بدھ مت ایسے طریقوں کا مجموعہ ہے جو ہمیں حقیقت کے درست ادراک سے اپنی صلاحیتوں کو استوار کرنے میں معاون ہوتے ہیں۔
اس کی بنیاد آج سے ۲،۵۰۰ برس قبل بھارت میں سدھارتھ گوتم – جسے ہم مہاتما بدھ کے نام سے جانتے ہیں، نے ڈالی – بدھ مت پورے ایشیا میں پھیلا اور اب یہ دنیا کا چوتھا بڑا مذہب ہے۔ مہاتما بدھ نے اپنی بیشتر زندگی وہ طریقے سکھانے میں گزاری جن سے اسے گیان ملا تھا، تا کہ دوسرے لوگ بھی خود سے روشن ضمیر مہاتما بدھ بن سکیں۔ اس نے محسوس کیا کہ اگرچہ ایک مہاتما بدھ بننے کی صلاحیت کے معاملہ میں سب برابر ہیں، لیکن ترجیحات، پسند اور اہلیت کے معاملہ میں لوگوں میں بہت فرق پایا جاتا ہے۔ اس کو مد نظر رکھتے ہوۓ، اس نے کئی ایک طریقے بتاۓ جن سے انسان اپنی کمزوریوں پر قابو پا کر اپنی پوری صلاحیتوں کو بروۓ کار لا سکتا ہے۔
جن سماجوں نے بدھ مت کو گلے لگایا ان میں فرق فرق پہلوؤں پر زور دیا جاتا ہے، اور اگرچہ بدھ مت کی کئی اقسام ہیں مگر ان سب کی بنیادی تعلیم ایک ہے۔
بنیادی بودھی تعلیمات – چار بلند و بالا سچ
مہاتما بدھ کی سب سے بنیادی تعلیم چار بلند و بالا سچائیاں ہیں، جو کہ چار حقائق ہیں جیسا کہ برگزیدہ ہستیوں کا مشاہدہ ہے:
پہلا بلند و بالا سچ: اصل مسائل
اگرچہ زندگی میں بہت ساری خوشیاں بھی ہیں، ہر ہستی – چھوٹے سے کیڑے سے لے کر، بے گھر شخص اور ایک ارب پتی تک – سب کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پیدائش اور موت کے درمیانی وقفہ میں، ہم عمر رسیدہ ہوتے جاتے ہیں اور بیمار ہوتے ہیں، ہمارے عزیز فوت ہو جاتے ہیں۔ ہم اپنے من کی مراد پوری نہ ہونے، یا غیر مطلوب حالات سے دوچار ہونے پر شکست خوردگی اور مایوسی کا شکار ہوتے ہیں۔
دوسرا بلند و بالا سچ: مسائل کا اصل سبب
ہمارے مسائل کی بنیاد پیچیدہ حالات اور وجوہات ہوتی ہیں، مگر مہاتما بدھ نے کہا کہ اصل وجہ ہماری حقیقت سے لاعلمی ہے: یعنی ہمارے من کس طرح وجود کے نا ممکن طریقوں کا تصور بنا کر اسے اپنے اوپر، ہر شخص کے اوپر اور ہر شے کے اوپر پیش کرتے ہیں۔
تیسرا بلند و بالا سچ: مسائل کی صحیح روک تھام
مہاتما بدھ نے بتایا کہ ہماری تمام مسائل سے نجات ان کے اسباب کا قلع قمع کر کے ممکن ہے تا کہ ہمارا پھر کبھی ان سے واسطہ نہ پڑے: اور وہ سبب ہے ہماری لاعلمی۔
چوتھا بلند و بالا سچ: من کا سچا راستہ
مسائل تب ختم ہوتے ہیں جب ہم حقیقت کا صحیح ادراک کر کے لاعلمی کو مٹا دیتے ہیں۔ اس کا حصول تب ممکن ہوتا ہے جب ہم یہ جان لیں کہ ہم سب ایک دوسرے سے منسلک ہیں اور ایک دوسرے کے دست نگر ہیں۔ اس بنیاد پر ہم سب کے لئیے برابر کا پیار اور درد مندی استوار کرتے ہیں۔ ایک بار جب ہماری غلط فہمی جو ہمیں اپنے اور دوسروں کے وجود بارے ہوتی ہے دور ہو جاۓ، تو ہم اپنے اور غیروں کے لئیے بھلائی کے کام کر سکتے ہیں۔
مہاتما بدھ کی تعلیمات کا دائرہ
دلائی لاما بدھ مت کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:
- من کی بودھی سائنس- ذاتی تجربہ کی مناسبت سے تصور، خیال اور جذبات کیسے کام کرتے ہیں
- بدھ فلسفہ – اخلاقیات اور منطق، اور بدھ مت کا حقیقت کا تصور
- بدھ دھرم – گزشتہ اور مستقبل کی زندگیوں پر ایمان، کرم، رسومات اور دعا۔
بدھ سائنس من کے شناختی افعال کا لمبا چوڑا نقشہ جس میں حسّیت، ارتکاز، توجہ، آگاہی، یاد داشت اور ہمارے دونوں مثبت اور منفی جذبات شامل ہیں، پیش کر کے جدید علم الاعصاب کی تکمیل و تعدیل کرتی ہے۔ اپنے مثبت اعصابی تانے بانے تشکیل دے کر، ہم اپنے من کی باوصف صلاحیتوں میں اضافہ کر سکتے ہیں۔
بودھی فکر عقیدہ کی نسبت تحقیق پر زیادہ بھروسہ کرتا ہے، اس لئیے بودھی فکر کے لئیے سائنسی دریافت نہائت سود مند ہے – چودھویں دلائی لاما
طبیعی سطح پر، بودھی سائنس جدید ترقی یافتہ نظاموں کا احاطہ کرتی ہے جس میں بےشمار امراض کا علاج شامل ہے۔ خارجی سطح پر، یہ مادہ اور توانائی کا تفصیلی تجزیہ پیش کرتی ہے جس میں قدریائی طبیعات سے متماثل کئی باتیں ہیں۔ یہ کائنات کی آفرینش، زندگی اور اختتام کو بھی زیربحث لاتی ہے، جس میں موجودہ کائنات سے قبل کائناتوں کے سلسلہ کا پر زور ذکر ہے جس کی کوئی ابتدا نہیں۔
بودھی فلسفہ ایسے مسائل مثلاً باہمی انحصار، اضافیت اور علت و معلول پر بات کرتا ہے۔ یہ منطق کا ایک مفصل نظام پیش کرتا ہے جو نظریہ دستہ جات اور بحث مباحثے پر قائم ہے، جس سے ہمیں اپنے من کے ناقص تصورات کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
بودھی اخلاقیات کا انحصار اس بات پر ہے کہ انسان کے اپنے لئیے اور دوسروں کے لئیے کیا مفید ہے اور کیا نْقصان دہ۔
قطع نظر اس امر کے کہ ہم عقیدہ مند ہیں یا لا ادری، خواہ ہم خدا پر ایمان رکھتے ہیں یا کرم پر، ہر کوئی اخلاقیات کو اپنا سکتا ہے – چودھویں دلائی لاما
اس میں بنیادی انسانی اقدار مثلاً رحمدلی، ایمانداری، سخاوت اور صبر کو اہم جاننا اورانہیں استوار کرنا شامل ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ دوسروں کو نقصان نہ پہنچانے کی پوری پوری کوشش بھی۔
بدھ دھرم ایسے موضوعات مثلاً کرم، گزشتہ اور آنے والی زندگیاں، پنر جنم کا نظام، پنر جنم سے چھٹکارا، اور روشن ضمیری کا حصول سے معاملہ رکھتا ہے۔ اس میں جاپ، مراقبہ اور پوجا شامل ہیں۔ بدھ مت کی کوئی مقدس کتاب نہیں ہے، جیسے کہ "بودھی بائبل،" کیونک ہر مسلک کی اپنی کتاب ہے جس کی بنیاد اصلی تعلیمات ہیں۔ تبتی مسلک کی بہت سی کتابیں ہمارے 'اصلی کتب' کے شعبہ میں دستیاب ہیں۔
لوگ کسی جگہ کسی وقت پوجا کر سکتے ہیں، اگرچہ بیشتر یا تو مندر میں یا گھر میں مورتی کے سامنے پوجا کو پسند کرتے ہیں۔ پوجا کا مقصد اپنی تمنائں بر لانا نہیں، بلکہ اپنی دروں شکتی، حکمت اور درد مندی کو اجاگر کرنا ہے۔
[دیکھئیے: درد مندی کیسے استوار کی جاۓ]
خوراک کے متعلق کوئی قوانین نہیں ہیں، لیکن بیشتر گورو اپنے چیلوں کو صلاح دیتے ہیں کہ جہاں تک ممکن ہو سبزی خور بنیں۔ مہاتما بدھ نے بھی اپنے پیروکاروں کو شراب اور منشیات سے منع کیا۔ بدھ عبادت کا مقصد ذہنی خبرگیری اور ضبط نفس پیدا کرنا ہے، لیکن نشہ اور دُھت حالت میں ہم انہیں کھو بیٹھتے ہیں۔
بدھ مت راہبانہ طور طریقہ پر چلتا ہے جس میں بھکشو مرد اور عورتیں شامل ہیں، جو سینکڑوں پیمان باندھتے ہیں جس میں تجرّد پر سختی سے کاربند رہنا شامل ہے۔ وہ اپنے سر منڈاتے ہیں، چولے پہنتے ہیں، اور آشرموں میں رہتے ہیں جہاں وہ مطالعہ، مراقبہ، پاٹھ اور عوام کے لئیے رسومات ادا کرتے ہیں۔ آج کل کئی عام لوگ بھی بدھ مت کا مطالعہ کرتے ہیں اور بدھ مراکز میں مراقبہ کرتے ہیں۔
بدھ مت کا دروازہ سب کے لئیے کھلا ہے
مہاتما بدھ جو کہ ہم جیسا ہی ایک انسان تھا، اس نے دیکھا کہ ہمارا درحقیقت وجود کیسے ہے، اس نے اپنی تمام کمزوریوں پر قابو پایا اپنی صلاحیتوں سے بھرپور استفادہ کیا؛ بدھ مت میں ہم اسے "روشن ضمیری" کہتے ہیں۔ [دیکھئیے: روشن ضمیری کیا ہے؟] مہاتما بدھ محض ہاتھ کی ایک جنبش سے ہمارے مسائل حل نہیں کر سکتا۔ اس کے بجاۓ اس نے ہمیں وہ راہ دکھائی جس پر چل کر ہم زندگی کے مسائل سے نجات پا سکتے ہیں اور من کی عمدہ صفات – پیار، درد مندی، سخاوت، دانش وری اور کئی ایک – کو استوار کر سکتے ہیں۔
ان صفات کو استوار کرنے کے بارے میں ہدایات سب کے لئیے دستیاب ہیں – خواہ ان کی ثقافت یا مذہب کچھ ہی ہو۔ بدھ مت خدا یا دیوتاؤں کے چکر میں نہیں پڑتا، بلکہ محض ہمیں تعلیمات کو پرکھنے کے لئیے کہتا ہے ایسے جیسے کہ ہم کوئی نادر شے خرید رہے ہوں۔ یوں ہمیں مہاتما بدھ کی تعلیم کے جوہر کا پتہ چلتا ہے – اخلاق، درد مندی اور دانش – جس سے ہم قدرتی طور پر نقصان دہ اعمال سے گریز کرتے ہیں اور فعال ڈھنگ سے اچھے کاموں میں مشغولیت اختیار کرتے ہیں جو ہمارے لئیے اور غیروں کے لئیے سود مند ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ وہ ہوتا ہےجس کی ہم سب برابر تمنّا کرتے ہیں: مسرت اور خوش حالی۔