روایات میں شاکیہ مُنی بودھ المعروف بہ گوتم بدھ کا زمانہ سن ۵۶۶ قبل مسیح سے سن ۴۸۵ قبل مسیح بتایا گیا ہے۔ شمال مرکزی ہند ان کا علاقہ تھا۔ بدھ مت کی تحریروں میں ان کی زندگی کے بارے میں بہت سے باہم مختلف بیان ملتے ہیں جن کی مزید تفصیلات، رفتہ رفتہ، وقت کے ساتھ سامنے آتی رہیں۔ ان تفصیلی بیانات کی صحت کا تعیّن اس لئیے مشکل ہے کیونکہ بدھ مت کی اولین تحریریں مہاتما بدھ کی رحلت کے تین سو سال بعد کہیں جا کر لکھی گئی تھیں۔ تاہم کچھ تفصیلات اگر دوسری تفاصیل کے مقابلے میں قدرے بعد میں منظرِ عام پر آئی ہوں تو انہیں محض اس لیے غلط کہہ کر رد نہیں کیا جاسکتا کہ یہ بعد میں لکھی گئی تھیں کیونکہ کتنی ہی باتیں زبانی روایات کی صورت میں محفوظ ہوتی رہتی ہیں ۔
عموماً مہاتما بدھ سمیت بدھ مت کے فضلاء کی سوانح نصیحت، سبق آموزی اور اخلاقی تربیت کی غرض سے تالیف کی جاتی تھیں نہ کہ انہیں تاریخی اعتبار سے محفوظ کیا جائے۔ خصوصاً سوانح تو ترتیب ہی اس انداز میں دیے جاتے تھے کہ بدھ مت کے پیرو کاروں کو روحانیت کی راہ پر چلنا سکھا سکیں، اس کا شوق دلا سکیں۔ وہ راہ جو مکتی اور روشن ضمیری (نروان) کے مقام تک لے جاتی ہے۔ اس لیے اگر مہاتما بدھ کی جنم کہانی سے ہمیں فائدہ اٹھانا ہے تو ہمیں چاہیے کہ اسے اسی حوالے سے سمجھیں اور اس سے جو سبق حاصل ہوتے ہیں ان کا تجزیہ کریں۔
مآخذ
مہاتما بدھ کی زندگی کے سب سے پرانے مآخذ یہ ہیں: تھراواد صحیفوں میں سے پالی زبان کے کئی سوتّا جو "درمیانی دورانیے کے خطبات کا مجموعہ" (پالی: مجھیما نکایا) سے ہیں اور ہنایان بدھ مت کے مختلف مکاتب فکر میں پائی جانے والی بہت سی ونایا تحریریں جن کا تعلق رہبانیت کے قواعدِ تربیت سے ہے۔ لیکن ان سب تحریروں میں مہاتما بدھ کی جنم کہانی کے صرف چند ہی پہلو ملتےہیں۔
اس کا پہلا تفصیلی تذکرہ دوسری صدی قبل مسیح کے اواخر میں بودھ شاعری میں ملتا ہے مثلاً ہنایان بدھ مت کے مہاسانگھی مکتب فکر کی کتاب "معاملات عظیم" میں ہے۔ یہ مجموعہ "تین بڑی ٹوکری" جیسے مجموعوں سے الگ ہے۔ اس میں سابقہ روایات پر کچھ اضافہ نظر آتا ہے مثلا یہ تفصیل کہ مہاتما بدھ کسی شاہی خانوادے کے شہزادے تھے۔ اسی طرح کا ایک اور شعری مجموعہ "لمبے کھیل کا سوتر" ہنایان بدھ مت کے سرواستیواد مکتب فکر میں بھی پایا جاتا ہے۔ بعد میں اس کھیل کو مہایان نے اپنا لیا اور اپنے انداز میں پیش کیا۔ یہ مستعار تحریر کچھ اضافوں اور تفصیل کے ساتھ سامنے آئی مثلا اس میں بتایا گیا کہ شاکیہ مُنی کو جنموں پہلے روشن ضمیری کا مقام مل چکا تھا اور وہ شہزادہ سدھارتھ کی صورت میں صرف اس لیے بعد کو ظاہر ہوئے کہ دوسروں کی رہنمائی کریں اور ان کو روشن ضمیری تک پہنچنے کا راستہ بتائیں۔
بالآخر ان میں سے کچھ جنم کہانیاں"تین بڑی ٹوکری" جیسے مجموعوں میں شامل کر دی گئیں۔ سب سے مشہور تحریر پہلی عیسوی صدی میں لکھی گئی۔ اس کے مصنف اس عہد کے شاعر اشواگھوش تھے اور عنوان "بودھ کے کارنامے" تھا۔ تنتروں میں اس کی دیگر صورتیں بھی ملتی ہیں جیسے "چکرا سموار" جو بعد میں سامنے آئیں۔ اس میں ہمیں یہ بیان ملتا ہے کہ جب وہ شاکیہ مُنی کے روپ میں "دور رس امتیازی آگاہی کے سوتر" کی تعلیم دے رہے تھے تو اسی سمے مہاتما بدھ وجردھار کی صورت میں ظاہر ہو کر تنتر بھی سکھاتے تھے۔
اس میں سے ہر بیان ہمیں کچھ بتاتا ہے، سکھاتا ہے اور وجدان دیتا ہے۔ آئیے پہلے ان تحریروں کو دیکھیں جو مہاتما بدھ کے تاریخی حالات بیان کرتی ہیں۔
پیدائش، ابتدائی زندگی، ترکِ دنیا
قدیم ترین تذکروں کے مطابق شاکیہ مُنی شاکیا کی ریاست کے ایک متمول، اونچے، جنگجو خاندان میں پیدا ہوئے۔ شاکیا ایک چھوٹی سی ریاست تھی جس کی راجدھانی، کپل واستو، آج کے ہندوستان، نیپال کے سرحدی علاقے میں تھی۔ ان تحریروں میں ایسا کوئی ذکر نہیں ملتا کہ وہ شاہی خاندان کے شہزادے کے طور پر پیدا ہوئے۔ بعد کے تذکروں میں یہ بیان نظر آتا ہے کہ وہ شہزادے تھے اور ان کا نام سدھارتھ تھا۔ ان کے والد کا نام شُدهودن تھا۔ ان تذکروں نے بعد میں جو تحریری صورت اختیار کی اس میں ان کی والدہ کا نام مایا دیوی بھی ملتا ہے اور یہ ذکر بھی کہ مہاتما بدھ کا معجزاتی حمل انہیں خواب میں نظر آیا کہ چھ دانتوں والا ایک سفید ہاتھی ان کے پہلو میں داخل ہوا ہے۔ اسیتا نام کے گیانی نے پیش گوئی کی کہ بچہ یا تو بہت بڑا بادشاہ ہو گا یا بڑا مہاتما۔ اس کے بعد تذکرے میں یہ بیان بھی ملتا ہے کہ کپل واستو سے کچھ فاصلے پر لمبینی جھنڈ میں ماں کے پہلو سے ان کی پاک ولادت ہوئی اور جہاں انہوں نے سات قدم چل کر کہا، "میں آ گیا" اور پھر ان کی والدہ کی زچگی میں وفات ہوئی۔
جوانی میں مہاتما بدھ کی زندگی عیش و عشرت میں گذری۔ ان کی شادی ہوئی، ایک بیٹا ہوا جس کا نام راہل تھا۔ بعد کی کتابوں میں ان کی بیوی کا نام یشودھرا بتایا گیا ہے۔ ۲۹ سال کی عمر میں مہاتما بدھ نے گرہستی کی زندگی ترک کر دی، شاہی وراثت چھوڑی اور گھومنے، مانگنے والے روحانی سالک بن گئے۔
مہاتما بدھ کے ترک دنیا پر نظر ڈالنے کےلیے اہم ہے کہ اسے ان کے زمانے اور ان کے معاشرے کے پس منظر میں دیکھا جائے۔ جب مہاتما بدھ نے روحانیت کی تلاش میں گھر چھوڑا تو اپنے بیوی بچے کو عسرت و افلاس کی زندگی میں نہیں چھوڑا۔ ان کی کفالت یقینی طور پر ان کا دولتمند اور وسیع کنبہ کرسکتا تھا۔ فوجی خاندان کا فرد ہونے کی حیثیت سے ایک نہ ایک روز مہاتما بدھ کو بلاشبہ گھر سے نکل کر میدان جنگ میں جانا ہی تھا جسے ایک مرد کا فریضہ سمجھ کر قبول کرلیا جاتا تھا۔
بیرونی دشمنوں کے خلاف لا متناہی جنگیں لڑی جاسکتی ہیں لیکن اصل جنگ تو وہ ہوتی ہے جو اپنے داخلی دشمنوں سے لڑی جاے۔ مہاتما بدھ یہی جنگ لڑنے کے لیے نکلے تھے۔ اس غرض سے مہاتما بدھ کا گھر بار چھوڑ کر نکلنا یہ بتاتا ہے کہ روحانیت کے متلاشی کا فریضہ ہے کہ اپنی ساری زندگی اسی جستجو میں وقف کر دے۔ اگر ہماری موجودہ جدید دنیا میں ہم اپنے کنبے کو چھوڑ کر راہب بننا چاہیں تویہ ضروری جانیں کہ گھر والوں کی اچھی دیکھ بھال ہوتی رہے۔ اس کا مطلب بال بچے ہی نہیں بلکہ بوڑھے ماں باپ بھی شامل ہیں۔ گھر بار چھوڑیں یا نہ چھوڑیں روحانیت کے متلاشی بدھ مت کے ہر پیروکا فرض ہے کہ اپنی تکلیف کم کرنے کے لئے دنیا کی لذتوں کی عادت پر قابو پا ئے جیسا کہ مہاتما بدھ نے کیا تھا۔
پیدائش، عمر افزونی، بیماری، موت، پنر جنم، اداسی اور پریشانی کے ادراک کے ذریعہ مہاتما بدھ دکھ پر غالب آنا چاہتے ہیں ۔ بعد کی کہانیوں میں، محل سے باہر شہر دکھانے کے لیے مہاتما بدھ کو ان کا ایک رتھ بان چنّا لے جاتا ہے۔ شہر میں جب ان کی نظر ان لوگوں پر پڑی جو بیمار، بوڑھے یا مردہ اور سنیاسی تھےتو چنّا نے ان کو ہر ایک کی تفصیل بتائی۔ یوں مہاتما بدھ نے اس اصل دکھ کی شناخت کی جس سے ہر شخص کو گذرنا پڑتا ہے اور اس دکھ سے نجات کا راستہ ڈھونڈھنے کی کوشش کی۔
یہ واقعہ جہاں مہاتما بدھ کو صراط روحانیت پر ایک رتھ بان سے مدد ملی، "بھگوت گیتا " کی اس حکایت سے ملتا جلتا ہے جس میں ارجن کو ان کا رتھ بان، کرشن یہ بتاتا ہے کہ سورما کا فرض ہے کہ میدان جنگ میں اترے اور چاہے اپنے رشتے داروں ہی کے خلاف کیوں نہ ہو لڑائی میں حصہ لے۔ ہندومت اور بدھ مت دونوں صورتوں میں اپنی آرام دہ زندگی کی چاردیواری سے باہر نکل کر کوشش اور حق کی تلاش میں ہم ایک عمیق تر وقعت کا احساس پاتے ہیں۔ یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ رتھ ذہن کا ایک وسیلہ ہے جو اسے مُکش کی طرف لے جاتا ہے اور رتھ بان کے کلمات اسے چلانے والی طاقت کی علامت ہیں جو تلاش حق میں سرگرداں ہے۔
گیان اور روشن ضمیری
مجرد، جہاں گرد، متلاشیٔ روحانیت کے طور پر مہاتما بدھ نے ذہنی استقامت اور بے شکل جذب کے مختلف درجات تک پہنچنے کے طریقے دو استادوں سے سیکھے۔ مکمل مراقبہ اور ارتکاز کی ان گہری کیفیتوں تک پہنچ کر وہ اگرچہ بڑے دکھ اور عام دنیاوی خوشی سے بالا ہو چکے تھے لیکن وہ مطمئن نہیں ہوئے تھے۔ انہوں نے دیکھا کہ یہ کیفیات صرف عارضی آرام تو دے سکتی تھیں، مگر ان داغدار محسوسات سے مستقل نجات نہیں جہاں گہری اور عالمی دکھ تکلیف کو دور کرنے کے وہ خواہاں تھے۔ انہوں نے اپنے پانچ ساتھیوں سمیت تیاگ کی سخت زاہدانہ زندگی اختیار کی لیکن اس سے بھی یہ گہرے مسائل حل نہ ہو سکے جن کا تعلق بے اختیار وارد ہونے والے جنم در جنم یعنی سمسار سے تھا۔ بعد کی تحریروں میں یہ ذکر بھی آیا ہے کہ مہاتما بدھ نے چھ سال کا فاقہ دریائے نائیرنجن کے کنارے ختم کیا جب ایک دوشیزہ سجاتا نے انہیں دودھ چاول کا پیالہ پیش کیا۔
ہمارے لیے مہاتما بدھ کی مثال یہ ظاہر کرتی ہے کہ نشہ آور چیزیں کھا کر مست ہونے کا تو کیا ذکر انسان کو محض پوری طرح شانت ہو جانے اور مراقبہ میں "اونچا" چلے جانے پر بھی قانع ہو کر بیٹھ نہیں رہنا چاہیے۔ کسی گہرے خواب نما سکوت میں چلے جانا یا اپنے بدن کو اذیت دینا بھی کوئی علاج نہیں ہے۔ ہمارا مقصد مکتی اور روشن ضمیری ہے اور ہمیں اس تک پہنچنا چاہیے اور ان تمام روحانی طریقوں پر مطمئن نہیں ہونا چاہیے جو اس مقصد تک رسائی فراہم کرنے سے قاصر ہوں۔
تیاگ کی اس زاہدانہ روش کو ترک کر کے مہاتما بدھ جنگل میں تنہا غور و فکر کرنے لگےتاکہ خوف پر قابو پا سکیں۔ دل بہلانے اور مزہ لینے کی بے اختیار کر دینے والی تلاش کی تہہ میں خود پسندی کا جو رویہ اور اپنی "انا" کی ناممکنہ ہستی کو پکڑ میں لانے کا جو عمل کار فرما ہوتا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ شدت سے خوف کی تہہ میں کام کر رہا ہوتا ہے۔ اسی لیے دسویں صدی عیسوی کے ہندوستانی دھرم رکشت نے اپنی کتاب "تیز دھار ہتھیاروں کا پہیہ" میں ایک تمثیل استعمال کی ہے جس میں زہریلے پودوں کے جنگل میں مور گھومتے دکھائے ہیں جو علامت ہیں ان بودھیستووں کی جو لالچ، غصہ اور ناسمجھی کے زہریلے جذبات کی کایا پلٹ کر کے ان کو اپنی خودرائی اور "انا" کی ناممکنہ ہستی پر قابو پانے کے لیے استعمال کر لیتے ہیں۔
آخر کار شدید گیان مراقبہ کے بعد مہاتما بدھ کو ۳۵ سال کی عمر میں مکمل روشن ضمیری حاصل ہو گئی۔ بعد کی تحریروں میں ان کو موجودہ ہندوستان کے علاقے بودھ گیا میں بودھی درخت کے نیچے روشن ضمیری ملنے کی تفصیل آئی ہے جہاں ایک حاسد دیوتا 'مارا' کے حملوں کا انہوں نے کامیابی سے مقابلہ کیا جو روشن ضمیری سے دھڑکانے کے لیے طرح طرح کی خوفناک اور لبھانے والی صورتوں میں ان کے سامنے آتا تھا تاکہ ان کے مراقبہ میں خلل ڈال سکے۔
ابتدائی تذکروں میں بتایا گیا ہے کہ مہاتما بدھ کو تین طرح کا علم حاصل کرنے پر مکمل روشن ضمیری ملی تھی: اپنے پچھلے سارے جنموں کا مکمل علم، دوسرے سب لوگوں کے کرموں اور جنموں کا علم، اور چار اعلی صداقتیں ۔ بعد کی تحریروں میں یہ بھی آیا ہے کہ روشن ضمیری پانے کے ساتھ ہی ان کو ہمہ دانی بھی مل گئی تھی۔
تعلیم و تلقین اور بھکشو برادری کی تشکیل
مکتی اور روشن ضمیری حاصل کرنے کے بعد مہاتما بدھ دوسروں کو بھی اس تک پہنچنے کا راستہ سکھانے میں متامل تھے کہ اسے کوئی سمجھ نہیں پائے گا۔ لیکن ہندوستانی دیوتاؤں برہما (خالق کائنات) اور اندر (دیوتاوں کا راجہ) نے ان سے تعلیم دینے کی درخواست کی۔ یہ درخواست کرتے ہوئے برہما نے مہاتما بدھ سے کہا کہ اگر انہوں نے تعلیم نہ دی تو دنیا میں دکھ کا کبھی خاتمہ نہیں ہوگا اور یہ کہ کچھ نہ کچھ لوگ تو ان کی بات سمجھیں گے۔
یہ نکتہ طنزیہ بھی ہوسکتا ہے، یہ بتانے کے لئے کہ مہاتما بدھ کا طریقہ تعلیم اس دور کے روایتی ہندوستانی طریقہ تعلیم سے بہت اعلی تھا۔ اگر سب سے بڑے دیوتا یہ مان لیں کہ دنیا کو مہاتما بدھ کی تعلیمات کی ضروت ہے کیونکہ ان کے پاس وہ طریقے ہیں ہی نہیں جو ہر کسی کے دکھ کو ہمیشہ کے لیے ختم کر سکیں تو پھر ہم عام پیروکار تو ان تعلیمات کے کہیں زیادہ محتاج ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی دیکھیۓ کہ بدھ مت کی تمثیل کے مطابق برہما غرور کا نمائندہ ہے۔ اس کی غلط گمانی کہ وہ قادر مطلق خالق کائنات ہے اس غلط فہمی کا نقطۂ عروج ہے جو ہر شخص کو اپنے اندر ایک ناممکن "انا" کا وجود ماننے پر مائل کر دیتی ہے یعنی وہ "انا" جو زندگی کی ہر شے کو اپنے قابو میں رکھ سکتی ہے۔ اس طرح کی پریشان خیالی آخر کار مایوسی اور دکھ لے کر آتی ہے۔ مہاتما کی وہ تعلیمات جو یہ بتاتی ہیں کہ ہماری ہستی کیا ہے اور کیونکر ہے ان سے یہ راہ نکلتی ہے جس پر چل کر اس سچ مچ کے دکھ کو اور اس کے اصلی سبب کو واقعی ختم کیا جا سکتا ہے۔
مہاتما بدھ نے برہما اور اندر کی درخواست قبول کر لی اور سارناتھ چلے آئے جہاں ہرن باغ میں انہوں نے اپنے پانچ پرانے ساتھیوں کے سامنے چار اعلی صداقتیں پیش کیں۔ بدھ مت میں ہرن نرمی اور ملائمت کی علامت ہے سو مہاتما بدھ ترکِ دنیا اور عیش کوشی کی دونوں انتہاؤں سے بچ کر ایک نرم طرز کی تعلیم دیتے ہیں۔
اس کے جلد ہی بعد قریبی واراناسی سے کچھ نوجوان، کٹر تجرد پسندی اختیار کرتے ہوے، مہاتما بدھ کے ساتھ شامل ہوگئے۔ ان کے والدین عام پیروکاروں میں شامل ہو گئے اور اس گروہ کی دان پن سے مدد کرنے لگے۔ جب اس گروہ کا کوئی فرد ضروری اہلیت اور تربیت حاصل کر لیتا تو مہاتما بدھ اسےدوسروں کو تعلیم دینے کے لیے بھجوا دیتے۔ یوں مہاتما بدھ کے ان منگتے پیروکاروں کی تعداد تیزی سے بڑھتی گئی اور انہوں نے جلد ہی مختلف مقامات پر آباد ہو کر علیحدہ "بھکشو" برادریاں قائم کر لیں۔
مہاتما بدھ نے ان بھکشو گروہوں کی تنظیم عملی رہنما اصولوں کے مطابق کی تھی۔ اگر راہب کا لفظ اس ابتدائی زمانے کے لوگوں کے لیے استعمال کر سکیں تو کہا جا سکتا ہے کہ ہر راہب اپنے گروہ میں کسی بھی فرد کو بطور رکن قبول کر سکتا تھا مگر انہیں کچھ باتوں کی پابندی کرنا ہوتی تھی تاکہ دنیاوی سیکولر حاکموں سے کسی طرح کا ٹکراؤ نہ پیدا ہو۔ سو اس وقت مہاتما بدھ نے یہ پابندی لگائی کہ مجرم، شاہی ملازمت مثلاً فوج میں شامل لوگ، غیرآزاد غلام اور چھوت کی بیماریوں مثلاً کوڑھ کے مریض ان خانقاہی گروہوں میں داخل نہیں ہو سکتے۔ نیز یہ کہ بیس سال سے کم عمر کے کسی شخص کو آنے کی اجازت نہ ہوگی۔ مہاتما بدھ ہر طرح کی آویزش سے بچنا چاہتے تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ لوگ باگ ان بھکشو گروہوں اور دھرم کی تعلیمات کی عزت کریں۔ اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ مہاتما بدھ کے پیروکاروں کے طور پر ہمیں بھی مقامی رسم و رواج کا احترام کرنا چاہیے، لوگوں کو عزت دینی چاہیے تاکہ وہ بدھ مت کو اعلی سمجھیں اور خود ہی اس کی عزت کریں۔
جلد ہی مہاتما بدھ مگدھ واپس چلےآئے یعنی وہی ریاست جہاں بودھ گیا واقع تھی۔ راجہ بِمبِسار نے انہیں اس ریاست کے صدرمقام راجگڑھ - موجودہ نام راجگیر - آنے کی دعوت دی۔ راجہ مہاتما بدھ کا سرپرست اور چیلا بن گیا۔ اسی شہر میں ان کے دوست شاری پترا اور مودگلیایناسی شہر میں ان کے دوست شَ شاریپُتر اور مودگلیاین مہاتما بدھ کے پھیلتے ہوئے گروہ میں شامل ہوئے اور ان کے قریب ترین ساتھیوں میں سے ہوگئے۔
روشن ضمیری پانے کے ایک سال کے اندر مہاتما بدھ اپنی جنم بھومی کپل واستو واپس لوٹ آئے۔ ان کا بیٹا راہل بھی ان کے حلقے میں شامل ہو گیا۔ مہاتما بدھ کا خوبرو سوتیلا بھائی نندا پہلے ہی گھر چھوڑ کر ان کے ساتھ آن ملا تھا۔ مہاتما بدھ کے والد راجہ شُدهودن کو اس بات کا بہت افسوس تھا کہ ان کا خاندان راج گدی سے کٹ گیا۔ انہوں نے مہاتما بدھ سے درخواست کی کہ آئندہ جو بھی بیٹا اس خانقاہی حلقے میں شامل ہونا چاہے اسے اپنے ماں باپ سے اجازت لینا ہوگی۔ مہاتما بدھ کو اس بات سے پورا اتفاق تھا۔ اس روایت کا اصل نکتہ یہ نہیں کہ مہاتما بدھ نے اپنے والد سے کیا ظلم کیا بلکہ اس سے یہ دکھانا مقصود ہے کہ بدھ مت کے لیے یہ بات کتنی اہم ہے کہ کوئی اس کے بارے میں برا نہ سوچے خاص طور پر اپنے ہی کنبے میں۔
مہاتما بدھ اور ان کے خاندان کے بارے میں بعد کے ان تذکروں میں ایک اور تفصیل بھی ملتی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح مہاتما بدھ اپنی جسمانی طاقت کے علاوہ ایک قوت کے ذریعے جنت میں تینتیس خداؤں پر، یا بعض دوسری روایات کے مطابق توشیتا جنت پر گئے اور اپنی والدہ کو تعلیم دی جو اس آسمان میں پنرجنم لے چکی تھیں۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ ماں کی مہربانی اور شفقت کی قدر کرنے اور اس کی خدمت کرنے کی کیا اہمیت ہے۔
آشرم سلسلے کی نشوونما
شروع میں مہاتما بدھ کے بھکشووں کے حلقے چھوٹے ہوا کرتے تھے جس میں بیس سے زیادہ افراد نہیں تھے۔ ہر گروہ خود مختار تھا اور بھکشووں کی باری مقرر کر کے خیرات مانگ کر لانے کی حدود خود طے کرتا تھا۔ ہر گروہ یا حلقے میں سب کام اور فیصلے اجتماعی رائے اور اس کے ارکان کی اجتماعی راۓ سے طے ہوا کرتے تھے تاکہ کوئی ناخوشگواری نہ پیدا ہو۔ کوئی ایک فرد آخری فیصلہ دینے کا اختیار نہیں رکھتا تھا۔ اس کی جگہ مہاتما بدھ کی ہدایت ان کے لیے یہ تھی کہ دھرم کی تعلیمات کو حکم کا درجہ دیں۔ یہی نہیں بلکہ خود آشرمی قاعدے ضابطے بھی تبدیل کیے جا سکتے تھے۔ بشرطیکہ سارا گروہ اتفاق رائے سے ایسا کرنا چاہتا ہو۔
راجہ بِمبِسار نے تجویز دی کہ مہاتما بدھ بھی دوسرے خیراتی روحانی حلقوں مثلاً جین مت والوں کی اس رسم کو اپنے ہاں رواج دیں جس میں سب لوگ ہر ہفتہ مل بیٹھتے تھے۔ اس رسم کے مطابق گروہ کے سب لوگ چاند کی ہر ساتویں تاریخ کو اکٹھے ہوتے اور دھرم کی تعلیمات پر گفتگو کرتے۔ مہاتما بدھ نے اس تجویز سے اتفاق کیا جس سے پتا چلتا ہے کہ وہ اس بات کے قائل تھے کہ زمانے کے ریت رواج کی پاسداری کرنا چاہیے۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ مہاتما بدھ نے اپنے آشرمی گروہوں کے بہت سے پہلوؤں اور اپنی تعلیمات کو جین مت کے مطابق ڈھال کر تشکیل دیا تھا۔ جین مت کے بانی مہاویر کا زمانہ مہاتما بدھ سے نصف صدی پہلے کا ہے۔
شاری پترا نے بھی مہاتما بدھ سے کہا کہ وہ آشرمی نظام کے لیے اصول اور قاعدے مقرر کر دیں۔ مہاتما بدھ کا فیصلہ تھا کہ بہتر ہوگا اگر اس وقت کا انتظار کریں جب کوئی خاص مسئلہ سامنے آئے اور تب وہ عہد و پیمان مقرر کیا جائے جو اس کی تکرار نہ ہونے دے۔ یہ پالیسی چلتی رہی خواہ معاملہ ان تخریبی کاموں کا ہو جن کے کرنے سے ہر شخص کو نقصان پہنچتا ہے یا ان اعمال کا جو اخلاقی طور پر تو بے ضرر ہوتے ہیں لیکن کچھ مخصوص لوگوں کے لیے، کچھ حالات میں کچھ وجوہات کی بنا پر ان کی اجازت نہیں ہوتی۔ اس طرح تربیتی نظام کے قاعدے ضابطے (وِنایا) عملی اور وقتی ضرورت کے تحت بنائے جاتے تھے اور ان سے مہاتما بدھ کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ مشکلات اور مسائل سے بچ کر چلیں اور ان کی کوئی بات کسی کو بری نہ لگے۔
تربیتی نظام کے ان قاعدوں کے مطابق مہاتما بدھ نے یہ طے کیا کہ مہینے میں چار مرتبہ ہونے والے اجتماع کے موقع پر ہر کوئی اپنا عہد و پیمان سب کے سامنے بیان کرے گا اور کسی نے اگر عہد شکنی کی ہو تو بھکشووں کے سامنے اس کا اقرار کرے گا۔ سنگین ترین عہد شکنی پر حلقے سے نکال دیا جاتا تھا۔ ورنہ آزمائشی جانچ کی حیثیت دینے سے جو سبکی ہوتی ہے وہی کافی سمجھی جاتی تھی۔ بعد کے زمانے میں یہ محفلیں مہینے میں دو مرتبہ ہونے لگیں۔
مہاتما بدھ نے پھر یہ رسم جاری کی کہ برسات کے تین مہینوں میں بھکشو ایک جگہ قیام کریں اور سفر سے گریز کریں۔ مقصد یہ تھا کہ سڑکوں پر پانی بھر جانے کی وجہ سے بھکشووں کو کھیتوں میں سے ہو کر نہ گزرنا پڑے اور فصلیں ان کے پاؤں تلے روندی نہ جائیں۔ اس رسم نے آگے چل کر پکے آشرموں کی صورت اختیار کر لی، جو عملاً درست تھا۔ یہاں پھر یہی بات پیش نظر تھی کہ عام لوگوں کو کوئی زحمت نہ ہو اور وہ بدھ مت کی عزت کریں۔
دوسری برساتی گوشہ گیری سے لے کر اگلے۲۵ سال تک مہاتما بدھ نے اس موسم میں ہر سال تین مہینے کوشلہ ریاست کی راج دھانی شراوستی کے باہر جتاون جھاڑ کے مقام پر گذارے۔ یہاں ایک تاجر اناتھپنڈد نے مہاتما بدھ اور ان کے بھکشووں کے لیے ایک بھٹ تعمیر کر دیا اور راجہ پرسینجِت نے ان کے پیروکاروں کی مزید سرپرستی کی۔ جتاون کے بھٹ میں مہاتما بدھ کی زندگی کے کئی عظیم واقعات پیش آئے۔ ان میں سے سب سے مشہور واقعہ وہ ہے جس میں مہاتما بدھ نے اپنے زمانے کے چھ غیر بودھ مکاتب فکر کے راہنماؤں کو کرشماتی طاقت کے مقابلے میں شکست دی۔
آج شاید ہم میں سے کوئی بھی کسی طرح کا کرشمہ دکھانے کے قابل نہ ہو لیکن مہاتما بدھ نے اگر اپنے مخالفوں کو شکست دینے کے لیے منطق کے بجائے کرشماتی طاقت کا استعمال کیا تو اس سے اشارہ یہ ملتا ہے کہ جب دوسروں کے ذہن عقل کی بات سننے سے عاری ہو جائیں تو ان کو اپنی فہم اور سمجھ بوجھ کا قائل کرنے کے لیے اپنے عمل اور رویے سے بتا دینا چاہیے کہ عرفان کی کس سطح تک ہم پوہنچ چکے ہیں۔ انگریزی کا ایک مقولہ ہے "عمل کی قوت باتوں پر بھاری ہوتی ہے۔ "
بھکشو خواتین کے لیے آشرمی نظام کا آغاز
لوگوں کو تعلیم دیتے ہوئے بعد کے زمانے میں مہاتما بدھ نے اپنی خالہ مہاپرجاپتی کی درخواست پر بھکشو خواتین کے لیے بھی ویشالی میں ایک حلقہ قائم کر دیا۔ اس سلسلے کو شروع کرنے میں انہیں ابتداءً کچھ ہچکچاہٹ رہی لیکن بعد میں انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ اگر راہبوں کے مقابلے میں بھکشو خواتین کے لیے کچھ زیادہ قاعدے اور عہد و پیمان مقرر کر دیے جائیں تو ایسا کیا جا سکتا ہے۔ یہ طے کرنے سے مہاتما بدھ کا مطلب یہ نہیں تھا کہ عورتیں مردوں سے زیادہ بے قاعدہ ہوتی ہیں اور ان کو ضبط نفس کےلیے مردوں کے مقابلے میں زیادہ پابندیاں لگانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہیں خدشہ یہ تھا کہ بودھ خواتین کا سلسلہ قائم کرنے سے بدنامی ہو گی اور یوں ان کی تعلیمات پروان چڑھنے سے پہلے ہی ختم ہو جائیں گی۔ ہر چیز سے بڑھ کر مہاتما بدھ کی کوشش یہ تھی کہ اپنے معاشرے میں عمومی طور پر کسی بھی طرح کی بے عزتی سے بچ کر رہا جائے اس لیے بھکشو خواتین کے طبقے کو ہر قسم کے اخلاقی عیب کے شک و شبہے سے بالا تر ہونا چاہیے۔
بحیثیت مجموعی مہاتما بدھ قاعدے ضابطے مقرر کرنے سے گریز کرتے تھے بلکہ اگر غیر ضروری جانتے تو چھوٹے موٹے قاعدے ختم کر دیا کرتے تھے۔ ان کے اس طرز عمل سے دو سچائیوں کے ربط باہم کا پتا چلتا ہے، سب سے گہری صداقت پر رہتے ہوئے مقامی رسم و رواج کے مطابق عام رسمی صداقت کا احترام کرنا۔ صداقت کی عمیق ترین سطح پر اگرچہ بھکشو خواتین کا حلقہ قائم کرنے میں کوئی مسئلہ نہ تھا لیکن بدھ مت کی تعلیمات کو عام لوگوں کی نظرِبد سے بچانے کے لیے ضروری تھا کہ بھکشو خواتین کی ضبط نفس کےلیے دوسروں سے زیادہ قاعدے ضابطے مقرر کیے جائیں۔ سب سے گہری صداقت میں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کی جاتی کہ معاشرہ کیا کہتا یا سمجھتا ہے۔ جبکہ رسمی صداقت یہ ہے کہ بدھ مت والوں کے لیے یہ اہم بات ہے کہ عوام ان کو عزت اور اعتماد کے لائق سمجھیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے زمانے اور آج کے معاشروں میں اگر بدھ مت کے رسم و رواج سے راہباؤں یا عمومی طور پر خواتین کے لیے کوئی تعصب نظر آئے یا کسی اقلیت سے امتیازی سلوک ہوتا محسوس ہو اور اس سے بدھ مت کی بدنامی کا اندیشہ ہو تو مہاتما بدھ کے اصول کی روح کے مطابق اس رسم و رواج کو زمانے کے معیار اور مزاج کے مطابق تبدیل کر دینا چاہیے۔
رواداری اور درمندی آخر کو مہاتما بدھ کی تعلیمات کے وہ حصے ہیں جن پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر مہاتما بدھ کے وہ نئے پیرو کار جو پہلے کسی اور مذہبی گروہ سے تعلق رکھتے تھے ان کو مہاتما بدھ یہ ترغیب دیتے تھے کہ وہ اپنے سابقہ گروہ کی بھی مدد کرتے رہیں۔ بدھ مت کے اپنے حلقے کے اندر بھی ان کی تاکید تھی کہ حلقے کے ارکان ایک دوسرے کا خیال رکھیں اور دوسروں کی مدد کریں۔ مثلاً اگر ایک بھکشو بیمار ہو جائے تو دوسرے بھکشووں کا فرض ہے کہ اس کی دیکھ بھال کریں کیونکہ وہ سب اسی ایک بودھی کنبے کے افراد ہیں۔ بدھ مت کے عام ماننے والوں کے لیے بھی یہ ایک اہم ہدایت تھی۔
مہاتما بدھ کا طریق وعظ و نصیحت
مہاتما بدھ دوسروں کو تعلیم دیتے ہوئے زبانی تلقین بھی کرتے تھے اور خود زندہ مثال بھی بن کر دکھاتے تھے۔ زبانی تلقین کے لیے وہ دو طریقے استعمال کرتے تھے، ایک افراد سے گفتگو کرتے ہوئے، دوسرا مجمع سے بات کرنے کے لیے۔ اگر موقع ایسا ہوا کہ بہت سے سننے والے ہوں تو مہاتما بدھ اپنی تعلیمات کو تقریر کی صورت میں بیان کرتے تھے اور اکثر ہر نکتے کو الفاظ بدل بدل کر دہراتے تاکہ سننے والے اچھی طرح سمجھ لیں اور یاد رکھ سکیں۔ اگر کسی شخص سے علیحدہ گفتگو میں مشورہ اور ہدایت پیش نظر ہو تو مہاتما بدھ اس سے مختلف طریقہ برتتے تھے جو اکثر ان موقعوں پر ہوتا جب ان کو اور ان کے بھکشووں کو کسی کے ہاں کھانے کی دعوت دی جاتی۔ وہ سننے والےکے خیالات کی کبھی تردید نہیں کرتے تھے نہ اس کی مخالفت کرتے تھے بلکہ سننے والے کا موقف اپنا کر اس سے ایسے سوالات کرتے جس سے اس آدمی یا عورت پر اس کے اپنے خیالات واضح ہو جاتے۔ اس طرح مہاتما بدھ ہر شخص کو اس کا موقف بہتر بنانے کے لیے رہنمائی فراہم کرتے۔ اسے اس قابل کردیتے کہ وہ حقیقت کی زیادہ گہری آگہی حاصل کر سکے۔ اس کی مثال اس واقعے میں دیکھی جا سکتی ہے جب مہاتما بدھ نے پیشوا طبقے کے ایک مغرور برہمن کو یہ سمجھا دیا کہ برتری اور فضیلت اس طبقےکی وجہ سے نہیں ہوتی جس میں کوئی شخص پیدا ہوا ہو بلکہ ان اچھے اوصاف کی بنا پر ہوتی ہے جو آپ اپنے اندر پیدا کرتے ہیں۔
ایک اور مثال دیکھیے۔ ایک عورت اپنا مردہ بچہ اٹھائے مہاتما بدھ کے پاس آئی اور دہائی دینے لگی کہ کسی طرح اسے زندہ کر دیجیے۔ مہاتما بدھ نے اس سے کہا کہ جاؤ کسی ایسے گھر سے رائی کا ایک دانہ لے آؤ جس میں کبھی کسی کو موت نہ آئی ہو، پھر میں کچھ کروں گا۔ وہ عورت گھر گھر گھومتی رہی لیکن کوئی گھر ایسا نہ پایا جہاں کوئی موت نہ ہوئی ہو۔ یوں، رفتہ رفتہ اسے احساس ہو گیا کہ ایک نہ ایک دن ہر شخص کو موت آن لیتی ہے اور اس نے ایک ذہنی سکون کے ساتھ بچے کو چتا کے حوالے کردیا۔
مہاتما بدھ کا طرز تعلیم بتاتا ہے کہ لوگوں سے الگ الگ گفتگو کرتے ہوئے سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ ان کی بات کی تردید نہ کی جائے۔ سب سے موثر یہ چیز ہے کہ ان کو خود سوچنے میں مدد دی جائے۔ لیکن جب مجمع سے خطاب کیا جائے تو ان کو سیدھے صاف انداز میں سمجھایا جائے۔
مہاتما بدھ کے خلاف سازشیں اور دھڑے بندی
مہاتما بدھ کی رحلت سے سات سال پہلے ان کے حاسد چچا زاد بھائی دیودت نے ایک سازش کے ذریعے سربراہِ حلقہ کے طور پر مہاتما بدھ کی جگہ لینے کی کوشش کی۔ دوسری طرف راجکمار اجاتشترو نے اپنے باپ راجہ بِمبِسار کو ہٹا کر مگدھ کا حکمران بننے کی سازش کی۔ اور دونوں نے ملی بھگت کرلی۔ اجاتشترو نے بِمبِسار کی جان لینے کی کوشش کی اور نتیجتاً راجہ اپنے بیٹےکے حق میں راج گدی سےد ستبردار ہو گیا۔ اجاتشترو کی کامیابی دیکھ کر دیودت نے اس سے کہا کہ وہ مہاتما بدھ کو قتل کروا دے لیکن مہاتما بدھ کی جان لینے کی سب کوششیں ناکام ہو گئیں۔
نامراد دیودت نے پھر بھکشووں کو مہاتما بدھ سے دور کرنے کے لیے یہ دعویٰ کر دیا کہ وہ اس سے زیادہ پاکباز ہے اور ضبط نفس کے سخت تر قواعد و ضوابط جاری کیے۔ چوتھی صدی عیسوی کے تھرواد گورو مہاتما بدھ گھوش کی کتاب "طریقِ تزکیہ" کے مطابق دیودت کی نئی تجاویز میں حسبِ ذیل شامل تھیں:
- وہ کپڑے پہنے جائیں جو پيوند جوڑ کر بنائے گئے ہوں۔
- صرف تین کپڑے پہنے جائیں۔
- مانگ کر کھائیں اور کسی کی دعوت کبھی قبول نہ کریں۔
- خیرات مانگتے ہوئے کسی گھر کو چھوڑ کر آگے نہ بڑھیں۔
- جو کچھ بھی ملا ہو اسے ایک ہی بار بیٹھ کر کھا لیں۔
- صرف اپنے ہی کشکول گدائی میں سے کھائیں۔
- دوسرے کسی کھانے کی چیز سے انکار کر دیں۔
- جنگلوں ہی میں رہیں۔
- درختوں تلے زندگی گزاریں
- کھلی ہوا میں رہیں، مکانوں میں نہ رہیں۔
- زیادہ ترشمشانوں میں رہیں۔
- رہنے کی جو جگہ میسر آ جائے اسے غنیمت جانیں لیکن ایک جگہ سے دوسری جگہ گھومتے رہا کریں۔
- کبھی لیٹ کر نہ سوئیں، ٹیک لگا کر بیٹھے بیٹھے سویا کریں۔
مہاتما بدھ نے کہا کہ بھکشو اگر ان اضافی قواعد پر عمل کرنا چاہیں تو مضائقہ نہیں لیکن ہر کسی کو ان کا پابند کرنا ناممکن ہوگا۔ کچھ بھکشووں نے فیصلہ کیا کہ وہ دیودت کی پیروی کریں گے اور انہوں نے مہاتما بدھ کو چھوڑ کر اپنا الگ حلقہ بنا لیا۔
تھرواد مکتب فکر میں دیودت کے بنائے ہوئے اضافی قواعدِ تربیت کو عملی قواعد کی تیرہ شاخیں کہا جاتا ہے۔ بن باس بھکشوؤں کی روایت جو آج بھی، مثال کے طور پر، موجودہ تھائی لینڈ میں پائی جاتی ہے اسی پرانے رواج سے نکلی ہوئی لگتی ہے۔ مہاتما بدھ کا ایک چیلا مہاکاشیَپ اس سخت مجموعہ قواعد پر سختی سے عمل کرنے میں سب سے مشہور ہوا۔ ان میں سے ضبط نفس کی کئی صورتوں پر ہندو دھرم کے سادھو آج بھی قائم ہیں۔ ان کے طور طریقے اسی روایت کا تسلسل نظر آتے ہیں جو مہاتما بدھ کے دور میں روحانیت کے متلاشی گداگروں میں رائج تھی۔
اس طرح مہایان بدھ مت کے مکاتب فکر میں بھی بارہ عملی قواعد کے اوصاف کی ایک فہرست ملتی ہے۔ اس فہرست میں "خیرات مانگتے ہوئے کسی گھر کو نہ چھوڑیں" شامل نہیں اور اس کی جگہ "لوگوں کی وہ اترن پہننا جسے لوگوں نے بوسيدہ جان کر کوڑے میں ڈال دیا ہو" کا قاعدہ بڑھا دیا گیا۔ نیز "مانگ کر کھائیں" اور "صرف اپنے کشکول گدائی میں سے کھائیں" کو ایک ہی قاعدہ شمار کیا گیا ہے۔ اس نظام تربیت کا بڑا حصہ بعد میں ہندوستانی ریت کے بہت پہنچے ہوئے تنتر کے عاملوں (مہاسِدّھ) کے ہاں ملتا ہے جو مہایان بدھ مت اور ہندومت دونوں میں پائے جاتے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ بدھ مت کی کسی قائم شدہ روایت سے ہٹ کر ایک اور حلقہ قائم کرنا، یا آج کی زبان میں کہیے تو، ایک الگ دھرم آشرم قائم کرنا شائد کوئی مسئلہ نہ تھا۔ ایسا کرنے کو "بھکشووں کے بیچ پھوٹ" ڈالنے کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا تھا، جسے پانچ قبیح ترین جرائم میں سے ایک کہا گیا ہے۔ دیودت نے ایک دھڑا قائم کیا اور جو گروہ الگ ہوا اور اس کا پیرو کار ہوا،ان میں مہاتما بدھ کے بھکشو گروہ سے شدید کشیدگی پائی جاتی تھی، اور وہ ان پر سخت تنقید کرتے تھے۔ بعض ذرائع کے مطابق یہ دشمنی صدیوں تک باقی رہی۔
اس دھڑے بندی کی تفصیلات سے پتہ چلتا ہے کہ مہاتما بدھ بہت زیادہ روادارتھے اور وہ قطعی کٹر نہیں تھے۔ مہاتما بدھ نے پیرو کاروں کے لیے جو قواعد طے کر رکھے تھے اگر وہ ان سے سخت تر پر عمل کرنا چاہتے تو کوئی ہرج نہ تھا اور اگر انہیں ایسی کوئی خواہش نہ ہوتی تو اس میں بھی کوئی مضائقہ نہ تھا۔ کسی پر یہ جبر نہ تھا کہ وہ اسی پر عمل کرے جو مہاتما بدھ نے سکھایا ہو۔ یہی نہیں بلکہ اگر کوئی بھکشو مرد یا عورت حلقے سے الگ ہونا چاہتا تو وہ بھی ٹھیک تھا۔ جو چیز سب سے زیادہ تباہ کن تھی وہ یہ کہ بدھ مت کے پیرو کار، خاص طور پر بھکشووں کےحلقے میں رہنے والے دو یا زیادہ گروہوں میں بٹ جائیں، جن میں آپسی کشیدگی ہو، جوایک دوسرے کو لوگوں کی نظروں سے گرانے یا نقصان پہنچانے کی کوشش کریں۔ اس طرح کے دو فرقوں کی لڑائی میں بعد میں شامل ہونا اور ایک کے ساتھ مل کر دوسرے کے خلاف نفرت پھیلانے کی مہم میں حصہ لینا بھی بہت ہی نقصان دہ ہے۔ لیکن یہ بھی درست ہے کہ اگر ایک گروہ اس طرح کے نقصان دہ اور تخریبی کاموں میں لگا ہوا ہو یا کسی نقصان دہ طریق کار کا پر چار کر رہا ہو تو خیر خواہی اور ہمدردی کا تقاضا یہ ہو گا کہ لوگوں کو اس گروہ میں شامل ہونے کے خطرات سے آگاہ کردیا جائے۔ لیکن ایسا کرتے ہوئے انسان کی نیت کبھی غصے، نفرت اورانتقامی جذبے سے آلودہ نہیں ہونی چاہیے۔
مہاتما بدھ کی رحلت
اگرچہ کہ مکتی پانے کے بعد مہاتما بدھ عام بے بس موت کے تجربے سے بالا تر ہو چکے تھے تاہم ۸۱ سال عمر ہو نے پر انہوں نے فیصلہ کیا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ اپنے پیرو کاروں کو زندگی کی نا پائیداری کی تلقین کریں اور اس بدن کو چھوڑ دیا جائے۔ لیکن یہ کرنے سے پہلے انہوں نے اپنے خادم آنند کو یہ سوال کرنے کا موقع دیا کہ وہ طویل عرصہ زندہ رہنے اور تدریس جاری رکھنے کے بارے میں پوچھے۔ لیکن وہ مہاتما بدھ کا اشارہ سمجھ نہ پایا۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ مہاتما بدھ صرف اس وقت تعلیم دیتا ہے جب اس سے درخواست کی جائے لیکن اگر کوئی تقاضا نہ کرے یا دلچسپی نہ رکھتا ہو تو وہ اسے چھوڑ کر کہیں اور چلا جاتا ہے جہاں اس کا جانا زیادہ سودمند ہو۔ معلم اور تعلیمات کا وجود شاگردوں پر منحصر ہے۔
کُشِینگر میں ان کے ایک سر پرست چُندا کے گھر ان کی اور دوسرے بھکشووں کی دعوت تھی جس میں مہاتما بدھ کھانے کے بعد مرضِ موت میں مبتلا ہوئے۔ بسترِمرگ پر مہاتما بدھ نے اپنے پیرو کاروں سے کہا کہ اگر انہیں کسی بات میں ابہام ہو یا کچھ سوالوں کےجواب نہ ملتے ہوں تو انہیں دھرم کی تعلیمات اور اخلاقی قواعد پر بھروسہ کرنا چاہیے، جو آئندہ ان کے معلم ہونگے۔ مہاتما بدھ کا اشارہ تھا کہ ہر شخص کو اب ان تعلیمات کی روشنی ہی میں اپنے معاملات سلجھانے ہونگے، کیونکہ اب کوئی مقتدر ایسا نہیں ہوگا جو سارے سوالات کا جواب دے سکے ۔ یہ کہہ کر مہاتما بدھ اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔
چُندا کا برا حال تھا۔ اسے یہ خیال کھائے جا رہا تھا کہ شاید اس کے ہاتھوں مہاتما بدھ کو زہر ملا ہوگا۔ لیکن آنندا نے تسلی دی کہ انتقال سے پہلے مہاتما بدھ کو ان کی زندگی کا آخری کھانا پیش کر کے اصل میں اس نے اپنے لیے ایک بڑی مثبت قوت یا امتیاز حاصل کیا ہے۔
مہاتما بدھ کے بدن کو جلا دیا گیا اور ان کی خاک کو ستوپوں میں رکھوا دیا گیا، خاص طور پر ان جگہوں پر جو بدھ مت کی چار بڑی زیارت گاہیں بنیں۔
- لمبینی: جہاں مہاتما بدھ پیدا ہوئے۔
- بودھ گیا: جہاں مہاتما بدھ کو روشن ضمیری ملی۔
- سارناتھ: جہاں انہوں نے پہلی بار دھرم کی تعلیمات پیش کیں۔
- کُشِینگر جہاں وہ فوت ہوئے۔
بدھ مت کی مختلف روایات میں مہاتما بدھ کے زندگی کے الگ الگ بیان ملتے ہیں۔ ان اختلافات سے پتا چلتا ہے کہ ہر روایت میں بودھ کا کیا تصور قائم ہوا اور ہم ان کی مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں۔
- ہنایان بدھ مت صرف تاریخ کے مہاتما بدھ کی بات کرتا ہے۔ جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ مہاتما بدھ نے روشن ضمیری پانے کے لیے اپنے آپ پر کس محنت سے کام کیا تو یہ سبق پاتے ہیں کہ ہمیں بھی ایسی ہی کاوش کرنی چاہیے۔
- مہایان بدھ مت میں عام طور پر جو بیان ملتا ہے اس کے مطابق مہاتما بدھ عرصہ پہلے روشن ضمیری حاصل کر چکے تھے۔ روشن ضمیری کے بارہ کاموں سے بھرپور زندگی گذار کر وہ ہمیں یہ سبق دے گئے کہ روشن ضمیری کا مطلب رفاہِ عام کے کاموں میں ہمیشہ سرگرمِ عمل رہنا ہی ہے ۔
- انوتر یوگا تنتر روایات کے مطابق مہاتما بدھ ایک ہی وقت میں شاکیہ مُنی "دور رس امتیازی آگاہی کے سوتر" کے معلم کے طور پر بھی ظاہر ہوئے اور وجردھار بن کر تنتر بھی سکھاتے رہے۔ اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ تنتر کے تحت جو کچھ کیا جاتا اس کی بنیاد پوری طرح مدھیامک کی خالی پن کی تعلیمات پر رکھی گئی ہے۔
ہم مہاتما بدھ کی زندگی کے ان الگ الگ پہلووں کے بیان سے بہت کچھ فائدہ مند باتیں سیکھ سکتے ہیں اور کئی سطحوں پر وجدان بھی حاصل ہوسکتا ہے۔