میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں بہت خوش ہوں کہ مجھے انور سادات امن لیکچر دینے کا شرف حاصل ہوا ہے۔ بطور صدر، انہوں نے اپنے علاقہ میں امن قائم کرنے کے لئے جرات مندانہ اور فیصلہ کن اقدامات کئے، اور میں دور سے ان کو سراہ رہا تھا۔ آج میں ان کی بیوہ (بیوی) سے ملا اور میں بہت خوش تھا، یہ بڑی قابلِ عزت بات تھی، اور میں نے ان سے ان کے مرحوم خاوند کے متعلق اپنی ستائش گری کا اظہار کیا۔ اگر وہ اپنے دل میں شک اور نفرت کو جگہ دیتے، تو پھر ایسا حوصلہ بہت مشکل ہوتا۔ ایک ایسا وسیع اور تامیّت سے بھر پور اندازِ فکر جو دوررس مفادات کو پیشِ نظر رکھتا ہے – جس میں کہ آپ اپنے دشمن کی عزت کرتے ہیں، اس سے بات کرتے ہیں، اس سے ہاتھ ملاتے ہیں اور اپنے مابین تفرقات اور مماثلات دونوں کو مدنظر رکھتے ہیں۔ یہ سب سے اچھی بات ہے۔
ہر شخص امن چاہتا ہے اور کوئی بھی مسائل اور خونریزی پسند نہیں کرتا، جو کہ ہمیشہ دکھ درد کو جنم دیتی ہے۔ خونریزی کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ یہ ناپیش گفتنی ہے۔ اگر یہ ایک بار سرزد ہو جاۓ، تو خواہ محرک یا مقصد بھلا ہی تھا، پر چونکہ طریق کار غلط (شدت پسندی) تھا، تو نا پیش گفت نتائج ناگزیر ہوتے ہیں۔ ایسا ہمیشہ ہوتا ہے۔ لہٰذا میں ان کے نام کے حوالے سے بات کرنے کو باعثِ فخر سمجھتا ہوں، اور اس یونیورسٹی اور متعلقہ افراد کا مشکور ہوں جنہوں نے مجھے یہ موقع دیا۔
مذہبی ہم آہنگی کا فروغ
جب میں لیکچر دیتا ہوں تو میں پہلے اپنے آپ کو بطور ایک انسان تصور کرتا ہوں۔ خواہ ہم کوئی مذہبی عقیدہ رکھتے ہیں یا نہیں مگر ہم سب انسان ہیں، اور اس بنیاد پر میں داخلی سکون کی بات کرتا ہوں۔ ایک دوسری سطح پر، میں ایک بدھ متی ہوں، اور میرا ایک فریضہ مذہبی ربط کو فروغ دینا ہے۔ دنیا کے بڑے مذاہب کے درمیان، ان کی دو اقسام ہیں: ایک وہ مذاہب جن میں خالق کا تصور پایا جاتا ہے، اور دوسری قسم جس میں ایسا کوئی تصور نہیں۔ یہ بنیادی تفریق ہے۔ الوہی مذاہب کے مابین بھی، گزشتہ زندگیوں، حیات بعد از موت، وغیرہ کے متعلق اختلافات پاۓ جاتے ہیں۔ ہندو مت میں خالق کا تصور موجود ہے، مگر علت و معلول کے قانون کی بدولت، حیات بعد از حیات بھی ہے۔ اور عیسائیت اور اسلام کے درمیان بھی بعض معمولی تفرقات ہیں: ایک خدا، خداۓ واحد، اقانیمِ ثلاثہ، وغیرہ۔
قدیم ہندو روایات کے مطابق، کم از کم تین ہزار سال تک یہ تصور رہا ہے کہ اس عالم کا کوئی خالق نہیں۔ جین مت اور بدھ مت اسی بات کو مانتے ہیں۔ اور ان مذاہب میں جہاں خالق کا کوئی تصور نہیں، ایک آزاد، پائدار نفس کے وجود کے متعلق اختلافات پاۓ جاتے ہیں، یا یہ کہ ایسی کوئی آزاد، پائدار شے نہیں۔
ان مختلف فلسفیانہ نظریات کا کیا مقصد ہے؟ یہ ایک سمجھدار، درد مند انسان بننے کے مختلف طریقے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تمام مختلف مذاہب محبت، درد مندی، برداشت اور درگذر کا ایک جیسا پیغام دیتے ہیں۔ بعض ایسے مسائل درپیش ہوتے ہیں کہ انسان کو غصہ آجاتا ہے، اس لئے درگذر اور برداشت کی مشق ضروری ہے۔ برداشت غصے کا فوری علاج ہے، اور عفو نفرت کا۔
اس لئے، تمام بڑے مذاہب ایک ہی پیغام دیتے ہیں اور محبت کے راستے امن پیدا کرنے کی یکساں صلاحیت رکھتے ہیں۔ بے شک، منطقی لحاظ سے، امن کا تعلق نفرت، غصہ اور بذریعہ درد مندی ان پر قابو پانے سے ہے۔ سکون، خاندانی اور انفرادی سطح پر بھی اندرونی سکون سے ہی آتا ہے۔ داخلی سکون کا منبع درد مندی اور درگذر ہے۔ تمام مذاہب ایک پر امن دنیا، پرامن گھرانہ اور پرسکون فرد پیدا کرنے کی یکساں صلاحیت رکھتے ہیں۔
ان اتنی تفریق والے نظریات کی وجہ کیا ہے؟ لوگوں میں من کی بہت مختلف مختلف کیفیتیں پائی جاتی ہیں۔ بعض کے ہاں، الوہیت والے مذہب زیادہ موثر ہیں، اور بعض دوسروں کے نزدیک عدم الوہیت کی سوچ زیادہ موثر ہے۔ یہ مختلف دواؤں کی طرح ہے: ان کے اجزا مختلف ہو سکتے ہیں، مگر سب کا مقصد بیماری کا علاج کرنا ہے۔ مختلف جسمانی حالتوں اور عمر کے لحاظ سے مختلف قسم کی امراض پیدا ہوتی ہیں، لہٰذا ہمیں مختلف نوع کی ادویات درکار ہوتی ہیں۔ اسی طرح، من کے سکون کی دوائں بھی مختلف نوع کی ہونی چاہئیں، لہٰذا تمام بڑے مذاہب کی صلاحیت اور مقصد ایک ہی ہوتا ہے، اور یہ ہم سات ارب انسانوں کے لئے بہت ضروری ہیں۔
مختلف مزاجوں کے لئے مختلف طریق کار
یہ صاف ظاہر ہے کہ بدھ مت میں، ہمارا گوتم بدھ پر مکمل ایمان ہے، اگرچہ اس نے مختلف (مخالف) نظریات کی تعلیم دی۔ آخرکیوں؟ کیونکہ اس کے پیروکاروں میں کئی مختلف من کے مزاج والے لوگ شامل تھے، اس لئے ایک ہی مذہب کے اندر مختلف طریق کار کا بیان ضروری تھا۔ دنیا کے مختلف جغرافیائی خطوں میں اربوں لوگ آباد ہیں، جن کے اندازِ معاشرت ایک دوسرے سے مختلف ہیں، تو ان کے من کے مزاج بھی فرق ہیں جنہیں مختلف طریق کار کی ضرورت ہے۔ یہ احساس کہ تمام بڑے مذاہب کا پیغام ایک ہے جو محبت، درد مندی اور درگذر پر مبنی ہے تو ایسی یکسانیت باہمی احترام کا باعث بن جاتی ہے۔ ایک بار باہمی احترام پیدا ہو جاۓ، تو ہم ایک دوسرے سے سیکھنے کا عمل شروع کر سکتے ہیں، جو بذاتِ خود ہمارے مذہب کو تقویت دیتا ہے۔
میرا تجربہ یہ ہے، کہ عیسائیوں، مسلمانوں، یہودیوں اور ہندوؤں سے ملاقاتوں کے نتیجہ میں میں نے ان سے نئی باتیں سیکھی ہیں، جس سے میرے عقیدہ کو تقویت پہنچی ہے۔ لہٰزا پرخلوص ستائش اور عزت کی بنیاد پر مختلف مذاہب کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا عین ممکن ہے۔ لہٰذا میرا دوسرا اہم کام ہم آہنگی کو فروغ دینا ہے۔
روز مرہ زندگی میں اخلاقی اقدار کا اطلاق
جیسا کہ میں نے پہلے کہا، یہاں بُلاۓ جانا بڑی عزت کی بات ہے۔ اب جب کہ ہم مرحوم انور سادات کا ذکر کر رہے ہیں، ہمیں محض یہ نہیں کرنا کہ اس کی عظمت کا اعادہ کریں اور بات وہیں ختم کر دیں، بلکہ کرنا یہ ہے کہ ان کی محبوب اقدار کو اپنی زندگی کا حصہ بنائں۔ ان کے بات کرنے کے جذبہ کے تحت، انہوں نے یہ سکھایا کہ حالات کتنے ہی مشکل کیوں نہ ہوں، یہ نہائت اہم ہے کہ مسائل کو بات چیت کے ذریعہ حل کیا جاۓ۔ میں عموماً یہ کہتا ہوں کہ بیسویں صدی خونریزی کی صدی تھی، اب اکیسویں صدی کو امن کی صدی ہونا چاہئے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ مسائل ختم ہو جائں گے، کیونکہ مسائل تو ہمیشہ ہوں گے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ امن کی صدی قائم کرنے کے لئے، ہمیں مسائل کو حل کرنے کا پرامن طریقہ اور مذاکرات کو بنیاد بنانا ہو گا۔
یہاں آنے سے قبل میں گورنر کے بیٹے سے ملا، اور میں نے اسے بتایا کہ بہت سارے بزرگ بھائی اور بہنیں، بیسویں صدی کے میرے دور کے لوگ، وہ صدی جو گزر چکی ہے، ہم الوداع کہنے والے ہیں! پس اکیسویں صدی کی پود، جن کی عمریں ۱۵ اور ۳۰ کے درمیان ہیں، وہ صحیح معنوں میں اکیسویں صدی کی نسل ہیں۔ اس صدی کی نو دہائیاں باقی ہیں اور نئی نسل اپنی زندگیاں اس میں بِتائے گی، لہٰذا آپ کو یہ اچھا موقع اور یہ ذمہ داری ملی ہے کہ آپ ایک نئی، بہتر اور پرمسرت دنیا تشکیل دیں۔ یہ کام انسانیت کی وحدت کی بنیاد پر کیا جا سکتا ہے۔
مختلف مذاہب اور قومیتوں کا ہونا دوسرے درجہ کی بات ہے، اور یہ بات اتنی زیادہ اہم نہیں۔ جب ہم ان کم درجہ کی چیزوں کو حد سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں تو ہم انسانیت کی وحدت کو بھلا بیٹھتے ہیں، اور پھر مسائل اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ ہمیں اس کے دوسرے رخ سے سوچنا چاہئے۔ اولاً ہمیں انسانیت کی وحدت کے بارے میں سوچنا ہے۔ عصرِحاضر کی حقیقت جس میں کرہ ارض کی افزائش پذیر حرارت اور عالمی معیشت شامل ہیں ہمیں بتاتی ہے کہ ملکی حدود اور مذہبی تفریق کچھ اہمیت نہیں رکھتے۔ پس نئی نسل کو پوری انسانیت کے متعلق سوچنا چاہئے، عالمی سطح پر تمام انسانوں کی وحدت۔ درجہ دوئم کی تفریق کی بنیاد پر وقتی فائدہ کی خاطر انسانیت کی یکجہتی کو قربان کرنا ایک بہت بڑا سانحہ ہے۔ ایک ایسا دور رس ہدف استوار کرو جس سے کہ یہ صدی امن کی صدی بن جاۓ، ایک ایسی جگہ جہاں تمام دنیا جنگی ہتھیاروں سے نجات پا لے۔ یہ ممکن ہے، لہٰذا اس پر سنجیدگی سے غور کرو۔
شکریہ! اب میں چند سوالوں کے جواب دوں گا۔
تقدس مآب، ۲۰۱۱ میں آپ جب نیوورک گئے تھے، تو وہاں آپ نے یہ صلاح دی کہ امریکہ کے تعلیمی نظام میں اخلاقیات پر درس بھی شامل کرنا چاہئے۔ کیا آپ کسی باقاعدہ اخلاقی درس کا مشورہ دیتے ہیں؟ دنیا میں بہت سارے اخلاقی درس لازم قرار دئے گۓ ہیں؛ امریکہ میں ایسا باقاعدہ اخلاقی درس متعارف کرانے میں آپ کو کیا مسائل نظر آتے ہیں؟
تقدس مآب: انسانیت کو دیکھتے ہوۓ، میں سمجھتا ہوں کہ تعلیم (علم) نے ایک عمدہ دنیا تشکیل دی ہے۔ میرے خیال میں دنیا کا ہر حصہ، سب لوگ تعلیم کو بہت اہم سمجھتے ہیں۔ آجکل، کئی ممالک اور معاشروں میں جدید تعلیم کا معیار بہت بلند ہے، مگر پھر بھی مسائل اور مشکلات موجود ہیں۔ حتیٰ کہ وہ لوگ بھی جو معاشرے میں بے شمار مسائل پیدا کرتے ہیں، جہاں تک ان کی تعلیم کا تعلق ہے، وہ بہت اعلیٰ درجہ کی ہے۔ جہاں تک من کے سکون کا تعلق ہے، میرے کئی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ احباب ہیں، مگر بحیثیت انسان کے، وہ بہت ناخوش ہیں۔ اس سے لازماً من کا ایک غیرصحتمند رویہ جنم لیتا ہے، اور پھر اس کے نتیجہ میں، قتل و غارت، دروغ گوئی، دوگلاپن، استحصال، دھونس دہی، وغیرہ معرضِ وجود میں آتے ہیں۔
لہٰذا، میں عموماً ان لوگوں سے کہتا ہوں کہ تمام بڑے مذاہب گہری (اخلاقی) اقدار کی تعلیم دیتے ہیں۔ بیشک جو لوگ ہمیں یہ تعلیم دیتے ہیں ان میں، بعض ایسے ہیں جو خود ان پر عمل نہیں کرتے۔ میں نے یہ بات کئی بار کہی ہے، کہ بعض اوقات وہ لوگ جو مذہب کا پرچار کرتے ہیں درحقیقت منافقانہ زندگی بسر کرتے ہیں، جس میں وہ اچھی اچھی باتیں بتاتے ہیں مگر خود کچھ اور کرتے ہیں۔ یہ اس امر کا بیّن ثبوت ہے کہ اس شخص کا اخلاقی اقدار پر ایمان نہیں۔ محض دین کے راستے یقین کامل پیدا کرنا بہت محدود ہے۔ مگر جیسا کہ سابقہ پوپ نے فرمایا، ایمان اور عقل کو شانہ بہ شانہ چلنا ہے۔
میرے خیال میں یہ بات بالکل سچ ہے۔ ہمیں تعلیم اور شعور کے راستے دانش ور بننا ہے۔ تعلیم ہمارا آخری سہارا ہے۔ اگر ہم لوگوں کو نرم دلی اور غیروں کی بھلائی کے خیال کا درس دیں، تو انہیں پتہ چلے گا کہ یہ باتیں ان کی اپنی بہبود اور صحت کا لازم ذریعہ ہیں۔ خاندان اور گروہ کے مسائل کی وجہ اخلاقی اقدار کی کمی ہے۔ لہٰذا اپنے موجودہ تعلیمی نظام میں، ہمیں مزید اخلاقی اصولوں پر درس شامل کرنا چاہئے، کیونکہ اس وقت جو ہے وہ ناکافی ہے۔
جہاں تک من اور جذبات کا تعلق ہے، قدیم ہندو تعلیم میں نقصان دہ جذبات مثلاً غصہ، نفرت اور خوف سے نبرد آزمائی کے کئی ایک طریقے بتاۓ گئے ہیں۔ میرے اپنے تجربہ کے مطابق گذشتہ تیس برس میں جدید سائنسدانوں اور عالموں سے محاکات کے دوران دیکھا گیا ہے کہ، ان میں سے کئی ایک اس بات کے ستائش گر ہیں کہ قدیم بھارتی مذاہب میں جن میں بدھ مت بھی شامل ہے بہت سی معلومات پائی جاتی ہیں۔ یہ سائنسدان خالی خولی اس علم کی موجودگی کی تعریف ہی نہیں کرتے، وہ تجربات کے ذریعہ اس پر تحقیق بھی کر رہے ہیں جس سے اس کے حق میں ٹھوس ثبوت بھی ملے ہیں۔ ہم نے گذشتہ دو برس میں اس بات پر سنجیدگی سے غور کیا ہے کہ اخلاقیات کو جدید تعلیمی نظام میں کیسے متعارف کرایا جاۓ، جن کا من سے تعلق ہے۔ ہمیں من پر ایک تعلیمی نصاب کی ضرورت ہے یا جسے میں "من کا نقشہ" کہتا ہوں۔ اس طرح طالبعلم خود ہی، اپنے تجربہ سے، دیکھ سکیں گے کہ کیسے غصہ من کے سکون کو برباد کرتا ہے۔
طالبعلم اس پیار کی جو انہیں اپنی ماں اور دوستوں سے ملتا ہے بیحد قدر کرتے ہیں۔ چھوٹی عمر سے ہی، اس پیار کی قدروقیمت ان کے اندر جواں ہوتی ہے۔ پھر، ہماری طرح، لوگ بڑے ہو جاتے ہیں، بعض اوقات وہ کہتے ہیں کہ انہیں پیار کی ضرورت نہیں، کہ وہ سب کچھ خود ہی کر سکتے ہیں۔ مگر یہ بنیادی انسانی قدریں ایک بنیادی طبعی عنصر ہیں، اور یہ مذہب سے نہیں آتیں۔ ماں کا بچوں کے لئے پیار، جو ہمیں جانوروں میں بھی نظر آتا ہے، بیحدوحساب ہے۔ یہ ایک طبعی عنصر ہے، یہ مذہب سے نہیں آتا۔ تو ہمیں اس بات کی ضرورت ہے کہ ابھی جبکہ بچے چھوٹے ہیں، اور ان میں اس پیار کا احساس موجود ہے، ہم انہیں بتائں کہ یہ اقدار بہت اہم ہیں، ان کے آخری دنوں تک، ان کی موت تک۔ یہ اقدار ہماری خوشی اور مسرت کا حتمی منبع ہیں۔
ہمیں وجوہات اور دلائل جس میں سائنسی تحقیق کے اکتشافات بھی شامل ہیں کو استعمال میں لانا چاہئے، بجاۓ مذہب پر بھروسہ کرنے کے۔ اگر ہم مذہب کو بنیاد بنائں تو ہماری سوچ عالمگیر نہیں ہو گی۔ چونکہ ہم ایسے مسائل کی بات کر رہے ہیں جو عالمی سطح پر ہمارے مد مقابل ہیں، تو ہمارا ان مسائل سے نمٹنے کا طریقہ بھی عالمگیر ہونا چاہئے۔ میں عموماً اس انداز فکر کو "سیکولر اخلاقیات" کا نام دیتا ہوں۔ میں لفظ "سیکولر" کی وضاحت کرنا چاہوں گا کیونکہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ مغرب میں اس سے مراد مذہب سے منفی یا عدم تکریم کا رویہ ہے۔ مگرسیکولرزم کی بھارتی سوچ کے مطابق، اس سے مراد تمام مذاہب اور مذہب سے عاری سب کی یکساں تکریم، بغیر کسی ایک مذہب کو کسی دوسرے پر فوقیت دئیے۔ اس لئے، جب بھارت آزاد ہوا، اس کا آئین سیکولر بنیادوں پر بنایا گیا۔
چونکہ بھارت میں کئی ایک قومیں آباد ہیں، آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ایک مذہب دوسرے سے بڑھیا ہے۔ عالمی سطح پر، سیکولر سوچ ہی ایک ایسی سوچ ہے جو دنیا بھر میں قابلِ قبول ہے۔ اس لئے ہم ایک ایسا نصاب تیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو سیکولر تعلیم سے مطابقت رکھتا ہو۔ ہم اس پر کام کر رہے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ ایک سال کے اندر یہ تیار ہو جاۓ۔ مگر ہمیں سائنسدانوں، فلسفہ دانوں، ماہرِ تعلیم حضرات، وغیرہ سے مزید مشورہ کرنا ہے، جو کہ ہم بھارت میں پہلے ہی سے کر رہے ہیں۔
جب ہمارا نصاب تیار ہو جاۓ، تو شائد اس جامعہ جیسے ادارے اس پروگرام کو تجرباتی بنیاد پر متعارف کرا سکیں۔ ایک تعلیمی ادارہ اس پروگرام کو چلاۓ اور پھر دوسال بعد اس کے نتائج کا جائزہ لے۔ اگر نتائج حوصلہ افزا ہوں، تو ہم نصاب کو حتمی شکل دے کر اسے دس درسگاہوں میں، یا سو درسگاہوں میں نافذ کر دیں، اور پھر ریاستی سطح پر۔ ریاستی سطح کے بعد، کچھ مزید غوروخوض کے بعد، اسے وفاقی سطح پر لایا جا سکتا ہے، پھر یواین کی سطح پر، حتیٰ کہ تمام دنیا کی حوصلہ افزائی کی جاۓ کہ وہ اپنی تعلیم میں اخلاقی تعلیم کو بھی شامل کریں جس کا ماخوذ مذہب کی بجاۓ سیکولر سوچ ہو۔
کیا آپ یہ محسوس کرتے ہیں کہ گذشتہ عشرہ میں آپ کی مذاہب کے درمیان تبادلہ خیال کی کوششوں میں انتہاپسند اسلام جیسے مسائل اور امریکہ اور اسلامی دنیا کے درمیان تناؤ کے باعث مشکلات پیدا ہوئیں؟ ۱۱ ستمبر سے اب تک مکمل دہائی گذرجانے کے بعد کیا تبادلہ خیال قدرے آسان ہوا ہے؟
تقدس مآب: کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی؛ ہم یہ بات چیت گذشتہ تیس، چالیس برس سے کر رہے ہیں۔ میں ہمیشہ ایسی باہمی مذہبی ملاقاتیں کرنے کی کوشش میں رہتا ہوں جو محض ایسی مختصر تقریبیں نہ ہوں جن میں آپ مسکرا کر سلام دعا کرتے ہیں اور بس۔ اس کے بجاۓ، میں سنجیدہ گفتگو کو ترجیح دیتا ہوں۔ ہمارے درمیان تفریق کیا ہے، مماثلت کیا ہے، اور اس کا کیا مطلب ہے؟ اور زیادہ اہم بات یہ ہے کہ جب عامل عاملوں سے ملتے ہیں۔ میں واقعتاً بعض کیتھولک راہبوں کا ستائش گر ہوں۔ مرحوم ٹامس مرٹن، جو کہ ایک ٹراپی راہب تھا، میں نے اس سے اور دیگر عیسائی راہبوں اور راہباؤں سے کئی مشقیں اور عبادات سیکھیں۔ ایک بار سڈنی، آسٹریلیا میں ایک عیسائی پادری نے میرا تعارف کروایا، اس نے مجھے ایک عمدہ عیسائی کہا! پھر جب میں نے بات شروع کی، میں نے اسے ایک اچھا بدھ متی کہا! ایک ایسا احساس پایا جاتا ہے کہ ہماری عبادت اور ہماری صلاحیت ایک ہے۔ ایک بار ہم قریب آ گۓ اور ایک دوسرے کو گہرائی میں جان گۓ، تو پھر باہمی عزت اور ستائش فطری طور پر پیدا ہو گئی۔
علاوہ ازایں، میں نے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کو ملنے کی خصوصی کوشش کی ہے۔ شیعہ، سنّی جھگڑے، بالکل ویسے ہی جیسے پروٹیسٹنٹ اور کیتھولک کے درمیان شمالی آئرلینڈ میں، مذہب کی وجہ سے نہیں؛ اصل وجہ سیاست ہے۔ ماضی میں بھی، مذہب کے نام پر تاریخی جھگڑوں کی وجہ طاقت یا دولت رہی ہے، مگر وہ مذہب کی آڑ لیتے ہیں۔ پس ہمیں ان میں امتیاز کرنا ہے۔ سیاسی مسائل کو سیاست سے نہ کہ مذہب سے حل کرنا چاہئے۔ جہاں تک مذہب کا تعلق ہے، کسی کو نقصان پہنچانے کا کوئی جواز نہیں۔
یہ سانحے ہمیں اس امر کی یاد دہانی کراتے ہیں کہ ہمیں مستقل کوشش کرتے رہنا چاہئے، کیونکہ مذہب کے نام پر قتل و غارت نہائت افسوسناک بات ہے، اس کا تصور مشکل ہے۔ آجکل، بدھ متی بھی برما اور سری لنکا میں، بدھ راہبوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کی مسجدوں اور گھروں کو تباہ کر رہے ہیں۔ یہ نہائت افسوس کی بات ہے۔ ایک موقع پر، میں نے اپنے بدھ متی بھائی بہنوں سے کہا کہ جب ان کے دل میں مسلمانوں کے خلاف منفی جذبات ابھریں، تو انہیں مہاتما بدھ کے چہرے کو تصور میں لانا چاہئے۔ مہاتما بدھ ہمارے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کو تحفظ فراہم کرنا چاہے گا، بے شک۔ تو ان جھگڑوں کی وجہ معاشی معاملات ہیں، اور جب مذہب بیچ میں آ جاتا ہے ، تو یہ مشتعل جذبات کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ایک بار بہت سے جذبات شامل ہو جائں، تو ہمیں آسانی سے ورغلایا جا سکتا ہے۔ یہ نہائت افسوسناک ہے، مگر مایوس ہونے کی کوئی بات نہیں۔ ہمیں اپنی انتھک کوشش جاری رکھنی چاہئے اور نتائج (اچھے) نکلیں گے۔ کبھی کبھار میں قدرے فخر محسوس کرتا ہوں کہ میں نے مذہبی ربط پیدا کرنے میں کچھ کردار ادا کیا ہے۔
جب لوگ میری کاوشوں کو سراہتے ہیں اور میرے خیالات سے اتفاق کا اظہار کرتے ہیں، تو اس سے میرا حوصلہ اور بڑھتا ہے۔ جب امن کے نوبل انعام کا اعلان کیا گیا، تو میں نے فوراً جواب میں کہا کہ میں ایک سادہ سا بدھ راہب ہوں، نہ اس سے زیادہ، نہ کم۔ مگر بہر حال یہ میری عالمی امن کو فروغ دینے اور انسانیت کو بہتر بنانے کی کوششوں کی سراہت تھی۔
میرے خیال میں اس وقت یہاں پندرہ ہزار لوگ موجود ہیں، اور اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ان باتوں پر سنجیدگی سے توجہ دینا ضروری نہیں، تو کوئی بات نہیں۔ لیکن اگر آپ کو کچھ دلچسپی ہے اور آپ اس میں مزید حصہ لینا چاہتے ہیں، تو پھر آپ اپنی انرونی اقدار پر مزید غور کریں۔ پہلے اس کی جانکاری کی حد تک مشق کریں، ان اقدار کے وجود کا احساس۔ پھر، ان اقدار سے واقفیت حاصل کریں، پھر وہ ایک جاندار عنصر بن جاتے ہیں۔ پھر آپ ان اقدار کا اطلاق کرتے ہیں اور وہ آپ کی روزمرہ زندگی کا حصہ بن جاتے ہیں، اور آپ کو صحیح نتائج ملتے ہیں۔ لہٰذا، مزید غور کریں! شکریہ!