دھرم پر عمل میں کامیابی کا انحصار ایک حقیقت پسندانہ رویہ اختیار کرنے پر ہوتا ہے۔اس کا مطلب ہے کہ دھرم کی تعلیم کی جانچ اصلیتِ وجود کے مطابق کی جائے۔ اس معائنہ کے لیے مہاتما بدھ نے چار اصول سکھائے تھے جو کہ بودھی سوچ کے بنیادی مفروضہ ہیں۔ یاد رکھیے کہ مہاتما بدھ نے فرمایا تھا کہ "میری تعلیمات کو محض ایمان یا میری عزت کی خاطر مت قبول کرو بلکہ خود تحقیق کرو جیسے کہ تم سونا خرید رہے ہو۔ "
یہ چار اصول مندرجہ ذیل پر مبنی ہیں:
- انحصار
- فعالیت
- عقل پر بنیاد
- چیزوں کی نوعیت (فطرت)
آئیے دیکھتے ہیں کہ تسونگکھاپا نے اپنی کتاب "راہ کے مدرّج مراحل کی ایک عظیم نمائش" میں ان چاروں کی کیسے شرح کی ہے۔
اصولِ انحصاری
پہلا اصول یہ ہے کہ کچھ چیزیں کچھ دوسری چیزوں پر اپنی اساس کے لیے منحصر ہیں۔ یہ اصولِ انحصاری ہے۔ کسی نتیجہ کو واقعہ ہونے کے لیے اسے لازم ہے کہ وہ علتوں اور حالات پر انحصار کرے۔ اس اصول کو ہم سبھی قبول کر سکتے ہیں کہ اگر ہم ایک خوبی کا ارتقا چاہتے ہیں یا کسی چیز کو سمجھنا چاہتے ہیں تو ہمیں یہ تحقیق کرنی پڑتی ہے کہ وہ کن چیزوں پرمنحصر ہے۔ یعنی اس سے قبل اس کی بنیاد کے طور پر ہمیں کیا کرنا چاہیے۔
ایک روحانی درجہ کا حصول، اپنی بنیاد کے لیےدوسرے درجوں اور عوامل پر منحصر ہوتا ہے۔ مثلاً اگر ہم امتیازی آگاہی کا ارتقا چاہتے ہیں یا پھر خالی پن اور حقیقت کا فہم چاہتے ہیں تو پھر ہمیں اس امر کی تحقیق کرنی پڑتی ہے کہ یہ فہم کس چیز پر منحصر ہے۔ اس کا انحصار قوتِ ارتکاز پر ہے۔ مرتکز ہوئے بغیر ہم فہم کو ترقی نہیں دے سکتے اور وہ کیا اساس ہے کہ جس پر قوتِ ارتکاز منحصر ہے؟ وہ ہے ذاتی نظم و ضبط۔۔ اگر ہم میں یہنظم و ضبط نہیں کہ ہم اپنی توجہ کو درست کر سکیں جب وہ گمراہ ہو جائے تو پھر قوتِ ارتکاز کو توسیع دینا ہرگز ممکن نہیں۔ پس اگر ہم خالی پن کی امتیازی آگہی کو توسیع دینا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں پہلے قوتِ ارتکاز اور ذاتی نظم و ضبط کو ایک کم از کم سطع تک لانے پر کام کرنا پڑے گا۔
دھرم کا مطالعہ کرتے وقت اس اولین اصول کا اطلاق بہت ضروری ہے۔ ہم میں سے بہت لوگ ان حیران کن چیزوں کو پانا چاہیں گے جن کے بارہ میں ہم دھرم کے متون میں پڑھتے ہیں۔ لیکن اگر ہم اپنی خواہشات کے متعلق حقیقت پسند ہوں تو پھر ہمیں یہ تفتیش کرنی چاہیے کہ ان کا حصول کس چیز پر منحصر ہے۔ جب ہمیں یہ پتہ چل جائے کہ ہمیں اپنے مقاصد تک پہنچنے کے لیے کن چیزوں کی تعمیر کرنی ہے تو پھر ہمیں یہ پتہ چل جاتا ہے کہ ان تک کیسے پہنچا جائے اور پھر ہم اس بنیاد پر کام کر سکتے ہیں۔
اصولِ فعالیت
دوسرا اصول فعالیت کا ہے۔ ہر مظہر واقعہ کہ جس پر علتیں اور حالات اثر انگیز ہوتے ہیں، اپنا مخصوص فعل سرانجام دیتا ہے۔ آگ، نہ کہ پانی، جلانے کا فعل انجام دیتی ہے۔ پس یہ بھی بدھ مت میں ایک بنیادی اصول ہے اور یہ بھی ایسی چیز ہے کہ جسے ہم سب قبول کر سکتے ہیں۔ اس کا اطلاق یہ ہے کہ دھرم کی تعلیم کے حصول میں ہمیں مختلف چیزوں کی فعالیت کی تفتیش کرنی پڑتی ہے۔ ہمیں مختلف ذہنی حالتوں یا جذبات ،کہ جنہیں یا تو ہمیں توسیع دینی ہوتے ہے مثلاً محبت اور قوت ارتکاز اور یا ان سے خلاصہ حاصل کرنا ہوتا ہے مثلاً الجھن اور غصہ، کے بارہ میں ہدایات دی جاتی ہیں۔ ہمیں مختلف طریقہ بھی سکھائے کاتے ہیں کہ جن پر ہمیں عمل کرنا ہوتا ہے۔ ان طریقوں کو سمجھنے کے لیے ہمیں اس امر کی تفتیش کرنی ہوتی ہے کہ ان کا مقصد اور فعالیت کیا ہے۔ کیونکہ کچھ چیزیں آپس میں ہم آہنگ ہوتی ہیں اور کچھ نہیں، پس کچھ ذہنی حالتیں کی فعالیت یہ ہے کہ وہ کچھ اور حالتوں کی افزائش اور ان میں اضافہ کرتی ہیں۔
مثال کے طور پر محبت کو توسیع دینے کے لیے ایک مخصوص مراقبہ کی تکنیک کی تحقیق اور تجربہ، اس پر ہمارا اعتماد بڑھاتے ہیں۔ ہم اس چیز کی تحقیق کرتے ہیں کہ "کیا یہ درست ہے یا نہیں" اور پھر ہم اس سے ایک تجربہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسا کرنے کی فعالیت یہ ہے کہ یہ ہمیں اس تکنیک پر اعتماد دیتا ہے۔ اور اس اعتماد کی فعالیت کیا ہے کہ ایک مشقی تکنیک صحیح اور کارآمد ہے؟ یہ اعتماد ہمیں اس کی گہری مشق کی توفیق دیتا ہے۔ اگر ہمیں اس پر اعتبار نہ ہو تو ہم اس کی مشق نہیں کریں گے۔ اگر ہم ہر قدم کی فعالیت سمجھ لیں تو پھر اس کام میں ہمارا دل ہمارے ساتھ ہو گا ورنہ ہم اس کام کو انجام نہیں دیں گے۔
مزید از آں، ہمیں مختلف چیزوں کی دوسری چیزوں کو نقصان پہنچانے یا ان کے متضاد ہونے کی فعالیت کو سمجھنا چاہیے ۔ مثلاً ایک مخصوص طریقہ پر اعتماد اس کے بارہ میں تذبذب کو ختم کر دیتا ہے۔ اسی طرح ایک طریقہ پر، یا ہماری صلاحیتوں پر اعتماد کا فقدان ہم کامیابی سے روک دیتا ہے۔
یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ ہمارے مطالعہ اور ہماری مشق کا ہر قدم کس چیز کو تقویت پہنچائے گا اور کسے مسترد کرے گا۔ تب ہی ہمارا اپنے کام کے بارہ میں ایک حقیقت پسندانہ رویہ ہو سکتا ہے۔ مثلاً ہم ایک مخصوص مثبت ذہنی حالت جیسا کہ محبت کو کیوں تقویت دینا چاہتے ہیں؟ ایک معقول وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اس کی فعالیت ذہنی سکون لانا اور ہمیں دوسروں کی مدد کرنے کے قابل بنانا ہے۔ ہم اپنے اندر سے ایک منفی ذہنی حالت، مثلاً غصہ کو کیوں ختم کرنا چاہیں گے؟ اس لیے کہ یہ ہمارے اور دوسروں کے لیے مشکلات پیدا کرتا ہے۔ اس وقت یہ جاننا بہت ضروری ہو جاتا ہے جب ہم تباہ کن رویانہ اسلوبوں مثلاً سگرٹ نوشی کو چھوڑنا چاہتے ہیں۔ اگر ہم یہ صاف طور پر سمجھ لیں کہ ایک عمل کی فعالیت کیا ہے مثلاً سگرٹ نوشی ہمارے پھیپھڑوں کے ساتھ کیا کرتی ہے، تو پھر ہم سمجھ جاتے ہیں کہ ہمیں اس سے کیوں احتراز کرنا چاہیے۔ ہم اصولِ فعالیت کا اطلاق اس طرح کرتے ہیں۔
عقل پر بنیاد کا اصول
تیسرا اصول عقل پر بنیاد کا ہے۔اس کا مطلب ہے کہ ایک نقطہ صحیح اور قائم سمجھا جاتا ہے اگر وہ معرفت کے کسی مسنون اصول کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ جب ہم کسی چیز کا بطور دھرم مطالعہ کرتے ہیں تو سب سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ کیا وہ مقدس متون کے خلاف تو نہیں۔ ہمیں یہ کیسا پتا چلتا ہے کہ کیا ایک تعلیم دھرمی تعلیم ہے؟اس طرح کہ اگر وہ مہاتما بدھ کی تعلیم کے مطابق ہے۔ کیونکہ مہاتما بدھ نے مختلف چیلوں کو مختلف چیزیں سکھائیں جو کہ بظاہر متضاد تھیں اس لیے ہم مہاتما بدھ کے سچے ارادے کیسے جان سکتے ہیں؟ ھندوستانی استاد دھرم کیرتی نے واضح کیا ہے کہ اگر ایک تعلیم مہاتما بدھ کی تعلیمات میں متعدد بار نظر آتی ہے تو اس سے ہمیں پتا چلتا ہے مہاتما بدھ نے واقعی اس پر زور دیا ہے۔ اس نکتہ کا سمجھنا ضروری ہے، خصوصاً اخلاقی معاملات میں۔
کسی چیز کو با ضابطہ طور پر جاننے کا دوسرا طریقہ منطق اور استدلال ہے۔ کیا وہ منطقی طور پر درست ہے یا منطق کے خلاف؟ کیا وہ عام عقل کے مطابق ہے یا بالکل نرالی؟ اور کسی چیز کو با ضابطہ طور پر جاننے کا تیسراطریقہ صاف ادراک ہے۔ جب ہم مراقبہ کرتے ہیں تو کیا ہمارا تجربہ اس کی تصدیق کرتا ہے یا تردید؟
آئیے، اس اصول کے اطلاق کی ایک مثال دیکھیں۔ ہو سکتا ہے کہ ہمیں ایسی تعلیم ملے کہ ایک مخالف چیز کے اطلاق سے ہم ایک کوتاہی یا مشکل کو ختم کر سکتے ہیں مثلاً "محبت غصہ پر غالب آ جاتی ہے"۔ تو پہلے ہم یہ دیکھیں گے کہ کیا یہ مہاتما بدھ کی تعلیمات کے مطابق ہے؟ جی ہاں، یہ مہاتما بدھ کی کسی تعلیم کے بر خلاف نہیں۔ پھر کیا یہ منطقی طور پر صحیح ہے؟ جی ہاں، محبت دوسروں کے لیے خوشی کی خواہش ہے۔ یہ دوسرا شخص جو مجھے نقصان پہنچا رہا ہے اور جس سے میں ناراض ہوں، وہ ایسا کیوں کر رہا ہے؟ وہ ایسا اس لیے کر رہا ہے کیونکہ وہ ناخوش ہے۔ وہ ذہنی اور جذباتی طور پر پریشان ہے۔ اگر میرے اندر اس شخص کے لیے محبت ہو تو میں چاہوں گا کہ وہ خوش ہو، پریشان نہ ہو اور اس قدر خستہ حال نہ ہو۔ اس قسم کا رویہ ہمیں اس شخص پر غصہ ہونے سے روکتا ہے۔ پس یہ بالکل منطقی طور پر درست ہے۔ اگر یہ شخص بہت نقصان پہنچا رہا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ اسے روکوں تو پھر مجھے اس کے ساتھ محبت سے پیش آنا چاہیے۔ مجھے اس شخص کے لیے خوش ہونے کی خواہش کرنی چاہیے کیونکہ اگر وہ خوش ہو تو پھر ہو یہ نقصان دہ کام نہیں کرے گا۔ اس شخص سے ناراض ہونا اسے مجھے نقصان پہنچانے سے نہیں روکے گا۔ یہ تعلیم منطق کے عین مطابق ہے۔
آخر میں، ہم صاف ادراک یا مراقبہ کے تجربہ سے تحقیق کرتے ہیں۔ بالفاظِ دیگر، ہم اس کا تجربہ کر کے دیکھتے ہیں کہ کیا وہ صحیح ہے یا نہیں۔ اگر میں محبت پر مراقبہ کروں تو کیا میرا غصہ کم ہو جاتا ہے؟ جی ہاں بالکل۔ یہ تیسرا امتحان ہے یہ دیکھنے کے لیے کہ آیا یہ تعلیم معقول ہے۔ اس طرح سے ہم عقل پر بنیاد کے اصول کا اطلاق کرتے ہیں۔
چیزوں کی فطرت کا اصول
آخری اصول چیزوں کی فطرت کا ہے۔ یہ وہ اصول ہے کہ کچھ حقائق چیزوں کی فطرت ہیں جیسا کہ آگ کا گرم ہونا اور پانی کا گیلا ہونا۔ آگ کیوں گرم ہے اور پانی کیوں گیلا ہے؟ اس کا کوئی جواب نہیں اور بس ایسا ہی ہے۔ دھرم میں ہمیں اس چیز کی تحقیق کرنی پڑتی ہے کہ وہ کون سے نکات ہیں کہ جو چیزوں کی فطرت کی بنا پر درست ہیں مثلاً ہر کوئی خوش ہونا چاہتا ہے اور کوئی بھی ناخوشی نہیں چاہتا۔ کیوں؟ کیونکہ بس ایسا ہی ہے۔ایک اور مثال لیجیۓ، ناخوشی تباہ کن رویوں کا نتیجہ ہوتی ہے جبکہ خوشی تعمیری رویوں کا۔ کیوں؟ کیونکہ یہ کائناتکا نظام ہے۔ اس لیے نہیں کہ مہاتما بدھ نے اسے اس طرح بنایا تھا بلکہ اس لیے کہ بس یہ ہے۔اگر ہم تحقیق کریں اور یہ پائیں کہ کچھ چیزیں بس ہیں تو پھر ہمیں انہیں بطور زندگی کے حقائق کے قبول کر لینا چاہیے۔ ان کے بارہ میں اپنے آپ کو ہلکان کر لینا وقت کا زیاں ہے۔
چیزوں کی فطرت کے بارہ میں ایک نکتہ جو کہ دھرم کی مشق سے متعلق ہے یہ ہے کہ سمار اوپر نیچے ہوتا رہتا ہے۔ اس سے مراد محض مبارک اور منحوس پنر جنم ہی نہیں بلکہ ہماری زندگیوں میں ایک ساعت سے اگلی تک بھی ہے۔ ہمارے مزاج کی کیفیت اوپر نیچے ہوتی رہتی ہے اور اگر ہم یہ قبول کر لیں کہ بطور اس کی فطرت کے، تو پھر ہم اس کے بارہ میں پریشان نہیں ہوتے۔ آپ سمسار سے کیا توقع رکھتے ہیں؟ یقیناً کچھ دن مراقبہ اچھے سے ہو گا اور کچھ اور دن نہیں۔ کچھ دن میں یہ کرنا چاہوں گا اور کچھ دن نہیں۔ یہ کوئی بڑی بات نہیں۔ یہ بس ایسے ہی ہے۔ اسے چھوڑ دیں اور اس بارہ میں پریشان نہ ہوں۔ یہ بہت اہم ہے۔
اگر ہم ایک حقیقت پسندانہ طریقہ سے دھرم تک رسائی چاہتے ہیں تو یہ چار نکات جو کہ مہاتما بدھ نے سکھائے، بہت مددگار ہیں۔ آئیے ان کے فہم کو پختہ کرنے اور یہ دیکھنے کے لیے کہ ہم ان کا ایک تعلیم پر کیسے اطلاق کر سکتے ہیں، ہم ایک مثال کو دیکھتے ہیں: یعنی ہماری اپنے بدن سے بے تعلقی۔
- اس بے تعلقی کی تقویت کس چیز پر منحصر ہے؟ یہ منحصر ہے ناپائداری، پنر جنم، نفس کے وجود، ذہن جسم اور نفس کے آپس میں تعلق وغیرہ پر۔
- اپنے بدن سے بے تعلقی کی فعالیت کیا ہے؟اس کی فعالیت یہ ہے کہ یہ ہماری مدد کرے کہ ہم بیماری، بڑھاپا اور دیرینہ سالی میں پریشان و ناراحت نہ ہوں۔
- کیا اس کی بنیاد عقل پر ہے؟ جی ہاں۔ مہاتما بدھ نے بھی یہی تعلیم دی کہ بدن سے لا تعلقی دُکھ کی ایک علت یعنی کسی ناپائدار چیز سے الفت کو دور کر دیتی ہے۔ کیا یہ منطقی طور پر بھی درست ہے؟ جی ہاں، کیونکہ جسم تبدیل ہوتا رہتا ہے اور ایک لمحہ سے اگلے تک بوڑھا ہو جاتا ہے۔ کیا ہم اس کی فعالیت کا تجربہ کرتے ہیں؟ جی ہاں جیسے جیسے ہم اس بے تعلقی کو تقویت دیتے ہیں تو ہم کمتر ناخوشی اور مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔
- اور چیزوں کی فطرت کے بارہ میں کیا خیال ہے؟ اگر میں اپنے جسم سے بے تعلقی پر مراقبہ کروں تو کیا میری خوشی ہر روز وسیع تر ہوتی جاتی ہے؟ جی نہیں۔ یہ سمسار ہے جو کہ اوپر نیچے ہوتا رہتا ہے۔ آخرکار، ایک طویل المعیاد نقطہ نظر سے میں خوشتر ہووں گا اور میری زندگی بہتر ہو جائے گی۔ لیکن یہ ایک خطی تسلسل سے نہیں ہو گا۔ یہ چیزوں کی فطرت میں شامل نہیں ہے۔
خلاصہ
اس مثال سے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ایک تعلیم جیسے کہ جسم سے بے تعلقی پر ان چار اصولوں کا اطلاق کر کے ہم اس تک رسائی کے بارہ میں ایک زیادہ حقیقت پسندانہ رویہ رکھ سکتے ہیں۔ پس جب مہاتما بدھ نے فرمایا کہ "میری تعلیمات کو محض ایمان یا میری عزت کی خاطر مت قبول کرو بلکہ خود تحقیق کرو جیسے کہ تم سونا خرید رہے ہو"،تو ان کی مراد تھی کہ ان چار اصولوں کی بنا پر تحقیق کرو۔