کسی صورتِ حال کی حقیقت جاننے کی اہمیت
داخلی سکون کا تعلق ذہنی ٹھہراؤ سے ہے۔ ذہنی سکون کا دارومدار لازماً جسمانی تجربے پر نہیں ہوتا۔ اگر ہمیں ذہنی سکون حاصل ہو تو جسمانی سطح کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتی۔
سو، کیا ہم عبادت سے داخلی سکون حاصل کرتے ہیں؟ نہیں، ٹھیک سے نہیں۔ جسمانی تربیت سے؟ نہیں۔ صرف علم حاصل کر کے؟ نہیں۔ اپنے احساسات کو مردہ کر کے؟ نہیں۔ لیکن جب ہمیں کسی مشکل کا سامنا ہو اور اگر کسی ممکنہ عملی حل سے فائدے نقصان اور ان کے نتائج کی پوری آگہی کی بنیاد پر اس صورت حال کا مقابلہ کریں تو ہمیں ذہنی پریشانی نہیں ہوتی اور یہی سچا داخلی سکون ہے۔
مزید براں ایک حقیقت پسندانہ راہ عمل اور درد مندی اس لحاظ سے بہت اہم ہے۔ جب کہیں ایسے نتائج سامنے آئیں جن کا ہمیں اندازہ نہیں تھا تو اس سے ہم میں بہت زیادہ خوف پیدا ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ہم نے حقیقت پسندی نہیں دکھائی۔ ہم نے سب نتائج کو پوری طرح جانچا نہیں تھا۔ اس لیے ہماری آگاہی میں بھی کمی رہ گئی اور ہم انہیں سمجھ بھی نہیں پائے۔ ہمارا خوف اس سے جنم لیتا ہے کہ ہم نے ٹھیک سے جانچ پرکھ نہیں کی تھی سو ہمیں چار سُو دیکھنے، اوپر تلے نظر ڈالنے کی ضرورت ہے تاکہ پوری تصویر ہمارے سامنے آ سکے۔حقیقت اور ظاہری صورت حال میں ہمیشہ ایک فاصلہ ہوتا ہے اس لیے ہمیں ہر پہلو سے معاملے کو جانچ لینا چاہیے۔
کسی چیز پر محض ایک نظر ڈال کر یہ کہنا ممکن نہیں ہوتا کہ یہ مثبت ہے یا منفی۔ لیکن جب [ہم اس کی اچھی طرح جانچ پڑتال کرلیں تو] اصل بات کا پتا چلتا ہے تبھی ہم یہ طے کر پاتے ہیں کہ یہ چیز مثبت ہے یا منفی۔ پس ہمیں اپنے معاملات اور حالات کا عقلی تجزیہ کرنا چاہیے۔اگر ہم اپنی جستجو کا آغاز ہی اس خواہش سے کریں کہ "یوں ہونا چاہیے، میں ایسا دیکھنا چاہتا ہوں" تو ہماری تلاش اور جستجو میں تعصب کا رنگ آ جائے گا۔ ہندوستان کی نلندا روایت یہ کہتی ہے کہ ہمیں ہمیشہ ہر چیز کو شک کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے اور مذہب سمیت ہر میدان کا معروضی طور پر جائزہ لینا چاہیے۔
دوسروں کے لیے اپنے ذہن کو کھلا رکھنا
رہا ذہنی سکون اور بےاطمینانی کا معاملہ تو یہ اس لیے پیدا ہوتے ہیں کہ ہماری تمام نیت اور محرک عمل ایک شدت کے ساتھ اپنے ہی اوپر مرکوز ہو تے ہیں۔ یہ انسان کا حق ہے کہ وہ دکھ سے چھٹکارا حاصل کرے اور خوشی پائے۔ اگر ہم ایک خود غرضی سے صرف اپنے ہی بارے میں سوچتے رہیں تو ذہن بہت منفی ہو جاتا ہے پھر ایک چھوٹا سا مسئلہ بڑا لگتا ہے اور ہم اپنا توازن کھو دیتے ہیں۔ جب ہم دوسروں کے بارے میں بھی یوں سوچیں کہ وہ بھی ہمیں اپنی ہی طرح پیارے ہیں تو ذہن کھلتا ہے، فراخ ہو جاتا ہے- اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک سنگین مسئلہ بھی اتنا اہم نہیں رہ جاتا۔ سو اس انداز نظر سے ہمارے جذبات میں ایک بڑا فرق پڑ جاتا ہے جو ہم چیزوں پر نگاہ کرنے کے لیے اپناتے ہیں خواہ یہ نقطۂ نظر اپنے لیے ہو یا سارے انسانوں کی خاطر۔
اس بنا پر دو عناصر ذہنی سکون کےلیے اہم ٹھہرتے ہیں۔ پہلی چیز ہے حقیقت سے آگہی۔ اگر ہم معاملات کو حقیقت پسندی سے دیکھیں تو غیر متوقع نتائج پیدا نہیں ہوں گے۔ دوسری چیز دردمندی کا جذبہ ہے جو ہمارے نام نہاد "اندر کے دروازے" کو پٹ کھول دیتا ہے۔ خوف اور شک شبہ ہمیں دوسرے انسانوں سے کاٹ دیتا ہے۔
اپنی ظاہری حالت سے بے پروا رہنا
[ایک اور چیز جو ہمارا ذہنی سکون کوغارت کر دیتی ہے وہ ہے اپنی ظاہری حالت پریشانی] مثال کے طور پر جب میں پہلی مرتبہ بیجنگ گیا تو نا تجربہ کار تھا۔ کچھ گھبرایا ہوا تھا، قدرے تشویش بھی تھی۔ پھر میں نے دیکھا کہ کچھ لوگ اگر اپنی ظاہری حالت کے بارے میں فکر مند ہوں تو ان کا چہرہ اس وقت بہت سرخ ہو جاتا ہے جب کوئی گڑ بڑ ہو جائے۔ لیکن اگر وہ ذہن کھلا رکھیں اور کسی معاملے کے خراب ہونے کی پروا نہ کریں تو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔
مثلاً ۱۹۵۴ء میں جب میں بیجنگ میں تھا تو ہندوستانی سفیر مجھے میرے کمرے میں ملنے کے لیے آئے۔ چین والوں نے پھولوں، پھلوں سے استقبال کی بے تحاشا تیاریاں کر رکھی تھیں اور ان کا اصرار تھا کہ ہم ایک چینی ترجمان بھی ساتھ رکھیں۔ اس طرح بات تبتی سے ہوتی ہوئی چینی اور پھر انگریزی تک پہنچی، اگرچہ میرے سرکاری افسروں میں سے بعض انگریزی جانتے تھے۔ دوران گفتگو یوں ہوا کہ پھلوں کا ڈھیر زمین پر بکھر گیا اور چینی اہلکار جو اس وقت تک بہت اکڑے ہوئےرسمی دفتری انداز میں بیٹھے تھے۔ گھٹنوں کے بل چلتے ہوئے زمین سے پھل اکٹھے کرنے لگے۔ اگر انہیں اپنے ظاہری رکھ رکھاؤ کی پہلے اتنی فکر نہ رہی ہوتی تو کوئی مسئلہ نہ تھا لیکن اب وہ بہت سراسیمہ ہو رہے تھے۔
میکسیکو شہر میں بین المذاہب مجلس میں ایک مرتبہ ایک جاپانی پیشوا شریک تھا۔ اس کے ہاتھ میں جو منکوں کی مالا تھی اس کی ڈوری اچانک ٹوٹ گئی۔ دانے سارے فرش پر بکھر گئے لیکن وہ بدستور مالا کی ڈوری پر انگلی چلاتا رہا۔ اسے فرش سے دانے چننے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی کیونکہ اسے اپنے ظاہری رکھ رکھاؤ کا بہت خیال تھا۔
بہرکیف، دردمندی، ایثار، سچائی اور دیانت؛ یہی چیزیں داخلی سکون پیدا کرنے کے لیے اہم ہیں، نہ کہ ظاہری حلیہ اور رکھ رکھاؤ۔ میں نے کبھی یہ دعوٰی نہیں کیا کہ میں کوئی خاص آدمی ہوں لیکن میں اپنے تجربے سے جانتا ہوں کہ مجھے ہزاروں کے مجمع کے سامنے بھی کبھی گھبراہٹ نہیں ہوتی، نہ ہی پریشانی کا احساس ہوتا ہے کہ ان کے سامنے مجھے اپنے آپ کو کیسے پیش کرنا ہے۔ تقریروں کے دوران میں ہزاروں لوگوں سے بات کرتا ہوں۔ میرے لیے یہ ایسے ہی ہے جیسے میں چند افراد سے گفتگوکررہا ہوں ۔ اگر مجھ سے کوئی غلطی سرزد ہوتی ہے تو میں اسے بھلا دیتا ہوں، مسئلہ نہیں بناتا۔ دوسروں سے بھول چوک ہو جائے تو میں ہنس دیتا ہوں۔
اندرونی کایا پلٹ
اب لیجیے داخلی تبدیلی یا اندرونی کایا پلٹ کے معاملے کو۔ جب ہم اندرونی کایا پلٹ کی بات کرتے ہیں تو یہ جذبات کی سطح کا ذکر ہوگا۔ اندرونی کایا پلٹ یا تبدیلی کی ایک نوعیت تو وہ ہے جو بڑھتی عمر کے ساتھ قدرتی طور پر خود ہی واقع ہو جاتی ہے اور دوسری وہ جو خارجی حالات کے ذریعے عمل میں آتی ہے۔ اس طرح کی اندرونی کایا پلٹ تو خود بخود ہو جاتی ہیں۔ دوسری قسم کی کایا پلٹ حقیقت میں لانے کے لیے کاوش کرنا ہوتی ہے اور یہی ہم اصل میں کرنا چاہتے ہیں: اپنی مرضی کی اندرونی کایا پلٹ ۔ یہ کایا پلٹ کے بنیادی معنی ہیں ۔
یہ جان لیجیے کہ ہم اپنی آئندہ زندگی، آخرت میں نجات یا جنت کی بات نہیں کر رہےہین۔ ہمارا موضوع یہ ہے کہ آج کی زندگی کو مشکلوں اور مسائل کے باوجود خوشی اور سکون کے ساتھ کیسے بِتایا جائے۔ یہ کرنے کے لیے جن بڑی چیزوں سے ہمیں نمٹنا پڑتا ہے وہ ہے غصہ، نفرت، خوف، حسد، شک شبہ، احساسِ تنہائی، ذہنی دباؤ وغیرہ ۔ ان سب کا تعلق ہمارے بنیادی ذہنی رویے سے ہے اور یہ پیدا ہی اس لیے ہوتے ہیں کہ ہم بہت زیادہ مرکوز بالذات ہو جاتے ہیں، اپنے آپ ہی کو دیکھتے رہتے ہیں۔ ان چیزوں کا سامنا کرتے ہوئے ہمارے لیے ہمارا نفس سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے اور اسی سے حسد پیدا ہوتا ہے۔ اپنے آپ کو اتنا عزیز رکھنے سے ذرا سی الجھن غصہ دلا دیتی ہے اور غصے سے خوف پیدا ہوتا ہے۔ ہمیں دوسروں کی پرواہ نہیں ہوتی ہم صرف اپنی پرواہ کرتے ہیں۔ ہم یوں سوچتے ہیں کہ دوسرے لوگ بھی صرف اپنے ہی بارے میں سوچتے ہیں اور انہیں بھی یقیناً ہماری کوئی پروا نہیں ہے۔ اس سے ہم خود کو تنہا محسوس کرنے لگتے ہیں۔ ہم سوچتے ہیں کہ " میں دوسروں پر بھروسا نہیں کر سکتا" اور یوں ہم ان پر شک کرنے لگتے ہیں جو ہمارے سامنے ہیں، جو ہمارے پہلو میں ہیں، بلکہ وہ بھی جو ہمارے پیچھے ہیں۔
جب ہم اس معاملے پر غور کرتے ہیں تو یہ ظاہر ہے کہ بنیادی طور پر انسانی فطرت ایسی ہے کہ ہر شخص دوستی کی قدر کرتا ہے۔ اگر ہم دوستی کا ہاتھ بڑھائیں تو اکثر لوگ ایک مثبت تعلق ظاہر کرتے ہیں۔ رہے وہ منفی جذبات جن سے تشویش وغیرہ پیدا ہوتی ہے تو ان کا مقابلہ کرنے کے لیے اور روک تھام کےلیے ہمیں کچھ اور بھی کرنا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر کمرہ زیادہ گرم ہو جائے تو ہم درجہ حرارت کم کر دیتے ہیں، یا اگر تاریکی دور کرنا ہوتو سوائے اجالا کرنے کے اور کوئی طریقہ نہیں۔ جسمانی سطح پر یہ درست ہے۔ کسی چیز کے خلاف دوسری قوت استعمال کرنے سے تبدیلی لائی جاتی ہے یہ قدرتی بات ہے۔ لیکن یہ صرف جسمانی سطح ہی پر درست نہیں ہے۔ ذہنی سطح پر بھی یہی بات لاگو ہوتی ہے۔ سو ہمیں اپنے نقطۂ نظر یا تناظر کو درست کرنے کےلیے اس کا متضاد نقطۂ نظر برتنا پڑتا ہے۔ [مثلاً اپنی ذات میں خود غرضی والے رویے یا شک شبہ کی روک تھام کرنا اور دوسروں کی فکر کرنا اور دوستی کے رویے سےپیش آنا۔]
ایک زرد پھول کی مثال لیجیے۔ اگر کسی وجہ سے میں یہ کہوں کہ "یہ سفید ہے" اور بعد میں اسے زرد مان لوں تو یہ دو خیال ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ ایک ہی وقت میں دونوں باتیں درست نہیں ہو سکتیں۔ جس لمحے زرد کا ادراک ہوگا، سفید کا ادراک فوراً چلا جائے گا۔ یہ ایک دوسرے کے عین متضاد ہیں۔ یعنی اندرونی تبدیلی لانے کا طریقہ یہ ہے کہ اس کی الٹ ذہنی کیفیت پیدا کر دی جائے۔
دشواری کی ایک اور وجہ محض بے خبری بھی ہو سکتی ہے۔ مطالعہ، تجزیہ اور تلاش اس کے ازالے کا طریقہ ہے۔ اس کا سبب بے خبری یا جہالت کی بنیاد پر حقیقت سے نگاہ چرانا ہے۔ سو اس کی الٹ، اسے درست کرنے والی قوت تجزیہ ہے۔ اسی طرح خود غرضی کی روک تھام کرنے والی قوت دوسروں کی فکر رکھنا ہے اور اس کے لیے ذہن کی تربیت درکار ہوتی ہے۔ [یا اپنے رویّوں کا تزکیہ کرنا پڑتا ہے۔]
سیکولر اخلاقیات
ذہن کی تربیت کیسے کی جائے۔ [یا اپنے رویّوں کا تزکیہ کیسے کیا جائے] سوال یہ ہے کہ کیا اس معاملے کو مذہب یا روحانیت سے جوڑنے کی کوئی ضرورت ہے اور میرا خیال ہے کہ اس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اب رہا روحانیت کا معاملہ – تو اس کی دو قسمیں ہیں: ایک دین و ایمان کے ساتھ اور دوسری اس کےبغیر۔ بلا دین و ایمان روحانیت کو میں "سیکولر اخلاقیات" کہتا ہوں۔ "سیکولر" سیکولر کا مطلب مذہب کو رد کرنا نہیں ہے بلکہ اس سے مراد وہ رویہ ہے جو سب مذاہب سے یکساں سلوک کرتا ہے اور سب کا برابر احترام کرتا ہے۔ مثال کے طور پر ہندوستان کا آئین سب مذاہب کو احترام دیتا ہے، یہ ایک سیکولر آئین ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پارسی یا زرتشتی جماعت جو چھوٹا سا گروہ ہے – ایک ارب سے زیادہ کی آبادی میں صرف ایک لاکھ افراد ہیں – لیکن فوج اور سیاسی میدان میں ان کی مساوی حیثیت ہے۔
جب ہم سیکولر اخلاقیات کی بات کرتے ہیں تو اس میں وہ اخلاقیات بھی شامل ہے جس کی پابندی کسی دین کے نہ ماننے والوں پر بھی عائد ہوتی ہے۔ لادینسیکولر اخلاقیات کی بنیاد پر ہم اپنے اخلاقیات اور احترام کو جانوروں تک وسیع کر سکتے ہیں۔ اسی طرح سیکولر روحانیت یا اخلاقیات کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ آب وہوا کی نگہداشت کی جائے۔ سو ہمیں اپنے ذہن کی پرورش دین کے حوالے کے بغیر کرنا چاہیے۔ سیکولراخلاقیات کو پروان چڑھانا چاہیے۔ اس کرۂ ارض کے چھ ارب لوگوں کو ایسا ہی کرنا چاہیے۔ لادینسیکولر اخلاقیات پروان چڑھانے کے اس عالمگیر عمل کو مذہبی نظام اور قوت بخش سکتے ہیں۔ اس کے بڑھنے، نشوونما پانے میں یہ ایک مزید مدد ہوگی۔ مذہبی نظام کا مقصد یقینی طور پر اخلاقیات میں کمی کرنا نہیں ہے۔
سو جب ہم سیکولر اخلاقیات کے بارے میں بات کرتے ہیں تو ہمارا رویہ غیر فرقہ وارانہ ہوتا ہے۔ اگر کسی بھی طرح کے مذہب کا ماننے والا سیکولر اخلاقیات کے فروغ کے لیے کام کرتا ہے تو وہ صحیح معنی میں مذہب پر عمل کر رہا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو خواہ وہ کلیسا، مسجد، صومعہ عبادت گاہ جانے والا ہی کیوں نہ ہو، اصل میں ایسا شخص مذہب پر خلوص سے عمل نہیں کر رہا۔