مراقبہ ایک ایسا آلہ جس کی مدد سے ہم اپنے من کو شانت، پریشانی کو کم اور عمدہ صفات کو اجاگر کر سکتے ہیں۔ بعض جوشیلے نو وارد بغیر بودھی تعلیمات کے بارے میں زیادہ جانکاری لینے کے اسے فوراً ہی شروع کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم اس میں درجہ بہ درجہ ترقی کرنا ایک احسن طریقہ ہے۔ جوں جوں ہمیں مہاتما بدھ کی تعلیمات سے زیادہ واقفیت ہوگی تو ہمارا مراقبہ گہرا ہوتا چلا جاۓ گا۔
یہاں ہم مراقبہ کرنے کے عمومی نکات کا جائزہ لیں گے۔ ایک تجربہ کار مراقبہ کنندہ کسی وقت اور کسی جگہ مراقبہ کر سکتا ہے۔ نو آموختہ کے لئیے بہتر ہو گا اگر وہ کسی گوشہ تنہائی کا انتخاب کریں کیونکہ ہمارے گرد و نواح کا ہمارے اوپر گہرا اثر ہوتا ہے۔
مراقبہ کرنے کی جگہ
ہم مراقبہ کرنے کے لئیے کس ایسے کمرے کا تصور کر سکتے ہیں جس میں موم بتیاں، مجسمے اور اگر بتی ہو، اور اگر ہم ایسا چاہتے ہیں تو درست ہے۔ لیکن، خوش قسمتی یہ ہے کہ ایسا لمبا چوڑا انتظام لازم نہیں؛ لیکن ایک ضروری بات یہ ہے کہ کمرہ صاف ستھرا ہونا چاہئیے۔
اگر ہمارے ارد گرد کا ماحول منظّم ہو گا، تو اس سے من میں بھی نظم پیدا ہو گا۔ ایک منتشر ماحول من پر برا اثر ڈالتا ہے۔
شروع میں پرسکون ماحول بہت ساز گار ہوتا ہے۔ یہ مشکل بھی ہوسکتا ہے اگر ہم کسی پُر ہنگامہ شہر میں مقیم ہوں، تو ایسی صورت میں بہت سے لوگ علی الصبح یا رات دیر گۓ مراقبہ کی کوشش کرتے ہیں۔ آخر کار شور ہمارے کام میں مخل نہیں ہو گا، مگر شروع میں یہ کافی پریشان کن ہو سکتا ہے۔
موسیقی اور مراقبہ
بدھ مت موسیقی کے ہمراہ مراقبہ کو مناسب نہیں سمجھتا کیونکہ اس کا مطلب شانتی کے لئیے کسی خارجی عنصر پر تکیہ کرنا ہے۔ جبکہ ہمارا مقصد داخلی وسیلوں سے شانتی کو جنم دینا ہے۔
مراقبہ کا اندازِ نشست
سب سے اہم بات آرام سے بیٹھنے کا عمل ہے جس میں ہماری پُشت سیدھی، اور کندھے، گردن اور چہرے کے پٹھے ڈھیلے چھوڑے ہوں۔ اگر کرسی پر بیٹھنا زیادہ آرام دہ لگتا ہے تو وہ بھی ٹھیک ہے۔ یہ نشست کوئی تکلیف دہ چیز نہیں ہونی چاہئیے۔ بعض زِن مراقبوں میں ہلنے جلنے کی قطعی ممانعت ہوتی ہے۔ بعض اور قسم کے مراقبوں میں اگر آپ اپنی ٹانگوں کو ہلانا چاہیں تو ہلائیں – اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔
مراقبے کا وقت
جب ہم شروع کریں تو بڑے تھوڑے عرصہ کے لئیے مراقبہ کریں – محض تین سے پانچ منٹ کے لئیے کافی ہے۔ ہم دیکھیں گے کہ اس سے زیادہ عرصہ کے لئیے اپنی توجہ مرکوز کرنا مشکل ہے۔ ایک مختصر دورانیہ جس میں ہماری توجہ زیادہ مرتکز ہو ایسے لمبے دورانیہ سے بہتر ہے جس میں ہمارا من بھٹک جاۓ، تصورات میں کھو جاۓ، یا ہم نیند کی آغوش میں چلے جائیں!
ایک نہائت ضروری بات یاد رکھنا لازم ہے کہ ہر شے تغیّر پذیر ہے۔ بعض دن آپ کا مراقبہ اچھا رہے گا، اور بعض دن نہیں۔
یہ لازم ہے کہ ہمارے شریر اور من شانت ہوں، اور یہ کہ ہم اپنے اوپر زیادہ دباؤ نہ ڈالیں۔ بعض دن ہماری طبیعت مائل بہ مراقبہ ہو گی اور بعض دن نہیں ہو گی۔ پیش رفت ہمیشہ یک سمت نہیں ہوتی، اس لئیے ایک دن ہم خوب محسوس کرتے ہیں اور دوسرے روز ایسا محسوس نہیں کرتے۔ چند برس کی استقامت کے بعد ہم محسوس کریں گے کہ عمومی طور پر ہمارا مراقبہ بہتر ہوتا جا رہا ہے۔
مراقبہ کس کثرت سے کیا جاۓ
اس پر قائم رہنا اہم بات ہے۔ اگر ہم روزانہ مراقبہ کر سکیں تو یہ سب سے احسن ہے، شروع میں محض چند منٹ سے آغاز کر کے۔ پہلے چند منٹ کے بعد ایک مختصر وقفہ کے بعد دوبارہ شروع کر سکتے ہیں۔ ایسا کرنا گھنٹہ بھر تکلیف دہ حالت میں بیٹھنے سے بہتر ہے۔
سانس پر مراقبہ
بیشتر لوگوں کا پہلا مراقبہ خاموش حالت میں بیٹھ کر سانس پر توجہ مرکوز کرنے پر مشتمل ہوتا ہے۔ پریشانی کی حالت میں شانت ہونے کے لئیے یہ طریقہ نہائت مفید ہے۔
- ناک کے راستے معمول کے مطابق سانس لیں – نہ زیادہ تیز، نہ بہت آہستہ، نہ زیادہ گہرا، نہ زیادہ ہلکا۔
- دو میں سے کسی ایک جگہ پر سانس پر توجہ مرتکز کریں – اپنی توانائی بڑھانے کے لئیے سانس کے ناک سے اندر باہر آنے جانے پر، اگر ہم نیند سے مغلوب ہیں، یا اگر ہمارے من آوارہ ہیں تو اسے قابو میں لانے کے لئیے سانس کو پیٹ میں آتے جاتے محسوس کریں
- ذہن کو خبردار رکھتے ہوۓ سانس کو دس دس کے چکر میں اندر باہر کھینچیں – جب من آوارگی پر آمادہ ہو تو دھیرے سے اس کی توجہ سانس کی طرف لائیں۔
یہاں ہم اپنے من کو بند نہیں کر رہے۔ اصل چیز اس بات کی جلد از جلد شناسائی ہے کہ ہمارا من بھٹک گیا ہے اور اسے واپس لانا ہے؛ یا، اگر ہم کند اور نیند سے مغلوب ہونے لگے ہیں، تو اپنے آپ کو جگانا ہے۔ یہ کوئی آسان کام نہیں! ہم اکثر اپنی سستی اور من کی آوارگی سے واقف ہی نہیں ہوتے – خصوصاً اگر کوئی پریشان کن جذبہ اس میں شامل ہو، جیسے کسی ایسے شخص کے بارے میں خیال جس سے ہم ناراض ہوں۔ مگر سانس ہر دم موجود ہوتا ہے؛ یہ ایک ایسا مستحکم عنصر ہے جس کی جانب ہم کسی وقت بھی لوٹ سکتے ہیں۔
سانس پر مراقبہ کے فوائد
پریشانی دور کرنے میں معاونت کے علاوہ سانس پر مراقبہ کے اور بھی فوائد ہیں۔ اگر ہم ان انسانوں میں سے ہیں جو ہمیشہ گم سم رہتے ہیں تو سانس پر توجہ دینے سے ہمارے قدم مضبوط ہو سکتے ہیں۔ بعض ہسپتالوں میں خصوصاً امریکہ میں، سانس پر مراقبہ کو درد کو کم کرنے کے لئیے استعمال کیا گیا ہے۔ یہ نہ صرف جسمانی درد کا علاج کرتا ہے بلکہ جذباتی درد کو بھی کم کرتا ہے۔
دوسروں کے لئیے پیار پیدا کرنا
ایک بار جب ہم سانس پر مراقبہ کے ذریعہ اپنے من کو شانت کرلیں، تو ہم اپنے کشادہ دل اور کشادہ کیفیت سے دوسروں کے لئیے مزید پیار پیدا کر سکتے ہیں۔ شروع میں ہم یوں نہیں کہہ سکتے،" اب میں سب سے محبت کرتا ہوں،" اور پھر سچ مچ ایسا ہی محسوس کریں۔ اس کے پس پشت کوئی قوت نہیں ہو گی۔ ہم پیار استوار کر نے کے لئیے فکر کا ایک عقلی طریق کار استعمال کرتے ہیں
- تمام ذی حس مخلوق آپس میں مربوط ہے، ہم سب یہاں اکٹھے ہیں۔
- مسرت چاہنے اور عدم مسرت سے پرہیز کے معاملہ میں ہم سب یکساں ہیں۔
- ہر کوئی مقبولیت چاہتا ہے؛ کوئی بھی ناپسندیدگی یا عدم توجہی کا شکار ہونا نہیں چاہتا۔
- سب ہستیاں، بشمول میرے، ایک جیسے ہیں۔
چونکہ ہم سب آپس میں جڑے ہوۓ ہیں، تو ہم محسوس کرتے ہیں:
- کاش ہر کوئی خوش ہو اور سب کے لئیے خوشی کے اسباب پیدا ہوں۔ کیا ہی خوب ہو اگر سب خوش ہوں اور کسی کو کوئی مسٔلہ درپیش نہ ہو۔
ہم یوں سوچتے ہیں، اور اپنے دل پر سورج کی مانند ایک گرم، پیلی روشنی کا تصور کرتے ہیں جو ہر سمت پھیلی ہو اور جس میں سب کے لئیے پیار ہو۔ اگر ہماری توجہ بھٹکنے لگے، تو ہم اسے واپس اس احساس کی جانب لاتے ہیں،" کاش ہر کوئی خوشی سے ہمکنار ہو۔"
روز مرہ زندگی کے لئیے مراقبہ
اگر ہم ایسے مراقبے کریں تو ہم ایسے آلات بنا سکتے ہیں جو ہماری روز مرہ زندگی میں کام آئیں۔ ہمارا مدعاء انتہا یہ نہیں کہ ہم اس قابل ہو جائیں کہ تمام دن سانس پر ارتکاز کر سکیں، بلکہ ایسی مہارت پیدا کرنا جس سے ہم جب چاہیں ارتکاز کر سکیں۔ اگر ہم کسی سے ہمکلام ہیں اور مستقل یہ سوچ رہے ہیں کہ "یہ کب بک بک بند کرے گا؟!" تو ہماری مراقبہ کی مشق ہمیں یہ سوچنے کے قابل کرے گی،" یہ بھی ایک انسان ہے جو یہ چاہتا ہے کہ اسے پسند کیا جاۓ اور اس کی بات سنی جاۓ، جیسے کہ میں چاہتا ہوں۔" اس طرح مراقبہ ہماری نجی زندگی میں دوسروں سے معاملہ کرنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔