میانہ اور ترقی یافتہ درجات کی تحریک

نظر ثانی

اب تک ہم روحانی راہ کی بتدریج منازل کی بات کرتے رہے ہیں، جس میں ہم اپنی ترغیب کو چھوٹی سطح سے شروع کر کے یوں استوار کرتے ہیں حتیٰ کہ وہ مکمل اور بھر پور ہو جاۓ۔ اس طرح ہر نئی منزل پچھلے درجہ کے اوپر تعمیر کی جاتی ہے۔

ہم نے یہ بھی دیکھا کہ اس استواری کے دو طریقے ہیں۔ ہم دھرم-لائٹ روپ اختیار کر سکتے ہیں جس کے تحت ہم اپنی اس موجودہ زندگی کو بہتر بنانا چاہتے ہیں۔ ہم میں سے بیشتر کو یہاں سے ہی شروع کرنا چاہئیے۔ تاہم، روائتی طریق کار اس درجہ کو مانتا ہی نہیں کیونکہ یہ ایک ایسے پنر جنم میں ایمان رکھتا ہے جس کا نہ کوئی ازل ہے اور نہ کوئی ابد۔ حقیقی شے دھرم، اصل شے کوکا-کولا کی مانند پنر جنم کے حوالے سے اسی معاملہ کی بات کر رہا ہے۔

ہم نے دیکھا کہ ابتدائی سطح کی تحریک، اور تمام سطوح کی تحریکوں، کا ایک ہدف ہوتا ہے، اور اس ہدف کو پانے کی کوئی وجہ اور اس کے پیچھے کوئی جذبہ جو ہمارے لئیے اس ہدف کو پانے کا محرک ہوتا ہے۔ ابتدائی مرحلہ پر ہم اپنی آئندہ زندگیوں کو بہتر بنانے کی تمنا رکھتے ہیں، اس امر کی ضمانت کے ساتھ کہ ہمیں ایک بیش قیمت انسانی روپ میں پنر جنم عطا ہو تا کہ ہم ترقی یافتہ ہو کر اور بھی بڑے ہدف پا سکیں۔ ہم محسوس کرتے ہیں کہ محض اسی عرصۂ حیات میں ہم اپنے حتمی ہدف نہیں پا سکتے۔ اس کے لئیے ایک لمبا عرصہ اور بہت محنت درکار ہے۔ بہتر پنر جنم پانے کی کوشش اور اس سلسلہ کا اجرا اس لئیے ضروری ہے تا کہ ہم اس راہ پر گامزن رہیں۔

اس بیش قیمت انسانی پنر جنم کے حصول سے ہم کیا کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ ہم اپنے اگلے جنم میں بہشت میں جا کر موج میلہ کرنے کی بات نہیں کر رہے ہیں۔ اس سلسلہ میں، وہ جذبہ جو ہمیں بہتر پنر جنم پانے کی ترغیب دیتا ہے وہ بد ترین پنر جنم کا خوف ہے۔  ان بد ترین حالات میں، ہمارے پاس اپنے آپ کو سدھارنے کا کوئی موقع نہیں ملے گا، لیکن ہم پُر اعتماد ہیں کہ اس سے بچنے کا کوئی طریقہ تو ہے۔ ہم نے اس پر محفوظ راہ یا پناہ کے حوالے سے بات کی ہے۔ اس سمت چلنے کا مقصد ان کمزوریوں اور منفی پہلووں کو ہمیشہ کے لئیے ختم کرنا ہے جو ہمارے من کی کاروائی، خاص طور پر ہمارے رویہ کے سلسلہ میں، کے ہمراہ ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم مثبت انداز میں کام کرنا چاہتے ہیں۔ ہم یہ سب کچھ اس پس منظر میں کرتے ہیں جو اس بیش قیمت انسانی زندگی کے حوالے سے میسر عمدہ مواقع سے منسلک ہے، اور اس فہم کے ساتھ بھی کہ بوقتِ موت ہم یقیناً اس سے محروم ہو جائں گے۔ موت کی آمد یقینی ہے مگر یہ معلوم نہیں کہ کب آۓ گی۔

بہترین حالات میں پنر جنم بھی تسلی بخش نہیں ہے

میانہ سطح پر ہم مزید جائزہ لیتے ہیں۔ اگر ہمیں نام نہاد بہتر پنر جنم نصیب ہو بھی، یا بیش قیمت انسانی روپ میں پنر جنم ملیں، تو محض ایسے چلتے رہنا غیر تسلی بخش ہو گا۔ زندگی رواں دواں رہتی ہے اور نشیب و فراز اس کی فطرت میں شامل ہے بغیر اس تیقن کے کہ اگلے لمحہ ہم کیسے محسوس کریں گے۔ ہم اس لمحہ خوش ہیں، مگر اگلے ہی لمحہ اچانک ہم غیر مطمٔن، بجھے بجھے، حتیٰ کہ غم زدہ بھی ہو سکتے ہیں۔ بعض چھوٹی چھوٹی باتیں ہمیں پریشان کرتی ہیں اور اس کے ہمراہ ہمارے رو بہ اعادہ مسائل بھی ہیں جن سے ہمیں ہر عرصہ حیات میں گزرنا ہے جیسے پیدائش کا عمل، ایک نو مولود ہونا جسے اپنے جسمانی فطری معمولات پر کوئی اختیار نہیں۔ ہمیں بولنا اور چلنا سیکھنا پڑتا ہے، اور اس سے بار بار کا واسطہ خاصا اکتا دینے والی بات ہے۔ ہمیں پھر سے سکول جانا پڑے گا، اور کون یہ کام پھر سے کرنا چاہتا ہے؟ ہمیں ایک ساتھی تلاش کرنا ہو گا، ایک ملازمت تلاش کرنا ہو گی، اور پھر سے بیماری، بڑھاپا اور موت کا سامنا کرنا ہو گا نہ صرف اپنی ذات کے حوالے سے بلکہ ہمارے عزیز و اقارب کے معاملہ میں بھی۔

تو اس بیش قیمت انسانی زندگی کے ہمراہ بھی بے شمار غیر تسلی بخش معاملات ہیں، اور اس کے علاوہ ہمارے جذباتی مسائل بھی موجود ہوں گے۔ ہم غصہ میں آ جاتے ہیں، ہم لالچ کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ہم انسانوں اور اشیاء سے موہ لگا لیتے ہیں۔ ہم علت و معلول اور حقیقت کے بارے میں لا علم ہوتے ہیں، اس وجہ سے ہم احمقوں کی سی حرکتیں کرتے ہیں، یہ سوچتے ہوۓ کہ ہمارے اعمال اور گفتار کا دوسروں پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اکثر ہمارا رویہ ایسا ہوتا ہے جیسے کہ دوسرے لوگوں کا کوئی وجود نہیں اور نہ ہی ان کے کوئی جذبات ہیں۔ یہ بھر پور لا علمی ہے، ہے نا؟

آنے والے کسی بھی پنر جنم میں یہ مسائل جاری و ساری رہیں گے اور ہمیں ان نشیب و فراز سے واسطہ پڑے گا۔ ایسا وقت بھی آۓ گا جب ہم خوش قسمت سے بد قسمت اور اچھے سے برے پنر جنم اور حالات کا شکار ہوں گے۔ یہ سلسلہ چلتا ہی رہتا ہے۔ اسی کو ہم "اضطراری، رو بہ تکرار وجود یا پنر جنم" کہتے ہیں، جسے سنسکرت میں "سمسار" کہا جاتا ہے۔

تیاگ: آزادی پانے کی خاطر مُکش کی تلاش

میانہ سطح پر ہمارا ہدف اس سب سے مکش حاصل کرنا ہے۔ ہمارے من کے تسلسل کی نہ تو کوئی ابتدا ہے اور نہ ہی کوئی انتہا، اور ہم اس بظاہر کبھی نہ ختم ہونے والے اضطراری رو بہ تکرار پنر جنم کے سلسلہ کو جاری نہیں رکھنا چاہتے۔ جب ہم " بظاہر کبھی نہ ختم ہونے والے" کا ذکر کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم اس کے متعلق کچھ نہ کریں تو یہ ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ ہمیں اس کو ختم کرنا ہے، اور سمسار کی حقیقی روک تھام کا مزہ چکھنا ہے۔ کیوں؟ کیونکہ ہم دکھ کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں در پیش مسائل خواہ سنگین نہ بھی ہوں، پھر بھی ہم لطیف تر مسائل کی بندش چاہتے ہیں۔ مُکش پانے کی یہی وجہ ہے۔

سنسکرت میں اسے "نروان" کہتے ہیں، اور وہ جذبہ جو ہمیں اس کی ترغیب دلاتا ہے اسے ہم "تیاگ" کہتے ہیں۔ یہ بہترین ترجمہ نہیں ہے، مگر یہ آزاد ہونے کی زبردست خواہش کا اظہار ہے۔ تیاگ کے مد نظر ہم سوچتے ہیں کہ میں نے کافی دکھ اٹھا لیا ہے۔ میں اس سے تنگ آ چکا ہوں، اور بلکہ غائرانہ سطح پر سوچتے ہوۓ میں اس سے مکمل طور پر اکتا چکا ہوں۔ اب بہت ہو چکا: مجھے آزادی چاہئیے۔

اپنے پریشان کن جذبات کو خیر باد کہنے پر راضی ہونا

ہم دیکھتے ہیں کہ آزادی پانے کی خاطر، ہمیں اپنے مسائل اور آزار کے اسباب سے نجات حاصل کرنا ہے۔ ہم پوری طرح سے  نہ صرف آزار بلکہ اس کے اسباب سے بھی چھٹکارا پانے کو تیار ہیں۔ ہم آئس کریم، چاکلیٹ یا ایسی کسی شے کو ترک کرنے کی بات نہیں کر رہے ہیں۔ یہ تیاگ کی نہائت کم درجہ مثال ہو گی۔ ہم جن چیزوں سے چھٹکارا پانے کا عزم کئیے ہوۓ ہیں وہ ہے ہمارا غصہ، لالچ اور ان سب چیزوں سے لگاؤ۔ چاکلیٹ کے معاملہ میں ہمیں اس سے اپنا موہ ترک کرنا ہے جو کہ اس کی عمدہ خصوصیات کی مبالغہ آرائی پر مبنی ہے۔ مثال کے طور پر ہم سوچتے ہیں کہ "یہ دنیا کی عمدہ ترین اور لذیذ ترین شے ہے، اور اس سے مجھے خوشی ملے گی، انتہا کی خوشی!" اگر چاکلیٹ میں واقعی یہ خوبیاں موجود ہوتیں، تو پھر ہم اسے جتنا زیادہ کھاتے ہم اتنا ہی زیادہ خوش ہوتے۔ مگر ہم خواہ کتنا ہی چاکلیٹ کے نشہ میں سرشار ہوں، جلد ہی ہم اس سے تنگ آ جائں گے اور اسے دیکھنا بھی گوارا نہیں کریں گے۔

ہمارے لئیے اپنی لگاوٹ کی اشیاء، غصہ وغیرہ کو ترک کرنے کی خواہش میں نیک نیتی سے کام لینا بہت بڑی اور بہت مشکل بات ہے۔ ہمیں اسے غیر اہم نہیں جاننا چاہئیے۔ یہ اس لطیفے کی مانند ہے کہ کوئی شخص اپنا سر دیوار میں مار رہا ہے اور وہ باز نہیں آ رہا کیونکہ اسے معلوم نہیں کہ اگر اس نے یہ کام بند کر دیا تو معاملہ بد تر تو نہیں ہو گا۔ ہم بھی اسی کے عادی ہیں، تو ہم اپنا سر دیوار میں پھوڑے چلے جاتے ہیں۔ بے شک یہ ایک انتہائی صورت حال کا ذکر ہے۔ ایک عام مثال یوں ہو سکتی ہے کہ ہم کسی سے ایک غیر صحتمند تعلق جوڑے ہوۓ ہیں، مگر ہم تنہائی کے خوف سے اسے توڑنے سے گریزاں ہیں۔ اس کے نتیجہ میں ، ہم اس غیر صحتمند تعلق کو قائم رکھتے ہیں اور خستہ حال ہیں۔

یہ اکثر دیکھنے میں آیا ہے، ہے نا؟ ہم بعض لوگوں کو بعض باتیں کہنے سے گریز کرتے ہیں کہ مبادا وہ ہمیں چھوڑ دیں۔ ہم یہاں کسی غیر مانوس تجربات کا ذکر نہیں کر رہے ہیں، یہ ایسے معاملات ہیں جن سے ہمیں ہر وقت واسطہ پڑتا ہے۔

کیا اضطراری رو بہ تکرار پنر جنم سے مکش ممکن ہے، کیا میں اسے پا سکتا ہوں؟

مکش پانے اور آخر کار روشن ضمیری پانے کے اس ہدف میں پہلی بات ہمیں یہ جاننا ہے کہ یہ ممکن ہے اور مزید یہ کہ اس کو پانے کا طریقہ کیا ہے۔ یہ دقیق موضوعات ہیں اور، چونکہ یہ کر کے دکھانا مشکل ہے کہ یہ قابلِ حصول ہدف ہیں جنہیں ہم سب پا سکتے ہیں، بہت سے لوگ انہیں نظر انداز کر دیتے ہیں۔ یہ ایک فاش غلطی ہے کیونکہ اگر ہمیں اس بات کا یقین نہیں کہ ہم انہیں پا سکتے ہیں، تو ہم انہیں پانے کی خاطر کیوں جد و جہد کریں گے؟ ہم محض ایک کھیل کھیل رہے ہوں گے اور بالآخر ایسے مقام پر جا پہنچیں گے جہاں ہم کہیں گے کہ یہ سب لغو ہے اور اس سے دست بردار ہو جائں گے۔

ہمیں بدھا فطرت (وہ عناصر جو مکش اور روشن ضمیری کا سبب بنتے ہیں) کے موضوعات کا گہرا مطالعہ کرنا ہے، من کی فطری شفافیت، وغیرہ۔ کیا ہمارے پریشان کن جذ بات اور الجھن ہمارے من کا بنیادی حصہ ہیں؟ اگر ایسا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ وہاں ہر لمحہ موجود ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہے تو کیا ان کا وجود عارضی ہے اور کیا انہیں نکالا جا سکتا ہے کہ وہ پھر کبھی لوٹ کر نہ آئں؟

اس پر سوال اٹھانا اور اسے زیر بحث لانا بہت ضروری ہے۔ یہ یقیناً کوئی ایسی بات نہیں جس پر ہم آنکھیں بند کر کے ایمان لے آئں۔ در حقیقت ہم اس پر جس قدر شک کریں اتنا ہی اچھا ہو گا، کیونکہ ہمیں اپنے تمام شکوک و شبہات دور کرنا ہیں اور ہم جو کر رہے ہیں اس پر مکمل بھروسہ لازم ہے۔ کیا ہمیں اس وقت کا انتظار کرنا چاہئیے جب تک کہ ہمیں ۱۰۰٪ یقین نہ ہو جاۓ؟ یہ بہر حال کوئی آسان سوال نہیں ہے۔ ہمیں کیسے پتہ چلے گا کہ ہم مکمل یقین رکھتے ہیں؟ اس پر بہت وقت لگ سکتا ہے۔

اگر ہم اسے بیکار بات سمجھتے ہیں، تو یقیناً ہم اس پر کام نہیں کر سکتے۔ لیکن اگر ہم اسے ممکن سمجھنے پر مائل ہوں تو ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔ اس کو سچ ماننے کی بنیاد کوئی دلیل ہونی چاہئیے نہ کہ اندھا دھند ایمان، یا کیونکہ "میرے استاد نے یہ بات کہی۔" مہاتما بدھ نے خود ارشاد فرمایا،" میری کسی بات کا مجھ پر بھروسہ کرنے کی بنا پر یقین نہ کرو، بلکہ اسے ایسے پرکھو جیسے کہ تم سونا خرید رہے ہو۔" ہمیں اس کی سچائی کو پرکھنے کی خاطر اس کا معائنہ کرنا ہے۔     

پنر جنم پر یقین: سرکونگ رنپوچے کا دو جنموں کا واقعہ

پنر جنم پر یقین لانا بطور ایک حقیقت کے ایک بہت طویل معاملہ ہو سکتا ہے۔ میں اپنا ذاتی تجربہ بیان کر سکتا ہوں کیونکہ میں نے اس پر کئی برس کام کیا ہے۔ میں ۴۵ برس سے زائد عرصہ سے بدھ مت کا مطالعہ کر رہا ہوں، اور بالآخر کسی موقع پر میں نے دلیل کی بنیاد پر اس امر کی عقلی فہم پائی ہے کہ پنر جنم کیوں ایک معقول امر ہے۔ لیکن جس چیز نے مجھے حیران کیا اور جذباتی سطح پر قائل کیا وہ میرا میرے استاد کے ساتھ دو جنموں میں تعلق تھا۔ اس کا نام سرکونگ رنپوچے تھا اور وہ تقدس مآب دلائی لاما کے اساتذہ میں سے ایک تھا؛ اور میں اس کے قریبی چیلوں میں سے ہونے کے سبب نہائت خوش قسمت انسان تھا۔ میں نے اس کے ساتھ نو برس گزارے اور اس دوران میں نے اس کے لئیے ترجمہ کا کام کیا اور اس کے ذاتی سیکریٹری کے فرائض سر انجام دئیے۔ میں نے اس کے تمام غیر ملکی دوروں کا بند و بست کیا اور اس کے نہائت قریب کام کرتے ہوۓ اس کے ہمراہ سفر کیا۔ اس کی وفات ۱۹۸۳ میں ہوئی، پھر اس کا پنر جنم ہوا اور وہ تبت کے تلکو سسٹم میں پایا گیا۔

اب اس کی عمر ۲۵ برس ہے اور میرا اب بھی اس سے گہرا رشتہ ہے، ویسا ہی جیسا کہ پہلے والے سے تھا۔ البتہ اب ہماری عمروں میں نسبتِ معکوس پائی جاتی ہے!

جب میں نئے سرکونگ رنپوچے سے ملا تو وہ چار برس کا تھا، اور جب میں پہلی بار اس کے کمرے میں داخل ہوا تو اس کے خادموں نے اس سے پوچھا، "کیا تم انہیں جانتے ہو؟" "پاگل مت بنو، بے شک میں جانتا ہوں کہ یہ کون ہیں،" یہ تھا اس کا جواب۔  شروع سے ہی، ایک چار برس کے بچے کی طرح، اس کا میرے ساتھ رویہ، دوسرے لوگوں کی نسبت، نہائت قربت اور پیار والا تھا۔ اس کے جوان ہونے کے ساتھ ساتھ یہ رویہ ایسا ہی رہا ہے۔

مختلف موقعوں پر ہم نے اس کی گزشتہ زندگی کی ویڈیوز دیکھی ہیں، اور وہ مجھ سے کہتا ہے – وہ مجھ سے لغو باتیں نہیں کرتا – "اوہ، مجھے یاد ہے کہ میں نے یہ کہا تھا۔" تمام دلائل اور تعقّل کے علاوہ یہ وہ تجربہ تھا جس نے مجھے اس احساس "شائد، ہو سکتا ہے ۔۔۔۔" کو پھلانگنے میں میری مدد کی۔ اس نے مجھے تیقّن بخشا۔

یہ کام آسان نہیں ہیں۔ کیا مکش پانا واقعی ممکن ہے؟ کیا من کی فطرت واقعی شفاف ہے؟  خواہ ہماری عقل اسے تسلیم بھی کرتی ہو، مگر اسے جذباتی سطح پر سمجھنے کے لئیے بہت گہرائی میں جانا ضروری ہے۔ لیکن، ہم دھیرے دھیرے اس پر کام کر سکتے ہیں۔

حقیقت بطور اضطراری رو بہ تکرار پنر جنم کی علت کے متعلق غلط فہمی

لم- رم میں میانہ درجہ کی ترغیب کے ساتھ، ہمارے پاس پنر جنم کے تانے بانے کا مفصل بیان، ہمراہ دست نگر نمو کے ۱۲اضافی حوالوں کے، موجود ہے۔ یہ ایک نہائت پیچیدہ تانے بانے کا نام ہے جو کرم، کرمائی اثرات، وغیرہ کے مسٔلہ سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ ہمیں غصہ اور لالچ جیسے پریشان کن جذبات کی مختلف انواع کی عمیق فہم، یہ کیسے جنم لیتے ہیں اور ان کے پس پشت کیا ہوتا ہے۔ سادہ الفاظ میں میں اس محرک کو "الجھن" کا نام دیتا ہوں جس میں ہم اپنے اعمال کے دوسروں پر اور ہمارے اپنے اوپر اثرات کے متعلق الجھن میں مبتلا ہیں۔ گہری سطح پر یہ کہ ہم اپنے وجود، دوسروں کے وجود، اور ہر شے کے وجود کے متعلق غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔

بنیادی طور پر ہمارا تصور اشیاء کے متعلق یہ ہے کہ وہ بذات خود آزادانہ وجود رکھتی ہیں، مکمل طور پر خود اختیار ہیں، ہر کسی شے سے بیگانہ ہیں، جیسے کہ وہ پلاسٹک میں لپٹی ہوئی ہوں۔ اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ تمام اشیاء آپس میں منسلک ہیں، پھر بھی ہم یہ سوچتے ہیں کہ اشیاء پلاسٹک میں بند ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ تیلیوں سے جُڑی ہوئی ہیں۔ وجود کے نا ممکنہ طریقوں سے منسلک لطافت کے کئی درجات ہیں جن کو سمجھنا ہمارے لئیے لازم ہے۔ ہمیں ٹھیک ٹھیک یہ جاننا ہے کہ نا ممکنات کیا ہیں، اور ہمیں کن چیزوں اور کن لوگوں کے بارے میں غلط فہمی ہے۔

کھوکھلا پن (خالی پن): وجود کی نا ممکن اشکال کی عدم موجودگی

جو چیز ہمیں سمجھنا ہے وہ "کھوکھلا پن" یا "خالی پن" کہلاتی ہے۔ کھوکھلا پن سے مراد مکمل عدم موجودگی ہے؛ یعنی وہاں کچھ بھی موجود نہیں۔ جو وہاں موجود نہیں وہ ان تصورات کا وہ روپ ہے جو نا ممکن ہیں۔ ان کا کسی حقیقی شے سے کوئی واسطہ نہیں۔

ہم سینٹا کلاز کی مثال استعمال کر سکتے ہیں۔ فرض کیجئیے کہ ہم کسی ایسے شخص کو دیکھتے ہیں جس کی سفید لمبی داڑھی ہے اور اس نے سرخ لباس پہن رکھا ہے، اور وہ "سینٹا کلاز" کی مانند نظر آتا ہے۔ لیکن سینٹا کلاز کا حلیہ کسی حقیقی شے سے مشابہت نہیں رکھتا، کیونکہ سینٹا کلاز نام کی کوئی حقیقی ہستی وجود نہیں رکھتی۔ خالی پن اسی چیز کا بیان ہے، ایک حقیقی سینٹا کلاز کی عدم موجودگی جو اس شخص کے روپ سے ملتا جلتا ہو۔ یہاں اس حقیقت سے انکار نہیں کہ وہاں ایک شخص موجود ہے جو سینٹا کلاز سے ملتا جلتا ہے۔ ہم اس بات کی وضاحت کرنا چاہ رہے ہیں کہ یہ شخص جیسا ہمیں نظر آتا ہے وہ فریب ہے۔ یہ سینٹا کلاز سے متشابہ ہے، لیکن در حقیقت یہ سینٹا کلاز نہیں ہے، کیونکہ ایسی کوئی شے وجود نہیں رکھتی۔

ہمارا من اس طرح ہر وقت کام کرتا ہے۔ ہم ہر قسم کی احمقانہ باتیں کرتے ہیں، جیسے یہ حسین ترین انسان ہے، یا وہ نہائت قبیح انسان ہے، یا ہم دنیا کے لئیے خدا کی طرف سے ایک تحفہ ہیں، یا یہ کہ ہم بالکل بیکار انسان ہیں۔ ہم ان باتوں کا ایسے اظہار کرتے ہیں جیسے ہم یا وہ ایسا وجود رکھتی ہیں، ہر کسی شے سے بے نیاز، جیسے کہ یہ سچ اور غیر تغیّر پذیر ہے۔

در حقیقت، کسی کا بھی وجود ایسا نہیں ہوتا۔ در اصل، یہ نا ممکن ہے، کیونکہ ہر شے کا وجود کوئی دوسری اشیاء کے حوالے سے ہے۔ تقدس مآب دلائی لاما ہمیشہ ہماری انگلیوں کی مثال دیتے ہیں۔ کیا ہماری چوتھی انگلی بڑی ہے یا چھوٹی؟ تو یہ پانچویں انگلی سے بڑی ہے مگر ہماری درمیان والی انگلی سے چھوٹی ہے۔ لہٰذا اپنے طور پر، اپنی حیثیت کے لحاظ سے، کیا یہ بڑی ہے یا چھوٹی؟ اس کا کوئی جواب نہیں کیونکہ اس کا چھوٹا یا بڑا ہونا دوسری اشیاء کے حوالے سے ہے۔ یہ مکمل طور پر دوسری اشیاء اور ہمارے چھوٹے بڑے کے تصور کی مرہونِ منت ہے۔ میرا خیال ہے کہ آپ میری بات سمجھ گئے ہوں گے۔

تو اس میانہ سطح پر، ہم خالی پن کی فہم کو استوار کر کے اس بنیادی غلط فہمی کو دور کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ہی وہ الجھن ہے جو اضطراری رو بہ اعادہ پنر جنم کا باعث ہوتی ہے، کیونکہ یہ کرم اور کرمائی اثرات کو حرکت میں لاتی ہے، جیسا کہ دست نگر نمو کے ۱۲ حوالوں کے دقیق تانے بانے میں کھول کر بیان کیا گیا ہے۔

ارتکاز اور اخلاقی ضبط نفس کی ضرورت  

خالی پن کو سمجھنے کے لئیے ہمیں ارتکاز درکار ہے۔ ارتکاز استوار کرنے کی خاطر اخلاقی ضبط نفس ضروری ہے۔ اس کے لئیے ایک درخت کو کاٹنے کی مثال دی جاتی ہے۔ فہم ایک تیز کلہاڑی کی مانند ہے، لیکن کسی درخت کو کاٹنے کے لئیے ہمیں ایک ہی مقام پر بار بار کلہاڑی چلانا ہے۔ کسی ایک ہی جگہ پر لگاتار ضرب لگانا ارتکاز کے مترادف ہے۔  کلہاڑی اٹھانے، اسے گھمانے، اور اسی جگہ مارنے کے لئیے طاقت چاہئیے۔ یہ قوت اخلاقی ضبط نفس سے آتی ہے، جس میں ہم نقصان دہ رویہ سے گریز کرتے ہیں۔

میانہ درجہ پر ہمیں مختلف عہد و پیمان بھی ملتے ہیں جو ہم اختیار کر سکتے ہیں۔ اس میں بھر پور یا کسی بھکشو یا بھکشونی کے ابتدائی عہد، یا گرھست لوگ، مرد یا عورت، کے عہد و پیمان شامل ہیں۔ گرھست سے مراد ایسا انسان ہے جو کسی آشرم میں تجرد کی زندگی بسر نہیں کرتا، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کا کوئی خاندان ہے؛ اس میں کنوارے بھی شامل ہیں۔ قدیم ہندوستان میں ایسا شاذ ہی تھا، کیونکہ گرھست لوگ تقریباً ہمیشہ ہی عیال دار ہوتے تھے۔ ان آشرمی اور گرھستیوں کے عہد کو مشترکہ طور پر "انفرادی مکش کے عہد و پیمان" کہا جاتا ہے کیونکہ ان کا ہدف ہمارا اپنا مکش ہے۔ یہ عہد ہمیں مختلف قسم کے رویہ سے جس کے محرک پریشان کن جذبات ہوتے ہیں روکتا ہے، جو کہ ہمارے مراقبہ پاٹھ اور ایسی دوسری مثبت چیزوں میں حائل ہو سکتے ہیں۔

کوئی عہد باندھنا ایک اہم امر ہے۔ کیوں؟ کیونکہ جب ہم کسی کام کو پھر کبھی نہ کرنے کا عہد کرتے ہیں تو اس سے ہمیں تذبذب سے نجات مل جاتی ہے۔ مثال کے طور پر، فرض کیجئیے کہ ہم شراب یا سگریٹ نوشی چھوڑنا چاہتے ہیں۔ تو جب بھی ہم ایسے لوگوں کے ہمراہ ہوں جو شراب نوشی یا سگریٹ نوشی کر رہے ہوں، تو ہم اس الجھن میں گرفتار ہوتے ہیں کہ ہم بھی پئیں یا نہ کر دیں۔ ہم خواہ اس کو ترک کر دینے کی بھر پور کوشش کر رہے ہوں، لیکن ہر بار جب ہم اس صورت حال سے دوچار ہوں گے تو ہمیں فیصلہ کرنا ہو گا جو کہ اگر تناؤ بردار نہیں پر کافی مشکل ہو سکتا ہے۔

اگر ہم کوئی عہد باندھ لیں، تو بات ختم۔ ہم نے عہد کیا ہے، "میں شراب نہیں پیوں گا۔ میں تمباکو نہیں پیوں گا،" یا جو کچھ بھی ہو۔ پھر اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا اگر ہمارے گرد سب لوگ شراب پی رہے ہوں، کیونکہ ہم نے اپنا پکا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس قسم کے عہد باندھنا کسی پابندی یا سزا کی بجاۓ ہمیں بہت شکتی دے سکتا ہے اور تذبذب سے نجات دلا سکتا ہے، خاص طور پر ان معاملات میں جو ہمارے حتمی مکش پانے میں ضرر رساں ہو سکتے ہیں۔

بدھ مت میں عہد باندھنے پر قطعاً کوئی پابندی نہیں ہے۔ ہمیں یہ بات  ضرور سمجھنی چاہئیے۔ کوئی آپ سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ آپ کو یہ یا وہ عہد قائم کرنا ہے، نہ ہی کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ آپ بھکشو یا بھکشونی بن کر کسی آشرم میں رہیں۔ بہر حال، اگر آپ سمسار سے مکش پانے کے معاملہ میں سنجیدہ ہیں اور غصہ، موہ، حرص وغیرہ سے ہمیشہ کے لئیے نجات چاہتے ہیں تو چند ایک عہد باندھنے سے یہ کام یقیناً آسان ہو جاۓ گا۔ ہو سکتا ہے کہ ہم ابھی اس کے لئیے تیار نہیں ہیں، اور اس میں قطعی طور پر کوئی مضائقہ نہیں۔ ہمیں اپنے آپ کو اور اپنے حالات کو ایمانداری سے پرکھنا چاہئیے۔

یہ میانہ درجہ کا سلسلہ ہے۔ اگرچہ ارتکاز اور خالی پن اس کا حصہ ہے، مگر ابھی تک اسے پوری طرح زیر بحث نہیں لایا گیا۔ ان موضوعات کا ترقی یافتہ تعلیمات کی سطح پر جائزہ لیا جاۓ گا۔

تحریک کی ترقی یافتہ سطح: باقی سب لوگوں کی فکر کرنا

ترقی یافتہ سطح پر، ہم یہ تصور کرتے ہیں کہ دنیا میں ہم اکیلے ہی نہیں ہیں۔ یہاں اور لوگ بھی ہیں، اور ہر شخص کے حالات ویسے ہی ہیں جیسے کہ ہمارے ہیں۔ ہر کوئی دکھ جھیل رہا ہے اور اضطراری رو بہ تکرار پنر جنم کا شکار ہے۔ ہم پائدار مسرت کے خواہاں ہیں اور دکھ سے گریزاں ہیں، اور باقی سب لوگ بھی یہی چاہتے ہیں۔ اس معاملہ میں ہم سب بالکل برابر ہیں۔ یہ محض میں اور چند ایک گنے چنے لوگ ہی نہیں ہیں، بلکہ ہر فرد اس میں شامل ہے۔ ہم سب ایک دوسرے سے منسلک اور ایک دوسرے کے محتاج ہیں۔ ہمارا وجود آزاد اور خود مختار نہیں ہے۔ در حقیقت، اس طرح ہم زندہ ہی نہیں رہ سکتے۔

اپنے دلوں کو وسعت دے کر سب سے برابر کا سلوک کرنے کے کافی ترقی یافتہ طریقے موجود ہیں۔ ہم نے پہلے اس کا تھوڑا سا ذکر کیا ہے جب ہم یہ بات کر رہے تھے کہ سب لوگوں کے بارے میں یہ تصور کریں کہ وہ گزشتہ زندگیوں کے دوران ہماری مائیں رہ چکے ہیں اور یہ کہ انہوں نے ہمارے اوپر از حد کرم فرمائی کی ہے۔ دھرم- لائٹ کے ایک روپ میں ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح دوسرے لوگ ماں کی مانند ہمارا خیال رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن اس میں کچھ کمزوریاں بھی ہیں کیونکہ اس کا اطلاق ہمارے دوست مچھر پر کرنا مشکل ہے۔

پیار محبت

اپنے دلوں میں وسعت پیدا کرنے کی خاطر، ہم "پیار" پیدا کرنا شروع کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ طمانیت سے شروع ہوتا ہے جس میں ہم کچھ لوگوں کو پسند نہیں کرتے  ہیں، کچھ دوسروں سے دور بھاگتے ہیں، اور باقی لوگوں سے لا تعلقی کا اظہار کرتے ہیں۔ ہم ہر کسی کے لئیے اپنے دل میں جگہ پیدا کرتے ہیں اور اس بنیاد پر ہم بات کو سمجھتے ہیں کہ ہم سب لوگوں سے باہمی ارتباط رکھتے ہیں۔ اس امر کو اس دلیل پر استوار کیا جا سکتا ہے کہ ہر کوئی گزشتہ زندگیوں کے دوران ہماری ماں کا کردار ادا کر چکا ہے اور ہمارے اوپر بے حد مہربان رہا ہے، یا محض یہ کہ ہر شے جس کا ہم لطف اٹھاتے ہیں یا جسے استعمال میں لاتے ہیں وہ دوسرے لوگوں کے کام کی مرہونِ منت ہے۔ ذرا اپنے نیچے فرش پر نظر ڈالئیے، یہ جو عمارت ہے جس میں آپ موجود ہیں، جو پانی آپ پیتے ہیں، کیا ہم کبھی سوچتے ہیں کہ یہ سب کہاں سے آیا؟ ہماری خوراک اور پانی کیسے یہاں پہنچے؟ یہ سب دوسرے لوگوں کی محنت کا نتیجہ ہے، ہمارے گرد سب لوگوں کی کوشش سے۔ ہم سب برابر ہیں اس لئیے یہ غیر معقول بات ہے کہ ہم محض اپنے ہی فائدے کے لئیے کام کریں، کیونکہ در حقیقت اپنے آپ کو فائدہ پہنچانے کی خاطر ہمیں سب کا بھلا کرنا ہے۔

اس بنیاد پر، ہم سب کے لئیے اپنے دل میں برابر کا پیار پیدا کر سکتے ہیں۔ اس پیار سے مراد ہر کسی کے لئیے خوشی کی تمنا اور خوشی کے اسباب پیدا کرنا ہے۔ اس کا رومانوی محبت سے کوئی تعلق نہیں، جس میں عموماً بہت زیادہ لگاوٹ کا عنصر شامل ہوتا ہے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں، "میں تم سے پیار کرتا ہوں،" تو اس کا مطلب عموماً یہ ہوتا ہے، "مجھے تمہاری ضرورت ہے۔ مجھے کبھی چھوڑ نہ جانا۔ میں تمہارے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔" جب ہمیں دوسرے انسان سے مطلوبہ توجہ نہیں ملتی، یا وہ کوئی نازیبا بات کہہ دیں، تو یہ جلد ہی یوں بدل جاتا ہے "میں اب تم سے پیار نہیں کرتا۔"

بدھ مت میں ہم جس پیار کی بات کرتے ہیں اس کا اس بات سے قطعی طور پر کوئی تعلق نہیں کہ لوگوں کا رویہ کیسا ہے اور وہ ہمارے ساتھ کیسے پیش آتے ہیں۔ یہ محض اس چیز کی تمنا ہے: خدا کرے کہ تم خوش رہو۔ یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ سب لوگ ہمارے جسم کا حصہ ہیں: ہم چاہیں گے کہ ہماری تمام انگلیاں تندرست ہوں، صرف چند ایک ہی نہیں۔ اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ ہماری انگلیاں ہمارے کس کام آتی ہیں۔

درد مندی

پیار کے ساتھ  پھر ہم "درد مندی" پیدا کرتے ہیں۔ یہ اس چیز کی تمنا ہے کہ لوگ دکھ اور دکھ کے اسباب سے محفوظ رہیں۔ یہ نہ صرف اوپری سطح کے دکھ درد، یعنی زندگی کے اتار چڑھاؤ کا معاملہ ہے، بلکہ گہری سطح کے دکھ درد جیسے اضطراری رو بہ تکرار پنر جنم کی بھی بات ہے۔ درد مندی کا یہ مطلب نہیں کہ ہم دوسروں کو کمتر جانیں اور ان پر ترس کھائیں، جیسا کہ، "اوہ، تو بیچارہ۔" بودھی درد مندی کی بنیاد عزت اور اس بات کی سمجھ بوجھ پر ہے کہ دوسرے سب لوگوں کے لئیے دکھ اور دکھ کے اسباب سے نجات ممکن ہے۔  یہ محض ایک نیک تمنا یا خوبصورت الفاظ پر مشتمل نہیں ہے۔ درد مندی میں، ہم دوسروں کے لئیے دکھ سے مبرّا حالت استوار کرنے کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ اس کے لئیے بڑے حوصلہ کی ضرورت ہے۔

جب ہم "زبردست درد مندی" پیدا کر لیں، تو ہماری درد مندی سب کے لئیے برابر ہے اور سب سے ویسا ہی برتاؤ کرتی ہے جیسا کہ کوئی محبت کی ماری ماں اپنے اکلوتے بچے سے کرتی ہے۔ ہمارے زبردست درد مندی کے احساس میں یہ بھی شامل ہے کہ ہر ذی حس کو مزید دکھ سہنے سے کیسے بچایا جاۓ۔

غیر معمولی مصمم ارادہ

اگلا قدم من کی ایک ایسی حالت استوار کرنا ہے جسے "غیر معمولی مصمم ارادہ" کہتے ہیں۔ یہ اس بات کا مضبوط ارادہ ہے کہ ہم اس بات کی ذمہ داری لیتے ہیں  کہ ہم محض اوپری سطح پر یا گہری سطح پر ہی لوگوں کی مدد نہیں کریں گے۔ ہم اس بات کی ذمہ داری لیتے ہیں کہ ہم دوسروں کی ایک مکمل روشن ضمیر مہاتما بدھ بننے میں مدد کریں گے۔ ہم ایسا کرنے کی محض خواہش ہی نہیں رکھتے، ہم نے ایسا کرنے کا پکا ارادہ کر لیا ہے: ہم ہر حال میں یہ کام کریں گے۔

بودھیچت: دوسرے تمام لوگوں کی خاطر روشن ضمیری حاصل کرنے کا ہدف

اس سلسلہ کی آخری کڑی "بودھیچت" استوار کرنا ہے، جس کی بنیاد پیار، درد مندی اور مصمم ارادہ ہے۔ ہم محسوس کرتے ہیں کہ دوسروں کی مدد کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ پہلے ہم خود مہاتما بدھ جیسی حالت کو پہنچیں۔ لیکن اس خواہش کو حقیقت میں بدلنے کے لئیے ہمیں یہ جاننا ضروری ہے کہ ایک بدھا کیا ہوتا ہے، کوئی مہاتما بدھ کن طریقوں سے دوسروں کی مدد کر سکتا ہے، یا نہیں کر سکتا ہے۔ یاد رکھو کہ مہاتما بدھ کسی قادرِ مطلق کی مانند نہیں جس کے ایک چٹکی بجانے سے سب کے دکھ درد دور ہو جاتے ہیں۔ مہاتما بدھ یقیناّ دوسروں کی راہنمائی کر سکتا ہے اور انہیں ترغیب دے سکتا ہے، لیکن تمام کام ہم نے خود کرنا ہے۔ ہماری حقیقت کی فہم تک کسی اور کی رسائی نہیں ہو سکتی؛ ہم نے حقیقت کا ادراک خود کرنا ہے۔

پس، محبت اور درد مندی سے لیس، بودھیچت کا مقصد مستقبل میں ہماری اپنی روشن ضمیری تک رسائی ہے۔ یہ ہمارے اپنے ضمیر کا روشن ہونا ہے، نہ کہ مہاتما بدھ شکیا مونی کا یا روشن ضمیری عام معنوں میں۔ ہماری روشن ضمیری ابھی وقوع پذیر نہیں ہوئی ہے، مگر یہ ہو سکتی ہے اور ہو گی اور اس کی بنیاد ہمارے من کے چلار پر موجود بدھ فطرت عناصر ہیں۔ ان عناصر میں اس کی بے داغ فطرت، اور اس کے تمام امکانات اور صلاحیتیں شامل ہیں۔ ہم اس التوا پذیر روشن ضمیری کو پانے کے ہدف سے اس پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہیں تا کہ ہم دوسروں کا زیادہ سے زیادہ بھلا کر سکیں۔  روشن ضمیری کی راہ پر گامزن، ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ دوسروں کو زیادہ سے زیادہ بھلائی دے سکیں۔

یہ ہے بودھیچت۔ یہ من کی نہائت وسیع تر حالت ہے، اور ہمیں اسے محض پیار اور درد مندی پر مراقبہ کے ساتھ خلط ملط نہیں کرنا چاہئیے۔  یہ محض اتنا کچھ ہی نہیں ہے۔ پیار اور درد مندی تو بنیادی شے ہیں، بودھیچت اس سے کہیں زیادہ ہے۔

چھ دور رس اطوار (چھ کمالات)

ہم نے دیکھا کہ ترقی یافتہ سطح پر مقصد مہاتما بدھ جیسی کیفیت کا حصول ہے، تا کہ ہم دوسروں کی حتیٰ المقدور مدد کر سکیں۔ ہمارے محرکات پیار، درد مندی اور مصمم ارادہ ہیں۔ لیکن اس روشن ضمیری کو پانے کا طریقہ کیا ہے؟ یہاں ہم وہ بات پیش کرتے ہیں جسے " چھ کمالات،" سنسکرت میں " چھ پرمت،" کہتے ہیں جس کا ترجمہ میں " چھ دور رس اطوار" کرتا ہوں۔ میں اس اصطلاح کو اس لئیے پسند کرتا ہوں کیونکہ ان کے نتائج بہت دور رس ہیں، اور یہ ہمیں ایک مہاتما بدھ کی روشن ضمیر حالت تک لے جاتے ہیں۔ بعض لوگوں کے نزدیک "کمالات" کی اصطلاح کے استعمال سے یہ گمان ہوتا ہے کہ انہیں کامل ہونا چاہئیے جبکہ وہ ایسے نہیں ہیں، تو وہ اپنے آپ کو نا اہل محسوس کرتے ہیں۔ اس اصطلاح سے ایسا احساس نہیں پیدا ہونا چاہئیے۔

فیاضی

سب سے پہلا طور طریقہ جو ہمیں اپنانا ہے وہ ہے فیاضی، جس کا مطلب دوسروں کو محض مادی اشیاء ہی دینا نہیں بلکہ اس میں انہیں مشورہ اور تعلیم دینا اور خوف سے نجات دلانا بھی شامل ہے۔ ہمارے پاس دینے کو کوئی مادی شے نہ بھی ہو پھر بھی ہم ایسی چیز جس کی ضرورت ہو مہیا کرنے کی خواہش والا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ ایک اور تحفہ جو ہم دوسروں کو دے سکتے ہیں وہ ہے حسنِ سلوک۔ چونکہ ہم نے طمانیت استوار کر رکھی ہے اس لئیے دوسرے لوگوں کو ہم سے کسی قسم کا کوئی خدشہ نہیں ہے۔ ہم کسی پر ناراض نہیں ہوں گے، نہ ہی کسی سے چمٹ جائیں گے، یا ان سے کچھ لینے کی خواہش کریں گے۔ اگر دوسرے لوگ ہمارے ساتھ کوئی نا زیبا حرکت کریں تو ہم انہیں نظر انداز یا رد نہیں کریں گے۔ علاوہ از ایں، ہم پورے خلوص کے ساتھ ان کی مدد کرنے کی کوشش کریں گے۔ یہ در اصل ایک بیش قیمت تحفہ ہے جو ہم کسی کو دے سکتے ہیں، ایک ایسا قیمتی تحفہ جو ہم فیاضی سے پیدا کرتے ہیں۔

اخلاقی ضبط نفس

اگلا دور رس طور طریقہ جسے ہم استوار کرتے ہیں وہ ہے اخلاقی ضبط نفس، جس کے تحت ہم نہ صرف نقصان دہ رویہ سے گریز کرتے ہیں بلکہ جس قدر ممکن ہو ہم تعمیری رویہ اختیار کرتے ہیں۔ ہمارے اندر دوسروں کی مدد کی خاطر مطالعہ اور مراقبہ کرنے کی عادت موجود ہے۔ ہم کسی کی مدد کرنے میں تھکتے نہیں، اور کسی کو محض اس بنا پر نظر انداز نہیں کر دیتے کیونکہ ہمارا من مدد کرنے پر مائل نہیں ہو رہا۔

صبر  

صبر سے مراد بغیر ناراضگی یا پریشانی کے دکھ اور مصائب برداشت کرنے کی صلاحیت ہے۔ اپنے آپ کو بہتر بنانا اور دوسروں کی مدد کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے، اور بہت سے لوگوں کو مدد دینا تو بہت مشکل کام ہے۔ وہ ہمیں تنگ کرتے ہیں اور ہمیں غصہ سے بچنے کے لئیے صبر درکار ہے۔ دیگر دور رس اطوار کی مانند صبر پیدا کرنے کے بھی کئی طریقے ہیں۔

استقامت

 اگلا رویہ استقامت کا ہے جس میں ہم ہار نہیں مانتے، خواہ حالات کتنے ہی نا موافق کیوں نہ ہوں۔ اس طور یہ دور رس رویہ دلیرانہ حوصلہ مندی کی مانند ہے۔ نہ صرف ہم ہار نہیں مانتے بلکہ دوسروں کی مدد کرنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں، اور مدد کرنے کے اس موقع کی فراہمی پر بہت خوش ہوتے ہیں۔ اس رویہ کو استوار کرنے کی کئی ہدایات موجود ہیں، جن میں یہ جانکاری شامل ہے کہ کب آرام کرنا اور کام سے وقفہ لینا ہے۔ اگر ہم اپنے اوپر کام کا زیادہ بوجھ ڈالیں، تو ہم کسی کی بھی مدد نہیں کر پائں گے۔ اس کے علاوہ، ہمارے اپنے آپ کو بہتر بنانے اور دوسروں کی مدد کرنے کے سلسلہ میں جو مختلف قسم کی کاہلی آڑے آ سکتی ہے اس پر قابو پانے کے کئی ایک طریقے ہیں۔

من کی استقامت

 اس کے بعد ہمارے پاس من کی استقامت پیدا کرنے کے مراقبے ہیں۔ اس میں خالی ارتکاز ہی درکار نہیں بلکہ اس میں جذباتی استحکام بھی شامل ہے۔ ہم من کی ایک ایسی مستحکم حالت استوار کرنا چاہتے ہیں جو من کی آوارگی کا شکار نہ ہو، یا ان چیزوں کا تعاقب کرے جو ہمیں عزیز ہیں، اور جو سست اور غبی نہیں ہیں۔ یہ ایسا من ہے جو ہماری مطلوبہ چیز پر مرتکز رہتا ہے۔ مثال کے طور پر، جب کوئی ہم سے مخاطب ہو تو ہمارا من دوسری غیر متعلقہ باتوں کا تعاقب نہیں کرتا۔ ہم اس لئیے بھی مستحکم ہیں کیونکہ ہمارے ایسے پریشان کن جذبات نہیں ہیں جو ہماری استقامت پر اثر انداز ہوں؛ ہم متلوّن مزاج نہیں ہوتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نہ تو بہت حساس ہیں اور نہ ہی بے حس، بلکہ متوازن اور مستحکم ہیں۔

امتیازی آگہی

اس کا ترجمہ اکثر "دانائی" کیا جاتا ہے اور سنسکرت میں اسے 'پراجن پرمت' کہتے ہیں۔ اس آخری رویہ سے مراد اشیاء کی حقیقت اور غیر ممکنات کے درمیان تمیز کرنا ہے۔ یہ ایک خاص قسم کی آگہی ہے اس لئیے لفظ "دانائی" قدرے مبہم ہے۔ ہم بالخصوص اس آگہی کی بات کر رہے ہیں جو ہمیں یہ بتاۓ کہ کیا نا ممکن ہے، جس کا مطلب کھوکھلا پن (خالی پن) کی جانکاری ہے۔ ہم اس بات کی پہچان کرتے ہیں کہ بعض باتیں مضحکہ خیز ہیں، نا ممکن ہیں اور حقیقت سے عاری ہیں۔

ہم چھ دور رس اطوار استوار کرنے کی خاطر ان مشقوں اور طریقوں پر کام کرتے ہیں، ہمارا مقصد، ہمارا پکا ارادہ اور بودھیچت۔ یہ سب ترقی یافتہ درجہ کی تحریک پر مشتمل ہے۔

خلاصہ

 ابتدائی سطح سے ترقی کر کے میانہ درجہ پر پہنچ کر ہم محسوس کرتے ہیں کہ اگرچہ ہمارے پنر جنم بہتر روپ میں ہو رہے ہیں مگر پھر بھی ہم دکھ اٹھا رہے ہیں۔ ہمیں مشکلات کا سامنا ہو گا، ہم بیماری اور موت سے دو چار ہوں گے، اور پھر اس سب سے گزرنا ہو گا۔ اور بارہا ایسا ہو گا۔ اس سے اکتا کر، ہم یہ جان لیتے ہیں کہ ان اضطراری رو بہ اعادہ پنر جنموں کے دوران کوئی خاص بات نہیں ہے، لہٰذا ہم مکش پانے کا ہدف قائم کرتے ہیں۔

جب ہم ترقی یافتہ درجہ کی طرف بڑھتے ہیں، ہم اپنے آپ کو واحد اہم انسان سمجھنا چھوڑ دیتے ہیں – دنیا کا محور۔ ہم محسوس کرتے ہیں کہ مسرت کی تلاش اور دکھ سے نجات کے معاملہ میں ہم سب یکساں ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ، ہم دیکھتے ہیں کہ تمام ہستیاں، گزشتہ زندگیوں کے دوران اور اس زندگی میں بھی، نا قابل یقین حد تک ہمارے اوپر مہربان رہی ہیں۔ ان کے بغیر، نہ تو ہم کھا پی سکتے ہیں، لکھ پڑھ سکتے ہیں، نہ دکانوں پر جا سکتے ہیں، فلمیں دیکھ سکتے ہیں، یا کوئی بھی کام کر سکتے ہیں۔ یہ جان کر کہ ہمارے لئیے ان کی کرم فرمائی کو نظر انداز کرنا باعث شرم ہو گا، ہم ان کے لئیے پیار اور درد مندی محسوس کرتے ہیں، بودھیچت پیدا کرتے ہوۓ، ہم اپنے لئیے روشن ضمیری حاصل کرنے کا ہدف قائم کرتے ہیں تا کہ بالآخر دوسروں کا بھلا کر سکیں۔

Top