فیاضی بطور ایک کمال: دان پرمت

بچپن میں ہمیں اپنے کھلونے اور مٹھائی بانٹنے کو کہا جاتا ہے، لیکن بڑے ہو کر بھی، فیاضی کوئی ایسی جنس نہیں جو فطری طور پر یا آسانی سے پیدا ہو۔ ہم اکثر محسوس کرتے ہیں کہ اگر ہم اپنی قیمتی اشیاء بانٹ دیں تو ہمارے پاس تفریح کا کوئی سامان نہیں رہے گا۔ مہاتما بدھ نے یہ سبق دیا کہ فیاضی ایک ایسا زبردست طور ہے جو کہ نہ صرف دوسروں کو براہِ راست فائدہ پہنچاتا ہے بلکہ ہمیں بھی بے حد خوشی اور شانتی دیتا ہے۔ اس مضمون میں ہم فیاضی کا چھ دور رس اطوار یا کمالات میں سے پہلے کے طور پر مطالعہ کریں گے۔

 تعارف

چھ دور رس اطوار، جنہیں اکثر "چھ کمالات" یا "چھ پرمت" بھی کہا جاتا ہے من کی وہ حالتیں ہیں جو ہمیں اپنے آپ کو بہتر بنانے اور دوسروں کی بخوبی مدد کرنے کی صلاحیت بخشتی ہیں۔ یہ اطوار ان بڑی مشکلات مثلاً سستی اور غصہ جو کامیابی کے آڑے آتی ہیں کے اثرات کو زائل کرتی ہیں، لہٰذا وہ سب کے لئیے سود مند ہیں۔ ہم انہیں "دور رس" کہتے ہیں کیونکہ بدھ مت کے پس منظر میں جب ہم انہیں پوری طرح استوار کرتے ہیں تو یہ ہمیں ہماری کمزوریوں اور مشکلات کے سمندر کے دور دراز ساحل تک پہنچنے میں معاون ہوتی ہیں۔ اگر ہم تیاگ سے ترغیب لیتے ہیں – جو کہ تمام دکھوں سے نجات کا مصمم ارادہ ہے – تو یہ ہمیں مکش دلا دیں گی۔ بودھیچت کی تحریک سے – جو کہ ایک مہاتما بدھ بننے کی خواہش ہے تا کہ باقی سب لوگوں کو بخوبی فائدہ پہنچایا جا سکے – یہ ہماری مکمل روشن ضمیری کی جانب راہنمائی کرتی ہیں۔

چھ دور رس اطوار درج ذیل ہیں:

  • فیاضی
  • اخلاقی ضبط نفس
  • صبر
  • استقامت
  • من کا استحکام (ارتکاز)
  • امتیازی آگہی (دانائی)

ہم ان سب (چھ) میں تربیت بذریعہ مراقبہ اور روز مرہ کی مصروفیات سے حاصل کرتے ہیں۔ جس طرح ہم جسمانی اعضا کو مضبوط بنانے کے لئیے ورزش کرتے ہیں، ہم جس قدر زیادہ من کی ان حالتوں کی مشق کریں گے وہ اتنی ہی زیادہ مضبوط ہوں گی۔ بالآخر، وہ اس طرح ہماری زندگی کا حصہ بن جاتی ہیں کہ وہ ہماری اپنے متعلق سوچ اور یہ کہ جس طرح ہم دوسروں سے پیش آتے ہیں کا فطری جزو بن جاتی ہیں۔

فیاضی

فیاضی ایسا رویہ ہے جس کے تحت ہم دوسروں کو جو بھی انہیں چاہئیے دے دیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنا سب کچھ لُٹا دیں اور خود کنگال ہو جائں، جیسا کہ بعض مذاہب میں کہا جاتا ہے کہ غربت بذات خود ایک گن ہے۔ یہاں فیاضی سے مراد ہمارا 'بغیر تامل کے دینے پر راضی ہونا' اور بغیر کسی رکاوٹ کے بھی، اور جب ایسا کرنا مناسب ہو، جس کے لئیے امتیاز کی ضرورت ہے۔ ہم کسی شخص کو پستول نہیں پکڑا دیتے جس کا ارادہ قتل کا ہے، یہ سوچتے ہوۓ، "اوہ، میں کس قدر فراخدل ہوں! یہ رہے تمہاری بندوق خریدنے کے لئیے پیسے!" غیر مناسب فیاضی کی ایک اور مثال یہ ہو سکتی ہے کہ کسی کو نشہ آور ادویات خریدنے کے لئیے پیسہ دیا جاۓ۔

فیاض ہونے کے لئیے ہمارا مالدار ہونا ضروری نہیں ہے؛ اگر ہم بہت غریب ہوں اور ہمارے پاس دینے کو کچھ نہ ہو تو بھی ہمارے اندر کچھ دینے کی خواہش تو ہو سکتی ہے۔ وگرنہ، غریب لوگ کیسے فیاضی کا جذبہ پروان چڑھا پائں گے؟ جب بھی ہم غروب آفتاب کا حسین منظر دیکھیں، تو ہم اس تمنا کا اظہار کر کے کہ سب لوگ اس سے محظوظ ہوں فیاضی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔ ہم یہ کام خوبصورت نظاروں، اچھے موسم، لذیذ غذا، وغیرہ وغیرہ کے ساتھ بھی کر سکتے ہیں۔ یہ سب فیاضی میں شامل ہے! ہم اپنی ملکیت اشیاء کے متعلق فیاضانہ رویہ اختیار کر سکتے ہیں، اور ان اشیاء کے متعلق بھی جو کسی کی ملکیت نہیں ہیں۔ مراقبہ میں ہم ہر طرح کی عمدہ اشیاء دوسروں کو دینے کا تصور کر سکتے ہیں، لیکن اگر ہمارے پاس سچ مچ کوئی ایسی چیز ہے جو کسی کے کام آ سکتی ہے اور انہیں اس کی ضرورت ہے، تو پھر ہم اسے محض انہیں دینے کا تصور ہی نہیں کرتے۔ ہم حقیقتاً دے دیتے ہیں!

فیاضی خسّت کی ضد ہے، جو کسی کے ساتھ کوئی بھی چیز بانٹنے یا کسی کو کوئی چیز دینے کی نا رضامندی ہے۔ اس بخل کی بنیاد یہ احساس ہے کہ اگر ہم نے دوسروں کو دے دیا تو ہمارے لئیے کچھ نہیں بچے گا۔ لیکن اس کے بالمقابل:

'اگر میں سب کچھ اپنے لئیے دبا رکھوں، تو دوسروں کو دینے کے لئیے میرے پاس کیا بچے گا؟'  - تبتی کہاوت

ہمیں عصبیت کا شکار نہیں ہونا چاہئیے۔ دوسروں کی مدد کرنے کے دوران ہمیں خود اپنے کھانے پینے اور سونے کا اہتمام کرنا ہے۔ ہمیں خود اپنا خیال بھی رکھنا ہے، لہٰذا فیاضی سے مراد اپنی ملکیت کو دوسروں کے ساتھ بانٹنا ہے۔ عظیم تر ترقی یافتہ بودھی ستوا دوسروں کی مدد کے لئیے اپنی جان بھی دے سکتے ہیں، مگر ہماری سطح پر ہم حقیقتاً ایسا نہیں کر سکتے۔ لہٰذا ہمیں ایسا نہیں کرنا ہے، ابھی، سب کچھ دان نہیں کر چھوڑنا کہ ہم خود بھوکے مر جائں۔ لیکن ہمیں دوسروں کی مدد کے سلسلہ میں جسمانی قربانی دینے کو تیار رہنا چاہئیے، جو کسی کے لئیے مشکل یا پیچیدہ کام کی صورت میں یا جسمانی مشقت کی شکل میں ہو سکتا ہے۔ ہمیں اپنے ہاتھ گندے کرنے سے گریز نہیں کرنا چاہئیے!

فیاضی میں ہماری "گن کی جڑوں" کو بانٹنا بھی شامل ہے جو کسی مثبت شکتی جو ہم نے استوار کی ہے کے مثبت امکانات ہیں۔ میں اپنی زندگی کی ایک مثال پیش کر سکتا ہوں: اپنی گزشتہ زندگیوں کے دوران تعمیری کاموں کی بدولت میں نے جو مثبت امکانات پیدا کئیے ان کے نتیجہ میں مجھے بھارت میں بعض عظیم ترین بدھ علماء سے ملنے اور ان کے ہمراہ مطالعہ کرنے کا موقع ملا ہے اور مجھے تمام دنیا میں مدعو کیا گیا ہے جہاں میں نے بعض بڑے لوگوں سے مثبت تعلق قائم کیا ہے۔ اس سے مزید مثبت امکانات نے جنم لیا ہے، اور اپنی مشق کے حصہ کے طور پر میں ان "گن کی جڑوں" کو دوسرے لوگوں کے ساتھ بانٹنے کی کوشش کرتا ہوں اور ان سے جو بھلائی پختہ ہو کر سامنے آ سکتی ہے اسے اپنے تک ہی محدود نہیں رکھتا۔ جب کبھی مناسب ہو میں اپنے جان پہچان والے ان گرووں، بدھی مان لوگوں اور مختلف مدد گار لوگوں کو تمام دنیا میں دوسرے لوگوں سے متعارف کراتا ہوں۔ میں نے اپنی یونیورسٹی کی تعلیم اور ہندوستان میں کئی دہائیوں تک مراقبہ اور مطالعہ سے جو کچھ سیکھا اسے دوسرے لوگوں کے ساتھ بانٹنے کی کوشش کرتا ہوں۔ یہ ہے ہماری گن کی جڑوں کو بانٹنے کا مطلب: دوسروں کے لئیے دروازے کھولنا۔

عام طور پر ہم فیاضی کی چار اقسام کی بات کرتے ہیں:

۱۔ مادی امداد دینا

۲۔ تعلیم اور صلاح مشورہ دینا

۳۔ خوف سے تحفظ فراہم کرنا

۴۔ پیار دینا۔

مادی مدد دینے کی فیاضی

مادی امداد دینے کی فیاضی کا تعلق ہماری مادی ملکیت سے ہے، خوراک، کپڑے، روپیہ پیسہ، اور دوسری اشیاء جو ہماری ملکیت ہیں۔ اس میں دان کرنے کا ایسا احساس شامل ہے کہ اس وقت کچھ دیا جاۓ جب ایسا کرنا مناسب ہو اور با عزت طریقہ سے دیا جاۓ، نہ کہ جیسے کسی کتے کے آگے ہڈی پھینکتے ہیں۔ مادی اشیا دینے کی مشق کے لئیے ہمارا امیر ہونا اور بہت سی اشیاء کا مالک ہونا ضروری نہیں ہے، کیونکہ ہم وہ اشیاء بھی دان کر سکتے ہیں جو ہماری ملکیت نہیں ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم کسی ماڈرن رابن ہڈ کی مانند جا کر لوٹ مار کریں اور پھر اسے غریبوں میں بانٹ دیں! ہم بات کر رہے ہیں ان چیزوں کی جو سرکار کی ملکیت میں ہیں، جیسے فضا کی صفائی تا کہ لوگ اس سے لطف اندوز ہو سکیں۔ یہ لوگوں کے لئِے بہترین تحفہ ہے۔ ہم کسی خوشگوار تجربہ کو بھی دوسروں کے ساتھ بانٹ سکتے ہیں، جیسے "کاش ہر کوئی سہانے موسم سے محظوظ ہو،" وغیرہ۔

ہمیں محض مادی روپ میں ملبوس اشیاء کے متعلق ہی نہیں سوچنا چاہئیے۔ ہم وقت، کام، شوق، شکتی، حوصلہ افزائی وغیرہ کے سلسلہ میں اپنے جسم کی قربانی بھی دے سکتے ہیں۔ یہ سب مادی اشیاء کے معاملہ میں فیاضی دکھانے کے ماہرانہ طریقے ہیں۔

صاف ظاہر ہے کہ کسی کو زہر یا ہتھیار یا کوئی اور ایسی چیز دینا جس سے وہ اپنے آپ کو یا کسی اور کو نقصان پہنچا سکیں نا مناسب ہو گا۔

تعلیم اور نصیحت دینے میں فیاضی کا مظاہرہ

بودھی نظریہ کے مطابق یہ دھرم دینے والی بات ہے – بدھ تعلیمات – مگر ہم اس میں غیر بودھی نظریات کو بھی شامل کر سکتے ہیں۔ اس کا تعلق محض درس و تدریس، ترجمہ، تحریری مسودے تیار کرنا، شائع کرنا، یا تعلیمی مراکز قائم کرنے اور ان میں کام کرنے سے ہی نہیں ہے، بلکہ اس میں لوگوں کے سوالوں کے جواب دینا، انہیں معلومات اور مشورہ دینا جب اور جب کبھی ممکن ہو، بھی شامل ہے۔

ساکیہ پنتھ میں 'سمادھی چڑھاوا'  (ارتکاز) بھی شامل ہے، جس میں ہم دوسروں کو اپنے دھرم پاٹھ کے مختلف پہلووں سے رو شناس کرواتے ہیں۔ وہ سب کچھ جو ہم نے مطالعہ سے سیکھا ہے، اسے ہم دوسروں کے سامنے پیش کرتے ہیں اور اس سے ان کی مدد کرتے ہیں۔ ہم نے وہ تمام علم، تیقن، نظم و ضبط، فہم و فراست اور ارتکاز، اور تعلیمات کی شرح جو حاصل کی ہے اسے بھی دوسروں کے ساتھ بانٹتے ہیں۔ یہ سب دھرم کو بانٹنے کی فیاضی کے زمرے میں آۓ گا، مگر بے شک، ہم اس میں ہر اس چیز کو دوسروں کے ساتھ بانٹنے کے لئیے شامل کر سکتے ہیں جو ان کے لئیے سود مند ہو سکتی ہے۔

خوف سے تحفظ دلوانے کی فیاضی

اس قسم کی فیاضی کا تعلق دوسروں کی مدد سے ہے جب وہ ناسازگار حالات سے دوچار ہوں۔ اس میں ان جانوروں کی رہائی شامل ہے جنہیں ذبح کیا جانےوالا ہو، اور جو پنجروں میں بند ہیں انہیں رہا کرنا تا کہ وہ آزادی سے گھوم پھر سکیں۔ کسی تیرنے والے تالاب سے ڈوبتی ہوئی مکھیوں کو بچانا، شدید سردی یا گرمی سے انسانوں اور جانوروں کو محفوظ رکھنا – یہ سب تحفظ فراہم کرنے کے مترادف ہے۔ اگر ہمارے فلیٹ میں کوئی بھنورا ہے، تو ہم اسے یوں ہی باہر نہیں پھینک دیتے، یہ سوچتے ہوۓ کہ پانچ منزل نیچے گر کر اسے کچھ نہیں ہو گا۔ خوف سے تحفظ دلانے کی فیاضی یہ ہو گی کہ اسے آہستہ سے باہر لیجا کر چھوڑ دیا جاۓ۔ ہم اسے کبھی بھی نیک تمناؤں کے ساتھ ٹائلٹ میں فلش نہیں کریں گے!

اس میں ہمارا دوسروں کو دلاسہ دینا جبکہ وہ خوف زدہ ہوں بھی شامل ہے، وہ خواہ ہمارے بچے ہوں یا کوئی جانور جس کا شکار کیا جا رہا ہے۔ مثلاً، اگر کوئی بلی کسی چوہے کو تنگ کر رہی ہے، ہم چوہے کو الگ کر کے اسے تحفظ دینے کی کوشش کریں گے۔

تنتر کے اندر، خوف سے تحفظ فراہم کرنے کی فیاضی کی ایک اور وضاحت بھی ہے، جو کہ ہمارا دوسروں کو طمانیت دینا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ لوگوں کو ہم سے ڈرنے کی قطعی طور پر کوئی وجہ نہیں ہونی چاہئیے، کیونکہ نہ تو ہم ان سے انس لگا کر چمٹ جائیں گے، انہیں غصہ اور عداوت سے رد کر دیں گے، یا بھولپن میں انہیں نظر انداز کر دیں گے۔  یہاں ہمارا سلوک سب سے برابر کا ہے، جو کہ کسی کو دینے کے لئیے ایک عمدہ تحفہ ہے۔

پیار دینے کی فیاضی

تنتر فیاضی کی ایک چوتھی قسم کا ذکر بھی کرتاہے، جسے پیار دینا کہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ہر ایک کو سینے سے لگاتے  پھرتے ہیں، بلکہ یہ کہ ہم سب کے لئیے مسرت کی تمنا کرتے ہیں۔ یہ ہے پیار کا عنوان – کسی دوسرے انسان کے لئیے خوشی اور خوشی کے اسباب کی تمنا۔

دان دینے کا مناسب طریقہ

جب ہم ان دور رس اطوار میں سے کسی ایک کی مشق کرتے ہیں تو ہم باقی کے پانچ اطوار کو بھی اس میں شامل کرتے ہیں۔ فیاضی کی مشق میں:

  • اخلاقی ضبط نفس کے ہمراہ، ہم تمام غلط اور نا مناسب پوشیدہ محرکات سے جان چھڑاتے ہیں۔
  • صبر کے ذریعہ ہم پیش آنے والی مشکلات کو برداشت کرنے سے نہیں گھبراتے۔
  • استقامت کی بدولت، ہم دینے میں خوشی محسوس کرتے ہیں ، نہ کہ اسے فرض یا ذمہ داری سمجھ کر۔
  • من کی استقامت کے توسط سے، ہم اپنی توجہ اس مثبت شکتی پر مرکوز کرتے ہیں جو دینے کے عمل سے پیدا ہوتی ہے۔
  • امتیازی آگہی سے ہمارے اندر یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ دینے والا (یعنی ہم)، وصول کنندہ، اور وہ شے جو دی جا رہی ہے، ان سب کا اپنا کوئی آزادانہ وجود نہیں ہے۔ یہ سب ایک دوسرے کے محتاج ہیں۔ دان وصول کرنے والے کی غیر موجودگی میں کوئی دانی نہیں ہو سکتا۔

فیاضی اور غیر موزوں ترغیب

ایسے بے شمار حالات موجود ہیں جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہم غلط طریقہ سے کچھ خیرات کر رہے ہیں، اور ہمیں ان سے پرہیز کرنا چاہئیے۔ ہم اس امید سے دے سکتے ہیں کہ لوگ ہم سے متاثر ہوں گے، یا سوچیں گے ہم بہت دھرم کے پابند اور عمدہ انسان ہیں، یا پھر یہ بات عام ہے کہ جب ہم کچھ دیتے ہیں تو اس کے عوض کچھ پانے کی توقع کرتے ہیں خواہ وہ شکریہ کے دو بول ہی کیوں نہ ہوں۔  جب ہم کچھ دیں تو اس کے بدلہ میں کسی چیز کی توقع نا مناسب ہے،حتیٰ کہ شکریہ کی بھی! ان کی حالت بہتر بنانے کے عوض کسی بڑی کامیابی کی تو بات ہی کیا۔ وہ بڑی حد تک ان کے کرم پر منحصر ہے۔ ہم کچھ مدد کی پیشکش کر سکتے ہیں، لیکن ہمیں بدلہ میں تشکر یا کامیابی کی توقع نہیں کرنی چاہئیے۔

مجھے یاد ہے کہ ایک بار دھرم شالا، بھارت میں برسات کے موسم میں ایک چوہا پانی کی نالی میں ڈوب رہا تھا۔ میں نے اسے باہر نکالا اور سوکھنے کے لئیے زمین پر رکھ دیا، جب یہ وہاں پڑا ہوا تھا تو ایک بڑا باز آیا اور اسے جھپٹ کر لے گیا۔ ہر شے کا دار و مدار فرد کے کرم پر ہے، خواہ ہم اس کی مدد کی کوشش بھی کریں (تو نہیں کر پائں گے)۔ ہم کسی کو کامیابی کے حصول کے لئیے تمام اچھے مواقع اور مدد فراہم کر سکتے ہیں، لیکن پھر بھی ہو سکتا ہے کہ وہ بری طرح ناکام ہوں۔

مزید یہ کہ اگر کوئی خاطر خواہ نتیجہ نکلے، تو ہمیں کبھی بھی اتراہٹ کا اظہار نہیں کرنا چاہئیے، اور نہ ہی کبھی انہیں جتانا چاہئیے کہ ہم نے ان کے لئیے کیا کچھ کیا اور انہیں کیا کچھ دیا۔ ہمیں لوگوں کی مدد کرتے وقت انہیں قطعی طور پر کمتر نہیں جاننا چاہئیے، یہ سوچ کر کہ ہم ان پر کوئی بڑا احسان کر رہے ہیں۔ در حقیقت، یہ ان کا ہمارے اوپر احسان ہے کہ وہ ہماری مدد قبول کر کے ہمیں مثبت شکتی استوار کرنے کا موقع فراہم کر رہے ہیں جو کہ ہمیں روشن ضمیری پانے اور دوسروں کی زیادہ سے زیادہ مدد کرنے کی اہلیت دے گی۔

اس کے علاوہ احساس جرم یا مجبوری کے تحت دان دینا بھی نا مناسب ہو گا، یوں محسوس کرتے ہوۓ کہ چونکہ کسی اور نے دان دیا ہے تو ہمیں بھی ویسا ہی کرنا چاہئیے یا ان سے بڑھ کر کرنا چاہئیے۔

فیاضی اور موزوں ترغیب

فیاضی کا مظاہرہ کرتے وقت ہمارا واحد مقصد وصول کنندہ کی بھلائی، عارضی طور پر اور بالآخر، ہونی چاہئیے۔ ہم اپنی پوری کوشش کرتے ہیں اور خواہ اس میں کامیابی ہو یا نہ ہو، ہم کوشش تو کرتے ہیں۔ یہ کوئی ایسا مجرد خیال نہیں ہے "یقیناً، میں تمام ذی حس مخلوق کی مدد کرنا چاہتا ہوں!" اور پھر ہم برتن دھونے سے بھی گریزاں ہوں!

بے شک، فیاضی دونوں سمت کام کرتی ہے۔ اگر کوئی ہماری مدد کرنا چاہے اور فیاضی دکھاۓ تو ہمیں تکبر میں آ کر ان کی دعوت یا تحائف کو ٹھکرانا نہیں چاہئیے۔ بہت سارے لوگ اس قسم کے رویہ کا مظاہرہ کرتے ہیں جب کوئی ان کے لئیے کوئی چھوٹی سی چیز جیسے ڈنر خریدنے کی کوشش کرے۔ ایسا کرنے سے ہم انہیں مثبت شکتی پیدا کرنے کے مواقع سے محروم کرتے ہیں۔ یہ بات بودھی ستوا عہد میں موجود ہے کہ ہمیں لوگوں کی دعوت اور مدد کی پیشکش کو قبول کرنا چاہئیے ما سوا اس کے کہ ایسا کرنے سے ان کا نقصان ہو گا۔

ایک بار میں سرکونگ رنپوچے کے ہمراہ اٹلی میں سفر کر رہا تھا کہ ایک شخص اس سے کچھ سوال پوچھنے آیا۔ جب وہ جانے لگا تو اس نے دروازے کے قریب میز پر چڑھاوے کا ایک لفافہ رکھا۔ سرکونگ رنپوچے نے اس بات کو بہت اہمیت دی اور مجھ سے مخاطب ہوا، "یہ دان دینے کا مناسب طریقہ ہے۔ نہ کہ وہ لوگ جو آتے ہیں اور دکھاوے کے  طور پر خود دان لاما کے ہاتھ میں پکڑاتے ہیں، تا کہ لاما کو پتہ ہو کہ یہ اسے کس نے دیا اور وہ ان کے بارے میں بھلا سوچے اور مشکور ہو۔" یہ ہمیشہ اچھی بات ہے کہ خاموشی سے، گمنام صورت میں، بغیر کوئی تماشا لگاۓ دان دیا جاۓ۔ دان دینے کا یہ خوش کن اور با عزت طریقہ ہی سب سے احسن ہے۔  

جو ہم نے دینا ہو اس کے لئیے لوگوں کو انتظار مت کروائں، یا یہ کہ مدد کا وعدہ کریں مگر اس پر عمل کل تک اٹھا رکھیں۔ یہ کسی حد تک چڑھاوے والی بات ہے۔ سرکونگ رنپوچے تقدس مآب دلائی لاما کے اساتذہ میں سے ایک تھا، تو بہت سے لوگ اسے ملنے کے لئیے آیا کرتے تھے۔ اس نے محسوس کیا کہ یہ بے اعتناء اور مضحکہ خیز بات تھی کہ لوگ بعض لمبے چوڑے سجدے کرنے کے لئیے اس وقت کا انتظار کرتے حتیٰ کہ وہ اس کے عین سامنے نہ آ جائیں، اور ساتھ ہی اس نے کہا، "اس سے میرا وقت ضائع ہوتا ہے۔ مجھے انہیں سجدہ کرتے دیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ان کے سجدہ کرنے سے مجھے کیا حاصل۔ یہ کام انہیں یہاں آنے سے پہلے کر لینا چاہئیے، تا کہ وہ مجھ سے براہِ راست کہہ سکیں جو انہیں کہنا ہے۔" تبتی لوگوں کے ہاں لاما کو 'کتاس' یعنی رسمی رومال دینا بہت عام ہے، مگر یہ انہیں مرعوب کرنے کے لئیے نہیں ہونا چاہئیے۔ یاد رکھو، کہ سجدہ ہمارے فائدے کے لئیے ہے، نہ کہ استاد کے لئیے۔

ذاتی طور پر دان دینا

ہم جو بھی دینے کا ارادہ کریں، یہ اہم ہے کہ اسے ہم خود دیں۔ اتیشا کا ایک ملازم تھا جو استاد کے لئیے تمام چڑھاوے چڑھانا پسند کرتا تھا، پانی کے پیالے بھرتا، وغیرہ وغیرہ۔ اتیشا نے کہا،"یہ بہت اہم ہے کہ میں یہ کام خود کروں۔ کیا تم میرا کھانا بھی میرے لئیے کھاؤ گے؟" جہاں تک ممکن ہو ہمیں ایسے کام خود کرنے چاہئیں۔

اگر ہم کوئی چیز دینے کا فیصلہ کریں، تو ہمیں بعد میں اپنا ارادہ تبدیل نہیں کرنا چاہئیے اور نہ ہی اس فیصلے پر پچھتا تے ہوۓ اس چیزکو واپس لینا چاہئیے۔ مزید بر آں، اگر ہم کوئی چیز دے دیں تو ہمیں اس بات پر اصرار نہیں کرنا چاہئیے کہ وہ اسے ہماری مرضی کے مطابق استعمال کریں۔؛ اس کا اطلاق خصوصاً پیسے پر ہوتا ہے، کہ ہم اس کے استعمال کا فیصلہ کریں۔ یہ ایسا ہے کہ ہم کسی کو کوئی تصویر دیں اور جب ہم ان کے گھر جائں تو اسے دیوار پر آویزاں نہ پائں – تو ہم قدرے برا محسوس کریں گے۔ درحقیقت، ایک بار جب ہم کوئی چیز دے دیں، تو پھر ہمارا اس پر کوئی حق نہیں رہتا۔

مجھے یاد ہے کہ ایک بار دھرم شالا میں ایک آشرم میں خوراک بہت گھٹیا قسم کی تھی تو اس وجہ سے بھکشو لوگوں کی صحت اچھی نہ تھی۔ مغربی لوگوں سے ہم نے کچھ پیسے اکٹھے کئیے اور انہیں دئیے تا کہ وہ بہتر خوراک خرید سکیں۔ مگر انہوں نے یہ پیسہ اینٹیں خریدنے پر خرچ کر ڈالا تا کہ بڑا اور بہتر مندر تعمیر کر سکیں۔ اس سے بہت سارے مغربی لوگ بہت ناراض ہوۓ اور انہوں نے اس پیسہ سے خوراک نہ خریدنے پر بہت ہنگامہ کیا۔ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ انہیں بہتر غذا میسر ہو تو ہم خود انہیں خوراک خرید کر دیں۔ تو اس طرح انہیں بہتر کھانا ملے گا! تو ہم نے ذرا چالاکی سے کام لیا۔ پھر بھی، ہمیں ان کے لئیے ان کی پسندیدہ غذا خریدنا ہوتی، جس کا مطلب تبتی لوگوں کے لئیے گوشت ہے۔ اگرچہ بعض مغربی لوگوں نے اس بات کو پسند نہ کیا۔ مگر ٹافو یا کوئی اور ایسی چیز خریدنا جو وہ کبھی نہیں کھائں گے بالکل مناسب نہ تھا۔

اگرچہ سرکونگ رنپوچے سے میری روزانہ ملاقات ہوتی تھی مگر میں ہمیشہ اس کے لئیے کوئی نہ کوئی چھوٹی موٹی چیز لاتا تھا۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد اس نے مجھے ڈانٹ کر کہا، " تم میرے لئیے یہ رومال اور اگربتی کیوں لاتے ہو؟ مجھے ان فضولیات کی ضرورت نہیں!" اس نے اسے کباڑ کا نام دیا! " میں ان ۱،۰۰۰ رومالوں کا کیا کروں گا؟" وہ کہنے لگا، "اگر تم نے مجھے کچھ دینا ہے تو ایسی چیز دو جو مجھے پسند ہو اور جو میرے کام آ سکے۔" مجھے خبر تھی کہ اسے کیلے بہت پسند ہیں، تو میں اس کے لئیے ایک کیلا لانے لگا۔ اگر ہم لوگوں کو کچھ دینا چاہتے ہیں تو ہمیں ذرا ہوشیار ہونا چاہئِے اور انہیں ایسی شے دینی چاہئیے جو انہیں پسند ہو۔ یقین کیجئیے کہ ان لاما کے پاس بہت ساری اگر بتی ہے!

ایک اور بات، یہ بھی ضروری ہے کہ انہیں عمدہ چیزیں دیں، نہ کہ ایسی اشیاء جو ہمیں پسند نہیں یا جو ہمارے لئیے بیکار ہیں۔ بعض ایسے لوگ بھی ہیں جو کبھی بھی کسی سے کچھ لینا پسند نہیں کرتے، تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں، "مجھے کسی نے یہ چیز دی تھی مگر میں اسے کبھی استعمال نہیں کروں گا۔ از راہ کرم اسے قبول کیجئیے۔ میں اسے پھینکنا نہیں چاہتا۔"  بعض ایسی اشیاء بھی ہیں جن کا دینا غیر مناسب ہے، مثلاً کسی سبزی خور کو ہیمبرگر پیش کرنا۔ اگر کوئی شخص کسی خاص غذا کا پابند ہے، تو ہم اس کا لحاظ رکھتے ہیں۔ اگر کوئی شخص پرہیزی غذا کھاتا ہے تو ہم اسے کیک پیش نہیں کرتے۔

دھرم دینا

دھرم دینے کے معاملہ میں، اگر کوئی شخص ہمارے ساتھ بحث کرنا چاہتا ہے اور اس کا محرک غصہ، لگاوٹ، تکبر، یا محض بیکار تجسس ہے، تو ہمیں ان کے ساتھ نہ تو بحث میں الجھنا چاہئیے اور نہ ہی انہیں بودھی صحیفے دینے چاہئیں۔ ہم صرف ان لوگوں کو درس دیتے ہیں یا ان سے تبادلۂ خیال کرتے ہیں جو بات سننے کو تیار ہوں۔ اگر کوئی بات سننے کو تیار نہ ہو تو انہیں درس دینا یا ان کے ساتھ بحث مباحثہ کرنا نا مناسب ہو گا۔ در حقیقت یہ وقت کا ضیاع ہے اور محض ان کے من کی منفی حالت اور معاندت کو مزید تقویت دیتا ہے۔ ہم ان لوگوں کو درس دیتے ہیں جن کےذہن کشادہ ہیں اور جو کچھ سیکھنا چاہتے ہیں۔

اگر ہم درس دیں تو ہمیں دوسرے شخص کی اہلیت کے مطابق درس دینا چاہئیے۔ ہم یہ ثابت کرنے کے لئیے کہ ہم کتنے ہوشیار ہیں ان کے اوپر اپنی تعلیم یافتگی اور معلومات کے سمندر کی بوچھاڑ نہیں کر دیتے۔ ہم زیادہ ترقی یافتہ درجہ کی تعلیم نہیں دیتے ماسوا اس کے کہ اس کا ذرا سا مزہ چکھانا سود مند ہو۔ بعض اوقات، ترقی یافتہ شکشا کسی کے لئیے اس کو سمجھنے کی خاطر ترغیب اور محنت کا سبب ہو سکتی ہے، اور یہ اس وقت بھی کار آمد ہوتی ہے جب کوئی سرکشی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ بعض اوقات تقدس مآب دلائی لاما یونیورسٹی کے اساتذہ کو نہائت دقیق انداز میں درس دیتے ہیں، یہ دکھانے کے لئیے کہ بودھی تعلیمات کس قدر ترقی یافتہ ہیں۔ اس سے اس نظریہ کو شکست دینے میں مدد ملتی ہے کہ بدھ مت قدیم اور غیر ترقی یافتہ ہے۔

مجھے یاد ہے کہ ایک بار سرکونگ رنپوچے ایک مغربی دھرم مرکز میں گیا، اور ان کی یہ خواہش تھی کہ وہ شانتی دیو کے صحیفے سے خالی پن (کھوکھلا پن) کے باب پر دو دن میں مکمل درس دے۔ یہ قطعاً فضول بات ہے! اس صحیفے کا محض اتنا حصہ غور سے پڑھنے کے لئیے ایک سال درکار ہے۔ رنپوچے نے اس باب کے شروع کے چند الفاظ کی نہائت ترقی یافتہ اور دقیق سطح پر تشریح کرنا شروع کی، یہ دکھانے کی خاطر کہ یہ کس قدر پیچیدہ مواد ہے۔ کسی کو بھی اس کی بات سمجھ میں نہ آئی، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ خیال کس قدر متکبّر تھا کہ یہ کوئی ایسی بات ہے جسے محض دو دن کے قلیل عرصہ میں سکھایا یا سمجھایا جا سکتا ہے۔ پھر وہ اپنی بات کو ان کی سطح پر لے آیا اور اس نے اس صحیفہ کے ایک چھوٹے سے حصہ کی عمومی معنوں میں تشریح کی۔

جب تقدس مآب دلائی لاما کسی بڑے مجمع کو درس دیتے ہیں تو وہ وہاں موجود سب طبقوں کے لئیے کچھ نہ کچھ تعلیم دیتے ہیں۔ بیشتر اوقات وہ نہائت ترقی یافتہ سطح پر درس دیتے ہیں، جس کا رخ وہاں موجود عظیم لاما، گیشے اور خینپو کی جانب ہوتا ہے۔ چونکہ وہ سب سے زیادہ تعلیم یافتہ ہیں، تو وہ انہیں اس سطح پر درس دے سکتے ہیں، اور پھر وہ اسے لے جا کر کم مشکل طریقہ سے اپنے شاگردوں کو بیان کر سکتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں، سب سے آسان ترین درجہ کا درس نہیں دینا چاہئیے، کیونکہ دوسرے لوگوں کی اس تک رسائی ہے۔ آپ سب سے اونچے درجہ کا درس دیتے ہیں، تا کہ یہ ان کی صفوں کے بیچ سرائت کر جاۓ، جیسا کہ ہوتا ہے۔

آخری بات یہ ہے کہ صرف ان ہی کو کچھ دینا چاہئیے جو اس کے طلبگار ہوں۔ اگر کسی کو کسی شے کی ضرورت نہیں مگر وہ محض لالچ یا لگاوٹ کے سبب مانگتے ہیں – جیسا کہ بچے سارا دن چاکلیٹ مانگتے ہیں – تو ایسی صورت میں دینا مناسب نہیں۔ ہمیں اس چیز کا تعین کرنے کے لئیے کہ کیا، کب اور کسے کچھ دینا مناسب یا غیر مناسب ہے، اپنی امتیازی آگہی کو بروۓ کار لانا چاہئیے۔ ترنگپا رنپوچے نے "احمقانہ درد مندی" کی عمدہ اصطلاح اختراع کی؛ ہم ہر شخص کی جو وہ کرنا چاہتے ہیں میں مدد نہیں کر سکتے، کیونکہ یہ نہائت بیوقوفی کی بات بھی ہو سکتی ہے! ہماری فیاضی کو ہماری عقل سے نسبت ہونی چاہئیے۔

خلاصہ

فیاضی پر عمل کرنے کی خاطر ہمارا مالدار ہونا یا بہت سارے مال اسباب کا مالک ہونا لازم نہیں ہے۔ خواہ ہم کہیں بھی ہوں یا کچھ ہی کر رہے ہوں، ہم من کے راستے ہر وہ شے جس سے ہم لطف اندوز ہو رہے ہوں – تازہ ہوا جس میں ہم سانس لے رہے ہیں، غروب آفتاب کا حسین منظر، لذیذ کھانا جو ہم کھاتے ہیں - دوسروں کے ساتھ بانٹ کر ایک فیاض من استوار کرنے کا عمل شروع کر سکتے ہیں۔ ہمارے اگلے قدم کی بنیاد یہ تمنا ہے کہ دوسرے لوگ بھی ہر اس چیز سے محظوظ ہوں جس سے ہم ہوتے ہیں، اور ہم فی الحقیقت، دوسروں کو وہ دیتے ہیں جس کی انہیں ضرورت ہے۔

اگر ہم اس قابل ہیں، تو مادی امداد دینا احسن ہے، لیکن ہم اپنی شکتی اور اپنا وقت بھی دے سکتے ہیں۔ جب ہم خوشی خوشی اور نیک نیتی سے دیں، تو فیاضی ایک ایسی زبردست شکتی کا روپ دھار لیتی ہے جو ہماری اور دوسرے لوگوں کی خوشی اور خوشحالی کی ضامن بن جاتی ہے۔ 

Top