ایک با مقصد زندگی بسر کرنا

تمام ذی حس مخلوق، خصوصاً انسان، دکھ اور سکھ، اچھے اور برے، اور ضرر رساں اور سود مند کے درمیان تفریق کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ان مختلف النّوع جذبات کی شناخت اور ان کے درمیان تمیز کرنے کی صلاحیت کی وجہ سے، ہم سب مسرت کی آرزو اور عدم مسرت سے دوری کے معاملہ میں ایک جیسے ہیں۔

یہاں اگرچہ میں اس الجھاؤ کو سلجھانے کی کوشش نہیں کروں گا کہ یہ مختلف النّوع جذ بات کہاں سے آتے ہیں، مگر جو بات روز روشن کی طرح عیاں ہے وہ یہ کہ ہم مسرت کی پسندیدگی اور دکھ اور مصیبت کی نا پسندیدگی کی اہلیت رکھتے ہیں۔ اس لئیے یہ امر نہائت اہم ہے کہ ہم چین اور ارتباط کی زندگی جو بے چینی اور پریشانی سے مبرّا ہو بسر کریں۔

جہاں تک شانتی اور خوشی کا تعلق ہے، تو یوں سوچنا کہ ہمارا تمام سکون اور مسرت کا منبع خارجی مادی عناصر ہیں غلط ہے۔ اگرچہ یہ ممکن ہے کہ مادی آرام و آسائش  سے ہم اپنی مادی خوشیوں میں اضافہ کر سکتے ہیں اور اپنی بعض طبعی مشکلات کو دور کر سکتے ہیں۔ مگر مادی اشیا سے جو کچھ ہمیں ملتا ہے وہ جسم کی حد تک محدود ہے۔

ویڈیو: چودھویں دلائی لاما ـ «زندگی میں مقصد کی تلاش»
ذیلی سرورق کو سننے/دیکھنے کے لئیے ویڈیو سکرین پر دائں کونے میں نیچے ذیلی سرورق آئیکان پر کلک کریں۔ ذیلی سرورق کی زبان بدلنے کے لئیے "سیٹنگز" پر کلک کریں، پھر "ذیلی سرورق" پر کلک کریں اور اپنی من پسند زبان کا انتخاب کریں۔

جانوروں کی مختلف نسلوں کے برعکس، انسانوں کے اندر سوچنے، تخمینہ لگانے، پرکھنے اور دیرپا منصوبے بنانے کی زبردست صلاحیت پائی جاتی ہے۔ اس وجہ سے، بطور انسان جو دکھ سکھ ہمارے اوپر گزرتا ہے کہیں زیادہ شدید ہوتا ہے۔ اس بنا پر، یہ ممکن ہے کہ انسان کہیں زیادہ دکھ جھیلتے ہیں جس کا تعلق انسان کی سوچنے کی صلاحیت سے ہے۔

مثال کے طور پر، جانوروں کے برعکس، انسان کوئی عارضی خوشی پا کر یا کسی وقتی مشکل کو آسان کر کے مطمٔن نہیں ہو جاتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم انسان دیر پا منصوبے بنانے اور پیشگی شمار و تخمینہ کرنےکی صلاحیت رکھتے ہیں، تو اس لئیے ہم اپنے اور دوسروں کے درمیان تفریق بھی کرتے ہیں۔ اس تفریق کی بنا پر ہم مختلف قوموں، نسلوں اور مذہبوں کی بات کرتے ہیں۔ ہم ان گنت قسم کی تقسیم کرتے ہیں، اور اس کی بنیاد پر، ہم کئی طرح کے غیر مسلسل خیالات اور غلط تصورات کو جنم دیتے ہیں۔ ان کی وجہ سے ہم بعض اوقات حد سے زیادہ امید اور بعض اوقات حد سے زیادہ شک میں مبتلا ہوتے ہیں۔

تو یوں، محض انسانی عقل اور خیال کی بنیاد پر، ہم کئی قسم کی تکلیف اٹھاتے ہیں۔ یہ بات واضح طور پر آریہ دیو کے مجلہ 'چار سو اشلوک کا مقالہ'  (۱۱۔۸) میں مذکور ہے: "جو لوگ صاحب حیثیت ہیں وہ من کا دکھ اٹھاتے ہیں جبکہ عام عوام بدن کی تکلیف سہتے ہیں۔ " اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ مالدار ہیں، صاحب اختیار ہیں، انہیں شائد زیادہ جسمانی تکلیف نہ ہو، مگر ان کے من کو بہت آزار پہنچتا ہے۔ اور عام لوگوں کے معاملہ میں، ان کی جسمانی تکلیف زیادہ ہوتی ہے کیونکہ وہ کافی لباس، خوراک وغیرہ حاصل نہیں کر پاتے۔ پس اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان اپنے انداز فکر کی بنا پر فالتو دکھ جھیلتے ہیں۔
جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا کہ مادی ترقی کے راستے جسمانی تکلیف کو کم کیا جا سکتا ہے۔ البتہ، ہمارے من کے رویہ سے پیدا ہونے والے آزار کو مادی آسائش بڑھانے سے کم نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی ایک روشن مثال وہ صاحب ثروت لوگ ہیں جنہیں ہر قسم کے آرام و آسائش میسّر ہیں، مگر وہ پھر بھی کئی طرح کی ذہنی کوفت کا شکار ہوتے ہیں۔ اس کا مشاہدہ ہم سب کر سکتے ہیں۔ پس اس سے یہ صاف ظاہر ہے کہ ہماری بے کلی،ہمارے مسائل اور ہمارے آزار جو کہ صریحاً ہمارے من کے رویہ کی پرداخت ہیں، ان میں تخفیف اور ان کا اتلاف من کے رویہ میں تبدیلی، نہ کہ مادی وسائل سے کیا جا سکتا ہے۔
اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب ہم مسرت اور عدم مسرت کی بات کرتے ہیں، تو ان کو محسوس کرنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک کا تعلق صریحاً محسوسات سے ہے – یعنی وہ دکھ اور سکھ جس کا تجربہ ہمیں ہمارے حواس خمسہ سے ہوتا ہے – اور پھر ایک دوسرا دکھ اور سکھ کے احساس کا درجہ ہے جس کی بنیاد من کا رویہ ہے۔ ان دونوں میں سے، جو دکھ سکھ ہم من کے راستے محسوس کرتے ہیں وہ حواس کے ذریعہ محسوس کئیے جانے والے سے کہیں زیادہ شدید اور طاقتور ہوتا ہے۔ 

اس کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ اگر آپ کو ہر قسم کی ماد ی آسائشیں میسر ہوں، اور اگر آپ کسی قسم کے طبعی اور جسمانی مسائل اور آزار سے بھی پاک ہوں، مگر پھر بھی اگر آپ کا من شانت نہ ہو، اور آپ ذہنی تکلیف میں مبتلا ہوں تو یہ مادی آسائشیں من کی صعوبت کو کم نہیں کر سکتیں۔ دوسری طرف، اگر آپ کوئی جسمانی بے چینی یا دکھ کا شکار ہیں، لیکن اگر آپ نے اس مشکل صورت حال کو ذہنی طور پر قبول کر لیا ہے  تو آپ جسمانی تکلیف کو بھی برداشت کر لیں گے۔

ایک ایسے شخص کی مثال لیجئیے جو کسی قسم کی مذہبی مشق کرنے کا مصمم ارادہ کئیے ہوۓ ہے۔ تو اگر اس دھرمی پاٹھ کے دوران اگر اسے کئی جسمانی تکلیفیں برداشت کرنا پڑیں؛ پھر بھی، اپنے ایک احساس قناعت اور تشفی کے باعث، اور اپنے ہدف کی واضح تصویر کے پیش نظر، ایسا شخص ان تکالیف کو ایک طرح کا زیور نہ کہ آزار سمجھے گا۔ لہٰذا، کسی انسان کے ارفع و اعلیٰ مقصد کے سامنے جسمانی مشکلات ہیچ ہیں اور وہ من کی مستعد حالت کے پیش نظر ان پر قابو پا لے گا۔ جب ہم کسی اعلیٰ مقصد اور ہدف کے لئیے کام کر رہے ہوں تو جسمانی آزار پر قابو پانے کی ایسی کئی ایک مثالیں ہیں۔ ایسے معاملات میں، اگرچہ ہم کافی جسمانی دکھ جھیلتے ہیں، ہم ان جسمانی تکلیفوں کو ایک زیور جان کر ہنسی خوشی برداشت کرلیتے ہیں۔ 

اس نقطہ کو اختصار کے ساتھ یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ یہ جو دو کیفیتیں جن سے آپ کا واسطہ پڑتا ہے، ایک بذریعہ حواس اور دوسری بذریعہ من، ان دونوں میں سے من والی کیفیت کہیں زیادہ اہم ہے۔
جہاں تک من کے مسائل کا تعلق ہے، جیسا کہ میں نے کہا، وہ مسائل جو من کے رویہ اور من کے نظریات کی پیداوار ہیں، انہیں من کے رویہ میں تبدیلی سے کم اور تلف کیا جا سکتا ہے۔ پس، من کے مسائل کو دور کرنے کا ایک ذریعہ اور ایک طریقہ ہے۔ اس لئیے، ان ذرائع اور ان طریقوں سے واقفیت لازم ہے جن سے ہم من کی مشکلات کو کم یا دور کر سکتے ہیں۔ مزید بر آں، جب ہم من کی ان مشکلات کو کم یا تلف کرنے کے ذرائع اور طریقوں کی بات کرتے ہیں، تو ہمیں اپنی فطری عمدہ صفات کی جانکاری اور شناخت کا ہونا لازم ہے۔ 

مثال کے طور پر، اسے یوں دیکھئیے: اگر آپ انسانی سماج کو غور سے دیکھیں، تو آپ دیکھیں گے کہ ہم سماجی مخلوق ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ایک معاشرے میں رہتے ہیں اور مکمل طور پر ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔ اپنی پیدائش سے لے کر سن بلوغ کو پہنچنے تک جب ہم اپنی دیکھ بھال خود کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں، ہم دوسروں کی کرم فرمائی کے محتاج رہتے ہیں، حتیٰ کہ اپنی جسمانی بھلائی کی خاطر بھی۔ اس کی وجہ ہمارا حیاتیاتی ڈھانچہ اور ہمارا جسمانی قالب ہے۔ ہم دوسروں سے جس قدر زیادہ قرب کا اظہار کریں گے اتنا ہی ہم ایک دوسرے کے لئیے درد مندی اور احساس بڑھائیں گے، لہٰذا، اسی قدر ہمارے من کے چین اور مسرت میں اضافہ ہو گا۔ ان بنیادی انسانی اقدار کی افادیت کی بدولت ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ بنیادی انسانی اقدار اہم ہیں، ضروری ہیں، اور اس لئیے یہ درکار ہیں۔ 

بعض اور مثالوں میں، جیسے کسی تتلی کے بچے، یا کسی کچھوے کی اولاد، یوں معلوم ہوتا ہے کہ تتلی اور کچھوے  کے معاملہ میں ماں اور اولاد کے بیچ کوئی خاص محتاجی نہیں ہے۔ مثال کے طور پر، تتلی کے معاملہ میں، انڈے دینے کے بعد اولاد کا ماں سے تعلق ختم ہو جاتا ہے، اور کچھوے کے معاملہ میں، وہ بس انڈے دیتے ہیں اور پھر غائب ہو جاتے ہیں۔ اگر آپ ماں کو بچوں کے قریب لے کر جائیں بھی، تو میں نہیں سمجھتا کہ یہ بچے اپنے ماں باپ کے لئیے کسی قسم کے پیار کا اظہار کریں گے، کیونکہ انہوں نے روز اول سے ہی غیر محتاجی کی زندگی گزاری ہے۔ اس کی وجہ ان کی گزشتہ زندگی کی عادات یا ان کی جسمانی ساخت ہو سکتی ہے۔ کچھوے کے بچوں کے معاملہ میں ان کی گزشتہ زندگی کی عادات یا ان کی جسمانی ساخت کی بدولت وہ اپنا خیال خود کرنے کے قابل ہیں۔ جب وہ سمندر کی لہروں کی آواز سنتے ہیں تو وہ دھیرے سے سمندر کی جانب حرکت کرتے ہیں اور اپنی دیکھ بھال خود کر لیتے ہیں۔ مائیں یقیناً بچوں کو اپنے پاس نہیں بلاتیں اور نہ ہی انہیں تیرنا سکھاتی ہیں؛ یہ سب کچھ ان کے ہاں نہیں ہوتا۔ تو وہ ایک آزادانہ زندگی گزارتے ہیں اور وہاں ہمیں اولاد اور ماں باپ کے درمیان پیار نہیں ملتا۔

لیکن انسانوں کے معاملہ میں، ہماری جسمانی ساخت کی بدولت، ہم روز پیدائش سے ہی اپنے والدین کے لئیے شدید پیار محبت کا اظہار کرتے یں، خصوصاً اپنی ماں کے لئیے۔ میں ان نقاط کو اس لئیے اجاگر نہیں کر رہا کہ ہم کسی گزشتہ یا آئندہ زندگی کے نظریہ کو تسلیم کریں یا کسی مذہبی عنوان کے طور پر اسے دیکھیں، بلکہ اگر آپ انسانوں کی بقاء اور ان کی پرداخت کا بغور مطالعہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ ہماری بقاء کا انحصار ہی انسانی اقدار، انسانی پیار اور درد مندی پر ہے۔ انسانی بچوں کے معاملہ میں، وقتِ پیدائش سے ہی وہ اپنی ماں کے دودھ کے محتاج ہوتے ہیں، اور پھر دھیرے دھیرے، حتیٰ کہ وہ خود اپنی دیکھ بھال کے قابل ہو جائیں، وہ مکمل طور پر اپنے والدین کی مہربانی پر بھروسہ کرتے ہیں۔ اور بالغ ہو جانے کے بعد بھی وہ دوسرے انسانوں کی نرم دلی کے محتاج ہوتے ہیں۔  

جب تک آپ کا کوئی ساتھی ہے، جب تک کوئی آپ کا خیال رکھنے والا ہے، تو آپ نہائت شانت، پر سکون اور آرام میں محسوس کرتے ہیں۔ پس ایسی زندگی بسر کرنا نہائت ضروری ہے جس میں آپ کسی کو نقصان نہ پہنچائیں اور آپ سب کی حتیٰ المقدور مدد کر سکیں۔ اگر آپ کے اندر ہر ذی حس کے لئیے اس قسم کا پیار اور محبت کا احساس موجود ہے، تو جواباً آپ کو لوگ پسند کریں گے، آپ سے پیار کریں گے، اور بوقت مرگ آپ کو کوئی ڈر، خوف یا ذہنی پریشانی نہیں ہو گی۔

تا ہم جب ہم بالغ ہو جاتے ہیں تو بعض اوقات کسی قسم کی انسانی ذہانت بڑے زور شور سے پیش نظر آتی ہے اور بعض اوقات یہ ذہانت ہمیں کھوکھلی امید دیتی ہے۔ ہم نئے مضامین سیکھتے ہیں، اور اپنی اس ذہانت سے نیا علم حاصل کرتے ہیں۔ بعض اوقات اس علم کی بدولت ہم سوچتے ہیں، خاص طور پر اگر آپ بہت کامیاب ہوں تو آپ سوچ سکتے ہیں: "میں لوگوں کو ڈرا دھمکا سکتا ہوں، میں لوگوں کا استحصال کر سکتا ہوں، کیونکہ میں ذہین ہوں اور صاحب علم ہوں، لہٰذا میرے نزدیک بنیادی انسانی اقدار کوئی اہمیت نہیں رکھتیں۔" آپ کو اس سے ایک قسم کی کھوکھلی امید کا احساس ہوتا ہے،  اور یوں آپ ایک مختلف قسم کا من کا رویہ اور نقطۂ نظر استوار کرتے ہیں،جس سے آپ لوگوں کا استحصال کر سکیں، ان کو ڈرا دھمکا سکیں، یہ مان کر کہ ایسا کرنے سے آپ کو کچھ ملنے والا ہے۔

تاہم حقیقت یہ ہے کہ آپ ایسی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں جس میں آپ دوسروں کی خوشی کی پرواہ نہیں کرتے، تو دھیرے دھیرے آپ دیکھیں گے کہ لوگ آپ کے دشمن بن جاتے ہیں۔ آپ خواہ دائں دیکھیں یا بائں، آگے یا پیچھے، آپ کو شائد ہی کوئی ایسا شخص ملے گا جو آپ کو پسند کرتا ہو۔ اور آپ کے اس قسم کی منفی زندگی گزارنے کی بدولت آپ کی موت کے وقت لوگ خوشی منائں گے کہ اب آپ رخصت ہو رہے ہیں۔ آپ بذات خود اپنی زندگی کے بارے میں سوچ کر پچھتائں گے کہ آپ نے کیسی زندگی گزاری۔ آپ کو یہ جان کر سخت مایوسی ہو گی کہ جس قسم کی آپ نے زندگی بسر کی اس کی وجہ سے کوئی بھی آپ کو نہیں پوچھتا۔ تو اس سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ اگر آپ ان بنیادی انسانی اقدار کو نظر انداز کریں گے تو سچی خوشی اور دائمی سکون کی تمنا محال ہے۔ اور آخر کار جب آپ کو موت آ جاۓ تو آپ کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہو گا، کوئی آپ کو چاہنے والا نہیں ہو گا، آپ اس دنیا سے خالی ہاتھ ، کھوکھلے پن کا شدید احساس لئیے، اور نہائت مایوس کن حالات میں رخصت ہوں گے۔ تو ایسی زندگی جس میں دوسری ذی حس مخلوق کو نظر انداز کیا جاۓ، زندگی گزارنے کا نہائت احمقانہ ڈھنگ ہے۔ 

دوسی طرف، اگر آپ ان بنیادی انسانی اقدار کو پروان چڑھائں اور ان کی پذیرائی کریں، جس میں انسانی ذہانت اور حکمت بھی شامل ہو، تو آپ اپنے اندر بے پناہ انسانی درد مندی پیدا کر سکیں گے۔ زندگی بسر کرنے کا یہ طریقہ دانا لوگوں کا طریقہ ہے؛ اس طریقہ سے آپ اپنی زندگی کو با مقصد بنا سکتے ہیں۔

Top