سوال: بدھ مت اور سائنس کے درمیان کیا تعلق ہے؛ اس کے بارے میں مزید گفتگو فرمائیے اور ان دونوں میں جو مشترک چیزیں ہیں ان کی کچھ مثالیں بیان کیجیے۔
ڈاکٹر برزین: بودھ رہنماؤں مثلا تقدس مآب دلائی لامہ اور سائنسدانوں کے درمیان ہونے والی گفتگو میں اب تک بنیادی طور پر تین چیزیں توجہ کا مرکز رہی ہیں۔ ان میں سے ایک طبیعیاتِ فلکی ہے۔ بنیادی طور پر اس کا تعلق اس سوال سے ہے کہ یہ کائنات کس طرح وجود میں آئی؟ کیا اس کا کوئی آغاز ہے؟ کیا اسے پیدا کیا گیا یا یہ کسی ابدی عمل کا حصہ ہے؟ دوسرا موضوع جوہری طبیعیات ہے جس میں جوہر اور مادے کی ساخت کے بارے میں غور کیا جاتا ہے۔ اور تیسرا عصبیات ہیں کہ دماغ کس طرح کام کرتا ہے؟ یہ تین بڑے میدان ہیں جن میں بدھ مت اور سائنس کے تعلق کے حوالے سے غور و فکر کیا گیا ہے۔
سائنس اور بدھ مت دونوں جس نتیجے پر پہنچے ہیں یہ ہے کہ کائنات کا کوئی خالق نہیں۔ سائنس میں بقائے مادہ اور توانائی کا نظریہ یہ بیان کرتا ہے کہ مادہ اور توانائی نہ تو پیدا کیے جا سکتے ہیں اور نہ ہی تباہ، صرف ان کی صورت بدلی جا سکتی ہے۔ بدھ مت اس اصول کے ساتھ مکمل طور پر اتفاق کرتا ہے اور اس میں ذہن کا اضافہ بھی کرتا ہے۔ بدھ مت میں "ذہن" کا مطلب ہے ادراکِ مظاہر، چاہے وہ شعوری ہو یا غیر شعوری اور ادراکِ مظاہر نہ تو پیدا کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ختم کیا جا سکتا ہے، صرف تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ لہذا سادہ الفاظ میں سمسار انسان کے مختلف ادراکِ مظاہر کے جاری تسلسل کے عمل میں ایک تبدیلی کا نام ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اب اسے ایک دوسرے جسم کی طبیعی اور مادی اساس میسر ہو گی۔
جوہری طبیعیات کے ماہرین کسی چیز کو جاننے یا اس کی تعریف متعین کرنے کے حوالے سے دیکھنے والے کے کردار پر زور دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک خاص نقطۂ نظر سے روشنی مادہ ہے جبکہ ایک دوسرے نقطۂ نظر سے روشنی توانائی ہے۔ روشنی کس طرح کا وجود رکھتی ہے اس بات کا انحصار بہت سے متغیر عوامل پر ہے، خاص طور پر تحقیق کرنے والے کے اس تصوراتی سانچے پر جسے وہ اس کا تجزیہ کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ لہذا مظاہر خلقی اور ذاتی طور پر یوں یا یوں نہیں ہوتے جس کا دیکھنے والے اور ادراک کرنے والے کے شعور کے ساتھ کوئی تعلق نہ ہو۔
بدھ مت بھی یہی کچھ بیان کرتا ہے۔ چیزوں کا وجود کیا ہے اس کا انحصار دیکھنے والے اور اس کے تصوراتی سیاق و سباق پر ہے۔ مثال کے طور پر ایک خاص صورتحال کا خطرناک مسئلے کے طور پر موجود ہونا یا ایسا مسئلہ ہونا جس کو حل کیا جا سکتا ہے، اس کا انحصار دیکھنے والے پر ہے، یعنی وہ شخص جو اس صورتحال سے دوچار ہے۔ اگر کسی شخص کا تصوراتی سانچا ایسا ہو کہ "یہ ایک ناممکن صورتحال ہے اور اس صورتحال میں کچھ نہیں کیا جا سکتا" تو یقینی طور پر یہ ایک مشکل مسئلہ ہے جو حل نہیں ہو سکتا۔ تاہم اگر وہ اس ذہنی حالت کے ساتھ سوچے کہ "یہ ایک پیچیدہ اور الجھی ہوئی صورتحال ہے لیکن ہم ایک مختلف طریقے سے اس کے حل تک پہنچ سکتے ہیں" تو پھر یہ شخص بڑے کھلے ذہن کے ساتھ حل کو تلاش کرنے کی کوشش کر سکتا ہے۔ جو معاملہ ایک شخص کے لیے بہت بڑا مسئلہ ہو دوسرے کے لیے بہت ہی معمولی بات ہو گی۔ یہ دیکھنے والے پر منحصر ہے کیونکہ ہمارے مسائل خلقی طور پر اور اپنے آپ میں بہت ہی بڑے اور مشکل مسائل نہیں ہوتے۔ لہذا سائنس اور بدھ مت ایک ہی نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ مختلف مظاہر ایسے ہی موجود ہوتے ہیں جیسا کہ دیکھنے والا انہیں دیکھتا ہے۔
اسی طرح ماہرینِ عصبیات اور بدھ مت والے دونوں کے نزدیک مختلف اشیا کے درمیان ایک ایسا تعلق موجود ہے جو ایک دوسرے پر انحصار سے وجود میں آتا ہے۔ مثال کے طور پر جب ایک ماہرِ عصبیات انسانی دماغ کا مشاہدہ کرتا ہے اور یہ جاننے کی کوشش کرتا ہے کہ ہمارے فیصلے کون کرتا ہے تو وہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ انسانی دماغ میں کوئی الگ تھلگ "فیصلہ ساز" شخص نہیں ہے۔ انسانی سر میں کوئی چھوٹا سا شخص نہیں بیٹھا ہوا جسے "میں" کہا جا سکے، جو آنکھوں، کانوں اور دوسرے اعضا سے معلومات لے جیسا کہ کمپیوٹر کے سکرین پر ہوتا ہے اور بٹن دبا کر فیصلے کرنا شروع کر دے کے بازو یہ کام کریں اور ٹانگیں وہ کام کریں۔ اس کے بجائے ذہن کے فیصلے اعصاب کی تحریک کے بہت بڑے عمل اور کیمیائی اور برقی اعمال کے باہمی پیچیدہ تعلق اور تعامل کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ یہ سب مل کر ہی ایک فیصلے پر پہنچتے ہیں۔ اور یہ سب کچھ انسانی دماغ میں کسی آزاد اور الگ وجود یعنی فیصلہ ساز کے بغیر ہوتا ہے۔ بدھ مت اسی چیز پر زور دیتا ہے کہ کوئی ٹھوس اور مستقل "میں" نہیں ہے جو ہمارے سر میں بیٹھا ہوا ہو اور ہمارے فیصلے کر رہا ہو۔ روایتی طور پر ہم کہتے ہیں" مجھے یہ محسوس ہو رہا ہے، میں یہ کر رہا ہوں۔" لیکن اصل میں جو کچھ ہو رہا ہوتا ہے وہ بہت سے عوامل کے باہمی پیچیدہ تعامل کا نتیجہ ہوتا ہے۔ سائنس اور بدھ مت اس حوالے سے ایک ہی طرح کا نقطہ نظر رکھتے ہیں۔
وقت کیا ہے؟ بطور طلباء ہمیں اپنے لیکچرز میں بروقت آنا ہوتا ہے اور اپنے مطالعے کے لیے اور کام کے دوران اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لیے کافی وقت درکار ہوتا ہے۔ ہم وقت کو کس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ اپنی زندگی کو آسان بنائیں؟
بدھ مت وقت کو "تبدیلی کی پیمائش" قرار دیتا ہے۔ ہم تبدیلی کی پیمائش ستاروں، سیاروں کی حرکت سے یا آسمان پر سورج کے مقام سے کرتے ہیں۔ ہم اس طرح پیمائش کرتے ہیں کہ کتنے لیکچرز رہ گئے ہیں اور سمسٹرز کے کتنے لیکچرز میں ہم نے شرکت کی ہے۔ ہم بارہ لیکچرز میں جا چکے ہیں اور دو لکچرز مزید باقی ہیں۔ یا ہم مختلف طبیعیاتی عوامل اور جسم کے مختلف اعمال مثلا حیض کا دور یا اپنے سانسوں کی تعداد کی روشنی میں پیمائش کرتے ہیں۔ تبدیلی اور وقت کی پیمائش کرنے کے یہ مختلف طریقے ہیں اور اس طرح سادہ الفاظ میں وقت تبدیلی کی ایک پیمائش ہے۔
وقت کا وجود ویسا ہی ہے جیسا کہ ہم اس کے بارے میں سوچتے ہیں۔ وقت ہم پر مختلف انداز سے اثر انداز ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ہم سوچتے ہیں کہ "ہمارے پاس امتحان کی تیاری کرنے کے لیے ایک ہی دن بچا ہے۔" چونکہ یہاں ہم وقت کا ایک بہت ہی چھوٹے عدد کے مطابق تصور کر رہے ہیں سو ہم پریشان ہو جاتے ہیں کہ ہمارے پاس کافی وقت نہیں ہے۔ لیکن اگر ہم مختلف طریقے سے سوچیں کہ "ہمارے پاس چوبیس گھنٹے باقی ہیں" تو بلاشبہ اب ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے پاس تیاری کے لیے کافی وقت ہے۔ نفسیاتی طور پر اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ ہم کس طرح دیکھتے اور سوچتے ہیں۔ اگر ہم وقت کو ایک بہت ہی ٹھوس، سخت گیر اور ظالم حقیقت کے وجود کے طور پر دیکھیں تو ہم اس کے زیر اثر چلے جائیں گے اور ہمارے پاس کافی وقت نہیں ہو گا۔ تاہم اگر ہم کھلے ذہن کے ساتھ یہ دیکھیں کہ ہمارے پاس کتنا وقت ہے تو ہم اسے زیادہ تعمیری طور پر استعمال کریں گے بجائے اس کے کہ ہم پریشان ہو جائیں۔
بدھ مت میں منطق اور استدلال پر بہت زور دیا جاتا ہے۔ کیا یہاں بھی دوسرے مذاہب کی طرح ایک ایسا نقطہ آ جاتا ہے جہاں ایمان کی جست لازمی ہو جاتی ہے؟
بدھ مت کو اس چیز کی ضرورت نہیں ہے اور اس کا اندازہ ہم اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ بدھ مت میں چیزوں کے موجود ہونے کے بارے میں تصور کیا ہے۔ جو کچھ موجود ہے اس کی تعریف یوں کی جاتی ہے کہ اس سے مراد وہ چیز ہے "جسے جانا جا سکتا ہو۔" یعنی اگر کسی چیز کو جانا نہیں جا سکتا تو یہ موجود ہی نہیں ہے، مثال کے طور پر خرگوش کے سینگ، کچھوے کے بال اور چوزے کے ہونٹ۔ ہم انسانی ہونٹوں کو چوزے پر موجود تصور تو کر سکتے ہیں، ہم ایسے کارٹونز اور تصاویر کا تصور تو کر سکتے ہیں جن میں چوزے کے ہونٹ بھی ہوں لیکن ہم کبھی بھی چوزے کے ہونٹ نہیں دیکھ سکتے کیونکہ ایسی کوئی چیز موجود ہی نہیں ہے۔ چونکہ یہ موجود ہی نہیں ہے اس لیے اس کو جانا نہیں جا سکتا۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر وہ چیز جو موجود ہے اس کے بارے میں جانا جا سکتا ہے۔ ہمارے ذہن کے لیے یعنی مظاہر سے ہماری آگاہی کے بارے میں ہماری ادراکِ مظاہر کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ ہر چیز کا احاطہ کر سکے۔ مذہبی صحائف میں اس طرح کا بیان موجود ہے کہ المطلق ہمارے ذہن اور ہمارے الفاظ سے ماورا ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ میں یہاں " المطلق" کی اصطلاح کا ترجمہ انگریزی میں نہیں کروں گا کیونکہ اس سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ یہ ہم سے پرے ہے۔ گویا کہ کوئی شے ہے جو آسمانوں میں ہے۔ اس کے بجائے میں اس کا ترجمہ یوں کرنا پسند کروں گا کہ اس سے مراد "اشیا کے بارے میں انتہائی گہری حقیقت ہے۔" وہ اشیا جو موجود ہیں ان کے بارے میں گہری ترین حقیقت۔ یہ ذہن تصورات اور الفاظ سے ماورا ہے، اس طرح کہ یہ ہمارے اشیاء کو محسوس کرنے اور جاننے کے معمول کے طریقہ کار سے ماورا ہے۔ زبان اور تصور میں یہ بات آتی ہے کہ اشیاء یا تو سیاہ ہوں گی یا سفید، اچھا آدمی برا آدمی، بیوقوف عقل مند۔ زبان استعمال کرنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ یہ اشیا فی الاصل موجود ہیں اور وہ واضح طور پر متعین اور آزاد انواع کے طور پر موجود ہیں۔ مثلا "یہ شخص گاؤدلی ہے، کوئی کام ٹھیک سے نہیں کر سکتا"۔ "یہ عظیم انسان ہے"۔ حقیقت کا ادراک کرنا یہ دیکھنا ہے کہ اشیا تخیلاتی اور ناممکن انداز کے ساتھ سیاہ اور سفید انواع کی صورت میں موجود نہیں ہیں بلکہ اشیا کہیں زیادہ کھلی اور حرکتی انداز میں موجود ہوتی ہیں۔ کوئی شخص ممکن ہے آج کچھ کرنے کے قابل نہ ہو لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ مکمل طور پر ایک بیوقوف آدمی ہے۔ اس شخص میں بہت سی اور باتیں ہو سکتی ہیں مثلا وہ دوست ہو سکتا ہے، ماں باپ میں سے ہو سکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
گویا جب ہم یہ کہتے ہیں کہ اشیا کے بارے میں عمیق ترین حقیقت یہ ہے کہ وہ اس طرح موجود ہیں کہ ان کا موجود ہونا ہمارے ذہن اور بیان سے ماورا ہے تو ہم اس حقیقت کی طرف اشارہ کر رہے ہوتے ہیں کہ اشیا اس طرح موجود نہیں جس طرح ہمارے تصورات یا ہماری زبان انہیں موجود سمجھتی ہے۔ مگر ہمارے ذہن ان کا احاطہ کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔
یہ بات نہیں کہ ہمارے ذہن چونکہ کچھ چیزوں کا احاطہ نہیں کر سکتے لہذا ان پر یقین کرنے کے لیے ہمیں ایمان کی جست لگانے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ بدھ مت ہم سے اندھے ایمان اور یقین کا مطالبہ نہیں کرتا بلکہ اس کے برعکس بدھ فلسفی نے یہ کہا "جو کچھ میں کہتا ہوں اسے صرف میرے احترام کی وجہ سے نہ مان لو بلکہ اسے خود بھی جانچو گویا کہ تم سونا خرید رہے ہو" اور یہ ہر سطح کے لیے درست ہے۔
کسی خاص نکتے کی منطق ممکن ہے ہماری سمجھ میں نہ آئے تاہم ہمیں کسی بات کو اس وجہ سے رد نہیں کر دینا چاہیے کہ شروع میں یہ ہمیں سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ مستقل مزاجی کے ساتھ سیکھنے اور جستجو کرنے سے ہم وہ بات سمجھ سکتے ہیں جو پہلے ہماری سمجھ میں نہیں آ رہی تھی۔