ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے کی کئی ایک حکمت عملیاں ہیں، جیسے قابل تجدید توانائی کے ذرائع کا استعمال، صنعتی اور گاڑیوں کی آلودگی میں تخفیف، وغیرہ، مگر ایک اور کارن جسے شائد کم تشہیر ملی ہے وہ ہے گوشت کی پیداوار کے نقصانات۔ گوشت کے اصراف میں کمی اور سبزی خوری کی حوصلہ افزائی ماحولیات کے تحفظ کی ایسی تدابیر ہیں جو کہ نہ صرف مالی لحاظ سے قرین فہم ہیں، بلکہ انہیں دنیا کے بیشتر مذاہب کی تائید بھی حاصل ہو گی۔
بیشتر معاشروں میں، خواہ وہ ترقی یافتہ ہوں یا ترقی پذیر، گوشت خوری خوشحالی کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ جو لوگ غربت سے باہر آتے ہیں ان کی اولین خواہشات میں گوشت خوری شامل ہوتی ہے۔ اگرچہ ایسی غذا جس میں گوشت کی پروٹین شامل ہو لاغر انسانوں کی غذائیت میں اضافہ کرتی ہے، مگر طبی سائینس نے انکشاف کیا ہے کہ حد سے متجاوز گوشت خوری صحت کے لئیے مُضر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے امراض قلب اور بعض نوع کے سرطان میں اضافہ کا امکان افزوں پذیر ہوتا ہے۔ اقتصادی نقطہ نظر سے، اگرچہ گوشت کی پیداوار بطور ایک صنعت کے بوہت سارے لوگوں کے لئیے روزگار کے مواقع پیدا کرتی ہے، مگر معیشت اور ماحولیات پر اس کے دور رس ضرر رساں اثرات ان فوائد سے برتر ہیں۔
اقوام متحدہ کے محکمہ خوراک و زراعت کی ایک رپورٹ کے مطابق، دنیا کی خضراخانہ اثر پیدا کرنے والی گیسوں کا ۱۸ فیصد ان جانوروں کے پیشاب اور فُضلے سے آتا ہے جنہیں ہم خوراک کے لئیے پالتے ہیں۔ دنیا بھر میں محض سؤر اور مُرغ پانچ لاکھ کلوگرام فضلہ فی سیکنڈ نکالتے ہیں۔ یہ اس مقدار سے ساٹھ گنا زیادہ ہے جو تمام انسان پیدا کرتے ہیں۔ اس جانوروں کے فضلہ سے پیدا ہونے والی خضراخانہ اثر پیدا کرنے والی گیسوں کی مقدار ان تمام ایسی گیسوں سے چالیس فیصد زیادہ ہے جسے دنیا کی تمام گاڑیاں، ہوائی اور بحری جہاز مل کر پیدا کرتے ہیں۔ مزید بر آں، امونیا گیس کا دوتہائی جو تیزابی بارش لاتی ہے جانوروں کے فضلہ سے آتا ہے۔
اگر ہم ان تمام عناصر کے اعدادوشمار کا جائزہ لیں جو خوراک کی خاطر جانور پالنے میں شامل ہیں، تو تعدّد اور بھی حیرت انگیز ہے۔ اقوام متحدہ کی اسی رپورٹ کے مطابق تمام زرعی زمین کا ستّر فیصد، اور در حقیقت تمام خطہ ارض کا تیس فیصد جانوروں کے لئیے خوراک پیدا کرنے میں استعمال ہوتا ہے، جبکہ انسانوں کے لئیے خوراک پیدا کرنے میں صرف آٹھ فیصد مصرف میں آتا ہے؛ اور باقی ماندہ زمین نامیاتی ایندھن اُگانے کے کام آتی ہے۔ مزید برآں، پالتو جانوروں اور ان کی خوراک کے لئیے کاشت کی جانے والی فصل پر ۲۸۔۴ ملین لیٹر پانی فی سیکنڈ خرچ ہوتا ہے۔ خوراک کی اتنی بڑی مقدار پیدا کرنے کی خاطر جنگلات کو کاٹنے سے ہر سال چالیس ارب ٹن مٹی فرسودگی کا شکار ہوتی ہے۔ اگر ہم اس معدنی تیل کی مقدار کا تخمینہ لگائیں جو جانوروں کی خوراک پیدا کرنے، اسے کارخانوں تک لیجانے اور کارخانوں کو چلانے، تیار شدہ خوراک کو فیکٹری فارموں پر لیجانے اور ان فارموں کو چلانے، جانوروں کو مذبح لیجانے اور ان ذبیحہ خانوں کو چلانے، گوشت کو گوشت کاٹنے والے کارخانوں تک پوہنچانے اور ان کارخانوں کو چلانے، پھر تیارشدہ گوشت کو دکانوں تک پوہنچانے اور اسے یخ بستہ رکھنے میں استعمال ہوتا ہے، تو ہم دیکھیں گے کہ جانوروں کی پروٹین سے ایک کیلوری پیدا کرنے میں بالمقابل پودوں کی پروٹین سے پیدا کرنے کے گیارہ گنا معدنی تیل کی ضرورت پڑتی ہے۔
ان اعداد و شمار سے صاف پتہ چلتا ہے کہ گوشت کی پیداوار اور اِصراف سے ماحول اور عالمی معیشت کو زبردست نقصان پوہنچ رہا ہے۔ اور اگر یہی رحجان جاری رہا، تو مزید گوشت پیدا کیا جاۓ گا جس سے ماحول کو اور نقصان ہو گا۔ ایسا رحجان ناقابل برداشت ہے اور اس کا نتیجہ تباہی کے سوا کچھ نہیں۔ اگر سبھی لوگ ہر سال اتنا ہی گوشت کھانے لگیں جتنا کہ، مثال کے طور پر، لوگ امریکہ یا یہاں ہانگ کانگ میں کھاتے ہیں تو اتنے جانوروں کو کھلانے کے لئیے جو خوراک چاہئیے ہو گی اس کی کاشت کے لئیے نہ تو اتنی زمین ہے اور نہ ہی اتنا پانی۔ تو اہم سوال یہ ہے کہ اس رحجان کا رخ واپس کیسے موڑا جاۓ۔
جو لوگ کسی مذہب کو نہیں مانتے، ان کے ہاں عام فہم کا یہ تقاضا ہے کہ سبزی خوری یا کم از کم گوشت خوری میں کمی ہی اس کا منطقی حل ہے۔ یہ امر اور بھی اہم ہو جاتا ہے اگر ایسے لوگ یہ سوچیں کہ اگر انہوں نے اپنی کوتاہ اندیش عادات درست نہ کیں تو اس کے اثرات ان کی آل اولاد پر کیا ہوں گے۔ اور وہ جو محض مادی منفعت سے سروکار رکھتے ہیں، تو معاشی معاملات انہیں یہ سبق دیتے ہیں کہ موجودہ مستقل افزوں پذیر گوشت کی پیداوار کے دور رس نقصانات گوشت کی صنعت سے ہونے والے وقتی منافع کی نسبت کہیں زیادہ ہیں۔
تاہم، جو لوگ کسی مذہب یا عالمگیر فلسفہ کے پیروکار ہیں، یہ سب انداز فکر اپنی تعلیمات میں سبزی خوری کی حمائت کرتے ہیں۔ بدھ مت تمام جاندار مخلوق کے لئیے درد مندی پر زور دیتا ہے۔ چونکہ تمام مخلوق کسی بھی شکل میں دوبارہ جنم لے سکتی ہے، تو وہ جانور جنہیں ہم خوراک کے لئیے پالتے اور جن کا گوشت کھاتے ہیں ممکن ہے وہ گذشتہ زندگیوں میں ہمارے آباواجداد رہے ہوں، اور ہم معہ اپنے آباواجداد کےآئندہ زندگیوں میں بطور جانور جنم لے سکتے ہیں۔ تو یوں ہمیں ان جانوروں کے دکھ کا احساس ہو گا، مثلاً اُن مرغیوں کی زندگی کا جو ایک صنعت کے طور پر پالی جاتی ہیں ایسی جگہوں پر جنہیں بعض بودھی گورو مرغیوں کے قیدخانے کہتے ہیں۔ ان بیچارے مرغوں کی تمام زندگی ڈربوں میں بسر ہوتی ہے جن کا رقبہ ۲۰x۲۰ سینٹی میٹر ہوتا ہے اور انہیں کبھی بھی آزاد گھومنے نہیں دیا جاتا۔ اگر ہمیں یا ہمارے آباواجداد کو ایسے حالات میں رکھا جاۓ تو ہم کیسا محسوس کریں گے، جب کہ ہماری قسمت میں محض کتوں کی خوراک یا میکڈانلڈ کے چکن نگٹ بننا لکھا ہو جو کسی بچے کو کھلاۓ جاتے ہیں، جس میں سے آدھے بچ رہیں اور کوڑے کی نذر ہو جائیں۔
بدھ مت میں سبزی خوری کی ہدائت 'براہماجل سوتر' (براہما نٹ سوتر) میں ملتی ہے، جس کا کمارجیو نے بطور 'فنوانگ جنگ' کے چینی زبان میں ترجمہ کیا۔ اس میں شامل دس بڑے بودھی ستوا عہود کے اڑتالیس ضمنی فرمان بھی شامل ہیں جن میں سے ایک گوشت سے پرہیز ہے۔ درد مندی کی بنیاد پر، مشرقی ایشیائی مسلکوں میں مہایان بودھی لوگ اپنے بودھی ستوا عہود کے مطابق گوشت نہیں کھاتے۔ سائیکو، جو کہ جاپان میں ٹنڈائی فرقے کا بانی تھا، نے درحقیقت بودھی ستوا عہود اور فرمانوں کا یہ روپ بطورآشرمی فرمان کے اپنایا۔
اگرچہ سبزی خوری بوجوہ دردمندی براۓ جانوراں کنفیوشس کی مینگزی (مینسیٔس) تعلیمات میں صریحاً تو موجود نہیں، پھر بھی ان سے انسان یہی منطقی نتیجہ نکالتا ہے۔ لیانگ کے بادشاہ ہوئی (梁惠王) سے ایک بحث کے دوران مینگزی نے ذکر کیا کہ اس نے سن رکھا تھا کہ ایک بار جب بادشاہ نے ایک بیل کو مذبح لیجاتے دیکھا تا کہ اس کے خون سے ایک گھنٹی کی تقدیس کی جا سکے، تو اس نے حکم دیا کہ بیل کی جان بخشی کی جاۓ اور اس کی جگہ ایک بھیڑ کی قربانی دی جاۓ۔ مینگزی نے بادشاہ سے کہا،
اس میں کوئی برائی نہیں؛ یہ ایک محبت کا فعل (仁術) تھا۔ ایک بھلے آدمی (君子) کو جانوروں کے ساتھ ایسا ہی برتاؤ کرنا چاہئیے۔ انہیں زندہ دیکھ کر وہ انہیں مرتے دیکھنا برداشت نہیں کر سکتا؛ ان کی چیخ و پکار سننے کے بعد ان کا گوشت کھانا اسے گوارا نہ ہو گا۔ لہٰذا ایک بھلا انسان ذبیحہ خانوں اور گوشت کے باورچی خانوں سے دور رہتا ہے۔
تاہم، مینگزی اس امر کی وکالت نہیں کر رہا تھا کہ اگر تم جانور کو زندہ حالت میں نہ دیکھو اور نہ ہی سنو، تو پھر اس کا گوشت کھانا درست ہے۔ بلکہ، اس نے بادشاہ کو یہ مثال اس لئیے دی تا کہ وہ اپنی تمام رعایا کو جانوروں سے ایسے ہی رحمدلی (恩) سے پیش آنے کی تلقین کرے جیسے اس نے کیا۔ گرچہ اس نصیحت کا مقصد گوشت پر پابندی نہیں تھا، مگر اس نصیحت میں یہ پیغام پنہاں ہے کہ تمام انسانوں اور تمام جانوروں سے یکساں رحمدلی سے پیش آیا جاۓ۔
گوشت خوری کے خلاف اور بھی روحانی وجوہات ہیں۔ عمومی طور پر، تمام ہندو 'رگ وید' کے مویشیوں اور گھوڑوں کے گوشت کھانے کے امتناع کو مانتے ہیں۔ علاوہ از ایں، جو ہندو وشنو اور کرشن کو مانتے ہیں وہ سبزی خور ہوتے ہیں، جس کا بیان 'یاجر وید' میں آیا ہے۔ متنوں میں اس کی تین بڑی وجوہات دی گئی ہیں۔ پہلی وجہ عدم تشدد کی اہمیت ہے، جس کا اطلاق یہاں جانوروں پر ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ آیورویدک نظام طب تنبیہ کرتا ہے کہ گوشت خوری من اور روح کی استواری کے لئی مہلک ہے۔ تیسری بات یہ کہ گوشت ناپاک تصور کیا جاتا ہے، اور محض پاک خوراک ہی دیوتاؤں کی نذر کی جا سکتی ہے اور بعد میں پرساد، یعنی دیوتاؤں کی طرف سے تحفہ، کے طور پر کھائی جا سکتی ہے۔
جین مت کے پیروکار کسی بھی اور مذہب کی نسبت زیادہ سختی سے سبزی خوری کے پابند ہیں۔ در حقیقت، اس قدیم ہندوستانی مذہب کے ماننے والوں کے لئیے سبزی خوری قانوناً لازم ہے۔ اس ممانعت کی وجہ جین مت کا عدم تشدد اور زندگی کے تمام پہلووں میں پاکیزگی پر بیحد زور ہے۔ گوشت کو مکمل طور پر ناپاک سمجھا جاتا ہے۔
یہودیت، عیسائیت اور اسلام تینوں مذاہب کی تعلیم یہ ہے کہ خدا نے جانور انسانوں کے استعمال کے لئیے پیدا کئیے، مگر ان میں سے کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ خدا نے انہیں انسانوں کے ہاتھوں بد سلوکی کے لئیے پیدا کیا۔ اگرچہ اسلام اور یہودیت خدا نے نجس جانور جیسے سؤر کو کھانا منع کیا، مگر الہامی صحیفوں میں خدا کی مرضی کے بارے میں اور بھی اشارے موجود ہیں۔ قرآن کی سورہ ۲۰:۱۵ کے مطابق،
اور ہم نے اس میں (یعنی دنیا جو خدا نے بنائی) تمہارے لئی کفالت کے ذرائع پیدا کئیے ہیں اور وہ (یعنی جانور) جن کے تم ذمہ دار نہیں ہو (ان کی کفالت کے)۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا نے دوسری قسم کے جانور بھی بناۓ جو خوراک کے لئیے موزوں ہیں جیسے بھیڑ، بکریاں اور مویشی، مگر ان کو کھلانا پلانا انسان کی ذمہ داری نہیں، مثلاً ان کے لئی خاص قسم کا اناج اگانا۔ بہ الفاظ دگر، خدا کی مرضی یہ تھی کہ وہ اپنے چارے کے لئیے آزادانہ طور پر گھومیں پھریں اور انہیں وسیع پیمانے پر گوشت حاصل کرنے کی خاطر بطور ایک صنعت کے نہ پالا جاۓ۔
قصہ مختصر، دنیا کے بیشتر بڑے مذاہب اور فلسفے اقتصادیات، منطق اور عام فہم سے ماخوذ نتیجہ کی اخلاقی حمائت کرتے ہیں، یعنی دنیا کو گوشت کا اِصراف بڑی حد تک کم کرنا چاہئیے، اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو سبزی پر مشتمل خوراک کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ مگر محض اس لئیے کہ طبی سائینس، مذہب، فلسفہ اور عام سوجھ بوجھ ہمیں گوشت خوری سے منع کرتی یا کم از کم اس کے اصراف میں کمی، بلحاظ مقدار اور تعدّد، کی ہدائت کرتی ہے؛ پر جب تک لوگ اپنا رویہ تبدیل نہ کریں، انہیں کچھ حاصل نہ ہو گا۔
بوہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ کسی مذہب کو ماننے کا مطلب عبادت، یا پھر بعض کے ہاں، محض اگربتیاں جلانا ہے۔ بہر حال، تبدیلی ایک باطنی معاملہ ہے۔ ماحولیات کی حفاظت کے لئیے ہم خواہ کچھ ہی خارجی جتن کریں، مگر اصل کام اپنی سوچ اور رویّے کو بدلنا ہے جس کی بنیاد حقیقت کے اس ادراک اور احساس پر ہو کہ انسان اس دھرتی کو کس قدر نقصان پہنچا رہا ہے۔ یہ کام صرف نجی سطح پر ہی ممکن ہے۔ فہم و فراست اور درد مندی سے کام لینا ہم سب کا فرض ہے۔