بدھ مت اور اسلام کے درمیان قرابت کے تناظر


ویڈیو: ڈاکٹر الیگزینڈر برزن — «بدھ مت اور اسلام کے مابین مکالمہ»
ذیلی سرورق کو سننے/دیکھنے کے لئیے ویڈیو سکرین پر دائں کونے میں نیچے ذیلی سرورق آئیکان پر کلک کریں۔ ذیلی سرورق کی زبان بدلنے کے لئیے "سیٹنگز" پر کلک کریں، پھر "ذیلی سرورق" پر کلک کریں اور اپنی من پسند زبان کا انتخاب کریں۔
بدھ مت اور اسلام کے مابین محاکات کے تناظر کیا ہیں؟

میرے خیال میں اس کے زبردست امکانات پاۓ جاتے ہیں۔ میں گزشتہ بارہ برس سے اس مکالمہ میں حصہ لے رہا ہوں، ۱۹۹۷ سے لے کر اب تک۔ بعض اسلامی ممالک کے سفر کے دوران میں نے محسوس کیا کہ لوگ جانکاری حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اکثر مجھے وہ کہتے ہیں کہ "دنیا کو بتاؤ کہ ہم سب دہشت گرد نہیں ہیں۔"

تقدس مآب دلائی لاما نے مذہبی آہنگی، خصوصاً اسلامی ممالک کے ساتھ، پیدا کرنے پر بہت زور دیا ہے۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ہمیں ایک دوسرے کے اعتقادات کو جاننے کے لئیے تعلیم کی ضرورت ہے، اور اس میں کسی کو دوسرے کا مذہب تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں۔ بے شک بعض ایسے اعتقادات ہیں جن پر ہمارے نظریات ایک دوسرے سے مختلف ہیں، مگر اس پر توجہ دینے سے کچھ حاصل نہیں۔ ہمیں ایک دوسرے کے عقیدوں کی عزت کرنی چاہئیے، اور اس بات کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئیے کہ مختلف لوگوں کے مذہبی عقیدے کس طرح انہیں فائدہ پہنچاتے ہیں، اور ان چیزوں پر مل جل کر کام کرنا چاہئیے جو ہمارے درمیا مشترک ہیں۔ اس کا تعلق خصوصاً اس امر سے ہے کہ بنیادی اخلاقیات کیا ہیں، جنہیں تقدس مآب "عالمی اقدار" کہتے ہیں۔
 
اس طرح ہمیں امن اور قرابت کے حصول کے لئیے کام کرنا ہے، وہ اجناس جنہیں ہر کوئی عزیز جانتا ہے۔ اس سے مراد اپنے ہر کام میں مسلمانوں کو شامل کرنا ہے، اور کبھی بھی "ہم" بالمقابل "تم" والا رویہ نہیں رکھنا۔ مثال کے طور پر میری ویب سائٹ پر بدھ مت اور اسلام کا سیکشن جس میں اسلامی زبانوں میں تراجم موجود ہیں، اگرچہ اسے ان زبانوں میں پڑھنے والے لوگ کم ہی ہوں گے، پھر بھی مسلمانوں کو عزت بخشنے کی یہ ایک علامت ہے۔ عزت دینا نہائت ہی اہم ہے، اور تقدس مآب دلائی لاما اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور اسے سراہتے ہیں۔
 
ان دو تہذیبوں کے درمیان روابط کی تاریخ پر جو کام میں نے کیا ہے، تو میں نے حقیقت پسند تصویر کشی کرنے کی کوشش کی ہے، نہ کہ پرانا پراپیگنڈہ دوہرانے کی کہ مسلمانوں نے ہندوستان میں ہر بودھی شے کو تباہ کر ڈالا۔ تاریخ کے ایسے بیان مسلمان حملہ آوروں کو مذہبی کٹر انسانوں کے روپ میں پیش کرتے ہیں، مگر سچ تو یہ ہے کہ کسی بھی فاتح حملہ آور کی طرح ان کے بھی مخصوص مقاصد تھے: دولت، طاقت، وغیرہ۔ اس کے بجاۓ ہمیں ان مثبت عناصر کی نشاندہی کرنی چاہئیے اور ان پر زور دینا چاہئیے جو انہوں نے ایک دوسرے کو دئیے: مسلمانوں سے ہم نے اپنی بیشتر جدید سائنس پائی۔ مسلمانوں کی اس مثبت اعانت پر ہم جتنا زیادہ زور دیں اور اسے باعزت طریقہ سے اپنے کام میں شامل کریں، تو پھر میرے خیال میں باہمی تعاون کے امکانات روشن ہوں گے۔ جن مسلمان لیڈروں سے مجھے ملنے اور ان مسائل پر بات چیت کرنے کا اتفاق ہوا انہوں نے میرے اس طریق کار کو بے حد پسند کیا۔
 

بودھی ترجمہ کے طریق کار پر اکتوبر ۲۰۰۹ میں الستا، کلمیکیا، روس میں منعقد ہونے والی گول میز کانفرنس کے دوران ایک انٹرویو سے اقتباس

 

Top