عصرِ حاضر میں بدھ مت

جنوب اور جنوب مشرقی ایشیا کا تھیرواد بدھ مت 

بھارت

بدھ مت کا اثر بھارت میں ساتویں صدی میں کم ہونے لگا، اور بارھویں صدی میں پالا سلطنت کے زوال کے بعد ما سوا شمالی ہمالیہ کے دور افتادہ علاقوں کے بالکل مفقود ہو گیا۔ انیسویں صدی عیسوی کے آخر میں بھارت میں بدھ مت کی تحریکِ احیا اس وقت شروع ہوئی جب سری لنکا کے بودھی گورو اناگرک دھرم پال نے برطانوی علما کی مدد سے مہا بودھی سوسائٹی کی بنیاد رکھی۔ ان کا مرکزی مدعا بھارت میں بودھی یاترا مراکز کی بحالی تھا، اور انہیں تمام بودھی گھروں پر ایسے مندر جن میں بھکشو موجود ہیں، تعمیر کرنے میں بہت کامیابی ہوئی۔  

۱۹۵۰ کی دہائی میں امبد کر نے اچھوت ذات کے لوگوں میں نوبدھیت کی تحریک چلائی جس سے لاکھوں لوگوں نے  ذات پات کے جھگڑوں سے بچنے کے لئیے بدھ مت کو اپنا لیا ہے۔ گذشتہ عشرہ میں شہری متوسط طبقے میں بھی بدھ مت میں دلچسپی میں اضافہ ہوا ہے۔ اس وقت بھارت میں بدھ مت کو ماننے والوں کی تعداد قریب دو فیصد ہے۔

سری لنکا  

سری لنکا تب سے ہی بدھ مت تعلیم کا مرکز رہا ہے جب سے راجہ اشوک کے بیٹے مہندر نے اسے وہاں تیسری صدی عیسوی میں متعارف کروایا۔ سری لنکا میں بدھ مت کی تواتر سے تاریخ سب سے لمبی ہے۔ یہاں جنگ کے دوران اور سولھویں صدی کے بعد سے جب اس جزیرے کو نو آبادی بنا لیا گیا اور یورپی مبلّغین نے یہاں عیسائیت کا پرچار کیا، بدھ مت لمبے عرصہ تک زوال پذیر رہا ہے۔
 
انیسویں صدی میں برطانوی علما اور دینی علما کی بدولت زبردست احیاۓ بدھ مت وقوع پذیر ہوا ہے، اور یوں سری لنکا کے بدھ مت کو بعض اوقات "پروٹسٹنٹ بدھ مت" گردانا گیا ہے، جس میں عالمانہ مطالعہ، عام لوگوں کے لئیے بھکشووں کی ادائیگیٔ دھرمی رسومات، اور عوام کے لئیے مراقبہ پر زور دیا جاتا ہے۔ اس ملک کو ۱۹۴۸ میں آزادی ملی، اور تب سے بودھی دھرم اور طرز معاشرت کی احیا میں زبردست دلچسپی دیکھنے میں آئی ہے۔
 
آج سری لنکا کی ۷۰ فیصد آبادی بدھ دھرم کو مانتی ہے، جس میں سے بیشتر لوگ تھیرواد مسلک کی پیرو ہیں۔ تیس سالہ خانہ جنگی کے بعد اب سری لنکا میں قومی بدھ مت پنپ رہا ہے، جس میں بعض تنظیمیں جیسے بودو بالا سینا (بودھی فوج) مسلمانوں کے خلاف ہنگامے کر رہی ہیں اور اعتدال پسند بودھی راہنماؤں پر حملے کر رہی ہیں۔  

مئینمار (برما)

تاریخی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ برما میں بدھ مت کی تاریخ دو ہزار سال سے بھی پرانی ہے، جہاں قریب ۸۵٪ لوگ اپنے آپ کو بودھی مانتے ہیں۔ وہاں دینی طبقہ میں مراقبہ اور درس کے درمیان توازن کی طویل روائت پائی جاتی ہے، اور عوام کا ایمان بہت مضبوط ہے۔ برما کا ایک نہائت مشہور بودھی گورو س۔ن۔گونکا ہے جو کہ مراقبہ کے وپاسن طریقوں کا استاد ہے۔ 

۱۹۴۸ میں جب سے برما نے برطانیہ سے آزادی حاصل کی ہے فوجی اور عوامی حکومتیں دونوں نے ہی تھیرواد بدھ مت کو فروغ دیا ہے۔ فوجی اقتدار میں بدھ مت پر کڑی نظر رکھی گئی ہے اور وہ خانقاہیں جنہوں نے ہزاروں باغیوں کو پناہ دی انہیں باقاعدہ تباہ کیا گیا ہے۔ بھکشو عموماً فوجی حکومت کے خلاف سیاسی احتجاج میں پیش پیش رہے ہیں، جیسا کہ ۸۸۸۸ کی بغاوت اور ۲۰۰۷ کا زعفران انقلاب۔
گزشتہ دہائی کے دوران مختلف قومیت پسند گروہ سامنے آۓ ہیں جن کا مقصد بدھ مت کا احیا اور اسلام کی مخالفت ہے۔ ۹۶۹ گروہ کا بھکشو قائد اشین وراتھو جو اپنے آپ کو "برما کا بن لادن" کہتا ہے، نے مسلمانوں کی دکانوں کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔ "بدھ مت کے تحفظ" کے بہانے مسجدوں اور مسلمان گھرانوں پر حملے ہوۓ ہیں، اور مسلمانوں نے بھی جوابی حملے کئیے ہیں جس سے تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔

بنگلہ دیش

گیارھویں صدی تک بنگلہ دیش کا بڑا مذہب بدھ مت تھا۔ آجکل بدھ مت کی تعداد ایک فیصد سے بھی کم ہے اور وہ چٹاگانگ کے پہاڑی سلسلہ میں برما کے قریب آباد ہیں۔ 

ڈھاکہ، جو کہ دارلحکومت ہے، میں چار بودھی مندر ہیں، اور مشرقی دیہاتوں میں بھی بہت سارے مندر ہیں۔ برما سے لاتعلقی کی بدولت بدھ مت کے پاٹھ اور گیان کا درجہ کافی نیچا ہے۔

تھائی لینڈ

پانچویں صدی عیسوی سے بدھ مت جنوب مشرقی ایشیا کی راجدھانیوں میں متعارف ہوا۔ وہاں تھیرواد کو مانا جاتا ہے جس میں عوامی دھرم اور ہندو مت کے گہرے اثرات معہ مہایان بدھ مت کے پاۓ جاتے ہیں۔ سری لنکا اور برما سے اختلاف کرتے ہوۓ وہاں کبھی بھی عورتوں کو دھرمی منصب داری نصیب نہیں ہوئی۔ ملک کی ۹۵٪ آبادی بدھ مت کی پیرو ہے۔

تھائی بھکشو برادری تھائی لینڈ کی بادشاہت کے نمونہ کی عکاسی کرتی ہے، جس میں ایک بڑا سربراہ ہوتا ہے جس کے ہمراہ بڑوں کی کونسل ہوتی ہے جو رسم و رواج کی اصلیت برقرار رکھنے کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ بعض بھکشو برادریاں جنگلوں میں رہتی ہیں اور بعض دیہاتوں میں۔ عوام دونوں کا ہی بہت احترام  اور ان کی معاونت کرتے ہیں۔

جنگلوں کے بھکاری بھکشو دور دراز جنگلوں میں رہتے ہیں اور سنیاسی اصولوں پر سختی سے کار بند ہوتے ہوۓ گہرا مراقبہ کرتے ہیں۔ دیہات کے بھکشو عموماً دھرمی صحیفوں کو ازبر کرتے ہیں اور مقامی لوگوں کے لئیے رسوم ادا کرتے ہیں۔ تھائی تہذیب جو ارواح پر ایمان رکھتی ہے کے مد نظر یہ بھکشو عام جنتا کی حفاظت کے لئیے انہیں تعویذ فراہم کرتے ہیں۔ وہاں بھکشووں کے لئیے ایک جامعہ بھی ہے جس کا بنیادی مقصد بھکشووں کو بودھی صحیفوں کا کلاسیکل پالی سے ماڈرن تھائی میں ترجمہ کرنے کی تربیت دینا ہے۔

لاؤس

بدھ مت پہلے پہل ساتویں صدی عیسوی میں لاؤس پہنچا، اور اب ۹۰ فیصد آبادی بدھ مت جس میں مظاہر پرستی بھی شامل ہے میں ایمان رکھتی ہے۔ اشتراکی راج کے دوران شروع میں حکمرانوں نے فوراً ہی مذہب پر ظلم نہیں ڈھایا بلکہ بودھی سنگھا کو اپنے مقاصد کے فروغ کے لئیے استعمال کیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بدھ مت بری طرح زیرِعتاب آیا۔ ۱۹۹۰ کی دہائی سے لے کر بدھ مت نے پھر سے جلا پائی ہے، جس میں لاؤس کے بیشتر باشندوں نے بہت عقیدت کا اظہار کیا ہے، اور اکثر مردوں نے کسی آشرم یا مندر میں باقاعدگی سے جانا شروع کیا ہے خواہ تھوڑے عرصہ کے لئیے ہی سہی۔ اکثر گھرانے بھکشووں کو کھانا دیتے ہیں، اور پورن ماشی کی رات کو مندر جاتے ہیں۔

کمبوڈیا

(کمبوڈیا میں) تیرھویں صدی عیسوی سے تھیرواد بدھ مت سرکاری دھرم رہا ہے، جہاں ۹۵٪ آبادی آج بھی بودھی ہے۔ ۱۹۷۰ کی دہائی میں خمیر روج بدھ مت کو مکمل طور پر تباہ کرنے میں قریب قریب کامیاب ہو گئے تھے؛ اور ۱۹۷۹ تک تقریباً ہر بھکشو یا تو قتل ہوچکا تھا یا ملک بدر، اور تمام مندر اور کتب گھر تباہ کئیے جا چکے تھے۔ 

شہزادہ شاہنوک کی بحالی بطور بادشاہ کے بعد دھیرے دھیرے پابندیاں اٹھائی جانے لگیں، اور بدھ مت میں دلچسپی بڑھنے لگی۔ کمبوڈیا کے لوگ جوتش، علم نجوم اور علم ارواح میں پکا یقین رکھتے ہیں، اور بھکشو معالج کا فریضہ ادا کرتے ہیں۔ بودھی بھکشو کئی ایک رسومات میں حصہ لیتے ہیں، نوزائندہ کا نام رکھنے سے لے کر شادی بیاہ اور تہجیز و تکفین کی رسومات تک۔

ویت نام

ویت نام میں بدھ مت کی آمد دو ہزار برس قبل اولاً  بھارت کے راستے اور پھر چین کے راستے ہوئی۔ لیکن پندھرویں صدی کے دوران یہ دھرم حکمران طبقے میں غیر مقبول ہونے لگا۔ بیسویں صدی کے اوائل میں اس کی تجدید ہوئی، مگر جمہوری دور میں کیتھولک کی حامی پالیسیوں نے بودھیوں کو ناراض کیا۔ اب صرف سولہ فیصد لوگ بدھ مت کے پیرو کار ہیں، لیکن پھر بھی یہ سب سے بڑا دھرم ہے۔
اب حکومت بدھ مت کی طرف سے کافی پرسکون ہے، اگرچہ مندروں کو حکومت کی نگرانی کے بغیر کاروائی کی اجازت نہیں۔

انڈونیشیا اور ملائیشیا

یہاں بدھ مت کی آمد دوسری صدی عیسوی کے لگ بھگ بھارت کے تجارتی راستوں کے توسط سے ہوئی۔ ایک لمبے عرصہ کے لئیے بدھ مت اور ہندو مت کی پرستش پندھرویں صدی تک شانہ بہ شانہ ہوتی رہی جب ماجاپاہت نام کی ہندو بدھ سلطنت کو زوال پیش آیا ۔ ستارھویں صدی کے آغاز تک اسلام نے ان مذاہب کو مکمل طور پر بےدخل کر دیا تھا۔

انڈونیشیا کی حکومتی پالیسی 'پنچا شیلا' کے مطابق سرکاری مذہب میں خدا پر ایمان جزوِ لازم ہے۔ بدھ مت خدا کو کسی ہستی کا رتبہ نہیں دیتا، بلکہ اسے آدی بدھا، یا "پہلا بدھا" کے بیان کی بنا پر تسلیم کرتا ہے جیسا کہ کل چکر کے تنتر میں ذکر کیا گیا ہے جو کہ بھارت میں ایک ہزار برس قبل مقبول ہوا۔ آدی بدھا تمام مخلوق کا ہمہ دان خالق ہے جو کہ وقت اور دوسری کمزوریوں سے آزاد ہے، اور اگرچہ ایک مجسمہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، مگر یہ کوئی ہستی نہیں ہے۔ آدی بدھا ہر ہستی میں من کی شفاف جوتی کے روپ میں موجود ہے۔ اس بنیاد پر بدھ مت کو اسلام، ہندومت، کنفیوشس مت، کیتھولک دھرم اور پروٹسٹنٹ دھرم کے ہمراہ قبولیت ملی۔

سری لنکا کے بھکشو بالی اور انڈونیشیا کے بعض علاقوں میں تھیرواد بدھ مت کی تجدید کی کوشش کر رہے ہیں، اگرچہ بہت محدود پیمانے پر۔ بالی کے جو لوگ اس میں دلچسپی کا اظہار کر رہے ہیں وہ بالی کے روائیتی مخلوط دھرم جو کہ ہندو مت، بدھ مت اور مقامی روحوں کے دھرم کا امتزاج ہے کے پیروکار ہیں۔ انڈونیشیا کے دوسرے علاقوں میں بودھی لوگ جو آبادی کا تقریباً ۵ فیصد ہیں، وہ انڈونیشیا کے چینی نسل کے لوگوں میں سے ہیں۔ اس کے علاوہ وہاں چند چھوٹے انڈونیشی بودھی فرقے بھی ہیں جو تھیرواد، چینی اور تبتی عناصر پر مشتمل ہیں۔

ملائیشیا کی ۲۰ فیصد آبادی بدھ مت کو مانتی ہے، اور یہ زیادہ تر سمندر پار سے آنے والے چینیوں پر مشتمل ہے۔ نصف صدی قبل بدھ مت میں دلچسپی کم ہونے لگی، تو ۱۹۶۱ میں بدھ مت کے پرچار کے لئیے بودھی مشنری سوسائیٹی کا قیام عمل میں آیا۔ گزشتہ عشرے میں بدھ مت پاٹھ میں زوردار اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، حتیٰ کہ نوجوانوں میں بھی۔ اب وہاں بےشمار تھیرواد، مہایان اور وجریان مراکز قائم ہیں جنہیں خاصی مالی معاونت اور پشت پناہی حاصل ہے۔

مشرقی ایشیا کا مہایان بدھ مت

عوامی جمہوریۂ چین

بدھ مت نے چین کی گزشتہ دو ہزار برس کی تاریخ میں اہم کردار ادا کیا ہے، اور چینی بدھ مت نے بدھ مت کے مشرقی ایشیا میں پھیلاؤ میں گونا گوں کردار ادا کیا ہے۔ تانگ سلطنت (۶۱۸-۹۰۷ صدی عیسوی) کے اوائل بدھ مت کا سنہری دور تھا جس میں فنون لطیفہ اور ادب کو بہت فروغ ملا۔

۱۹۶۰ اور ۱۹۷۰ کی دہائیوں میں ثقافتی انقلاب کے دوران چین کے بیشتر بودھی آشرم تباہ کر دئیے گئے، اور زیادہ تر اعلیٰ تربیت یافتہ بھکشو، راہبائیں اور اساتذہ کو یا تو قتل کر دیا گیا یا قید کر دیا گیا۔ تبت اور اندرونی منگولیا میں بدھ مت کو اور بھی شدت سے دبایا گیا۔ جوں جوں چین میں اصلاحات ہوئیں اور وسعت نظری پیدا ہوئی، تو روائتی مذاہب میں دلچسپی بڑھی۔ نئے مندر تعمیر ہوۓ اور پرانوں کو بحال کیا گیا۔ مٹھوں میں شامل ہونے والے زیادہ تر لوگ غریب اور غیر تعلیم یافتہ دیہاتی تھے، اور تعلیم کا فقدان رہا ہے۔ بہت سے مندر محض سیاحوں کی دلچسپی کا سامان مہیا کرتے ہیں، جہاں بھکشو محض ٹکٹ جمع کرنے اور مندر کی رکھوالی کا کام کرتے ہیں۔ 

آج کل بہت سے چینی لوگ بدھ مت میں دلچسپی دکھا رہے ہیں، خصوصاً تبتی بودھی سے اظہار عقیدت نمایاں ہے۔ ایک اندازے کے مطابق بودھی آبادی ۲۰ فیصد ہے، اور سارے چین میں مندر کھلنے کے وقت سے ہی مصروف ہوتے ہیں۔ جیسا کہ لوگ خوشحال اور مصروف ہوتے جا رہے ہیں، تو بہت سارے لوگ پریشانی کو کم کرنے کی خاطر چینی اور تبتی بدھ مت کی جانب رجوع کر رہے ہیں۔ بیشتر ہان چینی لوگ تبتی بدھ مت میں خصوصی دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہیں، خاص طور پر اس لئیے بھی کہ تبتی لاما کی بڑی تعداد چینی زبان میں درس دیتے ہیں۔

تائیوان، ہانگ کانگ اور سمندر پار چینی علاقے

 چین سے ماخوذ مشرقی ایشیا کی مہایان بودھی روایات تائیوان اور ہانگ کانگ میں ثابت قدم ہیں۔ تائیوان میں بھکشو اور راہباؤں کی مضبوط سنیاسی برادری موجود ہے جسے عام عوام کی بےحد حمائت حاصل ہے۔ وہاں بودھی دانش گاہیں اور سماجی خدمت کے بودھی پروگرام موجود ہیں۔ ہانگ کانگ میں ایک ترقی پذیر سنیاسی برادری بھی ہے۔ ملائیشیا، سنگاپور، انڈونیشیا، تھائی لینڈ اور فلپائن کی سمندر پار چینی بودھی برادریوں میں ایسی رسومات پر زور دیا جاتا ہے جن کی ادائگی سے پُرکھوں کا بھلا ہو اور زندہ حاضر لوگوں کی مالی خوشحالی میں اضافہ ہو۔ ایسے کئی رابطے پاۓ جاتے ہیں جن کے توسط سے بودھی پروہت وجد کی حالت میں بات کرتے ہیں اور جن سے عام عوام جسمانی صحت اور نفسیاتی مسائل کے لئیے مشورہ کرتے ہیں۔ چینی تاجر جو کہ اس "ایشیائی شیر" معیشت کی اصل طاقت ہیں بھکشووں کو دل کھول کر دان دیتے ہیں تا کہ وہ ان کی مالی کامیابی کے لئیے رسومات پوری کریں۔ تائیوان، ہانگ کانگ، سنگاپور اور ملائیشیا میں بھی تبتی بودھیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔

جنوبی کوریا

بدھ مت تیسری صدی عیسوی میں چین سے کوریا کے جزیرہ نما میں داخل ہوا۔ جنوبی کوریا میں کٹر عیسائی تنظیموں کے بڑھتے ہوۓ حملوں کے باوجود بدھ مت کافی مضبوط ہے۔ پچھلی دہائی میں ان گروہوں کی لگائی ہوئی آگ سے بےشمار بودھی مندر تباہ ہو گئے ہیں۔ ۲۳ فیصد آبادی بدھ مت کی پیرو ہے۔

جاپان

جاپان میں بدھ مت کوریا کے راستے پانچویں صدی میں آیا، اور اس نے تیرھویں صدی سے جاپانی سماج اور ثقافت میں اہم کردار ادا کیا ہے، وہاں شادی شدہ  مندری بھکشو پاۓ جاتے ہیں اور شراب نوشی کے خلاف کوئی پابندی نہیں۔ ان پنڈتوں نے دھیرے دھیرے مجرد بھکشووں کی جگہ لے لی ہے۔ رواجاً بعض بودھی روایات بےحد قومیت پرست رہی ہیں، ان کا موقف یہ ہے کہ جاپان ایک بودھی بہشت ہے۔ دور جدید میں بعض یوم قیامت کے مسلک کے سرپھرے پیروکار بھی اپنے آپ کو بودھی قرار دیتے ہیں، حالانکہ ان کا شکیا مونی بدھا کی تعلیمات سے کوئی واسطہ نہیں۔

۴۰ فیصد آبادی اپنے کو بودھی مانتی ہے، جبکہ بیشتر جاپانی بدھ مت کی تعلیمات کو پرانے جاپانی دھرم شنتاؤ سے مخلوط کرتے ہیں۔ جنم اور شادی بیاہ کی رسوم شنتاؤ کے مطابق ادا کی جاتی ہیں جبکہ تہجیز و تکفین کی رسومات بودھی پروہت ادا کرتے ہیں۔

جاپان میں مندروں کی دیکھ بھال نہائت عمدہ طریقے سے کی جاتی ہے، سیاحوں اور حاضری دینے والوں کے لئیے، اگرچہ بعض نہائت کاروباری رویہ رکھتے ہیں۔ زیادہ تر درس اور مشق دونوں بہت کمزور ہیں۔ دنیا کی ایک بہت بڑی بودھی تنظیم، سوکا گکائی، کی بنیاد جاپان میں پڑی۔.

وسطی ایشیا کا مہایان بدھ مت

تبت

بدھ مت کی آمد تبت میں ساتویں صدی عیسوی میں ہوئی۔ کئی صدیوں کے دوران، شاہی خاندان کی سرپرستی اور اُمراء کی مدد کی بدولت بدھ مت قبائلی زندگی کے کئی پہلووں میں سرائت کر گیا۔ عوامی جمہوریہ چین کے تبت پر قبضہ کرنے کے بعد بدھ مت کو شدت سے دبایا گیا۔ ۱۵۰ آشرموں اور راہبہ گھروں کو چھوڑ کر باقی ماندہ ۶،۵۰۰ کو تباہ کر دیا گیا، اور بڑے تعلیم یافتہ گورووں  میں سے زیادہ تر یا تو قتل کر دئیے گئے یا وہ جنگی قید خانوں میں وفات پا گئے۔ ثقافتی انقلاب کے بعد، آشرموں کی تعمیر نو کا کام پرانے بھکشووں، مقامی لوگوں اور جلا وطن تبتیوں کی کوششوں کا نتیجہ ہے، جس میں حکومت نے محض دو یا تین کی تعمیر میں مدد کی ہے۔

چینی اشتراکی حکومت الحادی ہے، مگر پانچ مذاہب کو "تسلیم" کرتی ہے جن میں سے ایک بدھ مت بھی ہے۔ اگرچہ چینی حکومت مذہبی معاملات میں دخل اندازی سے گریز کا دعویٰ کرتی ہے، لیکن جب دلائی لاما نے ایک تبتی نوخیز لڑکے کو پنچن لاما کا پنر جنمی قرار دیا تو وہ لڑکا اور اس کے گھر والے غائب کر دئیے گئے۔ اس کے جلد بعد چینی حکومت نے اپنے طور پر تلاش شروع کی اور ایک آدھا چینی اور آدھا تبتی لڑکا پکڑ کر لے آۓ۔ دلائی لاما کا منتخب شدہ لڑکا آج تک نہیں ملا۔

آجکل ہر آشرم، مٹھ اور مندر کے اپنے سرکاری کارندے ہیں۔ یہ سفید کپڑوں میں ملبوس پولیس کے مرد اور عورتیں ہیں جو مختلف کاموں میں "مدد" کرتے ہیں۔ اس کا اصل مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ بھکشو برادری پر نظر رکھتے ہیں اور ان کی جاسوسی کرتے ہیں۔ بعض اوقات کارندوں کی یہ ٹیمیں سنیاسی برادری جتنی بڑی ہوتی ہیں۔ سرکاری مداخلت کے علاوہ تبت میں بودھی لوگوں کے لئیے ایک بڑا مسٔلہ قابل اساتذہ کی کمی ہے۔ بھکشو مرد اور خواتین مزید علم حاصل کرنے کے خواہاں ہیں مگر بیشتر اساتذہ کی تربیت محدود ہے۔ گزشتہ عشرے میں حکومت نے لہاسا میں ایک بودھی "جامعہ" قائم کی۔ یہ نوجوان تلکووں کے لئیے تربیتی مدرسہ کا کام دیتی ہے جہاں وہ تبتی بھاشا، خوشخطی، طب، اکو پنکچر اور کچھ بودھی فلسفہ سیکھتے ہیں۔ ڈیجیٹل دور نے عام تبتی نوجوانوں کو بدھ مت سے قریب کر دیا ہے۔ ان میں سے بہت سے ویب چَیٹ اور ویبو گروہوں کی رکنیت اختیار کرتے ہیں اور یوں بودھی تعلیمات اور قصے کہانیاں ایک دوسرے کے ساتھ بانٹتے ہیں۔ بدھ مت کے متعلق مزید علم کی حصولی کو ایک "سچا تبتی" ہونے کی علامت تصور کیا جاتا ہے۔

مشرقی ترکستان

ثقافتی انقلاب کے دوران مشرقی ترکستان (زنجیانگ) میں رہنے والے کلمک منگولوں کے بیشتر آشرم تباہ کر دئیے گئے تھے۔ کئی ایک کی اب تعمیر نو ہو چکی ہے مگر یہاں اساتذہ کی کمی کا مسٔلہ تبت سے بھی زیادہ سنگین ہے۔ نئے نوجوان بھکشو اس صورت حال سے بہت پست حوصلگی کا شکار ہوۓ ہیں اور کئی تو چھوڑ ہی گئے ہیں۔

اندرونی منگولیا

عوامی جمہوریہ چین کے زیر اثر تبت کے بودھی لوگوں کی سب سے خستہ حالت اندرونی منگولیا میں تھی۔ ثقافتی انقلاب کے دوران مغربی نصف میں زیادہ تر آشرم تباہ کر دئیے گئے۔ مشرقی نصف حصہ میں، جو کہ پہلے منچوریا کا حصہ تھا، بہت سارے آشرم دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر سٹالن کے فوجیوں کے ہاتھوں تباہ ہو چکے تھے جب روسیوں نے شمالی چین کو جاپانیوں کے قبضہ سے آزاد کرانے میں مدد کی تھی۔ ۷۰۰ میں سے صرف ۲۷ بچے۔

۱۹۸۰ کی دہائی سے مندر قائم کرنے اور دوبارہ آشرم تعمیر کرنے کی کوششیں جاری ہیں، جہاں نہ صرف منگول بلکہ ہان چینی بھی حاضری دیتے ہیں۔

منگولیا

منگولیا میں ہزاروں کی تعداد میں آشرم تھے جو کہ سب کے سب ۱۹۳۷ میں سٹالن کے حکم سے یا تو مکمل طور پر یا جزوی طور پر تباہ کر دئیے گئے تھے۔ ۱۹۴۶ میں اولان باتر میں ایک آشرم بطور نشانی کے کھولا گیا، اور ۱۹۷۰ کی دہائی میں بھکشووں کے لئیے ایک پانچ سالہ تربیتی ادارہ قائم کیا گیا۔ اس کا نصاب نہائت مختصر تھا جس میں کارل مارکس کے نظریات کی تعلیم پر بےحد زور دیا گیا تھا، جہاں بھکشووں کو عوام کے لئیے چند ایک رسومات ادا کرنے کی اجازت تھی۔ ۱۹۹۰ میں اشتراکیت کے زوال کے بعد جلاوطن تبتیوں کی مدد سے بدھ مت نے بہت زور پکڑا ہے۔ بہت سے نئے بھکشو تربیت کے لئیے بھارت جاتے ہیں، اور ۲۰۰ سے زیادہ آشرم سادہ پیمانے پر تعمیر کئیے گئے ہیں۔

 ۱۹۹۰ کے بعد منگولیا میں بدھ مت کو جو سب سے بڑا مسٔلہ پیش آیا وہ جارحانہ قسم کے مورمن، ایڈونٹسٹ اور  بپتسمی عیسائی تبلیغی لوگوں کی آمد تھی جو لوگوں کو انگریزی سکھانے کے بہانے آتے ہیں۔ وہ لوگوں کے بچوں کو پیسہ اور امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے میں امداد مہیا کرتے ہیں اگر وہ اپنا مذہب تبدیل کریں، اور یسوع مسیح پر منگولیا کی روز مرہ کی زبان میں لکھی ہوئی خوبصورت، رنگین کتابیں مفت بانٹتے ہیں۔ بیشتر بدھ مندر مالی مسائل کی وجہ سے ان لوگوں سے مقابلہ نہیں کر پاتے۔ نوجوان لوگوں کی عیسائیت کی جانب راغب افزوں پذیر تعداد کے پیش نظر بدھ تنظیموں نے عوامی زبان میں بدھ مت پر معلومات چھاپ کر، ٹیلیویژن اور ریڈیو پروگراموں کے ذریعہ تقسیم کرنا شروع کر دی ہے۔
 

اب منگولیا میں جارحانہ قسم کی مذہبی تبدیلی پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ سنۂ ۲۰۱۰ میں، آبادی کا ۵۳ فیصد حصہ بدھ متی تھا جبکہ ۱۔۲ فیصد لوگ عیسائی تھے۔

 

جلا وطن تبتی لوگ

وسطی ایشیا کے بدھ مسلکوں میں سے سب سے زیادہ مضبوط وہ لوگ ہیں جو ۱۹۵۹ کی مقبول عام، چینی فوجی حکومت کے تبت پر قبضہ کے خلاف، جد و جہد کے بعد سے تقدس مآب دلائی لاما کے ہمراہ بھارت میں جلا وطنی میں مقیم ہیں۔ انہوں نے تبت کے زیادہ تر بڑے بڑے آشرم اور بہت سے عورتوں کے مٹھ دوبارہ چالو کر دئیے ہیں، اور ان کے ہاں بھکشو علما، اور فاضل مراقبہ کنندگان اور اساتذہ کی روائتی تربیت کا پورا انتظام ہے۔ ان کے ہاں تدریسی، تحقیقی اور اشاعتی سہولتیں موجود ہیں  تا کہ ان کے توسط سے تبتی بودھی مسلک کے تمام پہلووں کو محفوظ رکھا جاۓ۔

 جلا وطن تبتیوں نے بھارت کے ہمالی علاقوں، نیپال اور بھوٹان بشمول لداخ اور سکم کے بدھ مت کو دوبارہ سے فعال بنانے میں، اساتذہ اور روایات کو دوبارہ زندہ کر کے، بہت مدد کی ہے۔

نیپال

اگرچہ نیپال کی بیشتر آبادی ہندو ہے مگر پھر بھی مہاتما بدھ کی اس جنم بھومی میں بودھی ثقافت کے گہرے اثرات پاۓ جاتے ہیں۔ نسلی گروہ مثلاً نوار، گورنگ، اور تمنگ نیپالی بدھ مت کی روائتی شکل کی پوجا کرتے ہیں۔ بودھی لوگ آبادی کا ۹ فیصد ہیں۔

بدھ مت اور ہندو مت کے امتزاج کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوۓ نیپال ایک ایسا واحد سماج ہے جس میں فرقہ وارانہ امتیاز کو آشرموں کی چار دیواری تک ہی محدود رکھا جاتا ہے۔ گزشتہ ۵۰۰ برس کے دوران شادی شدہ بھکشو سامنے آۓ ہیں، جن کی موروثی ذات ہے جو مندروں کے رکھوالے اور رسموں کی ادائیگی کے سربراہ بن جاتے ہیں۔

روس

روس کے تین روائیتی بودھی علاقے بریاتیا، تُووا اور کلمیکیا ہیں۔ ان علاقوں میں تمام آشرم، سواۓ ان تین کے جو بریاتیا میں تباہ کئیے گئے، ۱۹۳۰  کی دہائی کے اواخر میں سٹالن نے تباہ کر دئیے۔ ۱۹۴۰ کے عشرے میں سٹالن نے بریاتیا میں دو آشرم دکھاوے کے طور پر کھول دئِے، جن پر کے جی بی کی کڑی نگرانی تھی۔ بےچوغہ بھکشو دن کے دوران اپنے چوغے بطور یونیفارم کے رسوم کی ادائگی کی خاطر پہن لیتے تھے۔ اشتراکیت کے زوال کے بعد تینوں صوبوں میں بڑے پیمانے پر بدھ مت کی تجدید ہوئی ہے۔ جلا وطن تبتیوں نے اساتذہ بھجواۓ ہیں، اور نئے نوجوان بھکشووں کو بدھ آشرموں میں بھارت میں تربیت کے لئیے بھیجا جاتا ہے۔ بریاتیا، تُووا اور کلمیکیا میں ۲۰ سے زائد آشرم قائم کئیے گئے ہیں۔

غیر بودھی ممالک

بودھی ممالک کی یورپی نوآبادیت اور عیسائی مبلّغین اور علما کی بدولت بدھ مت کے متعلق تفصیلی معلومات انیسویں صدی عیسوی میں یورپ پہنچیں۔ اسی دور کے لگ بھگ، چینی اور جاپانی تارکین وطن نے شمالی امریکہ میں مندر تعمیر کئیے۔

بدھ مت کی تمام اقسام ساری دنیا میں، روائتی طور پر غیر بودھی ملکوں میں بھی، ملتی ہیں۔ اس میں دو بڑے گروہ شامل ہیں: ایشیائی تارکین وطن اور غیر ایشیائی پیروکار۔ ایشیائی تارکین وطن نے، خصوصاً امریکہ، آسٹریلیا اور کسی حد تک یورپ میں بھی، اپنی روائت کے مطابق بہت سارے مندر قائم کئیے ہیں۔ ان مندروں کا بنیادی مقصد بھگتی پنتھ کو فروغ دینا اور تارکین وطن کو ایک ایسا مرکزمہیا کرنا ہے جس سے وہ اپنی ثقافتی شناخت کو قائم رکھ سکیں۔ اس وقت امریکہ میں چالیس لاکھ سے زائد بودھی ہیں، اور یورپ میں یہ تعداد بیس لاکھ سے متجاوز ہے۔

اس وقت پوری دنیا میں، اور ہر براعظم پر، ہر مسلک کے ہزاروں بودھی "دھرم مراکز" موجود ہیں۔ یہ جو بیشتر تبتی، زین اور تھیرواد مسلک کے مراکز ہیں ان میں غیر ایشیائی باشندے آتے ہیں جہاں کہ مراقبہ، درس اور ادائیگی رسوم پر زور دیا جاتا ہے۔ اساتذہ میں مغربی لوگ اور ایشیائی نسل کے بودھی دونوں ہی شامل ہیں۔ مراکز کی سب سے بڑی تعداد امریکہ، فرانس اور جرمنی میں ہے۔ بعض سنجیدہ طلباء گہری تربیت کی خاطر ایشیا جاتے ہیں۔ مزید برآں، دنیا بھر میں کئی ایک دانش گاہوں میں بدھ مت کی تعلیم کے مراکز قائم ہیں، اور بدھ مت اور دوسرے مذاہب، سائنس، نفسیات اور طِب کے درمیان مبحث اور تبادلہ خیال کا سلسلہ افزوں پذیر ہے۔ تقدس مآب دلائی لاما نے اس سلسلہ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔  

Top