تعارف
چھ دور رس اثرات کے حامل اطوار (کمالات) میں سے دوسرا اخلاقی ضبط نفس کی بابت ہے۔ یہ اس قسم کا نظم و ضبط نہیں ہے جو کسی ساز بجانے کو سیکھنے یا کسی کھیل میں کمال حاصل کرنے کے لئیے درکار ہوتا ہے، بلکہ اس کا تعلق ہمارے اخلاقی طور اطوار سے ہے۔ اس کا تعلق نہ ہی دوسرے لوگوں کے رویہ پر نظر رکھنے، اپنے کتے کو سدھانے، یا فوج میں فوجیوں پر کنٹرول رکھنے سے ہے۔ ہم محض اپنے ضبط نفس کی بات کر رہے ہیں، جس کی تین قسمیں ہیں۔
نقصان دہ اعمال سے گریز
اخلاقی ضبط نفس کی پہلی قسم کا تعلق نقصان دہ کاموں سے پرہیز ہے، جس میں ہمارے اعمال، گفتار اور افکار شامل ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم دس قسم کے نقصان دہ اعمال مثلاً قتال، سرقہ، دروغ گوئی وغیرہ سے گریز کریں، اور اگر ہم نے ایسے رویہ سے دست کشی کا عہد باندھا ہے جو ہماری روحانی استواری میں مزاحمت کا باعث ہو، تو ہمیں اپنے وعدہ پر قائم رہنا چاہئیے۔
جب ہم بعض نقصان دہ اطوار سے گریز کی بات کرتے ہیں، تو اس کی دو قسمیں ہیں۔ ایک تو وہ جو فطری طور پر نقصان دہ ہے، جیسے قتال اور سرقہ، جس کو سمجھنا آسان ہے۔ اور پھر ایسے اطوار بھی ہیں جو بذات خود نقصان دہ نہیں ہیں، مگر مہاتما بدھ کے بقول بعض لوگوں کا ان سے بعض اوقات پرہیز بہتر ہے۔ مثال کے طور پر، بھکشو اور بھکشونیوں کے لئیے رات کے کھانے سے پرہیز مقدم ہے، مگر اس کا اطلاق سب لوگوں پر نہیں ہوتا۔ یہ اصول اس حقیقت سے ماخوذ ہے کہ اگر ہم رات کو اور صبح مراقبہ کے لئیے ایک نرول من کے طلبگار ہیں تو بہتر ہو گا کہ ہم رات کے کھانے سے پرہیز کریں۔ بھکشو اور بھکشونی کے لئیے ایک اور نصیحت یہ ہے کہ وہ لمبے بال نہ رکھیں، کیونکہ ایسا کرنے سے انسان اپنے حسن کا گرویدہ ہو تا ہے، مزید یہ کہ ان بالوں کو روز بنانا سنوارنا تضیع اوقات ہے! صاف ظاہر ہے کہ یہ نصیحت ہر شخص کے لئیے نہیں ہے بلکہ محض بھکشو اور بھکشونیوں کے لئیے ہے۔
تعمیری کاموں میں مشغولیت
اخلاقی ضبط نفس کی دوسری قسم وہ ہے جس میں ہم مثبت، تعمیری کاموں میں حصہ لیتے ہیں جن سے روشن ضمیری پانے کے لئیے مثبت شکتی پیدا ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے اندر درس و تدریس، دھرم پر استغراق اور مراقبہ، اور ہمارے 'نگاندرو' (ترقی یافتہ تنتر پاٹھ کی ابتدائی مشقیں) جیسے سجدہ، چڑھاوا، وغیرہ میں شمولیت کی پابندی ہو۔
ایک بار پھر، اخلاقی ضبط نفس کا تعلق من کی حالت نہ کہ فی الواقع رویہ سے ہے۔ یہ وہ نظم و ضبط ہے جو ہمارے من کی پیداوار ہے اور جو ہمارے رویہ کو تشکیل دیتا ہے – اس تیقن کی خاطر کہ ہم مثبت کاموں میں حصہ لیں اور تباہ کن اور غیر مناسب رویہ سے پرہیز کریں۔ اس نظم و ضبط کی غیر موجودگی میں، ہم مکمل طور پر بے راہ روی کا شکار ہو جاتے ہیں اور آسانی سے پریشان کن جذبات کے اثر تلے آ جاتے ہیں۔
اخلاقی ضبط نفس کی بنیاد تفریق اور امتیازی آگہی ہے۔ نقصان دہ اطوار اختیار کرنے سے بچنے کی خاطر ہم تمیز و تفریق کرتے ہیں اور تباہ کن رویہ اپنانے کے نقصانات کے متعلق حتمی راۓ رکھتے ہیں۔ مثبت رویہ اختیار کرنے سے، ہم مراقبہ اور ابتدائی مشقوں وغیرہ کے فوائد کو پہچانتے ہیں۔ ایسی تمیز و تفریق سے ہم خود بخود صحیح رویہ کی پہچان رکھتے ہیں اور ہمیں اس پر پورا بھروسہ ہے۔
دوسروں کی بھلائی کے لئیے کام کرنا
اخلاقی ضبط نفس کی تیسری قسم وہ ہے جس کا مدعا دوسروں کی مدد اور بھلائی کے لئیے کام کرنا ہے۔ یہاں ہم دوسروں کی مدد کرنے کے فائدے اور مدد کرنے سے گریز، کیونکہ ہم ایسا کرنے پر مائل نہیں ہیں یا ہم کسی شخص کو کچھ خاص پسند نہیں کرتے، کے درمیان تمیز کرتے ہیں۔
دوسروں کی مدد کے کئی پہلو ہیں، لیکن عام طور سے، اس میں ہمارے اندر وہ ضبط نفس پایا جاتا ہے جسے "دوسروں کو ایک مثبت اثر کے تلے جمع کرنے کے چار طریقے" کہا جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں، ہم لوگوں سے ایسے پیش آتے ہیں کہ وہ ہم سے زیادہ مانوس نظر آتے ہیں تا کہ ہم انہیں مزید کچھ سکھا سکیں، کچھ گہری باتیں۔
یہ چار طریقے حسب ذیل ہیں:
۱۔ فیاض ہونا
۲۔ خوش کن انداز میں بات کرنا
۳۔ لوگوں کو ان کے ہدف پانے میں مدد کرنا
۴۔ ان اہداف پر قائم رہنا۔
چھ دور رس اطوار ۱۱ قسم کے لوگوں کا ذکر کرتے ہیں جن کی مدد اور بہبود کی خاطر ہمیں خاصی محنت درکار ہے۔ ہمیں اسے محض ایک فہرست نہیں جاننا چاہئیے، بلکہ ایک خاص ہدائت نامہ جس کے ذریعہ جب ہم ان لوگوں سے ملیں تو انہیں نظر انداز کرنے کی بجاۓ ان کی مدد کر سکیں۔
۱۔ ایک تو وہ جو کسی مصیبت میں گرفتار ہیں
۲۔ وہ جو اپنی مدد آپ کرنے کے متعلق غلطاں ہیں
۳۔ وہ جنہوں نے ہماری مدد کی ہے
۴۔ وہ جو خوف زدہ ہیں
۵۔ وہ جن کا من دکھی ہے
۶۔ وہ جو غریب اور فقیر ہیں
۷۔ وہ جن سے ہمارا انس ہے
۸۔ وہ جن کی ہم ان کی خواہش کے مطابق مدد کر سکتے ہیں
۹۔ وہ جو صالح زندگی گزارتے ہیں
۱۰۔ وہ جو تباہ کن زندگی گزارتے ہیں
۱۱۔ وہ جن کی مدد کے لئیے ہمیں کوئی غیر معمولی صلاحیت بروۓ کار لانی پڑے۔ .
اخلاقی ضبط نفس پر شانتی دیو کے خیالات
شانتی دیو اپنی کتاب 'بودھی ستوا اطوار میں مشغولیت' کے دو باب میں اخلاقی ضبط نفس کو زیر بحث لاتا ہے۔ پہلا باب جس کا عنوان "درد مند رویہ" جو اخلاقی ضبط نفس کی بنیاد ہے، جس میں ہم اپنے رویہ کے اثرات پر فکر مند ہوتے ہیں، اور پریشان کن جذبات کے اثرات سے بچنے کی فکر کرتے ہیں۔ ہم اس امر پر سنجیدگی کا اظہار کرتے ہیں کہ دوسرے لوگ بھی جذبات رکھتے ہیں، اور اگر ہمارا رویہ تباہ کن ہو گا تو اس سے انہیں دکھ پہنچے گا۔ ہم اس بات کی بھی فکر کرتے ہیں کہ ہمارے رویہ کے مستقبل میں ہمارے اوپر کیا اثرات ہوں گے۔ یہ سب باتیں مل کر اخلاقی ضبط نفس کی بنیاد قائم کرتی ہیں۔ اگر ہم غیروں کو یا اپنے مستقبل کو نقصان پہنچانے کی پرواہ نہیں کرتے، تو پھر ہم کسی اخلاقی اطوار کی پابندی کی بھی ضرورت محسوس نہیں کریں گے۔
بہت ساری زبانوں میں 'فکر مند رویہ' کی اصطلاح کا ترجمہ بہت مشکل ہے۔ اس میں فکر مندی اور اس وجہ سے ہمارے اطوار کے متعلق احتیاط برتنا شامل ہے، لیکن اس میں اس کے نتائج، یعنی یہ کہ ہمارے رویہ کے ہمارے اوپر اور دوسروں کے اوپر اثرات کو سنجیدگی سے زیر غور لانا بھی شامل ہے۔
دوسرے باب میں شانتی دیو من کی آگہی اور چوکسی پر بات کرتا ہے۔ 'من کی آگہی' من کی ایسی حالت ہے جو ضبط نفس پر نظر رکھتی ہے تا کہ ہم پریشان کن جذبات کے غلام نہ بن جائیں۔ یہ من کی وہ گوند ہے جو ضبط نفس سے جڑی ہوئی ہے، جیسے کہ جب ہم کسی بیکری کے پاس سے گزرتے ہیں اور ہم کھانے پر پابندی پر عمل کر رہے ہیں، اور ہم اپنا مرغوب کیک دیکھتے ہیں، مگر ہم کسی طرح اسے نظر انداز کر دیتے ہیں۔ ہم اپنا ضبط نہیں کھو دیتے: "میں حرص اور موہ کے اثر تلے آ کر یہ کیک نہیں خریدوں گا ۔" یہ رویہ من کی آگہی کے باعث ہے، اور یہ اخلاقی ضبط نفس کے لئیے نہائت اہم ہے۔ 'من کی چوکسی' کے سبب ہم جب اپنی خوراک کی پابندی کی خلاف ورزی کرنے لگیں تو ہم ہوشیار ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں، "کیک کا ایک چھوٹا سا ٹکڑہ ہو جاۓ!" ہماری چوکسی ایک اندرونی گھنٹی بجاتی ہے جو ہمیں ہاتھ روکنے اور ضبط نفس کرنے پر واپس لے آتی ہے۔ ہمیں ان چیزوں پر نظر رکھنی چاہئیے۔ من کی آگہی اور چوکسی اخلاقی ضبط نفس کے معاون عناصر ہیں۔ ان اوزار کی مدد سے ہم اپنا ضبط نفس قائم رکھتے ہیں، اور ان کی ہی مدد سے بعد از آں ارتکاز استوار کرتے ہیں۔
آخر میں شانتی دیو تین عناصر کا ذکر کرتا ہے جو ہمیں من کی آگہی استوار کرنے اور اسے قائم رکھنے میں معاون ہوتے ہیں:
- اپنے روحانی اساتذہ کی صحبت اختیار کریں
اگر ہم ایسا نہ کر سکیں، تو ہم یوں تصور کر سکتے ہیں کہ ہم ان کے سامنے ہیں۔ اگر ہم ان کے سامنے ہوں گے تو ہم ان کے احترام کے باعث احمقانہ اور معاندانہ رویہ اختیار نہیں کریں گے۔ ایسا سوچنا مفید ہو گا، "کیا میرے گرو کی موجودگی میں مجھ سے ایسی حرکات یا ایسی گفتار سر زد ہو گی؟" اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو شانتی دیو ہمیں "لکڑی کے ایک بلاک کی مانند رہنے" کی تلقین کرتا ہے۔ تو بس ایسے مت کرو۔ یہ ہمیں آگاہ رہنے میں مدد کرتا ہے – بے شک اگر ہم اپنے گرو کے ہمراہ کھانا کھا رہے ہیں، تو ہم اپنا منہ کیک ٹھونس کر نہیں بھر لیں گے یا نہ ہی کسی پر چِلائیں گے۔
- اپنے استاد کی نصیحت اور مشورہ پر عمل کرو۔
ان کی بات کو یاد رکھنے سے ہمیں آگاہ رہنے میں مدد ملتی ہے۔
- عدم آگہی کے نتائج سے ڈرو۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم خوف زدہ ہیں، مگر عزت نفس اور قدر نفس کی بنا پر ہم عدم آگہی کے اثرات سے نبرد آزما نہیں ہونا چاہتے۔ ہم اپنے بارے میں اتنی اہمیت کا احساس کرتے ہیں کہ ہم غصہ، حرص، وغیرہ کے زیر اثر کوئی حرکت کر کے اپنے آپ کو پستی اور ذلت میں گرا دیں۔
اس کے شانہ بہ شانہ، ہمیں اپنے روحانی اساتذہ کے لئیے ان کی عظمت کا احساس پیدا کرنا چاہئیے۔ "عظمت" ایک مشکل اصطلاح ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنے روحانی اساتذہ سے ذرہ برابر بھی خوف زدہ ہیں – جیسے کہ وہ ہمیں برا بھلا کہیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے روحانی گرو اور بدھ مت کی اس درجہ عزت کرتے ہیں کہ اگر ہمارے برے رویہ کا سایہ ان پر پڑا تو ہم شدید ندامت محسوس کریں گے۔ ہم اس بات سے ڈرتے ہیں کہ یہ کس قدر بری بات ہو گی اگر ہماری وجہ سے لوگ ایسے سوچیں، "اوہ، اس استاد کے شاگرد ایسے ہیں؟" یا "تم تو بدھ مت کے پیروکار ہو؟ مگر تم نشے میں دھت ہو کر غصہ کرتے اور لڑتے پھرتے ہو۔" عظمت اور احترام کے احساس کے باعث، ہم اپنی من کی آگہی کو بر قرار رکھتے ہیں اور اخلاقی ضبط نفس کے مطابق عمل کرتے ہیں۔
خلاصہ
ہم سب اس حقیقت سے واقف ہیں کہ ہماری زندگی میں ترقی کرنے کے لئیے ضبط نفس نہائت اہم عنصر ہے۔ خواہ یہ حروف ابجد کی تعلیم ہو، امتحان کی تیاری یا وزن میں کمی – بغیر کسی نظم و ضبط کے کچھ بھی پانا مشکل ہے۔
بدھ مت کے پاٹھ میں بھی یہی معاملہ ہے، جس میں ہمیں اپنے رویہ کے سلسلہ میں ضبط نفس کی ضرورت پڑتی ہے تا کہ ہم راہ پر آگے بڑھ سکیں۔ اگر ہم اپنے بارے میں اور دوسروں کے متعلق احساس مند ہیں، تو اخلاقی ضبط نفس کوئی غیر مانوس تصور نہیں ہے، بلکہ ایک فطری، عام فہم معاملہ ہے۔ اگر ہم احتیاط سے تعمیری رویہ استوار کریں اور پوری کوشش کریں کہ ہماری وجہ سے کسی کو کوئی نقصان نہ پہنچے، تو اس طرح ہم ایک خوش آئیند حال اور خوش آئیند مستقبل کی بنیاد قائم کر سکتے ہیں۔