ہڑپہ-موہن جو داڑو
ہڑپہ-موہن جو داڑو کی تہذیب دریائے سندھ کی وادی میں تیسرے اور دوسرے ہزارہ قبل مسیح کے دوران میں پھلی پھولی۔ آج کے عراق میں واقع میسوپوٹیمیا میں بسنے والے قدیم بابلی سمیری لوگوں کے ساتھ اس تہذیب کا تجارتی لین دین تو تھا لیکن انہوں نے ان سے بہت کم ثقافتی اثرات قبول کیے۔ یہاں کے لوگ غالباً دراوڑ نما نسل کے لوگ تھا۔ ان کے مذہب میں بار آوری اور تخلیق کی نمائندگی کرنے والا ایک بڑا دیوتا تھا، کرشماتی طاقتوں والے تارک الدنیا جوگی تھے اور مویشیوں کا دیوتا تھا جو بعد کے ہندو مذہب میں پائے جانے والے شو دیوتا کا ابتدائی نمونہ تھا۔ ان کے مذہبی عقائد میں ماتا دیوی تھی، طہارت کی رسمیں، لنگ پوجا، مقدس پیپل کے درخت اور متبرک جانوروں مثلاً گؤ ماتا کا احترام شامل تھا۔ پیپل، گولر کی طرح کا ایک درخت ہوتا ہے، جسے بدھ مت میں" بودھی" پیڑ کہا جاتا ہے۔
دو ہزار سال قبل مسیح کے نصف آخر سے ہند – ایرانی قبیلوں نے دریائے سندھ کی وادی پر حملے شروع کیے اور اسے فتح کر لیا۔ اس کے بعد وہ اس علاقے میں اور اس سے آگے مشرق کی طرف شمالی ہندوستان میں آباد ہو گئے۔ یہ قبائل زیادہ تر افغانستان کے علاقوں، مشرقی ایران اور جنوب مغربی ترکستان سے آئے تھے اور انہیں "آریائی" یا "اعلی طبقے کے لوگ" کہا جاتا تھا۔ اصل میں لفظ" ایران" بھی لفظ" آریان" کے ماخذ سے ہی نکلا ہے۔ پرانی ایرانی اور ہندستانی ثقافتوں کی زبانوں اور مذاہب میں کئی باتیں انہی قبیلوں کی وجہ سے مشترک ہیں۔
آریاؤں کی یلغار کی وجہ سے ہڑپہ-موہن جو داڑو کے بہت سے مقامی لوگ غلام بن گئے اور باقی ماندہ جنوبی ہندوستان میں جا بسے۔ آریاؤں میں شرفا اور عام قبیلے کے لوگوں میں طبقاتی تقسیم اتنی پھیلی کہ وہ ہندوستان میں ذات پات کا نظام بن گئی۔ ذات پات کے نظام کے لیے سنسکرت میں استعمال ہونے والے لفظ “ ورن" کا مطلب بھی رنگ ہی ہے۔
وید
تیرہویں صدی قبل مسیح میں آریائیوں نے شمالی ہندوستان میں پوَروا سلطنت قائم کی اور نویں صدی قبل مسیح میں ان کا مذہب "ویدوں" میں مرتب کر دیا گیا۔
ویدوں کے دیوتا قدیم یونانی دیوتاؤں کی نسبت کم انسان نما ہیں۔ وہ کائناتی نظام کو قائم رکھنے والے اور خیر کی پاسداری کرنے والے ہیں۔ابتدائی ادوار میں ویدوں کی مذہبی رسوم زیادہ تر دیوتاؤں کی مناجات اور ان سے دعائیں کرنے پر مشتمل تھیں۔"ویدوں" کے لکھے جانے کے بعد ہندو معاشرے نے یہ کام پیشواؤں کے ایک طبقے کے سپرد کیا کہ دیوتاؤں کے لیے قربانی کے چڑھاوے مقدس آگ میں ڈالا کریں۔ یہ مذہبی پیشوا "برہمن" کہلاتے تھے۔ دیوتاؤں کو یہ چڑھاوے اس لیے چڑھائے جاتے تھے کہ کائناتی نظام درست رہے ورنہ دیوتا یہ سب کچھ چلنے نہ دیتے۔ رسموں کے ذریعے نذرانے اور چڑھاوے جو مقدس آگ میں ڈالے جاتے تھے ان میں دودھ، گھی، غلہ اور خاص طور پر "سوم" رس شامل ہوتا تھا جو ایک نشہ آور مشروب تھا جسے ایک ایسے پودے سے نکالا جاتا تھا جو غالباً دماغ کوتحریک دیتا تھا۔
نذرانے اور چڑھاوے پیش کرنے کے اس رسمی عمل کی خود دیوتاؤں سے بھی بڑھ کر تحسین اور پرستش کی جاتی تھی۔ اس لیے برہمن پیشوا ہندوسماج میں ایک بنیادی کردار ادا کرتے تھے۔ دوسرے لفظوں میں اس معاشرے کے لوگ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ دیوتاؤں کی خوشنودی سے ان کا اتنا بھلا نہیں ہوتا تھا جتنا اس سے کہ برہمن چڑھاوے پیش کرنے کی رسم ٹھیک سے ادا کرتے رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ابتدائی ہندو مت کو "برہمنیت" بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ معاشرہ ان نذرانوں کو اپنے اوپر دیوتاؤں کا وہ قرض سمجھتا تھا جو اسے ادا کرنا تھا۔ اس عقیدے سے برہمنوں کا یہ تصور پیدا ہوتا تھا کہ بھلا کام کر کے انسان اپنا فرض پورا کرتا ہے۔
"منتر" اصل میں ویدوں، خاص طور پر رگ وید، کے وہ موزوں مناجاتی نغمے تھے جو دیوتاؤں کے سامنے چڑھاوے پیش کرنے کی رسم کے وقت پڑھے جاتے تھے۔ یہ سمجھا جاتا تھا کہ ان کی آواز میں ایک خاص طاقت ہے اور ان کی تعظیم اس لیے کی جاتی تھی کہ ان کے بارے میں یہ مانا جاتا تھا کہ ابدی اور ہمیشہ رہنے والا کلام ہے اور کبھی تبدیل نہ ہو گا۔
اس کے علاوہ برہمنوں کی تعلیمات یہ بھی بتاتی ہیں کہ یہ کائنات برہما کے بلیدان کے ذریعے وجود میں آئی جو ایک طرح کا پراچین دیوتا تھا۔ دوسرے الفاظ میں برہما ہی وہ اصل وجود تھا جس سے اس کائنات کی نشوونما ہوئی اور اس سے ساری کائنات اور اس پر ہر طرح کی زندگی قائم رہتی ہے۔ اس کے جسم کے الگ الگ حصے دنیا کے مختلف پہلو اور معاشرے کی مختلف ذاتیں بن گئے۔ اس طرح یہ معاشرہ پوری کائنات کو ایک جیتا جاگتا وجود سمجھتا تھا اور انسانی جسم اس کا عکس تھا۔ مرنے کے بعد انسانی روحیں چتا کی آگ کے راستے سے گزرتے ہوئے ابدی روشنی کے بلند ترین جنت پر چلی جاتی ہیں۔ وہ روحیں جو منفی ہوتی ہیں وہ زیر زمین تاریکی میں ڈوب جاتی ہیں۔
"ویدوں" سے اور بہت سی کتابیں نکلی ہیں۔ "براہمنوں" نثر میں ویدوں کی رسومات کی وضاحت کرتی ہیں اور ان پر عمل درآمد میں مدد کرتی ہیں۔"پرانوں" میں تاریخی تفصیلات درج ہیں۔ ان میں سے "مہابھارت" تو وہ رزمیہ داستان ہے جو بعد کے عوامی ہندومت کے ارتقا اور فروغ کے لیے بنیاد ثابت ہوئی۔ اسے نویں صدی قبل مسیح میں تحریر کیا گیا۔ اسی دور میں ایک دوسرے بڑے دیوتا وشنو کے بارے میں بھی ابتدائی تصورات کی نشوونما ہوئی۔
"اپنشدوں"
آٹھویں صدی قبل مسیح میں پوَروا سلطنت پر زوال آنے لگا جب ایک بڑے سیلاب کے بعد راج دھانی کو دوسری جگہ لے جانا پڑا۔ آہستہ آہستہ یہ سلطنت چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹتی چلی گئی۔ ان میں کچھ بادشاہتیں تھیں اور کچھ عام ریاستیں۔ ہندوستان کے معاشرے میں ہونے والی یہ اہم تبدیلیاں فلسفیانہ اور مذہبی غور و فکر کے دور کا آغاز ثابت ہوئیں۔
"براہمنوں" کا آخری حصہ "اپنشدوں" ہیں۔ یہ وہ تحریریں ہیں جن میں برہمنیت کی فلسفیانہ بنیاد زیادہ مکمل طور پر استوار ہوئی۔ یہ کتابیں ساتویں صدی قبل مسیح کے آخری زمانے سے شروع ہو کر کئی سو سالوں تک لکھی جاتی رہیں۔ ان میں سے بارہ "اپنشدوں" بدھ فلسفی سے پہلے لکھے جا چکے تھے۔ ان میں سے ہر ایک میں اگرچہ قدرے مختلف تعلیمات ہیں لیکن ان میں اکثر تصورات ایک سے ہیں۔
انسانوں اور پراچین دیو میں مشابہت کا برہمنیت کی تصور آگے چل کر "اپنشدوں" کے اس عقیدے میں ڈھل گیا جو "آتما" یعنی انفرادی ذات یا "روح" کو برہما کا عین تسلیم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ اس بات کی وضاحت بھی کی گئی کہ کائنات کی اصل وجہِ آفرینش کے طور پر برہما نے دنیا کو بار بار اپنے آپ میں سے پیدا کیا اور پھر اسے اپنی طرف لوٹا لیا۔ کسی ایک "اُپنيشد" کے حوالے سے دیکھیے تو یہ عمل دو میں سے ایک طریقے سے واقع ہوتا ہے۔ یا تو برہما کائنات اور اس کی ساری جاندار چیزیں بن جاتا ہے یا کائنات اور اس کی ساری جاندار چیزیں صرف برہما کے مختلف روپ ہیں۔ ہر دو صورتوں میں حقیقت یہ ہے کہ ہر شے اور ہر شخص اور برہما اصل میں ایک ہیں۔ الگ الگ اشیا اور مختلف افراد کی یہ ظاہری دنیا ایک فریبِ ("مایا") ہستی ہے۔ انفرادی آتمائیں یا روحیں، سب اصل میں برہما ہی ہیں۔
"اپنشدوں" نے کرم اور آواگون کے عقیدے بھی پیش کیے۔ یہ تصورات ان کی اس تشریح کے مطابق ہیں کہ کائنات زمانے کے بہت بڑے بڑے ادوار کے ذریعے تخلیق اور فنا کے لگاتار چکروں سے گزر رہی ہے۔ اسی طرح انفرادی روحیں بے شمار جنموں میں موت اور زندگی کا لگاتار تجربہ کرتی ہیں۔ جنم در جنم کا یہ سلسلہ ("سمسار") اس وجہ سے واقع ہو رہا ہے کہ وہ نہیں جانتے کہ اصل میں وہ اور برہما ایک ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے "کرم" کے اثر سے ہو رہا ہے یعنی وہ اعمال جو ان سے اس لیے سر زد ہو رہے ہیں کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ یہ سب کچھ ایک فریب ہے۔ جب کوئی شخص اس حقیقت کو پا لیتا ہے کہ اصل میں اس کی ذات اور برہما میں ایک بنیادی وحدت ہے اور ان دونوں کے درمیان دوری صرف دھوکہ ہے تو اسے مکتی ("مُکش") مل جاتی ہے۔ مکتی کا راستہ زہد اور بے تعلقی اور حقیقت کے بارے میں درست فہم پیدا کرنے کے لیے سننے، سوچنے اور کائنات کی وحدت پر غور و فکر کرنے کے ذریعے سے ملتا ہے۔ عام طور پر انسان کی روحانی ترقی کا راستہ زندگی کے چار مرحلوں سے گزرتا ہے۔
- برہمچاری طالب علمی کے زمانے میں بن بیاہے رہنا۔
- گھریلو زندگی اور خاندانی زندگی۔
- جنگلوں میں نکل جانا اور تارک الدنیا جوگیوں کی زندگی۔
- ہر چیز کو ترک کر دینا اور جنگلوں میں اکیلے رہتے ہوئے سخت روحانی مجاہدات کرنا تاکہ مکتی حاصل ہو سکے۔
لہذا "اپنشدوں" نے اس بات پر زور دیا کہ کائنات قابل فہم ہے اور بے خبری اور کرموں کی وجہ سے جنم در جنم تکالیف اور مشکلات سے مکتی حاصل کرنے کے لیے انسان کے لیے حقیقت کو اصل صورت میں دیکھنا اور اپنی ذات میں اس کا تجربہ کرنا ضروری ہے۔ بدھ مت اور بعد کے بہت سے دوسرے ہندوستانی فلسفیانہ اور مذہبی نظام ان بنیادی خیالات کو تسلیم کرتے ہیں۔
شاکیہمُنی بودھ کے دور میں ہندوستان کے سیاسی حالات
شمالی ہندوستان جمہوریہ اور بادشاہتوں میں بٹا ہوا تھا۔ شاکیہمُنی بودھ کے دور (۵۶۶ء سے ۴۸۵ء صدی قبل مسیح) میں بھی یہ چیز جاری رہی۔ ورجی جمہوریہ تھی جس میں عوامی مجالس اور جمہوری ادارے موجود تھے۔ کوشلہ اور مگدھ کی آمرانہ حکومت تھی۔ دونوں طرح کی یہ ریاستیں برہمنیت کے روایتی اور رسمی ڈھانچے کے اندر کام کرتی تھیں۔ یہ اس لیے تھا کہ برہمنیت حکمران کی ذمہ داریاں بیان کرتی ہے، اس کے اختیارات اور طرز حکومت طے نہیں کرتی۔ بدھ فلسفی شاکیہ میں پیدا ہوئے۔ شاکی پہلے ایک جمہوریہ تھا ، لیکن یہ تھا کوشلہ کی بادشاہت میں شامل کیا گیا ہے۔ بدھ فلسفی دونوں کوشلہ اور مگدھ میں بھی جیسا کہ ورجی جمہوریہ میں لوگوں کو تعلیم دی۔
بدھ فلسفی کا دور تاجر طبقے کے عروج اور مال و دولت جمع کرنے کا زمانہ تھا اور مال مویشی کی بجائے روپیہ پیسا دولت کا پیمانہ بن گیا تھا۔ یوں جب تاجرلوگ بادشاہوں سے زیادہ امیر ہو گئے تو بادشاہ نے اس کا مقابلہ کرنے کے لیے زیادہ آمرانہ طریقے اختیار کیے اور سختی کرنے لگا تاکہ وہ معاشرے پر بالعموم اور ریاست کی تجارت کو بالخصوص اپنے قابو میں لا سکیں۔ سو بادشاہی نظام والی ریاستوں میں سب کو ایک ہی دھن تھی کہ اقتصادی اور سیاسی طاقت کیونکر حاصل کی جائے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دولت اور طاقت کے اندھا دھند استعمال پر زور دینے سے بادشاہتیں معاشی، سیاسی اور فوجی طور پر جمہوری ریاستوں سے کہیں زیادہ طاقتور ہو گئیں۔ اس سے لوگوں نے محسوس کیا کہ ان کی آزادی تیزی سے کم ہو رہی ہے اور ان کی مشکلات اتنی ہی تیزی سے بڑھتی جا رہی ہیں۔ اس دور کے بہت سے فلسفیوں نے جن میں بدھ فلسفی بھی شامل تھے، روحانی ذرائع سے مکتی حاصل کرنے کی جدوجہد کی۔
اس مشکل صورتحال میں دو بڑے روحانی گروہ تھے جو مکتی اور آزادی کی راہ دکھاتے تھے۔
- "برہمن" ہندو مت کی اصل راسخ الاعتقادی تھے جو قدیم برہمنیت کی عبادات اور رسوم کے پابند تھے۔ انہوں نے "اپنشدوں" کو اپنی فلسفیانہ بنیاد کے طور پر اختیار کیا لیکن اس طریقے سے کہ پہلے انسان معاشرے میں ایک ذمہ دار حیثیت سے زندگی گذاريں اور پھر ایک عمر گذارنے کے بعد برہمچاری بن کر دنیا ترک کریں۔ یہ لوگ خصوصی طور پر برہمن جات سے تعلق رکھتے تھے اور مکتی پانے کے لیے بن باس لے کر جوگ اور تنہائی کی زندگی گذارتے تھے۔
- "شرمن" وہ لوگ تھے جو فقیرروں اور بھکاریوں کی طرح گھومتے پھرتے اور روحانیت کے طالب تھے۔ ان کا تعلق برہمنوں کے علاوہ دوسری ذاتوں سے تھا اور مکتی پانے کے لیے شروع ہی سے معاشرے سے الگ تھلگ ہو جاتے تھے۔ وہ جنگلوں میں اکٹھے رہتے تھے، ان میں ذات پات کا کوئی فرق نہیں تھا اور تنہا تارک الدنیا درویشوں کی طرح رہنے کے بجائے مل جل رہتے تھے۔ انہوں نے جمہوریاؤں کی طرز پر اپنی خودمختار برادریاں منظم کیں جس کے فیصلے ان کی پنچایتیں کیا کرتی تھیں۔ تاہم ان سب نے ایک بڑے دیوتا کے تصور کو رد کیا جیسا کہ برہما کا تصور یا اس طرح کے دوسرے خالق کا تصور۔ اگرچہ" شرمنوں" کے درمیان آپس میں کسی طرح کا ذات پات کا فرق نہیں تھا لیکن عام لوگ، جو صرف ان کی تعلیمات کی تھوڑی بہت پیروی کرتے تھے اور ان کو سہارا دیتے تھے، وہ ذات پات کے نظام میں ہی زندگی گذار رہے تھے۔
پانچ بڑے "شرمن" مکاتب فکر
جب شاکیہمُنی بدھ فلسفی نے اپنی شاہانہ زندگی ترک کی تو وہ "شرمنوں" میں شامل ہو گئے۔ نروان کے بعد بدھ فلسفی نے روحانیت کے ان متلاشیوں کو جو ان کے پیروکار تھے، دوسرے" شرمن" گروہوں ہی کی طرز پر الگ الگ خود مختار برادریوں کی صورت میں منظم کیا۔ یوں بدھ مت اس دور کے" شرمن" مکاتب فکر میں پانچواں مکتبہٴ فکر بن گیا۔
پانچوں" شرمن" مکاتب فکر اور ان کے بنیادی تصورات کی تفصیل درج ذیل ہے:
- آجیوک مکتب فکر کی بنیاد گوسالا نے رکھی۔ یہ جبری لوگ تھے اس لیے انہوں نے کرم کے سلسلہٴ اسباب و علت کو رد کر دیا۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ کائنات کے اجزائے ترکیبی یعنی مٹی، پانی، آگ، ہوا، خوشی، غم اور ذی روح ("جیو") ہستیاں سب غیر مخلوق، ناقابل تقسیم ایٹم یا اجزاء ہیں جن کا آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ کوئی تعلق یا ربط نہیں ہوتا۔ چونکہ ہر چیز پہلے سے مقدر ہے۔ اگرچہ اعمال ان ایٹموں یا ان کے اجزائے ترکیبی سے ہی وجود میں آتے ہیں پھر بھی نہ ہی تو خود اعمال، نہ ہی ایٹم کسی چیز کے اصل ہونے کی وجہ بنتے ہیں۔ ذی روح ہستیاں لا تعداد نئے جنموں کے عمل سے گزرتی ہیں اور ہر ممکن زندگی کا تجربہ کرنے کے بعد وہ خود بخود ہی امن اور شانتی کی حالت میں داخل ہو جاتی ہیں اور اس طرح آواگون سے آزاد ہو جاتی ہیں۔ سو مکتی کا دار و مدار ان کاموں پر نہیں ہوتا جو کوئی بھی شخص انجام دیتا ہے۔
- لوکایت یا چارواک مکتب فکر کا آغاز اجیت کی تعلیمات سے ہوا۔ اس نے بھی کرموں کے تصور کو رد کیا۔ نہ صرف یہ بلکہ اس نے آواگون کے تصور کو بھی رد کر دیا۔ وہ روح کا وجود بھی نہیں مانتے تھے۔ اس نے لذت پرستی کی تائید کی اور اس بات کی تعلیم دی کہ ہر عمل تکلف کے بغیر بے ساختگی سے انجام دیا جانا چاہیے اور اس کا صدور انسان کی اپنی فطرت کے مطابق ہونا چاہیے۔ دوسرے الفاظ میں انسان کا عمل فطری انداز میں ہونا چاہیے۔ زندگی کا مقصد یہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہو سکے جسمانی لذت حاصل کی جائے۔ اس مکتب فکر نے ہر طرح کی منطق اور استدلال کو کسی چیز کا علم حاصل کرنے کے مستند ذریعے کے طور پر رد کر دیا۔
- جین یا نرگرنتھ مکتب فکر کی بنیاد مہاویر نے رکھی۔ اس نے لوکایت مکتب فکر کے رد عمل میں اس سے علیحدگی اختیار کی۔ اس لیے اس نے اس تصور کو اختیار کیا کہ زندہ روحیں کرموں کے اثر کے تحت نئے جنموں کے عمل سے گزرتی ہیں۔جینمت جین مت آج بھی ہندوستان کے بڑے مذہبی نظاموں میں سے ایک ہے۔ اس کی تعلیمات میں انتہائی سخت اخلاقی قواعد شامل ہیں اور سختی سے جوگ یا سنیاس اور ترک دنیا کی تاکید کی جاتی ہے اور اس کو مکتی کا راستہ بتایا جاتا ہے۔
- اجنان مکتب فکر لا ادریت کا قائل ہے۔ اس کی بنیاد سنجاين نے رکھی۔ اس کا نظریہ یہ تھا کہ کسی بھی چیز کے بارے میں فلسفیانہ غور و فکر یا منطقی بحث و مباحثہ کے ذریعے سے حتمی علم کا حصول ناممکن ہے۔ انہوں نے برہم چریہ کا پالن کرنے والے گروہوں کی صورت میں رہنے کی تلقین کی جن کا زور صرف دوستی کے رشتے پر تھا۔
- بدھ مت کی نشوونما ایک "شرمن" مکتب فکر کے طور پر ہوئی۔ اس نے کرموں کے اثرات اور قوت کے تحت نئے جنم کے تصور کو قبول کیا جبکہ روح کے اس تصور کو جو دوسرے مکاتب فکر میں موجود تھا رد کر دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ بدھ فلسفی نے منطق اور دلیل کے استعمال کو مکتی کے راستے کے جزو کے طور پر قبول کیا۔ انہوں نے اخلاقی رویے پر بھی زور دیا لیکن یہ جین مت کے زہد اور ترک دنیا کی حد تک بڑھا ہوا نہیں۔ اس طرح بدھ مت نے پہلے سے موجود چار "شرمن" مکاتب فکر کی تعلیمات میں موجود انتہا پسندی سے بچ کر درمیان کا راستہ اختیار کیا۔