ساتویں صدی عیسوی کے وسطی دور میں، وسطی ایشیا میں عربوں کے ذریعے سے اسلام کی آمد سے بہت پہلے، سینکڑوں برسوں تک، وہاں بدھ مت پھلتا پھولتا رہا۔ یہ صورت حال، بالخصوص شاہراہ ریشم کے آس پاس زیادہ نمایاں تھی۔ ہندوستان اور ہان چین کے درمیان کاروبار بھی اسی راستے سے ہوتا تھا اور یہ شاہراہ بازنطین اور سلطنت روما، دونوں سے منسلک تھی۔ اب ہم دنیا کے اس حصّے میں بدھ مت کے اولین فروغ کا ایک مختصر خاکہ پیش کرتے ہیں تاکہ اسلام کو درپیش تاریخی پس منظر، ذرا بہتر طریقے سے سمجھا جا سکے۔
جغرافیہ
وسطی ایشیا کے ابتدائی بودھی علاقوں میں، موجودہ جغرافیائی خطے کے حوالے سے، مختلف اوقات میں حسب ذیل نقشہ مرتب ہوتا ہے:
(۱) ہندوستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیرکا علاقہ ۔
(۲) شمال میں پاکستانی سلسلئہ کوہ سے ملحق وادیاں مثلا گلگت،
(۳) پاکستانی پنجاب، بشمول وادئ سوات اور ہندوکش پہاڑوں کے، جنوب میں مشرقی افغانستان کا علاقہ،
(۴) ہندوکش کے شمال کی جانب آمو دریا کی وادی اور مغربی ترکستان (جنوب مشرقی ازبکستان اور جنوبی تاجکستان)، دریا کےشمال کی جانب،
(۵) شمال مشرقی ایران اور جنوبی ترکمانستان،
(۶) دریائے آمو اور دریائے سیر کے بیچ کا علاقہ، جو وسط مغربی ترکستان (مشرقی ازبکستان اور مغربی تاجکستان) کے نام سے موسوم ہے،
(۷) سیر دریا کے شمال کا علاقہ، شمال مغربی ترکستان (کرغیزستان مشرقی قازقستان) کے نام سے موسوم،
(۸) عوامی جمہوریہ چین میں سنکیانگ کا علاقہ جو جنوب مشرقی ترکستان کہلاتا ہے اور "تکلا مکان" ریگستان کے شمال اور جنوب، دونوں طرف تاریم کے طاس (نشیبی علاقہ) کا حلقہ کیے ہوئے ہے۔
(۹) شمالی سنکیانگ، تیانشان اور التائی پربت کے بیچ کا علاقہ،
(۱۰) تبت کا خود مختار علاقہ، چینگهای، جنوب مشرقی گانسو، مغربی سیچوآن، اور شمال مغربی یوننان، اب یہ سب کے سب عوامی جمہوریئہ چین میں ہیں،
(۱۱) اندرونی منگولیا جو عوامی جمہوریئہ چین میں ہے، جمہوریہ منگولیا (بیرونی منگولیا)، اور سائبیریا، روس میں بوریات جمہوریہ۔
ان علاقوں کے تاریخی نام یہ تھے:
(۱) کشمیر، سری نگر میں اپنے درالسلطنت کے ساتھ،
(۲) گلگت،
(۳) گندھارا، اپنے خاص بڑے شہروں مثلاً ٹیکسلا کے ساتھ جو درّہ خیبر کے پاکستانی پنجاب کی سمت، اور کابل جو افغانی سمت میں واقع ہے، اس کے علاوہ سوات جیسے اوڈیانہ کہتے ہیں،
(۴) باختر، جو دریائے اوکس کی وادی میں پھیلا ہوا ہے اور جس کا مرکز بلخ میں ہے، آج کے دور کے مزار شریف کے قریب،
(۵) پارتھیا، جسے بعد میں "خراسان" کہا گیا، اپنے خاص شہر "مرو" کے ساتھ، اور بعض اوقات جنوبی ترکمانستان میں واقع اس کے ایک حصّے کو مرجیانا کہا گیا،
(۶) سغدیہ، بعد کا ماوراء النہر جو اوکس اور جکسارتس دریاؤں کے بیچ میں ہے اور اگر سرسری طور پر ہم مغرب سے مشرق کی طرف جائیں تو اس کے خاص مراکز یہ ہوں گے: بخارا، سمرقند، تاشقند اور فرغانہ،
(۷) وہ علاقہ جس کا نام متعین نہیں ہے مگر جس کا خاص مرکز "اسیک کول جھیل" کے جنوب میں "سویاب" کے مقام پر ہے،
(۸) کسی متعین نام کے بغیر والا "تاریم" کے طاس جو ریگستان میں شہری ریاستوں کے ساتھ ساتھ جنوبی کنارے سے ملحق ہے اور مغرب سے مشرق کو جاتا ہے، کاشغر، یارکند، ختن اور "نیا" پر مشتمل اور شمالی کنارے کے ساتھ ساتھ کوچہ، کاراشہر اور ترفان (قوشو) اور اسی کے ساتھ "دُن ہوانگ" کے مقام پر مشرق میں ایک دوسرے سے ملنے والے دونوں راستوں کا احاطہ کرتا ہوا،
(۹) "دزونگاریا" معہ اپنے خاص شہر "بیشبالق" کے، جس کے مشرقی دروازے پر ترفان سے تیان شان پہاڑوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے، موجودہ دور کے اورومچی سے ملحق،
(۱۰) تبت لہاسا کے مقام پر اپنی راجدھانی کے ساتھ، اور،
(۱۱) منگولیا۔
اگرچہ تاریخ کے سفر میں، ان میں سے بہت سے نام بار بار تبدیل ہوئے، مگر ہم کسی طرح کے ابہام اور الجھن سے بچنے کے لیے، اپنےآپ کو انہی ناموں تک محدود رکھیں گے۔ گانسو، اندرونی منگولیا، اصل مقامی آبادی پر مشتمل تبتی علاقوں، منچوریا اور جنوب کے پہاڑی قبیلوں سے صرف نظر کرتے ہوئے، عوامی جمہوریہ چین کے اس خطے کو ہم "ہان چین" کا نام دیں گے یعنی دیسی (مقامی) ہان آبادی کا احاطہ کرنے والا، ان کا اپنا وطن۔ "شمالی ہندوستان" کی اصطلاح سے ہماری مراد خاص طور پر دریائے گنگا کے ساتھ کا میدانی علاقہ ہوگا جس میں جموں کشمیر، ہماچل پردیش، ہندوستانی پنجاب، راجستھان یا مغربی بنگال کے مشرق میں واقع جمہوریہ ہندوستان کی کوئی اور ریاست شامل نہیں ہوگی۔ "ایران" سے ہمارا مطلب ہوگا وہ علاقے جو اس وقت اسلامی جمہوریہ ایران کے حدود میں آتے ہیں، اور "عرب" کا مطلب ہوگا جزیرہ نمائے عرب اور جنوبی عراق کی تمام آبادی۔
مغربی اور مشرقی ترکستان
ہر چند کہ شاکیہ مُنی بدھ سے متعلق تاریخوں کے بارے میں کئی روایتیں موجود ہیں، لیکن بیشتر مغربی اسکالرز کا اتفاق اس بات پر ہے کہ وہ ۴۸۶ اور ۵۶۶ سال قبل مسیح کے درمیان زندہ رہے۔ شروع شروع میں وہ شمالی ہندوستان کے گنگا کے میدانوں کے مرکزی حصّے میں درس دیتے رہے۔ پھر دھیرے دھیرے، ان کے پیروکاروں نے آس پاس کے علاقوں تک ان کا پیغام پہنچایا جہاں بھکشوؤں اور بھکشونیوں کے خانقاہی گروہ جلد ہی اُٹھ کھڑے ہوئے جو بدھ کی تعلیمات کا محافظ تھے اور انہیں زبانی طور پر دوسروں تک پہنچا رہا تھے ۔ اس طرح بدھ مت بتدریج ایک منظم مذہب کے طور پر پھیلنے لگا ۔
تیسری صدی قبل مسیح کے وسط میں، موریہ بادشاہ اشوک (دور حکومت۲۳۲۔۲۷۳ سال قبل مسیح) کی کوششوں سے، بدھ مت شمالی ہندوستان سے گندھارا اور کشمیر تک پھیل گیا۔ دو صدیوں کے بعد اس نے مغربی اور مشرقی ترکستان، دونوں میں اپنے لیے راستہ بنا لیا اور پہلی صدی قبل مسیح کے دوران، اس نے باختر سے گندھارا تک اور کشمیر سے ختن تک وسعت حاصل کرلی۔ اس وقت تک بدھ مت مشرقی ایران سے گزرتے ہوئے پارتھیا تک، کشمیر سے گلگت تک، اور شمالی ہندوستان سے جنوبی پاکستان تک، یعنی آج کے سندھ اور بلوچستان تک، پہنچ چکا تھا۔ روایتی بودھی تاریخوں کے مطابق، باختر کے دو سوداگر شاکیہ مُنی بدھ کے براہ راست مریدوں میں شامل تھے۔ بہرحال، اس امر کی کوئی شہادت نہیں ملتی کہ انہوں نے ابتدائی مرحلے میں اپنے وطن کو بدھ مت سے عملاً متعارف کرایا ہو۔
پہلی صدی قبل مسیح تک بدھ مت نے باختر سے سغدیہ تک پہنچتے ہوئے مغربی ترکستان میں اپنی جڑیں گہرائی تک پھیلا دی تھیں۔ اس صدی میں اس نے گندھارا سے کشمیر اور کاشغر کو جاتے ہوئے، تاریم کے طاس میں جنوبی کنارے کے ساتھ ساتھ مزید وسعت حاصل کرلی، اور گندھارا سے کشمیر اور ختن کے علاوہ "نیا" میں کرورئینا کی راجدھانی تک، اپنے قدم جما لیے۔ چوتھی صدی مِں کرورئینا کو ریگستان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا اور اس کے بیشتر شہری ختن میں آباد کر دیے گئے۔
دوسری صدی قبل مسیح کے دوران، باختر سے کوچہ اور ترفان کے تخاری باشندوں سے گزر کر بدھ مت تاریم کے طاس کے شمالی کنارے تک بھی جا پہنچا۔ بعض ماخذ کے مطابق، تخاری لوگ یوئ۔جی کی اولاد تھے، کاکیشیا کے رہنے والے، جو ایک قدیم مغربی ہند کی یورپی زبان بولتے تھے۔ دوسری صدی قبل مسیح میں یوئ۔جی کا ایک گروہ جو بعد میں تخاریوں کے طور پر جانا گیا، مغرب کی طرف نقل مکانی کرتے ہوئے باختر میں جا بسا تھا۔ نتیجے کے طور پر، باختر کو "تخارستان" کہا جانے لگا۔ بہرحال، نام کی مماثلت کے باوجود، مشرقی باختر کے تخاریوں اور کوچہ و ترفان کے تخاریوں میں کسی طرح کا سیاسی رشتہ قائم نہ ہوسکا۔
مغربی اور مشرقی ترکستان کے ایسے بہت سے علاقوں، بالخصوص باختر، سغدیہ، ختن اور کوچہ میں ایرانی ثقافت کے کچھ آثار پائے جاتے تھے۔ اس کی وجہ سے، وسطی ایشیائی بدھ مت میں مختلف درجات تک، دین زرتشت کے اوصاف بھی گھل مل گئے۔ دین زرتشت ایران کا پرانا مذہب تھا۔ مشترکہ زرتشتی عناصر، ہینیان بدھ مت کے سرواستیواد روپ میں جو باختر، سغدیہ اور کوچہ میں پھلا پھولا، اسی کے ساتھ ساتھ ختن میں برتری حاصل کرنے والے مہایان بدھ مت، دونوں میں ظاہر ہوئے ہیں۔
ہان چین
ہان چینیوں نے، تاریم کے طاس میں، پہلی صدی قبل مسیح سے لے کر دوسری صدی تک، ریگستان میں واقع شہری ریاستوں میں اپنے فوجی دستے قائم کر رکھے تھے۔ بہر حال، بدھ مت نے اس وقت تک ہان چین میں مقبولیت حاصل نہیں کی، جب تک کہ ان نو آبادیوں کو پھر سے اپنی کھوئی ہوئی آزادی نہیں مل گئی۔
دوسری صدی عیسوی کے وسط سے شروع ہوکر، بدھ مت پہلے پارتھیا سے ہان چین میں آیا۔ اس کے بعد وسطی ایشیا کے دوسرے بودھی علاقوں، اور اسی کے ساتھ ساتھ اس نے شمالی ہندوستان اور کشمیر تک، بھکشوؤں کے ذریعے رسائی حاصل کی۔ وسطی ایشیائی اور شمالی ہندوستان کے بھکشوؤں کی مدد سے ہان چینیوں نے سنسکرت اور گندھاری پراکرتوں کے متون کے چینی زبان میں ترجمے کیے، گو کہ وسطی ایشیائی لوگ خود اپنے ذاتی استعمال کے لیے اولاً ان کے اصل ہندوستانی متن کو ترجیح دیتے تھے۔ اپنے یہاں شاہراہ ریشم کے راستے بین الاقوامی قافلوں کی مسلسل آمدورفت کے باعث، ان میں بیشتر لوگ غیر ملکی زبانوں سے خاصے مانوس تھے۔ ہان چینیوں کے لیے ترجمے کے کام کے دوران، بہر طور، وسطی ایشیائیوں نے ان متون میں کبھی زرتشتی عناصر کو منتقل نہیں کیا۔ اس کے بجائے، ہان چینی بدھ مت نے تاؤمت اور کنفیوشیائی ثقافتی خصوصیات سے خاصے اثرات قبول کیے۔
چھ سلطنتوں کے دور (۵۸۹۔۲۲۰ء( میں، ہان چین بہت سی قلیل مدتی حکومتوں میں بکھر گیا جو سرسری طور پر شمال اور جنوب کے بیچ میں تقسیم ہو گئی تھیں۔ بیشتر غیر ہان چینی سلطنتوں کا سلسلہ جو ترکوں، تبتوں، منگولوں اور منچووں کے اولین پیشروں پر مشتمل تھا، اس نے شمال پر حملہ کر کے اپنا اقتدار قائم کر لیا، جب کہ جنوب نے زیادہ تر روایتی ہان چینی تہذیب کے آثار کو برقرار رکھا۔ شمال میں بدھ مت کا مزاج زیادہ روحانی تھا اور سرکاری اقتدار کی منشا کا تابع۔ اس کے برعکس، جنوب میں یہ آزاد تھا اور فلسفیانہ تخصص یا چھان بین پر زور دیتا تھا۔
تاؤمت کے ماننے والے اور کنفیوشیائی وزیر جو بودھی خانقاہوں کی سرکاری حمایت کے تئیں حسد کا جذبہ رکھتے تھے، ان کے اثر کی وجہ سے ۵۷۴ء اور ۵۷۹ء کے درمیان، شمالی چینی ریاستوں میں سے دو ریاستوں میں، ہندوستانی مذہب کو پسپائی کے تجربے سے گزرنا پڑا۔ بہر حال، وین-دی جس نے ساڑھے تین صدیوں کے انتشار کے بعد ہان چین کو پھر سے متحد کیا اور سوئی سلطنت (۵۸۹۔۶۱۸ء) کی بنیاد ڈالی، اس نے اپنے آپ کو ایک عالم گیر بدھ مت راجہ (سنسکرت: چکرورتی) کا لقب دیا۔ اس اعلان کے ساتھ کہ اس کی حکومت (۵۸۹۔۶۰۵ء) چین کو ایک بدھ "خالص سرزمین" بنا دے گی، اس نے ہندوستانی عقیدے کو پھر سے نئی بلندیوں تک پہنچا دیا۔ اگرچہ تانگ خاندان کے شروع کے کئی حکمراں (۹۰۶۔۶۱۸ء) تاؤمت کی حمایت کرتے تھے، مگر انہوں نے بدھ مت سے بھی اپنا تعاون جاری رکھا۔
مشرقی اور مغربی ترک سلطنتیں
پانچویں صدی عیسوی کے آغاز سے "روآن روآن" باشندے منگولیا میں مرکوز ایک وسیع سلطنت پر راج کرتے رہے، جو کوچہ سے کوریا کی سرحدوں تک پھیلی ہوئی تھی۔ انہوں نے بدھ مت کی وہ شکل اختیار کی جو ایران کے زیر اثر پیدا ہونے والی ختنی اور تخاری روایتوں کا مرکب تھی، اور اسے منگولیا سے متعارف کرایا۔ پرانے ترک، جو "روآن روآن" اقتدار کے تحت گانسو میں رہتے تھے، انہوں نے ۵۵۱ء میں ثانی الذکر کا تختہ پلٹ دیا۔ ان کی قائم کردہ قدیم ترک سلطنت دو برسوں کے اندر مشرقی اور مغربی حصوں میں تقسیم ہو گئ۔
مشرقی ترک منگولیا پر حکومت کرتے رہے اور انہوں نے وہاں پائی جانے والی، بدھ مت کی ختن – تخاری "روآن روآن" شکلوں کو برقرار رکھتے ہوئے، اسے شمال کے ہان چینی عناصر کے ساتھ ملا دیا۔ انہوں نے شمالی ہندوستان، گندھارا اور ہان چین، بالخصوص ترفان میں رہنے والے سغدیائی فرقے کے بھکشوؤں کی مدد سے، مختلف النوع بدھ مت زبانوں سے، بہت سے بدھ مت متون کا قدیم ترک زبان میں ترجمہ کیا۔ شاہراہ ریشم کے سب سے اہم تاجروں کی حیثیت سے، سغدیہ کے لوگوں میں ایسے بھکشو تیار ہوتے رہتے تھے جن میں فطری طور پر ایک ساتھ متعدد زبانیں سیکھ لینے کی صلاحیت موجود ہوتی تھی۔
پرانے ترک بدھ مت کی اہم خاصیت عوام الناس میں اس کی اپیل تھی جو بدھ کے حلقئہ ارادت میں بہت سے مقبول، مقامی طور پر پوجے جانے والے دیوتاؤں کی شمولیت سے پیدا ہوئی تھی اور ان میں روایتی شمن پرست، تینگریائی اور زرتشتی، دونوں موجود تھے۔ تینگریت، بدھ مت سے پہلے کا منگولیائی سرسبز میدانوں میں آباد مختلف انسانوں میں مروّج ایک روایتی نظام عقیدہ تھا۔
مغربی ترکوں نے پہلے دزونگاریا اور مغربی ترکستان پر حکومت کی۔ ۵۶۰ ء میں انہوں نے سفید فام ہُنوں (ہپتھالیوں) سے شاہراہ ریشم کا مغربی حصّہ چھین لیا اور رفتہ رفتہ کاشغر، سغدیہ اور باختر کی طرف منتقل ہوتے ہوئے، افغانی گندھارا میں بھی اپنی ایک خاص موجودگی قائم کرلی۔ اپنے اس توسیع کے عمل میں، ان کے ایک بڑے حلقے نے بدھ مت اختیار کر لیا، بالخصوص ان شکلوں کے ساتھ جو ان کے مفتوحہ علاقوں میں پائی جاتی تھیں۔
مغربی ترکوں کی آمد کے وقت مغربی ترکستان میں بدھ مت کی صورت حال
مغربی ترکوں کی ہجرت سے صدیوں پہلے، یکے بعد دیگرے یونانی- باختری، شاکانی، کشان، فارسی ساسانی اور سفید فام ہُنوں کی حکومتوں کے تحت مرکزی، جنوبی اور مغربی ترکستان میں بدھ مت خوب برگ و بار لا رہا تھا۔ ہندوستان کو آنے والا ہان چینی سیّاح فاشیان، جس نے ۳۹۹ء اور ۴۱۵ء کے درمیان اس علاقے کا سفر کیا، اس نے یہ اطلاع دی کہ یہاں ہر طرف سرگرم خانقاہیں پھیلی ہوئی تھیں۔ تاہم، جب ڈیڑھ صدی کی مدت کے بعد مغربی ترک اس علاقے میں پہنچے تو انہوں نے بدھ مت کو ایک کمزور حالت میں دیکھا۔ خاص کر سغدیہ میں۔ بظاہر اس پر یہ زوال سفید فام ہُنوں حکومت کے دور میں آیا تھا۔
بیشتر سفید فام ہُن، بدھ مت کے پرجوش حامی تھے۔ مثال کے طور پر، ۴۶۰ء میں، ان کے حکمراں نے بدھ کے لباس کا ایک ٹکڑا صندوقچے میں تبرک کے طور پر رکھ کر، کاشغر سے شمالی چینی درباروں میں سے ایک دربار کے لیے نذرانے کے طور پر بھجوایا تھا۔ بہر حال، ۵۱۵ء میں سفید فام ہُنوں راجہ "مہرکلا" نے بودھوں کو ستانے کے لیے، بدیہی طور پر، اپنے دربار میں موجود حادس مانوی اور نسطوری عیسائی گروپوں کے اثر میں آکر، لوگوں کو بھڑکا دیا۔ اس کا بدترین نقصان گندھارا، کشمیر اور شمالی ہندوستان کے مغربی حصّے میں ظاہر ہوا، مگر قدرے محدود پیمانے پر، یہ نقصان باختر اور سغدیہ تک بھی پہنچا۔
۶۳۰ء کے آس پاس، جب دوسرے قابل ذکر چینی زائر شوان-دزنگ نے سمرقند کا دورہ کیا جو سغدیہ میں مغربی ترک سلطنت تھی، تو اس نے دیکھا کہ وہاں ایسے بہت سے بودھی تھے جن کی طرف مقامی زرتشتیوں کا رویہ مخاصمانہ تھا۔ وہاں کی دونوں خاص بودھی خانقاہیں، ویران اور بند پڑی تھیں۔ بہر حال،۶۲۲ء میں شوان-دزنگ کے سمرقند پہنچنے سے پہلے، اس شہر کے مغربی ترک حکمراں، تونگشیھو قاغان نے، پربھاکرمترا کی رہنمائی میں جو وہاں شمالی ہندوستان سے آنے والا ایک بھکشو تھا، باضابطہ طور پر بدھ مت اختیار کر لیا۔ شوان-دزنگ نے راجہ کو شہر کے قریب واقع مگر ویران پڑی ہوئی خانقاہوں کو، پھر سے کھولنے بلکہ مزید خانقاہیں تعمیر کرنے کی ترغیب دی۔
راجہ اور اس کے جانشینوں نے چینی بھکشو کا مشورہ تسلیم کیا اور صرف سمرقند میں سغدیہ کے مقام پر ہی نہیں، بلکہ وادئ فرغانہ اور آج کے دور کے مغربی تاجکستان میں بھی نئی خانقاہیں تعمیر کیں، انہوں نے شمال مغربی ترکستان تک بدھ مت کی سغدیائی اور کاشغری شکلوں کی آمیزش سے تیار شدہ ایک شکل بھی پہنچا دی۔ وہاں انہوں نے موجودہ دور کے جنوبی قازقستان، شمال مغربی کرغیزستان میں دریاۓ چو کی وادی اور آج کے الماتی سے قریب جنوب مشرقی قازقستان میں واقع "سیمریچیے" میں بھی نئی خانقاہیں بنوائیں۔
سغدیہ کے برعکس، شوان-دزنگ نے کاشغر اور باختر، نیز مغربی ترکوں کے زیر اقتدار دوسرے اہم علاقوں میں بھی، بہت سی بودھی خانقاہوں کے فروغ کا بیان کیا ہے۔ کاشغر میں سینکڑوں خانقاہیں تھیں اور دس ہزار بھکشو رہتے تھے، جب کہ باختر میں یہ تعداد زیادہ واجبی (کمتر) تھی۔ اس پورے علاقے کی عظیم ترین خانقاہ باختر کے خاص شہر بلخ میں نووہار (نوبہار) کے نام سے جانی جاتی تھی۔ یہ خانقاہ سارے کے سارے وسطی ایشیا میں اعلٰی سطحی بودھی تعلیمات کے اہم ترین مرکز کی حیثیت رکھتی تھی اور اس کے اطراف میں چھوٹی چھوٹی خانقاہیں تھیں۔ انہیں بھی نووہار ہی کہا جاتا تھا۔
کسی یونیورسٹی کی طرح پھیلی ہوئی اس خانقاہ، نووہار میں صرف ان بھکشوؤں کو داخل کیا جاتا تھا جو پہلے ہی عالمانہ متون (کتب) مرتب کرچکے ہوں۔ یہ اپنے ان ششدر کر دینے والے جواہرات، بدھ کے خوبصورت مجسّموں کے لیے مشہور تھی، جو بیش قیمت ریشمی ملبوسات اور مقامی زرتشتی رواج کے مطابق، شاندار ہیرے جواہرات کے زیوروں سے آراستہ کیے گئے تھے۔ ختن سے اس خانقاہ کا خصوصی طور پر قریبی رابطہ تھا جہاں یہ اپنے بہت سے اساتذہ کو بھجواتی رہتی تھی۔ شوان-دزنگ کے بیان کے مطابق، اس وقت ختن میں پانچ ہزار بھکشوؤں کے ساتھ ایک سو خانقاہیں موجود تھیں۔
مغربی ترکوں کا زوال
ساتویں صدی کے وسط تک، مغربی اور مشرقی ترکستان کے ان علاقوں میں مغربی ترکوں کا اقتدار کمزور پڑنے لگا۔ پہلے ترکوں کے ہاتھ سے باختر نکلا اور گندھارا پر حکومت کرنے والے ایک دوسرے ترکیائی بودھی قبیلے "ترکی شاہیوں" کے قبضے میں چلا گیا۔ شوان-دزنگ کو گندھارا میں بدھ مت کا حال باختر سے زیادہ خراب اور ابتر دکھائی دیا تھا اور ایسا اس واقعے کے باوجود تھا کہ ۵۹۱ء میں، کابل سے قریب ہی، مغربی ترکوں نے کپیشا کے مقام پر ایک خانقاہ قائم کرلی تھی۔ درّہ خیبر کے کابل کی سمت واقع بڑی خانقاہ ناگر وہار درّہ خیبر جو موجودہ دور کے جلال آباد کے عین جنوب میں ہے، وہاں بدھ کے کاسئہ سر کی باقیات محفوظ تھیں اور اسے بودھی دنیا کی مقدس ترین زیارت گاہوں میں سے ایک کی حیثیت حاصل تھی۔ بہر حال، وہاں کے بھکشو مادہ پرست اور دنیا دار ہوگئے تھے اور اس مقدس تبرک کو دیکھنے کے بدلے میں ہر زائر سے سونے کا ایک سکّہ طلب کرتے تھے۔ اس پورے علاقے میں مطالعے کے کوئی مراکز نہیں تھے۔
پنجابی سمت میں، بھکشو لوگ محض نظم و ضبط کے خانقاہی قوانین کی حفاظت کرتے تھے اور ان میں مشکل سے ہی بودھی تعلیمات کی کوئی سوجھ بوجھ پائی جاتی تھی۔ مثال کے طور پر، سوات کی وادی (اڈیانہ) میں شوان-دزنگ کو ایسی بہت سے خانقاہیں کھنڈر کی شکل میں دکھائی دیں، اور ان میں جو بھی خانقاہیں ابھی تک کھڑی ہوئی تھیں، وہاں مافوق الفطرت ہستیوں سے اپنی حفاظت اور اختیارات کے حصول کے لیے، بھکشو لوگ محض (بے دلی کے ساتھ) رسموں کی ادائیگی کیے جا رہے تھے۔ وہاں اب مطالعے اور مراقبے کی کوئی روایت باقی نہیں رہ گئی تھی۔
اس سے پہلے کے ایک ہان چینی سیّاح سونگ-یون نے۵۲۰ء میں سوات کا دورہ کیا تھا، مہرکلا کی ستم رانی کے پانچ برس بعد۔ اس کا بیان ہے کہ خانقاہیں ابھی بھی فروغ پارہی تھیں۔ اپنی سلطنت کے زیادہ فاصلے پر واقع علاقوں میں سفید فام ہُن حکمراں نے بظاہر ابھی تک اپنی بدھ دشمن پالیسی کا نفاذ نہیں کیا تھا۔ بعد میں سوات میں خانقاہوں کی بدحالی کا سبب، دونوں چینی زائروں کے دوروں کے درمیان کی صدی میں وقوع پذیر ہونے والے کئی شدید زلزلے اور سیلاب تھے۔ پہاڑی وادی کی مفلوک الحالی اور گلگت سے مشرقی ترکستان تک تجارت کا سلسلہ بند ہو جانے کی وجہ سے، خانقاہیں اپنی تمام تر اقتصادی امداد اور دوسری بودھی ثقافتوں سے اپنا ربط ضبط کھو چکی تھیں۔ پھر بودھی فہم وفراست کے باقی ماندہ حصّے میں مقامی توہم پرستانہ عقائد اور شامانی رسوم بھی گھل مل گئے تھے۔
۶۵۰ء میں ہان چینی ، جو۶۱۸ء میں تانگ حکومت کے قیام کے وقت سے اپنے اقتدار کو پھیلائے جارہے تھے، ان کے قبضے میں کاشغر کے چلے جانے سے، مغربی ترک سلطنت مزید سکڑ گئی۔ کاشغر پر اپنا تسلط قائم کرنے سے پہلے، تانگ فوجوں نے مشرقی ترکوں سے منگولیا اور پھر تاریم کے طاس (نشیب) میں شمالی کنارے کے ساتھ ساتھ واقع شہری ریاستیں بھی چھین لی تھیں۔ روز افزوں ہان خطرے اور اپنے دفاع کی اہلیت میں کمزوری پیدا ہو جانے کے باعث، کاشغر اور جنوبی کنارے سے ملحق آزاد ختن نے کسی مزاحمت کے بغیر، خاموشی کے ساتھ سپر ڈال دی۔
تبت
ساتویں صدی کے ربع دوم میں اہلِ تبت نے اپنے ملک کو متحد کرلیا۔ راجہ سونگ تسین گامپو (دور حکومت: ۶۱۷ تا ۶۴۹ ء) نے ایک سلطنت قائم کی جو شمالی برما سے ہان چین کی سرحدوں اور ختن تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس سلطنت میں ایک تعلق دار مملکت کے طور پر نیپال بھی شامل تھا، جو فی الوقت کٹھمنڈو وادی تک محدود تھی۔ سلطنت کے قیام کے بعد، سونگ تسین گامپو نے اوآخر ۶۴۰ء میں اپنے ملک کو بدھ مت سے روشناس کرایا۔ بہر حال، ہان چین، نیپال اور ختن سے ماخوذ مختلف پہلوؤں کو باہم یکجا کرکے، یہ عمل ایک انتہائی محدود پیمانے پر کیا گیا تھا۔ تبتی جیسے جیسے اپنی مملکت کو وسیع کرتے گئے، انہوں نے ۶۶۳ء میں تانگ چین سے کاشغر چھین لیا اور اسی سال مغربی تبت کو مشرقی باختر سے جوڑتے ہوئے، گلگت اور واخان کی بیرونی پٹی تک اپنی حکومت قائم کرلی۔
گنگا کے کنارے ہندوستان (دریائے گنگا کے پہلو میں آباد ہندوستان)
شمالی ہند میں، قدیم ترین زمانوں سے گنگا کے میدانوں میں ہندو اور جین مذاہب کے ساتھ ساتھ بدھ مت کا سلسلہ بھی، پر امن بقائے باہمی کے تحت، جاری چلا آرہا تھا۔ چوتھی صدی عیسوی سے، ہندو باشندے بدھ کو اپنے سب سے بڑے دیوتا وشنو کے دس اوتاروں میں سے، ایک کے طور پر تسلیم کرتے تھے۔ مقبول عام سطح پر، بہت سے ہندو بدھ مت کو اپنے ہی مذہب کی ایک اور شکل کے طور پر دیکھتے تھے۔ پہلے گپت عہد (۳۲۰۔۵۰۰ء) کے بادشاہ مندروں، خانقاہوں اور دونوں مسلکوں کے اساتذہ کی متواتر سرپرستی کرتے رہے۔ انہوں نے ان گنت بودھی خانقاہی یونیورسٹیاں قائم کیں جہاں خوب فلسفیانہ بحثیں کی جاتی تھیں۔ ان میں آج کے مرکزی بہار میں واقع نلندا یونیورسٹی سب سے مشہور تھی۔ وہ اپنی مملکت اقتدار میں دوسرے بدھ ممالک کے زائرین کو مقدس مقامات تک آنے کی اجازت بھی دیتے تھے۔ مثال کے طور پر، بادشاہ سمدرا گپت نے سری لنکا کے راجہ میگھاونا (دور حکومت۳۶۲ء تا ۴۰۹ء) کو اس بات کی اجازت دی کہ وہ وجرآسن (جدید دور کا بودھ گیا) کے مقام پر ایک مہابودھی خانقاہ قائم کرے جہاں بدھ کو عرفان حاصل ہوا تھا۔
سفید فام ہُنوں نے گندھارا اور شمالی ہندوستان کے مغربی حصّے پر تقریباً تمام چھٹی صدی حکومت کی۔ مہرکلا کے ہاتھوں خانقاہوں کی بربادی کا سلسلہ بڑھتے بڑھتے کوشامبی تک جا پہنچا، جو اتر پردیش میں موجودہ دور کے الٰہ آباد سے تھوڑی سی دوری پر ہے، دوسری گپت عہد (اوآخر چھٹی صدی) کی شروعات کے ساتھ اس کے بادشاہوں نے گزشتہ نقصانات کی تلافی کا بیڑا اٹھایا۔ بہر حال، شوان-دزنگ کو اپنے سفر کے دوران کوشامبی کے مغرب میں بہت سی خانقاہوں کے کھنڈر اس وقت بھی دکھائی دیے۔ تاہم، مشرق کی طرف مگدھ میں، مثلاً نلندا اور مہابودھی کے مقام پر جو خانقاہیں تھیں، وہ ابھی بارونق اور فروغ پذیر تھیں۔
بادشاہ ہرش (دور حکومت۶۰۶ تا ۶۴۷ء)، جو بدھ مت کا مضبوط ترین، گپت سرپرست تھا، اس نے اپنے شاہی دربار میں ایک ہزار بھکشو رکھے ہوۓ تھے۔ اس کی نظروں میں بدھ مت کا احترام اس بلند درجے کو پہنچا ہوا تھا کہ کہا جاتا ہے کہ اس نے پہلی ملاقات شوان-دزنگ کے پیر روایتی ہندو طریقے سے چھوکر اس (ہان چینی بھکشو) کا استقبال کیا۔
۶۴۷ء میں ایک بدھ مت دشمن وزیر، ارجن نے ہرش کا تختہ پلٹ دیا اور مختصر مدت کے لیے گپت حکومت کو غصب کرلیا۔ اس نے جب باہر سے آنے والے ایک چینی زائر، "وانگ شوان تسے" کے ساتھ بداخلاقی کا سلوک کیا اور اس کی جماعت کے زیادہ تر افراد کو لوٹ کر قتل کر دیا، تو وہ بھکشو جو تانگ بادشاہ تائی-دزونگ کا ایلچی بھی تھا، نیپال کی طرف فرار ہو گیا۔ وہاں اس نے تبتی بادشاہ سونگ تسین گامپو سے مدد کی درخواست کی جس نے ۶۴۱ء میں تانگ بادشاہ کی بیٹی وین چنگ سے شادی کرلی۔ اپنے نیپالی جاگیرداروں کی مدد سے، تبتی حکمراں نے ارجن کو بے دخل کردیا اور ازسرنو گپت حکومت قائم کردی۔ بعد کے ادوار میں بدھ مت کے لیے شمالی ہندوستان میں ایک عام پسندیدہ حیثیت برقرار رہی۔
کشمیر اور نیپال
شمالی ہندوستان کی طرح کشمیر اور نیپال کی بنیادی طور پر ہندو ریاستوں میں بھی بدھ مت ترقی کرتا رہا۔ شوان-دزنگ کا بیان ہے کہ کشمیر میں بودھوں نے مہرکلا کے جو روستم سے خود کو بڑی حد تک بحال کرلیا تھا، خاص طور پر اسے اس وقت کی نئی کارکوٹا سلطنت (۶۳۰ء تا ۸۵۶ء) کے بانی کی حمایت حاصل رہی تھی۔
دوسری طرف، نیپال سفید فام ہُن حکومت سے بچ نکلا تھا۔ لچھوی سلطنت (۳۸۶ تا ۷۵۰ء) کے تاجداروں نے بدھ مت کی حمایت کا سلسلہ مسلسل جاری رکھا۔ ۶۴۳ء میں تبتی بادشاہ سونگ تسین گامپو نے اس سلطنت کے ایک غاصب وشن گپت کو نکال باہر کیا اور راجہ نریندر دیو کو، جو نیپال کے تخت کا وارث تھا اور جس نے تبت میں پناہ لے رکھی تھی، پھر سے بحال کردیا۔ بہر حال، اس واقعے کا کٹھمنڈو وادی میں نیپالی بدھ مت کی حالت پر بہت معمولی سا اثر پڑا۔ اس کے بعد سونگ تسین گامپو نے راجہ نریندر دیو کی بیٹی راجمکماری بھرکوتی سے شادی کرلی اور یوں دونوں ملکوں کے رشتے مضبوط ہوئے۔
خلاصہ
اس طرح ساتویں صدی کے وسط میں جب مسلمان عرب یہاں پہنچے، وسطی ایشیا کے تقریباً تمام حصّوں میں بدھ مت پایا جاتا تھا۔ یہ سب سے زیادہ مستحکم اور مقبول باختر، کشمیر اور تاریم کے طاس میں تھا۔ لیکن گندھارا اور منگولیا میں اسے بس ایک معمولی اور نچلی سطح پر سمجھا گیا تھا، تبت میں اس کا صرف تعارف ہوا تھا اور سغدیہ میں نئے سرے سے اس کا احیا ہو رہا تھا۔ بہر طور، یہاں اسے اس علاقے کے خصوصی عقیدے کی حیثیت حاصل نہیں تھی۔ وہاں زرتشتی، ہندو، نسطوری عیسائی، یہودی، مانوی، نیز شمنیت، تینگریت اور دوسرے دیسی غیر منظم عقیدوں کے سلسلے بھی موجود تھے۔
وسطی ایشیا کی سرحدوں کے ساتھ ساتھ بدھ مت ہان چین، نیپال اور شمالی ہندوستان میں بھی طاقت ور تھا۔ جہاں اس کے پیروکار تاؤمت، کنفیوشیائی مذہب، ہندووں اور جینیوں کے ساتھ پرامن طریقے سے رہ رہے تھے۔
وسطی ایشیا میں مسلمان عربوں کی آمد کے وقت گندھارا اور باختر میں ترکی شاہیوں کی حکومت تھی، جبکہ مغربی ترک شمالی مغربی ترکستان کے حصّوں اور سغدیہ پر اپنا اقتدار جمائے ہوئے تھے۔ گلگت اور کاشغر پر تبتوں کا قبضہ تھا، جبکہ تاریم کے طاس کے باقی تمام حصوں، اس کے ساتھ ساتھ منگولیا پر تانگ چین کی حکومت قائم تھی۔ منگولیا کے مشرقی ترکوں کو، ہان چینی اقتدار کے ایک مختصر عبوری دور میں، عارضی طور پر معطل کر دیا گیا تھا۔