مراقبہ من کی سود مند حالت استوار کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ اس کے لئیے ہم من کی بعض حالتیں پیدا کرتے ہیں تا وقتیکہ وہ ہماری عادت بن جاۓ۔ طبعی سطح پر، مراقبہ سے نئے نیوراتی تانے بانے وجود میں آنے کا ثبوت ملتا ہے۔
مراقبہ کے فوائد
مراقبہ کے توسط سے ہم من کی کئی سود مند کیفیتیں استوار کر سکتے ہیں:
- زیادہ شانت اور کم پریشان ہونا۔
- زیادہ مرتکز اور کم منتشر ہونا
- مطمٔن ہونا، مستقل پریشانیوں سے آزاد
- اپنے آپ کی اور اپنی اور دوسروں کی زندگی کے متعلق بہتر ادراک حاصل کرنا
- مثبت جذبات جیسے پیار اور درد مندی میں افزائش۔
ہم میں سے بیشتر انسان ایک شانت، صاف اور پر مسرت من چاہتے ہیں۔ اگر ہم پریشان ہوں یا کسی منفی حال میں ہوں، تو اس سے ہم ناخوش ہوتے ہیں۔ اس کا ہماری صحت پر برا اثر ہوتا ہے اور یہ ہمارے کام، گھریلو زندگی اور دوستی کو برباد کر سکتا ہے۔
اگر ہم پریشانی اور غصیلے پن سے تنگ آ چکے ہیں تو ہمیں اپنی صورت حال بہتر بنانے کے لئیے کچھ طریقے ڈھونڈنے ہوں گے – مثلاً مراقبہ۔ مراقبہ سے ہم اپنی جذباتی کمزوریوں پر قابو پا سکتے ہیں بغیر کسی ذیلی برے اثرات کے۔
[دیکھئیے: مراقبہ کیسے کیا جاۓ]
ہمیں مراقبہ کے معاملہ میں حقیقت پسند ہونا چاہئیے۔ یہ مثبت نتائج حاصل کرنےکا آلہ ہے، مگر یہ کوئی امرت دھارا نہیں۔ کسی واقعہ کے پسِ پشت ایک ہی وجہ نہیں ہوتی، بلکہ کئی اسباب اور حالات ہوتے ہیں۔ مثلاً اگر ہمارا خون کا دباؤ زیادہ ہو تو مراقبہ یقیناً فائدہ مند ہو سکتا ہے، مگر اگر ہم غذا میں تبدیلی، ورزش اور دوا دارو کریں تو نتائج نہائت مختلف ہوں گے۔
بودھی مراقبہ کی اقسام
مراقبہ کرنے کے کئی طریقے ہیں، اور اگرچہ یہ سب ہمیں شانت ہونے میں معاون ہوتے ہیں، لیکن یہ ہمارا مدعا و منتہا نہیں ہے۔ تاہم، مثبت کیفیات پیدا کرنے میں حقیقی کامیابی سے پہلے ہمیں اپنی پریشانی کو دور کرنا لازم ہے، تو اس کے لئیے ہم اپنے من کو سانس پر ارتکاز کے راستے شانت کرتے ہیں، پیشتر اس کے کہ ہم بدھ مت کے مراقبہ کے دو طریقوں: ادراک اور استقامت پر عمل پیرا ہوں۔
ادراکی مراقبہ، جسے عموماً "تجزیاتی" بھی کہتے ہیں میں ہم عقل کے راستے اپنے آپ کو، قدم بہ قدم، من کی کسی مثبت حالت مثلاً پیار کی طرف لے جاتے ہیں۔ یا ہم عقل کے استعمال سے کسی صورت حال کا تجزیہ کر کے اس کے متعلق درست فہم استوار کرتے ہیں، مثلاً اس کی نا پائداری۔ یا ہم محض کوئی شے جو مثبت صفات کی حامل ہو، مثلاً مہاتما بدھ کی شبیہ، کا من کا تصور بناتے ہیں، اور یوں اس کی درست فہم پانے کی کوشش کرتے ہیں۔
پھر، استقامتی مراقبہ میں، ہم اس مثبت کیفیت کو جو ہم نے پیدا کی ہے بذریعہ ذہنی خبر گیری، توجہ اور ارتکاز زیادہ سے زیادہ عرصہ تک قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یا ہم ان آلات کی مدد سے من کے اس غیر منتشر ارتکاز کو قائم رکھتے ہیں جو ہم نے من کے تصور سے استوار کیا ہے۔
ہم دو قسم کے مراقبہ میں باہمی رد و بدل کرتے ہیں۔ جب ہم من کی من پسند مثبت کیفیت کو پیدا کر لیں اور ہمیں اس کا ادراک بھی ہو، تو ہم اسے مستحکم کر لیتے ہیں؛ اور اگر کبھی اس پر ہماری توجہ کمزور پڑ جاۓ یا ختم ہو جاۓ، تو ہم پھر سے اس کو پیدا کرنے اور اس کا ادراک کرنے پر کام شروع کر دیتے ہیں۔
روز مرہ زندگی کے لئیے مراقبہ
مراقبہ کا اصل مقصد محض یہ نہیں کہ جب ہم اپنے گھر میں گدی پر بیٹھے ہوں تو شانت، مرتکز اور محبت سے لبریز محسوس کریں، بلکہ یہ کہ ہماری پوری زندگی پر اس کا اثر ہو۔ اگر ہم باقاعدگی سے مراقبہ کریں، تو مثبت جذبات کی عَود ایک عادت بن جاتی ہے جنہیں ہم کبھی بھی، دن ہو یا رات، کام میں لا سکتے ہیں۔ آخر کار یہ ہمارا حصہ بن جاتے ہیں – ایک ایسی فطرت جس کی بدولت ہم ہر لمحہ بغیر کسی تگ و دو کے مزید پیار بھرے، مرتکز اور شانت محسوس کرتے ہیں۔
ایسے لمحات بھی آئیں گے جب ہم غصہ اور دل برداشتگی محسوس کریں گے، تب ہمیں محض اپنے آپ کو یہ یاد دلانا ہے:"دل میں پیار کو بڑھاؤ۔" اور چونکہ متواتر مراقبہ کر کر کے ہم من کی اس حالت سے اس قدر مانوس ہو چکے ہیں، کہ ہم اسے فوراً پیدا کر سکتے ہیں۔
[دیکھئیے: غصہ سے نبرد آزمائی کے آٹھ بودھی گر]
کوئی انسان بھی مکمل طور پر بےعیب نہیں اور ہم کسی نہ کسی بدعادت کی نشاندہی کرسکتے ہیں جس سے ہم نجات پانا چاہیں۔ خوش قسمتی سے یہ عادات پتھر پر لکیر نہیں ہیں اس لئیے بدلی جا سکتی ہیں۔
اس بدلاؤ کے لئیے محض ہماری محنت درکار ہے۔ ہم میں سے کئی ایک ورزش گاہ میں گھنٹوں گزارتے ہیں مگر اپنے بیش قیمت اثاثے: ہمارے من کو ورزش کرانا بھول جاتے ہیں۔ شروع میں یہ مشکل ہو گا، مگر ایک بار جب ہم اپنی زندگی میں مراقبہ کے فوائد دیکھ لیں، تو ہم اپنے من پر کام کر کے خوش ہوں گے۔