تبدیلیِ مذہب اور شمبھالہ

بدھ مت اور سامی مذاہب، دونوں میں دوسرے ادیان کے لیے رواداری پائی جاتی ہے لیکن اس کے ساتھ دونوں ہی کے ہاں تبدیلیِ مذہب کی جبری کھلی کوششوں اور ڈھکی چھپی مہموں کی حوصلہ افزائی بھی نظر آتی ہے، گو دونوں نے اس غرض سے الگ الگ طریقے استعمال کیے ہیں۔ سامی مذاہب خدا کے نام پر جنگیں کرتے رہے جبکہ شمبھالہ کے پہلے کالکی بادشاہ نے غیر بودھوں کو کالچکر منڈل میں جمع کرنے کے لیے خفیہ باطنی قوت کا کرشمہ دکھایا۔ سامی مذاہب نے مذہب تبدیل کرنے کے لیے روپے پیسے کے لالچ کا مخفی حیلہ استعمال کیا۔ جبکہ بدھ مت نے منطقی بحثوں کا سہارا لیا۔ لیکن سامی مذہب قبول کرنے اور بدھ مت کا پیرو کار بن جانے میں ایک گہرا فرق ہے۔ بودھ ہو جانے کے بعد اپنے سابقہ مذہب کو مکمل طور پر چھوڑنا ضروری نہیں ہوتا، بلکہ اس مذہب کے کئی عقائد کو باقی رکھنے کی گنجائش رہتی ہے جنہیں روحانیت کی راہ میں زینہ بہ زینہ استعمال کیا جاتا ہے۔ تاہم تقدس مآب چودھویں دلائی لامہ بدھ مت کے تبدیلیِ مذہب کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے۔ دوسرے مذاہب کے پیروکار اور غیر مذہبی لوگ بدھ مت سے مفید طریقے اور گر کی باتیں سیکھ سکتے ہیں لیکن اپنے مقامی مذہب کو ترک کرنے سے کچھ ایسے مسائل جنم لیتے ہیں جن کا پہلے سے اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔ بہت تھوڑے لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے لیے یہ سود مند رہتا ہو۔ اکثر لوگوں کے لیے اپنی آبائی مذہبی روایات کے فہم میں گہرائی پیدا کرنا زیادہ فائدہ بخش رہتا ہے۔

تعارفی باتیں

اسلام، عیسائیت اور یہودیت میں تبدیلیِ مذہب کا مطلب ہے اپنے سابقہ دین کو چھوڑ کر دوسرے دین کو اپنا لینا۔ اس تبدیلی کے پیچھے یہ یقین کام کر رہا ہوتا ہے کہ نیا دین پہلے مذہب سے زیادہ سچا ہے۔ مذہب تبدیل کرنے والوں کو اکثر یہ اجازت تو ہوتی ہے کہ اپنی آبائی ثقافتوں کے وہ عناصر قبول کر لیں جو عقائد کے علاوہ ہیں لیکن اصل میں انہیں یہ ماننا ہوتا ہے کہ صرف ان کا نیا مذہب ہی سچا دین ہے۔ سامی مذاہب میں "ایک حقیقت، ایک خدا" کا جو تصور غالب رہتا ہے یہ اس پر یقین کا لازمہ ہے۔ اس یقین تک پہنچنے کے دو بڑے راستے ہیں، نئے مذہب کے عقائد اور تعلیمات پر غور و فکر یا پھر ایک روحانی واردات، ایک تجلی کے نتیجے میں۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو کسی گہری وجہ کی بنا پر مذہب تبدیل نہیں کرتے، ان کے سامنے صرف سطحی مالی یا سماجی فوائد ہوتے ہیں یا پھر کسی دوسرے مذہب کے فرد سے شادی کرنے کی خواہش اس کا سبب بنتی ہے۔

کبھی ایسا ہوتا ہے کہ مذہبی انتہا پسند دوسروں کو زبردستی اپنے اپنے مذہب میں داخل کر لیتے ہیں۔ یہ ایک ایسی انتہا پسندانہ حرکت ہے کہ جسے سرکاری طور پر خاص خاص صورتوں میں ہی قبول کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، دشمنوں کو جبراً تبدیلیِ مذہب پر امادہ کر نے کا عمل ایک ایسا طریقہ ہے جس سے ان کے تباہ کن اثرات کا زور ٹوٹ جاتا ہے اور خطرہ دور ہو جاتا ہے۔ اس سے ایک اور غرض بھی ہوتی ہے کہ "گناہ گاروں" کو جہنم رسید ہونے سے بچایا جا سکے اور ان کے لیے جنت کی راہ کھولی جا سکے۔ جیل کے قیدیوں کے لیے بحالی کے جو پروگرام بنائے جاتے ہیں، خواہ مغربی معاشروں میں انہیں سماج کے کارآمد افراد بنانے کے لیے گئے ہوں یا کمیونسٹ ریاستوں میں اچھے کارکن پیدا کرنے کے لیے، ان کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے۔ بعض حکومتیں جو اشتراکیت، سرمایہ داری حتٰی کہ جمہوریت کو رواج دینے کے لیے اقدامات کرتی ہیں انہیں بھی استحصال کے خاتمے کے لیے جبری تبدیلی کی مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔

بہت سے لوگ، خاص طور پر آدرشی خیالات والے بدھ مت کے وہ پیروکار جو نئے نئے آئے ہوں، اس خوش فہمی میں ہوتے ہیں کہ بدھ مت تبدیلیِ مذہب کے معاملے سے محفوظ ہے خاص طور پر یہ کہ یہاں جبری طور پر مذہب تبدیل نہیں کروایا جاتا۔ یہ لوگ دنیا کو نیک و بد میں تقسیم کرتے ہوئے کلیسائی عدالتوں کی تفتیش، بدنیت مبلغوں اور تلوار کے زور سے تبدیلیِ مذہب جیسے تصورات کے سہارے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ جبری طور پر مذہب تبدیل کروانے کا نام ایسی چیز ہے جو صرف برائی کے نمائندے ہی کیا کرتے ہیں۔ اپنے آپ کو راستی پر جانتے ہوئے دوسری حکومتوں یا دوسرے مذاہب کی مذمت کی جاتی کہ اپنی تاریخ کے تاریک ادوار میں انہوں نے یہ کام کیا تھا۔ یہ کہنے سے پہلے ذرا غیر جانبداری سے یہ دیکھ لینا چاہیے کہ کہیں بدھ مت بھی جبری طور پر مذہب تبدیل کروانے کے قبیح عمل کا شکار تو نہیں ہوا۔ ورنہ ایسا کرنے سے ایک بے عیب مذہب کی امید ابھرتی بے تاب آرزو اور شنگریلا کی اقلیم بہشت کو تبت سے منسوب کرنے کی رومانی خواہش پوری نہ ہونے کی دلشکنی سےجو مایوسی اور نا امیدی جنم لے گی وہ ایسی ہی ہوگی جیسی اس استاد کے اعمال دیکھ کر ہوتی ہے جسے ہم بودھا سمجھے بیٹھے تھے۔

تبتی تاریخ کی شہادت

اصولی طور پر تو یہ بات درست ہے کہ بدھ مت تبلیغی مذہب نہیں ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ تبت اور منگولیا کی تاریخ یہ نہیں بتاتی کہ وہاں کبھی مفتوحہ علاقوں کی آبادی کو بدھ مت یا اس کے کسی ایک فرقے میں شامل ہونے پر مجبور کیا گیا ہو۔ جب اس علاقے کے حکمرانوں نے بدھ مت کو ریاست کا مذہب قرار دیا اور خانقاہوں کی مدد کے لیے اپنی رعایا پر ٹیکس عائد کیے، جیسے تبت کے بادشاہ رلپاچن نے نویں صدی عیسوی کے آغاز میں کیا تھا – تب بھی نہ تو بادشاہوں نے ایسا کیا نہ ان کی مذہبی مجلس مشاورت نے اس کی سفارش کی کہ رعایا کو زبردستی بدھ مت کے عقائد قبول کرنے اور بدھ مت کے مطابق عمل کرنے پر مجبور کیا جائے۔ عام لوگوں میں بدھ مت آہستہ آہستہ اپنی قدرتی نشوونما سے پھیلتا رہا۔

اس کے باوجود اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ بدھ مت کی خانقاہوں کو بدھ مت کے ایک فرقے کی جگہ دوسرے میں زبردستی تبدیل کیا گیا یا کسی "تلکو" (روحانی گرو کی تجسیم نو) کو اس کے پیشرو کے برعکس کسی اور مکتب فکر سے متعلق تسلیم کروایا گیا۔ ان اقدامات کے پس پشت عموماً ایک ان کہی غرض یہ کار فرما رہتی تھی کہ فوجی یا سیاسی مخالفت کو بے اثر کر دیا جائے جیسا کہ ساتویں صدی عیسوی کے اس واقعے میں بلا شبہ نظر آتا ہے جس میں ایک منگول شہزادے کو جونانگپا گرو تاراناتھ کے گیلوگپا کے نئے جنم کے طور پر تسلیم کروایا گیا تھا۔ تاراناتھ ایک خانہ جنگی کے دوران مخالف فریق کے شاہی مشیر رہ چکے تھے۔

مزید برآں یہ کہ پدم-سمبھاوا اور بعد کے کئی تبتی گرووءں نے اپنی وہ بالا تر قوتیں استعمال کیں جو جسمانی قوت کے علاوہ تھیں تاکہ نقصان پہنچانے والی آتماؤں مثلاً نیچنگ کو زیر کر کے اپنے "قابو" میں کر لیں۔ ان آتماؤں کو بدھ مت قبول کرنے پر مجبور کرتے ہوئے انہوں نے ان سے یہ وچن لیا کہ وہ دھرم کا پالن کریں گی۔ اصل میں انہوں نے ان آتماؤں کو تبدیلیِ مذہب پر مجبور کر کے ان کی بحالی کرواتے ہوئے انہیں دھرم کا محافظ بنا دیا۔

کالچکر تحریروں کی شہادت

بدھ مت کے صحیفوں پر بنیاد رکھ کر دیکھیے تو زبردستی مذہب تبدیل کرنے کی ایسی کھلی ہوئی سنگین صورتوں کا جواز ڈھونڈنا مشکل ہو گا لیکن کیا بدھ مت کی دیگر تحریروں میں بدھ مت میں تبدیلیِ مذہب کی ڈھکی چھپی صورتوں کا حوالہ ملتا ہے؟ کالچکر تحریروں میں اس کی تلاش کی جائے تو بہت سے انکشافات ہوتے ہیں۔ یہ تحریریں کشمیر اور شمالی ہندوستان میں دسویں صدی عیسوی کے اواخر اور گیارہویں صدی عیسوی کے آغاز میں مرتب کی گئیں۔ اس زمانے میں مسلم فوجیں مغرب میں ان علاقوں کو فتح کر رہی تھیں جہاں زیادہ تر بدھ مت کے پیروکار اور ہندو لوگ آباد تھے۔ ان تحریروں میں جو تاریخی مواد ہے اس میں یقینی طور پر وہ تجربات بھی پیش نظر رہے ہوں گے جو اس سے پہلے دو صدیوں میں مشرقی افغانستان اور کشمیر کے درمیانی علاقے میں سامنے آئے تھے اور تینوں مذاہب کے درمیان تعلقات کو بیان کرتے تھے۔

روایت یوں کی جاتی ہے کہ شمبھالہ کے راجہ سچندر نے کالچکر تنتر کی تعلیمات جنوبی ہند میں خود بدھ فلسفی سے حاصل کی تھیں اور پھر انہیں اپنے شمالی علاقے میں پھیلایا تھا۔ سات نسلوں بعد س کی نسل میں منجوشری یاشس نے شمبھالہ کے بڑی حکمت والا ہے برہمنوں کو سہ طرفہ کالچکر منڈل محل میں جمع کیا جو اس کے پرکھوں نے شاہی باغ میں تعمیر کیا تھا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ برہمنوں کو خبردار کر دے کہ ایک غیر ہندی مذہب پیدا ہو گا جس کا آغاز مکہ سے ہوگا۔ بہت سے اہل علم کا خیال ہے کہ یہ مذہب جس کی پیشین گوئی کی گئی تھی اسلام ہی تھا کیونکہ جس سال اس کی بنیاد رکھنے کا بیان کیا گیا تھا وہ اسلامی کیلنڈر کے آغاز سے دو سال بعد کا تھا۔ بات کوسہولت سے آگے بڑھانے کے لیے ہم سردست مان لیتے ہیں کہ ان کا اخذ کردہ نتیجہ درست تھا گو ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ کالچکر تحریروں کو مرتب کرنے والے لوگوں کا سابقہ زیادہ تر اسلام کی انہی صورتوں سے پڑنے والا تھا جو ایک کرشماتی نجات دہندہ شخصیت کے پیرو کار یا منتظر تھیں۔ یہ وہ لوگ تھے جو دسویں صدی عیسوی کے آخری زمانے میں مشرقی اسمٰعیلی شیعہ فرقے کی صورت میں ملتان (شمالی سندھ، پاکستان) میں آباد تھے اور ان کے ہاں شاید ایک "بدعت" کی صورت میں نام نہاد شیعی مانویت کا ایک ملغوبہ پایا جاتا تھا۔

منجوشری یاشس میں بیان ہوا ہے کہ اس غیر ہندی مذہب کے ماننے والے جانوروں کا گلا کاٹتے ہوئے اپنے خدا "بسم اللہ" (عربی میں "اللہ کے نام سے) "کا نام لیتے ہیں اور اس کے بعد ان کا گوشت کھاتے ہیں۔ اس نے برہمنوں سے کہا کہ ذرا اپنے گردوپیش دیکھیں کہ لوگ ان کے ویدی مذہب پر کس طرح عمل کر رہے ہیں۔ انہیں چاہیے کہ لوگوں میں جو باتیں غلط فہمی کے طور پر پھیل گئی ہیں یا جس بد عملی میں یہ لوگ پڑے ہوئے ہیں ان کو درست کریں۔ خاص طور پر دیوتاؤں کے نام پر بیل قربان کرنا اور پھر ان کا گوشت کھانا۔ ورنہ ہو گا یہ کہ ان کی اگلی نسلیں اپنے پرکھوں کے مذہب اور اجنبیوں کے دین میں کوئی فرق نہیں پائیں گے اور یوں اس نئے دین کو اپنا کر اپنی سر زمین پر باہر والوں کے قبضے میں مددگار بن جائیں گے۔ اس کے علاوہ برہمنوں کو اپنے ریت رواج میں بھی اصلاح کرنا چاہیے کیونکہ نہ تو وہ دوسری جاتی والوں میں شادی کرتے ہیں نہ ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں۔ اگر مذہبی عقائد لوگوں کو آپس میں جدا کریں اور لوگ کسی خطرے کا سامنا کرتے ہوئے اتحاد نہ کر سکیں، مل جل کر مقابلہ نہ کر پائیں تو پھر جب بیرونی حملہ ہو گا تو اس کا سامنا کسے رہے گی؟

اپنے دلائل کی منطق کی بنیاد پر منجوشری یاشس نے برہمنوں کو دعوت دی کہ وہ شمبھالہ کے دیگر لوگوں کے ساتھ کالچکر منڈل میں شامل ہو جائیں، فیضان عطا حاصل کریں اور مل کر ایک ہی "وجر – ذات" بنا لیں۔ شروع میں تو برہمنوں نے انکار کیا اور ہندوستان کی طرف فرار ہونے لگے۔ راجہ نے دیکھا کہ اگر روحانی رہنما چلے گئے تو لوگ اس کا مطلب یہ لیں گے کہ ایک ذات بنانے کا تصور غلط ہے اور وہی کچھ کرتے رہیں گے جو اپنے آپ کو برباد کرنے والی رسموں کو جاری رکھتے چلے آئے تھے۔ منجوشری یاشس نے اس کے لیے یہ کیا کہ اپنی مخفی روانی قوتیں استعمال کر کے برہمنوں کو واپس منڈل میں کھینچ بلایا۔ راجہ کی باتوں میں دانائی کا ذرا گہرائی سے جائزہ لینے پر برہمن رہنماؤں نے جان لیا کہ وہ سچ کہہ رہا تھا، سو انہوں نے اس کی تجویز قبول کر لی۔ منجوشری یاشس نے رعایا پر کالچکر فیضان عطا کا عمل کیا اور انہیں اس سے سرفراز کیا۔ سارے لوگوں کو ایک ہی وجر – ذاتی میں اکٹھا کر کے راجہ کو شمبھالہ کے پہلے "کالکی" کی حیثیت حاصل ہو گئی جس کا مطلب تھا پہلا " ذات والا"۔

تبدیلیِ مذہب کا مسئلہ

وسیع پیمانے پر ہونے والی اس عوامی قوت بخشی یا فیضانِ قوت کو ہم کیا برہمنوں کی یا شمبھالہ کی ساری آبادی کو زبردستی بدھ مت کا پیرو کار بنانے کی مثال قرار دے سکتے ہیں؟ اس کے بعد بھی کالچکر فیضان عطا کے جتنے عوامی واقعات ہوتے رہے اور آج تک ہوتے چلے آئے ہیں، کیا یہ سب بھی جبری تبدیلیِ مذہب ہی کی مثالیں ہیں؟ پہلے کالکی نے اس سلسلے میں جو کیا تھا کیا وہ روحانی اختیار اور تاریخی سند کے مطابق تھا؟ اس کے لیے ہمیں افراط و تفریط سے بچ کر سارے تحریری مواد کا تجزیہ کرنا ہوگا۔ جس میں نہ تو سارے ثبوت مٹا کر بدھ مت کو نیک معصوم بنایا جائے گا نہ ان کو پھیلا کر بدھ مت کو تنگ نظر اور دوسروں کے تبدیلیِ مذہب کے درپے دکھایا جائے گا۔

تبدیلیِ مذہب کا منطقی طریقہ

بدھ فلسفی کی تعلیم یہ نہیں تھی کہ لوگ ان کی بات محض ان کے احترام یا ایمان کی بنیاد پر تسلیم کرلیں بلکہ ان کا کہنا تھا کہ ان کی بات کو ایسے پرکھ کر دیکھا جائے جیسے سونا خریدتے ہوئے جانچا جاتا ہے۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ ہندوستان میں پہلے ہزار سال عیسوی کے دوران کے بڑے خانقاہی اداروں میں مختلف نظام ہائے فلسفہ کے حامی بودھ راہب ایک دوسرے سے اور دوسرے غیر بودھ مراکز کے اہل علم سے تبادلہ خیال اور مناظرے کرتے نظر آتے ہیں جس میں ہارنے والے فریق پر لازم ہوتا تھا کہ جیتنے والے کے عقیدے کو قبول کر لے اور اس طرح اس نظام عقائد میں اپنے آپ کو "بدل" لے جو منطقی طور پر زیادہ ہم آہنگ اور بے خلل ثابت ہو۔ آخر میں انہوں نے "تعلیمات کو ناقدانہ نظر سے ایسے جانچا تھا جیسے ہم سونے کو خریدنے سے پہلے پرکھتے ہیں"۔

یہ تبدیلیِ مذہب جبری تھی یا خوشی سے کی گئی بحث اور فیصلہ طلب بات ہے۔ یہاں نکتہ یہ ہے کہ جو لوگ منطق کو دلیل کے طور پر قبول کرتے ہیں وہ منطقی طور پر سب سے بہتر موقف کو بھی تسلیم کریں گے اور یہ نا سمجھی نہیں کریں گے کہ ایک پٹی ہوئی دلیل سے صرف اس لیے نہیں چمٹے رہیں کہ اس سے وابستگی زیادہ ہے۔ لیکن بات اتنی سادہ نہیں ہے۔ ہر شخص اپنے رویے میں ہمیشہ عقل اور منطق استعمال نہیں کرتا خواہ کتنا ہی پڑھا لکھا کیوں نہ ہو۔ اس کے علاوہ یہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ علاقائی راجہ مہاراجہ اس طرح کے مباحثوں میں سرکاری طور پر شریک ہوتے تھے اور جیتنے والے فریق اور اس کے ادارے کو شاہی سرپرستی اور امداد میسر آتی تھی۔ یوں مذہب تبدیل کرنے یا فلسفیانہ موقف بدلنے میں مالی فائدہ بھی پیش نظر رہتا ہوگا۔

تبت کی تاریخ میں بھی راجہ ڈری سونگ-دے-تسین نے آٹھویں صدی عیسوی کے آخر میں چینی بدھ مت چھوڑ کر ہندوستانی بدھ مت قبول کر لیا کیونکہ ہندوستانی بدھ مت نے چینی بدھ مت کو سامیے کے مشہور مناظرے میں شکست دے دی تھی۔ یہ فیصلہ کرنے میں یقینی طور پر راجہ کی کچھ سیاسی مصلحتیں بھی رہی ہوں گی۔ راجہ کا باپ ایسے فرقے کے ہاتھوں قتل ہوا تھا جو اجنبیوں کا دشمن تھا کیونکہ اپنی چینی ملکہ کی وجہ سے اس کے چین سے گہرے تعلقات تھے اور راجہ کے زمانے میں چین کا طرفدار ایک فرقہ دربار میں قوت پکڑ رہا تھا۔ راجہ اور اس کے مذہبی مشیر یہ نہیں چاہتے تھے کہ ماضی کے وہ ہولناک واقعات پھر دہرائے جائیں۔

باطنی، روانی قوتوں کے مقابلوں سے تبدیلیِ مذہب

باطنی قوتوں یا جسمانی طاقت کے علاوہ کرشماتی طاقت کے مقابلے بھی ہندوستان اور تبت میں مذہب تبدیل کرنے کی طرف لے جاتے تھے۔ جس طرح جلا کر یا کاٹ کر سونے کے خالص ہونے کو جانچا جاتا ہے اسی طرح فریق مخالف کو منطق یا باطنی قوت سے شکست دینا بھی کسی عقیدے اور اس کی تعلیمات کی برتری ثابت کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تیرہویں صدی عیسوی کے منگول حکمران قبلائی خان نے جب تبتی بدھ مت کی ساکیہ شاخ کو بطور مذہب قبول کیا تو اس کا سبب یہ نہیں تھا کہ اس کے فلسفیانہ نظام کی منطقی بنیاد دوسروں سے بہتر تھی۔ اس کے دادا چنگیز خان نے چین کے بودھوں ، دا‏ؤوں والوں اور نسطوری عیسائیوں کے پادریوں کو اپنے لشکر کے پڑاؤ میں بلا کر اپنی فتح اور لمبی زندگی کے لیے رسومات ادا کروائی تھیں۔ لیکن ہوا یہ کہ چنگیز خان تنگوت قوم سے لڑتے ہوئے مارا گیا۔ یہ قوم منگولیا اور تبت کے درمیانی علاقے میں آباد تھی اور ان کے لیے یہ یقینی بات تھی کہ وہ اگر طاقت میں چنگیز سے برتر تھے تو اس کا سبب یہ تھا کہ وہ تبتی بدھ مت کے محافظ مہاکال کے ماننے والے تھے۔ سامی مذاہب میں یہی بات اس طرح کہی جائے گی کہ اگر ایک قوم کی فوج کو فتح حاصل ہو گئی تو اس کا مطلب ہے کہ خدا فاتح قوم کے ساتھ ہے۔ قبلائی خان کے لیے تبت کےساکیہ والے لوگ سیاسی طور پر ایک آسان راستہ فراہم کرتے تھے جس سے مہاکال کی مہاشکتی اسے بھی عطا ہو سکتی تھی۔

کالچکر تحریروں میں نظر آنے والا مذہب تبدیل کرنے کا پورا منظر نامہ اسی سیاق وسباق میں رکھ کر سمجھا جانا چاہیے جس میں منطق اور باطنی قوت کے یہ روایتی مقابلے پھیلے ہوئے تھے۔ وہ ملک جو ہندوستانی تہذیب کے زیر اثر تھے ان میں اگر کسی مذہب کو یہ ثابت کرنا ہوتا کہ حق اس کے پاس ہے یا وہ سب سے سچا ہے تو اس کے لیے ضروری تھا کہ وہ ان دونوں میدانوں میں یا کم از کم کسی ایک میں دوسروں سے مقابلہ جیت لے۔ یہ نہیں ہو سکتا تھا کہ وہ ایک عقیدے کے طور پر اپنی برتری کا دعویٰ کرے اور پھر تلوار کے زور پر دوسروں کو اسے ماننے پر مجبور کرے۔

تبدیلیِ مذہب "دوسرے کے بھلے کے ل یے"

یہ ٹھیک بات ہے کہ شمبھالہ کے برہمن اس بات پر مان گئےتھے کہ وہ کالکی کی بالائے جسمانی قوتوں اور طر زِ استدلال پر مبنی فیضان عطا حاصل کر لیں گے، گو اس کے لیے عملاً کوئی مقابلہ نہیں ہوا تھا لیکن یہ بات فیصلہ طلب ہے کہ وہ اس کے لیے اپنی خوشی سے رضا مند ہوتے تھے یا انہیں مجبور کیا گیا تھا۔ یہ تو بہر حال درست ہے کہ وہ فیضان عطا کے حصول کے لیے خود سے جمع نہیں ہوئے تھے بلکہ انہیں راجہ کے حکم پر اکٹھا کر کے اس کے دلائل سننے پر مجبور کیا گیا تھا جو ان کے "اپنے بھلے کے لیے" تھے۔ زبردستی مذہب تبدیل کروانے کے سارے واقعات بظاہر متعلقہ شخص کی بھلائی کی خاطر ہی ہوتے ہیں۔ اس لیے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ دوسرے کالکی راجہ نے جب اپنے باپ کے کام پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ کہا کہ "کالکی نے یہ دیکھ لیا تھا کہ اب برہمن ایک ذات میں اکٹھے ہونے کے لیے تیار ہیں" تو اس کا یہ قول کسی بھی مذہب یا اقتصادی، سیاسی نظام کے رہنماؤں کو یہ جواز فراہم کر سکتا ہے کہ وہ اس کے ذریعےجبری تبدیلیِ مذہب کروانے لگیں۔

پندرہویں صدی عیسوی کے تبتیگیلوگ عالم کئیڈروب جے کی تشریح اس سے مختلف ہے۔ کالچکر کی تفسیر میں وہ لکھتے ہیں کہ منجوشری یاشس ہندو ذاتوں کو اس بات پر مجبور نہیں کر رہے تھَے کہ وہ اپنے مذہبی اور سماجی رسم و رواج کو ترک کر دیں اور بدھ مت کے پیرو ہو جائیں۔ کسی شخص کو کسی گروہ سے یہ کروانے کا حق نہیں ہے۔ پہلے کالکی کا مقصد یہ تھا کہ لوگ اپنے رویے اور طرزِ عمل کا جائزہ لے کر یہ دیکھیں کہ یہ "ویدوں" کی خالص تعلیمات کے مطابق ہیں بھی یا نہیں۔ اگر ان کا طرزِ عمل ان کے خلاف ہو تو اسے درست کیا جانا چاہیے۔ معاشرے کو اگر کسی خطرے کا سامنا ہو تو سب مذہبوں کے ماننے والوں کو روحانی طور پر اکٹھا ہو جانا چاہیے اور اپنے اپنے عقیدے کے نیک مقاصد پر مضبوطی سے کار بند رہنا چاہیے۔

کئیڈروب جے کا تبصرہ یہ بتاتا ہے کہ ایک ذات بن جانے کے لیے آمادگی اور بدھ مت قبول کرنے کی آمادگی ایک ہی ذات نہیں ہیں۔ ایک ہی ذات میں سے ہو جانا تو شمبھالہ کے باسیوں کے لیے سماجی سیاسی لحاظ سے ان کے بھلے کی چیز تھی لیکن اس کا تعلق خاص طور پر روحانیت سے نہیں تھا۔ کالکی اول کی کوشش یہ تھی کہ مذہبی ہم آہنگی اور یک مقصدیت پیدا ہو سکے تاکہ اس سے معاشرے کو درپیش خطرات دور ہو جائیں۔ وہ مذہبی یکسانیت نہیں پیدا کر رہے تھے۔

پھر بھی یہ بات تو رہے گی کہ جن لوگوں کو منجوشری یاشس نے کالچکر تعلیمات پیش کیں ان میں اکثریت برہمنوں کی تھی جنہیں فیضان عطا کی گئی۔ لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہر ایک کا مذہب تبدیل کر کے بدھ مت قبول کر لینا گو غیر ضروری بلکہ نا مناسب ہے، لیکن دوسرے مذاہب کے کچھ پیرو کار بہر حال ایسے ہوں گے جو اس کے لیے بھی " آمادگی" کے مرحلے کو پہنچ چکے ہوں گے۔ کیا اسے بھی جبری تبدیلیِ مذہب ہی کہا جائے گا جس پر چالاکی سے دلائل کا ایک پردہ ڈال دیا گیا ہو؟ یہ چیز بھی نظر میں رہے کہ منجوشری یاشس نے اپنے لیے "کالکی" کا لقب اختیار کیا تھا جو ہندو دیوتا وشنو کے دسویں اور آخری"اوتار" کا نام ہے۔ اسے بھی آپ ہندوؤں کی حمایت حاصل کرنے کا ایک حیلہ عیاری قرار دے سکتے ہیں۔

"آمادہ" لوگوں کو تعلیم کرنا

بدھ مت کا عام اصول یہ ہے کہ روحانی گرو سے جب تک کھلے لفظوں میں درخواست نہ کی جائے وہ کسی کو تعلیم نہیں دیتا لیکن بدھ فلسفی نے اس معاملے میں ایک استثنا ءرکھی ہے۔ وہ لوگ جو آگے چل کر چیلے بننے کی صلاحیت رکھتے ہوں اور اس کے لیے خاص طور پر آمادہ ہوں۔ لیکن اس کےلیے گرو کے پاس حواسِ ظاہری کے سوا اور ایک ایسی اہلیت بھی ہونا چاہیے جس سے وہ یہ ٹھیک ٹھیک جان لے کہ کون ، کب اس کام کے لیے پوری طرح تیار ہے۔ جن لوگوں میں قیافہ شناسی کی یہ صلاحیت نہیں ہوتی وہ بہ آسانی اس منصب کا غلط استعمال کر جاتے ہیں اور یوں مذہب تبدیل کروانے والے مبلغین کی سطح تک گر جاتے ہیں۔ کوئی شخص اگر تعلیم دینے کی حیثیت میں نہ بھی ہو تب بھی وہ دوسرے مذاہب یا اپنے علاوہ بدھ مت کی دوسری روایتوں کے بارے میں مربیانہ رویہ رکھتا ہو تو یوں سوچ سکتا ہے کہ یہ مذاہب یا روایتیں ان لوگوں کے لیے بالکل مناسب اور حسب حال ہیں جن کے ذہن کمزور ہیں یا جن کی روحانی طور پرنشوو نما کم ہوئی ہے۔ کم تر خیالات رکھنے والے یہ لوگ پختہ تر اور "آمادہ " ہو جائیں تو اب انہیں بدھ مت کی اپنی روایت کی زیادہ گہری تعلیمات وصول کرنے کا اہل سمجھا جائے گا۔

یہاں سبق یہ ہے کہ آج کے دور میں دوسروں تک بدھ مت کی تعلیمات پہنچانے میں بہت احتیاط درکار ہے کیونکہ ان سے غرض یہ ہوتی ہے کہ "دوسروں کے لیے وہ مواقع فراہم کرنا کہ ان کے اپنے کرموں کا پھل پک کر انہیں بدھ مت کا پیرو کار بنا دے۔" اس کےلیے بدھ مت کے قید تعلق سے آزادی اور ایک سچی غیر جانبداری کے ساتھ سارے مذاہب کے ا حترام کا رویہ ضروری ہے۔ یہ نہ ہو تو کسی بھی شخص کی سادہ لوحی سے پالی ہوئی نیک تمنائیں، سچی بات کی اشاعت کو پھیلانے کی تعصب زدہ تبلیغی ذہنیت کا مکھوٹا بن کر رہ جاتی ہیں۔

دوسرے مذہب کے صحیفوں کے گہرے معانی دکھا کر تبدیلی

اس کے علاوہ بدھ مت کے پیرو کار روایتی طور پر دوسرے نظام عقائد کے ماننے والوں سے فلسفیانہ مباحث کرتے چلے آئے ہیں خواہ اس میں تبدیلیِ مذہب کی نیت رہی ہو یا نہ رہی ہو۔ بدھ مت کے راستے کی بلند تر منطق کا دوسروں کو قائل کرنے کا طریقہ بدھ مت میں کیا ہے؟ آٹھویں صدی عیسوی کے ہندوستانی گرو شانتی دیو نے اس کی وضاحت یوں کی ہے کہ دو فریق سلیقہ سےمباحثہ تبھی کر سکتے ہیں جب ان کی گفتگو میں مثالیں وہ دی جائیں جنہیں دونوں مانتے ہوں۔ بات چیت کی اگر کوئی مشترکہ بنیاد ہی نہ ہو تو وہ مل کر آگے نہیں چل سکتے۔ اس لیے تشریحات میں آیا ہے کہ کالکی اول کا مقصد یہ تھا کہ برہمنوں کو ان کی ظاہر پرستی اور "ویدوں" کے ظاہری معنوں پر زور دینے کی عادت سے نکالا جائے اور اس کے لیے ان کو وہ متبادل دکھایا جائے جس میں ویدوں کی تعلیمات کو گہرائی میں جا کر سمجھا جاتا ہے۔

"ویدوں" اور تانتر بدھ مت دونوں میں ایک چیز مانی جاتی ہے یعنی جان لینا اور گوشت کھانا۔ بدھ مت تانتر میں ان دونوں کاموں کے پوشیدہ معنی ہیں۔ جان لینے کا مطلب ہے پریشان کن جذبات کی جان لینا، انہیں مردہ کردینا یعنی توانائی کی ہوائیں (پران) کی جان نکال لینا جس کے سہارے یہ جذبات سارے جسم لطیف میں سرایت کیے رہتے ہیں۔ مویشی علامت ہیں سادگی کے پریشان کن جذبے کی، عدم آگہی کی ایک صورت۔ ان کا گوشت کھانے کا مطلب ہے کہ سادگی کی توانائی کی ہوائیں کو مرکزی توانائی-چینل میں لا کر مٹا دینا۔ ویدوں میں جو بیل قربان کر کے اس کا گوشت کھانے کی تعلیم دی گئی ہے تو اس کو اس کے پوشیدہ معنی کے مطابق یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ اس کا اشارہ بدن کی لطیف توانائیوں کو سنبھالنے کے اندرونی یوگ کی طرف ہے۔ منجوشری یاشس نے ویدوں کی اصطلاحات اور تصورات کو اس انداز میں استعمال کر کے برہمنوں کے لیے کالچکر میں موجود مُکش اور روشن ضمیری تک پہنچنے کی راہ کھول دی۔

حاصل یہ ہوا کہ بدھ مت میں دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کی "تبدیلیِ مذہب" کا ایک ماہرانہ طریقہ یہ ہے کہ ان کے عقائد کی تردید کرنے کی بجائے ان کی شرح و تعبیر کے دوسرے ممکنہ انداز ان پر کھولے جائیں۔ بدھ مت ان کے اپنے صحیفوں کے جو گہرے معنی اور مطلب ان کو بتائے گا اس کے تجزیے کے دوران، سونا خریدنے کے عمل کی طرح، وہ بدھ مت کے راستے کے درست ہونے کے قائل ہو جائیں گے۔ اس طرح لوگوں کا آبائی مذہب بدھ مت کی راہ میں قدم بڑھانے کا ایک قابلِ قبول مرحلہ بن جاتا ہے بشرطیکہ وہ اس جانب پیشرفت پر آمادہ ہوں۔

ذہن اگر ہوشیار ہو تو وہ کسی بھی نظام کے تصورات کے بارے میں پھیلی ہوئی خوبصورت عقلی دلیل بنا کر کے ان کے ذریعے یہ دکھا سکتا ہے کہ اس کے گہرے معانی تو اصل میں دوسرے نظام کے تصورات کے عین مطابق ہیں۔ اس میں محرکِ عمل ہونا ضروری ہے لیکن یہاں بھی اس کے لیے دلیل دی جا سکتی ہے کہ ہم تو دوسروں کے بھلے کے لیے درد مندی سے یہ چاہتے ہیں کہ وہ بھی مُکش اور روشن ضمیری تک رسائی حاصل کریں۔ اسی طرح جیسے آپ دوسروں کے بھلے کے لیے پوری درد مندی سے ان کو نجات اخروی یا کسی اقتصادی یا سیاسی بہشت کی راہ دکھانے کی تمنا رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں اگر تکبر اور نظریاتی برتری کے چورگڑھے سے بچ کر رہنا مقصود ہو تو دوسرے نظام عقائد اور اس کے ماننے والوں کے لیے ایک مخلصانہ احترام کا رویہ رکھنا لازمی ہے۔

اپنے سابقہ خیالات کو کاملاً ترک کیے بغیر تبدیلیِ مذہب

اس کا مطلب یہ ٹھہرا کہ بدھ مت قبول کرنے کےلیے ضروری ہے کہ آپ اپنے تمام سابقہ خیالات کو سرے سے رد کر دیں۔ یہ اپنے سابقہ دین کو رسمی طور پر ترک کرنےکا وہ عمل نہیں ہے جو سامی ادیان میں ہوتا ہے۔ بدھ مت میں داخل ہونے کے بعد بھی آپ کسی دوسرے مذہب کے خدا یا خداؤں کے ہاں عارضی پناہ حاصل کر سکتے ہیں گو کہ یہ حتمی اور آخری محفوظ سمت نہ ہو گی۔ جو چیز آپ کو پوری طرح چھوڑنا درکار ہے وہ ہیں آپ کے سابقہ "بگڑے ہوئے خیالات" ان سے مراد صرف وہ خیالات نہیں ہیں جو بدھ مت کے سب سے گہرے مقاصد سے مختلف ہوں بلکہ وہ جو ان سے ٹکراتے ہوں۔ اگر انسان بدھ مت کے لیے ایک جارحانہ مخالفت پر قابو پا لے، بلکہ قرین عقل یہ ہے کہ ہر دوسرے مذہب اور نظام کے مقابل جارحانہ مخالفت ترک کر دے تو اس کے سابقہ خیالات میں سے کچھ اس کی ترقی کے زینے بن جاتے ہیں۔ تبت کا بدھ مت اپنے پیرو کاروں کے لیے یہی زینہ بہ زینہ طریقہء کا ر استعمال کرتا ہے جس سے وہ انہیں یکے بعد دیگرے بدھ مت کے فلسفیانہ عقائد کے زیادہ پروتار اور مرتب نظام ہائے، وائبھاشک سے مدھیامک تک، فکر تک لے جاتا ہے۔

منجوشری یاشس نے برہمنوں کو جس طریقے سے سکھایا تھا اس سے تعلیم کی نہج کا پتا چلتا ہے۔ برہمنوں کے مذہب کے یوں تو بہت سے عقیدے ایسے ہیں جو بدھ مت تک پہنچنے کا زینہ بن سکتے ہیں لیکن اس لحاظ سے سب عقائد درجے کے نہیں ہیں۔ بدھ مت کے نظامِ عقائد کی طرح برہمنوں کے کچھ عقائد بھی جیسے عل مِ نجوم کے بعض حصے بدھ مت لفظی اور ظاہری معنوں میں قبول کرتا ہے۔ کچھ عقائد ایسے ہیں جن کو لفظی سطح پر غلط کہہ کر رد کر دیا جاتا ہے لیکن ایک گہری سطح پر ان کے ایک درست معنی ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ دوسری قسم میں بھی منجوشری یاس ایک اور فرق قائم کرتا ہے۔ ایک طرف وہ امور ہیں جن میں ویدوں کے مطابق معانی کی ایک گہری سطح پائی جاتی ہے اور دوسرے وہ جن میں معانی کی کوئی تہ داری نہیں اور وہ سرے سے غلط ہیں۔

مثال کے طور پر انیسویں صدی عیسوی کے نیئنگما کالچکر شرح نگار میپام نے وضاحت کی ہے کہ "یجر وید" میں سیکھا ئی گئی بیل قربان کرنے کی رسم کے پوشیدہ اور گہرے معنی پرانے زمانے کے ویدوں کے یوگیوں کو اچھی طرح معلوم تھے۔ گزرتے وقت کا لایا ہوا زوال ایسا ہے کہ اس داخلی یوگ کا علم جاتا رہا جس کی علامت یہ قربانی کہی جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ منجوشری یاشس نے آشفتہ خیال برہمنوں کو جو تعلیم دی اس سے اصل میں ان کی مدد کی جا رہی تھی کہ وہ اس حکمت و دانش کو پھر سے پا سکیں جو ان کی اپنی روایت نے کھو دی تھی۔ وہ لوگ جو بیل کی قربانی کو لفظی اور ظاہری معنی میں لیتے ہیں اور مویشیوں کی جان لیتے ہیں وہ اپنے کرموں سے مُکش کی آنند تک شاید نہیں پہنچ سکتے ہیں۔ وہ پہلے سے بد تر نئے جنموں میں جا گریں گے۔

یہاں منجوشری یاشس یہ کہنے کی کوشش نہیں کر رہے کہ "یجر وید" میں جس قربانی کا ذکر ہے پرانے زمانے کے ویدوں کے یوگی بیل کی قربانی کے وہ پوشیدہ معنی جانتے تھے جو بدھ مت تنتر کے داخلی یوگ عمل میں سمجھے جاتے ہیں۔ ان کا مطلب یہ تھا کہ پرانے یوگی ہندو تنتر کے داخلی یوگ پر نظر رکھتے تھے۔ کیونکہ ہندو اور بودھ تنتروں میں کئی چیزیں مشترک بھی تو ہیں جیسے لطیف توانائی کے سلسلے اور چکر، ناڑیں اور توانائی کی ہوائیں (پران)۔ اصل نکتہ یہاں یہ ہے کہ وہ برہمن جو ابھی بدھ مت کی تعلیمات قبول کرنے کےلیے پختہ نہیں ہوئے انہیں بھی بیل قربان کرنے کی رسم چھوڑ دینا چاہیے۔ ویدوں میں جو اس رسم کی تاکید کی گئی ہے تو اس کا مطلب یہ نہ تھا کہ اسے، ویدوں کی روایت ہی میں کیوں نہ ہو، لفظی معنی میں لیا جائے۔

دوسری طرف منجوشری یاشس نے برہمنی عقائد میں ایسی چیزوں کی نشاندہی بھی کی جو ظاہری، لفظی سطح پر بالکل غلط تھیں، مثلاً براعظموں کی لمبائی چوڑائی کی پیمائش۔ کالچکر نظام کے مطابق اس کی پیمائش اس لیے پیش کی گئی کہ برہمن جو اپنی باتوں سے ایک غرورکے ساتھ چمٹا ہوا تھا اس سے الگ ہو سکے۔ تیرہویں صدی عیسوی کے ساکیہ کالچکر شرح نگار بوتن نے وضاحت کی ہے کہ منجوشری یاشس نے یہ بات اس نیت سے نہیں کی تھی کہ کالچکر نظام پیمائش کے علاوہ سارے دوسرے نظاموں کو غلط قرار دیا جائے، جیسے وہ نظام جس کا بدھ فلسفی نے "ابھیدھرم" تحریروں میں درس دیا تھا۔ یہ کہنے سے ان کی ایک خاص محرکِ عمل تھی اور وہ یہ کہ برہمنوں کو فائدہ پہنچایا جائے۔

کئیڈروب جے نے یہ بھی کہا ہے کہ کالکی اول کی بتائی ہوئی پیمائش یا ویدوں میں پائی جانے والی پیمائش دونوں ہی حقیقت کے مطابق نہیں ہیں۔ اس کے باوجود دونوں کے درمیان آپس میں بہت بڑا فرق ہے۔ کالچکر پیمائش انسانی جسم کی پیمائش اور کالچکر کے منڈل کی پیمائش کے مطابق تھی۔ کہنا یہ ہے کہ یہ تعلیمات دینے سے منجوشری یاشس کی غرض یہ تھی کہ اگرچہ برہمن غلطی میں پڑے ہوئے ہیں لیکن ان کو کالچکر کے وسیلے سے روشن ضمیری کا راستہ دکھایا جائے۔ ویدوں کے نظام میں براعظموں کے طول و عرض ناپنے جیسی کوئی چیز نہیں ہے۔ اس کے باوجود کالکی اول نے دنیا کا بیان جس طرح کیا ہے اس میں اور ویدوں کے انداز بیان میں کئی باتیں ایک سی ہیں- مثلاً براعظموں کے حلقے، پہاڑی سلسلے اور ایک گول میرو پربت کے گردا گرد سمندر۔ اس سے برہمنوں کے لیے بڑی چابکدستی سے ایک راہ کھول دی گئی کہ وہ ان کے بیان کو سمجھ کر اس کی گہرائی میں اتریں اور غور کریں۔

کالچکر میں غیر شعوری طور پر جذب ہونے کا مسئلہ

یہ بات قابلِ غور ہے کہ منجوشری یاشس نے بدھ مت والوں کو اسلام میں غیر شعوری طور پر گھل مل جانے سے بچنے کی بات نہیں کی جب کہ ہندوؤں کو انہوں نے اس خطرے سے آگاہ کیا۔ یہی نہیں کالچکر تحریروں میں ایسا کوئی ذکر نہیں ہے جس میں اسلام کے پیرو کار دوسرے مذہب کے لوگوں کو زبردستی یا پرامن طریقے سے اپنے مذہب میں داخل کرنے کی کھلی کوشش کرتے نظر آتے ہوں۔ یہی نہیں بلکہ منجوشری یاشس نے یہ پیش گوئی کی کہ سن ۲۴۲۴ ء صدی عیسوی میں ہندوستان کے ایک غیر ہندی حکمران کی طرف سے شمبھالہ کو حملے کا خطرہ پیش آئے گا اور پچیسواں کالکی اس کی فوجوں کو ہندوستان میں شکست دے گا تو اس پیش گوئی میں بھی صرف فوجی غلبے کا ذکر ہے اور مذہبی غلبے کی طرف کوئی خاص اشارہ نہیں کیا گیا۔ کالکی اول نے صرف برہمنوں کو خبردار کیا تھا کہ وہ اسلام میں جذب ہو کر نہ رہ جائیں۔

شاید کالکی کو یہ ضرورت ہی محسوس نہ ہوئی ہو کہ بدھ مت والوں کو بھی خبردار کیا جائے کیونکہ اسے بدھ مت کی قوت پر بھروسہ تھا اور انہیں یہ نظر آ رہا تھا کہ بدھ مت اسلام میں جذب نہیں ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کالکی کی آگہی میں کمی تھی اور آنے والے وقت کے بارے میں اس کے فوق الحسی ادراک میں ایک خامی تھی۔ یہ نتیجہ بدھ مت والوں کےلیے پریشان کن ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ جب ہندوستان میں کالچکر تحریریں لکھی جا رہی تھیں تو اس وقت تک اسلام میں بدھ مت کے جذب ہونے کا معاملہ کچھ زیادہ اہم نہیں ہوا تھا۔ تاریخ البتہ یہ بتاتی ہے کہ دسویں صدی عیسوی کے آخر تک صرف ہندو ہی نہیں بلکہ بدھ مت کے پیرو کاروں میں سے بہت سے زمیندار، تاجر اور پڑھے لکھے شہری لوگ، خاص طور پر وسطی ایشیا، شمالی افغانستان اور جنوبی پاکستان میں، مختلف اسباب کی بنا پر اسلام قبول کرنا شروع کر چکے تھے۔ ان اسباب میں مالی فوائد حاصل کرنا بھی شامل تھا۔ مسلمان حکمرانوں کی طرف سے ان پر کوئی جبر نہیں تھا کہ وہ اپنا مذہب تبدیل کریں نہ ہی تبدیلیِ مذہب سے انکار پر موت کی سزا دی جاتی تھی۔ کوئی بھی شخص جزیہ ادا کر کے اپنے مذہب کا پیرو کار رہ سکتا تھا۔

ایک اور بات کا امکان بھی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ منجوشری یاشس کا گمان یہ رہا ہو کہ اگر سارے مذہبوں کے لوگ کالچکر منڈل میں اکٹھے ہو جائیں اور جو لوگ پختہ اور "آمادہ" ہوں وہ بدھ مت قبول کر لیں تو آڑے وقت میں اٹھنے والے مسائل کا سامنا کرنا آسان ہو گا۔ وہ آبادی جسے حملے اور فوجی غلبے سے خوف ہو، خطرے کا مقابلہ تبھی کر سکتی ہے جب اس میں اتحاد ہو اور وہ مل جل کر اس کا مقابلہ کرے۔ بدھ مت والوں کو تو قدرتی طور پر کالچکر عطاء اختیار میں آجانا تھا۔ اس لیے کالکی اول کو صرف شمبھالہ کے غیر بدھ مت والوں سے بات کرنا درکار تھا۔ سو یہ تھا ان لوگوں کی تبدیلیِ مذہب کا مقصد "جو آمادہ ہو چکے تھے"۔

کالکی اوّل نے ہندوؤں اور بودھوں کو متحد کرنے کے لے جو حربے استعمال کیے ان میں سے ایک وہی تھا جو اسمٰعیلی شیعہ مسلمانوں نے بعد میں ہندوؤں کو قریب لانے کے لیے استعمال کیا، تاکہ آگے چل کروہ اسلام قبول کر سکیں۔ تیرہویں صدی عیسوی میں پیر شمس الدین نےایک کتاب لکھی "دس اوتار"۔ اس کتاب میں حضرت علی کو وشنو کا دسواں اورآخری اوتار قرار دیا گیا۔ اسمٰعیلی امام حضرت علی کے جانشین تھے اور اگرحضرت علی کو کالکی مان لیا جائےتو ہندو ان کے اسمٰعیلی جانشینوں کو بھی جائز وارث تسلیم کرلیں گے۔منجوشری یاشس نےبھی اسی طرح اپنا لقب "کالکی" رکھ لیا تاکہ ہندوؤں سے خود کو تسلیم کروا سکے۔

بدھ مت میں اسلام کی گنجائش

منجوشری یاشس نے یہاں تک وضاحت کر کے بتادیا تھا کہ درجہ بہ درجہ آگے بڑھنے کا طریقہ کار کس طرح غیر ہندی مذہب کے پیروکاروں کو بدھ مت کی طرف لا سکتا ہے۔ لگتا یہ ہے کہ انہیں اس نزاکت کا احساس نہیں تھا کہ اسلام میں ترکِ مذہب کر کے دوسرا مذہب اپنانےکو کیسی سختی سے منع کیا گیا ہے۔ منجوشری یاشس کو ہر بات سے زیادہ اس چیز کی فکر تھی کہ صرف ہندومت یا بدھ مت والوں ہی کو نہیں بلکہ سب مذاہب کے ماننے والوں کو اکٹھا کیا جائے، کیونکہ شمبھالہ میں آخر مسلمان بھی تو رہے ہوں گے اور انہیں بھی دوسرے سب لوگوں کی طرح حملے کا اور فوجی غلبے کا خطرہ رہا ہو گا۔ مشرقی افغانستان کا یقینی طور پر وہی معاملہ تھا اور اڈیانہ (شمال مغربی پاکستان) کا بھی اور یہی غالباً وہ علاقے تھے جہاں سے اسلام کے بارے میں جملہ معلومات حاصل کی گئیں۔

کالکی اول نے غیر ہندی مذہب کا جو بیان کیا تھا اس کے مطابق ان کا عقیدہ میں یہ بتایا گیا تھا کہ وہ خارجی مادے کو ذرات ,ایٹموں, سے مل کر بنایا ہوا مانتے تھے، ایک ابدی روح کےقائل تھے جو عارضی طور پر دوبارہ جنم میں آتی ہے اور ان کے لیے زندگی کا سب سے بڑا مقصد یہ تھا کہ جنت میں دوبارہ جنم لینے کی سعادت میسر آجائے۔ منجوشری یاشس نے وضاحت کی کہ اسی طرح کے عقیدوں والے لوگوں کا علم رکھنے کی وجہ سے بدھ فلسفی نے ان کے لیے تعلیم یوں دی کہ وہ اسے قبول کرسکیں۔ کچھ سوترایسے ہیں جن میں بدھ فلسفی کا کہنا یہ ہے کہ وہ بودھی-ستوا جو بودھائیت پانے ہی والا ہو اس کا بدن ذرات سے مل کر بنا ہوتا ہے۔ ایک اور جگہ انہوں نے وضاحت کی ہے کہ انسانی "نفس " میں ایک تسلسل ہے جس پر اس کے کیے ہوئے (کرموں) کی ذمہ داری عاید ہوتی ہے، لیکن مہاتما نے یہ نہیں بتایا کہ یہ "نفس" انسانی دائمی ہے یا غیردائمی۔ بدھ فلسفی کی تعلیم یہ بھی تھی کہ زندگی کا ایک عارضی مقصد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دوسرا جنم ایک بہتر، جنتی، خدائی اقلیم میں مل جائے۔ غیرہندی مذہب کے عقیدے ان سوتروں کو ماننے کےلیے زینوں کا کام کر سکتے ہیں اور پھر سے آگے بڑھ کر بدھ مت کی ان سے کہیں زیادہ نفیس اور تفصیلی تشریحات قبول کی جا سکتی ہیں۔

اسلام میں بدھ مت کی گنجائش

منجوشری یاشس نے اسلام کی جس طرح شرح کی تھی اسی طرح اس عہد کے مسلمان مصنفین نے بھی بدھ مت کا بیان ایسے اسلوب اور ان اصطلاحات میں کیا جسے اسلام کے ماننے والے سمجھ سکتے تھے۔ مثال کے طور پر آٹھویں صدی عیسوی کے آغاز پر الکرمانی نے شمالی افغانستان میں بلخ کی نووہار خانقاہ کا مفصل بیان کیا ہے۔ اس میں اس نے لکھا ہے کہ بدھ مت والے کپڑے سے ڈھانپے ہوئے ایک مکعب پتھر کے گرد طواف کرتے ہیں اور اس کے سامنے سجدہ کرتے ہیں، ایسےہی جیسے مسلمان مکہ میں کعبہ کے سامنے کرتے ہیں۔ اس مکعب پتھر سے اشارہ اس چبوترے کی طرف تھا جو بڑے مندر کے مرکز میں واقع تھا اوراس پر ایک ستوپ بنا ہوا تھا۔ البتہ مسلمان جب ان ملتی جلتی چیزوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں تو اس سے ان کا عقیدہ یہ نہیں ہوتا کہ ان کو بطور حربہ استعمال کر کے بدھ مت والوں کو اسلام کی راہ پر لے آئیں۔ان کی طرف سے تو بدھ مت والوں کو ایک سادہ سی پیشکش کی گئی تھی: یا تو اپنے مذہب پر رہو اور ایک ٹیکس زائد ادا کر دو جسے جزیہ کہتے ہیں یا اسلام قبول کرلو اور اس ٹیکس سے آزاد ہو جاؤ۔ حتٰی کہ جب مسلمان فاتحین نے یہ سوچ کر بدھ مت کی خانقاہیں گرا دیں کہ اس سے مقامی آبادی ہمت چھوڑ دے گی اور شکست قبول کرلے گی، تب بھی اکثر ان کی تعمیرِ نو کی اجازت دے دی گئی تاکہ ان کی زیارت کے لیے آنے والوں سے رقم وصول کی جاسکے۔

خاتمہ

کئی اہم سوال باقی ہیں۔ شمبھالہ کی اساطیری سر زمین میں بدھ مت قبول کر کے تبدیلیِ مذہب کا جو نقشہ کالچکر تحریروں میں ملتا ہے وہ صرف اس چیزکا بیان ہے جو افغانستان اور ہندوستان میں نویں سے گیارہویں صدی عیسوی میں سود مند اور ضروری رہی ہو گی، یا یہ ہر زمانے کے لیے ایک سبق اور مشورہ ہے۔ اگر یہ مان لیاجائے کہ ہر مذہب کے ماننے والوں میں ایک عالمگیر نقطۂ اشتراک ہے کہ دانائی اسی میں ہے کہ اپنے اپنےمذہب کی روحانی اقدار کا دوبارہ اثبات کیا جائے تاکہ معاشرے کو درپیش خطرات سے نمٹا جاسکے تو پھر کیا دفاع کرنے کا سب سے بہتر اور حتمی طریقہ یہ ہو گا کہ جتنے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو بدھ مت پر عمل کرنے کے لیے قائل کیا جا سکتا ہے کرلیا جاے۔ اس حکمت عملی کی تائید کرنا مشکل ہے خواہ مذکورہ بالا تاریخی عہد کے حوالے سے ہو یا بغیر کسی شاونیت کے ایک عمومی مشورے کے طور پر۔ بے تعصبی سےنکالا ہوا نتیجہ یہ ہے کہ یہ مان لیاجائے کہ شمبھالہ کی داستان واقعی شاونیت زدہ ہے اور تعصب بر مبنی ہے۔ اگرچہ اس زمانے کے حالات میں اس کا جواز سمجھ میں آتا ہے۔ لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ آج بدھ مت کے مبلغین کو غیر بودھ سامعین کے سامنے بدھ مت پیش کرتے ہوئے کسی طرح کی شاونیت کی ضرورت ہے۔

تقدس مآب چودہویں دلائی لامہ جب بھی غیر بودھ سامعین کے سامنے بدھ مت کی دعوت پیش کرتے ہیں تو ان کا زور اس بات پر ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کو بدھ مت کا پیروکار بنانے کے لیے کوشاں نہیں ہیں۔ وہ دوسروں کو دعوت مناظرہ کی چنوتی دینے کا انداز نہیں اختیار کرتے جس میں ہارنے والا جیتنے والے فریق کا عقیدہ قبول کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ وہ یہ بات واضح کر دیتے ہیں کہ ان کا مقصد صرف یہ ہے کہ لوگ بدھ مت کے بارے میں معلومات حاصل کر سکیں۔ مختلف معاشروں میں باہمی امن تبھی پیدا ہوتا ہے جب وہ ایک دوسرے کے نظام عقائد کو ٹھیک سے جانتے ہوں۔ کسی کو معلومات فراہم کرنے اور اس کا مذہب تبدیل کرنےکی کوشش کرنے میں بڑا فرق ہے۔ لوگوں کو اگر بدھ مت میں کوئی بات قابل قدر نظر آتی ہو تو وہ اسے اپنانے کے لیے آزاد ہیں اور اس کے لیے ان کا بدھ مت کے پیرو کار بننا بھی لازمی نہیں ہے۔ جنہیں اس سے گہری دلچسپی ہو وہ اس کا مزید مطالعہ کر سکتے ہیں اور بدھ مت قبول کر سکتے ہیں۔ لیکن ایک لمبے عرصے کے گہرے سوچ بچار کے بعد۔ عام لوگوں کو، تقدس مآب کی رائے میں، مذاہب تبدیل کرنے سے پرزور انداز میں منع کرنا چاہیے۔

اس لحاظ سے بدھ مت دوسرے مذاہب اور فلسفیانہ نظاموں سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ اس کا دعویٰ بھی یہی ہے کہ سب سے گہری صداقت اس کے پاس ہے تاہم بدھ مت کا یہ دعویٰ بلا شرکت غیرے "واحد صداقت" کی قبیل کا نہیں ہے۔ بدھ مت اضافی صداقتوں کو بھی مانتا ہے، یعنی وہ چیزیں جو کسی خاص صورتحال یا کچھ مخصوص طبقوں کے لیے درست اور سچی ہوں۔ جب تک آپ کے نظریات جارحانہ طور پر اس کے خلاف نہ ہوں آپ کے اضافی، جزوی طور پر سچے عقائد کی طرف قدم بڑھانے کے لیے وہ عارضی زینے بن سکتے ہیں جن پر قدم رکھ کر وہ اس گہری ترین صداقت تک پہنچ سکتے ہیں جو بدھ مت کی صورت میں بیان ہوئی ہے۔ یہی عقائد اس زینہ بہ زینہ عمل کا کام بھی دے سکتے ہیں جو دوسرے مذاہب کی سب سے گہری صداقت تک پہنچا سکتے ہیں۔ جب تک بدھ مت کا یہ دعویٰ کہ وہ سب سے گہری صداقت کا حامل ہے شاونیت کا شکار نہیں ہوتا اور ایک تبلیغی لائحہ عمل کا پردہ نہیں بنتا اس وقت تک یہ ان سب لوگوں کے لیے سود مند ثابت ہو سکتا ہے جن کو اس سے مناسبت ہے۔

Top