بدھ مت میں درد مندی سے مراد دوسروں کے لئیے دکھ اور دکھ کے اسباب سے نجات کی آرزو ہے۔ اس کی بنیاد دوسرے لوگوں کے جذبات کے احساس پر ہے، خصوصاً جب ہم خود ایسی ابتلا سے گزرے ہوں۔ اگر ہمیں اس سے کبھی واسطہ نہ بھی پڑا ہو جس سے کہ وہ گزر رہے ہیں، پھر بھی ہم اپنے آپ کو ان کی جگہ تصور کر کے اندازہ کر سکتے ہیں کہ یہ کس قدر ہولناک ہو گا۔ یہ سوچ کر کہ ہم اس سے نجات پانے کے کس قدر شدید آرزو مند ہوں گے، تو ہم دوسروں کے لئیے بھی اس سے چھٹکارا پانے کی زبردست خواہش کریں گے۔
پیار اور درد مندی ضروریات ہیں نہ کہ سامان عیش و عشرت۔ ان کے بغیر انسانیت کی بقاء ناممکن ہے - چودھویں دلائی لاما
درد مندی ہمارے دل و دماغ کو دوسروں کے لئیے کھول دیتی ہے، اور یوں ہمیں تنہائی اور خود آراستہ نفس پرست سوچ کے چنگل سے آزادی دلاتی ہے۔ زندگی میں مسائل سے نبرد آزمائی میں ہم سب یکساں ہیں، اور جب ہم دوسروں کے ساتھ تعلق کو محسوس کرتے ہیں تو ہم تنہائی اور پریشانی پر قابو پا لیتے ہیں۔ سائینس نے بھی یہ ثابت کیا ہے کہ درد مندی ہمیں مسرت اور احساس تحفظ دیتی ہے۔ دوسروں کے دکھ درد کو سہنا اور ان کی مدد کرنے کی خواہش کرنا ہمیں اندرونی قوت اور خود اعتمادی بخشتی ہے۔ اگر ہم درد مندی پیدا کرنے کی مشق کریں تو یہ ہمارے لئیے آسودگی کا بھر پور منبع بن جاتی ہے۔
[دیکھئیے: درد مندی کیسے استوار کی جاۓ]
درد مندی فعال ہونی چاہئیے جو ہمیں دوسروں کے دکھ درد کو کم کرنے کی ذمہ داری قبول کرنے کی ترغیب دے۔ ممکن ہے کہ ہماری معاونت کی استعداد محدود ہو، مگر پھر بھی ہم سے جو بن پڑے ہمیں ضرور کرنا ہے کیونکہ ایسا کرنا کہ جب لوگ ناخوش ہوں اور مصیبت جھیل رہے ہوں اور ہم کھڑے منہ دیکھا کریں، نا قابلِ برداشت ہے۔
درد مندی اس وقت نہائت کار گر ہوتی ہے جب اس میں فہم و فراست کا امتزاج بھی ہو، تا کہ ہم مناسب لائحہ عمل کا انتخاب کر سکیں۔ اگر ہم جذباتی لحاظ سے اس درجہ معتبر ہیں کہ اگر ہم مدد نہ کر پائیں یا ہماری راۓ کار گر نہ ہو تو نہ ہی پریشان ہوں اور نہ ہی حوصلہ ہاریں تو ایسی صورت میں درد مندی ہماری کمزوریوں پر قابو پانے اور اپنی صلاحیتوں سے بھر پور فائدہ اٹھانے میں زبردست محرک بن جاتی ہے۔