مشرقی علم اور مغربی سائنس
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ مشرق اور مغرب کے بیچ ملاپ کے مقامات کونسے ہیں، میرا خیال ہے کہ اس بات کو تیس یا چالیس برس ہوۓ جب میں نے ایک بار اس بات کا ذکر کیا تھا کہ مشرقی علم، خصوصاّ یہاں ہند میں – اور خاص طور پر جذبات اور من کے بارے میں علم – خاصا وسیع ہے؛ اور اس کی وجہ یہاں کی سمادھی یعنی [مکمل ارتکاز کی مشق] اور وپاشیان یعنی [ایک حد درجہ ذکی من] ہے۔ یہ کسی ایمان یا وقف کی بنا پر نہیں؛ یہ اپنے من کی مشق کا حاصل ہے۔ یہ ایک قدرتی امر ہے کہ کسی بھی سمادھی اور وپاشیان کی مشق میں من کی توضیح شامل ہوتی ہے: من کیسے کام کرتا ہے، احساس کیسے کام کرتا ہے۔
پھر بدھ مت میں پراجنا یعنی حکمت [امتیازی آگہی] بھی ہے، اور بدھ مت میں بے غرضی یا ان آتما کا بنیادی نظریہ بھی ہے۔ پس نظریہ ان آتما پر بات کرنے کے لئے آپ کو لا علمی اور تحریف شدہ نظریات کو بخوبی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اور تحریف شدہ نظریات کا صحیح توڑ صحیح نظریات ہیں، نہ کہ دعا، نہ ہی خالی مراقبہ۔ تنتریانا میں من کے مختلف مراحل پر بحث ہوتی ہے – حالت جاگرت، حالت خواب، گہری نیند کی حالت، یا بیہوش ہوتے وقت کی حالت۔ [یہ سب من کے مشرقی علم کی مثالیں ہیں]۔
بیشک سائنس کا منبع مغرب ہے۔ بیشتر سائنسدان یہودی یا عیسائی ہیں، لہٰذا یہ ایک قدرتی امر ہے کہ وہ من اور جذبات اور اس قسم کی دوسری چیزوں پر زیادہ توجہ نہیں دیتے۔ یہودیت اور عیسائیت میں بھی مشق کا معیار وہی ہے [جیسا کہ مشرقی مذاہب میں] – درد مندی کی مشق، درگذر، برداشت، قناعت پسندی اور ضبط نفس۔ تمام بڑے مذاہب میں یہ سب ایک جیسے ہیں۔ ان مذاہب میں مقام اختلاف یہ ہے کہ ان بنیادی انسانی اقدار کو کس طرح راہ دکھلائی جاۓ۔
بعض مذاہب ایسے ہیں جن میں ایک خالق پر ایمان ہوتا ہے، ان میں وہ ہندو (فرقے) بھی شامل ہیں [جو ایک خالق کو مانتے ہیں]؛ اور چونکہ آخرکار ہر شے کا دارومدار خالق پر ہے، تو محض ایمان ہی کافی ہے۔ آپ کو اپنا اپنی ذات پر مرکوز رویہ کم کرنے کے لئے خالق حقیقی پر پکا ایمان لازم ہے۔ آپ مکمل طور پر خدا کے مرہون ہیں۔ اس سے آپ کا محوبا لذات رویہ کم ہوتا ہے۔ اس کے برعکس بدھ مت میں خالق کا کوئی تصور نہیں – نہ ہی جین مت میں اور سانکھیہ کے ایک حصے میں بھی خالق کا کوئی تصور نہیں – لہٰذا آپ خود اپنے من کو تبدیل کرنے کے لئے جہد کرتے ہیں۔ یہ چیزیں عبادت (یا دعا) سے تبدیل نہیں ہوتیں۔
لوگوں میں مذہبی شعور گذشتہ تین یا چار ہزارسال میں آیا ہے۔ جب کبھی ان پر کوئی مشکل آن پڑی تو انہوں نے دعا مانگی اور خالق یا خدا سے امید باندھی یا مہاتما بدھ پر بھروسہ کیا۔ تبتی لوگوں کی مانند – ہم مہاتما بدھ پر ایمان رکھتے ہیں، مگر ہم اپنے انسانی اعمال کے بارے میں غفلت برتتے ہیں۔ اسی وجہ سے ہم نے اپنا ملک کھو دیا، یہ سچ ہے نا؟
پس گذشتہ کئی ہزار سال سے – میرے خیال میں چار یا پانچ ہزار سال سے – لوگوں نے اپنا ایمان اور آخری امید خدا سے لگا رکھی ہے۔ مگر اب، گزشتہ دو سو سال سے، سائنس اور تیکنالوجی نے بہت ترقی کی ہے اور ہماری امیدوں کا دامن بھرنا شروع کر دیا ہے۔ گذشتہ ہزار سال میں ہم مکمل طور پر ایمان پر انحصار کرتے رہے؛ مگر اب، ایمان کے بغیر، سائنس اور تیکنالوجی ٹھوس نتائج پیدا کر رہی ہے۔ لوگ، جن میں مشرقی لوگ بھی شامل ہیں، سائنس اور تیکنالوجی پر بھروسہ کر رہے ہیں، اور یہ صحیح بات ہے کہ بہت سارے لوگ انہیں پرکشش پاتے ہیں۔
لیکن بیسویں صدی کے آخری حصہ سے زیادہ سے زیادہ لوگ خالی مادہ پرستی پر بھروسہ کی مشکلات سے دوچار ہیں۔ مادی اشیا ہمیں جسمانی آرام پہنچاتی ہیں اور حسی سطح پر کسی قسم کی تسکین دیتی ہیں، مگر من کی حقیقی سطح پر نہیں۔ اگر آپ من کی سطح اور حسی سطح کے تجربات کا موازنہ کریں تو من کا تجربہ کہیں زیادہ سنجیدہ معاملہ ہے۔ ہم سب کو اس بات کا تجربہ ہے کہ جب ہمارا من شانت ہوتا ہے تو ہمارا جسمانی درد کم ہو جاتا ہے۔ مگر جسمانی راحت ہمارے من کے درد اور پریشانی کو دور نہیں کر سکتی۔ پس ظاہر ہے کہ ہماری من کی حالت زیادہ سنجیدہ معاملہ ہے۔
زیادہ سے زیادہ ڈاکٹر اور سائنسدان یہ محسوس کر رہے ہیں کہ ہماری من کی حالت ہماری صحت کے لئے نہائت اہم ہے۔ ایک صحت مند من کا ایک صحت مند جسم سے گہرا تعلق ہے۔ مگر ایک صحت مند من ادویات یا شراب سے پیدا نہیں کیا جا سکتا۔ صحت مند من ٹیکہ کے ذریعہ یا سپر مارکیٹ سے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ ایک صحت مند من حقیقتاّ من کے اندر تشکیل پاتا ہے – کسی حد تک ایمان سے؛ مگر نہیں، یہ سچ نہیں۔ یقین کامل صرف تحقیق و تفتیش سے آتا ہے۔
لہٰذا میں یہ سمجھتا ہوں کہ مشرق اور مغرب کا ملاپ مذہبی وجوہات پر مبنی نہیں بلکہ اس کا تعلق محض من کی سائنس سے ہے۔
نلندا انداز فکر کے سائنسی پہلو
میں گذشتہ تیس سال سے سائنسدانوں سے ملتا رہا ہوں۔ شروع میں – میرا خیال ہے چالیس برس گذرے – میں نے اپنے بعض دوستوں سے اس بات کا ذکر کیا کہ میں سائنسدانوں سے تبادلہ خیال کرنا چاہتا ہوں۔ ایک امریکن خاتون نے مجھے کہا،"سائنس مذہب کی جانی دشمن ہے۔ محتاط رہنا۔" لیکن پھر میرے دل میں نلندا فکر کا خیال آیا۔ وہ تعلیمات کو تحقیق اور تجربہ کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں اور اگر انہیں کوئی تضاد نظر آۓ تو وہ بعینہٖ مہاتما بدھ کے الفاظ کو رد کر دیتے ہیں۔ مہاتما بدھ نے خود صاف الفاظ میں کہا تھا:" میرا کوئی بھی پیروکار میری تعلیمات کو عقیدہ و عقیدت کی بنیاد پر نہیں مانے گا، بلکہ تحقیق و تجربہ کی بنا پر۔" ان عظیم مفکروں نے جرأت مندی سے کام لیکر مہاتما بدھ کی تعلیمات کو پرکھا۔ اسی سے ہمیں یہ تبتی اصطلاحات ملیں، ڈرانگ-ڈون اور نگیس-ڈون – عارضی [قابل توضیح تعلیمات]، اور حتمی تعلیمات۔ پس اس سے مجھے احساس ہوا کہ نالندا انداز فکر تحقیق، نہ کہ عقیدہ پر زور دیتا ہے۔
بدھ مت کا تمام نظام حقیقت پر مبنی ہے، آج کی حقیقت ۔ دو سچائیاں [سطحی اور عمیق ترین] حقیقت کی تشریحات ہیں۔ پھر اس حقیقت کے ذریعہ ہم صحیح اور غلط نظریہ میں تمیز کر سکتے ہیں۔ لہٰذا ان نظریات کو غلط ثابت کرنے کے لئے ہمیں اس بات کا جائزہ لینا ہے کہ حقیقت کیا شے ہے۔ مظاہر اور حقیقت کے درمیان ہمیشہ تفریق پائی جاتی ہے۔ بہت سے غلط نظریات مظاہر پر مبنی ہوتے ہیں، اور بیشتر تباہ کن جذبات غلط نظریہ سے آتے ہیں – اصرار، اصرار نفس۔ لہٰذا اس کی بنیاد پر ہمارے ہاں چار بلند و بالا سچائیوں کا نظریہ پایا جاتا ہے۔ محض مہاتما بدھ کی بات پر بھروسہ کرنا اور یہ کہنا،"مہاتما بدھ نے چار بلند و بالا سچائیوں کا ذکر کیا تھا،" غلط ہو گا۔ ہمیں چار بلند و بالا سچائیوں کی حقیقت کو ثابت کرنا ہے۔ ہمیں ان چار بلند و بالا سچائیوں کے ڈھانچے اور اصلی نظام کو جاننا ہے۔
پس اس سے مجھے احساس ہوا کہ سائنس کو بھی حقیقت کی تلاش ہے، سچائی کی، مگر ایک مختلف شعبے میں۔ بدھ متی لوگ بھی حقیقت کے متلاشی ہیں۔ میرے خیال میں دونوں ہی ڈنگ شیاؤ پنگ کے مشہور مقولہ پر عمل پیرا ہیں: "حقائق سے سچائی تلاش کرو۔" دونوں نظریات فکر تحقیق کے ذریعہ سچائی ڈھونڈتے ہیں، حقائق۔ پس میں یہ سمجھا کہ (ان دونوں میں) کوئی تضاد نہیں۔ سائینس کا طریقہ تحقیق ایک متشکک سوچ رکھنا ہے۔ بدھ مت بھی با لکل ایسے ہی ہے۔
بدھ متی سائینس، بدھ متی فلسفہ، اور بدھ متی مذہب کے درمیان امتیاز
ہماری سائینسدانوں سے ملاقاتوں اور مجالس کے بعد بعض لوگوں نے یہ الفاظ استعمال کئے ہیں:"سائینس اور بدھ مت کا ملاپ،" مگر یہ بات غلط ہے۔ ہم سائینسدانوں کے ساتھ بدھ مت پر بحث نہیں کر رہے، صرف بدھ متی سائینس کی بات ہو رہی ہے۔ لہٰذا میں نے بدھ متی سائینس (بدھ متی تصنیفات سے ماخوذ سائینس) ، بدھ متی تصنیفات سے ماخوذ فلسفہ، اور بدھ مت کے درمیان تفریق کا اظہار کیا ہے۔ تو اس لحاظ سے بدھ مت اس کے پیروکاروں کے لئے ہے؛ بدھ متی سائینس اور بدھ متی فلسفہ عالمگیر حیثیت کا حامل ہے۔
میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ پہلے سے ہی مشرق اور مغرب کا کچھ ملاپ ہے۔ مغرب کے بڑے بڑے سائینسدان ہمارے من کی تربیت کی اہمیت پر بہت توجہ دے رہے ہیں، کیونکہ یہ نہائت اہم بات ہے سب کے لئے، ہماری صحت، معاشرہ، خاندان،یا افراد۔ مثلاّ وسکونسن یونیورسٹی میں رچرڈ ڈیوڈسن کی زیر نگرانی۔ اس نے من کی تربیت کے کچھ خصوصی پروگرام شروع کر رکھے ہیں، اس قسم کی چیزیں؛ اور گذشتہ چند سالوں میں سٹینفرڈ یونیورسٹی میں بھی۔ میں حال ہی میں وہاں گیا ہوں۔ ان کے تمام تجربات بہترین تحقیق کا نمونہ ہیں۔ اور پھر ایموری یونیورسٹی بھی۔ تو یوں ان کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ محض اس امر کی کوشش ہے کہ بدھ متی تحریروں سے کچھ معلومات لے کر اسے بطور سائینسی طریقہ کے استعمال میں لا کر اپنے منوں کی تربیت کی جاۓ، اپنے منوں کی بنیادی احسن خوبیوں کو تقویت دی جاۓ [جیسے دردمندی اور شفقت] جو ہمیں ہماری ماؤں سے ودیع ہوئی ہیں۔
تو یوں، میری راۓ میں یہ مشرق اور مغرب کے اتصال کا مناسب مقام ہے۔ یہ میرا خیال ہے۔ مذہب نہیں، صرف سائینس۔