اسلام اور بدھ مت میں مشترک چیزیں

ڈاکٹر سنجیزانا اکپینار اور ڈاکٹر الیگزینڈر برزن سے ایک گفتگو

مغربی دنیا میں بہت سے لوگ اسلام کے بارے میں کچھ نہیں جانتے اور اسلام سے ڈرتے بھی ہیں۔ عام پھیلی ہوئی چند غلط فہمیاں رفع کرنے کی توقع پر اور اسلام اور بدھ مت میں جو ملتی جُلتی چیزیں پائی جاتی ہیں اُن کی تلاش کرنے کے لیے Inquiring Mind نے ڈاکٹر الیگزینڈر برزن اور ڈاکٹر سنجیزانا اکپینار کے مابین ایک گفتگو کا اہتمام کیا۔ ڈاکٹر برزن نے ۲۹سال دھرمشالہ، ہندوستان میں بسر کیے ہیں جہاں وہ گاہ گاہ تقدس مآب جناب دلائی لامہ کے ترجمان کے فرائض بھی انجام دیا کرتے تھے۔ آجکل وہ برلن، جرمنی میں رہتے ہیں اور بدھ مت کے فلسفے اور مراقبات پر درس و تدریس کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں اپنے متعدد لیکچروں کےلیے سفر کرتے ہوئے انہیں مسلمانوں اور بدھ مت کے پیرو کاروں کے مابین تاریخی تعلقات اور روابط کا جائزہ لینے کا موقع ملا۔ تاریخ پر اپنی الیکٹرونی کتاب "منگول سلطنت سے قبل بدھ مت اور اسلامی ثقافتوں کے تاریخی روابط"(The Historical Interaction between the Buddhist and Islamic Cultures before the Mongol Empire) کے لیے تحقیق کرتے ہوئے وہ ترکی، اردن اور مصر کی دانشگاہوں میں مکالمہ کرتے رہے اور ازبکستان، کرغیزستان اور قازقستان کے اہل علم سے ان کا تبادلہ خیال ہوا۔

ڈاکٹر سنجیزانا اکپینار عملاً بدھ مت کی پیروکار ہیں لیکن اسلام ان کے مطالعہ اور تحقیق کا موضوع ہے۔ ان کا تعلق اگرچہ سابقہ یوگوسلاویہ کی جمہوریہ کروشیا سے ہے لیکن ان کے والد جو ایک جانے پہچانے بودھ عالم تھے آخری عمر میں سری لنکا چلے گئے اور راہبانہ زندگی اختیار کر لی۔ ڈاکٹر اکپینار آدھا ہفتہ دس ہزار بودھوں کے شہر نام کی چینی بدھ مت کی خانقاہ میں گذارتی ہیں جو شمالی کیلی فورنیا میں واقع ہے۔ یہاں یہ بدھ مت کے پیروکاروں کو مغرب کے بارے میں تعلیم دیتی ہیں۔ ہفتے کے باقی دن برکلے میں واقع گریجویٹ تھیالوجیکل یونین میں گذارتی ہیں جہاں وہ اسلام اور تقابل ادیان پر کورس پڑھاتی ہیں اور اس طرح عیسائیوں کو مشرق سے آگاہ کرتی ہیں۔

ڈاکٹر برزن،آپ کا بیشتر کام اسلامی دنیا کو بدھ مت سے متعارف کروانے پر مشتمل ہے۔ اس کے لیے آپ کن باتوں پر زور دیتے ہیں اور آپ کی بات کس طرح سنی جاتی ہے؟

ڈاکٹر برزن: میرا طریق کار یہ رہا ہے کہ مسلمان سامعین سے سیکھا جائے۔ میں ان پر یہ واضح کرتا ہوں کہ میرے خیال میں عام تاریخی کتابوں میں اسلام کو بہت ہی غلط انداز میں پیش کیا گیا ہے کیونکہ یہ کتابیں بنیادی طور پر صرف یہ بتاتی ہیں کہ مسلمان بدھ مت کے ثقافتی علاقوں میں داخل ہوئے اور سب کچھ تباہ کرتے چلے گئے۔ اصل صورت حال یہ ہے کہ اسلام اور بدھ مت کے درمیان ایک طویل عرصے تک روابط رہے جو بہت تعمیری تھے۔ جب ہم معاملے کے تخریبی پہلوؤں پر نظر ڈالتے ہیں تو یوں لگتا ہے کہ اس کا محرک بنیادی طور پر اقتصادی اور سیاسی اغراض رہی ہیں نہ کہ مذہبی مقاصد۔ سو، میں اس تاریخی لین دین اور رابطے کی وضاحت کا تقاضا کرتا رہتا ہوں۔

اس طرح کی گفتگو سے مسلمان سامعین فطری طور پر بدھ مت کے بارے میں جاننے کے خواہشمند ہوتے ہیں۔ اسلامی دُنیا میں الہیات سے متعلق جتنے اداروں میں مجھے جانے کا اتفاق ہوا وہاں تصور خدا کے پورے مبحث سےمسلمان اہلِ علم کی بہت دلچسپی دیکھنے میں آئی۔ انڈونیشیا ایک اسلامی ملک ہے، وہاں مجھے جو تجربہ ہوا تھا اس سے میں نے یہ بات جان لی تھی کہ مسلمان سامعین کے سامنے یہ کہنے کی کوئی صورت نہیں ہے کہ "بدھ مت خدا پر یقین نہیں رکھتا۔" اس سے گفتگو کا دروازہ فوری طور پر بند ہو جائے گا۔ انڈونیشیا میں سرکاری پالیسی کے طور پر پانچ مذاہب کو تسلیم کیا جاتا ہے کیونکہ وہ خدا پر ایمان رکھتے ہیں: ہندومت، اسلام، پروٹسٹنٹ عیسائیت، کیتھولک عیسائیت اور بدھ مت۔ انڈونیشیا کے بدھ مت والوں نے بدھ مت کے تصور خدا کو بیان کرنے کے لیے "آدی-بدھ" کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ یہ کالچکر (دور زمان) کی تعلیمات سے لیا گیا تھا جو لگ بھگ ایک ہزار سال سے زیادہ عرصے سے انڈونیشیا میں رائج تھیں۔ آدی-بدھ کا لفظی مطلب ہے اولین یا ازلی، پراچین بدھ۔ بدھ مت کے انڈونیشی پیروکاروں کو خود آدی-بدھ کے تصور کا مکمل فہم حاصل نہیں تھا۔ تاہم اس کی وضاحت کیے بنا انہوں نے کہا کہ "یہ تصور ہمارے ہاں تصور خدا کا مترادف ہے۔" قدرتی بات تھی کہ جب میرا انڈونیشیا جانا ہوا تو وہاں کے بدھ مت والوں نے مجھ سے پوچھا کہ آدی-بدھ کا اصل میں معنی و مطلب کیا ہے۔ میں نے وضاحت کی کہ آپ اسے یوں بیان کریں کہ وہ ایک صاف نورانی ذہن ہے۔ ہر شخص میں یہ ہماری ان ظاہری چیزوں کا خالق ہے جن کا ہم ادراک کرتے ہیں ، سو اس معنی میں یہ گویا خالق کی حیثیت رکھتا ہے۔

آدی-بدھ کی اس عمومی تشریح کو استعمال کرتے ہوئے میں دیگر اسلامی ممالک کے مسلمان اہلِ علم سے مکالمہ کرنے کے قابل ہو سکا۔ مسلمان اہل علم اس تصور کا خاص طور پر خیر مقدم کرتے ہیں کیونکہ اسلام میں اللہ ایک شخص نہیں ہے۔ چنانچہ ہر ذہن میں پائی جانے والی تخلیقی قوت جسے گویا ہر فرد کے اندر ایک طرح کے خدائے خالّق کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، یہ بھی غیر شخصی ہے۔

تبتی بدھ مت کے نیئنگما، کاگیو اور ساکیہ مکاتب فکر میں آدی-بدھ کا جس طرح بیان ہوا ہے اس کے مطابق آدی بدھا حرف و بیان، تصورات، خیال کی رسائی سے ماوراء ہے۔ مسلم اہل علم کو یہ بات بخوبی سمجھ میں آتی ہے۔ اس طرح محبتاور یدرد منددردمندی کے بنیادی اصول جو ان تعلیمات میں گندھے ہوئے ہیں۔ مسلمان اہم علم میں یہ اشتیاق پیدا کرتا ہے کہ وہ بدھ مت کے بارے میں مزید معلومات حاصل کریں۔

افغانستان، وسطی ایشیا اور برِصغیر ہندوستان میں تاریخی طور پر مسلمان حکمرانوں نے بدھ مت کے پیروکاروں کو قرآن کےبیان کردہ حقیقی معنی میں "اہل کتاب" کے طور پر تسلیم نہیں کیا جس سے مراد یہود و نصاریٰ کے گروہ لیے جاتے ہیں۔ تاہم بدھ مت والوں کو"اہل کتاب" کی وہی حقوق اور مراعات حاصل رہیں جو یہود و نصاریٰ کو دی گئی تھیں۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ اپنے مذہب پر عمل کرنے میں آزاد تھے گو اُن کو جزیے کے نام سے ایک ٹیکس دینا پڑتا تھا۔ سو جب کبھی بھی مجھے مسلمان اہل علم سے مکالمہ کرنے کا موقع ملا ہم نے مل جل کر یہ دیکھنے کی سعی کی کہ "اہل کتاب" کا مفہوم کیا ہے۔ گنی کے ایک مغربی افریقی صوفی رہنما سے میری ملاقات ہوئی اُن کی توضیح کے مطابق "اہل کتاب" سے مراد وہ لوگ ہیں جو اخلاقیات اور خوش اطواری کے ایک بالا تر اصول مجرّد پر ایمان رکھتے ہیں جو ایک معنی میں اس دنیا کا خالق ہے اور اسے ایک نظام پر استوار رکھتا ہے۔ اس سے مراد لازماً وہ لوگ نہیں ہیں جو "تورات" ("موسی کی پانچ کتابوں") کے ماننے والے ہیں۔ اس سلسلے میں بعد میں جو تحقیقات مجھے کرنے کا موقع ملا اس میں ایک اور حیران کن نکتہ سامنے آیا۔ قدیم ترکی اور سغدیائی زبانیں وہ پرانی زبانیں ہیں جن میں بدھ مت کی کتابوں کے تراجم ان علاقوں میں عام تھے جو آج ازبکستان اور شمالی افغانستان کا حصہ ہیں۔ ان زبانوں میں "دھرم" کی اصطلاح کا ترجمہ یونانی زبان کے مستعار لفظ "نوم" سے کیا گیا تھا جس کا اصلی مطلب "قانون" تھا۔ بعد می"نوم" کا لفظ دھرم کے معنی میں سغدیائی زبان سے نکل کر وسطی ایشیا کی دوسری زبانوں میں رائج ہو گیا جن میں بدھ مت کی کتب کے ترجمے ہوئے مثلاً ویغور (ایک ترک زبان) اور منگولیائی، جدید منگولیائی میں "نوم" نہ صرف "دھرم" کے لیے استعمال ہوتا ہے بلکہ اس میں ایک اضافی معنی "کتاب" کے بھی پیدا ہو گئے ہیں جس سے مراد ہے وہ صحیفے جن میں دھرم کو لکھ کر محفوظ کیا گیا ہو۔

لیکن بدھ مت والوں کے ہاں تو صحیح معنی میں اس طرح کی کوئی کتاب نہیں ہوتی جیسے مسلمانوں کی کتاب ہے یا عیسائیوں اور یہودیوں میں "تورات" ایک مشترک صحیفہ ہے۔

ڈاکٹر برزن: نہیں ہے لیکن "الکتاب" کا تصور اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ مذہبی مکالمے اور ہم آہنگی کے لیے اخلاقی قوانین کی اہمیت کتنی ہے۔

ڈاکٹر اکپینار: میں بھی کچھ ایسے ہی طرز فکر کی پیروی کرتی ہوں۔ یہ بات بھی دلچسپ اور یاد رکھنے کے لائق ہے کہ ترکوں کے داخل اسلام ہونے سے قبل ہی ترک ثقافت کے بہت سے پہلوؤں کا جدّ اعلیٰ چنگیز خان تھا جس نے ان پر فتح حاصل کرنے کے بعد ان پر "یاسا" کے مطابق حکومت کی تھی۔ "یاسا" کا مطلب "قانون" تھا اور اس کا تصور دھرم کے تصور سے بہت ملتا جلتا ہے۔ یہ ایک دائمی قانون ہے جو دنیا کو چلاتا ہے۔

ڈاکٹر برزن: میرے خیال میں یہاں نکتہ یہ ہے کہ ہمیں مشترکہ اصطلاحات برتنے کی ضرورت ہے تاکہ دونوں مذاہب کے پیروکار ایک دوسرے سے مکالمہ کرنے کی آمادگی پیدا کر سکیں۔

ڈاکٹر اکپینار: جی ہاں۔ "شریعت" کے بارے میں اسلامی تعلیمات ایک لحاظ سے بدھ مت سے خاصی قریب لگتی ہیں۔ عربی کے لفظ "شریعۃ" وہ قانون ہے جس کی پابندی لوگوں کے لیے ضروری ہے تاکہ اس دنیا میں ٹریفک سہولت سے چلتی رہے۔ یہ صرف وہ حدود ہیں جن کے سہارے لوگ زندگی میں ایک ہم آہنگی کی راہ دریافت کرتے ہیں۔ شریعت کی پابندی کرنے سے آپ اپنی جبلتوں، اپنے گمان و شبہات اور اپنے القاء و الہام سے معاملہ کرنے کے آداب سیکھتے چلے جاتے ہیں۔ یوں شریعت مجموعۂ احکامات نہیں رہتی بلکہ ان طریقوں کا مجموعہ جو حق تک پہنچنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں: یہ تو تقریباً مراقبے کی طرح ہے۔

دوسرے طرف "طریقت" یا "راستہ" کو اکثر شریعت کے وسط کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ اگر شریعت کو ایک دائرے کا محیط تصور کیا تو طریقت آپ کو اس دائرے کے درمیان میں لے جانے والا راستہ ہے۔ اگر شریعت کو ایک کرہ جانیے تو طریقت اس کرے کا مرکز ہے جو دوسرے کروں سے آپ کو جوڑ دیتا ہے۔ یہ اللہ تک لے جانے کا سیدھا راستہ ہے، اللہ جو ہمارے لیے ان جانا ہے، ہست و بود سے وراء ہے۔

خلاصہ یہ کہ اسلام میں ایسے تصورات ہیں جو بدھ مت کے تصورات سے بہت ملتے جلتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ ان میں سے بیشتر کی آمد وسطی ایشیا سے ہوئی تھی لہذا ان کا کچھ نہ کچھ تعلق بدھ مت سے رہا ہوگا خواہ صرف تاریخی سطح پر رہا ہوں۔ اسلام کے عظیم عالم اور علم کلام کے ماہر امام غزالی کی کلامی اور الہیاتی تحریروں نے ایکویناس سینٹ کو توجہ دلائی کہ وہ عقل اور ایمان کی کشمکش کے موضوع پر اپنی الہیات مرتب کر کے سپرد قلم کرے۔ وسطی ایشیا کے بدھ مت کے پیروکاروں اور غیر بدھ مت والوں میں یہ مسائل بہت تفصیل سے زیرِ بحث رہے ہیں۔

ڈاکٹر برزن: "جہاد" جیسے تصورات، جس کا مطلب ہے "صحیح جدوجہد"، بھی بدھ مت کی تعلیمات سے مشابہت رکھتے ہیں۔

ڈاکٹر اکپینار: سوچ کا عمل بھی جہاد ہے۔ آپ کا ہر عمل جہاد ہو سکتا ہے.

ڈاکٹر برزن: "جہاد" کے لفظ سے یہ جو ایک جنگجویانہ خاصیت کی طرف اشارہ ملتا ہے سو یہ بدھ مت کی اصطلاحات میں بھی موجود ہے۔ اس پر تعجب نہیں ہونا چاہیے۔ بدھ فلسفی بھی تو آخر فوجی اور حکمران طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ درست کاوش کر کے، صحیح جدوجہد کرنےکے بعد ہی بدھ فلسفی وہ بن کر اُبھرے تھے جسے الفاتح يعنی فتحمند آدمی کہہ کر بیان کیا گیا ہے جو پریشان کن جذبات کی جنگ میں ان پر قابو پا ليتا ہے۔ یہ میدان کارزار کہاں واقع ہے؟ انسان کے دل و دماغ میں۔ یہ جہالت، ہوا و ہوس، لت، غصے اور نفرت کے خلاف لڑائی ہے۔

اسی طرح تصوف اور بدھ مت کے درمیان بھی تاثیر باہمی کا ایک سلسلہ ہے جو وسطی ایشیا اور برصغیر ہندوستان میں نظر آتا ہے۔ تصوف میں منتروں کا جاپ کرنے سے ملتے جلتے اذکار ہیں۔ صوفیاء جس طرح خدا کے ناموں کا ورد کرتے ہیں بدھ مت والے بھی منجوشری کے ناموں کی حمد کرتے ہیں۔اس کے علاوہ کچھ اور اعمال و اشغال بھی ہیں جو مسلمانوں اور بودھوں دونوں کے لیے قابل فہم ہیں۔ ان میں طواف اور زیارت بھی شامل ہے۔ دونوں مذاہب میں مساوات، بھائی چارے اور ایثار پر بہت زور دیا گیا ہے۔ یہ کہنا البتہ مشکل ہے کہ اس کے انفرادی عناصر کی نشوونما کسی ایک مذہب کے دوسرے پر اثرات کی وجہ سے عمل میں آئی یا ان کے نمو ایک دوسرے سے الگ آزادانہ طور پر ہوئی۔

ڈاکٹر اکپینار: ہندوستان اور خلیج فارس کے علاقوں میں صدیوں تک براہ راست رابطہ اور لین دین رہا ہے۔ پرانے زمانے میں بصرہ کی بندرگاہ بہت پر رونق اور آمدورفت کا مرکز تھی اور خلیج فارس میں اگر کوئی شدید بیمار ہو جاتا تو وہ بمبئی کے سفرکے ليے تيار ہو جاتا تھا کہ وہاں مون سون پہلے میسر آ سکتا ہے۔ بہت پہلے زمانے سے الہیاتی مسائل پر بھی تبادلۂ افکار ہوتا چلا آیا ہے۔

ڈاکٹر برزن: نوزائیدہ عباسی سلطنت کا دارالخلافہ بغداد بھی تو ہندوستانی معماروں نے تعمیر کیا تھا۔ نویں صدی عیسوی کے نصف آخر میں بغداد میں ایک بیت الحکمت تھا۔ بودھ اور ہندو مترجمین اس ادارے میں مختلف کتابوں کا مقامی یعنی عربی زبان میں ترجمہ کرتے تھے۔ یوں اس زمانے میں مختلف تہذیبوں کے آپس میں ثقافتی رابطے عام تھے۔ سائنس کے میدا ن میں ایک دوسرے سے سیکھنے سکھانے کا عمل زیادہ ہوتا رہا خاص طور پر فلکیات نجوم اور طب کے شعبوں میں۔

ڈاکٹر اکپینار: اس میں فلسفے کا اضافہ کر لیجیے۔ میں تو یوں کہوں گا کہ مغرب والوں کی ایک غلطی یہ بھی ہے کہ جب کبھی بھی ملسمانوں کے حوالے سے فلسفے کا ذکر آتا ہے تو اسے ہمیشہ فلسفۂ یونان سے ملا دیا جاتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے بہت سے فلسفیانہ نظریات یونان سے نہیں بلکہ ہندوستان اور مشرقی تہذیبوں سے آئے تھے۔

ڈاکٹر ڈاکٹر مسلمان روحانی رہنماؤں کا دوسرے ادیان کے پیشواؤں سے مکالمہ جاری ہے جس میں تقدس مآب دلائی لامہ خاص طور پر حصہ لیتے ہیں۔ ایک مرتبہ یوں ہوا کہ تقدس مآب نے مجھ سے فرمائش کی کہ مغربی افریقہ کے کسی افریقی صوفی رہنما سے ان کی ملاقات کا بندوبست کروں جن سے وہ دونوں مذاہب پر گفتگو کر سکیں۔ فرمائش بہت ہی خاص تھی، اتنی شرائط پر پورا اترنے والا شخص کہاں تلاش کیا جاتا۔ پھر یہ ہوا کہ عین ایسی ہی شخصیت گویا غیب سے پیدا ہو گئی۔ یہ تھے ڈاکٹر ترمذیاؤ ڈیالو جو مغربی افریقہ کے ملک گنی کے رہنے والے تھے۔ خاندان میں تصوف کا سلسلہ پُرکھوں سے چلا آتا تھا، خود بھی صوفی شیخ تھے۔ ان کا ذکر میں پہلے بھی کر چکا ہوں۔ ہماری ملاقات ایک مشترکہ جرمن دوست کے واسطے سے ہوئی تھی جو سفارتی عملے میں کام کرتے تھے۔ تقدس مآب سے ملاقات کے لیے میں انہیں اپنے ساتھ دھرمشالہ لے کر گیا۔ دونوں کو جس موضوع پر تبادلۂ خیال سے سب سے زیادہ دلچسپی تھی وہ تھا انسان درد مندی۔ مغربی افریقہ میں تصوف کا مرکزی اصول ہے محبت اور درد مندی۔ یہ صوفی شیخ تقدس مآب کی ملاقات سے اتنے متاثر تھے کہ پچھلے اکتوبر میں گراتس، آسٹریا میں منعقد ہونے والے کالچکر عطاء اختیار میں شامل ہونے کے لیے وہاں تشریف لے گئے۔

ڈاکٹر اکپینار: "قرآن" کی ہر سورت کا آغاز خدائے رحمٰن و مہربان کے نام سے ہوتا ہے۔ میری نظر میں قرآن بنیادی طور پر "تورات" کی تفسیر ہے کیونکہ حضرت محمد (صلى الله عليه وسلم) کے زمانے میں "تورات" کے قصے سبھی لوگ جانتے تھے۔ لیکن آنحضرت (صلى الله عليه وسلم) نےسامی مذہب کی اس قدیم روایت میں جس چیز کا اضافہ فرمایا وہ یہ تھا کہ قانون خداوندی میں بخشش اور دردمندی کا تصور شامل کر دیا جائے۔"آنکھ کے بدلے آنکھ" کے روایتی مقولے سے آگے بڑھ کر آپ (صلى الله عليه وسلم) نے بتایاکہ خدا رحم کرنے والا، مہربان ہے اور اگر انسان بھی اپنے اندر رحم و کرم کی بازیافت کرلے تو یہ اس کے حق میں بہتر ہے۔ تاہم یہ اگر نہ بھی ہو سکے تب بھی ایک آنکھ کے بدلے صرف ایک ہی آنکھ لے، اس سے بڑھ نہ جائے۔ چنانچہ سارے "قرآن" میں جزاء و سزا کے قانون کو نرم کیا گیا ہے۔

اسلام میں ایک خوبصورت کہانی بیان ہوئی ہے جو اس بڑے مسئلے پر روشنی ڈالتی ہے کہ مسلمان جنگ کیوں کرتے ہیں؟ اللہ کا پیغام لانے والے ہر پیغمبر کی طرح حضرت محمد (صلى الله عليه وسلم) بھی شروع میں جنگ و جدل سے گریزاں تھے۔ لیکن ہوا کیا؟ ان کے لوگ ختم ہو رہے تھے، ان پر حملے کیے جا رہے تھے۔ آخر کار انہیں یہ طے کرنا پڑا کہ اب اپنے پیروکاروں کو لڑائی سے روکنا ممکن نہیں رہا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب آپ (صلى الله عليه وسلم) نےاپنا مشہور قول ارشاد فرمایا تھا کہ "اب اسے روکنا میرے لیے ممکن نہیں سو اگر تمہیں ہتھیار اٹھانا پڑیں تو اٹھاؤ، جنگ کرو لیکن یہ مت بھولنا کہ اس کے بعد اپنے کیے کی ذمہ داری تم پر ہوگی اور تمہارا دین اس وقت تک خالص نہ ہو گا جب تک تم اپنے اعمال کا بوجھ خود نہ اٹھاؤگے" اس تلقین میں کرموں کا سارا قانون موجود ہے۔

"قدر" کے لفظ کا مطلب ہے قوت۔ مغرب میں عموماً قدر کو قسمت یا تقدیر سمجھا جاتا ہے۔ تاہم قسمت کو کرم کا پھل بھی کہا جا سکتا ہے۔ ذرا غور کیجیے کہ آنحضرت (صلى الله عليه وسلم) نےاس کےبعد کیا فرمایا،

 جب تم اپنے دشمن کو زیر کر لو اور تمہاری تلوار اس کی گردن اڑانے لگے اور وہ تم سے رحم کی التجا کرے تو اس لمحے اگر تمہارے اندر درد مندی اور درگذر کا جذبہ ابھر سکے تو سب سے اچھی چیز یہی ہے کہ اسے وہیں، اسی وقت معاف کر دو اور دشمنی کو دوستی میں بدل دو۔ لیکن اگر تمہارے اندر اس شخص کے لیے درد مندی کی کوئی رمق پیدا نہ ہو تو آگے بڑھ کر اسے قتل کردو۔ کوشش مگر یہ کرو کہ یہ درد مندی تمہارے اندر پیدا ہو سکے کیونکہ تم خدا کے سامنے جوابدہ ہو۔

پہلے مسلمانوں میں سے کتنے ہی لوگ اصل میں میدانِ جنگ میں اسلام لائے تھے۔ یہاں نکتہ یہ ہے کہ جس کی جان بخشی کی گئی وہ بہتر انسان نہیں بنتا بلکہ جس نے اس کو امان دی وہ بہتر آدمی بن جاتا ہے۔

 آجکل جو اسلامی جہاد ہو رہا ہے اس سے اس رحم و کرم کا کیا تعلق بنتا ہے؟

ڈاکٹر اکپینار: بظاہر تو یہ غیر متعلق لگتا ہے۔ اسلام کے کچھ ایسے اسالیب آج نظر آتے ہیں جو شدید جنگ آزما مزاج کے ہیں اور اپنے روایتی ورثے سے کٹ گئے ہیں۔ "جدید اسلام کے یہ داعی" اکثر یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ "قرآن" کو سمجھنے کی کوئی ضرورت نہیں اگرچہ یہ ایک مقدس کتاب ہے اور اسلام کی بنیاد اس پر ہے۔ ان کے لیے پہلی اور دوسری سورت یاد کرنا کافی ہے، باقی سب کچھ فراموش کردیا جاتا ہے۔ ایک مرتبہ آپ اس راہ پر چل پڑیں تو پھر دین اپاہج ہو کر رہ جاتا ہے۔

ڈاکٹر برزن: اس بات پر زور دینا بہت اہم ہے کہ مسلمانوں میں بہت تھوڑے سے لوگ اس طرح جنگجو، بنیاد پرست اور متشدد ہیں اور شدت پسند، بنیاد پرست تو ہر مذہب میں ہوتے ہیں، خود بدھ مت میں بھی موجود ہیں۔

کیا اسلامی تعلیمات میں کوئی ایسی چیز ہے جو خودکش دھماکے کرنے کا جواز فراہم کرنے کی طرف لے جانے والی ہو؟

ڈاکٹر اکپینار: اسلام میں عیسایت کی طرح شہادت پانے والے لوگ ہوتے ہیں۔ خودکش حملے کرنے والے بھی شہید ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن یہ تو صرف اپنی خودکشی کرتے ہیں۔ پہلا اصول ہی یہی ہے کہ "تم قتل نہیں کرو گے" خصوصاً اپنے آپ کو – یہ لوگ شہید کہاں ہیں، صرف "خودکشی" کرنے والے ہیں۔

مغرب میں اکثر بدھ مت والوں نے اسلام کو صوفی شاعروں مثلاً رومی اور حافظ کے حوالے سے جانا ہے جن کے ہاں زور خدا سے بھرپور محبت کرنے اور اس سے لو لگانے پر ہے یا خدا پر جو ہر شے سے عیاں اور ظاہر ہے۔ لوگ ان شاعروں کو بہت چاہتے ہیں اور اس انداز نظر ، اس طریقے کو بہت پسند کرتے ہیں لیکن یہ شاعر جس وجد آفرین عشق کی بات کرتے ہیں اس کی تو بدھ مت میں کوئی خاص جگہ نہیں ہے جسے مغربی دنیا کے بدھ مت والوں نے اپنایا اور جو نام ہے خاموش مراقبہ، دھیان کرنے اور اپنے اندر تلاش کے عمل کا۔

ڈاکٹر اکپینار: مسلمانوں میں بھی بہت ہیں جن کے ہاں یہ وجد نہیں ہے۔ اس طرز کی شاعری واقعی بہت طاقتور ہے اور شاید اس کے جڑیں ہندومت یا ہندوستان میں بھگتی اور مناجات کی دیگر روایتوں میں پیوست ہیں۔ لیکن وسطی ایشیا کی ایک اور شعری روایت ہے جو اسلام اور بدھ مت کے درمیان ایک دلچسپ انداز میں پُل بنانے کا کام کرتی ہے۔ چین والے اسے "مساوی شعر" یا رباعیات کہتے ہیں۔ ترک زبانوں میں اسے "کوشما" کہا جاتا ہے جس کا مطلب ہے "وہ جو ذہن میں رواں ہو۔" ایک گریزاں خیال ہے جسے آپ گرفت میں لے آتے ہیں، ایسا خیال جسے چھوڑ دینا چاہیے لیکن آپ اسے قابو میں لے آتے ہیں۔ پھر آپ شعر کہتے ہیں اور آخری مصرعہ کا اضافہ یوں کرتے ہیں کہ وہ معانی کو پلٹ دیتا ہے، ایک ایسی بات سے جس کا مفہوم کچھ نہ ہو۔ یہ اپنی اصل میں "کوآن" کی طرح کی صنف سخن ہے۔ مشہور شاعر عمر خیام نے اس کو اپنا ذریعۂ اظہار بنایا ہے اور بہت سے صوفیا نے بھی خاص طور پر وہ صوفیا جن کا تعلق وسطی ایشیا سے تھا۔ ترکی کے معروف لوک شاعر یونوس ایمرے اس کی اچھی مثال ہیں جو صوفی کے طور پر بھی بخوبی جانے جاتے ہیں ان کی بہت سی نظموں کا آغاز قبرستان میں کسی قبر پر بیٹھ کر غوروفکر کرنے سے ہوتا ہے جو مراقبے کی عام شکل ہے۔

کیا تصوف میں بھی خاموش مراقبہ ہوتا ہے۔

ڈاکٹر اکپینار: جی ہاں، لیکن یہ صوفی سلسلے پر منحصر ہے۔ بعض صوفی سلسلوں میں آہ و فغاں ، شور و غوغا اور رقص و پکار ہے۔ دوسرے سلسلے خاموشی اختیار کرتے ہں۔

ڈاکٹر برزن: دوسری جانب یہ بھی ہے کہ بہت سے صوفی سلسلوں میں دعا و مناجات کا جو پہلو نظر آتا ہے وہ ویسا ہی ہے جو اہلِ مغرب کو مہایانا بدھ مت کے بہت سے مراکز میں سکھایا اور کروایا جاتا ہے۔ بدھ مت کے بہت سے پیروکار اکٹھے ہو کر گانے اور پڑھنے کو بہت پسند کرتے ہیں اور ان میں سے کچھ لوگ نام نہاد "وجر- ناچ" میں بھی حصہ لیتے ہیں۔

دیگر ادیان کے تصورِ خدا سے تقابل کر کے اللہ کے بارے میں کچھ اور بات کر لی جائے اور بدھ مت کی متعلقہ تعلیمات پر بھی۔

ڈاکٹر برزن: بدھ مت میں بھی کئی پہلو ایسے ہیں جن کو اللہ سے نسبت دی جا سکتی ہے بلکہ عمومی طور پر خدا کی صفات کہے جا سکتے ہیں لیکن بدھ مت میں ان سب کو کسی ایک اصطلاح کے تحت سمیٹ کر بیان نہیں کیا گیا۔ تاہم بدھ مت کسی ایسے اصول یا ایسی حقیقت کے وجود کا دعویٰ نہیں کرتا جو ایک ثنویت نما تنزیہی انداز میں ہم سے اور ہماری کائنات سے مکمل طور پر الگ اور ماوراء ہو۔ بدھ مت کا بلند ترین اصول جو ہر شے کو ایک وحدت میں پرو دیتا ہے اس کا عنوان ہے "خالی پن" (voidness [emptiness])۔ اس خالی پن کا مطلب ہے کہ کسی چیز کا وجود ناممکن یا خیالی طور پر نہیں کہ جس میں وہ ہر دوسری شے سے سچ مچ آزاد ہو بلکہ ہر شے اور ہر ہستی کا نظام ہست و بود ایک دوسرے پر منحصر ہے۔ خالی پن کی بات کیجیے تو یہ ہم سے اور ہماری کائنات سے جدا نہیں ہے اگرچہ تبت کی بعض روایتوں میں اسے حرف و خیال، لفظوں اور تصورات سے ماوراء کہا گیا ہے۔ چونکہ سب مخلوق اور ہمارے اردگرد کی دنیا ایک دوسرے پر دارومدار رکھتی ہیں لہذا ہم سب ایک دوسرے کے لئے تشویش اور درد مندی ہونا ضروری ہے. درد مندی کے معیار الگ الگ یا باہر نہیں ہے، لیکن ہر کسی میں فطری.

ڈاکٹر اکپینار: میں تو یوں کہوں گا کہ اللہ لاشیئیت (nothingness) ہے اور جب آپ اسلام کا بنیادی کلمہ ، اس کا منتر "لا الٰہ الاللہ" (وہی جو سعودی عرب کے پرچم پر لکھا ہوتا ہے) پڑھتے ہیں تو یہ اصل میں آپ کو اس بات کی دعوت ہے کہ آپ "اللہ کے سوا کوئی خدا نہیں" کو بار بار دہراتے چلے جائیں اور ہر مرتبہ ایک رکن یعنی ایک "لا" آواز میں سے کم کرتے جائیں۔

"لا" کا مطلب ہے "نہیں" یعنی یہ نفی ہے۔ لہذا اللہ ایک عظیم لا ہے۔ اللہ وہ ہے جسے آپ تصور اور خیال میں نہیں لا سکتے ہیں کیونکہ وہ ہر شے سے ماوراء ہے۔ پس لاہ کے آخر میں "ہا" اس نفی کا اعلان کرتی ہے۔ جب آپ "لاالٰہ الاللہ" کی تکرار کرتے ہیں تو گویا آپ ہر اس شے کو تہ بہ تہ اتارتے چلے جاتے ہیں جو انسان کے لیے قابل تصور ہے، جو انسان کی فکر میں سمائی رکھتی ہے۔ آپ اس کو دہراتے رہتے ہیں اور آواز کا ایک ایک رکن کم کرتے جاتے ہیں حتیٰ کہ صرف "ہا" باقی رہ جائے اور "ہ" کا مطلب ہے وہ یعنی خالص نَفَس خداوندی۔

ڈاکٹر برزن: خالی پن بھی ایک نفی ہے ایک خاتمہ ہے اور اس سے مراد ہے ہستی اشیاء کے بارے میں تمام اوہام کا ہٹ جانا۔ اس کی علامت بھی وہ ان لکھا حرفِ علت "ا" ہے جو ہندوستانی زبانوں میں ہر سنسکرت حرف میں شامل ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ "ا" سنسکرت میں نفی کا سابقہ بھی ہے۔ اسی طرح تانتر میں ذہنی سرگرمی کے کثیف حصوں اور اس سے متعلق ابتری اور ژولیدگی کو حل کرنے کے لیے یہ تصویری علامت مقرر کی گئ ہے کہ آپ "ہوم" کے لفظ کے الگ الگ حصوں کو آنکھ کے سامنے اس طرح لائیں کہ وہ ایک دوسرے میں گھل مل جائیں اور آپ کا ذہن صاف اور روشن ہو جائے جو ہر شے کی نمود اور انحصار باہمی کی بنیاد ہے۔ سو ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگرچہ خالی پن وہ گہرا طور طریقہ ہے جو آنکھ سے اوجھل رہتا ہے لیکن جس سے ہر شے اپنا وجود پاتی ہے اور اگرچہ اسے کسی ماورائی، تنزیہی چیز کے مترادف نہیں قرار دیا جا سکتا پھر بھی اس میں اور اسلامی تعلیمات میں بہت سی ملتی جلتی چیزیں ہیں جن کی بنیاد پر دنیا کے یہ دو عظیم مذاہب ایک دوسرے کو سمجھ سکتے ہیں اور ان کے مابین مکالمہ جنم لے سکتا ہے۔

Top