کیا آپ پُنر جنم میں یقین رکھتے ہیں؟
ہاں، میں یقین رکھتا ہوں، لیکن، اس نقطے تک پہنچنے میں مجھے بہت وقت لگا۔ پُنر جنم (تناسخ) میں یقین یکا یک نہیں پیدا ہوتا۔ کچھہ لوگ ایسے پس منظر سے آسکتے ہیں جس میں پُنر جنم ثقافت کا ایک حصہ ہے۔ یہ صورت حال بہت سے ایشیائی ملکوں میں ہے۔ اور اس طرح، چونکہ لوگوں نے پُنر جنم کے بارے میں اس وقت سے سن رکھا ہے جب وہ بچے تھے، لہٰذا، یہ یقین اپنے آپ خود کار طریقے سے پیدا ہو جاتا ہے- بہر حال، ہم جیسوں کے لیے، جو مغربی ثقافتوں کے پروردہ ہیں، پہلے پہل یہ عجیب سا لگتا ہے- بالعموم، ہم فی الفور پُنر جنم میں یقین نہیں کرنے لگے، گویا کہ پس منظر میں قوس قزح کے رنگ بکھرے ہوئے ہوں اور موسیقی (کا شور) ہو اور ہم نعرہ زن ہوں کہ "خدا کی شان! اب ہمیں یقین آگیا ہے"۔ عام طور سے یہ اس طرح نہیں ہوتا۔
بہت سے لوگوں کو پُنر جنم کے تصور کو قبول کرنے میں لمبا وقت لگ جاتا ہے۔ خود میں اس یقین تک پہنچنے میں مختلف مرحلوں سے گزرا۔ اس لحاظ سے مجھے، اس تصور کے لیے اپنے دماغ کو کھلا رکھنا تھا کہ "واقعتاً میں پُنر جنم (تناسخ) کو سمجھتا ہی نہیں"۔ یہ تسلیم کر لینا کہ ہم اس مسئلے کو نہیں سمجھتے، اہم بات ہے کیونکہ بعض اوقات ہم پُنر جنم کے تصور کو مسترد کر سکتے تھے، اور دراصل ہم جو کچھہ مسترد کر رہے ہیں، اس کی حیثیت پُنر جنم کے ایک ایسے تصور کی ہے جسے خود بدھ مت بھی مسترد کر دے گا۔ کوئی بھی یہ سوچ سکتا ہے کہ میں دوسرے جنم میں اس لیے یقین نھیں رکھتا کیونکہ "میں نہیں سمجھتا کہ پروں سے مزین کوئی ایسی روح وجود رکھتی ہے جو ایک جسم سے اڑ جاتی ہو اور پھر کسی دوسرے جسم میں داخل ہوجاتی ہو۔" بودھی لوگ اس سے متفق ہیں۔ "ہم بھی پروں والی کسی روح کے وجود میں یقین نہیں رکھتے۔" اس بات کا فیصلہ کرنے کے لیے کہ کیا دوسرے جنم میں میرا یقین ہے، مجھے پہلے تناسخ کے بودھی تصور کو سمجھنا پڑے گا، اور یہ تصور اتنا سادہ نہیں ہے۔ یہ بہت بلیغ تصور ہے، جیسا کہ آپ میری پہلے کی ان وضاحتوں سے دیکھہ سکتے ہیں جو میں نے نازک ترین شعور اور توانائی کے بارے میں اور ان سے منسلک جبلتوں کے بارے میں پیش کی تھیں۔
پھر میں نے تناسخ کے تصور کو شک کا فائدہ دینے کے بارے میں سوچا۔ سردست، ہم یہ مان لیتے ہیں کہپُنر جنم ایک حقیقت ہے- اب، اپنے وجود پر اس زاویے سے نظر ڈالنے کے بعد، کیا ہوگا؟ ہم تمام بودھی ستوا تعلیمات کو اس بنیاد پر قائم کر سکتے ہیں، ہم ہر ایک کو پہچان سکتے ہیں، اس طرح کہ وہ ہماری ماں رہی ہوں گی اور اس طرح ہم دوسرے سبھی لوگوں سے کچھہ تعلق محسوس کر سکتے ہیں۔
اس بات سے یہ وضاحت ہو سکتی ہے کہ میری زندگی میں جو کچھہ واقع ہوا، وہ کیوں واقع ہوا۔ میرے ہی پس منظر سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص چینی زبان کے مطالعے پر اتنی شدت کے ساتھہ کیوں مائل ہوا؟ میں ہندوستان جانے اور تبتوں کے ساتھہ پڑھنے پر کیوں متوجہ ہوا؟ میرے خاندان کے مفادات اور وہ ماحول جس میں میری پرورش ہوئی، اسے دیکھتے ہوئے، یہ بات ناقابل فہم ہے کہ مجھے ان چیزوں میں دل چسپی بھلا کیوں پیدا ہوئی؟ بہر نوع، جب میں نے پُنر جنم کی اصطلاحوں میں غور کیا، تو ان باتوں کی تشریح ہو گئی۔ اپنی مختلف زندگیوں میں ہندوستان، چین اور تبت سے میرا کچھہ تو تعلق رہا ہوگا، اور اسی کے باعث ان مقامات، ان کی زبانوں اور ثقافتوں میں میری دل چسپی پیدا ہوئی ہوگی۔ تناسخ سے ایسے بہت سے سوالوں کے جواب ملنا شروع ہو گئے جن کا بصورت، میرے پاس کوئی جواب نہ ہوتا اگر پچھلی زندگیاں اور پچھلے جنم کےکرم نہ ہوتے، تب پھر میری زندگی میں جو کچھہ واقع ہوا اس کے کوئی معنی نہ رہ جاتے۔ تناسخ کے واسطے سے میرے ان خوابوں کی تعبیر و تشریح بھی ہو سکتی تھی جنھیں میں بار بار دیکھتا رہتا تھا۔ اس طور پر، دھیرے دھیرے میں پُنر جنم کے تصور سے زیادہ مانوس ہوتا گیا۔
میں پچھلے انیس برسوں سے ہندوستان میں مطالعہ کر رہا ہوں، اور مجھے کچھہ ایسے نہایت پرانے اساتذہ سے پڑھنے کی عظیم سعادت کا موقعہ ملا ہے، جو اس وقت تک باحیات تھے۔ ان میں سے بہیترے اب مر چکے ہیں اور دوبارہ واپس آئے ہیں، اور اب میں دوبارہ ان سے چھوٹے بچوں کی شکل میں ملتا ہوں۔ میں انھیں، ان کی دو زندگیوں کے حوالے سے جانتا ہوں۔
بودھی راستے میں ایک مخصوص نکتہ وہ ہے جہاں اپنے پُنر جنم پر قابو حاصل کر سکتے ہیں۔ آپ کو اس کے لیے بودھ بننے، یا ایک مخلوق جو مُکش حاصل ہے، ایک ارہت تک بن جانے کی ضرورت نہیں ہے- باوجود اس کے، آپ کو بودھی ستوا بننے کی ضرورت تو پڑے گی۔ آپ کو اس کی ضرورت بھی ہوگی کہ آپ تانترک راستے پر ایک خاص مرحلے تک بڑھ کر پہنچ جائیں اور آپ کے اندر پھر سے کسی شکل میں جنم لینے کا ایک انتہائی طاقت ور ارادہ موجود ہو تاکہ آپ ہر شخص کی مدد کر سکِں۔ کچھہ ایسے خاص شبیہہ سازی کے طریقے اور ترکیبیں ہیں جو آپ کو اس کا اہل بناتی ہیں کہ آپ موت کو، موت اور زندگی کے بیچ کی حالت کو اور دوسرے جنم کو ایک نئے روپ میں منتقل کر سکیں۔ اگر آپ نے اس سطح پر قابو پانے کی مہارت حاصل کر لی ہے، تو آپ اپنے دوسرے جنموں کو کنٹرول کر سکتے ہیں۔ تبتوں میں ایسے تقریباً ایک ہزار لوگ ہیں، جو اس سطح پر قابو پا چکے ہیں، اور جب وہ انتقال کرتے ہیں، تو انھیں دوبارہ پا لیا جاتا ہے۔ تبتی نظام میں، ایسے لوگوں کو "ٹولکون" کہا جاتا ہے- "ٹولکو" ایک نودریافت لامہ ہوتا ہے جس کو دوبارہ جنم ملا ہو، جسے "رنپوچے" کا خطاب دیا گیا ہو۔ یہ خطاب، "رنپوچے"، بہر حال، صرف ٹولکون یا دوبارہ جنم لینے والے لاماوں کے لیے مخصوص نہیں ہے۔ اس کا استعمال ایک بڑے پروہت یا کسی خانقاہ سے سبک دوش ہونے والے لاماوں کے سربراہ کے لیے بھی کیا جاتا ہے۔ ہر وہ شخص جسے رنپوچے کے لقب سے پکارا جاتا ہے لازماً پھر سے جنم لینے والا لامہ نہیں ہوتا۔
یہاں مجھے اس امر کی نشاندہی بھی کر دینی چاہیے کہ ایک تبتی روایت سے دوسری روایت میں، لفظ لامہ کا استعمال الگ الگ طریقوں سے کیا جاتا ہے۔ کچھہ روایتوں میں، "لامہ" کے لفظ کا اشارہ کسی بہت بڑے روحانی گرو، جیسے کہ گیشے کی طرف ہوتا ہے جس نے بودھی مطالعات میں پی-ایچ-ڈی کے برابر ڈگری حاصل کر لی ہو، یا ایک نو جنمہ لامہ ہو۔ کچھہ دوسری روایتوں میں، لامہ کسی ایسے شخص کو کہا جاتا ہے جو کسی فرقے کے پروہت کی جیسی ذمے داریاں انجام دیتا ہو۔ یہ شخص تین سال کے اعتکاف کا تجربہ رکھتا ہو اور مختلف رسوم کی ادایگی کےطور طریقے سیکھہ چکا ہو۔ پھر اُسے، مرد ہو یا عورت، گاووں میں جانا ہوگا اور لوگوں کےگھروں میں رسمیں انجام دینی ہوں گی۔ "لامہ" کا لقب مختلف معنوں کا حامل ہو سکتا ہے۔
پھر یہ بھی ہے کہ تقریباً ایک ہزار تسلیم شدہ لامہ، یا ٹولکون ہیں اور انھیں مختلف نشانیوں کے ذریعے پہچانا جاتا ہے جو خود انھوں نے اپنے ساتھہ جوڑ رکھی ہیں اور اسی کے ساتھہ ساتھہ کچھہ دوسری نشانیاں بھی ہیں جیسے کہ ایک مسلمہ رہ نما کی نشانی یا اس ماحول میں مروج دوسری معنی خیز نشانیاں۔ پچھلے لامہ کے عملے میں شامل لوگ اس کے نئے جنم کی راہ دیکھتے ہیں، اور وہی لوگ اس کے ذاتی استعمال کی چیزیں اور رسومات کی ادائیگی سے متعلق چیزیں، اور اسی طرح کی دوسری اشیا کو ایک ساتھہ ملا کر تصدیق کرتے ہیں۔ پچھلے لامہ کے طور پر دوبارہ جنم لینے والا بچہ یہ پہچان لے گا کہ گزشتہ زندگی میں کون کون سی چیزیں اس سے متعلق تھیں۔ مثال کے طور پر، حاضر مطلق، تقدس مآب دلائی لامہ نے ان لوگوں کو پہچان لیا جو انھیں ڈھونڈ رہے تھے۔ انھوں نے ان لوگوں کو ان کےنام سے مخاطب کیا اور ان سے لہاسا کی بولی میں گفتگو کرنے لگے، جو کہ اس علاقے کی زبان نہیں ہے جہاں وہ پیدا ہوئے تھے۔ اسی طرح کی نشانیوں سے وہ لوگ بچے کی شناخت کر لیتے ہیں۔
اپنے گرووں سے ان کی آئندہ زندگیوں میں دوبارہ ملاقات کا تجربہ میرے لیے خاصا متاثر کرنے والا رہا ہے۔ ایسے گرووں میں سب سے موثر شخصیت لِنگ رنپوچےکی تھی جو تقدس مآب دلائی لامہ کے اتالیقِ اعلی تھے۔ وہ گیلوگ روایت کے سربراہ بھی تھے۔ جس وقت ان کا انتقال ہوا، وہ تقریباً دو ہفتے مراقبے میں رہے، اگرچہ ان کے سانس رک گیا تھا اور تمام طبی مقاصد کے تحت انھیں بے جان تصور کیا جانے لگا تھا۔ بہر نوع، ان کا لطیف شعور ابھی بھی ان کے جسم میں موجود تھا، اور اپنے نہایت لطیف ذہن کے ساتھہ وہ ابھی بھی ایک انتہائی گہرے مراقبے میں کھوئے ہوئے تھے۔ ان کے دل کے اطراف کا حصہ ابھی تک قدرے گرم تھا، اور اپنے جسم کا انحطاط شروع ہوئے بغیر وہ مراقبے کے انداز میں بیٹھتے تھے۔ انھوں نے جس وقت اپنا مراقبہ ختم کیا، ان کا سر لڑھک گیا اور ان کے نتھنوں سے کچھہ خون رسنے لگا۔ اس وقت ان کا شعور ان کے جسم کو چھوڑ چکا تھا۔
دھرم شالہ میں، جہاں میں رہتا ہوں، اس طرح کی باتیں سال میں دو، تین، چارمرتبہ واقع ہوتی ہیں۔ ایسا ہونا انہونی بات نہیں ہے، اگرچہ یہ کرنے کے لیے کسی بھی شخص کو روحانی مشق و ریاضت کی ایک بلند سطح تک پہنچنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ لیاقت پیدا کی جا سکتی ہے۔
لِنگ رنپوچےکے نئے جنم کو اسی وقت پہچان لیا گیا تھا جب وہ ایک سال اور نو مہینوں کی عمر کے تھے۔ بالعموم، بچوں کو اتنی کم عمر میں پہچانا نہیں جاتا، کیونکہ جب وہ ذرا بڑے ہو جاتے ہیں، تین یا چار برس کی عمر کے، اس وقت وہ بول سکتے ہیں اور خود بھی اپنے نئے جنم کے بارے میں کچھہ اشارے دے سکتے ہیں (۔ اس بچے کو اس کے پرانے گھر میں لے جایا گیا۔ وہاں، ان کے خیر مقدم کے لیے ایک بہت بڑی تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا۔ ہزار لوگ سڑکوں کے کنارے قطار باندھے کھڑے تھے، اور میں بھی خوش قسمتی سے انہی میں شامل تھا۔ وہ خاص طرح کی پوشاک میں تھے اور گا رہے تھے۔ یہ ایک انتہاءی خوشی کا موقعہ تھا۔
اس بچے کو پہچانا کیسے گیا؟
یہ کرامات اورمختلف نشانیوں کے ذریعے ہوا۔ اسی کے ساتھہ ساتھہ اپنی سابقہ زندگی سے متعلق مختلف چیزوں کو ان کے پہچان لینے کی صلاحیت کے واسطے سے۔ مزید برآں، انھوں نے کچھہ جسمانی خصوصیات بھی ظاہر کیں، مثلاً، ان کے پیش رو، اپنی مالا (منکوں کا ہار) ہمیشہ دونوں ہاتھوں سے پکڑتے تھے، اور اس بچے نے بھی ایسا ہی کیا۔ انھوں نے اپنے گھرانے کےلوگوں کو پہچان بھی لیا۔
بہر حال، جس بات نے مجھے سب سے زیادہ مائل کیا، وہ اس تقریب کے دوران بچے کا برتاو تھا۔ بچے کو گھر کے اندر لے جایا گیا جہاں راہ داری کے قریب ایک وسیع برآمدے کے سامنے ایک تخت بچھایا گیا تھا اور دو سے لے کر تین ہزار تک لوگ صحن میں جمع ہوئے تھے۔ دو برس سے کم عمر کے بیشتر بچے اس طرح کی صورت حال میں نہایت خوف زدہ ہوں گے۔ وہ بچہ نہ ہوا۔ لوگوں نے بچے کو تخت پر بٹھا دیا۔ عام صورتوں میں تو یہی ہوگا کہ کوئی بچہ نیچے اترنا چاہے گا اور اگر اسے نکلنے کا راستہ نہ مل سکے تو رونا شروع کر دے گا۔ یہ بچہ آلتی پالتی مار کر ایک ڈیڑھ گھنٹے تک بغیر ہلے جلے بیٹھا رہا اور لوگ اس کے لیے ایک لمبی عمر پانے کی خاطر، "پوجا" (رسم) ادا کرتے رہے۔ اسے، جو کچھہ وہاں ہو رہا تھا، اس سے پوری دل چسپی تھی، اور اتنے بڑے مجمع میں گھرے ہونے سے اسے ذرا سی بھی پریشانی نہیں تھی۔
تقریب کے ایک ضروری حصے کے طور پر، لامہ کو نذرانے پیش کیے جانے تھے اور اس کے تئیں یہ درخواست بھی گزارنی تھی کہ وہ ایک طویل عمر پائیں۔ لوگوں کا ایک جلوس تھا، ہر شخص ہاتھہ میں ایک نذرانہ سنبھالے – بودھ کی ایک مورتی، ایک صحیفے کا متن، کسی درویش کے شایان شان "ستوپ" کی کوئی یادگار، بھکشووں کے لباس کا ایک جوڑا، اور دوسری بہت سی ایسی ہی چیزیں- جب بھی کوئی شخص اسے نذرانہ پیش کرتا، تو اس سے توقع یہ کی جاتی تھی کہ وہ دونوں ہاتھوں سے اسے قبول کرے گا اور اپنے بائیں طرف کھڑے ہوئے ایک شخص کی طرف بڑھا دے گا۔ اس بچے نے ہر شے نذرانے کے ساتھہ کمال سے یہی کیا۔ یہ انداز واقعی قابل دید تھا۔ آپ کسی ایک سال اور نومہینے کی عمر کے بچے کو اس طرح پیش آنا کیونکر سکھا سکتے ہیں؟ آپ یہ نہیں کر سکتے۔
جب یہ تقریب ختم ہوئی، تو تمام لوگ اس بچے کے ہاتھہ سے آشیرواد پانے کے لیے صف بستہ ہو گئے۔ کسی نے بچے کو سنبھال رکھا تھا اور وہ انھیں دستی آشیرواد دے رہا تھا، اپنے ہاتھہ کو بالکل صحیح انداز میں اٹھائے ہوئے۔ پورے انہماک کے ساتھہ، اور بغیر اپنی توجہ کم کیے یا تھکے ہوئے، اس بچے نے دو سے تین ہزار تک کی بھیڑ کو دستی آشیرواد دیا۔ اس سب کے بعد، حاضر مطلق، تقدس مآب دلائی لامہ نے اس بچے کے ساتھہ دن کا کھانا کھایا اور انھوں نے کچھہ وقت ایک دوسرے کی معیت میں گزارا۔ صرف ایک بار اس بچے نے رونا شروع کر دیا اور کچھہ ناگواری ظاہر کی، اس وقت جب دلائی لامہ رخصت ہونے لگے۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ دلائی لامہ وہاں سے جائیں۔
واقعہ یہ ہے کہ وہ بچہ لِنگ رنپوچےکےطور پر پہچانے جانے سے پہلے ہی دستی آشیرواد دے رہا تھا۔ وہ اور اس کا بڑا بھائی، دونوں ایک یتیم خانے میں تھے، کیونکہ ماں کا انتقال اس بچے کی پیدائش کے کچھہ ہی دنوں بعد ہو گیا تھا۔ اس کا باپ بہت غریب تھا، اور اسی لیے بچوں کو یتیم خانے میں داخل کروانا پڑا تھا۔ وہاں وہ بچہ لوگوں کو دستی آشیرواد دیا کرتا تھا۔ بچے کا بڑا بھائی، جس کی عمر تین یا چار برس کی تھی، لوگوں سے کہا کرتا تھا کہ – "میرا بھائی بہت ہی خاص طرح کا انسان ہے۔ وہ ایک لامہ ہے۔ وہ ایک رنپوچے ہے۔ اس کےساتھہ کسی طرح کی برائی والا سلوک نہ کرو۔ اس کے ساتھہ اس کی حیثیت کے مطابق ایک خاص سلوک اختیار کرو!"
سابقہ رنپوچے کا مرتبہ پانے والے یکے بعد دیگرے لگاتار تین دلائی لاماوں کے اساتذہ رہے ہیں۔ ان میں سے ایک، لِنگ رنپوچےبارہویں دلائی لامہ کے استاد تھے؛ ان کے بعد والے لِنگ رنپوچےتیرہویں کے اور ان کے بعد والے چودہویں کے استاد رہے۔ یقیناً، لوگ انھیں، اس بچے کو، اب اگلے دلائی لامہ کے استاد کے طور پر دیکھتے ہیں۔
اس طرح کی مثالوں کو دیکھہ کر، مستقبل کی ممکنہ زندگیوں کے بارے میں، مجھہ پر ایک گہرا اثر مرتب ہوا۔ لہٰذا، اس طرح سوچنے سے، اس طرح کے واقعات دیکھنے سے، اور اس طرح کی کہانیاں سننے سے، رفتہ رفتہ، ہم گزشتہ اور آئندہ زندگیوں کے بارے میں، زیادہ سے زیادہ قائل ہو جاتے ہیں۔ اگر اب تم مجھہ سے یہ پوچھوگے کہ" کیا تم اگلے جنموں میں یقین رکھتے ہو؟" تو ہاں! میں یقین رکھتا ہوں!
کیا اس طرح انسانوں کی شکل میں جنم لینے والے لامہ صرف تبتوں میں پائے جاتے ہیں؟
نہیں۔ مغربی ممالک میں بھی اس طرح کے تقریباً سات لاماوں کی پہچان کی گئی ہے۔ ان میں سے ایک، لامہ اوسیل، جو لامہ ٹھوبٹین یشے کا نو جنما روپ ہیں ایک اسپینی بچہ ہیں۔ جو لوگ لامہ یشے کو جانتے تھے، انھیں لامہ اوسیل سے مل کر پُنر جنم میں گہرا یقین پیدا ہوا ہے۔