مقدمہ
آج ہم یہاں اس کانفرنس میں 'عالمی فہم و تفہیم میں تبتی زبانی اور متنی میراث کا حصہ: ترقی اور توقعات' کے موضوع پر گفتگو کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ تبتی ثقافت، ظاہر ہے کہ ایک وسیع موضوع ہے جس کے کئی پہلو ہیں: بودھی اور بون روحانی روایات، طب، تقویم سازی، علمِ نجوم، فنون، فنِ تعمیر، موسیقی،رقص، زبان اور ادب۔ تاہم ان میں سے کوئی پہلو بھی تنہائی میں نہیں ابھرا بلکہ سب نے دوسری تہذیبوں کے ساتھ رابطہ اور گفت و شنید کے عمل میں پرورش پائی۔ تبت وہ چوراہا تھا جہاں ژانگ ژنگ، ھندوستانی، چینی، یونانی، ایرانی خُتنی اور ترکی خیالات و افکار آپس میں آ ملتے تھے۔ تبتوں نے ان میں سے کسی بھی روایت کو کاملاً قبول نہیں کیا، نہ انفرادی طور پر اور نہ ہی مرکب صورت میں۔ بلکہ انہوں نے تمام اجنبی مادوں کو منتقدانہ طور پر لیا اور مختلف خیالات و افکار کو ملا کر اپنے طریقہ سے اپنا ایک یگانہ نظام تشکیل دیا۔
مزید از آں، تبتی ثقافت جو کہ کئی تہذیبوں کی بنیاد پر ابھری، جامد و ساکت نہیں رہی اور نہ ہی ارد گرد کے لوگوں سے تنہا اور جدا، بلکہ تبتی زبان و ثقافت پھیلے اور ان کا کئی دوسری تہذیبوں سے باہمی تعامل رہا جس نے لمبے عرصہ تک عالمی فہم بڑھانے میں معنی خیز کردار ادا کیا۔ اس سے قبل کہ ہم موجودہ زمانہ میں اس بین الثقافتی رجحان کا تجزیہ کریں، آئیے ہم اس کی تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں۔
تاریخی جائزہ
کئی صدیوں کے عرصہ میں تبتی ثقافت، شاہراہِ ریشم کے ساتھ شمالی سمت میں تریم طاس اور گانسو گزرگاہ کی شہری ریاستوں تک پہنچی اور پھر وہاں سے منگولیا، مشرقی ترکستان میں واقع دذونغاریا، موجودہ قازقستان اور کرغیزستانکے مشرقی حصے، شمالی چین، منچوریا اور روس کے بُریات، کلمیک اور تووا علاقوں تک پہنچی۔ جنوب میں یہ ہمالیائی ریاستوں اور ان سے پرے موجودہ شمالی پاکستان سے لے کرموجودہ شمالی برما تک پھیلی۔ نتیجتاً اس کثیر جہتی تبتی ثقافت اور زبان نے وسطی ایشیا اور ہمالیہ کے علاقوں میں ایک وحدتی کردار ادا کیا جیسا کہ قرون وسطی کے یورپ میں رومی ثقافت اور لاطینی زبان نے ادا کیا تھا۔
مثال کے طور پر ساتویں صدی عیسوی کے نصف سے لے کر نویں صدی کے نصف میں شاہ لنگ درما کے دورِ حکومت تک، تبتی سلطنت نے مختلف حد تک تریم طاس اور گانسو گزرگاہ میں شاہراہِ ریشم کی شہری ریاستوں اور چین کے ملحقہ سرحدی علاقوں پر اور لداخ سے لے کر موجودہ یونان صوبے اور شمالی برما تک کے ہمالیائی علاقوں پر بھیپر حکومت کی۔ اگرچہ اس وسیع علاقہ میں بہت سے قومی و نسلی گروہ اور ثقافتیں اور زبانیں موجود تھیں اور اس میں دور دراز کے تاجر سفر کرتے تھے، لیکن تبتی زبان اور ثقافت بین الاقوامی تفہیم کا ذریعہ تھیں۔
علاوہ بریں، شاہ لنگ درما کے قتل پر تبتی سلطنت کے سقوط و انتشار کے بعد کہ جب شاہراہ ریشم پر کئی میانہ سلطنتیں ابھر آئیں، تو تب بھی کئی صدیوں تک تبتی زبان اور بودھی ثقافت نے ان علاقوں میں ایک وحدتی کردار ادا کیا۔ مثلاً کم از کم دسویں صدی عیسوی کے آغاز تک گانسو گزرگاہ اور شاہراہ ریشم پر ختن تک، تبتی زبان تجارتی اور سفارتی مقاصد کے لیے استمعال ہوتی تھی کیونکہ یہ وہاں پر مختلف قوموں کی واحد مشترکہ زبان تھی۔ اس کے علاوہ اس علاقہ کے علما نے تبتی زبان سے بودھی متون کے مختلف مقامی زبانوں میں ترجمہ کیے بالخصوص دسویں صدی کے نیم سے شروع ہو کر ویغور زبان میں اور گیارہویں صدی کے نصف سے تنگوت زبان میں۔ قوچو ویغور مشرقی ترکستان میں رہائش پزیر تھے جبکہ تنگوت جنوبی گانسو اور موجودہ دور کے ننگزیا میں جو کہ امدو کے مشرق میں ہے۔ تنگوت تو تبتی حروفِ تہجی کو بھی استمعال کرتے تھے اپنے بیحد پیچیدہ نظام ِ کتابت کو لکھنے کے لیے تاکہ اس کی مدد سے تنگوت لوگ اپنی زبان سیکھ سکیں۔ کچھ چینی بودھی متون بھی تبتی حروف میں لکھے گئے تاکہ انہیں آسانی سے پڑھا جا سکے۔
تیرہویں صدی سے تبتی ثقافت اور بدھ مت منگول علاقوں میں پھیلنا شروع ہو گئے۔ اس کے بعد مختلف منگول شاخوں نے انہیں مزید دور تک پھیلایا۔ مثلاً سولہویں صدی سے شروع ہو کر مغربی منگولوں کی دزونغر شاخ نے دس خانقاہیں قائم کیں اور پھر مشرقی قازقستان اور کرغیزستان میں پتھر کی خانقاہیں بنائیں جو سب تبتی بدھ مت کی پیروکار تھیں۔ مغربی منگولوں کی کلمیک شاخ اپنے ساتھ بدھ مت اور تبتی ثقافت کو روس کے والگا کے علاقہ لے گئی جہاں اس نے ستارہویں صدی عیسوی کے آغاز میں ہجرت کی۔ جبکہ وسطی منگولوں نےاٹھارہویں صدی کے وسط میں تبتی ورثہ کو جنوبی سائبیریا میں موجود بُریات منگولوں تک پہنچایا اور اس کے چند دہائیاں بعد تووا کے ترکی لوگوں تک۔
چودہویں صدی عیسوی کے آغاز میں علما نے بودھی متون کا تبتی زبان سے منگول زبان میں ترجمہ شروع کر دیا تھا۔ ستارہویں صدی عیسوی تک منگول علما نے تمام”کانگیور“ کا ترجمہ مکمل کر لیا تھا اور اٹھارہویں صدی کے نصف تک تمام ”تنگیور“ کا۔ ستارہویں صدی عیسوی کے پہلے نصف میں خاصے سارے بودھی متون کا ترجمہ مغربی منگولوں بشمول دزونغر اور کلمیک لوگوں کے، کی کلاسیکی زبان ویرات میں ہو چکا تھا۔ منگول اور ویرات زبانوں میں ان ترجموں کے باوجود بہت سے منگول علما نے اپنے متون اور تفاسیر تبتی زبان میں لکھے۔ ایک زمانہ میں خانقاہی مباحثہ بھی منگول زبان میں ہوتا تھا لیکن منگولوں کو جلد احساس ہو گیا کہ اسے تبتی زبان میں کرنا آسان تر ہے۔
تیرہویں صدی کے نصف میں قبلائی خان کے دور سے شروع ہو کر منگول، تبتی ثقافت اور بدھ مت کو شمالی چین لے گئے۔ اس وقت سے لے کر بیسویں صدی میں مانچوچِنگ خاندان کی حکومت کے خاتمہ تک، بدھ مت چین کے تقریباً سارے شہنشاہوں کا درباری مذہب تھا۔ اگرچہ مانچو ”کانگیور“ کا ترجمہ چینی زبان سے ہوا تھا نہ کہ تبتی سے، لیکن مانچووں نے نہ صرف اس کا تبتی نام "کانگیور" برقرار رکھا بلکہ اس کے ہر متن کے ترقیمہ کی تبتی ہئیت بھی۔ مانچو شہنشاہوں نے جنوبی منچوریا میں اپنے موسم گرما کی رہائش گاہ جہول (موجودہ چنگدے) میں پوٹالا، نوربُولِنگکا، ٹاشیلہونپو خانقاہ اور سمیے کے مرکزی مندر کے نقشِ ثانی بنوائے تاکہ ان کی سلطنت میں تبتی بدھ مت اور ثقافت تبتوں، منگولوں، مانچووں اور ہان چینیوں کے لیے ایک وحدتی قوت بن جائے۔ مزید براں، مانچووں نے بہت سے تبتی بودھی متون شایع کروائے بمعہ مانچو نقل نویسی کے تاکہ انہیں پڑھنے میں آسانی ہو۔ اٹھارہویں صدی کے آخر میں انہوں نے بودھی اصطلاحاتکی ایک سنسکرت تا تبتی تا مانچو تا منگول تا چینی زبان کی قاموس بھی شایع کروائی جس سے پتہ چلتا ہے کہ مانچو بودھی بھی اپنی روحانی مشق میں تبتی متون پر بڑی حد تک انحصار کرتے تھے۔
پس اس وسیع علاقہ میں کہ جہاں تبتی ثقافت جدید دور سے قبل پھیلی، اس کے اکثر حصوں میں تبتی زبان کی حیثیتبطور علم و ادب اور بودھی مشق کی زبان کے، قائم رہی، بالخصوص متفرق منگول اور ہمالیائی علاقوں میں۔ پس مختصراً یہ وسطی ایشیائی اور ہمالیائی لوگ روایتی طور پر روحانی اور دانشورانہ رہنمائی کے لیے تبت کی طرف نظر کرتے ہیں۔ اس طرح سے تبتی زبان اور ثقافت روایتی طور پر اس وسیع علاقہ میں عالمی فہم و تفہیم کے فروغ کا ذریعہ ہیں۔
جدید دور: عمومی پیشرفت
بیسویں صدی عیسوی کے نصف سے شروع ہو کر تبتی ثقافت کے پہلومزید کئی ممالک میں بھیل رہے ہیں اور اب اکیسویں صدی میں ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ تبتی ثقافت کی واقعی عالمی پہنچ ہے۔ یہ ایک بہت تیز پیشرفت ہے جس کا ایک بڑا محرک ھندوستان اور نیپال میں تبتی جلا وطنوں کی آمد تھی۔ مثال کے طور پر جب میں نے ہارورڈ یونیورسٹی میں ۱۹۶۷ءمیں تبتی زبان پڑھنا شروع کی تو تبتی بدھ مت کے بارہ میں شاید ہی کوئی مادہ مہیا تھا۔ ہمیں بنیادی طور پر تین مصنفین یعنی ایوانز ونٹز، الیکزانڈرا ڈیوڈ نیل اور لامہ گوندا کی تصنیفات پر انحصار کرنا پڑتا تھا۔ تبتی زبان کے قواعد کی واحد کتاب جو مہیا تھی وہ عیسائی مبلغ جیشکہ نے انیسویں صدی کے وسط میں تحریر کی تھی اور یہ تبتی زبان کا تجزیہ لاطینی زبان کی اصطلاحات میں کرتی تھی۔میرے استاد پروفیسر ناگاتومی جاپانی تھے اور انہیں تبتی زبان کے تلفظ کا کچھ علم نہیں تھا اور انہوں نے ہمیں جاپانی زبان کے قواعد کی اصطلاحات میں تعلیم دی۔ اس زمانہ میں مغربی دانش گاہوں میں تبت کے بارہ میں تعلیم میں یہ تاثر تھا کہ یہ ایک مردہ تہذیب ہے قدیم مصر یا قدیم بین النہرین کی طرح کہ جہاں مغربی ماہرین یہ تعین کرتے ہیں کہ ان تہذیبوں کی تعلیم کیا تھی۔
جب میں فلبرائٹ پروگرام کے تحت پہلی مرتبہ ۱۹۶۹ءمیں ھندوستان گیا تو تبتی زبان کا تلفظ سیکھنے کے لیے مجھے ایک لسانی ماہرِ بشریات کی طرح اس کی لسانی ساخت کا خود تجزیہ کرنا پڑا۔ مجھے تبتی علم و دانش کے خزانوں کی وسیع حدود و مقدار کا کوئی اندازہ نہیں تھا۔ ہر چیز ابھی نامعلوم تھی۔ جب میں نے گیشے نگا وانگ دھارگیئےکے ساتھ لام رِم کی زبانی روایت یعنی روشن ضمیری کی راہ کے مدرج مراحل، نکتہ بہ نکتہ، اپنے پی ایچ ڈی کے مقالہ کے لیے پڑھنا شروع کی تو مجھے یہ بھی نہیں پتا تھا کہ کس نکتہ کے بعد کونسا اگلا نکتہ ہے۔ اور جب میں نے عظیم تبتی لاموں کے سبق اور تنتری عطائے اختیار میں حاضری دینی شروع کی تو کوئی ترجمہ کا بندوبست نہ تھا اور مجھے کچھ علم نہ تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔ یہ سب کچھ نامعلوم سرزمین میں ایک مہم کی مانند تھا۔
اب چالیس برس بعد صورتحال کاملاً مختلف ہے۔ بہت سے بودھی متون اور زبانی روایات اور کچھ کم حد تک،مختلف بون روایات کا ترجمہ اب کئی مغربی اور جدید ایشیائی زبانوں میں مہیا ہے۔ تبتی روحانی اساتذہ نے تمام دنیا میں کئی بودھی اور بون مراکز قائم کیے ہیں جہاں طلبا کی ایک بڑھتی ہوئی تعداد مطالعہ اور مشق میں مصروف ہے۔ باوجود تراجم کی دستیابی کے، ان میں سے کئی مراکز میں بہت سے طلبا اپنی مشقیں اور عبادت تبتی زبان میں کرتے ہیں جسے وہ اپنی زبانوں کے حروف تہجی میں پڑھتے ہیں۔ جیسا کہ جدید دور سے قبل وسطی ایشیا اور ہمالیہ کے علاقوں میں تھا، اس سے بودھی اور بون پیرووں کے بین الاقوامی گروہ بنتے ہیں جن میں یہ قدر مشترک ہے کہ وہ سب تبتی زبان میں اپنی روحانی مشقیں کرتے ہیں۔
وہ پیرو اور علما جو کہ اپنی تعلیم کو زیادہ گہرائی میں جاری رکھنا چاہتے ہیں ان کے لیے تبتی زبان سیکھنے کے لیے درسی کتب اور صوتی مواد کا ایک وسیع ذخیرہ ہے۔ زبان پر عبور حاصل کرنے کے بعد ان میں کئی لوگ مزید بودھی اور بون متون کو اپنی زبانوں میں منتقل کرتے ہیں۔کئی منگول گروہوں اور تووا اور ہمالیہ کے لوگوں کی پیروی میں دنیا کے دوسرے ممالک سے بھی طلبا کی ایک بڑھتی ہوئی تعداد تبتی خانقاہوں میں تبتی زبان میں تعلیم حاصل کر رہی ہے اور یا اس کے ہمراہ یا علیحدہ تین سالہ شدید مراقبہ کے خلوتی دوروں میں حصہ لے رہی ہے۔ ان میں کئی ایک اپنی تعلیم کی تکمیل پر خود روحانی استاد بن گئے ہیں جس کے نتیجہ میں تبتی دانش و ثقافت اور بھی زیادہ پھیل رہی ہے۔
تبتی ثقافت کے دوسرے پہلووں سے بھی دنیا بہتر طور پر روشناس ہو رہی ہے۔ جدید زمانہ سے قبل تبتی طب، فنون، خانقاہی فنِ تعمیر، رسمی موسیقی اور رقص، علمِ نجوم اور تقویم سازی ان سب علاقوں میں عام تھے کہ جہاں بدھ مت اور بون کا پھیلاؤ تھا۔کچھ صورتوں میں جیسا کہ منگولیا، بریاتیا اور تووا میں ہوا، ان کی مقامی اقسام پیدا ہو گئیں مثلاً جب کچھ طبی آلات مہیا نہیں تھے تو ان کا مقامی نعمالبدل استمعال کرنا پڑا۔ اسی طرح کچھ صورتوں میں مقامی طبیبوں نے تبتی روایت میں اپنی مقامی روایتوں کے کچھ پہلووں کا اضافہ کر دیا جیسا کہ منگول طبی مالش۔ آج کل ھندوستان اور نیپال میں تبتی طبیب ساری دنیا سے آئے ہوئے مریضوں کا علاج کرتے ہیں اور ان میں سے کئی تبتی تشخیصی طریقوں کے علاوہ مغربی آلات کا استمعال کرتے ہیں مثلاً فشارِ خون جانچنے کا آلہ۔ بہت سے تبتی طبیب جو کہ عوامی جمہوریہ چین میں تربیت پاتے ہیں اور تبتی طب کے منگول اور بریات مشاق بھی اپنے طریقہ علاج میں چینی آکوپنکچر، داغنے اور فصد کھولنے کا اضافہ کرتے ہیں۔ بہت سے تبتی طبیب غیر ممالک میں جاتے ہیں اور برِ صغیر اور تبت سے باہر بھی کئی تبتی شفاخانے کھل چکے ہیں۔ علاوہ براں، مغربی ڈاکٹر ہسپتالوں اور دانش گاہوں میں مخصوص بیماریوں کے لیے مختلف تبتی دواؤں پر تحقیق کر رہے ہیں۔
تبتی فنون اور فنِ تعمیر بھی عالمی سطح پر مزید معروف ہو رہے ہیں۔دنیا بھر کے عجائب گھر اپنے تبتی فنون اور مجسموں کے مجموعوں کی نمائش کر رہے ہیں۔ بہت سے غیر ملکی دھرم مراکز اور تبتی جلاوطن گروہ اپنی علاقوں میں تبتی طرز کے معبد بنا رہے ہیں۔ ریت کے منڈل بنانے کے لیے ھندوستان سے تبتی خانقاہیں راہبوں کو باہر بھیج رہی ہیں اور راہبوں اور راہبات کے گروہ بیرونی ممالک میں جا کر رسمی منتروں کی چاپ اور رقص کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس کی صوتی اور ویڈیو ریکارڈنگ آسانی سے مہیا ہیں۔ تبتی فنِ ادا کے گروہوں نے کئی بین الاقوامی دورے کیے ہیں اور دنیا کے اکثر ممالک میں 'تبت خانوں' کا ایک جال وجود میں آ چکا ہے جن کا مقصد تبتی ثقافت کے ہر پہلو کی حفاظت اور فروغ ہے۔ ان مختلف ذریعوں سے تبتی ثقافت آج دنیا بھر میں مشہور ہے۔
تبتی ثقافت اور بھی کئی طریقوں سے دنیا بھر کو غنی تر کر رہی ہے۔ باہمی افہام و تفہیم بڑھانے اور روحانی طریقوں کے باہمی تبادلہ کی خاطر تبتی اساتذہ دنیا کے اکثر مذاہب کے روحانی پیشواوں کے ساتھ گفتگو میں مصروف ہیں۔ وہ بین المذاہب سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ تبتی اساتذہ اپنے علم و دانش کے وسیع خزانوں میں سائنسدانوں، ماہرینِ نفسیات،فلسفیوں اور کاروباری اور سیاسی رہنماؤں کو بھی شریک کر رہے ہیں۔ یہاں خصوصی دلچسپی کا حامل ذہنی حالتوں، مراقبہ اور صحت کا اخلاق، ماحولیات اور پائدار ترقی سے تعلق ہے۔ اس کی سب سے عمدہ مثال تقدسِ مآب دلائی لامہ کی بنیادی انسانی اقدار، لادینی اخلاقیات اور مذہبی ہم آہنگی کے فروغ میں کاوشیں ہیں۔
تبتی زبانی اور متنی ورثہ کی روایتی حالتوں کا تحفظ
عالمی باہمی فہم و تفہیم میں تبتی ثقافت کی جاری اعانت کا دارومدار اس کے دو رخوں کے تحفظ پر ہے۔ ایک تو اس ثقافت کے نقوش کا اپنی روایتی حالت میں تحفظ اور دوسرا اس کے دوسری ثقافتوں کے ساتھ باہمی تعامل اور تطبیق کے نتیجہ میں کچھ نقوش کی نشوونما۔ یہ دوسرا موضوع اُس عمل کی بازگشت ہے کہ جس کے ذریعہ تبت نے ہندوستان اور نیپال کی بودھی ثقافت کا تاریخی طور پر تحفظ کیا۔ یہاں پر میں اپنے تبصرہ کو تبت کے زبانی اور متنی ورثہ تک محدود رکھوں گا۔
تبتی زبانی اور متنی روایات کی اپنی اصلی زبان میں تحفظ کی کاوشوں میں بہت سی کامیابی حاصل ہو چکی ہے۔ ابھی تک، تبتی علم و تجربہ کے عظیم ذخیرے کا محض ایک مختصر سا حصہ جدید یوروپی اور ایشیائی زبانوں میں ترجمہ ہوا ہے لیکن اس کام کی تکمیل بہت اہم ہے۔ ابھی تک جو کچھ ترجمہ ہو چکا ہے اس نے دنیا کو ذہن اور کائنات کے نظام کا ایک ادراک دیا ہے۔ اور اس سے سائنسدانوں کو ایسے موضوعات پر تحقیق کی ترغیب ملی ہے کہ جن کے بارہ میں انہوں نے پہلے نہیں سوچا تھا، مثلاً جسمانی اور جذباتی صحت کی بہتری میں ہمدردی، ذہن نشینی اور ارتکاز کا کردار۔ پس غیر ترجمہ شدہ مواد میں اندرونی امن اور معاشرتی ہم آہنگی کے باب میں تحقیق کے بیشمار مواقع پنہاں ہیں۔
باوجود ٹیکنالوجی میں ترقی کے، ترجمہ کے کام کو مکمل ہونے میں ابھی کئی صدیاں درکار ہیں۔ پس تبتی زبانی اور متنی ورثہ کو مستقبل کی نسلوں کے کام کی تیاری کے طور پر اس کی اصل زبان میں تحفظ چاہیے۔ اور اس کے جو حصے دوسری زبانوں میں ترجمہ ہو چکے ہیں، ان تراجم کو بھی مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ مزید از آں اصل زبان میں مواد کی موجودگی مزید تحقیق کو ممکن بناتی ہے۔
ھندوستان میں بارہویں اور تیرہویں صدی کے حملوں میں سنسکرت بودھی روایت کا اکثر حصہ ضایع ہو گیا تھا۔ تبت اس ثقافتی دولت کا محض ایک حصہ بچانے میں کامیاب ہوا۔ پھر بیسویں صدی میں بھی سوویت یونین، منگولیا اور عوامی جمہوریہ چین میں کمونیسٹ زیادتیوں کے باعث تبتی روایت کو بھی اس قسم کے نقصانات اٹھانے پڑے۔ پس اب یہ ضروری ہے کہ دنیا کے فائدہ اور افزودگی، حال اور مستقبل دونوں کے لیے، تبتی زبانی اور متنی روایات کے باقی ماندہ حصہ کو جلد از جلد تلاشکر کے اس کے تحفظ کا بندوبست کیا جائے۔
یہاں پر اگرچہ تبتی روایات کے تحفظ کی تمام کاوشوں کا ذکر بعید از گنجائش ہے لیکن میں کچھ نمایاں تنظیموں اور منصوبوں کا ذکر کرتا چلوں۔ 'تبتیتحریروںاورذخیروںکےکتبخانے' نے ۱۹۷۶ء میں "زبانی تاریخی منصوبہ" کے ساتھ زبانی روایات کے تحفظ کی کوششوں کا آغاز کیا۔ اس میں نہ صرف عظیم لاماؤں کی تعلیمات اور تاریخی واقعات کے چشم دید تفاصیل کی صوتی اور ویڈیو ریکارڈنگ شامل ہیں بلکہ اس میں کئی کہانیوں، ضرب الامثال، اور روایتی تبتی زندگی کے کئی پہلووں کیمنفرد تفاصیل بھی شامل ہیں۔ یہ منصوبہ ان گفتگووں کا تحریری ریکارڈ بھی شایع کر رہا ہے اور اب تک اس کی تئیس جلدیں شایع ہو چکی ہیں جن میں سے کئی کا انگریزی ترجمہ بھی موجود ہے۔
تمام تبتی روایات کے عظیم لاماؤں کی زبانی تعلیمات کی صوتی، ویڈیو اور ڈی وی ڈی ریکارڈنگ کے دوسرے اہم منصوبے'بنیادِ مشرقی' (اورینٹ فاؤنڈیشن) اور میریڈین ٹرسٹ کے ہیں۔ یہ دونوں 'شراکتِ تبتی علوم' کی چھتری تلے کام کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ حال ہی میں قائم شدہ 'ہوپکن تبٹن ملٹی میڈیا ریسرچ آرکائیوز' بھی ہیں۔ مزید از آں، لاماؤں، گیشوں اور کھنپووں جو کہ تمام دنیا میں طلبا کو تعلیم دیتے ہیں کی اکثر دھرم انجمنوں کی پاس ان لکچروں، سیمینار اور خلوتوں، جو کہ ان کے اساتذہ نے دیے، کی صوتی، ویڈیو اور ڈی وی ڈی ریکارڈنگ کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے۔
تبتی متون کے تحفظ کا کام کئی تنظیمیں کر رہی ہیں۔ ۱۹۶۸ء سے شروع ہو کر امریکہ کی لائبریری آف کانگرس کا نئی دہلی دفترتمام روایات کے تبتی متون کو جمع، مائیکرو فلم پر منتقل، اسکین اور دوبارہ شایع کر رہا ہے۔ اس کے 'جنوبی ایشیا مشترکہ حصول پروگرام' جسے عام طور پر 'پی ایل- ۴۸۰' پروگرام کہا جاتا ہے، کے تحت یہ ان کتابوں کے نسخے امریکہ کی کئی بڑی دانشگاہوں کے کتابخانوں کو بھی بھیجتا ہے۔ اس کے گزشتہ مدیر 'جین سمتھ' اب یہی کام'تبتی بودھی تحقیقی مرکز' میں کر رہے ہیں۔ اس مرکز کے پاس اب اسکین شدہ بودھی متون کا دنیا کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے اور یہ انہیں اپنی ویب سائٹ پر لوگوں کو مہیا کر رہا ہے۔
سن ۱۹۷۰ء سے شروع ہو کر 'نیپال جرمن تحفظِ مخطوطات منصوبہ' نے کھٹمنڈو میں واقع قومی دفتر خانہ کے تمام سنسکرت اور تبتی مجموعوں کو مائیکرو فیلم پر منتقل کر دیا اور یہ اب ان کی فہرست تیار کر رہا ہے۔ اسی طرح 'شراکتِ تبتی علوم' کی ممبر تنظیمیں، سینٹ پیٹرسبرگ، آلان باتور اور دوسری جگہوں پر واقع کتاب خانوں میں تبتی مخطوطات کے وسیع ذخیروں کی فہرست تیار کر رہی ہیں۔ 'تبتی بودھی مستند مجموعہ فہرست منصوبہ' "کانگیور" اور "تنگیور" کے تمام باقی ماندہ نسخوں پر تقابلی مواد جمع کر رہا ہے۔ علاوہ از ایں، برطانوی عجائب گھر کا 'بین الاقوامی دُن ہوانگ منصوبہ'شمال مغربی چینمیں دُن ہوانگ غاروں سے برآمد شدہ آٹھویں سے دسویں صدی عیسوی کے مخطوطات اور مصنوعات کے تحفظ، بچاؤ، اسکین کرنے اور فہرست بنانے کی کوششوں کی نگرانی کر رہا اور انہیں ڈیجیٹل صورت میں مہیا کرنے کا انتظام۔
متون کے مطالعہ میں تلاش کے انجن کا استمعال آسانتر بنانے کی خاطر 'ایشین کلاسکس انپُٹ پراجکٹ' تبتی متون کو "وائلی نقل نویسی" میں ڈیجیٹائز کر رہا ہے۔ اسی طرح 'نِتراتھا بین الاقوامی ڈاکومنٹ اِنپٹ سنٹر' ایک متوازی منصوبہ میں یہی کام تبتی حروفِ تہجی میں کر رہا ہے جس کے لیے انہوں نے 'سمبھوتا' فانٹ بنایا ہے۔ ڈیجیٹائز کرنے، تدوین اور تلاش انجن کے عمل کو آسان تر بنانے کے لیے دانشگاہِ ورجینیا کے 'تبتی و ہمالیائی کتاب خانہ' نے تبتی یونی کوڈ بنایا ہے۔
تبتی و ہمالیائی کتاب خانہ نے تبتی مواد پر تحقیق کے اور بھی وسائل پیش کیے ہیں مثلاً انٹرنیٹ پر تبتی ترجمہ کی سہولت، ایک تبتی ادبی انسائکلوپیڈیا جو کہ تیاری کے مراحل میں ہے، ایک تبتی طبی انسائکلوپیڈیا، تبتی تاریخی قاموس، اور تبت اور ہمالیہ کی مکانی قاموس۔ اسی طرح سے 'رنگ جُنگ یے شے انسٹیٹیوٹ' کا بھی ایک آن لائن دھرم انسائکلوپیڈیا ہے بنامِ 'رِگ پا شدرا وکی'۔ ان سب اور دوسرے منصوبوں اور تنظیموں کی مشترکہ کوشش سے تبتی زبانی اور متنی ورثہ کا تبتی زبان میں تحفظ کیا جا رہا ہے تاکہ یہ عالمی تفہیم کے ارتقا کی بنیاد بنے۔
تبتی زبانی اور متنی ورثہ کا ترجمہ میں تحفظ
وہ تنظیموں اور افراد، جو کہ تبتی متون اور زبانی تعلیمات کا جدید یورپ اور ایشیائی زبانوں میں ترجمہ کر رہے ہیں، اتنے متعدد ہیں کہ یہاں ان سب کا ذکر ناممکن ہے۔ تبتی سے انگریزی ترجمہ کے میدان میں بہترین تنظیمیں 'تبتیتحریروںاورذخیروںکےکتبخانے'، پدمرکہ ترجمہ گروہ، نتارتھا انسٹیٹوٹ، رنگ جُنگ یے شے انسٹیٹوٹ، نلندا ترجمہ کمیٹی، دھرم چکر ترجمہ گروپ، مرپا انسٹیٹیوٹ برائے ترجمہ، اور انسٹیٹوٹ آف تبتی کلاسکس ہیں۔ تبتی لاماؤں، گیشوں اور کھنپووں کی مختلف بودھی اور بون تنظیمیں بھی اپنے استاذہ کے لکچروں کے ترجمہ کرنے اور انہیں روایتی طور پر اور انٹرنیٹ پر بھی شایع کرنے میں مشغول ہیں۔ یہی حال ان اساتذہ کے انگریزی اور دوسری یوروپی زبانوں کے لیکچروں کا ہے جن کی تدوین اکثر ان کے مغربی طلبا نے کی ہے۔تقریباً دس ہزار عنوان شایع ہو چکے ہیں۔ تبتی بدھ مت اور بون پر اتنی کثیر کتب کی دستیابی کی وجہ سے تبتی روحانی روایات کی عالمی آگاہی اور فہم میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
تبتی زبانی اور متنی ورثہ کے تحفظ میں ایک قابل ذکر پیشرفت حال ہی میں سامنے آئی ہے۔ ستمبر ۲۰۰۸ء میں "لائٹ آف بیروتسانہ" نے امریکہ کے شہر بولڈر، کولوراڈو میں ایک مترجمین کی کانفرنس کا اہتمام کیا جس میں ایک سو سے زائد تجربہ کار اور نو آموز تبتی مترجمین جمع ہوئے اس امر پر بحث کے لیے کہ وہ مل کر کس طرح تبتی روایات کے انتشار کے عمل کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔ یہ ان مترجمین کے لیے ایک دوسرے سے ملنے اور ایک دوسرے کے کام اور منصوبوں کے بارہ میں معلومات حاصل کرنے کا ایک موقع تھا۔
اس ابتدائی کانفرنس کے بعد مارچ ۲۰۰۹ء میں 'کھیَنتسے فاؤنڈیشن ترجمہ کانفرنس : مہاتما بدھ کی الفاظ کا ترجمہ' ھندوستان کے شہر بیر میں ڈیر پارک اسنٹیٹیوٹ میں منعقد ہوئی۔ اس میں پچاس تجربہ کار تبتی مترجمین اور چاروں تبتی بودھی روایات کے مقدم لاماؤں نے شرکت کی اور 'بودھی ادبی ورثہ منصوبہ' کی بنا ڈالی جس کا عارضی مدیر دذونگسر کھیَنتسےرنپوچے کو مقرر کیا گیا۔ شرکاء نے صد سالہ تصور تجویز کیا یعنی "بودھی ادبی ورثہ کا ترجمہ کرنا اور اسے عالمی طور پر مہیا کرنا"۔ "عالمی طور پر مہیا" کرنے سے مراد ان متون کو یورپ اور ایشیا کی ایم جدید زبانوں میں ترجمہ کرنا ہے۔ پچیس سالہ ہدف یہ ہے کہ "تمام کانگیور اور اس سے وابستہ تنگیور اور تبتی تفاسیر کی جلدوں کا ترجمہ کر کے انہیں مہیا کیا جائے"۔ پانچ سالہ ہدف ہے "کانگیور، تنگیور اور تبتی تفاسیر کے نمائندہ نمونوں کا ترجمہ شایع کیا جائے اور دور رس ہدف کے حصول کے لیے ضروری وسائل اور اساس قائم کی جائیں"۔
کانفرنس کے بعد تقدس مآب دلائی لامہ سے ملاقات کا اہتمام کی گیا جن میں تقدس مآب نے اس منصوبہ کے لیے اپنی حمایت کا اعلان کیا۔ تقدس مآب نے یہ بھی فرمایا کہ پالی اور چینی بودھی مستند کتابوں کے کئی متون تبتی زبان میں دستیاب نہیں ہیں اور اس کے برعکس بھی۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ نہ صرف یہ تمام مادہ جدید زبانوں میں ترجمہ کیا جائے بلکہ چینی، پالی اور تبتی زبانوں کی مستند کتب بھی ایک دوسرے کی زبانوں میں کاملاً دستیاب ہونی چاہییں۔ تقدس مآب نے نیز نشاندہی کی کہ اگرچہ ہمالیائی علاقہ کے بہت سے لوگ تبتی بدھ مت کے پیرو ہیں اور تبتی زبان کے مختلف لہجہ بولتے ہیں، لیکن ان میں سے اکثر ان متون کی کلاسیکی تبتی زبان نہیں پڑھ سکتے۔ چونکہ کئی صدیوں سے تبتی بودھی تکنیکی اصطلاحات کا معیار قائم ہے اس لیے ان متون کو لہجوں میں ترجمہ کرنا ممکن نہیں۔ پس اگر یہ مواد انگریزی ترجمہ میں مہیا ہو تو یہ امر ان لوگوں میں بدھ مت کے تحفظ کے لیے کارآمد ثابت ہو گا۔
پس مختصراً، جب تمام بودھی مستند ادب دنیا کی اہم زبانوں میں دستیاب ہو گا تو اس کی دنیا کے علم و دانش کے خزانہ میں اضافہ کی کاوش اور اس کا عالمی تفہیم میں حصہ یقینی ہو جائے گا۔
اختتامی تبصرات
پس، مختصراً، جیسا کہ ہم نے دیکھا، تاریخی طور پر تبتی زبانی اور متنی ورثہ نے تمام وسطی ایشیا میں عالمی تفہیم پھیلانے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ فی الوقت بہت سے لوگ اور تنظیمیں اس ورثہ کے تحفظ کی کوششوں میں سرگرم ہیں اور وہ اس میں بہت سی کامیابی حاصل کر چکے ہیں۔ تاہم تحفظ کا محض یہ مقصد نہیں کہ اس ورثہ کو اس کی اصلی حالت میں کسی عجائب گھر یا کتاب خانہ کے مجموعہ کی ماند پیش کر دیا جائے یا انٹرنیٹ پر یہ مہیا ہو۔ جس طرح تبتی روایات کئی صدیوں سے ارتقا پزیر ہیں، اس عمل کو جاری رہنا چاہیے۔ یہ نہ صرف اس عظیم ورثہ کے بطور ایک زندہ روایت کے قائم رہنے کے لیے ضروری ہے بلکہ اس لیے بھی کہ یہ عالمی تفہیم کے فروغ میں اپنا حصہ ادا کرتا رہے۔
اس دنیا میں بڑھتی ہوئی عالمگیریت اور معلومات کے تبادلہ کے دور میں تبتی ورثہ بہت کچھ پیش کرتا ہے۔ ہر ثقافت کی اپنی یکتا خصوصیات اور نقوش ہوتے ہیں جو کہ اس دنیا کے انسانی تنوع کو بڑھاتے ہیں۔ تبتی ورثہ تاہم اس سے بہت زیادہ کچھ پیش کرتا ہے۔ اس کی بودھی اور بون روایات وہ بصیرت اور بینش مہیا کرتی ہیں کہ جن سے دنیا کا مشترکہ علم کا خزانہ غنی تر ہو جاتا ہے، اور دوسری تہذیبوں کے باہمی تعامل سے سائنس، طب اور علمِ نفسیات جیسے موضوعات میں تحقیق کو محرک کرتا ہے۔ تقدسِ مآب جناب دلائی لامہ کی رہنمائی، تحریک اور ان تھک کاوشوں کی بدولت تبتی ورثہ ابھی تک عالمی تفہیم کے فروغ میں ایک نمایاں کردار ادا کر چکا ہے۔ ہم سب کی مشترکہکوششوں سے مزید کمک کا امکان روشن تر نظر آتا ہے۔ شکریہ۔