تبتی طب کے بنیادی اصول

تعارف و تاریخ

ابتداءً میں یہ وضاحت کرتا چلوں کہ میں ایک طبیب نہیں ہو اس لیے برائے مہربانی مجھ سے مختلف بیماریوں کے بارہ میں مت پوچھا جائے۔ میں نے تبتی طب کا کچھ مطالعہ کیا ہے اور کئی برس تک تبتی ادویات لی ہیں اس لیے میں اس کی تاریخ کے بارہ میں کچھ وضاحت کر سکتا ہوں۔

تبتی طب کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ تبت میں ایک مقامی طبی روایت موجود تھی۔ ساتویں صدی عیسوی میں تبتی سلطنت کت قیام کے ساتھ ہی شہنشاہوں نے ھندوستان اور چین سے طبیبوں کو مدعو کیا اور وسطی ایشیا کے ایرانی اور رومی حصوں سے بھی۔ بعد از آں، آٹھویں صدی عیسوی کے اختتام کے لگ بھگ، انہوں نے ان علاقوں سے مزید طبیبوں کو بلا بھیجا۔ اور اسی زمانہ میں طب کے بارہ میں مہاتما بدھ کی تعلیمات بھی ھندوستان سے تبت لائی گئیں۔ یہ پدمسمبھاوا اور نیئنگما تعلیمات کی آمد کے زمانہ میں ہوا۔

اُس زمانہ میں اس بارہ میں ایک بڑی بحث جاری تھی کہ تبت کے لیے بدھ مت کی کونسی قسم اور کونسا نظامِ طب اختیار کیا جائے۔ کچھ وجوہات کی بنا پر، جن کا ہم یہاں ذکر نہیں کریں گے، ھندوستانی اقسام کو دونوں چیزوں کے لیے اختیار کر لیا گیا۔ اس زمانہ میں ایک عظیم تبتی طبیب تھا جس نے طب پر بنیادی ھندوستانی بودھی تعلیمات کو چینی اور وسطی ایشیا میں موجود یونانی طب کے کچھ پہلووں سے ہم آہنگ کر دیا تھا۔ اس زمانہ میں مشکلات کے باعث نہ صرف بودھی متون چھپا دیے گئے تھے بلکہ بہت سے طبی متون بھی۔ انہیں بارہویں صدی میں دوبارہ دریافت کیا گیا اور کچھ تبدیلیوں کے ساتھ ان کی تجدید کی گئی۔ موجودہ تبتی طبی نظام اسی نظرِ ثانی سے ماخوذ ہے۔

تبتی نظامِ طب تبت سے منگولیا، شمالی چین، سائبیریا اور وسطی ایشیا کے مختلف علاقوں میں بحیرہِ خزر تک پھیل گیا۔ تبتی طب اور تبتی ثقافت کے اور پہلووں کی وہ حیثیت تھی جو کہ قرونِ وسطی کے یورپ میں لاطینی ثقافت کی۔ اس کا نفوذ بحیرہِ خزر سے بحرِ اقیانوس اور سائبیریا سے ہمالیہ تک تھا۔ یہ ایک اہم تمدن تھا۔ آئیے اب تبتی طبی نظام کو دیکھتے ہیں۔

بیماریوں کی درجہ بندی

پتا چلتا ہے کہ بیماریوں کی درجہ بندی تین عنوانوں کے تحت کی گئی۔ پہلا عنوان مستحکم بیماریاں تھا۔ اس میں جینیاتی خرابیاں اور پیدائشی نقص وغیرہ شامل تھے۔ مستحکم بیماریاں اور نقص گزشتہ زندگیوں سے آتے ہیں اور ان کا علاج تبتی طب کے نقطہ نظر سے بہت ہی مشکل ہے۔ آپ اس میں مبتلا شخص کو صرف آرام مہیا کر سکتے ہیں۔ مثلاً اگر ہمیں بچپن سے دمہ کی بیماری ہے تو اس کا علاج بہت مشکل ہے۔

دوسرا درجہ بیماریاں ماخوذ از دیگر حالات ہے۔ اس میں جسم میں وہ عدم توازن شامل ہیں جو کہ مختلف حالات کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں مثلاً ماحول، ماحولیاتی آلودگی، جراثیم وغیرہ۔ یہ عام بیماریاں ہیں اور تبتی طب کی بنیادی توجہ انہیں پر ہے۔ اس کی مثال دمہ کا مرض ہے جو کہ بعد کی زندگی میں پیدا ہوتا ہے ایک آلودہ شہر میں رہائش اور ذہنی دباو کے زیرِ اثر۔

تیسرا درجہ فرضی بیماریوں کا ہےاور اس سے مراد ذہنی و بدنی عوارض اور بیماریاں ہیں جو کہ تبتوں کے خیال میں نقصان دہ طاقتوں سے پیدا ہوتی ہیں۔ اس درجہ میں جنگی ماندگی اور دماغی ہیجان شامل ہیں جو کہ جنگ کے دوران واقع ہوتے ہیں۔ ان بیماریوں کا علاج بنیادی طور پر مختلف رسوم کی ادائیگی کے ذریعہ کیا جاتا۔ ہم شاید اسے مُہمل خیال کریں لیکن اگر ہم افریقہ کی ایک مثال لیں تو پھر ہو سکتا ہے کہ ہم اسے بہتر سمجھ سکیں۔ اگر کوئی بہت بیمار ہو تو اُس کا رویہ اس کے مدافعتی نظام پر بہت حد تک اثر انداز ہوتا ہے۔ یہ جدید سائنس کی تحقیق شدہ بات ہے۔ اگر کسی شخص کا تمام محلہ اس کی خاطر رقص اور رسوم کی ادائیگی کرتے ہوئے ساری رات جاگے، تو اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ ہر کوئی اس کی مدد کر رہا ہے اور یہ اس کا حوصلہ بلند کرتا ہے جس کا اس کے مدافعتی نظام پر مثبت اثر ہوتا ہے۔ اور جب راہبوں یا راہبات کا ایک گروہ ہمارے لیے کسی رسم کی ادائگی کرے تو اس کا بھی یہی اثر ہوتا ہے۔ یہ مدافعتی نظام کو تقویت دیتا ہے اور اس سے مریض جلد تر شفا پا جاتا ہے۔

بیماریاں ماخوذ از دیگر حالات: پانچ عناصر اور تین مزاج

آئیے اب دوسرے درجہ کی بیماریوں کو دیکھتے ہیں۔ پہلے ہم بیماریوں کی نوعیت پر نگاہ کریں گے۔ جسم کا معائنہ پانچ عناصر یا تین مزاجوں کے توازن کی بنا پر کیا جاتا ہے۔ پانچ عناصر ہیں: زمین، پانی، آگ، ہوا اور خلا۔ یہ کوئی مجرد، عجیب چیزیں نہیں جو کہ جسم سے غیر متعلق ہوں۔ زمین سے مراد جسم کا ٹھوس رخ ہے، پانی سیال اور آگ گرمی ہے بشمول ہاضمہ کی گرمی اور تیزابیت کے اور ہوا سے مراد محض جسم میں موجود گیسیں ہی نہیں بلکہ جسم کی توانائی بھی ہے بشمول اعصابی نظام کی برقی توانائی کے۔ خلا سے مراد جم کے مکانی پہلو ہیں، مختلف اعضا کا مکان، اور خالی جگہیں جیسے کہ بطن وغیرہ۔ بیماریوں کا تصور ان کے غیر متوازن ہونے سے کیا جاتا ہے۔ ان پانچ عناصر کے نظام میں کوئی خرابی نہیں ہے۔

تبتی طب کا تین مزاجوں کے غیر متوازن ہونے سے بیماری پیدا ہونے کا نظریہ یونانیوں سے لیا گیا ہے لیکن اصل لفظ کا مطلب تبتی اور سنسکرت زبانوں میں "چیزیں جو خراب ہو سکتی ہیں" ہے۔ مزاج جسم کے تین نظام ہیں جن میں سے ہر ایک کے پانچ حصہ ہیں۔ یہ مجھ پر واضح نہیں ہے کہ ان پانچ حصوں کو ایک نظام میں کیوں گھسایا گیا ہے۔ یہ تین اہم نظام ہیں: ہوا، صفرا اور بلغم۔ آئیے دیکھیں کہ ان نظاموں میں کیا کچھشامل ہے۔

ہوا سے مراد جسم میں موجود ہوا ہے۔ کچھ ہوائیں جسم کے بالائی حصہ سے متعلق ہیں: وہ توانائی جو جسم کے بالائی حصہ سے اندر اور باہر جاتی ہے جب ہم نگلتے یا بات کرتے ہیں وغیرہ۔ اور کچھ ہوائیں جسم کے زیریں حصہ سے متعلق ہیں مثلاً ہم جب بول و براز، حیض اور ہیجانِ شہوت کو روکتے یا نکالتے ہیں۔ اس توانائی کا ایک پہلو نظامِ دورانِ خون اور فشارِ خون سے متعلق ہے۔ اور حرکت سے متعلق طبعی توانائی ہے اور اس کے علاوہ دل سے متعلقہ مختلف توانائیاں۔

صفرا یا زرد آب کا تعلق ہاضمہ کے مختلف پہلووں سے ہے جیسا کہ جگر کی پیدا کردہ صفرا۔ یہ رنگدار مادوں سے متعلق ہےجیسا کہ جب ہم سورج سے جل جاتے ہیں، اور اس کے علاوہ ہیموگلوبن (حسرۃ الدم)، سرخ خونی خلیات، اور آنکھوں سے بھی متعلق ہے۔

بلغم کا تعلق جسم کے نظامِ لعاب اور نظامِ زلال (لِمف) سے ہے۔ یعنی نزلہ، زکام وغیرہ اور یہ جوڑوں کی سیال حرکت سے بھی وابستہ ہے اور یہاں مجھے مغربی طبی اصطلاح کا درست علم نہیں ہے، میرے خیال میں اسے رطوبتِ زلالی کہتے ہیں۔ گھٹیا اور جوڑوں کا درد بلغم سے متعلق امراض ہیں۔ ہاضمہ ایک پیچیدہ نظام ہے جس کے مختلف مراحل سے ہوا، صفرا اور بلغم وابستہ ہیں۔ یہ سب ہی پیچیدہ نظام ہیں اور جیسا کہ میں نے کہا کہ میں نہیں جانتا کہ تینوں مزاجوں میں سے ہر ایک کے پانچوں درجہ اس میں کیسے پورے آتے ہیں۔

بیماریوں کا تصور ان تینوں مزاجوں کے غیر متوازن ہونے کے سبب سے کیا جاتا ہے جس کا مطلب ہے کہ ان میں سے کوئی ایک یا تو بہت مضبوط ہے یا بہت کمزور۔ عوارض سادہ بھی ہو سکتے ہیں اور کئی نظاموں کو بیک وقت عارضہ بھی پیش آ سکتا ہے۔ تبتی طب ایک مجموعی نظام ہے جو کہ تمام بدن کا علاج کرتا ہے کیونکہ جسم کے سارے نظام آپس میں مربوط ہوتے ہیں۔

بیماریوں کی درجہ بندی کے مختلف طریقہ ہیں۔ کبھی کبھار خون کو بطور ایک چوتھے نظام کے لیا جاتا ہے جس میں جسم کے عضلات بھی شامل ہوتے ہیں۔ اس تقسیم میں ہم صفرا، خون اور گرمی کے عوارض کو ایک درجہ میں رکھتے ہیں اور ہوا، بلغم اور سردی کے عوارض کو دوسرے درجہ میں۔ تبتی لوگ اکثر اپنی بیماریوں کو گرمی و سردی کی اصطلاح میں بیان کرتے ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ گرم و سرد سے کیا مراد ہے لیکن یقیناً اس سے مراد درجہ حرارت نہیں ہے۔

بیماری کی وجوہات

بالعموم، بیماری کی ایک وجہ خوراک ہو سکتی ہے یعنی ایسی چیز کھانا جو کہ زیادہ روغنی ہو اور یا ناسازگار۔ یا پھر ہمارا رویہ ہو سکتا ہے مثلاً سردی میں ناکافی کپڑوں میں باہر جانا۔ ٹھنڈی زمین یا کسی سرد، گیلے پتھر پر بیٹھنا گردوں کی تکلیف کا ایک یقینی سبب ہے۔ یا پھر بیماری کسی جراثیم وغیرہ کے سبب ہو سکتی ہے۔ یہ نکتہ مغربی طب سے مشابہ ہے۔ تاہم اس سے ماوراء، تبتی طب یہ کہتی ہے کہ ہمیں بیماری کی وجوہات کی عمیق تر سطحوں کو دیکھنا چاہیے۔ میرے خیال میں ہمارے نقطہ نظر سے تبتی طب کو دیکھنے کا سب سے دلچسپ اور کار آمد طریقہ یہ خیال ہے کہ جسمانی عدم توازن کی بنیادی وجوہات جذباتی اور ذہنی عدم توازن ہیں۔

اگر ہم عارضہ پر پوری کامیابی چاہتے ہیں تو پھر ہمیں ہر سطح پر متوازن ہونا چاہیے، بالخصوص جذباتی اور ذہنی سطح پر۔ بنیادی طور پر تین پریشان کن جذبات یا رویہ ہیں۔ پہلا آرزو اور وابستگی ہے۔ یہ وہ اعصابی تمنا ہے کہ مجھے یہ چیز چاہیے وگرنہ میں پاگل ہو جاوٗں گا۔ دوسرا غصہ ہے اور تیسرا سادہ لوح تنگ نظری اور ضد ہے۔ یہ تینوں مزاجوں کے عارضوں سے متعلق ہیں۔ آرزو سے ہوا کی بیماریاں آتی ہیں، غصہ سے صفرا کی اور تنگ نظری سے بلغم کی۔ یہ بہت دلچسپ ہے، آئیے اس کا معائنہ کرتے ہیں۔

ہوا سے متعلقہ بیماریاں کی نشانی عموماً اعصابی کمزوری ہوتی ہے۔ یہ بیماریاں فشارِ دم سے متعلق ہیں۔ ہمیں سینے میں گھٹن محسوس ہوتی ہے، ہمیں یوں لگتا ہے کہ ہمارا دل ٹوٹ گیا ہے اور ہم افسردگی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ بہت عام ہوا کی بیماریاں ہیں کہ جن کا تعلق تمنا اور آرزو سے ہے۔ مثلاً اگر ہمیں بہت پیسہ بنانے سے وابستگی ہو تو ہم بہت کام کرتے ہیں اور فشار خون کا شکار اور اعصابی ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح اگر ہمیں ایک شخص سے محبت ہو اور وہ فوت ہو جائے یا ہمیں چھوڑ دے تو ہم شکستہ دلی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ جو لوگ مراقبہ کی غلط تکنیک استمعال کرتے ہیں اور اس پر بہت محنت کرتے ہیں وہ بھی ہوائی عوارض کا شکار ہوتے ہیں۔ جب ہم کسی بھی چیز پر بہت محنت کریں تو ہمارےبدن میں توانائیاں نچڑ جاتی ہیں اور نتیجتاً ہمیں سینہ میں تنگی، اعصابیت اور مالیخولیا کا احساس ہوتا ہے۔ انتڑیوں اور پیٹ میں جلن بھی ہوائی عوارض ہیں۔ ان سب کی اساسی وجہ آرزو اور تمنا کی زیادتی ہے۔

صفرا کے عوارض کی بنیاد غصہ ہے۔ معدہ کا زخم (السر) تب پیدا ہوتا ہے جب معدہ میں صفرا کی افراط ہو اور یہ شدید غصہ کی بنا پر ہوتا ہے۔ جب ہمیں غصہ آتا ہے تو ہمارا رنگ سرخ ہو جاتا ہے۔ صفرا کا اثر رنگدار مادوں پر بھی پڑتا ہے۔ یرقان میں ہم زرد ہو جاتے ہیں اور غصہ میں سرخ۔ غصہ کی بنا پر صفرا سے متعلق سر درد بھی ہوتا ہے۔ ہماری آنکھیں جلتی ہیں اور ہمارا سر بھی۔

بلغم کا تعلق سادگی اور تنگ نظری سے ہے۔ ہم کچھ خیالات پر ضد کر کے قائم ہو جاتے ہیں اور کسی کی کچھ نہیں سننا چاہتے۔ یا پھر کچھ لوگوں کے لیے ہمارا دل تنگ ہو جاتا ہے اور ہم ان سے نہیں ملنا چاہتے۔ جیسا کہ ہمارے دل و دماغ تنگ ہو جاتے ہیں، اسی طرح ہمارے ناک کے سوراخ بھی بند ہو جاتے ہیں اور ہمیں تنفس اور سینہ کی بیماریوں کا سامنا ہوتا ہے مثلاً دمہ، نمونیا اور جسم جوڑوں کے مرض اور گٹھیا سے سخت ہو جاتا ہے۔ جسم بھی ذہن کی بے لچکی کا انعکاس کرتا ہے۔

اگرچہ ممکن ہے کہ یہ بالکل درست نہ ہو لیکن اس قسم کے تصورات کا اطلاق ہم دوسری بیماریوں پر بھی کر سکتے ہیں۔ اکثر ہم سرطان کے مریضوں میں ہم ان کی ذات کے لیے تباہ کن رویہ پاتے ہیں۔ میری خالہ کی وفات کے بعد میرے خالو کی زندگی کی خواہش ختم ہو گئی ان کا زندگی کا قرینہ اپنے لیے تباہ کن ہو گیا اور جلد ہی انہیں بھی سرطان کا مرض لاحق ہو گیا جس میں ان کے بدن نے اپنے آپ کو ختم کر لیا، ایک سال کے اندر ان کی وفات ہو گئی۔ ہم سوچ سکتے ہیں کہ ان کی ذہنی حالت، سرطان کی جسمانی تباہی کا انعکاس تھی۔ یہ ظاہر ہے کہ ہر قسم کے سرطان کے بارہ میں درست نہیں ہے لیکن یہ ہمیں فکر کے مواقع فراہم کرتا ہے۔

ایڈز کے مرض میں جسم کی قوتِ مدافعت ختم ہو جاتی ہے۔ اس میں مبتلا کچھ لوگ اپنے نشہ اور بلا امتیازجنسی تعلق کی لتوں کو نہیں چھوڑ سکتے۔ جس طرح وہ ان عادتوں کو نہیں چھوڑ سکتے اسی طرح ان کا جسم بیماریوں کے خلاف اپنا دفاع نہیں کر سکتا۔ میرے نزدیک تبتی طب کے عملی فائدہ کے علاوہ اس کا یہ پہلو سب سے دل پزیر ہے۔

بیماریوں کی تشخیص

آئیے اب اصل طبی نظام کی طرف چلتے ہیں۔ تشخیصی طریقہ سوالات، بصری معائنہ اور نبض لینے پر مشتمل ہیں۔ تبتی لوگ یہ پوچھنے پر کہ آپ کے ساتھ کیا مسئلہ ہے، زیادہ زور نہیں دیتے۔ زور آخری دونوں طریقوں پر ہے۔ بصری امتحان میں زبان کا دیکھنا شامل ہے لیکن اس کا زیادہ زور پیشاب کی جانچ پر ہے۔ طبیب صبح کے پہلے پیشاب کا معائینہ کرتا ہے جو کہ اس کے پاس ایک سفید یا شفاف برتن میں لے جایا جاتا ہے جسے وہ پھر ایک چھڑی سے خوب ہلاتا ہے۔ طبیب مختلف متغیر عوامل کا امتحان کرتا ہے۔ پہلے وہ اس کا رنگ دیکھتا ہے پھر یہ دیکھتا ہے کہ اسے ہلانے سے کتنے بلبلہ پیدا ہوئے، وہ کتنے بڑے تھے اور کتنے عرصہ تک رہے۔ اور جب وہ غائب ہوئے تو کیسے اور آیا کہ ان میں چکنائی تھی یا نہیں۔ کیا پیشاب کثیف ہے اور کیا اس میں ذرات موجود ہیں۔ وہ اس کی بو کا بھی معائینہ کرتا ہے اور اگر وہ اسے صبح بر وقت دیکھے تو یہ بھی دیکھتا ہے کہ جب وہ ٹھنڈا ہوتا ہے تو اس کا رنگ کیسے بدلتا ہے ۔ ان تمام متغیر عوامل کو سامنے رکھ کر آپ مرض کی ایک بہت دقیق تشخیص کر سکتے ہیں۔

پیشاب کی جانچ، دراصل، تشخیص کا ایک بہترین طریقہ ہے کیونکہ، جیسا کہ نبض لیتے وقت، طبیب کو مریض کی عمر، جنس اور موسم کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے تو جب وہ پیشاب کا معائینہ کرتے ہیں تو یہ بھی دیکھتے ہیں کہ وہ کتنا پرانا ہے۔ اس طرح سے طبیب دو ہفتہ تک پرانے پیشاب کا بھی معائینہ کر سکتے ہیں۔ یہ امر تبت میں بہت مددگار تھا کیونکہ کئی مرتبہ خاندان کے کسی فرد کو پیشاب کا نمونہ لے کر بذریعہ خوشگاو ہفتہ دو کا سفر کر کے طبیب تک پہنچنا پڑتا تھا۔ جدید زمانہ میں اسے بذریعہ ہوائی ڈاک کے، ہمیں ھندوستان بھیجنا پڑ سکتا ہے۔

نبض کا بھی معائینہ کیا جاتا ہے اور یہ بھی ایک پیچیدہ طریقہ ہے۔ طبیب عموماً تین انگلیوں سے نبض کلائی سے لیتا ہے، انگوٹھے سے ذرا اوپر۔ ہر انگلی کو وہ مختلف طاقت سے دباتا ہے۔ پہلی انگلی سے صرف سطحی نبض لی جاتی ہے، درمیانی انگلی ذرا زیادہ زور سے دبائی جاتی اور تیسری انگلی اتنے زور سے دبائی جاتی ہے جتنا کہ ممکن ہو۔ ہر انگلی ذرا ایک طرف سے دوسری طرف گھمائی جاتی ہے۔ یہ عمل دونوں کلائیوں پر کیا جاتا ہے۔ اس طرح سے انگلی کی دونوں اطراف جسم کے مختلف حصوںکی تشخیص کرتی ہیں۔ نبض کی شرح کا موازنہ طبیب کے تنفس سے کیا جاتا ہے۔ قدیم تبت میں کلائی گھڑیاں نہیں تھیں اس لیے طبیب اپنے سانسوں سے نبض گنا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ نبض دبانے سے اس پر کیا اثر پڑتا ہے، کیا وہ غائب ہو جاتی ہے؟ کیا وہ زور سے دوبارہ عود آتی ہے؟ نبض کو تین انگلیوں سے محسوس کر کے یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہ رگ میں کیسے سفر کرتی ہے، اس کی 'شکل' دیکھی جاتی ہے، کیا وہ گھومتی ہے؟ کیا اس کی تیز نوکیں ہیں؟ کیا وہ ایک طرف سے دوسری طرف مڑتی ہے؟ اس طرح کی بہت سی ممکنات ہیں۔ ظاہری بات ہے کہ اس کے لیے ضروری ہے کہ طبیب کی انگلیاں بہت حساس ہوں۔ اگرچہ ھندوستانی ہندو آیورویدی نظام اور چینی نظامِ طب میں بھی نبض شناسی شامل ہیں لیکن ہر نظام میں اس کا طریقہ مختلف ہے۔ پیشاب کا تجزیہ البتہ لگتا ہے کہ تبتی نظام میں یکتا ہے۔

علاج

ان مختلف چیزوں کے معائینہ سے ایک طبیب تشخیص تک پہنچتا ہے۔اس کے بعد ہمیں علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔علاج میں غذا اور رویہ میں اصلاح اور دوا لینا شامل ہیں لیکن مختلف بیماریوں کے علاج کے اور بھی طریقہ ہیں مثلاً آکوپنکچر اور جڑی بوٹیوں سے جسم کے مختلف اعضا کو داغنا۔

خوراک

اگر ہم ایک ہوائی عارضہ میں مبتلا ہوں تو کچھ غذائیں ہمارے لیے بہت نقصان دہ ہوتی ہیں۔ مثلاً کافی میں موجود کیفین ایک ہوائی عارضہ کو بڑھاتی ہے۔ ہم پریشان ہو جاتے ہیں اور ہمارا فشارِ خون بڑھ جاتا ہے۔ دالیں، پھلیوں کی طرح ہوا بناتی ہیں اور ریح کا اخراج اس کی ایک نشانی ہے۔صفرا کے عوارض کے لیے انڈے اور تلی ہوئی غذائیں بہت بری ہیں۔ بلغم کی بیماریوں میں ہم چاول اور دودھ دہی سے پرہیز کرتے ہیں کیونکہ ان سے بہت بلغم پیدا ہوتا ہے۔ یہ چیز ہم مغرب میں بھی دیکھتے ہیں۔ ان بیماریوں کے لیے دوسری قسم کی غذا بہت سودمند ثابت ہو سکتی ہے۔ مثلاً بلغم کے لیے گرم پانی پینا بہت مفید ہے کیونکہ اس سے بلغم دھل جاتا ہے۔

رویہ میں تبدیلی

جہاں تک رویہ میں تبدیلی کا تعلق ہے، اگر ہمیں ایک ہوائی عارضہ میں مبتلا ہوں تو یہ اہم ہے کہ ہم جسم کو گرم رکھیں اور مہربان دوستوں کے ہمراہ رہیں۔ ہنسنا ہوائی عوارض کے لیے ایک فائدہ مند چیز ہے۔ جب ہم پریشان اور اعصابی ہوں تو ہنسی ہمیں اس حالت سے نجات دلاتی ہے۔ دور کے مناظر کو دیکھنا بھی سود مند ہے اور ہمیں پنکھے کے سامنے اور باہر تیز ہوا میں نہیں کھڑے ہونا چاہیے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ طاقتور مشینیں جو شور مچاتی ہیں کی قربت مثلاً اے سی اور گھاس کاٹنے کی موٹر والی مشین، لوگوں کو اور زیادہ اعصابی بنا دیتی ہے۔ صفرا کے عوارض میں ٹھنڈا رہنا اور دھوپ میں نہ نکلنا سودمند ہیں۔ بلغم کے لیے ورزش اور گرم رہنا فائدہ مند ہیں۔ اس سے جوڑوں میں لچک پیدا ہوتی ہے جس سے بلغم خارج ہو جاتا ہے۔

ادویات

تبتی طب میں دوا لینا بنیادی علاج ہے۔ دوا زیادہ تر جڑی بوٹیوں سے بنتی ہے اور اس میں مختلف معدنی مادہ وغیرہ بھی شامل ہوتے ہیں۔ ہر دوا میں پچاس کے لگ بھگ اجزا شامل ہو سکتے ہیں۔ عموماً انہیں پیس کر گولیاں بنائی جاتی ہیں۔ ان گولیوں کو گرم پانی کے ساتھ چبایا جاتا ہے۔ اگر انہیں چبائے بغیر نگل لیا جائے تو زیادہ امکان یہ ہے کہ وہ جسم سے حل ہوئے بغیر خارج ہو جائیں گی کیونکہ وہ عموماً بہت سخت ہوتی ہیں۔ تبتوں کے دانت بہت مضبوط ہوتے ہیں لیکن اگر ہم انہیں چبانا مشکل جانیں تو انہیں رومال میں لپیٹ کر ہتھوڑے کی مدد سے دوبارہ سفوف بنایا جا سکتا ہے۔

دوا، کھانے سے نیم ساعت قبل یا بعد لی جاتی ہے۔ کبھی کبھار سہ پہر میں چار بجے ایک چوتھی خوراک بھی لی جاتی ہے کیونکہ تبتی دوپہر کا کھانا نصف النہار پر کھاتے ہیں۔ یہاں میکسیکو اور لاطینی ممالک میںاگر آپ کو چار مختلف ادویات کی ہدایت دی گئی ہے تو آپ کو دوپہر کے کھانے والی نیم روز کے وقت پر اور سہ پہر والی چار بجے کھانے کے ساتھ لینی ہو گی۔

تبتی ادویات کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ ان کے ضمنی اثرات نہیں ہوتے سوائے کچھ استثناء کے۔ یہ کسی حد تک ہومیوپیتھک ادویات کی مانند ہیں، اس طرح نہیں کہ ان کی کوچک خوراک ہو بلکہ اس طرح کہ دوا پہلے بیماری کو اکٹھا کرتی ہے تاکہ وہ مرتکز ہو جائے اور پھر وہ اس کو تباہ کرتی ہے۔ اس وجہ سے بعض اوقات بیماری شروع میں کچھ بڑھ جاتی ہے لیکن یہ محض اس بات کی نشانی ہے کہ دوا بیماری کو اکٹھا کر رہی ہے تاکہ اس کو ختم کر سکے۔ ہمیں اس ابتدائی مرحلہ سے صبر سے گزرنا پڑتا ہے۔

دوا لیتے ہوئے اس کو چبانا نہ صرف اس لیے ضروری ہے کہ ہم اسے ہضم کر سکیں بلکہ اس لیے بھی کہ ہم اس کا ذائقہ چکھ سکیں۔ اس کا ذائقہ عام طور پر بہت برا ہوتا ہے، بعض اوقات ناقابلِ تصور حد تک۔ اس کو چکھنا اس لیے اہم ہے کہ اس سے منہ اور ہاضمہ کی نالی میں مختلف لعاب اور رطوبتیں خارج ہوتی ہیں۔ دوا کی فعالیت میں یہ شامل ہے کہ وہ بدن سے مختلف کیمیائی خمیر وغیرہ کا اخراج کرائے لہذا ہمیں دوا کے بد ذائقہ پر صبر کرنا پڑتا ہے۔

یہ دلچسپ بات ہے کہ کھانوں اور تبتی ادویات کے مختلف اجزا کی درجہ بندی ذائقہ کے حساب سے کی جاتی ہے نہ کہ چینی پنج عنصری نظام یا یِن اور یانگ سے اور نہ ہی تین اقسام یعنی راجا، ستوا اور تاما کی آیورویدی درجہ بندیکے مطابق۔ تبتی طبیب ان کی درجہ بندی ان کے بنیادی ذائقوں اور ثانوی ذائقوں کی بنیاد پر کرتی ہے۔ کچھ ذائقہ کچھ بیماریوں کے لیے فائدہ مند ہوتے ہیں۔

اسی طرح غذا اور جڑی بوٹیوں کے لیے اٹھارہ مختلف اقسام کی ایک درجہ بندی بھی ہے۔ یہاں دلچسپ بات یہ ہے جس جگہ غذا اور جڑی بوٹیاں اگتی ہیں اس کا ان کے معیار پر اثر پڑتا ہے۔ ایک چیز جو کہ ایک ہوا دار جگہ پر اگتی ہے اس میں ایک خصوصیت پیدا ہو جاتی ہے جو کہ ایک خشک جگہ پر اگنے والی چیز میں نہیں ہوتی۔ پس طبی پودے اگانے میں یہ ایک مسئلہ ہوتا ہے کیونکہ وہ صرف اپنے قدرتی مسکن میں اُگ سکتے ہیں۔

مالش اور آکوپنکچر

تبتی طب میں مالش پر زیادہ زور نہیں ہے۔ مخصوص بیماریوں میں کچھ ادویاتی تیلوں کو ملا جاتا ہے مگر یہ ملنا مالش کی طرز کا نہیں ہوتا۔ جاپانی ریکی نظام کے بر عکس تبتی طب میں ہالہ کہ ساتھ دستکاری نہیں کی جاتی۔ چینی نظام سے مختلف ایک آکوپنکچر کا نظام بھی موجود ہے۔ اس کے نقاط اور توانائی کی روشیں چینی نظام سے فرق ہیں۔ سوئیاں بھی مختلف ہیں۔ تبتی مختلف مادوں کی سوئیاں استمعال کرتے ہیں اور سونے کی سوئی سب سے عام ہے۔ اس کو مختلف اعصاب کو حرکت میں لانے کے لیے سر کے اوپر نرم حصہ میں چبھایا جاتا ہے۔ اس کو مرگی وغیرہ کے علاج میں استمعال کیا جاتا ہے۔

موکسا سے داغنا

موکسا جسم کے مختلف حصوں پر حدت پہنچانے یا انہیں داغنے کا نام ہے۔ یہ جسم کے انہیں نکات پر کیا جاتا ہے کہ جہاں آکوپنکچر ہوتا ہے۔ بلند اور سرد مقامات پر موکسا زیادہ اثرانگیز ہے جب کہ گرم اور میدانی مقامات میں سوئیاں بہتر رہتی ہیں۔ تاہم مخصوص بیماریوں میں موکسا تجویز کیا جاتا ہے۔

اس کا نظریہ یہ ہے کہ جسم میں توانائی کی اہم روشوں میں بندش ہو جاتی ہے داغنے یا سوئیاں لگانے سے یہ رکاوٹ دور ہو جاتی ہے۔ داغنے کا عمل مختلف درجہ حرارت پر کیا جا سکتا ہے۔ سب سے نرم طریقہ لکڑی کے قبضہ میں ایک مخصوص طرح کے پتھر کے ذریعہ ہے۔ یہ تبت میں پایا جانے والا ایک خاص سفید پتھر ہوتا ہے جس پر سیاہ دھاریاں ہوتی ہیں اور اسے "سنگِ زی" کہتے ہیں۔ اسے ایک لکڑی کے تختہ پر رگڑ کے گرم کیا جاتا ہے اور پھر جسم کے مخصوص حصوں پر لگایا جاتا ہے۔ میں نے مختلف امراض کے علاج کی خاطر خود اپنے اوپر اسے کئی سو مرتبہ کیا ہے۔ آئیے میں آپ کو اس کی تفصیل بتاتا ہوں۔

مجھ میں گھٹیا کے مرض کے ابتدائی نشان موجود تھے اور نتیجتاً میرے کندھوں اور کولہوں میں درد ناک سوجن تھی۔ طبیب نے مجھے دوا دی جس نے اس چیز کو کہ جسے تبتی "لمف" کہتے ہیں ان درد والی جگہوں پر کھینچ لیا اور وہاں طبیب نے اسے داغا۔ اُس نے یہ تین سے چار سال کے عرصہ میں کیا۔ داغنے سے اتنی درد نہیں ہوتی، یہ سگرٹ سے داغنے کی مانند ہے اور بہت درد انگیز نہیں اگرچہ دیکھنے میں یہ خاصا خوفناک لگتا ہے۔ مجھے علم نہیں کہ مغربی طب کے نکتہِ نظر سے اس کی کیا شرح ہو گی لیکن میرے اپنے خیال میں ہو یہ رہا تھا کہ جوڑوں پر لمفی گلٹیوں میں سوزش تھی یا شاید جوڑوں کی رطوبتِ زلالی میں مسئلہ تھا۔ بہر کیف، جب طبیب نے ان نکات کو داغا تو اندر موجود سیال مادہ نے ایک پھوڑا بنا لیا کیونکہ داغنے سے درد فوراً ختم ہو گئی۔ میرا اس کو دیکھنے کا ایک اور طریقہ یہ ہے کہ جب جسم کو مخصوص مقامات پر داغا جائے تو جسم میں ایک بڑی مقدار میں خون کے سفید خلیات اس جگہ پہنچ کر وہاں جو بھی بیماری ہو اسےختم کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ میں نے اس علاج کو بہت مددگار پایا اور میں تندرست ہو گیا۔

مجھے ایک اور مرض بھی درپیش تھا۔ کبھی کبھار جب آپ پہاڑوں میں بہت زیادہ اوپر نیچے چلتے ہیں تو ایک عضلہ گھٹنے کی ہڈی سے رگڑ کھانے شروع ہو جاتا ہے اور بہت درد کرتا ہے۔ میں ایک مغربی ڈاکٹر کے پاس گیا اور اُس نے مجھے کہا کہ چلتے وقت اس پر پٹی باندھ لیا کرو! اس کا بہت شکریہ۔ میں نے چینی آکوپنکچر کروایا اور کوئی فائدہ نہ ہوا۔ آخر کار میں ھندوستان گیا اور وہاں اپنے تبتی طبیب سے ملا۔ اس نے مجہے گھٹنے پر اور ٹانگ کے اوپر والے حصہ پر ایک اور جگہ داغا اور میں بالکل تندرست ہو گیا۔ پس میں اپنے ذاتی تجربہ سے کہ سکتا ہوں کہ موکسا ایک بہت موثر علاج ہے۔

داغنے کا ایک زیادہ زور آور طریقہ لوہے یا چاندی کی ایک سلاخ استمعال کرتا ہے کہ جسے کوئلوں پر گرم کیا جاتا ہے۔ میں نے اس طریقہ کو ریڑھ کی ہڈی کے علاج میں استمعال ہوتے دیکھا ہے کہ جب کوئی ایک مہرہ خراب ہو جاتا ہے یا ہڈی کی سیدھ خراب ہو جاتی ہے۔ اس طریقہ میں ریڑھ کے گرد مخصوص نقاط پر داغا جاتا ہے اور اس سے جسم کو اتنا شدید دھچکا پہنچتا ہے کہ اس سے ہڈی خود بخود سیدھی ہو جاتی ہے۔ اور اگرچہ دیکھنے میں قرونِ وسطی کا طریقہ علاج لگتا ہے لیکن یہ کار آمد ہے۔

داغنے کے اس سے بھی زیادہ شدید طریقے ہیں جن میں ایک مخروطہ میں ایک خاص قسم کی لئی کو کہ جو آہستہ سلگتی ہے، جلا کر لگایا جاتا ہے۔اس قسم کا داغنا گٹھیا کے مرض کے شدید حملہ میں استمعال کیا جاتا ہے کہ جب جوڑوں کا ہلنا بالکل بند ہو جائے۔

علاج کی دیگر اقسام

تیل اور مکھن کو جڑی بوٹیوں میں ملا کر اور بھی مرہم بنائے جاتے ہیں جنہیں جِلدی امراض میں استمعال کیا جاتا ہے۔ نباتاتی حقنہ بھی ہیں جو زیرینی انتڑیوں کی لیے فائدہ مند ہوتے ہیں۔ اسی طرح کچھ سفوف ہیں کہ جنہیں نسوار کی طرح استمعال کیا جاتا ہے زکام کے لیے۔

تربیت

تبتی طبی نظام میں تربیت کے ایک لمبے عرصہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ طبیب عام طور پر سات برس تک تربیت حاصل کرتے ہیں اور وہ نہ صرف مریضوں کا علاج سیکھتے ہیں بلکہ جانوروں کا بھی اور نہ صرف دوا کے بارہ میں جانتے ہیں بلکہ اصول دوا سازی بھی۔ وہ طبی پودوں کی پہچان، انہیں اکٹھا کرنا اور ان سے دوا سازی بھی سیکھتے ہیں۔

علمِ نجوم

تبتی طبی نظام میں علمِ نجوم کا کچھ مطالعہ بھی شامل ہے۔تبتی علم نجوم کا ایک پہلو پیدائش کے سال کا جانور ہے۔ ہر جانور کے لیے ہفتہ کے کچھ دن یا زندگی افروز اور یا خطرناک ہوتے ہیں۔ پس اگر طبیب کوئی عمل کرنے لگے جیسا کہ داغنا اور وقت مہیا ہو تو پھر وہ علم نجوم سے یہ بھی دیکھتے ہیں کہ اس کام کے لیے ہفتہ کا کونسا دن مناسب رہے گا۔ یہ ہمیشہ ممکن نہیں ہوتا جیسا کہ ہنگامی صورتحال میں یا جب وقت مہیا نہ ہو۔

عملِ جراحی

قدیم زمانہ میں تبتی طب میں عمل جراحی شامل تھا۔ پرانے متون میں جراحی کے اوزاروں کی تصاویر موجود ہیں۔ تاہم ماضی میں ایک مرتبہ ایک طبیب نے ایک ملکہ پر ناکام دل کی جراحی کی۔ اس کے بعد سے جراحی کے عمل پر پابندی لگ گئی۔ تبتی طب، بہت سے امراض کہ جن کا مغرب میں جراحی سے علاج ہوتا ہے مثلاً ورمِ زائدہ، کا جڑی بوٹیوں کے ذریعہ علاج کر سکتی ہے۔ اسی طرح اگر ہم کار کے حادثہ میں زخمی ہو جائیں تو تبتی طب ہماری ہڈیاں جوڑنے میں مدد کر سکتی ہے۔ صدمہ اور تندرستی کے عمل کو تیز تر کرنے کی ادویات بھی موجود ہیں۔ لیکن اگر ہمیں اگر جراحی کی واقعی ضرورت درپیش ہو تو پھر کسی مغربی ڈاکٹر کے پاس جانا بہتر رہے گا۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں اپنی ساری امیدیں کسی ایک طبی نظام سے نہیں وابستہ کرنی چاہییں۔ دنیا کے مختلف طبی نظام مختلف چیزوں کے لیے کار آمد ہیں۔ کچھ بیماریاں ایسی ہیں کہ جن کا تبتی طب کبھی علاج نہیں کر سکی جیسے کہ چیچک اور تپ دق۔ لیکن کچھ اور چیزیں کہ جن کا مغرب میں کوئی علاج نہیں ان کا تبتی نظام طب میں بہترین علاج موجود ہے جیسا کہ گھٹیا اور ہیپاٹائٹس۔ سب نہیں لیکن کچھ قسم کے سرطان بھی تبتی ادویات سے متاثر ہوتے ہیں۔ اور جب تبتی طب سرطان کا علاج نہیں بھی کر سکتی تو بھی وہ درد کم کرنے اور مریض کی زندگی کا معیار بہتر بنانے میں کار آمد ہوتی ہے۔

جدید موافقت

یہ امر خاصا دلچسپ ہے کہ قدیم متون میں مستقبل میں نئی بیماریوں کے بارہ میں پیشگوئیاں موجود ہیں۔ اب ہمیں ایڈز اور ماحولیاتی آلودگی سے متعلق بیماریاں درپیش ہیں۔ ان کی دوا بنانے کے فارمولے متون میں موجود ہیں لیکن کسی قدرمبہم اور غیر واضح ہیں۔ ڈاکٹر تنزن چوڈاک نے، جو کہ عزتِ مآب دلائی لامہ کے مقدم طبیب بھی ہیں، سب سے پہلے ان فارمولوں کو غیر مرموز کر کے نئی دوائیاں بنائیں۔

ان میں سے بہت سی دوائیاں سم ربا پارہ سے یعنی ایسے سیماب سے کہ جس کا زہر دور کر دیا گیا ہو، بنائی جاتی ہیں۔ اسے بہت سے دوسرے اجزا کے ساتھ کئی ماہ تک بہت آہستہ آنچ پر پکایا جاتا ہے تاکہ اس کا زہر دور ہو جائے۔ اس قسم کی دوا آلودگی سے متعلقہ بیماریوں کے لیے بہت مددگار ثابت ہوئی ہے اور جدید زمانہ کی بہت سی بیماریاں آلودگی سے متعلق ہیں۔ اس قسم کی دوا ھندوستان میں بھوپال کے کیمیائی سانحہ کے متاثرین کے علاج میں کامیاب ثابت ہوئی تھی۔ مجھے یہ شرف حاصل ہے کہ چند سال قبل، روسی وزارتِ صحت کی دعوت پر میں نے ڈاکٹر تنزن چوڈاک کے ہمراہ روس کا سفر کیا جہاں وہ چرنوبل حادثہ کی تابکاری شعاعوں کے مریضوں پر ان ادویات کا تجربہ کر رہے تھے۔ابتدائی نتائج بہت حوصلہ افزا تھے۔ پس اگرچہ تبتی نظامِ طب قدیم و پیچیدہ ہے لیکن یہ جدید بیماریوں کا بھی مقابلہ کر سکتا ہے اور بہت سے امراض میں کار آمد ثابت ہو سکتا ہے۔

علاج کی طرف ایک حقیقت پسندانہ رویہ

ہمیں تبتی دوا کھانے سے معجزوں کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ ہمیں کرم کو بھی مدِ نظر رکھنا چاہیے۔ دو شخص ایک ہی بیماری میں ایک ہی دوا لیتے ہیں اور وہ ان میں سے ایک پر اثر انداز ہوتی ہے اور دوسرے پر نہیں۔ اس میں بہت سے عوامل کارگر ہیں۔ ایک تو ایک مخصوص علاج اور مخصوص طبیب کے ساتھ گزشتہ زندگیوں سے کرمی سلسلہ ہے۔ اگر ہم نے بیماری کے علاج کے لیے کرمی طاقتوں کو ترقی نہیں دی ہے تو پھر یہ فرق نہیں پڑتا کہ طبیب کون ہے اور ہم کیا دوا لیتے ہیں۔ کچھ بھی مدد گار نہیں ہو گا۔ ہمیں کسی بھی نظامِ طب کی طرف، بشمول تبتی نظام کے، ایک حقیقت پسندانہ رویہ رکھنا چاہیے۔ ہمیں یقیناً ایک مثبت رویہ رکھنا چاہیے کیونکہ وہ بدن کے دفاعی نظام کے لیے مدد گار ہوتا ہے۔ لیکن ہمیں معجزوں کی توقع نہیں رکھنی چاہیے اور نہ ہی یہ کہ اگر دوا ہماری امید کے مطابق کام نہ کرے تو ہم طبیب کو عدالت میں گھسیٹتے پھریں۔

سولات و جوابات

کیا آپ شفایابی کی رسومات کے بارہ میں کچھ بتائیں گے؟

ہم نے جو کچھ کرموں کے بارہ میں کہا، شفایابی کی رسومات کی بحث بھی اس سے متعلق ہے۔ خیالی بیماریاں جو کہ خبیث قوتوں کے زیرِ اثر پیدا ہوتی ہیں، ان کا شفایابی کی رسومات اور دعاؤں سے علاج کیا جاتا ہے۔تبتی لوگ اکثر دعاؤں اور پوجا کو بطور طبی علاج کے ضمیمہ کے استمعال کرتے ہیں۔ بغیر طبی علاج کے محض پوجا نہیں کی جاتی، ایسا کرنا مندرجہ ذیل لطیفہ کے مترادف ہو گا۔

ایک شخص نے خدا سے مدد کے لیے دعا کی۔ آخرکار خدا نے پوچھا "تم کیا چاہتے ہو؟" اس نے جواب دیا "میں لاٹری جیتنا چاہتا ہوں"۔ خدا نے کہا، "چلو ٹھیک ہے۔" اس شخص نے بہت انتظار کیا اور کچھ نہ ہوا۔ پس ان نے دوبارہ دعا شروع کی "اے خدا تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا؟" جس پر جواب ملا: "بیوقوف، لاٹری کی ٹکٹ تو خریدو"۔

رسومات تب تک اثر نہیں کرتیں جب تک ہم لاٹری کی ٹکٹ نہ خریدیں۔ تب ان کا اثر ہو سکتا ہے۔ لیکن وہ معجزے نہیں پرپا کر سکتیں۔ وہ صرف تب مددگار ہو سکتی ہیں جب اس قسم کی رسم کی مدد کا کرمی امکان موجود ہو۔ ان رسوم کے بارہ میں ہمیں حقیقت پسندانہ ہونا چاہیے۔ وہ ہمارے اعتماد کو تو تقویت دے سکتی ہیں لیکن ان کا مقصد طبی کاروائیوں کے ضمیمہ کا ہے۔ وہ معجزہ یا جادو نہیں ہیں۔

کیا آپ قیمتی جواہرات سے بنائی گئی ادویات کے بارہ میں کچھ بتا سکتے ہیں؟

تبتی طب میں "قیمتی گولیاں" موجود ہے جو کہ عموماً سم ربا پارہ اور کچھ قیمتی جواہرات اور دھاتوں سے بنائی جاتی ہیں۔ مجھے علم ہے کہ وہ الماس کا سفوف اور سونا اور چاندی استمعال کرتے ہیں۔ چند معدنیات بھی استمعال ہوتے ہیں گرچہ میں نہیں جانتا کہ کونسے۔ ان قیمتی گولیوں کو زہر وغیرہ کا اثر دور کرنے کے لیے استمعال کیا جاتا ہے۔ یہ عام طور پر رنگین ریشم میں لپٹی ہوئی اور موم سے مہر بند ہوتی ہیں کیونکہ یہ روشنی سے حساس ہوتی ہیں۔ اور ان پر روشنی نہیں ڈالنی چاہیے۔ کبھی کبھار انہیں پانی میں بھگونا پڑتا ہے کسی پیالہ میں ڈال کر اور اس پر کوئی پرچ رکھ کر۔ یا پھر ریشم کو کاٹ کر انہیں فوراً منہ میں ڈال لینا چاہیے۔

جب آپ کے ہوائی عوارض کا علاج ہو رہا تھا تو کیا طبیبوں نے آپ کو گرم یا سرد پانی میں نہانے کا مشورہ دیا؟

نہیں انہوں نے نہانے کے بارہ میں کوئی مخصوص بات نہیں کہی۔ کچھ ہوائی عوارض کی بطور گرم یا سرد درجہ بندی ہوتی ہے۔ کچھ کے لیے گرم رہنا مفید ہے اس لیے گرم پانی میں نہانا تو مددگار ہو گا لیکن بھاپ کا غسل خانہ نہیں۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ جب ہم بھاپ کے غسل خانہ (سونا) میں جاتے ہیں تو یہ ہوا کے لیے اچھا نہیں ہوتا اور اس سے فشارِ خون بھی بڑھ جاتا ہے۔ گرمی صفرا کے امراض کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔ بلغم کے امراض میں پسینہ بہنا مددگار ہے کیونکہ اس سے زائد بلغم کا اخراج ہو جاتا ہے اس لیے سونا اس کے لیے فائدہ مند ہو گا۔

کیا ایسی بیماری کا سراغ لگانا ممکن ہے کہ جس کی علامات ابھی ظاہر نہ ہوئی ہوں؟

تبتی یقیناً ایسی بیماریوں کا علاج کر سکتے ہیں جو کہ ابھی اپنی ممکنہ حالت میں ہوں۔ میں آج کل اپنی آنکھوں کے لیے جو کہ کمزور تر ہوتی جا رہی ہیں، ایک تبتی دوا استمعال کر رہا ہوں۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ مجھے آنکھوں کا کوئی مسئلہ نہیں ہو رہا۔ لیکن اس قسم کا علاج طویل المدت ہوتا ہے۔

اگر ہمیں کسی تبتی طبیب کو ملنے کا موقع میسر نہ ہو، تو ہماری اپنی ثقافت میں اس سے مشابہ کیا چیز ہے؟ خصوصاً اگر ہم تبتی دوا لے رہے ہوں اور وہ ختم ہو جائے؟

یہ کہنا مشکل ہے کہ مغرب میں اس سے مشابہ کونسا نظام ہے۔ اس کے علاوہ غالباً چینی یا آیورویدی تبتی نظام مشابہ ہیں۔ تبتی طب میں ہمیں کبھی کبھی ایک سفوف دیا جاتا ہے جس کی ایک قسم کی چائے بنا کر پینی ہوتی ہےلیکن یہ چینی نظام کی چائے سے مختلف ہے۔ چینی نظام میں وہ اجزا کو حل نہیں کرتے، صرف چار پانچ کھلے اجزا دیتے ہیں جن کی ہمیں خود چائے بنانی ہوتی ہے۔ جدید دور میں چینیوں نے گولیاں بنا لی ہیں لیکن روایتی طور پر ہو ایسا نہیں کرتے تھے۔

اگر ہم یہ دیکھیں کہ تبتی دوا کار آمد ہے تو پھر ہم اور لے سکتے ہیں۔ اگر ہمارے پاس نسخہ موجود ہے تو اس کی فوٹوکاپی بمعہ صبح کے پہلے پیشاب کے، ایک پلاسٹک کی بوتل میں ڈال کر بھیج سکتے ہیں۔ کسٹم حکام کے لیے بوتل پر "پیشاب کا نمونہ" لکھ دینا کافی ہے۔

ان ادویات کی تیاری میں حفظانِ صحتکے کن اصولوں کو مقدم رکھا جاتا ہے؟

طبی پودوں کو دھو کر دھوپ میں سکھایا جاتا ہے۔ لیکن میرے خیال میں یہ طریقہ مغربی حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق نہیں ہو گا۔ تاہم میں نے یہ کبھی نہیں سنا کہ ان ادویات سے کسی کا پیٹ خراب ہو گیا ہو۔ میں صرف ایک مثال جانتا ہوں جس میں مغرب میں ایک عمر رسیدہ سرطان کے مریض کو اس دوا کے استمعال سے دست لگ گئے تھے۔

کیا پلاسٹک کی بوتل میں پیشاب آلودہ نہیں ہو جائے گا؟

بوتل کو پہلے دھو لینا چاہیے۔ پلاسٹک اور پیشاب کا کوئی خاص رد عمل نہیں ہوتا۔

کیا تبتی ادویات کے علاج کو مغربی علاج کے ساتھ ملایا جا سکتاہے؟

ایسا کبھی کبھار کیا جاتا ہے۔ تاہم یہ تجویز دی جاتی ہے کہ دونوں ادویات بیک وقت نہ لے جائیں بلکہ ان کے درمیان کچھ وقفہ ہو۔ کبھی کبھار مقوی وٹامن کی گولیاں پیشاب کا رنگ بدل دیتی ہیں اس لیے جب ایک تبتی طبیب سے معائینہ کروانا ہو تو اس سے ایک روز قبل یہ نہیں لینی چاہییں۔ خصوصاً وٹامن ب۔

اگر کوئی مریض ناقابلِ علاج ہو تو کیا تبتی طبیب کبھی اسے بے ایذا موت دیتے ہیں؟

نہیں وہ یہ نہیں کرتے۔ وہ تکلیف کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور مریض کو ہر ممکن آرام پہنچانے کی۔ بودھی نقطہ نظر یہ ہے کہ کرم کو اپنے آپ کو قدرتی طور پر خود بخود ختم کرنے دینا چاہیے۔ اور ظاہر ہے کہ ان کے پاس مشینیں موجود نہیں کہ جو کہ زندگی کو مصنوعی طور بڑہائیں۔

مثلاً، مغرب میں کتوں کو بے ایذا موت دی جاتی ہے۔ اس کے بارہ میں آپ کا کیا خیال ہے؟

ایک بودھی نقطہِ نظر سے یہ مشورہ نہیں دیا جا سکتا۔ یقیناً اس کا دارومدار حالات پر بھی ہوتا ہے۔ ہمیں ہر کیس کو انفرادی طور پر دیکھنا چاہیے۔ عزت مآب دلائی لامہ نے بھی یہی فرمایا ہے۔ اگر ہم ایسی صورتحال میں ہوں کہ جہاں ہماری پاس دوا محدود مقدار میں ہو اور ہمارے سامنے یہ انتخاب ہو کہ ہم یا تو کسے ایسے شخص کی زندگی بڑھانے کے لیے بہت سے وسائل استمعال کریں جو ویسے ہی مرنے والا ہو اور یا ان وسائل سے ایسوں کی مدد کر سکیں جو کہ اس دوا سے صحتیاب ہو سکتے ہوں تو پھر ہمیں ایک مشکل انتخاب کرنا پڑتا ہے۔

کیا مختلف بیماریوں سے متعلقہ کوئی توقیتی میعاد بھی ہے؟

میں نہیں جانتا۔ تبتی لوگ اکثر دوا شروع کرنے سے قبل یا اگر علاج ناکام ہو توکسی لامہ سےفال لیتے ہیں۔ لامہ پھر اس علاج کے ضمیمہ کے طور پر کسی مخصوص رسم یا پوجا کی ہدایت کرتا ہے۔ ھندوستان میں وہ اکثر پوچھتے ہیں کہ وہ کونسا طبی نظام اختیار کریں مغربی یا تبتی اور نیز تبتی نظام میں کونسا طبیب بہتر رہے گا۔ کچھ لوگوں کا ایک مخصوص طبیب سے کوئی کرمی تعلق ہو سکتا ہے یا پھر ایک خاص بیماری کے لیے ایک طبیب دوسرے سے بہتر ثابت ہو سکتا ہے۔

مغرب میں اس قسم کی پیش خبری لینا ایک مشکل کام ہے۔ تبتی طب اکثر بیماریوں کے فوری علاج مہیا نہیں کرتی۔ مثلاً اگر دمہ کا حملہ ہو تو اسپرے کی طرح تبتی دوا فوراً آپ کے پھیپھڑے نہیں کھول سکتی۔ لیکن ھندوستان میں مجھے ایک مرتبہ ورمِ جگر کا مرض ہوا تھا اور ڈیڑھ دن تبتی دوا لینے کے بعد میں بستر سے نکل سکتا تھا جو کہ مغرب میں ناممکن سمجھا جائے گا۔

کیا تبتی طب میں بون شمنیت کا اختلاط ہے؟

پیش خبری کا تمام نظام جو یہ دیکھتا ہے کہ کونسی رسم مناسب رہی گی اور اس کا کونسی روحوں سے تعلق ہے، بون سے آیا ہے۔ علم نجوم بھی بون نظام میں تھا۔

تبتی نظام طب دانتوں کے بارہ میں کیا کرتا ہے؟

جیسا کہ میں نے شروع میں کہا، میں طبیب نہیں ہوں اور مخصوص تکنیکی سولات کا جواب نہیں دے سکتا۔ میں معذرت خواہ ہوں۔تاہم میں یہ جانتا ہوں کہ دانتوں کی بیماریوں کے بارہ میں عموماً یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ جراثیم کی پیداوار ہیں۔ دانتوں کو کیڑا لگنے کے بارہ میں بھی یہی سوچا جاتا ہے۔ اُن کا دانتوں کا نظامِ طب بہت پیچیدہ نہیں ہے۔ میں نے انہیں کبھی دانتوں پر کوئی کام کرتے نہیں دیکھا۔ وہ "دانت سے کیڑا نکالتے ہیں" جس سے مراد میرے خیال میں دانت سے نس نکالنا ہے۔ میرے خیال میں خراب دانتوں کو نکالنے کے علاوہ اس ضمن میں کوئی زیادہ توجہ نہیں۔ بطور ایک قوم کے، تبتوں کے دانت بہت عمدہ ہیں۔ میرے خیال میں اس کا سبب بہت سی نسلوں تک دودھ دہی کا ان کی غذا کا بنیادی جزو ہونا ہے۔

ڈاکٹر چوڈاک نے کہا ہے کہ کچھ بیماریاں روحوں کے باعث پیدا ہوتی ہیں۔ کیا آپ اس بارہ میں کچھ بتائیں گے؟

جب میں نے خیالی بیماریوں کی بات کی تو اس سے میری مراد یہی تھی۔ میرے خیال میں اس بارہ میں ہمارا فہم، ہمارے روحوں کے فہم پر منحصر ہے۔ کیا اس سے مراد کوئی ایک جن ہے جس نے سفید چولا پہنا ہو اور جو "بو" کہے۔ یا کیا یہ استعاری نکتہ ہے جیسا کہ مثلاً جنگ کی بد قوتیں کسی کو پریشان کر دیں۔ کسی کی اعصابی بیماری کی واقعاتی وجوہ یا ماحولیاتی عناصر کو بطور بد روحوں کے دیکھا جا سکتا ہے۔تبتی لوگ اکثر کہتے ہیں کہ بیماریوں کا باعث ناگ ہیں۔ ناگ روحوں کی ایک قسم ہیں جن کا تعلق جھیلوں، درختوں اور جنگلوں سے ہے اور جب ہم ان کے علاقہ کو آلودہ کرتے ہیں تو وہ مشکلات پیدا کرتے ہیں۔ بیماری کو دیکھنے کا یہ نظریہ ماحولیاتی تباہی سے آیا ہے۔

کالے جادو اور سحر سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے بارہ میں کیا خیال ہے؟

ان چیزوں پر قابو پانے کے لیے تبتوں کے پاس مختلف رسوم ہیں جنہیں وہ بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ یہ خیالی بیماریوں کے درجہ میں شامل ہیں۔ "خیالی" اس کا بہترین ترجمہ نہیں لیکن اس کا لفظی مطلب خیالی ہی ہے۔

کیا مخصوص بیماریوں کے لیے مخصوص مراقبہ بھی ہے؟

میں پیٹ خرابی کے لیے مراقبہ کے برعکس زکام کے لیے کسی مراقبہ کو نہیں جانتا لیکن یقیناً ایسے شفائی مراقبہ موجود ہیں جنہیں کسی بھی بیماری کے لیے استمعال کیا جا سکتا ہے۔ انہیں عموماً مخصوص بدھ کی شبیہوں مثلاً تارا، دوا بدھ اور امیتایُس کے تصور سے کیا جاتا ہے۔ انہیں عام طور پر پانچ عناصر کی اصطلاح میں کیا جاتا ہے کہ جن کا ہم شروع میں ذکر کر چکے ہیں۔ پس ان میں یہ تصور کیا جاتا ہے کہ پانچ میں سے ہر عنصر باری باری صحتیاب ہو رہا ہے۔ ہم یہ تصور بھی کر سکتے ہیں کہ کوئی اور شخص جو کہ بیمار ہے، ہمارے دل میں ہے اور ہم اسی طرح کی شفا یابی کا تصور کر سکتے ہیں۔ اور پھر ایک شفایابی کا مراقبہ ہے جسے "لینا اور دینا" کہا جاتا ہے اور یہ بھی تصور سے تعلق رکھتا ہے۔ تبتی طب اور مراقبہ میں ہاتھ لگانے کا تصور نہیں ہے۔ ہم بالکل بیوقوف لگتے ہیں اگر یہ کامیاب نہ ہو اور عموماً یہ کامیاب نہیں ہوتا اس لیے یہ ظاہر کرنا کہ ہم اسے کر سکتے ہیں، خطرناک ہے۔ تاہم لوگوں کی بیماریوں کو خیال میں لانے اور انہیں صحت مند کرنے کا تصور عام ہے۔

دوسرے غیر تبتی نظام مثلاً ریکی عام ہیں کہ جن میں ہاتھوں سے شفا دی جاتی ہے۔ تبتی بودھی نقطہِ نظر سے اس قسم کی شفا محض جسمانی اتصال سے نہیں دی جاتی بلکہ شفا کے ذہنی عمل سے دی جاتی ہے۔

ہم جو بھی نظام استمعال کریں، بعض صورتوں میں وہ کامیاب نہیں ہو گا۔ اس کا دارومدار اس پر ہے کہ ہم اسے کیسے ظاہر کرتے ہیں۔ اگر ہم اسے ایسے ظاہر کریں کہ یہ ایک طریقہ ہے کامیابی کا اور اگر وہ کامیاب نہ ہو تو ہم بیوقوف بنتے ہیں۔ کسی بھی طبی نظام میں یہ کہنا بہتر ہے کہ یہ شاید کام کرے اور ہم اسے آزما کر دیکھیں گے۔

کیا جن بندی تبتی طب کا حصہ ہے؟

نہیں یہ خاص تبتی طب کا حصہ نہیں لیکن ایسی رسوم میں شامل ہے جو کہ بطور علاج کے ضمیمہ کے طور پر کی جاتی ہیں۔

انتساب

آئیے ایک انتساب سے اختتام کریں۔ ایسا ہو کہ اس سے ہماری جو بھی مثبت توانائی یا امکان بنا ہے وہ ہمیں ہماری بیماریوں، کوتاہیوں اور مشکلات پر قابو پانے میں مدد کرے۔ ایسا ہو کہ ہر کوئی اچھی صحت پائے اور اپنے ہر مثبت امکان کو پورا کرے تاکہ دوسروں کے لیے بہترین مددگار ہو سکے۔

Top