استقامت بطور ایک کمال: وریا پرمت

تبتی لوگوں کا قول ہے کہ عفیف ہونا اتنا ہی مشکل ہے جتنا کہ کسی اڑیل گدھے کو پہاڑ کی چڑھائی کی جانب ہانکنا، اور نقصان دہ کام کرنا اتنا ہی آسان ہے جتنا کہ بڑے بڑے پتھر پہاڑ سے نیچے لڑھکانا۔ خواہ ہم کتنے ہی صابر، فیاض اور دانا کیوں نہ ہوں، اگر ہم کاہلی پر قابو نہیں پا سکتے، تو ہم کبھی کسی کے کام نہیں آ سکیں گے۔ دلیرانہ حوصلے اور استقامت کے بل پر، ہم ایسے جنگجو جیسا روپ دھار لیتے ہیں جو روشن ضمیری پانے اور دوسروں کی مدد کرنے کی جستجو میں کوئی بھی داخلی یا خارجی جنگ لڑنے کو تیار ہو۔

چھ میں سے چوتھا دور رس رویہ (کمال) استقامت کہلاتا ہے۔ یہ من کی ایک ایسی حالت ہے جو پوری شکتی اور استعداد کے ساتھ تعمیری اطوار میں مشغول رہتی ہے اور اپنی جد و جہد کو جاری رکھتی ہے۔ لیکن اس میں محض کسی مثبت کام میں مصروفیت ہی شامل نہیں، بلکہ اس میں وہ دلیر حوصلہ مندی بھی شامل ہے جو شکست خوردگی سے روکتی ہے اور تعمیری کام کرنے کی مسرت کو قائم رکھتی ہے۔

اس کا تعلق جفا کش رویہ سے نہیں ہے جس میں ہم اپنے کام سے تو نفرت کرتے ہیں لیکن احساس فرض اور احساس جرم کے بوجھ تلے پھر بھی اسے کئیے جاتے ہیں۔ اور نہ ہی یہ کوئی میکانکی مشغلہ ہے جسے ہم کسی کام کے جنونی کی مانند ہر روز کرتے ہیں۔ یہ کوئی "عارضی جوشیلا پن" نہیں ہے، جس میں ہم کسی کام کو کرنے میں نہائت جوش و خروش کا مظاہرہ کرتے ہیں، اس میں بہت ساری شکتی خرچ کرتے ہیں، لیکن پھر شکست خوردگی کا شکار ہو کر ایک ہفتہ بعد اس سے دست بردار ہو جاتے ہیں۔ ہم استقلالی جہد اور جوش کی بات کر رہے ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ اسے ہم استقامت بھی کہتے ہیں۔ اس کے دوامی ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ہم جو کر رہے ہیں ہم اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں – وہ تمام مثبت کام جن میں ہم مصروف ہیں۔ استقامت معہ دلیرانہ حوصلہ مندی کے سستی اور کاہلی کے عین متناقض ہے۔

زرہ بکتر کی مانند استقامت

استقامت کی تین قسمیں ہیں، جن میں سے پہلی زرہ بکتر کی مانند ہے۔ یہ جہد مسلسل کی خواہش پر مبنی ہے، خواہ کتنا ہی وقت لگے یا کتنی ہی مشکلات پیش آئں۔ جو بھی ہو ہم کاہلی اور حوصلہ شکنی کا شکار نہیں ہوں گے۔ اگر ہم جانتے ہیں کہ دھرم کی راہ بے حد طویل ہے، اور اگر ہم دوسروں کی مدد کرنے کی خاطر جہنم سے بھی گزرنے کو تیار ہیں، تو پھر کسی چھوٹی موٹی مشکل سے ہمت ہار دینا یا سستی کا شکار ہونا نا ممکن ہے۔ ہمارا رویہ زرہ بکتر کی مانند ہے کہ، "مجھے کوئی بھی شے متزلزل نہیں کر سکتی!" اس قسم کا دلیرانہ حوصلہ ہمیں کسی بھی در پیش مشکل سے محفوظ رکھتا ہے، کیونکہ ہم نے پہلے سے طے کر رکھا ہے کہ خواہ کتنی ہی مشکلات پیش آئں یا کتنا ہی وقت لگے، ہم نے یہ کام ختم کرنا ہے۔ 

ایک طرح سے، ہم روشن ضمیری پانے میں جتنی زیادہ دیر کی توقع کریں، وہ اتنی ہی جلدی آۓ گی؛ اس کے بالمقابل اگر ہم اس کی فوری اور سہل آمد کی توقع کریں، تو پھر اس میں بہت وقت لگتا ہے۔ بہت سی عظیم کتب اور اساتذہ کا یہ کہنا ہے کہ اگر ہم روشن ضمیری پانے میں عجلت اور سہولت کے طلبگار ہوں، تو یہ در حقیقت ہماری خود غرضی اور کاہلی کی علامت ہے۔ ہم نتائج کے خواہاں ہیں، مگر ہم لوگوں کی مدد کرنے میں زیادہ وقت صرف نہیں کرنا چاہتے۔ ہم روشن ضمیری کی لذیذ مٹھائی کھانا چاہتے ہیں۔ در اصل ہم کاہل ہیں! ہم اس میں درکار محنت نہیں کرنا چاہتے۔ ہم روشن ضمیری کو سستے داموں خریدنا چاہتے ہیں۔ لیکن ایسے سودے کبھی بھی فائدہ مند نہیں ہوتے۔

جب ہمارے اندر درد مندی ہو، تو اس جذبے کے ساتھ کہ " میں دوسروں کی مدد کے لئیے مثبت شکتی پیدا کرنے کی خاطر ازل تک کام کروں گا،" تو اس جرأت مندانہ دلیری کی بے پناہ قوت کی بدولت روشن ضمیری جلد ملنے میں مدد ملتی ہے۔

استقامت کا تعمیری اعمال پر اطلاق

استقامت کی دوسری قسم وہ ہے جس میں انسان مثبت اور تعمیری کاموں میں حصہ لیتا ہے تا کہ روشن ضمیری پانے میں درکار مثبت شکتی استوار کر سکے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ہم اپنی بنیادی مشقیں کرنے میں سستی سے کام نہیں لیتے – سجدے وغیرہ – اور نہ ہی پڑھنے، سیکھنے اور مراقبہ کرنے میں۔ ہمیں یہ سب کچھ بھی کرنا ہے اور ہمیں انہیں کرنے میں خوشی محسوس ہونی چاہئیے۔ 

کمتر ہستیوں کی بھلائی کے لئیے کام کرنے میں استقامت سے کام لینا

استقامت کی تیسری قسم وہ ہے جس میں دوسروں کی مدد اور ان کی بھلائی کے لئیے زبردست محنت سے کام لینا ہے، جس کا تعلق لوگوں کو ہمارے مثبت اثر کے زیر سایہ اکٹھا کرنے کے چار طریقوں سے ہے، اور ۱۱ قسم کے لوگوں کے ساتھ ان کی مدد کی خاطر کام کرنا ہے جس کا ذکر دور رس اخلاقی ضبط نفس کے حوالے سے کیا گیا ہے۔ تاہم، یہ ایک دوسرے کے اوپر عین منطبق نہیں ہیں۔ در اصل، یہاں اس سے مراد ان لوگوں کی مختلف طریقوں سے مدد ہے جو کہ استقامت کے لحاظ سے موزوں ہو۔ ہم یہ سب کچھ کرنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں، اس احساس مسرت کے ساتھ کہ ہم دوسرے لوگوں کی مدد کے اہل ہیں۔ مزید بر آں، صبر سے کام لیتے ہوۓ، ہم ہر مصیبت کو برداشت کریں گے، اور اخلاقی ضبط نفس کی مدد سے ہم ان تمام پریشان کن جذبات سے پرہیز کریں گے جو ہمیں ان کی مدد کرنے سے روکتے ہیں۔ یہ بات عیاں ہے کہ مختلف دور رس اطوار کس طرح ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔

کاہلی کی تین قسمیں

کاہلی کی تین ایسی قسمیں ہیں جو ہماری استقامت کی راہ میں حائل ہو سکتی ہیں۔ استقامت کی مشق اور استواری کے لئیے ہمیں کاہلی پر قابو پانا ہے۔

۱۔ سستی اور التوا کی کاہلی

ہم میں سے بیشتر کو اس قسم کی کاہلی کا ذاتی تجربہ ہے، جس میں ہم ہر کام کو کل پر ڈال دیتے ہیں۔ اس پر قابو پانے کی خاطر ہمیں موت اور نا پائداری پر مراقبہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس بات کو سمجھنا چاہئیے کہ موت اٹل ہے، اور ہمیں قطعی طور پر اس کا کوئی اندازہ نہیں کہ یہ کب آنے والی ہے، اور یہ قیمتی انسانی زندگی جو ہمیں بے شمار حیران کن کارنامے سر انجام دینے کے مواقع فراہم کرتی ہے اس کا ملنا کتنا مشکل ہے۔

میرا پسندیدہ زین قول ہے، "موت کسی وقت بھی آ سکتی ہے۔ اطمینان رکھو۔" اس بات پر غور کرنا مفید ہے۔ یہ سچ ہے کہ موت کسی دم ہمارا دروازہ کھٹکھٹا سکتی ہے، لیکن اگر ہم اس کے متعلق سخت پریشان اور ہراساں ہیں تو ہم کبھی بھی کچھ بھی نہیں کر پائں گے۔ ہم محسوس کریں گے، "مجھے سارے کام آج ہی کرنے ہیں!" اور ہم جنونی بن جائں گے، جو کہ سود مند نہیں ہے۔ ہاں، بے شک ہمیں کسی لمحہ بھی موت آ سکتی ہے، لیکن اگر ہم اس زندگی سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں، تو ہمیں ان دو حقائق کے متعلق شانت رہنا چاہئیے۔ اگر ہمارے اوپر ہر وقت موت کا شدید خوف طاری ہو تو ہم ہمیشہ وقت کی کمی محسوس کریں گے۔

۲۔ معمولی چیزوں کو اہم جاننے کی کاہلی

کاہلی کی دوسری قسم معمولی معاملات کو غیر معمولی اہمیت دینا ہے۔ اس بات کو بھی ہم میں سے بیشتر آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔ ہم ٹیلیوژن دیکھنے، دوستوں سے بیکار گپ شپ، کھیلوں کی باتیں وغیرہ کرنے میں بہت سا وقت ضائع کر دیتے ہیں۔ یہ سب وقت کا ضیاع کہلاتا ہے، اور بنیادی طور پر کاہلی کی ہی ایک قسم ہے۔ سادہ الفاظ میں: مراقبہ کرنے کی نسبت ٹیلیوژن کے سامنے بیٹھے رہنا کہیں زیادہ آسان کام ہے۔ ہے نا؟ ہم اپنی کاہلی کی بدولت ان معمولی، غیر اہم چیزوں سے دل لگا لیتے ہیں، اور کوئی مشکل کام کرنے سے گریز کرتے ہیں خواہ وہ کام کتنا ہی با مقصد کیوں نہ ہو۔

اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنی شکتی بحال کرنے کے لئیے کسی تفریح یا آرام کی خاطر کام سے کچھ  وقفہ نہیں لے سکتے۔ مقصد یہ ہے کہ ہم اس سے موہ نہ لگا بیٹھیں اور کاہلی کے سبب اس میں ضرورت سے زیادہ مصروف نہ ہو جائں۔ ہم تھوڑی رخصت لے کر سیر کے لئیے جا سکتے ہیں، ٹی وی کا کوئی پروگرام دیکھ سکتے ہیں – لیکن اس سے چمٹ جانا ضروری نہیں ہے۔ جب ہمارا دل بھر جاۓ تو واپس مثبت کام کی جانب جو ہم پہلے کر رہے تھے لوٹ جائں۔

معمولی چیزوں سے موہ لگانے پر قابو پانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم اس بات پر غور کرِیں کہ ان معمولی کاموں سے ملنے والی مسرت اور تشفی کبھی بھی دیرپا نہیں ہوتی۔ اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ ہم کتنی فلمیں دیکھتے ہیں، یا نامور شخصیتوں کے متعلق کس قدر بات کرتے ہیں، یا ہم مختلف مقامات کا سفر کرتے ہیں: اس سے ہمیں ذرہ برابر بھی دیرپا خوشی نہیں ملے گی۔ دیرپا خوشی پانے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے ہمیں اپنے آپ کو ان طریقوں کی تربیت لینا جو اس کی جانب راہنمائی کرتے ہیں۔ ہم کسی گیند کو کسی جالی میں ڈالنے کی مشق پر خواہ کتنا ہی وقت صرف کر لیں، لیکن اس سے ہمیں بہتر پنر جنم نہیں ملے گا۔

پس سمجھنے کی بات یہ ہے کہ کسی چیز سے لگاؤ نہ لگائں۔ ہم سَستانے کے لئیے کچھ کر سکتے ہیں، اس میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن کسی چیز سے موہ لگا لینا اور اس پر تمام وقت صرف کرنا، اس لئیے کہ ہم کوئی تعمیری کام کرنے کے معاملہ میں کاہل ہیں – یہ محض ضیاع ہے۔ اس قسم کی کاہلی در حقیقت تعمیری کام کرنے سے ملنے والی مسرت کی راہ میں رکاوٹ ہے۔

۳۔ حوصلہ شکنی کی کاہلی

کاہلی کی تیسری قسم ہماری نا اہلی کا فریب ہے – یعنی یہ کہ کام بہت مشکل ہے اور یہ کہ ہم کبھی بھی اسے نہیں کر پائں گے – لہٰذا ہم شکست خوردگی کا شکار ہیں۔ ہمارے دل میں ایسا خیال کتنی بار آتا ہے، "اوہ، میں اسے کرنے کی کوشش ہی نہیں کروں گا – مجھ جیسا انسان یہ کام کیسے کر سکتا ہے؟" روشن ضمیری جیسا اہم ہدف کٹھن نظر آتا ہے، مگر اس کی کوشش نہ کرنا کاہلی کی ایک صورت ہے۔

اس پر قابو پانے کے لئیے ہمیں اپنی بدھا-فطرت کو کام میں لانا ہے – یہ حقیقت کہ ہم میں سے ہر کوئی مختلف النّوع حیران کن خوبیوں اور صلاحیتوں کا مالک ہے جن سے ہم استفادہ کر سکتے ہیں۔ اگر لوگوں کی ایک بڑی تعداد تھوڑا سا نفع کمانے کی خاطر صبح سے شام تک چیونگ گم یا جو کچھ بھی بیچ سکتی ہے، تو ہم یقیناً اس بات کے اہل ہیں کہ ایک بہت بڑا ہدف پانے کی خاطر اس میں اپنا وقت صرف کریں۔ اگر ہم کسی موسیقی میلے کو جانے کی خاطر جو کہ صرف ۹۰ منٹ کے دورانیہ پر مشتمل ہے، ٹکٹ خریدنے کی خاطر گھنٹوں قطار میں کھڑے ہو سکتے ہیں، تو ہمیں کبھی بھی دل میں یہ خیال نہیں لانا چاہئیے کہ ہم کوئی ایسا تعمیری کام جس کا انجام دائمی روشن ضمیری کا حصول ہو گا کرنے کے اہل نہیں ہیں۔

استقامت استوار کرنے کے چار معاون عناصر

شانتی دیو استقامت استوار کرنے میں معاون چار عناصر کا ذکر کرتا ہے۔

۱۔ یقین محکم

دھرم کی مثبت خصوصیات اور ان سے ملنے والے فوائد پر یقین کامل کے حصول سے ہم ودیا پر عمل کرنے کی ترغیب حاصل کرتے  ہیں۔

۲۔ استقلال اور عزت نفس

ہمیں خود اعتمادی پر مبنی استحکام اور استقلال اور بدھا فطرت کی سمجھ بوجھ چاہئیے۔ جب ہمیں بدھا فطرت پر پورا یقین ہو – جو کہ ہم سب کی بنیادی صلاحیت ہے – تو ہمارے اندر خود بخود بے حد خود اعتمادی آ جاۓ گی، جسے شانتی دیو "فخر" یا "عزت نفس" کا نام دیتا ہے۔ اگر ہمیں خود اعتمادی ہو تو ہم اپنی کاوش میں متوازن اورمستقل مزاج ہوں گے۔ تو پھر خواہ کیسے ہی نشیب و فراز سے واسطہ پڑے، ہم دلیرانہ حوصلہ سے استقامت پذیر ہوں گے۔

۳۔ شادمانی

تیسری معاون شے وہ کام جو ہم کر رہے ہیں اس میں خوشی محسوس کرنا ہے۔ جو کچھ ہم اپنی زندگی کے ساتھ کر رہے ہیں یہ اس میں اطمینان اور قناعت کا اظہار ہے۔ ہمارے اپنے آپ کو بہتر بنانے اور دوسروں کی مدد کرنے کی اہلیت استوار کرنے کے سلسلہ میں یہ سب سے زیادہ اطمینان بخش اور خوش کن فعل ہے۔ جب ہم ایسا کرتے ہیں تو اس سے ہمارے اندر فطری طور پر بے پناہ مسرت کا احساس پیدا ہوتا ہے۔

۴۔ در گذر کرنا

آخری معاون عنصر اس بات کی جانکاری ہے کہ کب آرام کا وقفہ لیا جاۓ۔ ہمیں اپنے آپ کو اس قدر نہیں تھکانا چاہئیے کہ ہم نڈھال ہو کر گر پڑیں اور جو کام کر رہے تھے اس کی جانب لوٹنے کی ہمت ہی ہار بیٹھیں۔ ہمیں اپنے آپ سے ظلم کی حد تک کام لینے اور اپنے آپ سے ایک شیر خوار بچے جیسا سلوک کرنے کے درمیان کوئی راستہ تلاش کرنا ہے۔ اس بات کا یہ مطلب نہیں کہ جب بھی ہم ذرا سی تھکن محسوس کریں تو ہم قیلولہ کرنے لگیں۔

بہر حال، تری جنگ رنپوچے جو کہ تقدس مآب دلائی لاما کے نائب استاد تھے، کا کہنا ہے کہ جب ہم نہائت خراب موڈ میں ہوں اور دھرم کا کوئی طریقہ کارگر نہ ہو، تو بہتر ہو گا کہ ہم ایک جھپکی لے لیں۔ جب ہم سو کر اٹھیں گے تو محض جھپکی لینے کی بدولت ہمارا مزاج مختلف ہو چکا ہوگا۔ یہ بڑا کار آمد مشورہ ہے۔

دلیرانہ حوصلہ استوار کرنے کے دو اور عناصر

شانتی دیو دو اور معاون عناصر کا ذکر کرتا ہے۔

۱۔ فوری رضا مندی

پہلا عنصر اس بات کو فوری طور پر قبول کر لینا ہے جس کی ہمیں مشق کرنی ہے، اور جو کچھ ترک کرنا ہے اس کا بھی فوری اعتراف کرنا ہے۔ اس کے علاوہ ہمیں اس میں در پیش مشکلات کو بھی گلے لگانا ہے۔ اس سب کی بنیاد ہر نکتہ کو حقیقت پسندی سے جانچنے اور ہماری اس سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت پر ہے۔ اس کا انحصار اس بات کی قبولیت پر ہے کہ ہمیں اس تعمیری فعل کی ضرورت ہے اور اس تعمیری فعل سے دوسروں کی مدد کرنا اور روشن ضمیری حاصل کرنا ہے۔ ہم یہ مانتے ہیں کہ ہمیں بعض کام بند کرنا ہوں گے، اور یہ کہ اس میں مشکلات پیش آئں گی۔

ہم اسے قبول کرتے ہیں اور اس کا ذمہ لیتے ہیں یہ جانتے ہوۓ کہ ہم کس چیز کے اہل ہیں اور اس میں کیا کچھ درکار ہے۔ ہمارا رویہ غیر حقیقت پسند نہیں ہونا چاہئیے۔ اگر ہم ایک لاکھ سجدے کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس بات کا اندازہ ہونا چاہئیے کہ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ ہماری ٹانگیں دکھیں گی، ہماری ہتھیلیوں میں زخم ہوں گے، اور ہم بہت تھکن کا شکار ہوں گے۔ پس ہم اپنے آپ کو اس کے فوائد کی یاد دہانی کراتے ہیں۔

اور جو کچھ ہم نے کرنا چھوڑ دینا ہے اس کے متعلق کیا خیال ہے؟ سب سے پہلے ہم نے اس کام کو کرنے کے لئیے وقت نکالنا ہے، جو کہ بذات خود ایک مشکل کام ہے – یعنی وقت نکالنے کی خاطر بعض کاموں کی کانٹ چھانٹ کرنا۔  ہم اپنا ایماندارانہ جائزہ لیتے ہیں یہ دیکھنے کے لئِے کہ، "کیا میں واقعی یہ کر سکتا ہوں؟" ہم اس میں درکار سب معاملہ کو قبول کرتے ہیں اور پھر خوشی بھرے ولولے کے ساتھ اپنا دل و جان اس میں لگا دیتے ہیں۔

۲۔ قابو میں لینا  

جرأت مند استقامت استوار کرنے کے سلسلہ میں شانتی دیو کا دوسرا نکتہ یہ ہے کہ، ایک بار جب ہم مذکورہ بالا کو حقیقت پسندی کے ساتھ قبول کر لیں، تو پھر ہم اس پر عمل کرنے کی خاطر حالات کو قابو میں لے لیتے ہیں۔ قوت ارادی کی مدد سے، ہم پرانے طور طریقے ترک کر دیتے ہیں، خصوصاً کاہلی والا رویہ۔ ہم با اختیار اطوار سے اپنے آپ کو مثبت کام جو ہمیں کرنا ہے میں لگا دیتے ہیں۔ جیسا کہ ہم انگریزی میں کہتے ہیں، "ہم اپنا دل و جان اس میں لگا دیتے ہیں۔"

خلاصہ

جب ہمیں دھرم کی مشق کے فوائد کا تیقن حاصل ہو  اور ہم دیکھیں کہ اس سے ملنے والی مسرت لا جواب ہے، تو اس پر استقامت فطری طور پر پیدا ہوتی ہے۔ اس سے کچھ فرق نہیں پڑے گا کہ ہماری زندگی میں کیا ہو رہا ہے، اگر ہمیں زبردست ترغیب معہ استقامت کے میسر ہو تو ایک ہیرو کی مانند ہم اپنے ہدف پا لیں گے۔

استقامت کی مدد سے ہم اپنے ہدف پانے میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ یعنی کاہلی جس سے ہم میں سے بیشتر کا واسطہ پڑتا ہے پر قابو پا لیتے ہیں۔ یہاں جن طریقوں کا ذکر کیا گیا ہے یہ نہ صرف ہمارے روشن ضمیری پانے کے سفر میں کار آمد ہیں بلکہ روز مرہ زندگی میں چھوٹے چھوٹے ہدف پانے میں بھی کار گر ہیں۔
 

Top