اخلاقیات کے توسط سے مسرت کا حصول

Studybuddhism universal values 01

آج میں اس موضوع پر بات کروں گا کہ غیردینی طریقے استعمال میں لا کر کیسے مسرت پائی جاۓ۔ مجھے آج  یہاں اتنے بڑے مجمع سے خطاب کرنے کا جو موقع ملا ہے میں اس پر خوش ہوں۔ میرے ایک عظیم دوست، ڈیوڈ لونگسٹن، ایک امریکی سائنسدان، جو اب ہمارے ساتھ نہیں ہے، نے کہا کہ جب کوئی نرم دل شخص دوسروں سے ملتا ہے تو اس کی آنکھیں مزید کھل جاتی ہیں اور اس کے پپوٹے پھیل جاتے ہیں۔ اس نے کہا کہ جب وہ مجھ سے ملا تو اس کی آنکھیں یوں کھل گئیں اور اس کے پپوٹے پھیل گئے اور ایسا صرف دو لوگوں کے ساتھ ہوا ہے، ایک تب جب وہ مجھ سے ملا اور دوسرے جب وہ اپنی بیوی کو دیکھتا ہے۔ لیکن اب میں جہاں بھی جاتا ہوں، تو میں مقامی لوگوں کو ایسے ہی پاتا ہوں، وہ ایک سچی گرمجوشی دکھاتے ہیں اور میں اس کی بہت قدر کرتا ہوں، لہٰذا آپ کا شکریہ۔ 

"لا دینیت" سے کیا مراد ہے؟ میں اسے اس کے ہندوستانی پس منظر میں استعمال کرتا ہوں۔ میرے بعض مسلمان اور عیسائی دوست تاہم یوں محسوس کرتے ہیں کہ "لا دینیت" سے مراد کسی حد تک مذہب سے مخالفت ہے، اس لئیے انہیں میرا اس اصطلاح کا استعمال پسند نہیں۔ اور بعض لوگ یہ بھی سوچتے ہیں کہ "اخلاقیات" کی بنیاد مذہب پر ہونی چاہئیے، مگر ہندوستان کے آئین کی بنیاد لادینیت پر ہے؛ یہ مذہب کے خلاف نہیں ہے۔۔ بھارت میں لوگ مذہب کا بہت احترام کرتے ہیں۔ مہاتما گاندھی اور ہندوستانی آئین کے مصنّفین بڑے مذہبی لوگ تھے۔ اس پس منظر میں "لادینی" سے مراد تمام مذاہبکے لئیے برابر کا احترام ہے جس میں قطعی طور پر کسی ایک مذہب کو دوسروں پر فوقیت حاصل نہیں؛ اور ہزاروں برس سے بھارت میں اس لادینی نظریہ نے مذہب پر ایمان نہ رکھنے والوں کے حقوق کو بھی تحفظ فراہم کیا ہے۔ تو اس لئیے میں "لادینیت" کو ان معنوں میں استعمال کرتا ہوں۔ 

ویڈیو: چودھویں دلائی لاما — «درد مندانہ رویہ کی اہمیت»
ذیلی سرورق کو سننے/دیکھنے کے لئیے ویڈیو سکرین پر دائں کونے میں نیچے ذیلی سرورق آئیکان پر کلک کریں۔ ذیلی سرورق کی زبان بدلنے کے لئیے "سیٹنگز" پر کلک کریں، پھر "ذیلی سرورق" پر کلک کریں اور اپنی من پسند زبان کا انتخاب کریں۔

 بطور انسان کے، حتیٰ کہ جانور اور کیڑے بھی، ہم سب مزید امن اور سکون کے خواہاں ہیں۔ کسی کو بھی انتشار پسند نہیں؛ ہر کسی کو مسرت کے حصول اور ہر قسم کی پریشانی، مسائل اور دکھ پر قابو پانے کا حق حاصل ہے۔ اس بات کو منطق یا تجربہ سے ثابت کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ ایک فطری عمل ہے؛ تمام ذی حس مخلوق، پرند، چرند، انسان، ہم سب اسی مدعا کو پانے کا جتن کرتے ہیں۔ جو اہم امر ہے وہ یہ کہ اسے کیسے پایا جاۓ۔ یہ طریقہ حقیقت پر مبنی ہونا چاہئیے، غیرحقیقت پسند طریقے اختیار کرنے سے ہمیں ناکامی کا سامنا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، بعض اوقات ہم دیکھتے ہیں کہ جانور اس قدر خوف زدہ ہوتے ہیں کہ وہ مخالف سمت میں بھاگ نکلتے ہیں؛ وہ خطرے سے دور بھاگنے کی بجاۓ خطرے کی جانب بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔ لیکن ہم انسان ہیں اور ہمیں شاندار تعقّل ودیعت ہوا ہے اس لئیے ہم عقل اور دلیل کے ذریعہ حقیقت پسند راہ اختیار کر سکتے ہیں، اور اسی وجہ سے ہم زیادہ کامیاب ہیں۔ ہمیں مستقبل بعید کا شعور ہے اور اسی وجہ سے ہم بعض اوقات وقتی منفعت کو دیر آئید کامیابی پر قربان کر دیتے ہیں۔ یہ جانوروں پر ہماری عقلی فوقیت کا ثبوت ہے۔ پس اس تعقّل کی بنا پر ہم دیرپا فائدے کے حصول کی کوشش کرتے ہیں۔

 تو اب سوال یہ ہے کہ کس قسم کا تجربہ ہمارے لئیے مفید تر ثابت ہو گا؟ حِسی واردات بیشتر حد تک عارضی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر آپ کوئی تصویر یا کھیل، یا کسی سیاح کو جو کہ مختلف مقامات، نظارے، رنگ برنگے لباس یا لوگوں کی سیاحت کو نکلا ہے؛ تو اس سے آپ کو کچھ مسرت ملتی ہے، مثلاً آنکھوں کے توسط سے۔ دلی میں میرا ڈرائیور جسے کرکٹ کا کھیل بہت پسند ہے سے جب میں نے پوچھا کہ گزشتہ شب جب کرکٹ کا کھیل چل رہا تھا وہ کتنے گھنٹے سویا، تو اس نے کہا کہ چار گھنٹے۔ تب میں نے اس کو ہدفِ تنقید بنایا، میں نے کہا کہ کھیل دیکھنے سے گہری نیند سونا زیادہ اچھا ہے۔ یہ من کے لئیے بہتر ہے۔ اور پھر موسیقی، خوشبو، غذا اور ہماری طبعی خوشی کے سامان۔  یہ خوشی کے حسی سامان محض عارضی ہیں۔ جب یہ انجام کو پہنچتے ہیں تو صرف ان کی یاد رہ جاتی ہے۔

 اس کے برعکس، بعض تجربات من کی سطح پر وقوع پذیر ہوتے ہیں اور وہ کسی حسی واردات کے مرہونِ منت نہیں ہیں؛ اور ان سے ملنے والی مسرت خاصی دیرپا ہوتی ہے۔ پس اس بات کا احساس لازم ہے کہ مسرت اور عدم مسرت کے احساس کے دو درجات ہیں۔ ایک، حسی سطح، جو کہ عارضی ہے، اور دوسری من کی سطح، جو کہ بہت گہری ہے۔

 دورِ حاضر میں لوگ حسی پہلو، جسے وہ بہت اہم جانتے ہیں، میں حد سے زیادہ گم ہیں، پس وہ ہمہ وقت مسرت پانے کے خارجی ذرائع پر تکیہ کئیے ہوۓ ہیں اور وہ اندرونی، غائرانہ سطح کو نظرانداز کئیے ہوۓ ہیں۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ بہت برس گزرے میں برلن، جرمنی میں تھا، اور جس ہوٹل میں میرا قیام تھا وہ ایک نائٹ کلب کے عین سامنے تھا۔ ساڑھے سات، آٹھ بجے جب میں سونے کو جاتا ہوں مجھے باہر سرخ، نیلی بتیاں چمکتی نظر آئیں اور ساتھ ہی زوردار دھپ کی آواز۔ میں سو گیا اور جب آدھی رات کو میری آنکھ کھلی تو یہ سلسلہ جاری تھا اور پھر جب چار بجے کے قریب میں جاگا تو یہ ابھی تک چل رہا تھا۔ وہاں موجود لوگوں کی تمام توانائی اس حسی سطح پر مرکوز تھی۔ میرے خیال میں اگلے روز ہر کوئی بری طرح تھکا ہوا ہو گا۔

 حال ہی میں میری ایک ہندوستانی خاندان سے ملاقات ہوئی جن کے کچھ بچے بھی تھے، والدین بھی وہاں موجود تھے، اور ہمارے درمیان کچھ عام بات چیت ہوئی۔ میں نےذکر کیا کہ گزشتہ دو تین برس سے میں نے ٹیلیویژن دیکھنا چھوڑ دیا ہے؛ میں بی بی سی پر خبریں سن لیتا ہوں۔ اس خاندان کے طفل مجھ سے کہنے لگے،" ٹیلیویژن دیکھے بغیر آپ بور ہو جاتے ہوں گے!" اس سے ظاہر ہوا کہ وہ بہت دیکھتے ہوں گے۔امریکہ اور یورپ میں خصوصاً بچے بہت ٹی وی دیکھتے ہیں۔ یہ خاص سود مند نہیں کیونکہ اس سے ان کے ذہن کی تجزیاتی اہلیت متاثر ہوتی ہے۔ تو مسرت پانے کے لئیے حسی سطح کی بجاۓ من کی سطح پر کام کرنا زیادہ سمجھداری کی بات ہے۔  

ایک اہم بات یہ ہے کہ جذباتی پریشانی بڑی حد تک من کی سطح پر نمودار ہوتی ہے؛ لہٰذا پر مسرت زندگی کے لئِیے من کا سکون درکار ہے۔ چونکہ پریشانی کا منبع من کی سطح پر ہے، تو ہمیں سکون پانے کے لئیےمن کی سطح پر ہی اس سے نمٹنا ہو گا۔ پس، اوّلاً، ہمیں اپنی داخلی دنیا اور داخلی اقدار پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی۔ دماغ کی چھوٹی سی دنیا کے اندر ہم من کی وسیع اندرونی دنیا کو تلاش کر سکتے ہیں، مگر ہم اس داخلی دنیا کے بارے میں بہت کم علم رکھتے ہیں۔ لہٰذا ہمیں اپنے جذبات کو پرکھنا ہے۔ جب زبردست جذبات ابھرتے ہیں، تو من کے حصے سے ہمیں اس جذبہ کا جائزہ لینا چاہئیے، تو ہم دیکھیں گے کہ یہ جذبہ دھیرے سے دب جاۓ گا۔ ہم غصہ بھرے من کو دیکھنے کی اہلیت رکھتے ہیں؛ جونہی ہم اس کا جائزہ لیتے ہیں، اس کی شدت کم ہو جاتی ہے۔ من کا گہرا مطالعہ دلچسپ فعل ہے۔ 

اس وقت اکیسویں صدی کا دور ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ بیسویں صدی انسانی تاریخ کا اہم ترین دور تھا۔ اس کی وجہ بیشمار سائینسی اور فںی ایجادات ہیں۔ پس ہمارے علم اور ہمارے معیار زندگی میں اضافہ ہوا۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ اس صدی میں خونریزی بھی بہت ہوئی۔ آپ کے باپ دادا نے بہت پریشانی اٹھائی اور دکھ جھیلے۔ بیس کروڑ سے زیادہ لوگ جن میں جوہری ہتھیاروں کا نشانہ لوگ بھی شامل تھے مارے گئے۔ اگر اس زبردست خونریزی سے کوئی نئی بات نکلتی تو شائد ہم اسے قبول کر لیتے، مگر ایسا نہیں ہوا۔ حتیٰ کہ اب بھی اکیسویں صدی کے اوائل میں ایران، عراق اور افغانستان میں بےشمار مسائل ہیں، بےحد دہشت گردی ہے؛ یہ ماضی کی غلطیوں اور غفلت کی نشانی ہے۔ خارجی معاملات پر بہت زیادہ زور تھا۔ اب ہمیں اپنی داخلی اقدار پر غور کرنا ہے، نہ کہ محض خارجی حالات پر۔

امیر اور غریب کے درمیان جو تفاوت پایا جاتا ہے وہ بھی ایک مسٔلہ ہے، اگرچہ عمومی طور پر مادی ترقی تسلی بخش ہے۔ یہاں آسٹریا میں توازن کافی بہتر ہے، لیکن گزشتہ برس میں میکسیکو، ارجنٹینا اور برازیل گیا اور میں نے امیر اور غریب کے درمیان تفریق کے بارے میں دریافت کیا کہ آیا یہ کم ہے یا زیادہ، تو وہ کہنے لگے کہ یہ بہت زیادہ ہے۔ یہاں آسٹریا میں شائد یہ فرق معمولی ہے۔

میں نے یہ بھی پوچھا، "بدعنوانی کم ہے یا زیادہ؟" جمہوری ممالک جہاں آزادیٔ راۓ ہے اور ذرائع ابلاغ بھی آزاد ہیں، وہاں بھی کافی بدعنوانی ہو سکتی ہے۔ اس کی وجہ ضبط نفس کا فقدان اور اخلاقی اقدار کی کمی ہے۔ ہندوستان اگرچہ ایک نہائت مذہبی ملک ہے، اس کے باوجود وہاں بہت بدعنوانی ہے۔ بہت سارے ہندوستانی گھرانوں میں دیوی دیوتاؤں کے بُت موجود ہیں جنہیں وہ اگر بتی اور پھول سے آراستہ کرتے ہیں اور دعائں مانگتے ہیں، مگر بعض اوقات میں مذاق میں کہتا ہوں کہ وہ یہ دعا مانگتے ہیں " کاش کہ میری بدعنوانی کامیاب ہو۔" یہ بڑے افسوس کا مقام ہے۔ مذہبی من کے ہوتے ہوۓ بھی بہت سارے بدعنوان ہیں۔ بظاہر وہ ایمان رکھتے ہیں، مگر ان کا ایمان اتنا پختہ نہیں کہ وہ اس کے اصولوں پر کاربند بھی ہوں اور ان کے اندر خوفِ خدا ہو۔

چند سال قبل، میری ایک عالم سے بین الاقوامی کمپنیوں کے بارے میں بات ہوئی کہ ان کے منافع کے متعلق معلومات شفاف نہیں ہیں۔ ہم ان مسائل کو زیربحث لاۓ اور میں نے کہا کہ " یہ لوگ جو ان کمپنیوں کو چلاتے ہیں ان کے دل میں خوفِ خدا تو ہو گا، لہٰذا ان کے ہاں کچھ ضبطِ نفس ہونا چاہئیے" تو اس پر اُس نے کہا کہ "یہ اٹھارویں صدی کی سوچ ہے۔" تو خواہ یہ لوگ خدا کی عبادت کرتے ہوں، مگر وہ اس معاملے میں خاص سنجیدہ نہیں ہیں۔ اگر وہ سنجیدہ ہوتے تو وہ خدا کی ہدائت یعنی ایمانداری، دوسروں کا خیال اور اخلاقی کردارکو اپناتے۔ پس ہمیں دوسروں کا اور ماحول کا خیال رکھنا چاہئیے۔ لہٰذا ہمیں اخلاقیات پر مزید زور دینا چاہئیے، جس کا مطلب ہے کہ ضبط نفس پر مزید زور، کسی خوف یا احساس فریضہ کے حوالے سے نہیں بلکہ رضامندی سے، اس بنیاد پر کہ "اگر میں ایسا کروں گا تو یہ اخلاقی اصولوں کی خلاف ورزی ہو گی۔"

ہمیں اخلاقی اقدار کے فروغ کے لئیے مزید جد و جہد کی ضرورت ہے، وگرنہ آبادی میں بے پناہ اضافہ اور وسائل میں تقلیل سے مزید مسائل پیدا ہوں گے۔ لہٰذا ہمیں اکیسویں صدی کو درد مندی کی صدی بنانے کے لئیے محنت درکار ہے۔ یہ اخلاقیات اور ادھرمی اخلاقیات کا بنیادی اصول ہے۔

اخلاقیات کا گرم دلی سے گہرا رشتہ ہے۔ جس کا مطلب ہے دوسرے انسانوں کے لئیے زیدہ سے زیادہ فکر۔ وہ بھی مسرت کے تمنائی ہیں؛ وہ عدم مسرت نہیں چاہتے اور ہم سب آپس میں منسلک ہیں۔ ان کی خوشی ہماری خوشی ہے۔ جب ہم یہ سمجھ لیں اور ان کو عزت دیں، تو پھر جھوٹ، دھوکہ دہی، ڈرانے دھمکانے اور ناجائز فائدہ اٹھانے کی گنجائش نہیں رہتی۔ تو ایسے حالات میں گرم دلی مسرت کا باعث بنتی ہے۔ اس کا منبع ایک طبعی عنصر ہے جو ہماری ماؤں کے زمانے سے آتا ہے: ہم اپنی ماؤں کی شفقت اور دودھ سے پروان چڑھے۔ اس عمل کے اثرات ہماری جین اور خون میں سرائت کر گئے ہیں۔ سوال یہ ہے: بچے روپے پیسے اور اشیا کی نسبت دوسروں سے پیار کی تمنا کرتے ہیں، لیکن جب وہ بڑے ہو جاتے ہیں، اور اگر وہ زیرک نہ بن جائیں، ان کی اخلاقی اقدار میں تنزل آجاتا ہے۔ کیوں، کیونکہ وہ نفس پرست ہو جاتے ہیں۔ اگر وہ کسی کی مدد کریں بھی تو اس خیال سے کہ "مجھے اس کے بدلے میں کیا ملے گا؟" پس نفس پرستی ایک بڑی "میں" کو پروان چڑھاتی ہے جو بڑے مسائل کا منبع ہے۔ ہمیں پوری انسانیت کو "ہم" کے آئینہ میں دیکھنا چاہئیے، اپنے کو یورپی یونین یا تمام دنیا کا حصہ تصور کرتے ہوۓ۔ ہمیں دنیا کے سات ارب لوگوں کو "ہم" جاننا ہے اور یہ کہ ہم بھی اس "ہم" کا حصہ ہیں؛ محض ایک چھوٹے سے "میں" کے طور پر نہیں۔ پس ہمیں سب کی عزت کرنی ہے، امیر غریب سب کی۔ سب کو مالی طور پر اور تمام شعبوں میں برابر کے حقوق ملنے چاہئیں۔ اگر ہم دوسروں کی فلاح کو مد نظر رکھیں تو ویسی عزت ملے گی۔
 
یہ لازم نہیں کہ اسے مذہب کا ہی حصہ سمجھا جاۓ؛ مذہب ایک ذاتی معاملہ ہے؛ اس کا تعلق تمام انسانیت سے ہے۔ اگر ہم سب کی عزت کریں تو استحصال نہیں ہوگا۔ اور ویسے بھی، گرم دلی جسمانی صحت کے لئیے مفید ہے۔ بعض سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ مستقل خطرہ اور خوف ہمارے دفاعی نظام کو کمزور کر دیتے ہیں، لہٰذا جب ہم محو بالذات ہوتے ہیں تو اپنے تئیں بہت ڈر اور غیروں کی جانب بہت عدم اعتمادی محسوس کرتے ہیں۔ اس سے تنہائی اور خوف پیدا ہوتا ہے، جو شکست خوردگی اور غصہ کا باعث بنتا ہے۔ لیکن اگر ہم کشادہ دلی سے کام لیں اور دوسروں کی فکر دل میں رکھیں، تو اس سے خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ اس کی مدد سے ہم کھل کر اور ایمانداری سے جو کچھ بھی کرنا ہو کر سکتے ہیں۔ ہم خواہ کسی سے بھی ملیں، کسی کو بھی دیکھیں، اپنے گرد سب کو ہم اپنے بہن بھائی تصور کریں گے؛ اور اگر ہم گرم دل اور دوسروں کا خیال رکھنے والوں میں سے ہیں، تو بیشتر لوگوں کا ردِعمل مثبت ہو گا۔ لیکن ایسے ہمیشہ نہیں ہوتا۔ میں جب بھی گاڑی میں سفر کر رہا ہوتا ہوں تو میں راستے میں لوگوں کو مسکراہٹ کے ساتھ دیکھتا ہوں۔ جرمنی میں ایک بار میں نے ایک پیدل چلتی خاتون کو مسکرا کر دیکھا اور وہ بہت شک میں مبتلا ہو گئی، تو میری مسکراہٹ سے اس کے اندر مسرت کے بجاۓ خوف پیدا ہوا تو میں نے اپنا منہ موڑ لیا۔ مگر عموماً ایسا نہیں ہوتا۔ 

گرم دلی ہم اپنی ماؤں سے سیکھتے ہیں، تو یہ ایسی چیز ہے جسے ہمیں تمام عمر ساتھ رکھنا ہے۔ سائنس کی ایک مجلس میں ہمارا ایک نعرہ ہے:" صحت مند من، صحت مند جسم۔" اس کے لئیے ہمیں حقیقت کو جاننا لازم ہے، ایک شانت من کی ضرورت ہے؛ پریشانی میں ہم متعصب بن جاتے ہیں اور حقیقت کو پہچاننے سے قاصر ہوتے ہیں اور اس سے بےشمار مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ پس گرم دلی سے پر سکون من استوار کرنے میں مدد ملتی ہے۔

اگر ہمارے من میں سکون نہ ہو تو اس سے ہماری تعلیم پر برا اثر پڑتا ہے۔ اگر من شانت اور خوش نہ ہو تو کچھ سیکھنا بہت مشکل ہو جاتا ہے؛ پس ایک شانت من ہر کام کرنے، ہر شعبہ بشمول سیاست کے خدمات ادا کرنے میں معاون ہوتا ہے۔ مختصراً، من کے سکون سے خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے، جس سے ہماری حقیقت کو پہچاننے کی صلاحیت میں بہت اضافہ ہوتا ہے اور اس بنا پر ہم مزید گرم دلی کو جنم دیتے ہیں۔

یہ لادینی اخلاقیات کے بنیادی اصول ہیں اورمسرت کی کلید ہیں۔ میں نے انہیں اپنے لئیے بہت مفید پایا ہے۔ اگر آپ کو اس میں کوئی حکمت نظر آتی ہے تو اس پر عمل کریں۔ اگر آپ کو یہ بات بےتکی لگتی ہے تو اسے نظرانداز کر دیں۔ شکریہ۔

Top