چین کے ھوئی مسلمانوں کی تاریخ

چین کی قومی مسلمان اقلیتیں

١٩٩٠ء کی مردم شماری کے مطابق عوامی جمہوریئہ چین میں مسلمانوں کی تعداد ٦.١٧ملین ہے۔ ان میں سے ٦. ٨ ملین ھُوِئی ٢.٧ ملین ویغور، ١.١ ملین قازقی، ۳۷۵۰۰۰ کرغیز، ۳۳۵۰۰ تاجک اور ١۴٥٠٠ ازبک ہیں۔ ھُوِئی مسلمان عام طور پرچینی زبان بولتے ہيں، تاجکی ایک ہند یوروپی زبان بولتے ہیں جس کا تعلق فارسی سے ہے۔ ان کے علاوہ باقی سب لوگ ترکی زبان کی ایک مقامی بولی یعنی ڈائیلیکٹ بولتے ں۔ ھُوِئی لوگ اس لحاظ سےسرکاری طور پر چین کی تسلیم شدہ ان چھپن قومیتوں میں ایک انوکھی حیثیت رکھتے ہيں کہ ایک ہی زمرے ميں ان کا تشخص قائم کرنے والا واحد ذریعہ مذہب (اسلام) ہے۔ ان کی کوئی خاص مشترکہ قومی زبان نہیں ہے۔ چین کے ہان لوگوں کے ساتھہ شادی بیاہ کا رشتہ انہوں نے خوب استوار کیا ہے اور یہ لوگ چین کے تقریباً ہر شہر میں رہتے ہيں۔ ان کا ایک خود مختار علاقہ ہے جس کا نام ہے ننگزیا اور جو جنوبی گانسو اور اندرونی منگولیا کے درمیان واقع ہے۔ ان میں دو خود مختار کمشنریاں اور نو اضلاع شامل ہیں۔ چینی لفظ "ھُوِئی" کو دنیا کے تمام مسلمانوں کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے، چاہے وہ چین کے اندر رہتے ہوں یا باہر۔

ھُوِئی مسلمانوں کی شروعات

اگرچہ ھُوِئی چین کی قومی اقلیتوں میں سے ایک ہے، یہ اپنے آپ میں کوئی منظّم گروہ نہيں ہے۔ ان کی نسلی جڑیں عربی، فارسی، وسط ایشیائی لوگوں اور منگولوں میں پھیلی ہوئی ہیں۔ یہ لوگ مختلف ادوار میں چین میں آئے تھے۔ پہلا عرب اسلامی وفد تانگ خاندان کی حکومت کے دوران ٦٥١ء میں یعنی حضرت محمد (صلى الله عليه وسلم) کے وفات کی انیس سال بعد اور عربوں کی فارس پر فتح کے ایک سال بعد چین میں آیا تھا۔ اس وقت سے زیادہ تر عرب اور کچھہ فارسی سوداگر بھی چین کے جنوب مشرقی ساحلی علاقے میں بسنے لگے۔ ٧٥٨ء میں چین کے تانگ شہنشاہ نے بغداد کے عباسی خلیفہ سے یہ گذارش کی کہ آن لوشن بغاوت کی سرکوبی کے لیے وہ بیس ہزار سپاہیوں پر مشتمل ایک فوج بھیجیں۔ بعد میں یہ عربی اور فارسی فوجی چین ہی میں آباد ہو گئے اور ننگزیا اور گانسو کے شمال مغربی علاقوں میں بس گئے۔ مزید براں، ٨٠١ء میں تبتوں نے کرائے کے ٢٠٫٠٠٠عربی اور سغدیائی فوجیوں کو اپنی ملازمت میں رکھہ لیا۔ ان فوجیوں کی ضرورت اس لیے تھی کہ وہ یوننان کی ننجاؤ ریاست جو جنوب مغربی چین میں واقع تھی اس کے خلاف جنگ میں ان کی مدد کریں۔ حالانکہ اس جنگ میں تبتوں کی ہار ہوئی لیکن مسلمان فوجی اس علاقے میں موجود رہے۔ ١٥٠٠٠عرب سپاہیوں کا ایک اور ریلا ١٠٧٠ء اور ١٠٨٠ء میں چین کے شمالی سونگ شہنشاہ کی دعوت پر چین پہنچا تھا۔ یہ سپاہی اس لیے بلائے گئے تھے کہ شہنشاہ کی اپنی گھٹتی ہوئی ریاست اور بڑھتے ہوئے خیتانی سامراج کے بیچ شمال مشرقی چین میں ایک دفاعی مورچہ قائم کیا جاسکے۔

بہر حال، ھُوِئی لوگوں کا بیشتر حصہ انہی لوگوں پر مشتمل ہے جن کے تقریباً ٢-٣ میلین اجداد کو منگول حکمراں قبلائی خان نے ١٢٧٠ء میں فوجی ریزرو کے طور پر مرکزی ایشیا سے بلایا تھا۔ ان لوگوں کی مدد سے اس نے جنوبی چین پر ١٢٧٩ء میں فتح حاصل کی۔ امن کے وقت یہ لوگ چین کے مختلف علاقوں میں سوداگر، زرعی مزدور اور کاری گر کی حیثیت سے بس گئے۔ قبلائی خان کا ایک پوتا جس کا نام آنند تھا، فارسی مسلم رضاعی والدین نے اس کی پرورش کی تھی۔ ١٢٨٥ء میں وہ انشی کا شہزادہ بن گیا تھا، ایک ایسے علاقے کا شہزادہ جو گانسو، ننگزیا اور سیچوآن کی مفتوحہ تنگوت ریاست کا احاطہ کرتا تھا۔ تنگوت کے لوگوں نے تبتی اور چینی بدھ مت کی ایک امتزاجی شکل اختیار کر لی تھی۔ فارس میں ایل خانی سلطنت حکم اپنے عم زاد غازاں خاں کے ساتھہ شاہزادہ آنند نے ١٢٩٥ء میں اسلام قبول کر لیا تھا۔ نتیجتاً انشی کی منگول فوج کے ١٥٠٫٠٠٠ افراد اور تنگوت کے زيادہ تر لوگوں نے اسلام قبول کر لیا۔ لہٰذا ١٣٦٨ء میں جس وقت منگول یوان خاندان کا خاتمہ ہوا، تب تک ھُوِئی لوگ چین کے اندر سب سے بڑی اقلیّت بن گئے تھے۔

مِنگ منگ خاندان میں ھُوِئی لوگوں کا تحفظ

بیشتر علماء کے مطابق، مِنگ خاندان، یعنی مقامی ہان چینی خاندان جس نے منگولوں کے بعد چین میں حکومت کی تھی، اس کا ہانی ھُوِئی لوگوں کی اولاد میں سے تھا اگرچہ اس واقع کو اچھی طرح سے چھپایا گیا تھا۔ منگولوں پر فتح حاصل کرنے کے بعد اس نے ھُوِئی لوگوں کو مذہبی، سیاسی اور اقتصادی آزادی عطا کر دی تھی۔ ہان لوگوں کے تعصب سے انہيں بچانے کے لیے، اس نے یہ قانون نافذ کر دیا تھا کہ ھُوِئی لوگ چینی زبان بولیں گے، چینی لباس پہنیں گے اور چینی لوگوں میں شادیاں کریں گے۔ ھُوِئی لوگ اسی وقت سے اپنی رنگا رنگ ثقافتی جڑوں سے محروم ہوتے گئے۔

منچو چِنگ خاندان کے دوران ہونے والے مظالم

مِنگ خاندان کی حکومت کے دوران ھُوِئی لوگوں کے لیے حفاظتی اقدامات کے ردّ عمل میں، اس کے بعد کا شاہی خاندان جس نے چین پر حکومت کی تھی، یعنی مانچو چِنگ خاندان (١٩١٢ء-١٦۴۴ء)، اس نے چین میں مسلمانوں پر مظالم شروع کردیے۔ مظالم کا یہ سلسلہ مشرقی ترکستان می رہنے والے ویغور مسلمانوں تک گیا۔ ١٦۴٨ء اور ١٨٧٨ء کے درمیان، چِنگ کی سرکوبی کے لیے کی جانے والی اس ناکام بغاوت میں، بارہ ملین سے زیادہ ھُوِئی اور ویغور مسلمان قتل کیے گئے۔ تبتی لوگ بھی منچو اور ہان چینی چِنگ فوج کے ظلم کے شکار تھے، لیکن انہوں نے ھُوِئی لوگوں کے ساتھہ اچھا برتاؤ کیا۔ مثال کے طور پر، پانچویں دلائی لامہ نے ١٦٥٢ء میں بیجنگ میں منچو شاہی دربار کی طرف جاتے وقت، ینچوان میں جو موجودہ ننگزیا کی راجدھانی ہے، ھُوِئی مسلمان سربراہوں سے ملاقات کی تھی انہوں نے فلسفیانہ اور مذہبی معاملات پر گفتگو کی تھی۔

کرغیزستان میں نقل مکانی-دونگن لوگ

ھُوِئی لوگوں نے انیسویں صدی عیسوی کے اواخر میں، روس کے زیر اقتدار علاقے جنوبی ترکستان کی طرف دوریوب میں ہجرت کی۔ پہلا ریلا ١٨٧٨ء میں منچو حکومت کے خلاف ایک ناکام بغاوت کے بعد گانسو اور شنشی کی طرف سے آیا تھا، اور دوسرا ریلا ١٨٨١ء میں دریائے الی کی وادی سے، جو کہ مشرقی ترکستان کے بعید مغرب میں واقع ہے، کرغستان پہنچا تھا۔ یہ لوگ ١٨٧١ء میں اس علاقہ پر قابض ہو گئے تھے۔ لیکن ١٨٨١ء میں سینٹ پیٹرز برگ معاہدے کے تحت، چین کے ہاتھوں میں اس کی واپسی کے وقت مقامی لوگوں کو روسی یا چینی شہریت اختیار کرنے کی آزادی دی گئی تھی، ھُوِئی مہاجروں کے یہ دو گروہ زیادہ تر کر کرغیزستان میں واقع دریائے چو کی وادی میں بس گئے جو بشکک کے قریب ہے۔ یہ لوگ اپنے آپ کو دونگن کہتے ہيں۔

مشرقی اور مغربی ھُوِئی

حالیہ دور میں چین کے ھُوِئی لوگوں کو دو خاص حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ مغربی ھُوِئی لوگوں کا مرکز ننگزیا ہے۔ یہ لوگ گانسو (امدو حصوں کے اندر بھی اور باہر بھی) چنگھائی، اندرون منگولیا کے مغربی نصف حصّے اور شمالی چین کی ریاستوں مثلاً شانشی، شنشی، ہنان اور ہبئی میں رہتے ہيں۔ یہ مسلمان لوگ آج کل کافی تعداد میں مرکزی تبت کی طرف منتقل ہورہے ہيں اور اس وقت لہاسا کی ایک تہائی دوکانوں کے مالک ہیں۔ ان کا روحانی اور ثقافتی مرکز لینگشِیا ہے جو گانسو کے لبرانگ خانقاہ اور لانجؤو کے درمیان واقع ہے۔ مشرقی ھُوِئی لوگ بالخصوص اندرون منگولیا کے مشرقی نصف حصے میں رہتے ہيں۔

Top