بر صغیر ہند میں پہلی مسلم یلغار

مشرقی ومغربی تجارتی راستوں کی صورت حال

چین سے مغرب کی سمت جانے والا زمینی راستہ شاہراہ ریشم مشرق ترکستان سے مغرب ترکستان اور پھر سغدیہ اور ایران سے ہوتا ہوا بازنطین اور یورپ کو جاتا تھا۔ یہ ایک متبادل راستہ بھی تھا جو مغربی ترکستان سے باختر، گندھارا کے کابل اور پنجابی حصوں کو پار کرتا ہوا، بحری جہاز سے دریائے سندھ کے ذریعے سندھ تک اور پھر اس سے بھی آگے بحر عرب اور بحر احمر تک لے جاتا تھا۔ گندھارا سے چین اور وسطی ایشیائی تجارت کا سلسلہ شمالی ہندوستان تک بھی جاری رہتا تھا۔

ساتواں نقشہ: شاہراہ ریشم
ساتواں نقشہ: شاہراہ ریشم

بودھی خانقاہیں چین سے سندھ کی بندرگاہوں تک جگہ جگہ شاہراہ ریشم پر بکھری ہوئی تھیں۔ یہ خانقاہیں تاجروں کو سفر کے دوران آرام کرنے کی سہولتیں اور قرض کے طور پر سرمایہ بھی دے دیتی تھیں۔ اس کے علاوہ یہاں ان بودھی کاریگروں کو رہنے کی جگہ بھی میسّر تھی جو چین سے لائے ہوئے ادنٰی قیمت والے ہیروں کو تراشنے کا کام کرتے تھے۔ بودھی تاجر اور کاریگر ہی ان خانقاہوں کو بنیادی معاشی امداد مہیا کرتے تھے۔ اس طرح بودھی فرقے کی فلاح کے لیے تجارت کا یہ سلسلہ بہت ضروری تھا۔

فتح عرب سے قبل ایران کے ساسانی حکمران اپنی سلطنت کے اندر کسی بھی سامان کی نقل وحمل پر تاجروں سے بہت زیادہ نرخ وصول کرتے تھے۔ اسی وجہ سے بازنطینی لوگ، اسباب تجارت کو نسبتاً کم مہنگے سمندری راستے، یعنی سندھ سے ایتھوپیا کے ذریعے، اور پھر زمینی راستے سے لے جانے کے حق میں تھے۔ بہر حال، ۵۵۱ء میں بازنطین کو ریشم کے کیڑے پالنے کے طریقوں سے متعارف کرایا گیا اور چینی ریشم کی مانگ میں گراوٹ آگئی۔ ساتویں صدی عیسوی میں عربوں کی جنگی مہمات نے اس وقت تک تجارت کو مزید نقصان پہنچایا جب تک کہ ایران سے ہوکر جانے والے زمینی تجارتی راستہ پر آنے جانے کی اجازت نہیں ملی تھی۔ آٹھویں صدی کے آغاز پر ہان چینی زائر یی-جنگ نے یہ اطلاع دی کہ وسطی ایشیا میں چین اور سندھ کے مابین تجارت میں، بنو امیہ، تانگ چینیوں، تبتوں، مشرقی ترکوں، ترکی شاہیوں اور ترغشوں کے درمیان جاری رہنے والی مسلسل جنگوں کے باعث، شدید کمی آ گئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ چینی سامان تجارت اور زائرین اب سفر کے لیے آبنائے ملکّا اور سری لنکا کے سمندری راستے استعمال کرنے لگے۔ اس صورت حال کے پیش نظر، بنو امیہ کے حملوں کی شروعات کے دور میں، سندھ کا بودھی فرقہ ایک مشکل وقت سے گزر رہا تھا۔

سندھ پر حملے

اپنی خلافت کے ابتدائی برسوں میں بنو امیہ متعدد موقعوں پر، مسلسل یہ کوشش کرتے رہے کہ برصغیر ہندوستان پر قبضہ کرلیں۔ بلاشبہ، ان کے خاص مقاصد میں ایک یہ مقصد بھی شامل تھا کہ وہ اس تجارتی راستے پر تسلط قائم کرلیں جو دریائے سندھ کی وادی سے نکل کر سندھ کی سمندری بندرگاہوں تک جاتا تھا۔ چونکہ وہ ترکی شاہیوں سے گندھارا کو چھیننے میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکے اور انہیں کبھی یہ موقع بھی نہیں مل سکا کہ درّہ خیبر کے راستے سے برصغیر میں ان کے علاقوں کے اندر سے ہوکر گزر سکیں۔ ایسی صورت میں متبادل صرف یہی رہ جاتا تھا کہ وہ گندھارا کے پاس سے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے سندھ کی جنوبی سمت کا راستہ اختیار کریں اور گندھارا پر دو محاذوں سے حملہ کریں۔

آٹھواں نقشہ: باختر اور سندھ کے خلاف بنو امیہ کی مہمات
آٹھواں نقشہ: باختر اور سندھ کے خلاف بنو امیہ کی مہمات

سندھ پر قبضہ کرنے کی پہلی دو کوششیں ناکام رہیں۔ بہر حال، ۷۱۱ء میں، تقریباً اسی وقت جب انہوں نے سمرقند پر ہاتھ ڈالا، عربوں نے بالآخر اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کرلی۔ اس وقت اموی سلطنت کے بعید ترین مشرقی صوبوں کا گورنر حجاج بن یوسف سقفی تھا، جس میں آج کے زمانے کا مشرقی ایران، بلوچستان (مکران) اور جنوبی افغانستان بھی شامل تھے۔ اس نے اپنے بھتیجے اور داماد، جنرل محمد بن قاسم کو دوہزار کی تعداد پر مشتمل فوج کے ساتھ، سندھ پر سمندری اور زمینی، دونوں اطراف سے حملے کے لیے بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ اس حملے کا پہلا نشانہ دیبل کا ساحلی شہر تھا جو موجودہ کراچی کے قریب واقع ہے۔

اس وقت سندھ میں ہندوؤں، بودھوں اور جینوں کی ملی جلی آبادی تھی۔ شوان-دزنگ کا بیان ہے کہ چار سو سے زیادہ بودھی خانقاہوں میں وہاں چھبیس ہزار بھکشو رہتے تھے۔ شہری تجارت پیشہ اور دست کار طبقے کی اکثریت بودھوں والوں پر مشتمل تھی، جب کہ دیہاتی کسانوں میں بیشتر ہندو تھے۔ اس علاقے پر ایک دیہی اساس رکھنے والے ہندو برہمن چاچ کی حکمرانی تھی جس نے حکومت کا اختیار غصب کرلیا تھا۔ وہ کھیتی باڑی کی حمایت کرتا تھا اور تجارت کی سرگرمی کے تحفظ میں اس کو دلچسپی نہیں تھی۔

ہندوؤں میں ایک جنگجو فرقہ بھی تھا جس نے اپنے سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کے ساتھ اموی افواج سے نبرد آزمائی کی۔ دوسری طرف بودھی تھے، جن میں کوئی جنگجوانہ روایت یا فرقہ نہ ہونے اور چاچ کی پالیسیوں سے بے اطمینانی کے باعث، اس بات پر رضامندی پائی جاتی تھی کہ وہ تباہی اور بربادی سے گریز کرتے ہوئے پر امن طریقے سے اطاعت قبول کرلیں۔ جنرل بن محمد قاسم کی فوجوں کو فتح ملی، اور کہا جاتا ہے کہ انہوں نے مقامی آبادی کو بڑی تعداد میں تہہ تیغ کر دیا نیز مزاحمت کرنے والوں کو سزا دینے کے لیے شہر کو بھاری نقصان پہنچایا۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ اس رپورٹ میں کتنا مبالغہ ہے۔ عربوں میں سب سے زیادہ خواہش اس بات کی تھی کہ معاشی طور پر مستحکم سندھ کو اپنے زیر اقتدار لے آئیں تاکہ وہاں کے راستے سے کی جانے والی تجارت میں اور اس کے ذریعے حاصل ہونے والے منافع میں اضافہ ہو۔ تاہم، امویوں نے وہاں کے خاص ہندو مندر کو مسمار کرکے اس کی جگہ پر ایک مسجد تعمیر کروائی۔

اس کے بعد اموی فوجوں نے پاکستان کے موجودہ شہر حیدر آباد کے قریب واقع نرون کے خلاف اپنی پیش قدمی کا آغاز کیا۔ اس شہر کے بودھی گورنر نے رضامندانہ طور پر ہتھیار ڈال دیے۔ بہر حال، ایک اور مثال قائم کرنے کے لیے فاتح مسلمانوں نے یہاں کی ایک بڑی بودھی خانقاہ کے مقام پر بھی ایک مسجد تعمیر کروائی۔ بقیہ شہر کو انہوں نے حسبِ حال چھوڑ دیا۔

بودھوں اور ہندوؤں، دونوں نے عربوں کے ساتھ تعاون کیا، اگرچہ بودھی، اس معاملے میں ہندوؤں سے آگے تھے۔ اس طرح دو تہائی سندھی شہروں نے حملہ آوروں کے سامنے پر امن طریقے سے ہتھیار ڈال دیے اور ان سے معاہدے اور سمجھوتے کرلیے۔ مزاحم ہونے والوں پر حملے کیے گئے اور انہیں سزا دی گئی، اطاعت قبول کرنے والوں اور تعاون کی راہ اپنانے والوں کو تحفظ دیا گیا اور اپنے مذہب پر کاربند رہنے کی آزادی بھی دی گئ۔

سندھ پر قبضہ

گورنر حجاج بن یوسف کی رضامندی سے، جنرل محمد بن قاسم نے اب رواداری کی پالیسی اختیار کی، بودھوں اور ہندوؤں کو محفوظ رعایا (ذمیوں) کی حیثیت دے دی گئی۔ جب تک وہ اموی خلیفہ کے حق وفادار رہیں اور معینہ محصول (جزیہ) ادا کرتے رہیں، انہیں اپنے مذہب پرکاربند رہنے اور اپنی زمین اور ملکیت پر قابض رہنے کی اجازت تھی۔ بہر حال، بہت سے بودھی سوداگروں اور دست کاروں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کر لیا۔ مسلمان حلقوں کی طرف سے جیسے جیسے مقابلہ آرائی میں اضافہ ہوتا گیا۔ ان کو یہ احساس ہونے لگا کہ اپنا پرانا مذہب بدل دینے اور کم محصول ادا کرنے میں معاشی فائدے ہیں۔ معینہ محصول کے ساتھ ساتھ ذمی تاجروں کو اپنے تمام مال پر دوہری ڈیوٹی ادا کرنی پڑتی تھی۔

دوسری طرف، اگرچہ اسلام کی اشاعت کرنے میں جنرل بن قاسم کو خاصی دل چسپی تھی، تاہم یہ اس کا بنیادی مقصد نہیں تھا۔ تبدیلی مذہب کا خیر مقدم وہ بے شک کرتا تھا، لیکن اس کی بنیادی مصروفیت سیاسی اقتدار کو قائم رکھنے میں تھی۔ اسے زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرنے کی ضرورت تھی تاکہ وہ اپنی مہم کے بھاری اخراجات اور پہلے کی تمام فوجی ناکامیوں کا تاوان حجاج کے دربار میں واپس لوٹا سکے۔

عرب جنرل محمد بن قاسم نے یہ مقصد نہ صرف زمین اور تجارت پر ٹیکس کے ذرائع سے حاصل کیا، بلکہ اس ٹیکس کے ذریعے سے بھی جو بودھوں اور ہندوؤں کو اپنے مقدس مزارات کا دورہ کرنے کے لئے ادا کرنا پڑتا تھا۔ اس واقعے سے شاید یہ نشاندہی بھی ہوتی ہے کہ سندھ کے بودھی بھکشوؤں کو شمال میں اپنے گندھارا کے بھکشوؤں کی طرح، اس دور کے اسی ذلت آمیز رواج کی عادت پڑ گئی تھی جس کے مطابق وہ زائروں سے اپنے مندروں میں داخلے کا محصول وصول کرتے تھے، اور امویوں نے بس یہی تو کیا کہ ان کی یہ آمدنی اپنے قبضے میں کرلی تھی۔ اس طرح، بعد کے بیشتر ادوار میں، مسلمانوں نے سندھ میں، بودھی، ہندو مندروں، شبیہوں اور وہاں حفاظت سے رکھے ہوئے تبرکات کو مزید نقصان نہیں پہنچایا، کیونکہ انہی کی وجہ سے تو وہاں زائرین آتے تھے اور ان سے خوب کمائی اور آمدنی ہوتی تھی۔

سوراشٹرا کا معرکہش

اس زمانے میں مغربی ہندوستان بودھی سرگرمی کا سب سے بڑا مرکز والابھی کے مقام پر تھا جو آج کے گجرات میں مشرقی سوراشٹرا کے ساحل پر واقع تھا۔ اس علاقے پر میترا کی سلطنت کا راج تھا (۴۸۰۔۷۱۰ء) جو سفید فام ہنوں کے قبضے سے پہلے، اپنے زوال کے آخری سالوں میں پہلی گپت سلطنت سے ٹوٹ کر الگ ہوگیا تھا۔ شوان-دزنگ کے بیان کے مطابق، اس علاقے میں ایک سو سے زائد خانقاہیں تھیں جن میں چھ ہزار بھکشو رہتے تھے۔

ان اداروں میں عظیم ترین حیثیت دودّا وہار کمپلیکس کی تھی، یہ ایک وسیع خانقاہی یونیورسٹی تھی۔ جہاں بھکشوؤں کے لیے اعلی سطح کی تعلیم کا انتظام تھا اور جس میں صرف بودھی کے مذہبی مضامین ہی شامل نہیں تھے، بلکہ طب اور سیکولر علوم کے درس کا نظام بھی رائج تھا۔ یہاں کے بہت سے فارغ التحصیل طالب علم میتراکاؤں کے زیر حکومت سرکاری ملازمتوں میں داخل ہو جاتے تھے۔ اس کے بدلے میں راجاؤں کی طرف سے خانقاہوں کو امداد کے طور پر کئی گاؤں دے دیے گئے تھے۔ ہان چینی زائر یی-جنگ نے میترا کا حکومت کے آخری برسوں میں، والابھی کا دورہ کیا اور اس ادارے کی عظمت کی گواہی دی، جو اس وقت تک بدستور برقرار تھی۔

سندھ پر بنو امیہ کے حملے سے ایک سال پہلے، ۷۱۰ء میں میترا کی حکومت کا بیشتر حصہ تحلیل ہو کر راشٹرکوٹاؤں (۷۱۰۔۷۷۵ء) کی سلطنت میں شامل ہوگیا۔ نئے حکمرانوں نے بودھی خانقاہوں کی سرپرستی کا سلسلہ اپنے پیشروؤں کی طرح ہی برقرار رکھا۔ دودّا وہار کے تربیتی پروگرام بغیر کسی رکاوٹ کے اسی طرح چلتے رہے۔

اس کے کچھ ہی دنوں بعد، جنرل محمد بن قاسم نے اپنی مہمات کا رخ سوراشٹرا کی طرف موڑ دیا جہاں اس کی افواج نے راشٹرکوٹا حکمرانوں کے ساتھ کئی پرامن سمجھوتے اور معاہدے کیے۔ وسطی ہندوستان سے بازنطین اور یورپ کے ساتھ سمندری تجارت کا راستہ سوراشٹرا کی بندرگاہوں سے ہوکر جاتا تھا۔ عربوں کی خواہش تھی کہ ان سے بھی ٹیکس کی وصولی کی جائے، بالخصوص اس صورت میں کہ اگر ہندوستانی تاجر سندھی بندرگاہوں سے بچنے کے لیے گندھارا سے اپنے کاروبار کا رخ تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہوں۔

مسلمان سپاہیوں نے اس وقت والابھی کی جس میں صرف بودھی کے مذہبی مضامین ہی شامل نہیں تھے خانقاہوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔ انہوں نے اپنے کاروبار کی ترقی جاری رکھی اور سندھ سے بے دخل کیے جانے والے پناہ گزیں بھکشوؤں کو اپنے یہاں جگہ دیتے رہے۔ بعد کے برسوں میں والابھی کے مقام پر بہت سی نئی خانقاہوں کا اضافہ کیا گیا تاکہ آنے والوں کے اس سیلاب کے لیے گنجائش پیدا کی جاسکے۔

سندھی مہم کی تقویم

ایسا لگتا ہے کہ سندھ میں بنو امیہ کے ذریعہ جس میں صرف بودھی کے مذہبی مضامین ہی شامل نہیں تھے خانقاہوں کی بربادی سندھ پر ان کے قبضے کے پس منظر میں ایک انوکھی اور شروعاتی واردات تھی۔ فتح یاب ہونے والے جرنیلوں نے اس حملے کا حکم انہیں سزا دینے کے لیے یا پھر مخالفت سے باز رہنے کے لیے جاری کیا تھا۔ یہ کوئی کلیہ نہیں تھا۔ بعد میں، جب سوراشٹرا کے جیسے علاقوں نے پر امن طریقے سے اطاعت قبول کرلی تو اموی افواج نے خانقاہوں کو اکیلا چھوڑ دیا۔ اگر عرب مسلمان بدھ مت کو ختم کرنے کے درپے ہوتے تو انہوں نے اس وقت والابھی کو ہاتھ لگائے بغیر یونہی نہ چھوڑ دیا ہوتا۔ لہٰذا ہم اس سے یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ جس میں صرف بودھی کے مذہبی مضامین ہی شامل نہیں تھے خانقاہوں کے خلاف تشدد آمیز واقعات زیادہ تر سیاسی ترغیب کے باعث تھے، کسی مذہبی ترغیب کی وجہ سے نہیں۔ بہر حال، ان واقعات میں شامل ہونے والوں کے پس پشت، ان سب کی اپنی ذاتی مصلحتیں اور ترغیبات رہی ہوں گی۔

سندھ میں محض تین برس گزارنے کے بعد، جنرل محمد بن قاسم نے اپنے معمولی ماتحتوں کے ذمے یہ کام چھوڑ دیا کہ وہ بودھوں اور ہندوؤں کے مذہبی جذبات کے استحصال کی پالیسی کو اسی طرح نافذ کیے رہیں تاکہ حکومت کی آمدنی کا سلسلہ جاری رہے اور ٹیکس کی وصولی ہوتی رہے۔ خود اس نے اب حجاج کے دربار کو واپسی کا راستہ اپنایا۔ اس کے رخصت ہونے کے تھوڑے ہی عرصے کے بعد، بہر حال، مقامی ہندو حکمرانوں نے اپنی کھوئی ہوئی بیشتر زمینیں پھر سے حاصل کرلیں اور بس گنتی کے کچھ خاص سندھی شہر عربوں کے قبضے میں رہنے دیے۔

باختر پر بنو امیہ کا دوبارہ قبضہ

گورنر حجاج نے، ۷۱۵ء میں اپنے بھتیجے کو سندھ میں حاصل ہونے والی کامیابی سے حوصلہ پاکر، جنرل قتیبہ کو یہ ہدایت دی کہ وہ شمال مشرقی ایران کی سمت سے حملہ کرکے باختر پر دوبارہ اپنا اقتدار قائم کرلے۔ جنرل کو اس مقصد میں کامیابی ملی اور اس نے پرانی بغاوتوں کی سزا دینے کے لیے، نووہار پر ایک زبردست حملے کی ٹھانی اور اسے بھاری نقصان پہنچانے کی غرض سے آگے بڑھا۔ بہت سے بھکشو مشرق کی طرف کشمیر اور ختن کو بھاگ گئے۔ کارکوٹا کے راجہ للت آدتیہ (دور حکومت ۷۰۱۔۷۳۸ء) نے اپنے باختری بودھی وزیر کی شہ پر کشمیر میں بہت سی نئی خانقاہیں بنوائیں، تاکہ عالم فاضل پناہ گزینوں کے زبردست ریلے کو سنبھالا جاسکے۔ اس واقعے سے کشمیری بدھ مت کو زبردست بڑھاوا ملا۔

نووہار نے جلد ہی اپنے آپ کو بحال کرلیا اور پہلے کی طرح سرگرم ہوگئی جس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ باختر میں بودھی خانقاہوں کو مسلمانوں نے جو نقصان پہنچایا تھا اس عمل کے پیچھے کسی طرح کی مذہبی ترغیب نہیں تھی۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر وہ ایسے کسی ادارے کو دوبارہ تعمیر کرنے کی اجازت نہ دیتے۔

باختر میں ترکی شاہیوں اور ان کے تبتی اتحادیوں پر اموی فتح کے بعد، تبتوں نے پالا بدلا اور سیاسی مصلحتوں کے پیش نظر اپنے آپ کو اب عربوں کے ساتھ وابستہ کرلیا۔ انہوں نے مشرقی ترکستان کے جو سرسبز و شاداب شہر پہلے کھو دیئے تھے انہیں دوبارہ حاصل کرنے کے لئے معاہدے کئے، ان معاہدوں میں ناکام ٹھہرنے کے بعد بھی تبتوں کو بے شک یہ امید تھی کہ بنو امیہ کے ساتھ مل کر وہ شاہراہ ریشم کو دبارہ فتح کرلیں گے اور اس میں حصہ دار بھی بن جائیں گے۔ معاملہ جب اقتدار کی توسیع اور ریاست کے خزانے میں اضافے کا ہو تو مذہبی اختلافات، بدیہی طور پر، کوئی رول ادا نہیں کرتے۔

اس کے بعد تبتوں کی مدد سے، جنرل قتیبہ نے ترغشیوں سے فرغانہ جیت لیا، لیکن اسے اس وقت قتل کردیا گیا جب وہ انہی ترغشیوں سے کاشغر پر فتح یابی کی ایک اور مہم کے لیے تیاری کررہا تھا۔ اس کے بعد عربوں کو کبھی بھی مشرقی ترکستان میں پیش قدمی کا موقعہ نہیں مل سکا۔

اشاعت اسلام کی پہلی کوششیں

پچھلے اموی خلفا کی مذہبی رواداری کے عام میلان کے باوجود، عمر دوم (۷۱۷۔۷۲۴ء) نے دور دراز کی بستیوں اور سرزمینوں میں روحانی اساتذہ علما کو اشاعت اسلام کی غرض سے بھیجنے کی ایک پالیسی کا آغاز کیا۔ بہر حال، ان کی حیثیت خاصی کمزور تھی اور وہ اپنی پالیسی کا نفاذ سختی کے ساتھ نہیں کرسکتے تھے۔ مثال کے طور پر، خلیفہ نے فرمان جاری کیا کہ مقامی سردار صرف اسی صورت میں سندھ میں حکومت کرسکیں گے اگر وہ اسلام قبول کرلیں۔ مگر چونکہ اس وقت سندھ میں امویوں کا سیاسی اقتدار ختم ہوچکا تھا اس لیے، ان کے اس فرمان کو بیشتر نظر انداز کیا گیا اور انہوں نے بھی اس معاملے پر زیادہ زور نہیں دیا۔ نومسلم باشندے سندھی بودھوں اور ہندوؤں کے ساتھ امن چین سے زندگی گزار رہے تھے اور یہ روش اموی اقتدار کے خاتمے تک جاری رہی۔ پالا سلطنت (۷۵۰ء – بارہویں صدی کے اوآخر) سے متعلق اس دور اور اس کے بعد کی کئی صدیوں کے دوران، شمالی ہندوستان کے کتبوں میں، بدستور، سندھ کے بدھ بھکشوؤں کا تذکرہ موجود ہے۔

عمردوم نے یہ فرمان بھی جاری کیا کہ تمام اموی اتحادیوں کو اسلام پر کاربند ہونا چاہیے۔ لہٰذا، تبت کے شاہی دربار نے سفیر بھیجا کہ اس نئے عقیدے کی تبلیغ کے لیے اس کے علاقے میں ایک استاد مہیا کیا جائے۔ خلیفہ نے تعلیم دینے کے لیے الصلت بن عبداللہ الحنفی کو بھیج دیا۔ اس واقعے سے کہ متذکرہ معلّم کو، تبت میں، اسلام کے دائرے میں نئے لوگوں کو شامل کرنے میں کسی طرح کی مصدقہ کا میابی نہیں ملی، یہ پتہ چلتا ہے کہ بنو امیہ اپنے مذہب کی اشاعت کی کوششوں میں زیادہ سرگرم نہیں تھے۔ دراصل ان کے لیے بنو امیہ کے لیے عرب قبائلیت ایک کثیر الثقافتی اسلامی معاشرے کے قیام کے مقابلے میں کہیں زیادہ اہمیت رکھتی تھی۔ انہوں نے وسطی ایشیا میں جہاں بھی فتح حاصل کی، اپنے مذہب اور ثقافت کا پودا، اصلاً اپنے ہی لیے لگایا۔

اس کی اور بھی بہت سی وجوہات تھیں کہ تبت والوں نے کسی مسلمان معلم کی باتیں کھلے دل کے ساتھ کیوں نہیں سنیں؟ اس بات کا تعلق خود ان کا اسلام کی بنیادی فلسفے سے بہت دوری ہے۔ اسی لیے، اب ہم تبت میں اسلام اور بدھ مت کے مابین پہلی مقابلہ آرائی کے سیاسی پس منظر پر زیادہ قریب سے نظر ڈالتے ہیں۔

Top