آج میں دنیا بھر کے تمام بودھی بھائی بہنوں کو جو یوم ویسک (بدھا پورنیما) منا رہے ہیں مبارک باد دینے میں بےحد مسرت محسوس کرتا ہوں۔
آج سے ۲،۶۰۰ سال قبل شکیامونی بدھا لمبینی میں پیدا ہوا، اس نے بودھ گیا میں روشن ضمیری پائی اور کوشی نگر میں وفات پائی، پھر بھی میں سمجھتا ہوں کہ اس کی دی ہوئی تعلیم عالمگیر ہے اور آج بھی اہم ہے۔ دوسروں کی بھلائی کی زبردست خواہش لئیے ہوئے، روشن ضمیری پانے کے بعد مہاتما بدھ نے اپنی باقی ماندہ زندگی بطور ایک بھکشو کے گزاری، ہر کوئی جو سننے کا تمنّائی ملا اس سے اپنے تجربہ کو بانٹا۔ اس کی دونوں باتیں، ایک تو دست نگر نمو کا نظریہ اور دوسرے اس کی کسی کو نقصان نہ پہنچانے، بلکہ سب کی مدد کرنے کی نصیحت، عدم تشدد کے طور طریقہ پر زور دیتی ہیں۔ آج کے دور میں بھلائی کی خاطر یہ نہائت طاقتور عنصر ہے، کیونکہ عدم تشدد، جس کی بنیاد درد مندی ہو، ہمارے بھائی بندوں کے لئیے کار آمد ہے۔
یہ دنیا جس میں باہمی محتاجی افزوں پذیر ہے، ہماری اپنی فلاح و بہبود کا انحصار بہت سارے غیر لوگوں پر ہے۔ جن مشکلات سے ہم آج دوچار ہیں ان کا تقاضا ہے کہ ہم انسانیت کی وحدانیت کو تسلیم کریں۔ ہمارے درمیان مصنوعی تفریق کے باوجود، سکون اور مسرت کی تمنا کے معاملہ میں ہم سب برابر ہیں۔ بدھ مت کے پاٹھ کا ایک پہلو مراقبہ کے ذریعہ ہمارے من کی تربیت ہے۔ اپنے من کی تربیت کے سلسلہ میں، ہمیں پیار، درد مندی، سخاوت اور صبر جیسی عمدہ صفات پیدا کرتے ہوئے، ان سے فائدہ اٹھانے کی خاطر انہیں ضرور اپنی روز مرہ زندگی کی عادت بنانا ہے۔
ابھی کچھ عرصہ پہلے تک ہی، دنیا کی متنوّع بودھی برادریاں ایک دوسرے کے وجود سے قریب قریب بےخبر تھیں اور اس امر سے بھی کہ ان کے مابین کس قدر مشترک باتیں پائی جاتی ہیں۔ آج بدھ مت کے تمام مسالک جو دنیا کے مختلف حصوں میں پروان چڑھے ہر کسی کی دسترس میں ہیں جو ان میں دلچسپی رکھتا ہو۔ مزید یہ کہ ہم جو ان مسالک پر کاربند ہیں اور ان کی تعلیم دیتے ہیں اب ایک دوسرے سے مل سکتے ہیں اور سیکھ سکتے ہیں۔
ایک بودھی بھکشو ہونے کے ناطے، میں اپنے آپ کو نالندا مسلک کا وارث تصور کرتا ہوں۔ نالندا جامعہ میں جس طرح بدھ مت کی تعلیم دی جاتی تھی اور اس کا مطالعہ کیا جاتا تھا، جو کہ عقل اور دلیل کی بنیاد پر تھا، ہندوستان میں بدھ مت کی استواری کے انتہائی عروج کو ظاہر کرتی ہے۔ اگر ہم اکیسویں صدی کے بدھ متی بننا چاہتے ہیں تو ہمیں چاہئیے کہ ہم بدھ مت کی تعلیمات کا مطالعہ اور تجزیہ کریں، جیسا کہ وہاں بہت سارے لوگوں نے کیا، اور محض ایمان پر ہی تکیہ نہ کر بیٹھے رہیں۔
مہاتما بدھ کے زمانہ کی نسبت اب دنیا بہت بدل چکی ہے۔ جدید سائنس نے طبعی دنیا کی عمدہ فہم و فراست استوار کی ہے۔ دوسری جانب، بودھی سائنس نے انسان کے من اور جذبات کی کاروائی کی تفصیلی فہم بیان کی ہے، یہ وہ شعبے ہیں جو جدید سائنس کے لئیے نسبتاً نئے ہیں۔ پس دونوں کے پاس ایسا اہم علم ہے جس سے باہمی طور پر مستفید ہو سکتے ہیں۔ میرے خیال میں ان دو شعبوں کے اختلاط سے نئی دریافتوں کے امکانات بڑھیں گے جس سے ہماری زندگی کی مادی، جذباتی اور سماجی فلاح و بہبود میں اضافہ ہو گا۔
اگرچہ بطور بدھ مت کے پیروکار ہونے کے ہم مہاتما بدھ کی تعلیمات کے علمبردار ہیں، لیکن یہ پیغام ہمارے باقی ماندہ انسانیت کے ساتھ تعامل کے حوالے سے بھی معنی خیز ہے۔ اس بات کی بنیاد پر کہ تمام مذاہب سب کی بھلائی چاہتے ہیں، ہمیں ادیان کے مابین مفاہمت کو فروغ دینا چاہئیے۔ خاص طور پر اس وقت جب کہ دنیا ایک بڑے بحران سے دوچار ہے، جبکہ ہم اپنی صحت کو خطرہ محسوس کرتے ہیں اور جو عزیز و اقرباء ہم سے بچھڑ گئے ان کے لئیے ماتم کناں ہیں، ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہئیے کہ وہ کونسی شے ہے جو ہمیں بطور انسانی خاندان متحد کرتی ہے۔ پس ہمیں ایک دوسرے کی درد مندی کے ساتھ مدد کرنی چاہئیے، کیونکہ ایک عالمی سطح پر منظم باہمی ملاپ سے ہی ہم ان بے مثال مشکلات جن سے ہم دوچار ہیں کا مقابلہ کر پائں گے۔
دلائی لاما، ۷ مئی ۲۰۲۰