ہم سب نے مہاتما بدھ ایک روحانی گرو کے بارے میں سن رکھا ہے جو کہ ۲،۵۰۰ برس پہلے بھارت میں گزرا اور اس نے وہاں درس دیا۔ مگر روائتی تاریخی بدھا، جو شکیا مونی بدھا کہلاتا ہے، ہی محض کوئی بدھا نہیں ہے۔ بدھ مت میں بے شمار بدھا ہیں، اور در اصل بدھ مت کی یہ بنیادی تعلیم ہے کہ دنیا کا ہر شخص بذات خود بدھا بننے کی اہلیت رکھتا ہے۔
Who is buddha 01

تاریخی، روائتی بدھا  

بیشتر روائتی سوانح حیات کے مطابق وہ شخص جو بعد میں مہاتما بدھ کہلایا پانچویں صدی قبل از مسیح میں شمالی ہندوستان کے ایک معزز گھرانے شاکیہ میں پیدا ہوا۔ اس کا نام سدھارتھ گوتم رکھا گیا، اور اس کی پیدائش کے جشن کے موقع پر ایک دانش ور درویش بنام اسیتا نے کہا کہ یہ بچہ بڑا ہو کر یا تو بڑا بادشاہ بنے گا یا عظیم مذہبی پیشوا۔ سدھارتھ کا باپ شدھو دھن شکیا خاندان کا سر براہ تھا، اس کی شدید خواہش تھی کہ اس کا بیٹا اس کے نقش قدم پر چلے، اس مقصد کے حصول کی خاطر اس نے بیٹے کو ہر اس چیز سے بچانے کا عزم کیا جو اس کے بڑا بادشاہ بننے میں رکاوٹ بن سکتی تھی۔ 

نوجوان سدھارتھ کو خاندانی محل میں سب سے الگ تھلگ رکھا گیا اور اسے ہر طرح کا سامان تعیّش مثلاً ہیرے جواہرات، خوبصورت عورتیں، کنول کے پھول کے تالاب اور دلکش چڑیا گھر میسر تھے۔ اسے ہر طرح کی بد نصیبی اور آزار کی پہچان سے محفوظ رکھا گیا، مثلاً بوڑھے اور بیمار لوگوں کا محل میں داخلہ منع تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ سدھارتھ نے تعلیم اور کھیلوں میں کمال حاصل کیا، یسودھرا سے شادی کی جس سے ایک بچہ ہوا جس کا نام راحُل رکھا گیا۔ 

تقریباً تیس برس تک سدھارتھ نے عیش و آرام کی زندگی گزاری، لیکن اس تجسس کے ساتھ کہ محل کی چار دیواری کے باہر کیا ہے۔ "اگر اس زمین کو میری ملکیت میں آنا ہے تو میں اسے اور اس کے مکینوں کو دیکھوں تو سہی؟" آخر کار شدھو دھن نے اپنے بیٹے کے محل سے باہر جانے کا بند و بست کرنا شروع کیا۔ سڑکوں کی صفائی کی گئی، بوڑھے اور بیمار لوگوں کو چھپا دیا گیا اور سدھارتھ کو اس کے گاڑی بان چنّا نے گلی کوچوں کی سیر کرائی جہاں لوگوں نے ہاتھ ہلا کر اور مسکرا کر اس کا استقبال کیا۔ مگر پھر بھی اس بڑے مجمع میں سدھارتھ نے سڑک کے کنارے ایک خمیدہ، شکن دار انسان دیکھا۔ حیران اور پریشان ہوتے ہوئے اس نے چنّا سے پوچھا کہ اسے کیا ہوا ہے۔ چنّا نے کہا،" جو تم دیکھ رہے ہو یہ ایک بوڑھا انسان ہے، بڑھاپے کا شکار جو ہم سب کی قسمت میں لکھا ہے۔" سدھارتھ نے ایک بیمارشخص اور ایک لاش کو بھی دیکھا، دونوں ایسی چیزیں جن سے اس کی آنکھیں مزید ناگزیر شدنی پر کھلیں – جو کہ زندگی کے معمولات ہیں – ایسی باتیں جن سے اس کو بھی واسطہ پڑے گا۔ 

آخر کار اسے ایک مقدس ہستی ملی، ایک ایسا شخص جو دکھ سے نجات کی تلاش میں تھا۔ ان تین باتوں سے سدھارتھ کو احساس ہوا کہ اسے محل کی زندگی میں ہر دکھ سے محفوظ مگر دھوکے میں رکھا گیا ہے۔ اس بوڑھے انسان کو دیکھ کر اس کے اندر دکھ سے نجات پانے کے طریق کار کی جستجو بیدار ہوئی۔ 

یہ تو ممکن نہیں کہ سدھارتھ نے اس سے پہلے کبھی کسی عمر رسیدہ یا بیمار کو نہ دیکھا ہو، مگر یہ اس بات کی تمثیل ہے کہ وہ کیسے – بلکہ بے شک ہم سب بھی – دکھ سے آنکھیں چرا کر جیتے ہیں۔ محل میں سدھارتھ کو بہت بے چینی محسوس ہونے لگی۔ اب تک اس نے اپنے عزیز و اقارب کے درمیان آرام کی زندگی بسر کی تھی۔ لیکن اب یہ جان لینے کے بعد کہ ایک روز وہ اور اس کے تمام لواحقین بڑھاپے اور بیماری کا شکار ہوں گے اور چل بسیں گے، تو وہ کیسے چین سے بیٹھ سکتا ہے۔ سب کے لئیے اس کا علاج تلاش کرنے کی خاطر ایک رات وہ چوری چھپے محل سے نکلا تا کہ وہ ایک آوارہ درویش کی سی زندگی گزار سکے۔ 

سدھارتھ کو کئی عظیم گرو ملے، اور اگرچہ ان کی راہنمائی میں اس نے مراقبہ کے ذریعہ ارتکاز کے بلند درجات تک رسائی پائی، مگر وہ غیر مطمٔن رہا کیونکہ مراقبہ کی یہ حالتیں دکھ کا مسٔلہ حل کرنے میں ناکام رہیں۔ اس نے درویشانہ طور اطوار اختیار کئیے جس میں جسم کو خوراک اور آرام سے محروم کیا اور بیشتر وقت مراقبہ میں رہنے لگا۔ چھ برس تک اس قسم کا چلہ کاٹنے سے وہ پتلی جھِلّی میں ملبوس ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گیا۔

ایک روز دریا کے کنارے اس نے ایک استاد کو ایک چھوٹے بچے کو کوئی ساز بجانے کی ہدایات دیتے سنا۔ "تار ڈھیلے نہیں ہونے چاہئیں کیونکہ پھر تم ساز کو بجا نہیں پاؤ گے۔ اسی طرح یہ زیادہ کھنچے ہوئے بھی نہ ہوں ورنہ ٹوٹ جائں گے۔" اس سے اسے اندازہ ہوا کہ اس کی درویشانہ زندگی بے سود تھی۔ محل کی عیش کی زندگی کی طرح درویشانہ زندگی بھی ایک حد سے متجاوز صورت تھی جو کہ دکھ کا مداوا نہ کر سکی۔ پس ان دونوں کے درمیان کا راستہ ہی اس کا حل ہے۔

اسی لمحے وہاں سے ایک نار جس کا نام سجاتا تھا گزری جس نے سدھارتھ کو کچھ دودھ چاول پیش کئیے جو کہ پچھلے چھ  برس میں یہ اس کا پہلا معقول طعام تھا۔ اس نے اسے کھایا جو کہ اس کے فقیر منش دوستوں کے لئیے باعث حیرت تھا، اور ایک انجیر کے درخت تلے جا کر بیٹھ گیا۔ اس نے وہیں یہ فیصلہ کر لیا،"میں اس جگہ سے نہیں ہلوں گا جب تک کہ مجھے مکمل گیان حاصل نہ ہو جائے۔" اس درخت کے نیچے ، جسے اب بودھی پیڑ کہتے ہیں، سدھارتھ کو مکمل روشن ضمیری حاصل ہوئی اور تب سے وہ مہاتما بدھ یعنی کہ بیدار ہستی بن گیا۔ 

روشن ضمیری پانے کے فوراً بعد مہاتما بدھ نے چار بلند و بالا سچائیوں اور آٹھ منزلہ راہ پر درس دینا شروع کر دیا۔ اگلے چالیس برس اس نے ہنوستان کے شمالی علاقوں کا سفر کیا اور جو گیان اسے حاصل ہوا تھا اسے دوسرے لوگوں میں بانٹا۔ اس نے سنگھا نام کے ایک سنیاسی ونش کی بنیاد ڈالی جن کا کام مہاتما بدھ کی تعلیمات کو بھارت، ایشیا اور پوری دنیا میں پھیلانا تھا۔ ۸۰ برس کی عمر میں مہاتما بدھ کا کُشی نگر میں انتقال ہوا۔ اس سے پہلے اس نے سنگھا سے پوچھا کہ کیا ان کے دل میں کوئی شک شبہ تھا یا کیا انہیں کسی نکتہ کی تشریح درکار تھی۔ اپنے چیلوں کو دھرم اور ضبط نفس پر بھروسہ کرنے کا درس دیتے ہوئے اس نے اپنے آخری الفاظ ادا کئیے: "اے بھکشوو سنو، تمہارے لئیے یہ میری آخری نصیحت ہے۔ دنیا کی ہر شے رو بہ تغیّر ہے۔ وہ دائمی نہیں ہیں۔ اپنی ذاتی نجات پانے کے لئیے محنت سے کام کرو۔" اس کے ساتھ ہی اس نے دائں ہاتھ کروٹ لی اور چل بسا۔

بدھا کون ہیں؟ 

ہم نے تاریخی، روائتی بدھا کے متعلق جانا، لیکن بدھا بننے یا ہونے سے کیا مراد ہے؟ سادہ الفاظ میں بدھا وہ ہے جو روشن ضمیر ہے۔ بدھا گہری نیند سے بیدار ہو چکے ہیں۔ یہ وہ والی گہری نیند نہیں جو ہم تمام رات پارٹی کرنے کے بعد سوتے ہیں، یہ ہمارے وجود کے متعلق الجھن اور غلط فہمی کی گہری نیند ہے جو ہر لمحہ ہمارے اوپر طاری ہے کہ ہمارا وجود کیسا ہے، اور ہر شے کا وجود کیا اور کیسا ہے۔ 

بدھا خدا یا دیوتا نہیں ہیں، اور نہ ہی وہ خالق ہیں۔ تمام بدھا شروع میں ہماری طرح ہی ہوتے ہیں، غلط فہمی، پریشان کن جذبات اور بہت سارے مسائل کے مارے ہوئے۔ لیکن درد مندی اور دانش وری کی راہ پر دھیرے دھیرے چلتے ہوئے، اور ان دو صفات کو استوار کرنے کی جہد سے، کسی انسان کے لئیے اپنی خاطر روشن ضمیری پا لینا ممکن ہے۔ 

بدھا میں تین اہم صفات ہوتی ہیں: 

۱۔ دانش وری – بدھا من کی رکاوٹوں سے پاک ہوتا ہے، پس وہ ہر بات کو ٹھیک طرح سے سمجھتے ہیں، خاص طور پر یہ کہ اوروں کی مدد کیسے کی جائے۔ 

۲۔ درد مندی – اوپر بیان کی گئی حکمت کے پیش نظر، یہ جانتے ہوئے کہ ہم سب ایک دوسرے سے منسلک ہیں، بدھا نہائت درد مند ہوتے ہیں اور وہ سب کی مدد کرنے کے اہل ہوتے ہیں۔ دانش بنا درد مندی کے ایک انسان کو بہت بڑا عالم تو بنا سکتی ہے، لیکن ایسے لوگ معاشرے کے کسی کام کے نہیں۔ درد مندی انہیں دوسرے لوگوں کے لئیے کام کرنے پر اکساتی ہے۔ اس لئیے بدھا اپنے اندر یہ صفت پیدا کرتے ہیں تا کہ وہ ہم سب سے رابطہ رکھ سکیں۔ 

۳۔ صلاحیتیں – دکھ کا خاتمہ کرنے کی صلاحیت اور دوسرے لوگوں کی مدد کرنے کی زبردست خواہش، ان دو صفات کی بدولت بدھا دوسروں کی مدد کرنے کی حقیقی طاقت اور اہلیت رکھتے ہیں، جسے وہ ہمیں روشن ضمیری پانے کے مختلف ماہرانہ طریقے سکھا کر سر انجام دیتے ہیں۔

بدھا اس بات کو جانتے ہیں کہ جیسے وہ دکھ جھیلنا نہیں چاہتےاسی طرح دوسرے لوگ بھی مسائل نہیں چاہتے۔ ہر شخص مسرت کا متلاشی ہے۔ تو بدھا نہ صرف اپنے لئیے بلکہ دنیا کی ہر ہستی کے لئیے بھی کام کرتے ہیں ۔ وہ دوسروں کا بھی اتنا ہی خیال رکھتے ہیں جتنا کہ اپنا۔ 

اپنی درد مندی کے زیر اثر وہ تمام دکھ کو مٹانے کا حل سکھاتے ہیں، جو کہ دانش وری کہلاتی ہے – حقیقت اور افسانہ کے درمیان تمیز کرنے کی صلاحیت۔ اس حکمت کی مدد سے ہم تمام منفی عناصر سے نجات پا سکتے ہیں: غلط فہمی، نفس پرستی اور منفی جذبات۔ ہم بھی کامل بدھا بن سکتے ہیں اور من کا مکمل سکون حاصل کر سکتے ہیں۔

خلاصہ

بدھا وہ ماہر گرو ہیں جو اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ ماہرانہ طریقے استعمال کر کے کیسے ہماری مدد کریں۔ وہ درد مند ہیں اور ہر وقت ہماری مدد کرنے کو راضی اور تیار ہیں، ہمیں صحیح راہ پر ڈال کر۔ سدھارتھ کی مانند ہم بھی بیشتر اوقات دنیاوی دکھ درد سے بہرہ ور نہیں ہوتے۔ لیکن ہم اس کو نظر انداز کرنے کی جتنی مرضی کوشش کریں، بڑھاپا، بیماری اور موت تو ہم سب کو آئے گی ہی۔ مہاتما بدھ کی کہانی سے ہمیں یہ ترغیب ملتی ہے کہ دکھ کی حقیقت کو سمجھ کر اور اس کا مقابلہ کر کے ہم زندگی میں درپیش شکست خوردگی سے اپنے آپ کو بچا سکتے ہیں۔ اُس کی زندگی کے واقعات اور تعلیمات ہمیں سکھاتی ہیں کہ ہمیں اپنے تباہ کن جذبات اور الجھن پر قابو پانے کے لئیے پوری تندہی سے کام کرنا ہے تا کہ، اُس کی طرح، ہم خود دوسرے لوگوں کی مدد کرسکیں۔

Top