تیرھویں صدی کے حملوں سے پہلے ہندوستان میں بدھ مت

تعارف

"ہینیان" اور "مہایان" کی اصطلاحات، جن کا مطلب ہلکا یا "چھوٹا" وسیلہ اور وسیع یا "بڑا" وسیلہ ہے، پہلے پہل مہایان کی برتری ظاہر کرنے کے "دور رس امتیازی آگاہی کے سوتروں" ("پرجنا پارمتا سوتروں") میں استعمال کی گئیں۔ تاریخی طور پر مہایان سے پہلے ۱۸ مکاتب فکر موجود تھے جن میں سے ہر ایک کے الگ الگ اور قدرے مختلف خانقاہی نظم و ضبط کے قواعد (ونایا) تھے۔ اگرچہ بعض لوگوں نے ان اٹھارہ مکاتب فکر کو ایک ہی مکتبۂ فکر کے طور پر بیان کرنے کے لیے متبادل نام بھی تجویز کیے لیکن یہاں ہم بہت ہی معروف اصطلاح "ہینیان" استعمال کریں گے ، تاہم اس سے ہماری مراد کوئی ہتک آمیز مفہوم نہیں ہے۔

اٹھارہ ہینیان مکاتب فکر میں سے صرف ایک مکتبۂ فکر تھرواد اب تک موجود ہے۔ یہ سری لنکا اور جنوب مشرقی ایشیا میں فروغ پذیر ہے۔ جب ہندی اور تبتی ماہایان کتابیں وائبھاشک اور ساؤتراتک مکتب فکر کے فلسفیانہ خیالات بیان کرتی ہیں تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ دونوں ہینیان مکتب فکر جو اوپر بیان کردہ اٹھارہ میں سے ایک مکتب فکر سرواستیواد کی ذیلی شاخیں ہیں۔ تبتی خانقاہی نظم و ضبط کے قواعد و ضوابط مول-سرواستیواد مکتب فکر سے لیے گئے ہیں جو سرواستیواد ہی کی ایک اور شاخ ہے۔ لہذا ہینیان تعلیمات جو تبّت میں پیش کی گئیں ہیں ان کو تھرواد کے ساتھ خلط ملط نہیں کرنا چاہیے۔

مشرقی ایشیا کی بودھ روایتیں دھرمگپت مکتب فکر کے خانقاہی قواعد و ضوابط کی پیروی کرتی ہیں جو ان اٹھارہ مکاتب فکر میں سے ایک ہے۔

شاکیہمُنی بودھ

شہزادہ سدھارتھ جو شاکیہمُنی بودھ بنے، ۵۶۶ء سے۴۸۶ء صدی عیسوی قبل مسیح تک وسط شمال ہند میں رہے۔ ۳۵ سال کی عمر میں روشن ضمیری حاصل کرلینے کے بعد وہ دوسرے لوگوں کو تعلیم دیتے ہوئے ایک درویش کے طور پر گھومتے پھرتے رہے۔ جلد ہی روحانیت کے متلاشی مجرد لوگوں کا ایک گروہ ان کے گرد اکٹھا ہو گیا اور جب بھی وہ سفر کرتے وہ ان کے ساتھ رہتا۔ آخرکار اس گروہ کی تربیت کی ضرورت پیدا ہونے پر بدھ فلسفی نے اس گروہ کے نظم و ضبط کے لیے اصول بنا دیئے۔ "راہب" ہر مہینے چار دفعہ ان اصولوں کو پڑھنے کے لیے ملتے اور جہاں کہیں غلطی ہوتی اس کی اصلاح کرتے۔

روشن ضمیری حاصل ہونے کے تقریبا ۲۰ برس بعد بدھ فلسفی نے راہبوں کے لیے ہر سال برساتی موسم کے تین مہینوں کی خلوت نشینی کے دستور کا آغاز کیا۔ بودھوں کی خانقاہوں کی تعمیر کا آغاز بھی اس دستور سے ہوا۔ اپنی رحلت سے چند سال پہلے بدھ فلسفی نے راہباوں کے لیے بھی اس روایت کا آغاز کیا۔

پہلی بودھ کونسل کا انعقاد

بدھ فلسفی مگدھ کے پراکرت لہجے میں پڑھاتے تھے لیکن ان کی زندگی کے دوران لکھا کچھ بھی نہیں گیا۔ اصل میں سب سے پہلے بدھ فلسفی کی تعلیمات کو پہلی صدی قبل مسیح میں لکھا گیا اور وہ تھرواد مکتب فکر سے متعلق تھیں۔ انہیں سری لنکا میں پالی زبان میں لکھا گیا۔ اس سے پہلے صدیوں تک راہب بدھ فلسفی کی تعلیمات کو زبانی یاد کر کے اور گاہ بہ گاہ پڑھ کر محفوظ رکھتے تھے۔

بدھ فلسفی کی تعلیمات کو زبانی یاد کر کے پڑھنے کا رواج ان کی وفات کے چند ماہ بعد ہی شروع ہو گیا۔ اس کا آغاز راجگرھ میں ہونے والی پہلی بودھ کونسل سے ہوا جس میں بدھ فلسفی کے پانچ سو شاگردوں نے شرکت کی۔ روایتی تفصیلات کے مطابق یہ سب شرکا ء "ارہت" تھے یعنی مخلوق جو مُکش حاصل تھی۔

وائبھاشک تفصیل کے مطابق تین ارہتوں نے اپنی یادداشت سے مہاتما کی تعلیمات پڑھ کر سنائیں۔ اگر اجتماع کے سارے لوگ ان ارہتوں کے پڑھے ہوئے متن پر متفق ہو جاتے کہ بدھ فلسفی نے واقعی یہی کچھ کہا تھا تو اس سے ان تعلیمات کے درست ہونے کی تصدیق ہو جاتی۔

  • آنند نے "سوتر" پڑھے جو مختلف اعمال اور مشقوں کی تفصیل کے بارے میں ہیں۔
  • اوپالی نے "ونایا" پڑے جو خانقاہی نظم و ضبط کے قواعد کے بارے میں ہے۔
  • مہاکاشیَپ نے "ابھیدھرم" پڑھ کر سنایا جو علم کے خاص موضوعات کے بارے میں ہے۔

بدھ فلسفی کی تعلیمات کے یہ تین حصے تین مجموعوں کی صورت میں "تین بڑی ٹوکری جیسے مجموعوں" میں مرتب ہوئے:

  • "ونایا ٹوکری" کے مجموعے میں اعلی اخلاقی ضبط نفس کی تعلیمات تھیں۔
  • "سوتر ٹوکری" کے مجموعے میں اعلی سماد کے بارے میں تعلیمات تھیں۔
  • "ابھی دھرم ٹوکری" میں اعلٰی امتیازی آگاہی یا اعلٰی حکمت کے بارے میں تعلیمات تھیں۔

وائبھاشک تحریروں میں یہ بات بھی درج ہے کہ پہلی کونسل کے موقعے پر بدھ فلسفی کی ابھیدھرم کی تمام تعلیمات نہیں پڑھی گئی تھیں۔ کچھ تعلیمات اس کونسل سے باہر زبانی طور پر بیان کی گئیں جنہیں بعد میں شامل کیا گیا تھا۔

ساؤتراتک تفصیل کے مطابق کونسل میں پڑھی جانے والی ابھیدھرم تعلیمات ہرگز بدھ فلسفی کے الفاظ نہیں تھے۔ اس ٹوکری میں شامل کی جانے والی سات ابھیدھرم تحریریں اصل میں سات ارہتوں نے لکھی تھیں۔

دوسری بودھ کونسل کا انعقاد اور مہاسنگھیک مکتب فکر کی تشکیل

دوسری بودھ کونسل وائشالی میں ۳۸۶ء یا ۳۷۶ء صدی قبل مسیح میں منعقد ہوئی جس میں سات سو راہبوں نے شرکت کی۔ اس کونسل کا مقصد خانقاہی نظم و ضبط کے بارے میں دس باتوں کا فیصلہ کرنا تھا۔ اس موقع پر اہم فیصلہ یہ کیا گیا کہ راہبوں کو سونا قبول کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ آج کے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ راہب روپیہ کے معاملے میں نہیں پڑیں گے۔ پھر کونسل نے "ونایا ٹوکری" کو پھر سے پڑھا تاکہ اس کی درستی کی دوبارہ تصدیق ہو سکے۔

تھرواد تحریروں کے مطابق راہب پہلی بار اس کونسل میں دو گروہوں میں بٹ گئے۔ الگ ہونے والے راہبوں نے اپنا الگ مکتب فکر مہاسانگھک بنا لیا جبکہ پیچھے رہ جانے والے اکابرین تھرواد مکتب فکر کے نام سے معروف ہوئے۔ پالی زبان میں " تھرواد" کا مطلب ہے " قول بزرگاں کے پیروکار" اور "مہاسانگھک" کا مطلب ہے "اکثریت والا گروہ"۔

دوسری روایات کے مطابق حقیقی تقسیم بعد میں ۳۴۹ء صدی قبل مسیح کے دوران ہوئی۔ تنازع کی بنیاد خانقاہی نظم و ضبط کے مسائل نہیں تھے بلکہ ان کے فلسفیانہ نقاط نظر تھے۔ اختلاف اس بات پر ہوا کہ ارہت (مخلوق جو مُکش حاصل ہے) محدود ہے یا نہیں۔

  • تھرواد بزرگوں نے یہ موقف اختیار کیا کہ ارہت اپنے علم میں محدود ہوتے ہیں مثلا سفر کے دوران انہیں مختلف سمتوں کا پتہ نہیں ہوتا اور وہ ایسی باتوں کے بارے میں دوسروں سے معلومات حاصل کرتے ہیں۔ تاہم انہیں دھرم کے معاملات کے بارے میں سب کچھ معلوم ہوتا ہے۔ ارہتوں کو اپنے روحانی مقام و مرتبے کے بارے میں بھی شک ہوسکتا ہے اگرچہ وہ اس مرتبے کے حصول کے بعد دوبارہ پہلی حالت پر نہیں آ سکتے۔ تاہم تھرواد نے اس پر اصرار کیا کہ ارہت پریشان کُن جذبات مثلاً خواہشِ سے مکمل طور پر آزاد ہوتے ہیں۔
  • پریشان کُن جذبات کے بارے میں مہاسانگھک یا "اکثریتی گروہ" نے اختلاف کیا۔ ان کا موقف تھا کہ ارہتوں کو اب بھی خوابوں میں گمراہ کیا جاسکتا ہے اور انہیں احتلام ہو سکتا ہے کیونکہ ابھی ارہتوں میں شھوت کے آثار موجود تھے۔ اس طرح مہاسانگھک نے ارہت اور بودھ میں واضح فرق قائم کیا۔

تھرواد مکتب فکر کے پیروکار شمالی ھندوستان کے مغربی حصے میں اکٹھے ہو گئے۔ مہاسانگھک کے پیروکار شمالی ہندوستان کے مشرقی حصے میں اکٹھے ہوئے اور پھر جنوبی ھندوستان کے مشرقی حصے میں آندھرا کی طرف پھیل گئے۔ آندھرا میں ہی بعد ازاں مہایان کا آغاز ہوا۔ مغربی دانشوروں کے نزدیک مہاسانگھک مہایان کے پیش رو ہیں۔

تیسری بودھ کونسل اور سرواستیواد اور دھرمگپت مکاتب فکر کی تشکیل

۳۲۲ء صدی قبل مسیح میں چندر گپت موریہ نے شمالی ھندوستان کے مرکزی علاقے میں جسے مگدھ یعنی بدھ مت کا مادر وطن کہا جاتا تھا موریہ سلطنت کی بنیاد رکھی۔ یہ مملکت بہت جلد پروان چڑھی اور ۲۶۸ء صدی قبل مسیح سے ۲۳۲ء صدی قبل مسیح کے دوران شہنشاہ اشوک کے راج میں اپنے عروج پر پہنچ گئی۔ اس کے دور میں موریہ سلطنت موجودہ مشرقی افغانستان اور بلوچستان سے آسام تک پھیلی ہوئی تھی اور یہ جنوبی ھندوستان کے بڑے حصے پر مشتمل تھی۔

۲۳۷ء صدی قبل مسیح میں شہنشاہ اشوک کے دورِ حکومت میں چند فلسفیانہ مسائل پر سرواستیواد مکتب فکر بھی تھرواد مکتب فکر سے الگ ہوگیا۔ تھرواد مکتب فکر والے یہ کہتے ہیں کہ موریہ سلطنت کے دارالحکومت پاٹلی پتر یعنی موجودہ پٹنہ میں شاہی سرپرستی میں منعقد ہونے والی تیسری مجلس کے موقع پر دونوں الگ الگ ہو گئے۔ تاہم اس کونسل کا انعقاد سرواستیواد کی علیحدگی سے بیس سال پہلے ۲۴۷ء صدی قبل مسیح میں بیان کیا جاتا ہے۔ کیونکہ تھرواد کے مطابق تھراود کے نقطۂ نظر کی صحت کی اس کونسل کے تصدیق کرنے کے بعد ہی اگلے سال اشوک بادشاہ نے بدھ مت کو اپنی مملکت کے باہر اور اندر نئے علاقوں میں متعارف کروانے کے لیے تبلیغی وفود روانہ کیے۔ ان تبلیغی وفدوں کے ذریعے تھرواد بدھ مت موجودہ پاکستان (گندھارا اور سندھ)، موجودہ جنوب مشرقی افغانستان (باختر) گجرات، جنوبی ھندوستان کے مغربی حصے، سری لنکا، اور برما میں متعارف ہوا۔ بادشاہ اشوک کے انتقال کے بعد اس کے بیٹے جلوک نے سرواستیواد کو کشمیر میں متعارف کروایا۔ وہاں سے یہ آخرکار موجودہ افغانستان میں اس کی اشاعت ہوئی۔

اس سے قطع نظر کہ کونسل کب منعقد ہوئی اس وقت کونسل کا بڑا کام بدھ فلسفی کی تعلیمات کا تجزیہ کرنا اور ان باتوں کو مسترد کرنا تھا جنہیں کٹر تھرواد بزرگ غلط سمجھتے تھے۔ کونسل کے سربراہ راہب مُگّلی پوتا تیسا نے تجزیاتی تردیدی جوابوں کے طور پر ان "منطقی تنازعہ کے موضوعات" کو جمع کردیا جو تھرواد "ابھیدھرم ٹوکری" کی سات کتابوں میں سے پانچویں بن گئی۔

دوسری ہینیان روایات اس کونسل کی تفصیل تھرواد کی طرح بیان نہیں کرتیں۔ جو بھی صورت ہو ان اہم فلسفیانہ نکات میں سے ایک نکتہ جس پر اختلاف پیدا ہوا وہ ماضی، حال اور مستقبل کا وجود تھا۔

  • سرواستیواد کا موقف تھا کہ ہر چیز وجود رکھتی ہے۔ وہ کچھ جو اب نہیں ہورہا، وہ کچھ جو اب ہورہا ہے، اور وہ کچھ جو ابھی نہیں ہوا، سب کا وجود ہے۔ یہ اسی لیے ہے کہ وہ جوہر یا ایٹم جن سے چیزیں بنی ہیں وہ ابدی ہیں صرف ان کی صورتیں بدلتی ہیں۔ لہذا ایٹموں کی صورتیں واقع نہ ہونے والی اشیاء سے واقع ہوتی ہوئی اشیا میں اور پھر ان اشیا میں جو اب مزید واقع نہیں ہو رہیں، بدل سکتی ہیں۔ لیکن وہ ایٹم جو ان میں سے ہر شے کی تشکیل کرتے ہیں وہ وہی ابدی ایٹم ہیں۔
  • نہ صرف تھرواد بلکہ مہاسانگھک نے یہ موقف اختیار کیا کہ صرف اب واقع ہونے والی اشیا ہی موجود ہیں اور وہ بھی جو اب موجود تو نہیں لیکن جنہوں نے ابھی اپنے نتائج پیدا نہیں کیے۔ موخرالذکر اس لیے موجود ہیں کہ وہ ابھی اپنا کردار ادا کر سکتی ہیں۔
  • تاہم سرواستیواد مہاسانگھک کے ساتھ اس بات پر متفق ھوگئے کہ پریشان کُن جذبات کی موجودگی کی وجہ سے ارہتوں میں کچھ کمزوریاں موجود ہیں۔

۱۹۰ء صدی قبل مسیح میں دھرمگپت مکتب فکر بھی تھرواد سے الگ ہو گیا۔

  • دھرمگپت تھرواد کے ساتھ اس بات پر متفق تھا کہ ارہتں میں پریشان کُن جذبات نہیں ھوتے۔
  • تاہم مہاسانگھک کی طرح دھرمگپت نے بھی بودھ کے مرتبے کو بلند کرنے کی کوشش کی۔ اس کا موقف تھا کہ راھبوں کی بجائے بودھوں کو نذرانے پیش کرنا زیادہ اہم ہے۔ انہوں نے خاص طور پر ستوپ کو نذرانے پیش کرنے پر زور دیا، جہاں بودھوں کے تبرکات رکھے ہوتے ہیں۔
  • دھرمگپت نے ٹوکری نما چوتھے مجموعے"دھارنی ٹوکری" کا اضافہ کیا۔ "دھارنی" کا سنسکرت میں مطلب "حافظہ کی منتر" ہے۔ یہ سنسکرت میں وہ کلمات یا منتر ہیں کہ جب انہیں پڑھا جاتا ہے تو اس سے عمل کرنے والے کو دھرم کے الفاظ اور معانی یاد رکھنے، تعمیری عمل کو بڑھانے اور تخریبی کو ختم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ "دھارنیوں" کا یہ فروغ ھندومت کے کلاسیکی صحیفے "بھگوت گیتا" کی تدوین کے زمانے کا ہے اور گویا اسی روح عصر کی عکاسی کرتا ہے۔

دھرمگپت مکتب کی بنیاد گندھارا میں پڑی، یہ وہ علاقہ ہے جو موجودہ شمال مغربی پاکستان اور شمال مشرقی افغانستان پر محیط ہے۔ بدھ مت کے جو اوّل ترین تصنیف شدہ صحائف ملے ہیں، جن کا تعلق پہلی صدی قبل مسیح سے ہے، وہ اس کی زبان گندھاری پراکرت میں ہیں، اور زیادہ تر  دھرمگپت مکتب سے تعلق رکھتے ہیں۔ گندھاری پراکرت خروشتی رسم الخط میں لکھی جاتی تھی، جس کے حروف ابجد اس میں پائے جانے والے پہلے حروف سے پکارے جاتے تھے، "آ را پا کا نا۔" یہ امر قابل ذکر ہے کہ منجوشری، جو کہ مہاتما بدھوں کی امتیازی آگہی کا مجسمہ ہے، کا مقبول ترین منتر یوں ہے، اوم اراپاکانا دھی۔ دھرمگپت مکتب گندھارا سے ایران، وسطی ایشیا اور آگے چین تک پھیل گیا۔  


چوتھی بودھ کونسل کا انعقاد

تھرواد اور سرواستیواد مکتبہ فکر میں سے ھر ایک نے اپنی چوتھی کونسل منعقد کی۔ تھرواد نے ۲۹ء صدی قبل مسیح میں سری لنکا میں شاہ وتّگمنی کی سرپرستی میں اپنی چوتھی کونسل منعقد کی۔ بدھ فلسفی کےالفاظ کی تشریح پر اختلافات کے باعث تھراود سے الگ ہونے والے مختلف گروہوں کو سامنے رکھتے ہوئے مہارکّھت اور تھرواد کے پانچ سو بڑے بزرگ بدھ فلسفی کے الفاظ پڑھنے اور لکھنے کے لیے اکٹھے ہوئے تاکہ ان کو درست انداز میں محفوظ کیا جاسکے۔ اس طرح بدھ فلسفی کی تعلیمات کو تحریری صورت دی گئی اور انہیں پالی زبان میں منتقل کیا گیا۔ "تین ٹوکری جیسے مجموعوں"، "تری پٹک"، کے اس متن کو عام طور پر "پالی صحیفہ" کہا جاتا ہے۔ تاہم دوسرے ہینیان مکتب فکر نے ان تعلیمات کو زبانی صورت میں آگے منتقل کرنا جاری رکھا۔

سرواستیواد مکتب فکر کے اندر بھی ان تعلیمات کی تشریح میں بتدریج کئی اختلافات پیدا ہوگئے۔ سب سے پہلے وائبھاشک مکتب کے پیشرو فکر سامنے آیا پھر ۵۰ ء صدی قبل مسیح کےقریب ساؤتراتک ظہور پذیر ہوا۔ ابھیدھرم کے کئی نکات کے بارے میں ان میں سے ہر ایک کی اپنی رائے تھی۔

اسی دوران وسط ایشیا سے یوئ۔جی کی یلغار کے باعث شمالی ھندوستان، کشمیر اور افغانستان کی سیاسی صورت حال ایک بڑی تبدیلی سے دوچار ہو رہی تھی۔ یوئ۔جی ہند – یورپی لوگ تھے جو اصل میں مشرقی ترکستان میں رہتے تھے۔ مغرب اور پھر جنوب کا وسیع علاقہ دوسری صدی عیسوی کے اختتام پر فتح کرتے ہوئے انہوں نے آخرکار کشان سلطنت قائم کی جو ۲۲۶ء عیسوی تک موجود رہی۔ اپنے عروج کے زمانے میں کشان سلطنت آج کے تاجکستان، ازبکستان، افغانستان اور پاکستان، کشمیر اور شمال مغربی ھند سے لے کر وسط جنوب ھند اور وسط ھند تک پھیلی ہوئی تھی۔ شاہراہ ریشم کو دریائے سندھ کے دھانے پر موجود بندرگاہوں کے ساتھ ملا کر اس سلطنت نے بدھ مت کو بہت سے بیرونی اثرات کے بھی قریب کردیا۔ اس طرح اس رابطے سے بدھ مت چین تک پہنچا۔

کشان حکمرانوں میں سب سے زیادہ مشہور شاہ کنشک تھا جس کا راج بعض روایات کے مطابق ۷۸ء سے ۱۰۲ء عیسوی اور بعض کے مطابق ۱۲۷ء سے ۱۴۷ء عیسوی تک رہا۔ جو بھی صورت ہو، سرواستیواد مکتب فکر کی چوتھی کونسل اس کے دور حکومت میں منعقد ہوئی یا تو اس کے دارالحکومت پرش پور (موجودہ پشاور) یا کشمیر کے شہر شرینگر میں منعقد ہوئی۔ اس کونسل نے ساؤتراتک ابھیدھرم کو مسترد کردیا اور "بڑی تفسیر" ("مہا ویبھاش") میں اپنا ابھیدھرم مدون کیا۔ کونسل نے "تین بڑی ٹوکری جیسے مجموعوں" کے سرواستیواد متن کے پراکرت سے سنسکرت میں ترجمے میں اور سنسکرت کی تحریروں کی تدوین کی نگرانی بھی کی۔

چوتھی اور پانچویں صدی عیسوی کے درمیان کشمیر میں وائبھاشک سرواستیواد کے بڑے سلسلے سے مول-سرواستیواد مکتب فکر کی شاخ الگ ہوئی۔ آٹھویں صدی عیسوی کے آخر میں اہل تبت نے خانقاہی نظم وضبط کے قواعد و ضوابط کا اپنا اسلوب اختیار کر لیا۔ بعد کی صدیوں میں یہ تبت سے منگولیا اور روس کے کچھ منگول اور ترک علاقوں تک پھیل گیا۔

مہاسانگھک مکتب فکر کی شاخیں

اسی دوران مہاسانگھک مکتب فکر جو زیادہ تر ھندوستان کے جنوب مشرق میں موجود تھا پانچ مختلف مکاتب فکر میں تقسیم ہو گیا۔ یہ سب اس بات پر متفق تھے کہ ارہت کچھ حدود کے اسیر ہیں اور بودھ ہی اعلیٰ و برتر ہیں۔ ان میں سے ہر ایک نے اس تصور کو مزید آگے بڑھایا اور اس طرح مہایان کے لیے راہ ہموارہو گئی۔ ان کے تین اہم مکاتب فکر یہ ہیں:

  • لوکوتّرواد مکتب فکر نے بیان کیا کہ بدھ فلسفی ایک ماورائی وجود ہے جس کا جسم اس دنیا کی مٹ جانے والی اشیا سے ماورا ہے۔ اس نقطۂ نظر نے مہایان کی بدھ فلسفی کے تین قالبوں (تین لاشیں) کی وضاحت کے لیے بنیاد فراہم کی۔ لوکوتّرواد مکتب فکر افغانستان کی طرف پھیلا جہاں تقریباً تیسری اور پانچویں صدی عیسوی کے درمیان اس کے پیروکاروں نے بامیان میں بدھ فلسفی کے دیوقامت مجسمے تعمیر کیے جو بودھوں کے ماورا ہونے کے بارے میں ان کا نقطہ نظر ظاہر کرتے ہیں۔
  • باہو شُرُتیہ مکتب فکر کے مطابق بدھ فلسفی نے اس دنیا اور اس دنیا سے آگے کے بارے میں اپنی تعلیمات پیش کیں۔ اس سے مہایان کے اندر بدھ فلسفی کے صدور کے قالب اور مکمل استعمال بنانے کے لئے قالب میں تقسیم کی راہ ہموار ہوئی۔
  • چائتک مکتب فکر باہو شُرُتیہ سے الگ ہوا۔ اس کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ بدھ فلسفی اس دنیا میں آنے سے پہلے ہی روشن ضمیری حاصل کر چکے تھے اور وہ اپنے اس روشن ضمیری کا مظاہرہ اس لیے کررہے تھے کہ دوسرے کو بھی راستہ سمجھا سکیں۔ بعد ازاں یہ نقطۂ نظر مہایان نے بھی اختیار کرلیا۔

مہایان کا ظہور

مہایان کے سوتر پہلے پہلی صدی قبل مسیح میں سامنے آئے اور چوتھی صدی عیسوی میں آندھرا مشرقی جنوبی ہند میں اس علاقہ میں آئے جہاں مہاسانگھک پھل پھول رہا تھا۔ بدھ مت کے روایتی تذکروں کے مطابق یہ سوتر بدھ فلسفی نے پڑھائے تھے لیکن انہیں ہینیان کتب کے بیان کی نسبت زیادہ ذاتی اور زبانی طور پر آگے منتقل کیا گیا بلکہ ان میں سے کچھ کو غیر انسانی ذریعہ سے بھی محفوظ کیا گیا۔

اس وقت بہت واضح طور پر سامنے آنے والے کچھ بہت ہی اہم مہایان سوتر یہ تھے:

  • پہلی دو صدیوں کے دوران "دور رس امتیازی آگاہی کے سوتر" اور "وما-کیرتی کے بارے میں تعلیم دینے والے سوتر"۔ ان میں سے پہلا تمام اشیا کے خالی پن سے متعلق جبکہ دوسرا عام بودھی-ستوا کو بیان کرتا ہے۔
  • ۱۰۰ء عیسوی کے قریب "سکھہ کی خالص سرزمین کی ترتیب دینے والے سوتر" کامجموعہ سامنے آیا جس میں امیتابھ کی سکھا-وتی کی خالص سرزمین کا تعارف کروایا جو لا محدود نور کا بودھ ہے۔
  • ۲۰۰ء عیسوی کے قریب "مقدس دھرم کے کنول سوتر" سامنے آئے۔ اس میں اس بات پہ زور دیا گیا کہ ہر شخص میں بودھ بننے کی اہلیت موجود ہے۔ بودھ کی تمام گاڑیاں کا تعلیمات ایک دوسرے کے ساتھ ماہر طریقے ذریعہ ہونے کے ناتے مناسبت رکھتی ہیں۔ یہ اپنی صورت میں دعا و مناجات پر مبنی ہے۔

مہایان میں مدھیاماکہ اور چتمتر مکتب فکر پہلے جنوبی ھندوستان کے شہر آندھرا میں سامنے آئے۔

  • مدھیامک مکتب فکر نگارجن سے شروع ہوا۔ یہ آندھرا میں ۱۵۰ء سے ۲۵۰ء صدی عیسوی کے درمیان زندہ تھے اور "پرجنا پارمتا سوتروں" ("دور رس امتیازی آگاہی کے سوتروں") کی شرح تصنیف کی۔ روایتی تذکروں کے مطابق ناگارجن نے ان سوتروں کی سمندر کے نیچے سے بازیابی کی جہاں ناگ اس کی اس وقت سے حفاظت کر رہے تھے جب بدھ فلسفی نے راجگرھ کے قریب شمال وسطی ھندوستان میں کرگس کی پہاڑ کی چوٹی پر ان کی تعلیم دی تھی۔ " ناگ" آدھے انسان آدھے سانپ جیسی مخلوق ہے جو زمین کے نیچے اور پانی میں موجود اشیا کے نیچے رہتا ہے۔
  • چت متر مکتب فکر نے اپنی "لنکا میں نزول سوتر" میں ارتکاز پر رکھی۔ اگرچہ یہ سوتر پہلے آندھرا میں سامنے آئے، چت متر تعلیمات کو اسانگ نے مزید ترقی دی جو چوتھی صدی عیسوی کے پہلے نصف کے دوران گندھارا یعنی آج کے وسطی پاکستان میں رہتا تھا۔ آسانگ نے یہ تعلیمات مائیتریا بودھ سے ملاقات کے دوران حاصل کی تھیں۔

خانقاہی یونیورسٹیوں اور تنتر کا فروغ

پہلی بودھ خانقاہی یونیورسٹی نلندا دوسری صدی عیسوی کے آغاز میں راجگرھ کے قریب قائم کی گئی۔ ناگارجن نے وھاں پڑھایا۔ اسی طرح بعد کے بہت سے مہایان بزرگ وھاں پڑھاتے رہے۔ تاہم یہ خانقاہی یونیورسٹی خاص طور پر چوتھی صدی عیسوی کے آغاز میں گپتا سلطنت کے قیام کے بعد زیادہ پھلی پھولی۔ ان کے نصاب میں فلسفیانہ نظام عقائد کے مطالعے پر زور دیا جاتا تھا اور راہبوں کو چھ ہندو اور جین مکاتب فکر کے نمائندوں کے ساتھ مشکل مباحثوں میں مصروف رکھا جاتا تھا۔ یہ ہندو اور جین مکاتب فکر تیسری اور چھٹی صدی عیسوی کے درمیان پیدا ہوئےتھے۔

تنتر بھی تیسری اور چھٹی صدی عیسوی کے درمیان سامنے آئے۔ ان کا ابتدائی ظہور بھی جنوبی ھندوستان میں آندھرا میں ہوا۔ یہ "گوہیا سماج تنتر" تھا۔ ناگارجن نے اس کی کئی تفسیریں لکھیں۔ بودھ روایات کے مطابق یہ تنتر بھی بدھ فلسفی کی تعلیمات کے زمانے سے زبانی طور پر منتقل کیے جاتے رہے، لیکن ان کی تعلیم مہایان سوتروں کی تعلیم کی بہ نسبت زیادہ پوشیدہ طور پر دی جاتی تھی۔

تنتر جلد ہی شمال تک پھیل گئے۔ وسط آٹھویں سے وسط نویں صدی عیسوی میں خاص طور پر یہ اُڈیانہ یعنی شمال جنوبی پاکستان میں موجودہ وادی سوات میں فروغ پذیر ہوئے۔ آخری تنتر جو دسویں صدی عیسوی کے وسط میں سامنے آئے وہ "کالچکر تنتر" تھے۔

بودھ خانقاہی یونیورسٹیاں پال شاہی خاندان (۷۵۰ ء سے آخر بارہویں صدی عیسوی تک) کے دور میں شمالی ہندوستان میں اپنے عروج پر پہنچیں. بہت سی نئی یونیورسٹیاں مثلاً وکرم شلا شاہی سرپرستی میں تعمیر کی گئیں۔ ان میں کچھ خانقاہی یونیورسٹیوں میں خصوصاً نلندا میں تنتروں کا مطالعہ متعارف کروایا گیا۔ لیکن تنتروں کا مطالعہ اور برتاؤ خصوصاً ۸۴ مہاسِدّھوں داوں کی روایت خانقاہوں سے باہر آٹھویں اور بارہویں صدی عیسوی کے درمیان زیادہ پھیلی۔ "مہاسِدّھ" تنتروں کے بہت ہی پہنچے ہوئے عامل ہوتے ہیں۔

Top