تمہید: تاریخ نویسانہ تعصب
مسیحی مغرب کےذریعےمسلمانوں کوشیطانی طاقتوں کےطورپردیکھےجانےکی ایک لمبی تاریخ ہے۔ اس کاآغازگیارہویں صدی عیسوی کےخاتمےپران مذہبی جنگوں کےساتھ ہواجومسلمانوں سےمقدس زمینوں کی بازیافت کےلیےلڑی گئیں۔ یہ سلسلہ پندرہویں صدی عیسوی کےوسط تک قسطنطنیہ میں ترکوں کےبالمقابل مشرقی راسخ العقیدہ عیسائیت کےمرکزکےزوال کےساتھ ساتھ جاری رہااورپھرپہلی عالمی جنگ کےدوران گیلی پولی کےمقام پر، برطانوی اورآسٹریلیائی لوگوں کےذریعےترکوں کی بھاری شکست نےاسےبڑی مضبوطی سےدوبارہ بیدارکردیا۔ مغربی عوامی ذرائع ابلاغ اکثراسلامی مذہبی شخصیتوں کو''جنوبی ملّاؤں"کےطورپرپیش کرتےہیں، کرنل قذافی، صدام حسین، ایدی امین، آیت اللہ خمینی اوریاسرعرفات جیسےمسلم رہنماؤں کوبھیانک بناکردکھاتےہیں۔ مغربیوں میں تمام مسلمانوں کوکٹّردہشت گردوں کےطورپردیکھنےکاچلن عام ہےاوروہ اوکلاہوماشہرمیں۱۹۹۵ء کےدوران ہونےوالی فیڈرل بلڈنگ کی بمباری جیسےبےلگام پرتشددواقعات کےپیچھےفوراًکسی اسلامی بنیادپرست کاہاتھ ہونےکاشک کربیٹھتےہیں۔ اپنےقائدین، مذہب اورثقافتوں کی اس توہین کےجواب میں بہت سےمسلمان مغرب کوشیطان کی سرزمین سمجھنےلگتےہیں جوان کی (مسلمانوں کی) اقداراورمقدس مقامات کےلیےخطرہ بنی ہوئی ہے۔ باہمی بےاعتباری اورخوف پرمبنی یہ رویّےغیرمسلموں اوردنیائےاسلام کےمابین مفاہمت اورتعاون کےراستےکی بہت بڑی رکاوٹ بن گئےہیں۔
مسلمانوں کےخلاف یہ بےاعتباری اورتعصب ایشیائی تاریخ بالخصوص وسطی ایشیااوربرصغیر ہندوستان تک اسلام کی ترویج کےدوران مسلمانوں اوربودھوںکےدرمیان تعامل کی تاریخ میں سرایت کرتاگیاہے۔ مغربی صحافت کےپہلوبہ پہلو، جوتشددآمیزواقعات میں خاص مسلمانوں کےجنونی عناصرکی شمولیت کی رپورٹنگ کرتی ہے، گویاکہ یہ شدت پسندعناصرہی تمام تردنیائےاسلام کےنمائندےہیں۔ مقبول عام مغربی تاریخوں میں سب سےزیادہ زوربودھی خانقاہوں کی تاراجی اوران بھکشوؤں کےقتل سےمتعلق دورپردیاجاتاہےجنہوں نےاپنامذہب نہیں بدلا۔ بہیمانہ واقعات جوفی الحقیقت وجودمیں آئے، ان پرزور دینے اورمسخ شدہ تاثردینےکی وجہ سےلوگوں میں یہ تاثرپیداہوتاہےکہ (مسلمانوں اور بودھوںکےمابین) یہ باہمی تعامل سارےکاساراصرف منفی اورپرتشددتھا۔
اس غلط گمانی کاایک وسیلہ بالخصوص انیسویں صدی میں برطانوی راج کےدوران برطانیہ کےزیرانتظام بہت سےمورخوں کامخفی ایجنڈاہے۔ اپنی ہندوستانی رعایاکی اطاعت کےحصول اورکولونیل اقتدارکےجوازکی فراہمی کےلیے، ایسے بہت سےمورخوں نےیہ ظاہرکرنےکی کوشش کی کہ برطانوی انتظامیہ کیوں کرزیادہ انسان دوست تھااوران کی محصولاتی پالیسی پہلےکی ہرمسلم سلطنت کےمقابلےمیں کس طرح زیادہ منصفانہ تھی۔ آثار قدیمہ کےماہرین نےاگرمندروں کےکھنڈر دیکھ لیےتواس کی یہ وضاحت کردی کہ یہ بربادی مسلم جنوبی اورکوتاہ بینوں کی لائی ہوئی ہے۔ اگرمجسمےاوردوسری قیمتی اشیاء غائب نظرآئیں تویہ نتیجہ نکال لیاکہ یاتوانہیں مسلم حملہ آوروں نے لوٹ لیایاپھربودھوںنےمسلمانوں کی لوٹ مارکےڈرسےانہیں چھپادیاتھا۔ مسلم حکمرانوں نےاگرمندروں کی مرمت کی اجازت دےدی توانہوں نےیہ فرض کرلیاکہ انہیں پہلےمسلمان فوجوں نےہی توتباہ کردیاتھا۔ اقتصادی یاطبعی وجغرافیائی مقاصدسےصرف نظرکرتےہوئےاورفوجی پالیسی کومذہبی پالیسی سےخط ملط کرتےہوئےانہوں نےاس تصورکوعام کیاکہ اشاعت اسلام کی طلب اورکافروں کوتلوارکےزورپرمسلمان بنانےکی سرگرمی نےہی مسلمان فوجوں کی طرف سےتمام حملوں کوبڑھاوادیاتھا۔ یہ مورخین تبدیلئ مذہب سےفتح مرادلیتےتھےاوراس کےبعدجوبغاوت پیداہوتی تھی اسےاسلام کاجوااتارپھینکنے کی خواہش کےبرابرگردانتےتھے۔
برطانوی مشنریوں نےخاص طورپرمسلم عدم رواداری کےاسی تصور کوہوادی تاکہ اپنےآپ کوبہتربناکردکھاسکیں۔ چنانچہ بہت سےبرطانوی مورخوں نےبرصغیرکی عرب، ترکی اورمغلیہ فتوحات کوملاکرایک خانےمیں ڈال دیااوران سب پراسلامی جارحیت کی سرخی جمادی، بجائےاس کےکہ وہ ان سےایسی انفرادی سیاسی وحدانیتوں کےحملےمرادلیتےجوایک دوسرےسےبہت مختلف تھے۔ دوسرے مغربی مورخوں نےبھی یہی طرزعمل اختیارکیا۔ نوبت یہاں تک آپہنچی کہ آج بھی سیاسی قائدین اور خبررساں ذرائع ابلاغ (میڈیا) متواترمسلم دہشت گردی کاراگ الاپےجاتےہیں، کبھی عیسائی، یہودی اور ہندودہشت پسندوں کانام بھی نہیں لیتے۔
اس طرح کی یک رخی تصویرپیش کرنےمیں مغربی تاریخ نویسی تنہانہیں ہے۔ تبتی، منگولیائی، عربی، فارسی اورترکی روایات پرمبنی مذہبی تاریخیں، ان میں سےبیشتروسطی ایشیائی ریاستوں کےباہمی تعامل کاتذکرہ اسی اندازمیں کرتی ہیں۔ گویاکہ مذہب کادفاع اورمذہب کی تبلیغ ہی واحدترغیبی طاقتیں تھیں جن سےواقعات کاتعین کیاجاسکتاہے۔ ۔ بودھیمذہبی تاریخیں ایک پرتشدد تصویرسامنےلاتی ہیں اوریہ بتاتی ہیں کہ مذہب کی تبدیلی صرف طاقت کےذریعےزبردستی کروائی گئی۔ (اس کےبرعکس) اسلامی مذہبی تاریخ ایک زیادہ پرامن نقشہ سامنےلاتی ہیں۔ ان کازوراس بات پرہےکہ بودھوںنے (اپنادین چھوڑکر) جواسلام قبول کیاتواس لیےکہ یاتومسلم عقیدےکواخلاقی برتری حاصل تھی یاپھروہ ہندوجبرسےخودکوبچاناچاہتےتھے۔ مفروضہ یہ ہےکہ ہندوستانی جابروں کاامتیازی وصف ان کاہندومذہب تھا، نہ کہ ان کی سیاسی اوراقتصادی پالیسیاں۔
چینیوں کی (مرتّب کردہ) تاریخوں میں، جوحکمراں سلطنتوں کااحاطہ کرتی ہیں، ان سےایک اورترجیح سامنےآتی ہے، یعنی کہ چین کےایک یادوسرےحکمراں خاندان کی اخلاقی برتری اوراس کےمقابلے میں تمام بدیسی ثقافتوں کی تابع داری۔ یہ مخفی ایجنڈاان کی پیش کردہ بین الاقوامی یابین المذہبی تعلقات کی تصویر کومسخ کردیتا ہے۔
بعض متون ماضی بعیدکےواقعات میں تحریف کردیتےہیں، بدھ مت اوراسلام کےمابین روابط کی غلط نمائندگی کرتےہیں۔ مثال کےطورپرابتدائی چودہویں صدی عیسوی کےکشمیری مسلمان مصنف، رشیدالدین نےاپنی (کتاب) "بدھ کےسوانح اورتعلیمات"میں جوفارسی اورعربی (زبانوں) میں موجوداور محفوظ ہے، یہ وضاحت کی ہےکہ پیغمبراسلام کےعہدسےپہلےمکّہ اورمدینہ کےباشندے، سب کےسب بودھی تھے۔ وہ کعبے میں بدھ کی شکل کےبتوں کی پرستش کرتےتھے۔
مستقبل کی پیش گوئیاں تک مذہبی عصبیت کےپھیرسےنہیں نکل سکیں۔ مثلاًبودھی اورمسلمان، دونوں ایک عظیم روحانی پیشواکےظہورکی بشارت دیتےہیں جوایک الہامی جنگ کےذریعےمنفی طاقتوں پرغالب آجائےگا۔ یہبودھی تذکرہ"کالچکرتنتر"سےماخوذہے، جس کامتن ہندوسان میں دسویں صدی عیسوی کےاواخراورگیارہویں صدی عیسوی کےاوائل میں سامنےآیا، جوتبتیوں اورمنگولوں میں نہایت مقبول ہے۔ ایک مشترکہ بودھی اورہندوآبادی پرمشتمل افواج کےذریعے، جومکّہ اوربغداد کے تئیں وفادارتھیں، آئندہ زمینی حملوں سےخبردارکرتےہوئےاس متن میںبودھی راجہ"راودر-چکرن"کو آخری مسلمان پیغبرمہدی کےبالمقابل پیش کیاگیاہے۔ ثانی الذکرکابیان اس متن میں غیرہندی جنگی افواج کےقائدکےطورپرکیاگیاہے، جوکائنات کوفتح کرنےاورتمامترروحانیت کوختم کردینےکےدرپےہوگا۔ متن "کالکی" کا نام راودر-چکرن دیا تھا اور اس کے اسباب کی طرف سے، ہندوؤں بھی نے مستقبل کی اس فرقہ وارانہ نقطہ نظر کے لئے متحد رہے تھے۔ ایک الہامی جنگ میں کالکیکی شرکت بھی ہوگی جوہندودیوتاوشنوکادسواں اورآخری اوتارہے۔
جوابی کارروائی کےطورپرمسلمان علاقوں میں، جیسےشمال مشرقی پاکستان میں واقع بلستستان (کاعلاقہ)، جوتبتیبودھی ثقافتی علاقےسےایک تاریخی رشتہ رکھتاہے، متذکرہ الہامی جنگ کی ایک دوسری رودادترتیب دی گئی۔ اس رودادمیں مہدی کےحریف دجّال کی نشاندہی شاہ گیسرکی شکل میں کی گئی ہےجووسطی ایشیائی اسطوری ہیروسمجھاجاتاہےاورجس کومختلف بودھیگروہ صدیوں سے نہ صرف راجہ راودر-چکرن بلکہ چنگیزخان تک کی شبیہ مانتےآئےہیں۔
بہرحال، اگراس تاریخ کوزیادہ توجہ اوراحتیاط کےساتھ دیکھا جائےتووسطی اورجنوبی ایشیاکے بودھوںاورمسلمانوں کےمابین سیاسی، اقتصادی اورفلسفیانہ دائروں میں دوستانہ تعاون اور تعامل کےثبوت بکثرت نظرآتےہیں۔ ان کےآپس میں بہت سےمعاہدےہوئے، کاروبارہوئےاوراپنےباطنی وجودکی ترقی کےلیےروحانی طریقوں کی سطح پرمتواترتبادلۂ خیال بھی ہوتارہا۔ اس بیان سےاس واقعےکی تردیدنہیں ہوتی کہ دونوں گروہوں کےدرمیان متعددمنفی واقعات بھی رونماہوئے۔ مگرپھربھی، جغرافیائی سیاسیات اوراقتصادی نیزعلاقائی توسیع کی ترغیب کاپلّہ ان مذہبی اسباب وعوامل کےمقابلےمیں کہیں زیادہ بھاری ہےجن کی وجہ سےان دونوں میں یہ تضادات رونماہوئےاورایسااس حقیقت کےباوجودہےکہ جنگجوقائدین فوجی دستوں کویکجاکرنےکےلیےاکثرایک مذہبی جہادکانعرہ بلندکرتےرہتےتھے۔ اس کےعلاوہ، واقعات اورپالیسیوں کی تشکیل کرنےوالےہوشمنداورذمّہ دار حکمرانوں کی تعداد، دونوں طرف تنگ نظراورکٹّرمزاج قائدین کی بنسبت زیادہ تھی۔
آج بھی بالخصوص وسطی ایشیا میں عام آبادی کےتناسب سےمسلمانوں اوربودھوںکی تعدادزیادہ ہے۔ لہٰذا، اس علاقےکےدونوں مذاہب اورگروہوں کےمابین تاریخی رشتوں کاایک زیادہ معروضی اورغیرجذباتی جائزہ لیاجاناچاہیے، نہ صرف غیرجانب دارانہ علمی تحقیق کےپیش نظر بلکہ آنےوالےدنوں میں اس پورےخطّےکےپرُامن فروغ کےلیےبھی!