جدید دنیا میں بدھ مت کی کشش

سوال: آپ اس سال چھبیس ممالک کے تعلیمی دورہ پر ہیں۔ کیا آپ براہ مہربانی بدھ مت کے نئ جگہوں میں پھیلاو کے بارہ میں اپنے تاثرات ہمیں بتائیں گے۔

ڈاکٹر برزن: بدھ مت اب بہت تیزی سے تمام دنیا میں پھیل رہا ہے۔ بودھی مراکز بہت سے یورپی ممالک، شمالی امریکہ، جنوبی امریکہ، جنوبی افریقا اور آسٹرلایشیا وغیرہ میں موجود ہیں۔ ہم بدھ مت کے پیروکاروں کو یورپ میں نہ صرف مغربی سرمایہ دار ملکوں میں پاتے ہیں بلکہ مشرق کے اشتراکی ممالک میں بھی۔ مثلاً پولستان میں تقریباً پانچ ہزار فعال بدھ مت کے پیروکار موجود ہیں۔

اپنی معقولیت اور سائنسی بنیاد کے باعث بدھ مت جدید دنیا کے لیے بہت پرکشش ہے۔ مہاتما بدھ نے فرمایا: "میرے کسی قول پر محض اس لیے یقین نہ کرو کہ تم میری عزت کرتے ہو، بلکہ اس کا خود تجربہ اور تجزیہ کرو جیسا کہ تم سونا خریدتے وقت کرتے ہو"۔ جدید دور کے لوگ ایسے غیر متعصب نقطہ نظر کو پسند کرتے ہیں۔

سائنسدانوں اور بودھی قائد ین مثلاً عزت مآب دلائی لامہ کے درمیان کئی مکالمے جاری ہیں۔ دونوں مل کر یہ بحث اور تحقیق کر رہے ہیں کہ حقیقت کیا چیز ہے۔ مہاتما بدھ نے فرمایا تھا کہ تمام مشکلات حقیقت کا ادراک نہ کرنے اور اس بارہ میں الجھن کا شکار ہونے سے پیدا ہوتی ہیں۔ اگر ہم یہ جان جائیں کہ ہم کون ہیں اور دنیا اور ہم کیسے موجود ہیں تو ہم اپنی الجھن کی بنا پر مشکلات پیدا نہیں کریں گے۔ اس امر کی تحقیق میں کہ حق اور سچائی کیا ہے، بدھ مت کا رویہ بہت کشادہ ہے۔ مثلاً عزت مآب دلائی لامہ نے کہا ہے کہ اگر سائنسدان یہ ثابت کر دیں کہ کوئی چیز جو مہاتما بدھ یا ان کے پیروکاروں نے سکھلائی ہے، وہ غلط ہے یا محض توہم پرستی ہے تو وہ اس چیز کو با خوشی بدھ مت سے خارج کر دیں گے۔ پس ایسا نقطہ نظر مغربی لوگوں کے لیے بہت کشش کا حامل ہے۔

جیسا کہ ماضی کے دانا مرشدوں نے بدھ مت کو ان مختلف معاشروں کی ثقافت کے مطابق ڈھالا تھا جن سے اس کا سامنا ہوا تھا، اسی طرح آج کے اساتذہ کے لیے بھی یہ ایک قدرتی فعل ہے کہ وہ بدھ مت کو مختلف جدید ممالک میں معمولی تغیّر کے ساتھ پیش کریں۔ بالعموم، بدھ مت ایک عقلی وضاحت پر زور دیتا ہے۔ لیکن اس وسیع تر تناظر میں، ثقافتی پس منظر کو سامنے رکھتے ہوے مختلف نقاط اور نکتہ ہائے نظر پر زیادہ زور دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔

مہاتما بدھ نے اتنے مختلف طریقے اس لیے سکھائے کیونکہ لوگ ایک دوسرے سے بہت مختلف ہوتے ہیں۔ ہر کوئی ایک طرح سے نہیں سوچتا۔ کھانے کی ہی مثال لے لیں۔ اگر ایک شہر میں محض ایک ہی طرح کا پکوان میسر ہو تو وہ ہر ایک کو پسند نہیں آئے گا۔ لیکن اگر انواع و اقسام کے کھانے مختلف ذائقوں میں مہیا ہوں تو ہر کسی کو کچھ نہ کچھ پسند آ جائے گا۔ اسی طرح مہاتما بدھ نے مختلف ذوق کے لوگوں کو ان کی نشوونما اور ترقی کے لیے انواع و اقسام کے طریقے سکھائے۔ آخر کار، بدھ مت کا مقصد یہ ہے کہ ہم اپنی حدود اور مشکلات سے گزر سکیں اور اپنی صلاحیتوں کا ادراک کر سکیں تاکہ ہم اپنے آپ کو ترقی کے اس مقام تک پہنچا سکیں جہاں ہم ہر ایک کی ہر ممکن مدد کر سکیں۔

کچھ مغربی ممالک جہاں علم نفسیات پر زور دیا جاتا مثلاً سوئٹزرلینڈ یا ریاست ہائ متحدہ امریکہ، وہاں اساتذہ بدھ مت کو نفسیات کے نقطہ نظر سے پیش کرتے ہیں۔ دیگر ممالک جہاں لوگ ایک عبادتی نقطہ نظر کو ترجیح دیتے ہیں مثلاً جنوبی یورپ کے کئی ملک یا جنوبی امریکا، وہاں اساتذہ بدھ مت کو ایک عبادتی رنگ میں پیش کرتے ہیں۔ وہاں لوگ ترنم اور نغمگی کے شیدا ہیں اور یہ بودھی مشقوں میں بآسانی شامل کیا جا سکتا ہے۔ اس کے برعکس، شمالی یورپ کے باشندے مذہبی ترنم کو پسند نہیں کرتے لہذا وہاں اساتذہ بدھ مت کی جانب ایک عقلی نقطہ نظر پر زیادہ زور دیتے ہیں۔

مشرقی یورپ میں بہت سے لوگ خاصی افسوس ناک حالت میں ہیں۔ انہیں بودھی تعلیمات میں بہت کشش نظر آتی ہے کیونکہ وہ اپنی زندگیوں کو خالی پاتے ہیں۔ چاہے وہ اپنے پیشوں میں محنت کریں یا نہ، اس کا بظاہر کوئی نتیجہ نہیں نظر آتا اور وہ کوئی فرق نہیں دیکھتے۔ اس کے برعکس بدھ مت انھیں اپنی ذات پر محنت کرنے کے طریقے سکھلاتا ہے جس کے نتائج ان کی زندگی کا معیار بہتر کرتے ہیں۔ اس سے وہ از حد مشکور ہوتے ہیں اور بودھی مشقوں، مثلاً ہزاروں سجدے کرنا، کے لیے بیحد مشتاق ہو جاتے ہیں۔

اس طرح بدھ مت اپنے آپ کو، مہاتما بدھ کی اہم تعلیمات کو محفوظ رکھتے ہوے، ہر معاشرے کی ثقافت اور لوگوں کی ذہنیت کے مطابق ڈھال لیتا ہے۔ بنیادی تعلیمات نہیں بدلتیں – اصل مقصد اپنی مشکلات اور حدود پر قابو پانا اور اپنی صلاحیتوں کا ادراک ہے۔ اس راہ پر قدم زن لوگ چاہے نفسیاتی نقطہ نظر پر زیادہ زور دیں یا سائنسی، عقلی یا عبادتی طریق پر، اس کا انحصار ثقافت پر ہے۔

بالعموم، بدھ مت بیسویں صدی (کی ضروریات ) سے کیسے مطابقت پیدا کر رہا ہے؟

جواب: بدھ مت اپنی تعلیمات میں ایک عقلی اور سائنسی نقطہ نطر پر زور دے کر یہ مطابقت پیدا کر رہا ہے۔ بدھ مت ایک واضح تشریح پیش کرتا ہے کہ زندگی کے تجربات کیسے درپیش ہوتے ہیں اور ان کے ساتھ کیسے نمٹا جا سکتا ہے۔ اور پھر بدھ مت کہتا ہے کہ کسی چیز پر اندھا یقین مت کرو بلکہ اس کے بارہ میں سوچو، اس کا خود تجربہ کرو اور دیکھو کہ کیا یہ ایک معقول بات ہے۔ یہ اس سائنسی اصول سے متشابہ ہے کہ آپ خود تجربہ کر کے نتائج دیکھ سکتے ہیں اور پھر ہی انکی صداقت پر یقین کرتے ہیں۔ جدید دور کے لوگ کسی چیز کو جانچے بغیر خریدنا نہیں چاہتے، وہ دیکھے بھالے بغیر ایک گاڑی نہیں خریدتے۔ اسی طرح وہ کسی مذہب یا فلسفہٗ زندگی کی طرف رخ نہیں کریں گے یہ دیکھے بغیر کہ کیا وہ واقعی ایک معقول چیز ہے۔ بیسویں صدی کے لوگوں کے لیے بدھ مت میں یہ ایک بہت بڑی کشش ہے۔ بدھ مت نے اپنے آپ کو سائنسی تحقیقات کے لیے کھلا رکھا ہے اور وہ لوگوں کو دعوت دیتا ہے کہ وہ اسی طرح اس کا تجزیہ کریں۔

Top