مسرت کیا ہے؟
ہر کوئی پرمسرت زندگی کا خواہاں ہے، تو سوال پیدا ہوتا ہے، مسرت کیا ہے؟ دیرپا خوشی کیا شے ہے؟ ہمیں اس کا غائرانہ جائزہ لینا چاہئے۔ خوشی یا مسرت جو زیادہ تر حواسِ خمسہ کے راستے آتی ہے – ایسے تجربات جیسے کوئی خوبصورت شے دیکھنا، کوئی نفیس چیز سننا، اچھا ذائقہ یا خوشبو – یقیناً کسی حد تک باعثِ تسکین ہوتے ہیں۔ مگر جو مسرت ان حسی تجربات سے ملتی ہے وہ نہائت عارضی ہے۔ جونہی کچھ خاص سہولتیں مہیا ہوتی ہیں، آپ کو کسی قسم کی خوشی یا مسرت ملتی ہے، اور جونہی کوئی بلند، پریشان کن آواز مخل ہوتی ہے، تو مسرت غائب ہو جاتی ہے۔ یا اگر کچھ لوگ ٹیلیویژن سے محظوظ ہورہے ہیں، تو ایک گھنٹہ گذرنے پر وہ ٹیلیویژن نہ ہونے کی وجہ سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں۔ بعض لوگ تفننِ طبع کے بیحد دلدادہ ہوتے ہیں اور وہ دنیا کے مختلف حصوں کو سفر کرتے ہیں، اور نت نئی جگہیں، تہذیبیں، موسیقی اور ذائقوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ میرے خیال میں اس کی وجہ من کی تربیت کے ذریعہ اندرونی سکون پیدا نہ کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔
مگر وہ لوگ جو سالہا سال تک درویشانہ زندگی بسر کرتے ہیں، وہ یقیناً پرمسرت زندگی گذارتے ہیں۔ ایک بار بارسلونا میں میں ایک کیتھولک راہب سے ملا، جس کی انگریزی میرے جیسی تھی لہٰذا مجھے اس سے بات کرنے کا زیادہ حوصلہ ہوا! منتظم نے مجھے بتایا کہ راہب نے پانچ سال تک پہاڑوں میں درویشانہ زندگی بسر کی تھی۔ میں نے اس سے پوچھا کہ پہاڑوں میں اس نے کیا کیا، اور اس نے مجھے بتایا کہ اس نے محبت کے متعلق سوچا یا اس پر مراقبہ کیا۔ جب اس نے اس بات کا ذکر کیا، تو اس کی آنکھوں میں ایک خاص قسم کا تاثر تھا، جس سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ وہ حقیقتاً من کے سکون سے لطف اندوز ہوا تھا۔ تو یہ من کے سکون کی ایک مثال ہے جس میں حسی لذتوں پر تکیہ نہیں، بلکہ کسی خاص اندرونی اقدار کو استوار کرنے کا معاملہ ہے۔ محبت پر مستقل غور کرنے سے، اس سے سچا سکون نصیب ہوا۔
تو اب جب میں لیکچر دیتا ہوں، میں ہمیشہ اس بات پر زور دیتا ہوں کہ جسمانی آسائش کی خاطر مادی سہولتیں بہت ضروری ہیں، مگر مادیت کبھی بھی من کے آرام کا باعث نہیں بن سکتی۔ بعض اوقات لوگ جب دولتمند ہو جاتے ہیں، تو وہ لالچی ہو جاتے ہیں، اور مزید پریشان ہو جاتے ہیں۔ نتیجتًہ ایک ناخوش انسان ظہور میں آتا ہے۔ لہٰذا، خوشگوار زندگی کی خاطر، محض مادی چیزوں پر بھروسہ نہ کریں۔ مادی اشیا ضروری ہیں، لیکن اس کے علاوہ ہمیں اپنی داخلی اقدار پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔ ہم خواہ مذہبی عقیدہ رکھتے ہیں یا نہیں، اگر ہم انسانیت کا دامن پکڑے رکھیں، تو داخلی سکون ضروری ہے۔
من کی شانتی اور اچھی صحت
بعض سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ان کی تحقیق کے مطابق، زیادہ پریشانی فشارِ دم اور ایسے کئی مسائل پیدا کرتی ہے۔ اور بعض طبی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ مستقل خوف، غصہ اور نفرت ہمارے جسم کے نظامِ دفاع کو کمزور کر دیتے ہیں۔ لہٰذا اچھی صحت کے لئے سب سے اہم عناصر میں سے ایک من کا سکون ہے، کیونکہ صحتمند بدن اور صحتمند من کا باہمی گہرا رشتہ ہے۔ میرے ذاتی تجربہ کے مطابق، دو سال قبل کسی پریس کانفرنس میں، ایک اخباری نمائندے نے میرے دوبارہ جنم لینے کے بارے میں پوچھا۔ میں نے ازراہِ مزاح اس کی جانب دیکھا، اپنا چشمہ اتارا اور اس سے پوچھا، "میرے چہرے کے مطابق، کیا میرا پنر جنم قریب ہے یا نہیں؟!" وہ کہنے لگا کہ کوئی جلدی نہیں!
حال ہی میں میں یورپ میں تھا اور میرے کچھ پرانے دوستوں نے میری پرانی تصویریں جو کہ بیس، تیس، بلکہ چالیس سال قبل لی گئی تھیں ان کا موازنہ کرنے لگے، اور سب نے کہا کہ میرا چہرہ ابھی بھی جوان لگتا ہے۔ میں نے زندگی میں، جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں بہت مصائب جھیلے ہیں، اور کئی ایک عناصر کی بدولت خوف، مایوسی، اور تنہائی سے واسطہ پڑا ہے۔ مگر میرا خیال ہے کہ میرا من نسبتاً پرسکون ہے۔ کبھی کبھار مجھے غصہ آیا ہے، مگر بنیادی طور پر میرے من کی حالت بہت شانت ہے۔
میں ان جوان خواتین سے جو بناؤ سنگھار پر بہت سا پیسہ خرچ کرتی ہیں ازراہِ مذاق کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ اولاً تو آپ کے خاوند شکائت کر سکتے ہیں کہ یہ بہت مہنگا ہے! بہر حال، خارجی حسن ضروری ہے، مگر داخلی حسن زیادہ اہم ہے۔ آپ کا چہرہ خوبصورت ہو سکتا ہے، مگر ایک بد صورت بھی بغیر آرائشِ جمال کے بھلی لگ سکتی ہے اگر اس میں پرخلوص مسکراہٹ اور پیار بھرا ہو۔ یہ ہے اصلی حسن: سچی قدروقیمت ہمارے اندر موجود ہے۔ خارجی اشیا پر بہت سا پیسہ خرچ ہوتا ہے – ہمیشہ بڑی دکانیں اور بڑی منڈیاں۔ مگر اندرونی سکون پر کوئی پیسہ خرچ نہیں ہوتا! ان داخلی اقدار پر غور کرو اور ان سے مانوس ہو جاؤ، اور اس طرح دھیرے دھیرے نقصان دہ جذبات کم ہو جائں گے۔ اس سے من کا سکون پیدا ہوتا ہے۔
ایک درد مند رویہ یا دوسروں کی بہبود کا احساس خود اعتمادی پیدا کرتا ہے۔ جب آپ میں خود اعتمادی ہوتی ہے تو آپ اپنے تمام کام شفاف من، سچائی اور ایمانداری سے کر لیتے ہیں۔ اس سے دوسروں کے ساتھ بھروسہ پیدا ہوتا ہے، اور بھروسہ دوستی کی بنیاد ہے۔ ہم انسان سماجی حیوان ہیں جنہیں دوستوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوست طاقت یا دولت، تعلیم یا علم سے نہیں آتے، دوستی کی اصل بنیاد اعتماد ہے۔ پس اغیار کی فلاح اور ان کی زندگیوں کا احترام بات چیت کی بنیاد ہے۔