشاں رہا کیجیے۔
کچھ کہتے ہیں خدا کا وجود ہے، کچھ کہتے ہیں نہیں۔ اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے اصل اہمیت ہے علت معلول کے قانون کی۔ یہ سب مذاہب میں ایک ہے: قتل نہ کرو، چوری مت کرو، جنسی غلط کاری مت کرو ، جھوٹ نہ بولو ۔ مختلف مذاہب میں طریقے بے شک الگ الگ ہیں لیکن ان سب کا مقصد ایک ہے۔ سو، نتیجے پر نظر رکھو، اس کے اسباب پر نہ جاؤ۔ جب آپ ریستوران میں جائیے تو سب اچھے کھانوں کا مزہ لیجیے اس بحث میں نہ پڑیے کہ فلاں کھانے کے اجزاء یہاں سے آئے یا وہاں سے لیے گئے۔ بہتر یہ ہے کہ کھائیے اور لطف اٹھائیے۔
اسی طرح یہ سب مختلف مذاہب ہیں۔ یہ بحث نہ اٹھائیے کہ میرا فلسفہ بہتر ہے یا کم تر ہے، یہ دیکھیے کہ سب مذاہب کی تعلیم یہی ہے کہ درد مندی کو مقصد اور منزل بنایا جائے اور سبھی مذاہب اچھے ہیں۔ مختلف طریقے برتنا اس لیے حقیقت ہے کیون کہ مختلف لوگوں کے لیے الگ الگ طریقے مفید ہوتے ہیں، سو ہمیں بھی ایک سچا اور حقیقت پسند نقطۂ نظر اور طرز عمل اپنانا چاہیے۔
انسان کے اندر کے سکون کا تعلق بھی درد مندی سے ہے۔ سارے بڑے مذاہب کا یہی پیغام ہے۔ پیار، درد مندی، درگذر۔ ہمیں چاہیے کہ رحم اور درد مندی کے فروغ کے لیے کوئی سیکولر راستہ تلاش کریں۔ جو لوگ کسی دین کو مانتے ہیں اور جو اپنے دین سے مخلص ہیں، اس پر سنجیدگی سے عمل کرتے ہیں۔ ان کے لیے اپنے اندر درد مندی اور رحم کی صلاحیت بڑھانے کے لیے ان کے دین میں ہی بہت بڑی گنجائش موجود ہے۔ رہے غیر دینی لوگ، یعنی وہ جن کا کسی دین سے کوئی ناطہ نہیں بلکہ وہ بھی جو دین سے بیزار ہیں، تو اکثر ان کو بھی رحم و درد مندی سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی کیونکہ ان کے خیال میں درد مندی ایک مذہبی چیز ہے۔ یہ سراسر غلط ہے۔ آپ مذہب کو ایک منفی چیز کے طور پر دیکھیے، آپ کو اس کی آزادی ہے لیکن درد مندی کے بارے میں ایک منفی رویہ رکھنے کے کوئی معنی نہیں ہیں۔