دانائی بطور ایک کمال: پرجن پرمت

اگر ہم حقیقت اور افسانہ کے درمیان تمیز کرنے کی حکمت سے عاری ہیں، تو ہم اپنے اور دوسروں کے مثبت دنیوی اور روحانی ہدف پانے کے سب سے اہم لوازم کار سے محروم ہیں۔ لا علمی اور الجھن کی حالت میں ہم اس امر پر محض قیاس آرائی ہی کر سکتے ہیں کہ ہمارے اپنے لئیے یا کسی اور کے لئیے کیا سود مند ہو گا، اور بیشتر اوقات ہم غلطی پر ہوتے ہیں۔ دور رس امتیازی آگہی کی بدولت – حکمت کا کمال – جس میں درد مندی اور بودھی چت ہدف شامل ہو، ہم ایک مہاتما بدھ بننے کے اہل ہیں اور اس امر سے بخوبی واقف ہیں کہ تمام ذی حس مخلوق کو فائدہ پہنچانے کے موزوں ترین اور موثر ترین طریقے کیا ہیں۔

دور رس امتیازی آگہی – جسے عام طور پر "پرجن پرمت،" یعنی دانائی بطور ایک کمال کہتے ہیں – یہ چھ کمالات میں سے آخری ہے۔ اس کی مدد سے ہم گہرا تجزیہ کرتے ہیں اور ٹھیک ٹھیک اور تیقن کے ساتھ ہر اس شے کی فطرت اور اس کے متعلق مفصل احوال کی پہچان کرتے ہیں جس کے بارے میں ہمیں روشن ضمیری پانے اور سب کا بھلا کرنے کی خاطر جانکاری کی ضرورت ہے۔ اس کے تین حصے ہیں - دور رس امتیازی آگہی جو درست فہم رکھتی ہے:

۱۔عمیق ترین مظہرِ قدرت – حقیقت کا اصل الاصول، یعنی تمام مظاہرِ قدرت کا خود مختاری سے مکمل عاری پن، جس کا ادراک یا تو معنویت کے اعتبار سے تصوراتی ہے یا غیر تصوراتی طور پر موجودات میں عیاں ہے

۲۔ سطحی، رواجی مظاہر – علم کے پانچ بڑے شعبے: دستی کلا کاری، طب، زبانیں اور صرف و نحو، منطق اور بدھ مت کی تمام تعلیمات کا داخلی گیان، خصوصاً حصولِ فیضان کے مختلف مراحل اور انہیں پانے کے طریقے اور ان کی بشارت

۳۔ بھلائی کے طریقے جو سب دکھی اور ذی شعور ہستیوں پر کار گر ہوں – ۱۱ قسم کے وہ لوگ جن کی مدد کرنا ہے جن کا ذکر دور رس اخلاقی ضبط نفس، استقامت اور من کے استحکام کے سلسلہ میں کیا گیا ہے۔

کمالِ حکمت سے ہم  درست اور فیصلہ کن امتیاز کرتے ہیں:

  • وہ مثبت ہدف جنہیں ہم پانا چاہ رہے ہیں
  • انہیں پانے کے فوائد
  • انہیں نہ پانے سے ہونے والے نقصانات
  • ان اہداف کو پانے کے موثر ترین طریقے
  • ان طریقوں کی صحیح مشق کیسے کی جاۓ
  • ان کی مشق میں حائل ممکنہ رکاوٹیں
  • ان رکاوٹوں سے بچنے یا ان پر قابو پانے کے طریقے۔

دور رس امتیازی آگہی سے آنے والی درست فہم کے بغیر ہم بدھ مت کا پاٹھ اندھوں کی مانند کر رہے ہوں گے، اس عدم تیقن سے کہ ہمارا ہدف کیا ہے، کیوں ہے، اسے کیسے پانا ہے، اور جب ہم اسے پا لیں تو پھر اس کا کیا کریں گے۔ ہم اپنے پاٹھ کو خود غرضی اور لا علمی کے محرکات سے آلودہ کریں گے، پریشان کن جذبات اور اطوار سے اس میں غلاظت بھریں گے، اور اس طرح اپنی کامیابی کے امکانات کو خطرے میں ڈال دیں گے۔

دور رس امتیازی آگہی باقی ماندہ پانچ دور رس اطوار – فیاضی، اخلاقی ضبط نفس، صبر، استقامت اور من کا استحکام یا ارتکاز - کا مناسب اطلاق کرنے کے لئیے لازم ہے۔ اس کمالِ حکمت سے ہم درست اور فیصلہ کن امتیاز کرتے ہیں کہ:

  • کسے اور کیا دینا مناسب ہے یا غیر مناسب ہے، اور مزید یہ کہ، ہماری بے معنی حیثیت، اور وہ شخص جسے ہم دیتے ہیں اور کیا دیتے ہیں، تا کہ ہم بغیر کسی تعلّی یا موہ یا پچھتاوے کے وہ کچھ دے سکیں جو مفید ہو
  • ہمارے لئیے اور دوسروں کے لئیے کیا مفید ہے اور کیا نقصان دہ ہے، اور مزید یہ کہ، سمسار کے آلام اور نروان کی شانت اور بیگانہ حالت میں رہنے کے نقصانات، تا کہ ہم خالصًا دوسروں کی مدد کی خاطر نہ کہ اپنے خود غرض مقاصد کے حصول کے لئیے اخلاقی ضبط نفس پر کار بند ہوں
  • بے صبری کے نقصانات اور صبر کے فوائد، تا کہ ہم بغیر ناراضگی کے، پیار اور درد مندی کے ساتھ دوسرے لوگوں کے منفی اور معاندانہ رد عمل کو جس کا وہ ہماری مدد کرنے کی کوششوں کے خلاف مظاہرہ کریں، اور دھرم کا پاٹھ کرنے میں حائل مشکلات کو برداشت کر سکیں
  • ہمارے روحانی ہدف قائم کرنے کی وجوہات، اور یہ کہ جو طریقے ہم نے اختیار کئیے ہیں وہ ہمیں کیسے ان کو پانے میں معاون ہوں گے، تا کہ ہم اپنے پاٹھ میں ثابت قدم رہیں اور آدھے راستے میں کاہلی یا حوصلہ شکنی کی بدولت کام بند نہ کر بیٹھیں
  • حقیقت کیا چیز ہے اور وجود کے ناممکن امکانات کا تصور کیا شے ہے، تا کہ ارتکاز اور من کے استحکام جو کہ من کی حقیقت پسندانہ فطرت پر مرتکز ہو کے توسط سے مکش اور روشن ضمیری پا سکیں۔ مزید بر آں، اپنے ہدف کے متعلق امتیازی آگہی کی بدولت، ہم کسی ایسی شانت اور پر مسرت حالت جو ہم نے مراقبہ کے دوران پائی ہو کو ہمارے دوسروں کی مدد کرنے کے ہدف سے بھٹکانے کی اجازت نہیں دیتے۔

دس کمالات

جب ہم دس دور رس اطوار کا ذکر کرتے ہیں، تو آخری چار دور رس امتیاز کے ہی حصے ہیں:

  • دور رس مہارت کا مطلب ہےخاص قسم کی امتیازی آگہی جس کا تعلق نہائت معقول اور موثر طریقوں سے ہے جن کا رخ داخلی سطح پر دھرم کی تعلیمات کو حقیقت کا روپ دینا اور بیرونی سطح پر مکش اور روشن ضمیری پانے کی خاطر دوسروں کی مدد کرنا ہے
  • دور رس کامنائی دعا – ہم جس شے کی شدید آرزو کرتے ہیں اس کی خصوصی امتیازی آگہی، یعنی کہ کبھی بھی ہمارے تمام جنموں میں بودھی چت ہدف اور دوسروں کی مدد کے سلسلہ میں اپنی مصروفیات بغیر کسی وقفہ کے جاری رکھنے سے منحرف ہونا
  • دور رس تقویت دہندگی – خصوصی امتیازی آگہی، جسے تجزیہ اور استقامت بخش مراقبہ سے حاصل کیا گیا ہو، اور جس کا اطلاق ہماری دور رس امتیازی آگہی کو وسعت دینے کی خاطر کیا گیا ہو اور یہ کہ اسے مخالف قوتوں مثلاً لگاوٹ کے ہاتھوں کچلے جانے سے بچایا جاۓ
  • دور رس گہری آگہی – خصوصی امتیازی آگہی جس کے اطلاق سے تمام مظاہر کے خالی پن کی درست فہم و فراست کو ہمارے من کے ساتھ مکمل طور پر ہم آہنگ کیا گیا ہو، تا کہ ہر شے کے متعلق اوپری اور اصلی سچائیوں کی بیک وقت شناخت ہو سکے۔

خلاصہ

دور رس امتیازی آگہی کے توسط سے، ہم کسی بھی پاٹھ جو ہم کر رہے ہوں، کے فوائد کے متعلق واضح اور پُر تیقن پہچان رکھتے ہیں، اور ان نقصانات کی بھی جو ان اطوار پر قائم رہنے سے ہو سکتے ہیں جن پر ہم پاٹھ کے ذریعہ قابو پانا چاہتے ہیں۔ اس ٹھوس ادراک اور پختہ یقین کی اعانت، اور پیار، درد مندی اور بودھی چت ہدف کی غیر متزلزل ترغیب سے، دھرم کا کوئی بھی پاٹھ جو ہم کریں وہ روشن ضمیری پانے اور دوسروں کی ہر ممکن مدد کرنے کی اہلیت کے سلسلہ میں موثر ثابت ہوتے ہیں۔

Top