تبتی طب کے بارے میں سوالات

کیا آپ شفایابی کی رسومات کے بارہ میں کچھ بتائیں گے؟

ہم نے جو کچھ کرموں کے بارہ میں کہا، شفایابی کی رسومات کی بحث بھی اس سے متعلق ہے۔ خیالی بیماریاں جو کہ خبیث قوتوں کے زیرِ اثر پیدا ہوتی ہیں، ان کا شفایابی کی رسومات اور دعاؤں سے علاج کیا جاتا ہے۔تبتی لوگ اکثر دعاؤں اور پوجا کو بطور طبی علاج کے ضمیمہ کے استمعال کرتے ہیں۔ بغیر طبی علاج کے محض پوجا نہیں کی جاتی، ایسا کرنا مندرجہ ذیل لطیفہ کے مترادف ہو گا۔

ایک شخص نے خدا سے مدد کے لیے دعا کی۔ آخرکار خدا نے پوچھا "تم کیا چاہتے ہو؟" اس نے جواب دیا "میں لاٹری جیتنا چاہتا ہوں"۔ خدا نے کہا، "چلو ٹھیک ہے۔" اس شخص نے بہت انتظار کیا اور کچھ نہ ہوا۔ پس ان نے دوبارہ دعا شروع کی "اے خدا تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا؟" جس پر جواب ملا: "بیوقوف، لاٹری کی ٹکٹ تو خریدو"۔

رسومات تب تک اثر نہیں کرتیں جب تک ہم لاٹری کی ٹکٹ نہ خریدیں۔ تب ان کا اثر ہو سکتا ہے۔ لیکن وہ معجزے نہیں پرپا کر سکتیں۔ وہ صرف تب مددگار ہو سکتی ہیں جب اس قسم کی رسم کی مدد کا کرمی امکان موجود ہو۔ ان رسوم کے بارہ میں ہمیں حقیقت پسندانہ ہونا چاہیے۔ وہ ہمارے اعتماد کو تو تقویت دے سکتی ہیں لیکن ان کا مقصد طبی کاروائیوں کے ضمیمہ کا ہے۔ وہ معجزہ یا جادو نہیں ہیں۔

کیا آپ قیمتی جواہرات سے بنائی گئی ادویات کے بارہ میں کچھ بتا سکتے ہیں؟

تبتی طب میں "قیمتی گولیاں" موجود ہے جو کہ عموماً سم ربا پارہ اور کچھ قیمتی جواہرات اور دھاتوں سے بنائی جاتی ہیں۔ مجھے علم ہے کہ وہ الماس کا سفوف اور سونا اور چاندی استمعال کرتے ہیں۔ چند معدنیات بھی استمعال ہوتے ہیں گرچہ میں نہیں جانتا کہ کونسے۔ ان قیمتی گولیوں کو زہر وغیرہ کا اثر دور کرنے کے لیے استمعال کیا جاتا ہے۔ یہ عام طور پر رنگین ریشم میں لپٹی ہوئی اور موم سے مہر بند ہوتی ہیں کیونکہ یہ روشنی سے حساس ہوتی ہیں۔ اور ان پر روشنی نہیں ڈالنی چاہیے۔ کبھی کبھار انہیں پانی میں بھگونا پڑتا ہے کسی پیالہ میں ڈال کر اور اس پر کوئی پرچ رکھ کر۔ یا پھر ریشم کو کاٹ کر انہیں فوراً منہ میں ڈال لینا چاہیے۔

جب آپ کے ہوائی عوارض کا علاج ہو رہا تھا تو کیا طبیبوں نے آپ کو گرم یا سرد پانی میں نہانے کا مشورہ دیا؟

نہیں انہوں نے نہانے کے بارہ میں کوئی مخصوص بات نہیں کہی۔ کچھ ہوائی عوارض کی بطور گرم یا سرد درجہ بندی ہوتی ہے۔ کچھ کے لیے گرم رہنا مفید ہے اس لیے گرم پانی میں نہانا تو مددگار ہو گا لیکن بھاپ کا غسل خانہ نہیں۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ جب ہم بھاپ کے غسل خانہ (سونا) میں جاتے ہیں تو یہ ہوا کے لیے اچھا نہیں ہوتا اور اس سے فشارِ خون بھی بڑھ جاتا ہے۔ گرمی صفرا کے امراض کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔ بلغم کے امراض میں پسینہ بہنا مددگار ہے کیونکہ اس سے زائد بلغم کا اخراج ہو جاتا ہے اس لیے سونا اس کے لیے فائدہ مند ہو گا۔

کیا ایسی بیماری کا سراغ لگانا ممکن ہے کہ جس کی علامات ابھی ظاہر نہ ہوئی ہوں؟

تبتی یقیناً ایسی بیماریوں کا علاج کر سکتے ہیں جو کہ ابھی اپنی ممکنہ حالت میں ہوں۔ میں آج کل اپنی آنکھوں کے لیے جو کہ کمزور تر ہوتی جا رہی ہیں، ایک تبتی دوا استمعال کر رہا ہوں۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ مجھے آنکھوں کا کوئی مسئلہ نہیں ہو رہا۔ لیکن اس قسم کا علاج طویل المدت ہوتا ہے۔

اگر ہمیں کسی تبتی طبیب کو ملنے کا موقع میسر نہ ہو، تو ہماری اپنی ثقافت میں اس سے مشابہ کیا چیز ہے؟ خصوصاً اگر ہم تبتی دوا لے رہے ہوں اور وہ ختم ہو جائے؟

یہ کہنا مشکل ہے کہ مغرب میں اس سے مشابہ کونسا نظام ہے۔ اس کے علاوہ غالباً چینی یا آیورویدی تبتی نظام مشابہ ہیں۔ تبتی طب میں ہمیں کبھی کبھی ایک سفوف دیا جاتا ہے جس کی ایک قسم کی چائے بنا کر پینی ہوتی ہےلیکن یہ چینی نظام کی چائے سے مختلف ہے۔ چینی نظام میں وہ اجزا کو حل نہیں کرتے، صرف چار پانچ کھلے اجزا دیتے ہیں جن کی ہمیں خود چائے بنانی ہوتی ہے۔ جدید دور میں چینیوں نے گولیاں بنا لی ہیں لیکن روایتی طور پر ہو ایسا نہیں کرتے تھے۔

اگر ہم یہ دیکھیں کہ تبتی دوا کار آمد ہے تو پھر ہم اور لے سکتے ہیں۔ اگر ہمارے پاس نسخہ موجود ہے تو اس کی فوٹوکاپی بمعہ صبح کے پہلے پیشاب کے، ایک پلاسٹک کی بوتل میں ڈال کر بھیج سکتے ہیں۔ کسٹم حکام کے لیے بوتل پر "پیشاب کا نمونہ" لکھ دینا کافی ہے۔

ان ادویات کی تیاری میں حفظانِ صحتکے کن اصولوں کو مقدم رکھا جاتا ہے؟

طبی پودوں کو دھو کر دھوپ میں سکھایا جاتا ہے۔ لیکن میرے خیال میں یہ طریقہ مغربی حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق نہیں ہو گا۔ تاہم میں نے یہ کبھی نہیں سنا کہ ان ادویات سے کسی کا پیٹ خراب ہو گیا ہو۔ میں صرف ایک مثال جانتا ہوں جس میں مغرب میں ایک عمر رسیدہ سرطان کے مریض کو اس دوا کے استمعال سے دست لگ گئے تھے۔

کیا پلاسٹک کی بوتل میں پیشاب آلودہ نہیں ہو جائے گا؟

بوتل کو پہلے دھو لینا چاہیے۔ پلاسٹک اور پیشاب کا کوئی خاص رد عمل نہیں ہوتا۔

کیا تبتی ادویات کے علاج کو مغربی علاج کے ساتھ ملایا جا سکتاہے؟

ایسا کبھی کبھار کیا جاتا ہے۔ تاہم یہ تجویز دی جاتی ہے کہ دونوں ادویات بیک وقت نہ لے جائیں بلکہ ان کے درمیان کچھ وقفہ ہو۔ کبھی کبھار مقوی وٹامن کی گولیاں پیشاب کا رنگ بدل دیتی ہیں اس لیے جب ایک تبتی طبیب سے معائینہ کروانا ہو تو اس سے ایک روز قبل یہ نہیں لینی چاہییں۔ خصوصاً وٹامن ب۔

اگر کوئی مریض ناقابلِ علاج ہو تو کیا تبتی طبیب کبھی اسے بے ایذا موت دیتے ہیں؟

نہیں وہ یہ نہیں کرتے۔ وہ تکلیف کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور مریض کو ہر ممکن آرام پہنچانے کی۔ بودھی نقطہ نظر یہ ہے کہ کرم کو اپنے آپ کو قدرتی طور پر خود بخود ختم کرنے دینا چاہیے۔ اور ظاہر ہے کہ ان کے پاس مشینیں موجود نہیں کہ جو کہ زندگی کو مصنوعی طور بڑہائیں۔

مثلاً، مغرب میں کتوں کو بے ایذا موت دی جاتی ہے۔ اس کے بارہ میں آپ کا کیا خیال ہے؟

ایک بودھی نقطہِ نظر سے یہ مشورہ نہیں دیا جا سکتا۔ یقیناً اس کا دارومدار حالات پر بھی ہوتا ہے۔ ہمیں ہر کیس کو انفرادی طور پر دیکھنا چاہیے۔ عزت مآب دلائی لامہ نے بھی یہی فرمایا ہے۔ اگر ہم ایسی صورتحال میں ہوں کہ جہاں ہماری پاس دوا محدود مقدار میں ہو اور ہمارے سامنے یہ انتخاب ہو کہ ہم یا تو کسے ایسے شخص کی زندگی بڑھانے کے لیے بہت سے وسائل استمعال کریں جو ویسے ہی مرنے والا ہو اور یا ان وسائل سے ایسوں کی مدد کر سکیں جو کہ اس دوا سے صحتیاب ہو سکتے ہوں تو پھر ہمیں ایک مشکل انتخاب کرنا پڑتا ہے۔

کیا مختلف بیماریوں سے متعلقہ کوئی توقیتی میعاد بھی ہے؟

میں نہیں جانتا۔ تبتی لوگ اکثر دوا شروع کرنے سے قبل یا اگر علاج ناکام ہو توکسی لامہ سےفال لیتے ہیں۔ لامہ پھر اس علاج کے ضمیمہ کے طور پر کسی مخصوص رسم یا پوجا کی ہدایت کرتا ہے۔ ھندوستان میں وہ اکثر پوچھتے ہیں کہ وہ کونسا طبی نظام اختیار کریں مغربی یا تبتی اور نیز تبتی نظام میں کونسا طبیب بہتر رہے گا۔ کچھ لوگوں کا ایک مخصوص طبیب سے کوئی کرمی تعلق ہو سکتا ہے یا پھر ایک خاص بیماری کے لیے ایک طبیب دوسرے سے بہتر ثابت ہو سکتا ہے۔

مغرب میں اس قسم کی پیش خبری لینا ایک مشکل کام ہے۔ تبتی طب اکثر بیماریوں کے فوری علاج مہیا نہیں کرتی۔ مثلاً اگر دمہ کا حملہ ہو تو اسپرے کی طرح تبتی دوا فوراً آپ کے پھیپھڑے نہیں کھول سکتی۔ لیکن ھندوستان میں مجھے ایک مرتبہ ورمِ جگر کا مرض ہوا تھا اور ڈیڑھ دن تبتی دوا لینے کے بعد میں بستر سے نکل سکتا تھا جو کہ مغرب میں ناممکن سمجھا جائے گا۔

کیا تبتی طب میں بون شمنیت کا اختلاط ہے؟

پیش خبری کا تمام نظام جو یہ دیکھتا ہے کہ کونسی رسم مناسب رہی گی اور اس کا کونسی روحوں سے تعلق ہے، بون سے آیا ہے۔ علم نجوم بھی بون نظام میں تھا۔

تبتی نظام طب دانتوں کے بارہ میں کیا کرتا ہے؟

جیسا کہ میں نے شروع میں کہا، میں طبیب نہیں ہوں اور مخصوص تکنیکی سولات کا جواب نہیں دے سکتا۔ میں معذرت خواہ ہوں۔تاہم میں یہ جانتا ہوں کہ دانتوں کی بیماریوں کے بارہ میں عموماً یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ جراثیم کی پیداوار ہیں۔ دانتوں کو کیڑا لگنے کے بارہ میں بھی یہی سوچا جاتا ہے۔ اُن کا دانتوں کا نظامِ طب بہت پیچیدہ نہیں ہے۔ میں نے انہیں کبھی دانتوں پر کوئی کام کرتے نہیں دیکھا۔ وہ "دانت سے کیڑا نکالتے ہیں" جس سے مراد میرے خیال میں دانت سے نس نکالنا ہے۔ میرے خیال میں خراب دانتوں کو نکالنے کے علاوہ اس ضمن میں کوئی زیادہ توجہ نہیں۔ بطور ایک قوم کے، تبتوں کے دانت بہت عمدہ ہیں۔ میرے خیال میں اس کا سبب بہت سی نسلوں تک دودھ دہی کا ان کی غذا کا بنیادی جزو ہونا ہے۔

ڈاکٹر چوڈاک نے کہا ہے کہ کچھ بیماریاں روحوں کے باعث پیدا ہوتی ہیں۔ کیا آپ اس بارہ میں کچھ بتائیں گے؟

جب میں نے خیالی بیماریوں کی بات کی تو اس سے میری مراد یہی تھی۔ میرے خیال میں اس بارہ میں ہمارا فہم، ہمارے روحوں کے فہم پر منحصر ہے۔ کیا اس سے مراد کوئی ایک جن ہے جس نے سفید چولا پہنا ہو اور جو "بو" کہے۔ یا کیا یہ استعاری نکتہ ہے جیسا کہ مثلاً جنگ کی بد قوتیں کسی کو پریشان کر دیں۔ کسی کی اعصابی بیماری کی واقعاتی وجوہ یا ماحولیاتی عناصر کو بطور بد روحوں کے دیکھا جا سکتا ہے۔تبتی لوگ اکثر کہتے ہیں کہ بیماریوں کا باعث ناگ ہیں۔ ناگ روحوں کی ایک قسم ہیں جن کا تعلق جھیلوں، درختوں اور جنگلوں سے ہے اور جب ہم ان کے علاقہ کو آلودہ کرتے ہیں تو وہ مشکلات پیدا کرتے ہیں۔ بیماری کو دیکھنے کا یہ نظریہ ماحولیاتی تباہی سے آیا ہے۔

کالے جادو اور سحر سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے بارہ میں کیا خیال ہے؟

ان چیزوں پر قابو پانے کے لیے تبتوں کے پاس مختلف رسوم ہیں جنہیں وہ بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ یہ خیالی بیماریوں کے درجہ میں شامل ہیں۔ "خیالی" اس کا بہترین ترجمہ نہیں لیکن اس کا لفظی مطلب خیالی ہی ہے۔

کیا مخصوص بیماریوں کے لیے مخصوص مراقبہ بھی ہے؟

میں پیٹ خرابی کے لیے مراقبہ کے برعکس زکام کے لیے کسی مراقبہ کو نہیں جانتا لیکن یقیناً ایسے شفائی مراقبہ موجود ہیں جنہیں کسی بھی بیماری کے لیے استمعال کیا جا سکتا ہے۔ انہیں عموماً مخصوص بدھ کی شبیہوں مثلاً تارا، دوا بدھ اور امیتایُس کے تصور سے کیا جاتا ہے۔ انہیں عام طور پر پانچ عناصر کی اصطلاح میں کیا جاتا ہے کہ جن کا ہم شروع میں ذکر کر چکے ہیں۔ پس ان میں یہ تصور کیا جاتا ہے کہ پانچ میں سے ہر عنصر باری باری صحتیاب ہو رہا ہے۔ ہم یہ تصور بھی کر سکتے ہیں کہ کوئی اور شخص جو کہ بیمار ہے، ہمارے دل میں ہے اور ہم اسی طرح کی شفا یابی کا تصور کر سکتے ہیں۔ اور پھر ایک شفایابی کا مراقبہ ہے جسے "لینا اور دینا" کہا جاتا ہے اور یہ بھی تصور سے تعلق رکھتا ہے۔ تبتی طب اور مراقبہ میں ہاتھ لگانے کا تصور نہیں ہے۔ ہم بالکل بیوقوف لگتے ہیں اگر یہ کامیاب نہ ہو اور عموماً یہ کامیاب نہیں ہوتا اس لیے یہ ظاہر کرنا کہ ہم اسے کر سکتے ہیں، خطرناک ہے۔ تاہم لوگوں کی بیماریوں کو خیال میں لانے اور انہیں صحت مند کرنے کا تصور عام ہے۔

دوسرے غیر تبتی نظام مثلاً ریکی عام ہیں کہ جن میں ہاتھوں سے شفا دی جاتی ہے۔ تبتی بودھی نقطہِ نظر سے اس قسم کی شفا محض جسمانی اتصال سے نہیں دی جاتی بلکہ شفا کے ذہنی عمل سے دی جاتی ہے۔

ہم جو بھی نظام استمعال کریں، بعض صورتوں میں وہ کامیاب نہیں ہو گا۔ اس کا دارومدار اس پر ہے کہ ہم اسے کیسے ظاہر کرتے ہیں۔ اگر ہم اسے ایسے ظاہر کریں کہ یہ ایک طریقہ ہے کامیابی کا اور اگر وہ کامیاب نہ ہو تو ہم بیوقوف بنتے ہیں۔ کسی بھی طبی نظام میں یہ کہنا بہتر ہے کہ یہ شاید کام کرے اور ہم اسے آزما کر دیکھیں گے۔

کیا جن بندی تبتی طب کا حصہ ہے؟

نہیں یہ خاص تبتی طب کا حصہ نہیں لیکن ایسی رسوم میں شامل ہے جو کہ بطور علاج کے ضمیمہ کے طور پر کی جاتی ہیں۔

Top