"سنگھا" سنسکرت کی ایک اصطلاح ہے جس کا مطلب جماعت یا گروہ ہے، جسے خاص طور پر مہاتما بدھ کے منصب یافتہ چیلوں کے لئیے استعمال کیا جاتا ہے، جنہیں بھکشو اور بھکشونیاں کہتے ہیں، یا راہب اور راہبائں۔ آج کے دور میں جبکہ بدھ مت پورے مغرب میں پھیل چکا ہے، تو ساری بودھی جماعت یا کسی دھرم مرکز میں عام پیروکاروں کے چھوٹے چھوٹے گروہوں کو بھی سنگھا کا درجہ دیا جاتا ہے۔
What is sangha 1

سنگھا کی بنیاد کیا ہے

جب مہاتما بدھ نے گیان پا لیا، تو دھرم چکر سوتر یا دھرم چکر پراورتن سوتر کے مطابق اس نے چار بلند و بالا سچائیوں پر پہلا درس اپنے گزشتہ پانچ ساتھیوں کو دیا جن کے ہمراہ اس نے کئی برس تک سنیاس لیا تھا۔ اس درس کے دوران پانچوں کے پانچوں سنیاسی اس کے چیلے بن گئے، اور ان میں سے کون ِدنیا نامی ایک چیلہ ارہت یعنی نجات یافتہ بن گیا۔ چند روز بعد، من کے خالی پن یعنی کہ من کے وجود کی غیر ممکن اشکال پر درس کے دوران باقی ماندہ چیلے بھی ارہت بن گئے۔ پس یہ پانچ چیلے سنگھا کے اولین ارکان یا پہلے بدھ راہب کہلائے۔ 

پھر مہاتما بدھ نے باقی تمام عمر – کُل ۴۵ برس کے لگ بھگ – دھرم کی تعلیم جو اس نے دریافت کی تھی پھیلانے میں صرف کی، جبکہ اس کے چیلوں نے شمالی بھارت کے مختلف قصبوں اور شہروں میں مہاتما بدھ کا پیغام پہنچایا۔ جلد ہی معاشرہ کے مختلف حصوں سے لوگ مہاتما بدھ کی جانب کھنچے چلے آئے: دوسرے روحانی گرو، بادشاہ اور ملکائں، کسان اور قصاب، وغیرہ وغیرہ۔ اگرچہ بیشتر چیلے دنیوی زندگی کو خیر باد نہیں کہنا چاہتے تھے، لیکن جو لوگ عام طرز حیات کو چھوڑ کر سنگھا میں شامل ہونا چاہتے تھے ان کا خیر مقدم کیا گیا۔ عام لوگ کام کاج شادی بیاہ میں لگے رہے اور سنگھا کو کھانا پینا اور کپڑا لتا مہیا کرتے رہے۔

وقت گزرنے کے ساتھ، جبکہ مزید لوگ مہاتما بدھ کے ساتھ شریک ہوئے، تو یہ لازم قرار پایا کہ ایک منظم روحانی جماعت تشکیل دینے کی خاطر چیلوں کے لئیے کچھ قانون قاعدہ بنایا جائے۔ جیسے جیسے ضرورت پڑی اور تجربات کی بنیاد پر اصول وضع کئیے گئے ان معاملات سے نمٹنے کے لئیے جو سنگھا گروہ کو پیش آئے اور جن کے نتائج خاطر خواہ نہ نکلے تھے۔  مہاتما بدھ کی زندگی کے اختتام تک کئی سو قوانین بنائے جا چکے تھے۔

خواتین کی منصب داری

شروع میں مہاتما بدھ نے صرف مردوں کو مسلک میں داخل کیا۔ بھکشووں کے مسلک کے قیام کے پانچ برس بعد ، مہاتما بدھ کی خالہ مہا پرجا پتی گوتامی نے مہاتما بدھ سے درخواست کی کہ اسے بطور بھکشونی کے منصب عطا کرے، مگر اس نے انکار کر دیا۔ لیکن مہا پرجا پتی بے خوف رہی اور اس نے پانچ سو عورتوں کے ساتھ مل کر سر منڈوانے، پیلے چوغے پہننے اور مہاتما بدھ کی پیروی کرنے کا فیصلہ کیا۔ 

مہا پرجا پتی نے دو بار اور مہاتما بدھ سے التجا کی اور ہر بار اُس نے یہ درخواست مسترد کر دی۔ چوتھی بار مہاتما بدھ کے چچیرے بھائی آنند نے اُس کی جانب سے وکالت کی اور مہاتما بدھ سے پوچھا کہ کیا مردوں کی طرح عورتیں بھی روحانی مسلک اختیار کر کے روشن ضمیری پانے کی اہل ہیں، جس کا جواب مہاتما بدھ نے ہاں میں دیا۔ تب آنند نے رائے پیش کی کہ اچھا ہو گا اگر عورتوں کو بھکشونی بنایا جائے، اور مہاتما بدھ نے عورتوں کے منصب یافتگی کی اجازت دے دی۔ 

روائتی سنگھا اور آریہ سنگھا

عام طور پر سنگھا کی اصطلاح بھکشو اور بھکشونیوں کے اِن دو گروہوں کے لئیے استعمال کی جاتی ہے، یعنی وہ راہب اور راہبائں جو مہاتما بدھ کی تعلیمات کی پیروی کرتے ہیں۔ بھکشو کا مطلب ہے "فقیر،" اور یہ اصطلاح اس لئیے استعمال کی جاتی تھی کیونکہ منصب یافتہ جماعت بیشتر مادی اشیا کو خیر باد کہتی اور جگہ جگہ گھومتی پھرتی، اور کھانے کے لئیے دوسروں پر انحصار کرتی۔  ایک سنگھا تشکیل دینے کے لئیے کم از کم چار مکمل منصب یافتہ یا نو آموز بھکشو یا بھکشونیاں جو شعور یا گیان کے کسی بھی درجہ پر ہوں درکار ہیں۔ اسے ہم روائتی سنگھا کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ آریہ سنگھا بھی ہیں جو ایسے لوگوں پر مشتمل ہیں، خواہ وہ منصب یافتہ ہوں یا نہ ہوں، جنہوں نے دھرم کی راہ پر کچھ نہ کچھ ترقی کی ہے۔ 

روائتی اور آریہ سنگھا کے درمیان امتیاز کر نا ضروری ہے۔ بے شک کئی ایک عمدہ مگر عام راہب اور راہبائں موجود ہیں، مگر ان میں کئی ایسے بھی ہو سکتے ہیں جو جذباتی طور پر اتنے ہی پریشان ہوں جتنا کہ ہم ہیں – اور اس پر ہم سوال اٹھا سکتے ہیں کہ ہم اُن میں پناہ کیسے لے سکتے ہیں۔ پس تین جواہر میں سے ایک کے طور پر، یہ آریہ سنگھا ہیں جو سچا ہیرا ہیں جس میں ہمیں پناہ لینی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کہ درست راہ پر سچ مچ ہماری راہنمائی کر سکتے ہیں۔

سنگھا کی صفات 

تو سنگھا میں وہ کونسی صفات ہیں جنہیں ہم اپنے اندر استوار کرنا چاہیں گے؟

۱۔ وہ جب درس دیتے ہیں تو محض وہی کچھ نہیں دوہراتے جو انہوں نے کتابوں میں پڑھا ہے۔ وہ اپنا ذاتی تجربہ بیان کرتے ہیں – اور یہ سچا محرک ہے۔

۲۔ ان کا واحد مدعا دوسروں کی مدد کرنا ہے، اور جس بات کی وہ تلقین کرتے ہیں خود بھی اس پر عمل کرتے ہیں۔ کسی تمباکو نوش کے متعلق سوچیں جو ہمیں تمباکو نوشی کے مضر اثرات پر برا بھلا کہہ رہا ہو، ہم حیران ہوں گے کہ ہم اس کی بات کیوں سنیں، ہے نا؟ اسی وجہ سے سنگھا اپنے کردار کے سچے ہوتے ہیں، تو ہم ان پر بھروسہ کر سکتے ہیں۔

جب ہم بری صحبت میں ہوتے ہیں تو ہمیں احساس نہیں ہوتا کہ ہم خود کس قدر ان کا اثر قبول کر لیتے ہیں۔ اسی طرح اگر ہمارے دوست اچھے انسان ہوں، تو بغیر کسی خاص جہد کے ہم عمدہ صفات اپنا لیتے ہیں۔ پس ہمارے دھرم کے پاٹھ پر سنگھا کا بہت اچھا اثر پڑتا ہے۔ 

سنگھا کی اہمیت

مہاتما بدھ تقریباً ۲،۵۰۰ برس پہلے گزرا، اس نے اپنی تعلیمات پیچھے چھوڑیں – دھرم – ہمارے پاٹھ کے لئیے۔ اور یہی بدھ مت کا لُب لُباب ہے۔ لیکن صحیح طور پاٹھ کرنے کے لئیے ہمیں قابل اعتبار مثالیں درکار ہیں، ایسے لوگ جنہوں نے خود مہاتما بدھ کی تعلیمات کو سیکھا، ان کا مطالعہ کیا اور مشق کی اور اس کے بعض ہدف حاصل کئیے، تا کہ ہماری مدد اور راہنمائی کر سکیں۔ ایسے لوگوں کی جماعت کو سنگھا کہتے ہیں۔ 

آجکل ہم اکثر راہنمائی کے لئیے نامور شخصیتوں مثلاً اداکاروں، ماڈلوں، گلوکاروں اور کھلاڑیوں کی جانب رجوع کرتے ہیں۔ لیکن ان لوگوں کے اپنے مسائل ہیں، ہے نا؟ ہم جانتے ہیں کہ ان کی نجی زندگی اکثر ابتر حالت میں ہے! نہ صرف یہ، بلکہ جب ہم نامور ہستیوں اور ان کے طرز زندگی کو اپنے اوپر طاری کر لیتے ہیں، تو اس سے دوستوں کے ساتھ بیکار باتوں میں اضافہ ہوتا ہے اور مزید تر مادی اشیا کی طلب بڑھتی ہے: ان سر گرمیوں سے ہمیں یا دوسرے لوگوں کو نہ تو کوئی فائدہ ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی خوشی ملتی ہے۔ دوسری جانب سنگھا وہ لوگ ہیں جنہوں نے کسی حد تک اپنے مسائل سے نجات پا لی ہے – یہ کتنی عمدہ بات ہے! – اور باقی ماندہ مسائل سے نجات پانے پر کام کر رہے ہیں۔ اگر ہم بھی اپنے مسائل سے نجات چاہتے ہیں تو کیا یہ بات قرین عقل نہیں کہ ہم ان کے نقش پا پر چلیں؟

ہمارے جدید دور میں یہ سنگھا کی ہی مہربانی ہے کہ ان کی بدولت مہاتما بدھ کی محفوظ شدہ تعلیمات ہمیں میسر ہیں جو کہ نسل در نسل چلی آ رہی ہیں۔ سنگھا ہمیں اپنے قریب تر مسائل سے پرے دیکھنے اور جاننے کی ترغیب دیتے ہیں کہ ایک ایسی راہ بھی ہے جو ہمیں دکھ سے مکمل نجات دلا سکتی ہے۔ اور وہ محض ہمیں ترغیب ہی نہیں دیتے بلکہ ہر قدم پر ہماری راہنمائی، حوصلہ افزائی اور مدد بھی کرتے ہیں۔ اسی لئیے بعض اوقات سننے میں آتا ہے کہ سنگھا کے بغیر بدھ مت کچھ نہیں۔

خلاصہ

زندگی میں ہم کیسے ایک عمدہ راہنما چُن سکتے ہیں؟ یہ ممکن ہے کہ ہماری سنگھا کے کسی اصل رکن سے کبھی ملاقات نہ ہو – کوئی نہائت کامیاب رکن، کوئی آریہ سنگھا  - پھر بھی، ہم ایسے لوگوں سے مل سکتے ہیں جو دھرم کے معاملہ میں زیادہ تجربہ کار ہوں اور ان سے ترغیب حاصل کریں۔ ان کی مثال کو سامنے رکھ کر، ہماری ان کی راہ پر چلنے میں حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ 

بدھ دھرم کی دنیا بھر میں افزائش بدھ بھکشووں اور بھکشونیوں یعنی روائتی سنگھا کی دلجمعی اور فرض شناسی کی مرہون منت ہے۔ جس طرح مہاتما بدھ کو طبیب اور دھرم کو دوا سے تشبیہ دی جاتی ہے، اسی طرح سنگھا ان نرسوں کی مانند ہیں جو مسلک پر ہماری حوصلہ افزائی اور راہنمائی کرتے ہیں، جب ہم ہمیشہ کے لئیے اپنے مسائل سے چھٹکارا پانے کے لئیے کام کر رہے ہوتے ہیں۔ 

Top