چونکہ سغدیہ اور باختر ہی وہ خاص علاقے تھے جن تک عربوں نے وسطی ایشیا میں اسلام کی اشاعت سب سے پہلے کی۔ اس لیے، ہمیں وہاں کے باشندوں کے مذہبی پس منظر کو مزید توجہ کے ساتھ دیکھنا ہوگا۔ اس سے مسلم عقیدے کے تئیں ان لوگوں کے اولین ردّعمل کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔
بدھ مت سے زر تشتیوں کے رشتے
سغدیہ اور باختر کے باشندوں کی اکثریت زرتشتی تھی، جبکہ بودھوں، مانويوں، نسطوریوں عیسائیوں اور یہودیوں کو وہاں کی اہم اقلیتوں کی حیثیت حاصل تھی۔ دوسری صدی قبل مسیح کے خاتمے سے لے کر ۲۲۶ء تک کشان حکومت کے دوران اس پورے علاقے میں بدھ مت پھیل گیا تھا۔ لیکن یہ کبھی دین زرتشت پر سبقت نہ پاسکا۔ لہذا، فطری طور پر، سغدیہ میں اس کی حالت سب سے کمزور تھی کیوں کہ کشمیر، گندھار، اڈیانہ اور کابل میں کشانوں کے مراکز اقتدار سے دور دراز علاقوں تک پھیلے ہوئے تھے۔
فارسی ساسانیوں (۲۲۶۔۶۳۷ء) نے سغدیہ، باختر، کاشغر، گندھارا کے مختلف حصوں پر پانچویں صدی کی شروعات تک حکومت کی جب تک کہ سفید فام ہنوں نے اس علاقے کو فتح کر کے انہیں ایران میں پناہ لینے پر مجبور نہیں کیا۔ اگرچہ ساسانیوں کی سلطنت طبعاً قوم پرست اور مشتاقانہ طور پر زرتشت نواز تھی۔ جس کے زیادہ سخت گیر حکمرانوں نے ایسے کسی بھی زرتشتی فرقے پر جوان کے نزدیک بدعتوں کا شکار ہوگیا ہو، سخت ستم ڈھائے تھے، مگر ان میں زیادہ تر لوگ دوسرے مذاہب کی طرف رواداری کا رویہ رکھتے تھے۔ وہ انہیں اس بات کی اجازت دیتے تھے کہ اپنے عقائد کے پابند رہیں بشرطے کہ ہر بالغ مرد ایک طے شدہ آمدنی، جزیہ کے طور پر ادا کرتا رہے۔
اس میلان میں ایک بڑی استثنائی شکل تیسری صدی کے نصف دوم میں اس وقت رونما ہوئی، جب زرتشتوں کے بڑے پروہت کارتر نے، سلطنت کی مذہبی پالیسی کو راستہ دکھانا شروع کیا۔ اپنی مملکت سے دیوی دیوتاؤں کی تمام شبیہوں کو نکال پھینکنے کے مصلحانہ جوش کے ساتھ اور اس عزم کے ساتھ کہ آئندہ صرف زرتشتیوں کی مقدس آگ پوری مملکت میں عبادت کا مرکز ہوگی۔ کارتر نے متعدد بدھ خانقاہوں کو مسمار کرنے کا حکم جاری کیا جن میں بطور خاص باختر کی خانقاہیں شامل تھیں۔ ایسا اس لیے کیا گیا کیونکہ ان خانقاہوں میں موجود مجسموں اور دیواری تصاویروں میں بہت سے زرتشتی عناصر بھی شامل کرلیے گئے تھے۔مثلاً، بدھ کی شبیہ کو اکثر ایک شعلہ نما ہالے کے ساتھ دکھایا جاتا تھا یا اس کے ساتھ ''بدھ-مزد'' کے الفاظ کندہ کردیے جاتے تھے۔ ایسی صورت میں، باختری بدھ مت اس بڑے پروہت کو زرتشتی بدعت کا شکار دکھائی دیتا۔ بہر حال، کارتر کی تعذیب کے بعد، بدھ مت کو پھر سے فروغ ملا۔
زروانیت
زروانیت ایک زرتشتی فرقہ تھا جسے بعض اوقات کچھ خاص ساسانی بادشاہوں کی حمایت حاصل رہی اور دوسرے وقتوں میں زیادہ کٹر حکمرانوں نے اسے بدعت سمجھ کر جڑ سے ختم کرنا چاہا۔ اگرچہ ساسانی سلطنت کے طول وعرض میں ہر طرف یہاں تک کہ زرتشت کی جائے پیدائش بلخ میں بھی جگہ جگہ زروانیت کے مراکز موجود رہے، تاہم وہ جگہ جس کی طرف زروانیوں نے سب سے زیادہ کشش محسوس کی، سغدیہ تھی۔ ایسا شاید سغدیہ کی دورافتادگی کے باعث تھا۔
سغدیائی زروانی اس زرتشتی گروہ کے لوگ تھے جن کا رویہ دوسرے مذاہب کی طرف سب سے زیادہ معاندانہ اور جارحانہ تھا۔ باختر میں ان کے ساتھی زروانیوں سے کہیں زیادہ مخاصمت آمیز۔ ان کی جارحیت شاید اس احساس مدافعت کی وجہ سے تھی جو ایران میں انہیں تعصب کا ہدف بنائے جانے کے باعث پیدا ہوا تھا، علاوہ ازیں، اس میں یہ وجہ بھی شامل تھی کہ سغدیہ کے ماحول نے ان میں اپنی تعداد کے یکجا ہونے کی وجہ سے ایک طرح کی خود اعتمادی بھی پیدا کردی تھی۔ ان کی عصبیت نے بہت سے بودھوں، مانويوں اور سغدیہ کے نسطوری عیسائیوں کو اپنا گھر چھوڑنے اور مشرق میں شاہراہ ریشم کے ساتھ ساتھ، تاریم طاس (نشیبی علاقے) کی شہری ریاستوں، بالخصوص ترفان میں جابسنے پر مجبور کردیا۔ چونکہ ترفان کے تخاری بھی ایک مہاجر فرقے کے لوگ تھے جو مغرب سے وہاں آئے تھے، اس لیے سغدیائی پناہ گزینوں کا ان کی طرف سے شاید ہمدردانہ طریقے سے استقبال کیا گیا۔
سفید فام ہنوں کی حکومت اور سغدیہ میں اس کا ماحاصل
سفید فام ہن باشندے، جنہوں نے ساسانیوں سے سغدیہ اپنے قبضے میں لے لیا تھا، بیشتر ادوار میں، بودھوں کی شدید حمایت کرتے رہے۔ انھوں نے صرف وسطی ایشیا کے سابقہ ساسانی موضعوں پر ہی حکومت نہیں کی بلکہ شمالی ہندوستان کے کچھ حصّے، کشمیر اور ختن بھی ان کے زیر اقتدار رہے۔ جیسا کہ پہلے اشارہ کیا جاچکا ہے، پانچویں صدی کی شروعات میں، جب فاشیان نے یہاں کا سفر کیا تو یہ بتایا تھا کہ سغدیہ میں بدھ مت کی بنیادیں اس وقت مضبوط تھیں۔ تاہم، وہاں کے لوگوں کی اکثریت ابھی تک زروانی تھى جو غالباً بودھی احیا کو پسند نہیں کرتے تھے۔
۵۱۵ ء میں، سفید فام ہن راجہ مہرکلا نے بودھوں پر ایک مختصر لیکن تباہ کن جبر کی شروعات کی۔ ایسا سمجھا جاتا ہے کہ اس کی فوجوں نے چودہ سو خانقاہیں برباد کر ڈالیں۔ سب سے زیادہ نقصان گندھارا کے میدانوں، کشمیر اور شمال مغربی ہندوستان نے اٹھایا جہاں فام ہون راجہ مہرکلا کے اقتدار کے مراکز تھے۔ اس نے اپنی سلطنت کے زیادہ دور افتادہ علاقوں، مثلاً سوات میں اپنی اس پالیسی کا نفاذ نہیں کیا۔ بہر حال، ایک خاص حد تک ان علاقوں پر اس کا اثر پڑا۔ مثال کے طور پر سمرقند کی خانقاہیں مسمار تو نہیں کی گئیں مگر بھکشوں سے پوری طرح خالی ہوگئیں۔
بدھ مت کے تئیں مقامی زروانیوں کی ناپسندیدگی نے، بلاشبہ، ان سغدیائى خانقاہوں کے پھر سے کھولے جانے میں رکاوٹ ڈالی، ان کے اس دماغی خلل کو ایران میں راسخ العقیدہ زرتشتیت کے ازسرنو سختی کے ساتھ اپنے دعوے پر اصرار نے شاید اور زیادہ ہوا دی، اسی کے ساتھ ساتھ کچھ ہی دنوں بعد، ساسانی بادشاہ خسرو (دور حکومت ۵۳۲۔۵۷۸ء) کے ذریعے بدعتی فرقوں پر ڈھائے جانے والے مظالم سے بھی انہیں تقویت ملی تھی۔ اس طرح، مغربی ترکوں نے سغدیہ میں، ۵۶۰ء میں بدھ مت کو کمزور پایا اور شوان-دزنگ نے ۶۳۰ء میں یہ اطلاع دی کہ سمرقند کی خانقاہیں ابھی تک بند پڑی تھیں اور بدھ مت کی طرف مقامی ''زرتشی'' فرقے کا رویہ جارحانہ تھا۔
خود ایران میں، شوان-دزنگ کی رپورٹ کے مطابق، سابق پارتھیا کے مقام پر، جو کہ ملک کے شمال مشرق میں واقع تھا، اس وقت تین بودھی خانقاہیں بچی ہوئی تھیں۔ گیارہویں صدی کے مسلمان مؤرخ، البیرونی کا کہنا ہے کہ وہاں پہلے شام کی سرحدوں کےساتھ ساتھ، راستے بھر بڑی تعداد میں خانقاہیں موجود تھیں۔ بظاہر ساسانیوں نے باقی سب کو برباد کردیا تھا۔
باختر
شوان-دزنگ نے باختر میں بدھ مت کو فروغ پذیر دیکھا، بالخصوص بلخ میں خانقاہ نووہار کے مقام پر۔ گو کہ بلخ زرتشتیت کا مقدس ترین شہر تھا اور وہاں کے باشندوں کی اکثریت، بشمول زروانی فرقے کے، اسی مذہب کی پیروکار تھی، اس کے باوجود یہ لوگ بدھ مت کے تئیں روادار تھے۔ سغدیہ کے مقابلے میں ایران سے یہاں آنے والے زروانی مہاجرین کی تعداد خاصی کم تھی اور شاید اسی وجہ سے ان لوگوں کو اپنے مذہب کے سلسلے میں حفاظت کرنے کی فکر بھی کم تھی۔
زرتشتی دنیا کے روحانی مرکز میں رہتے ہوئے، بظاہر یہی لگتا ہے کہ انہیں تعلیمات کو پھیلانے والے بودھی خانقاہی ادارے کی موجودگی سے ڈر نہیں لگتا تھا۔ ایسے ماحول کی وجہ سے نووہار کو پورے وسطی ایشیا کے بودھی فرقوں کی حمایت حاصل تھی، اور یہاں تعلیم کا معیار بلند ہونے کے باعث داخلے کے امیدواروں کی درخواستیں مسلسل موصول ہوتی رہتی تھیں، یہ دونوں باتیں اس خانقاہ کی اور ترقی کی ضامن تھیں۔ قطع نظر اس تمام نقصان کے جو اسے مہرکلا کے مختصر دور استبداد میں پہنچتا رہا۔
گندھارا
اگرچہ وسطی ایشیا کے اولین عربوں کے لیے گندھارا پہنچنا ممکن نہیں تھا، تاہم، اس پوری روداد کی تکمیل کے لیے، بدھ مت کی حالت کا تجزیہ بھی کر لینا چاہیے۔ شوان-دزنگ کے بیان کے مطابق، گندھارا کی خانقاہیں سرگرم تھیں، مگر نہایت پست روحانی سطح پر۔ مہرکلا کی فوجوں کا ڈھایا ہوا ستم اور بیشتر نقصان کابل کے علاقے اور گندھارا کے پنجابی میدانوں نے برداشت کیا۔ وہاں کے بودھی باشندے، خاص طور پر گندھارا میں رہنے والے، ایک ایسے ماحول سے دوچار تھے جو بڑی حد تک ہندو تھا، عباداتی رسوم پر زور دیتا تھا، اور جو بدھ کو ایک ہندو دیوتا کے طور پر تسلیم کرتا تھا۔ درس و تدریس کے بڑے مراکز نہ ہونے کی وجہ سے، اس واقعے پر حیران نہیں ہونا چاہیے کہ اگرچہ خانقاہیں کھلی ہوئی تھیں، مگر ان کی ساری توجہ زائرین کی عام عقیدت مندانہ ضرورتوں پر تھی نہ کہ بدھ مت سنجیدہ مطالعے پر۔ مختصر یہ کہ گندھارا کی خانقاہیں مہرکلا کی لائی ہوئی بربادیوں کی وجہ سے کبھی بھی پوری طرح ابھر نہ سکیں اور ان کی صحت بحال نہ ہو سکی۔
خلاصہ
ان تمام تفصیلات کے پس منظر میں، یہ پیش گوئی کی جا سکتی ہے کہ شروع میں نہ توزروانی اکثریت اور نہ ہی سغدیہ کی بدھ مت اقلیت کھلے بندوں اسلام کا خیر مقدم کرسکتی تھی۔ زروانیوں نے ایک چھوٹے سے فرقے کی حیثیت سے اپنے لیے ایران میں طاقت ور اور راسخ العقیدہ زرتشتیوں کی ناپسندیدگی کا تجربہ برداشت کیا تھا، اور سغدیہ کے بودھوں کو بھی زروانیوں کے ہاتھوں اسی طرح کے تجربے سے گزرنا پڑا تھا۔ لہذا، ان میں سے زیادہ تر کے لیے، عربوں کی حکومت کے ساتھ رونما ہونے والی صورت حال کو، جو ایک مسلمان ریاست میں محفوظ مگر دوسرے درجے کی غیرمسلم رعایا (عربی اصطلاح میں ''ذمی'') کی حیثیت سے عبارت ہے، اسے قبول کرنے میں کوئی مشکل درپیش نہیں تھی۔ ایران کی ساسانی رسم کو اختیار کرتے ہوئے، عربوں کا مطالبہ ہر بالغ مرد سے یہ تھا کہ وہ طے شدہ آمدنی (عربی میں ''جزیہ'') اپنے مذہب پر قائم رہنے کے لیے، ادا کرتا رہے۔ باختر میں زرتشتی اور بودھی دونوں اس کی تمام تر قیمت ادا کرتے رہنے کے باوجود اپنے عقائد میں مستحکم اور خود اعتماد تھے۔ وہ اسے جاری بھی رکھنا چاہتے تھے۔