ویغور لوگ
عوامی جمہوریہ چین کی دو اہم اقلیتوں میں ویغور اور ھُوِئی لوگ ہیں۔ یہ دونوں گروہ اسلام کے سنّی مسلک کے پیروکار ہیں جن میں مرکزی ایشیائی صوفی طرز فکر کے کئی دبستان بھی خلط ملط ہو گئے ہیں۔ ویغور لوگ ترک نسل کے ہیں جو اصل میں التائی کے پہاڑی علاقے سے آئے تھے جو مغربی منگولیا کے شمال میں واقع ہے۔ آٹھویں صدی عیسوی کے اوائل سے نویں صدی کے وسط تک منگولیا میں حکومت کرنے کے بعد وہ مشرقی ترکستان (سنکیانگ) ہجرت کر گئے۔ تب سے وہ اس علاقے کے غالب نسلی گروہ کی حیثیت رکھتے ہیں اور اپنی ترکی زبان بولتے ہیں۔ بہرحال، ویغور لوگ اپنے آپ میں کوئی متحد گروہ نہیں ۔ ماضی کی طرح آج بھی وہ اپنے ریگستانی شہر جہاں وہ بستے ہیں اُسی کے واسطے سے اپنی شناخت قائم کرتے ہیں اِن سب کے لیے "ویغور" لفظ کا استعمال انیسویں صدی عیسوی کے اواخر سے ہی چلنے میں آیا اور یہ اس لیے کہ وہ منچو چِنگ خاندان کے خلاف متحد ہو سکیں۔
شریف اور آرام پسند ہیں اور تبتوں کی طرح ان میں بھی کام کرنے کا کوئی خاص جوش و خروش دکھائی نہیں دیتا۔ کام کو ایک نیک عمل کے طور پر وہ نہیں دیکھتے بلکہ زندگی کو بھرپور طریقے سے جینے میں یقین رکھتے ہیں۔ اسلام کے بارے میں ان کی معلومات بہت کم ہیں اور ان کی مساجد کا انداز اور ان کے طور طریقے وسط ایشیائی ہیں۔ ان میں سے وہ لوگ جو سنکیانگ کے وسط یا شمالی حصے میں رہتے ہیں انھوں نے کافی حد تک چینی طور طریقے اپنا لیے ہیں۔ بیشتر اوقات میں صرف بوڑھے لوگ مسجد جاتے ہیں۔ مساجد کے حالات بھی اچھے نہیں ہیں۔ جنوبی سنکیانگ جہاں ہان لوگوں کی تعداد کم ہے وہاں کے ویغور لوگوں میں اسلام کو زیادہ استحکام حاصل ہے۔ ھُوِئی لوگوں کے مقابلے میں وہ لوگ اسلام کی ایک زیادہ روایتی شکل کے پیروکار ہیں۔
ھُوِئی لوگ
ھُوِئی لوگ مختلف نسلی گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں، جیسے کہ عرب، ایرانی، وسط ایشیائی اور منگول۔ یہ لوگ چین کے ہر حصے میں رہتے ہیں۔ ان کی آمد کی شروعات ساتویں صدی عیسوی میں ھُوِئی تھی۔ جب وہ تاجر کی حیثیت سے آئے تھے یا انھیں سپاہی بنا کر لایا گیا تھا۔ چودھویں صدی عیسوی کے وسط میں انہیں ہان چینی لوگوں سے شادی بیاہ رچانے پر مجبور کیا گیا تھا۔ نتیجے کے طور پر وہ لوگ چینی زبان بولتے ہیں اور ان کے طور طریقے اور ان کی مساجد کے انداز یہ سب چینی ہیں۔ چین کی دوسری مسلم اقلیتیں ھُوِئی لوگوں میں چینی طرز زندگی کے چلن کی سخت تنقید کرتی ہیں۔
عام طور پر ھُوِئی لوگ وسط ایشیائی یا مرکزی ایشیائی لوگوں کی طرح آرام پسند نہیں ہیں، بلکہ عام چینیوں کی طرح تجارت اور دولت کمانے سے ایک جارحانہ شغف رکھتے ہیں۔ تبتوں کی طرح وہ چاقو لے کر چلتے ہیں اور اس کے استعمال میں بہت تیز ہیں۔ ان کے دو بڑے گروہ ہیں۔ مغربی ھُوِئی لوگ ننگزیا، جنوبی گانسو اور مشرقی چینگهای میں رہتے ہیں جس کی سرحد پر امدو (شمال مشرقی تبت) علاقہ ہے۔ مشرقی ھُوِئی لوگ پورے شمال چین اور مشرقی اندرون منگولیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔
مغربی ھُوِئی لوگ
مغربی ھُوِئی لوگوں کے اندر اسلام بطور ایک اِتحادی قوت کے نسبتاً زیادہ مستحکم ہو چکا ہے اور ان کے اندر مزید پھیل رہا ہے۔ نوجوان اور بوڑھے لوگ، دونوں مسجد جاتے ہیں جو ایک سماجی ملاقات گاہ کی حیثیت رکھتی ہے اور جہاں لوگوں کو ایک دوسرے کے بارے میں اطلاعات حاصل کرنے کا موقعہ ملتا ہے۔ ویغور میں واقع مساجد کے مقابلے میں یہ مساجد زیادہ صاف ستھری اور خوش حال ہیں۔ ھُوِئی ثقافتی دارالحکومت لینگشِیا میں اسلامیہ اسکولوں کی موجودگی کے باوجود، جہاں مراقباتی گروؤں کے ذریعے روایتی صوفی گِروہوں کو تعلیم دی جاتی ہے، مغربی ھُوِئی لوگوں کی اکثریت کو اسلام کے بارے میں کوئی گہرا علم نہیں ہے۔
موجودہ دور میں زبردستی طور پر چینی طور طریقے کا نفاذ کرنے کا جو رجحان چل رہا ہے، مغربی ویغور اس کی زد میں کم ہی آئے ہیں۔ ممکن ہے یہ اس لیے ہو کہ وہ کافی حد تک یہ طور طریقے اپنا چکے ہیں اور خالص چینی زبان بولتے ہیں۔ مثال کے طور پر، صرف وہی ویغور عورتیں جو جنوبی سنکیانگ کے دور دراز گاؤں میں رہتی ہیں سر پر نقاب پہنتی ہیں، جبکہ مغربی ھُوِئی عورتیں ہان چینی اکثریتی شہروں میں رہتے ہوئے بھی نقاب کا استعمال کرتی ہیں۔
مشرقی ھُوِئی لوگ
مغربی ھُوِئی لوگوں کے مقابلے میں مشرقی ھُوِئی لوگ زیادہ روایت پرست ہیں۔ جبکہ ان کے تقریباً اسی فی صد لوگ، جوان اور بوڑھے اسلام کے پیروکار ہیں۔ ان میں سے بہت کم ایسے ہیں جو نماز کے پابند ہوں۔ مشرقی ھُوِئی لوگ اب بھی جانوروں کو ذبح کر کے "حلال" طریقے سے کرتے کھاتے ہیں اور سور کا گوشت نہیں کھاتے۔ حالانکہ ان میں سے کافی ایسے ہیں جو سگریٹ پیتے ہیں اور شراب نوشی بھی کرتے ہیں، جو قرآن کے خلاف ہے۔ کچھہ ہی لوگ رمضان کے مہینے میں روزہ رکھتے ہیں، لیکن مردوں میں بہت کم ایسے ہیں جو مختون ہوں، اور عورتیں نقاب نہیں پہنتیں۔
ھُوِئی لوگوں کے مراعات یافتہ حالات
دوسری غیر ہان اقلیتوں کے مقابلے میں عوامی جمہوریہ چین میں ھُوِئی لوگوں کو زیادہ مراعات حاصل رہی ہیں۔ بنیادی طور پر ایسا اس لیے ہے کہ ان لوگوں نے ہمیشہ سمجھداری سے کام لیا ہے اور حکومت کے ساتھہ تعاون کرتے رہے ہیں۔ اس یگانگت اور ماؤازم اور اسلام، دونوں کے تئیں ایک مصلحت آمیز دوستانہ رویے کے باعث، علاوہ برایں مشرق وسطیٰ کے ممالک کی طرف سے تجارتی مراعات کے بدلے میں اسلام کے لیے احترام پیدا کرنے پر دباؤ کی وجہ سے مسجدوں کی تعداد میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ یہ مسجدیں اصلاً ھُوِئی لوگوں نے بنوائی ہیں٫ ویغور لوگوں نے نہیں۔
ھُوِئی لوگوں کی نقل مکانی
صدیوں سے ھُوِئی لوگ بنیادی طور پر تاجروں کی حیثیت سے چین کے ہر حصے میں پھیل رہے تھے اور بستے آئے تھے۔ یہاں تک کہ منگول یوان خاندان کی حکومت کے دوران، مسلمان لوگ بیجنگ کو جانے والے اُن نذر گزار قافلوں میں شامل تھے جن کا مقصد تجارتی حقوق کی حصولیابی کے لیے شاہی فرمان حاصل کرنا تھا۔ اس کے برخلاف ویغور اور تبتی مسلمان اپنے علاقے میں الگ تھلگ رہ گئے ہیں۔ ان میں یہ فرق شاید اس لیے ہے کہ ھُوِئی لوگوں کے آباء و اجداد تاجر اور بھاڑے کی سپاہی تھے۔ جبکہ ویغور اور تبتی مسلمان دونوں اپنے موجودہ علاقوں میں اپنے وطن منگولیا اور کشمیر سے بھگائے گئے مہاجروں کے طور پر آئے تھے۔ اس طرح موجودہ دور میں مسلمان تاجروں کی مرکزی تبت کو ہجرت ھُوِئی لوگوں کی تاریخ میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہان چینی حکومت انہیں زبردستی تبت میں بسا رہی ہے، بلکہ یہ لوگ تجارت کی غرض سے خود ہی اُدھر کا رُخ کر رہے ہیں۔
مغربی ھُوِئی لوگ صرف تبت میں ہی آباد نہیں ہو رہے ہیں، بلکہ گانسو اور سنکیانگ کے ہر علاقے میں ہان چینی آباد کاری کے پیشواؤں کی طرح کام کر رہے ہیں۔ وہ ہر راستے کے کنارے طعام خانے اور دوکانیں کھول لیتے ہیں اور کسی علاقے میں جب ان کی تعداد ایک مقررہ حد تک پہنچ جاتی ہے تو وہ ایک مسجد کی تعمیر کر لیتے ہیں، مذہبی جذبات سے مغلوب ہو کر نہیں بلکہ عموماً ایک سماجی ملاقات گاہ کے طور پر۔ ھُوِئی لوگوں کی اس نقل مکانی پر صرف تبتی ہی نہیں بلکہ ویغور لوگ بھی ناراض ہیں۔ گو کہ ہان چینی فوج اور دفتر شاہی نے وہاں آنے میں پہل کی تھی۔ مگر ہان تاجروں اور سوداگروں نے، جن میں ھُوِئی لوگوں کا جیسا جذبہ ناپید تھا، صرف ان کی تقلید میں ان کے نقوش قدم پر چلنا اختیار کیا۔
تبتی اور ھُوِئی ذہنیتوں کا تضاد
بیشتر تبتی لوگ اب بھی خانہ بدوش ذہنیت کے مالک ہیں اور ان کے اندر آزادی کا جذبہ بہت مضبوط ہے، خاص طور پر چلنے پھرنے کی آزادی۔ بالعموم، وہ معمول کا کام پسند نہیں کرتے۔ اگر ان کے پاس دوکانیں ہیں تب بھی وہ انہیں خاص موسموں کے دوران ہی چلاتے ہیں۔ اور اکثر تعطیل منانے، زیارتوں پر جانے یا سیر و تفریح کے دوران اپنی دوکانیں بند رکھتے ہیں۔ ہندوستان میں بھی، تبتی لوگ اکثر ہندوستانی شہروں میں منتقل ہو جاتے ہیں یا تو سویٹر بیچنے کے لیے یا زیارت کے لیے یاد بوھی وعظ میں شرکت کے لیے، اور بس سال کے کچھہ حصے میں ہی کام کرتے ہیں۔ اس کے برعکس، ھُوِئی اور ہان لوگوں کو صرف تجارت اور پیسے کمانے میں دلچسپی ہے اور وہ بِلا ناغہ پورے سال صبح کے ۶ بجے سے رات کے ۱۰ بجے تک اپنی دوکانوں اور سڑکوں کے کنارے واقع اسٹالوں پر بیٹھے رہتے ہیں اور انہیں چھوڑ کر کہیں نہیں جاتے۔
ھُوِئی لوگ بہت پھرتیلے اور محنتی ہیں اور اسی لیے انہوں نے روایتی تبتی چیزوں کو بنانے اور انہیں فروخت کرنے کا کام تبتوں سے اپنے ہاتھہ میں لے لیا ہے۔ تبتی لوگ ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے اور ایسا نہیں لگتا کہ وہ کرنا بھی چاہتے ہوں۔ ھُوِئی لوگ آجکل جو چیزیں بنا رہے ہیں ان میں تبتی اسلوب کے زیورات، تسبیحیں، اور دیگر مذہبی چیزیں، گھوڑوں سے متعلق ساز و سامان، چھتریاں، اون، قالین، موسیقی کے آلات، جوتے اور سیوئیاں شامل ہیں۔ علاوہ ازیں ہر علاقے میں چائے خانے اور ہوٹل تو چلاتے ہیں۔ ہان چینی تاجر بعد میں آتے ہیں اور زیادہ تر جدید چینی اشیاء جیسے دانتوں کا برش اور سستے چینی کپڑے فروخت کرتے ہیں۔
تبتی اور ویغور لوگوں کی خود مختاری کی مہم
تبتی اور ویغور لوگ ہان لوگوں کے مقابلے میں ھُوِئی مہاجروں سے اپنی ثقافت کے لیے زیادہ خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ چونکہ ھُوِئی اور ویغور لوگوں کے درمیان اسلام مشترکہ مذہب ہے، اِس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے بیچ میں کشیدگی کا سبب مذہب نہیں ہے، بلکہ اقتصادی مقابلہ ہے۔ لگتا ہے کہ ہان چینی حکومت اپنے فوجی قبضے کا جواز قائم کرنے کے لیے اس کشیدگی کو ہوا دیتی ہے، اور یہ جتاتی ہے کہ حکومت کچھہ کر رہی ہے، امن کے قیام کی خاطر، اور اس علاقے کو ایک دوسرا بوسنیا بننے سے روکنے کے لیے کر رہی ہے۔
اس طرح یہ صاف ہو جاتا ہے کہ تبتی ویغور لوگوں کی خود مختاری یا آزادی کے لیے مہم کا بودھ یا اسلامی بنیاد پرستی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان کی نمود اس مشترکہ خواہش سے ھُوِئی کہ عوامی جمہوریہ چین کی حکمتِ عملی ان پر غالب نہ آئے، اور ہان اور ھُوِئی آباد کار ان پر غلبہ نہ حاصل کر سکِیں، تاکہ وہ اپنی ثقافتوں، مذہبوں اور زبانوں کا تحفظ کر سکیں، دوسری طرف ھُوِئی لوگ اس طرح کا کوئی جذبہ نہیں رکھتے کیونکہ ان میں اور ہان چینیوں میں بہت کچھہ مشترک ہے اور انھیں کبھی بھی ایک آزاد ریاست کی حیثیت حاصل نہیں رہی ہے۔