بودھی ایشیا اور مسلمانوں کی پہلی مڈ بھیڑ

اسلام سے پہلے بدھ مت کی شمالی افریقہ اور مغربی ایشیا میں موجودگی

ہندوستان اور مغربی ایشیا کے درمیان زمینی اور سمندری راستوں سے تجارت کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ ہندوستان اور میسوپوٹیمیا میں کاروباری روابط کا آغاز بہت پہلے ۳۰۰۰ سال قبل مسیح میں ہوا، یمن کی درمیانی بندرگاہوں کے ذریعے ۱۰۰۰ سال قبل مسیح۔ بدھ کی پچھلی زندگیوں کی روداد پر مشتمل ابتدائی بودھی مجموعے، "بویرو جاتک" کے ایک باب میں بابل (سنسکرت: بویرو) کے ساتھ سمندری ساحلوں کے آس پاس ہونے والے کاروبار کا تذکرہ ملتا ہے۔

سال ۲۵۵ قبل مسیح میں، ہندوستان کے موریہ شہنشاہ اشوک نے (دور حکومت: ۲۳۲۔۲۷۳ سال قبل مسیح) بودھی بھکشوؤں کو اپنا سفیر بنا کر بھیجا تاکہ وہ شام اور مغربی ایشیا کے مذہبی حکمراں اینٹی یوکس دوم، مصر کے فلاڈیلفاس بطلیموس دو، سائرین کے ماگاس، مقدونیہ کے اینٹی گون گونٹاس اور کورنتھ کے اسکندر سے تعلقات قائم کرسکیں۔ آخرکار، ہندوستانی سوداگروں، ہندو اور بودھ مت دونوں کے گروہ ایشیائے کوچک، جزیرہ نمائے عرب، اور مصر کی سمندری اور دریائی بندرگاہوں میں سے بعض اہم بندرگاہوں میں جاکر بس گئے۔ جلدی ہی دوسرے پیشوں سے تعلق رکھنے والے ہندوستانیوں نے بھی ان کی تقلید کی، شامی مصنف، زینوب گلاک نے ایک ہندوستانی قوم کے بارے میں لکھا ہے جو پوری طرح اپنی مذہبی عبادت گاہوں (مندروں) کے ساتھ، موجودہ زمانے کے ترکی میں، دوسری صدی قبل مسیح کے دوران وان جھیل کے مغرب میں دریائے فرات کے بالائی علاقے کی طرف آباد ہوگئی تھی، اور یونان کے سابق قوم پرست ڈیوں کرائسوسٹم (۴۰۔۱۱۲ء) نے ایسی ہی ایک قوم کے اسکندریہ میں بودوباش اختیار کر لینے کا ذکر کیا ہے۔ جیسا کہ آثار قدیمہ کی باقیات سے ثابت ہے، دوسری بودھی بستیاں دریائے فرات کے نشیبی علاقے میں کوفہ کے مقام پر، زیرراہ کے مشرقی ایرانی ساحل پر، اور جزیرہ سوکوترا کے خلیج عدن کے دہانے پر واقع تھیں۔

پہلے ہزار برس کے وسط میں بابلی اور مصری تہذیبوں کے زوال، اور اسی کے شانہ بشانہ بحر احمر میں بازنطینی جہاز رانی میں تخفیف کے ساتھ، ہندوستان اور مغرب کے مابین ہونے والی تجارت کا بڑا حصہ جزیرہ نمائے عرب تک سمندری راستے سے پہنچتا تھا اور پھر عرب ثالثوں کی وساطت سے زمینی راستہ اختیار کرتے ہوئے آگے بڑھ جاتا تھا۔ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) (۵۷۰۔۶۳۲ء) کی جائے پیدائش مکہ مکرمہ ایک اہم تجارتی مرکز بن گیا جہاں مشرق و مغرب کے سوداگر آپس میں ملتے تھے۔ ان میں جو سب سے اہم (کاروباری) تھے، انہی میں جاٹ لوگ (عربی: ذوت) بھی شامل تھے، جن میں سے بہت ساروں نے خلیج فارس کے اوپری سرے پر واقع، موجودہ زمانے کے شہر بصرہ کو اپنی جائے رہائش بنا لیا۔ پیغمبر اسلام کی زوجہ حضرت عائشہ کا علاج ایک مرتبہ ایک جاٹ معالج نے کیا تھا۔ اس طرح محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) یقینی طور پر ہندوستانی ثقافت سے واقف تھے۔

چوتھا نقشہ: مغربی ایشیا اور شمالی افریقہ میں ابتدائی ہندوستانیوں کا قیام
چوتھا نقشہ: مغربی ایشیا اور شمالی افریقہ میں ابتدائی ہندوستانیوں کا قیام

مزید ثبوت کے طور پر وسط بیسویوں صدی کے اسکالر حامد عبدالقادر کی کتاب "بدھ اعظم، ان کی حیات اور فلسلفہ" (عربی: "بدھ الاکبر، حیاتہ و فلسفۃ") کا یہ بیان ہے کہ پیغمبر ذوال کفل (کفل کا باشندہ)، جس کا تذکرہ قرآن میں ایک صابر اور نیک شخص کے طور پر دوبار آیا ہے، بدھ کی طرف ہی اشارہ کرتا ہے، اگرچہ بیشتر لوگ اس سے عیزیکیل مراد لیتے ہیں۔ اس تھیوری کے مطابق "کفل" کپل وستو کی جائے پیدائش کپل وستو کا عربی مترادف ہے۔ اسی اسکالر نے یہ خیال بھی پیش کیا ہے کہ انجیر کے درخت کا حوالہ بھی بدھ کی ہی طرف ہے جنہوں نے ایک شجر کے نیچے عرفان پایا۔

اسلام کی ابتدائی تاریخوں میں سے ایک "تاریخ طبری" دسویں صدی عیسوی کے دوران بغداد میں الطبری (۸۳۸۔۹۲۳ء) کے ذریعے لکھی گئی جس میں عرب میں موجود ہندوستانیوں کے ایک گروہ کا تذکرہ ہے جو سندھ سے آئے تھے اور سرخ لباس (احمر) پہنتے تھے۔ اس میں شک نہیں کہ یہ اشارہ "زعفرانی ملبوس" والے بودھی بھکشوؤں کی طرف ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ان بھکشوں میں سے تین نے اسلامی دور کے ابتدائی کچھ برسوں کے دوران عربوں کے سامنے فلسفیانہ تعلیمات کی تشریح کی۔ لہٰذا، یہ طے ہے کہ کم سے کم عرب رہ نما، جزیرہ نمائے عرب سے آگے اسلام کو لے جانے سے پہلے، بدھ مت سے واقف ہو چکے تھے۔

Top