درست کلام، رویّہ اور رزق

نظر ثانی 


تین پاٹھ یعنی اخلاقی ضبط نفس، ارتکاز اور امتیازی آگہی ہمیشہ ہمارے مسائل اور کسی بھی مصیبت جس سے ہمارا سامنا ہو پر قابو پانے میں مدد کرتے ہیں۔ اس کا طریق کار یہ ہے کہ مسائل کے اسباب کی نشاندہی کی جاۓ اور تین پاٹھ کے اطلاق سے ان اسباب کا خاتمہ کیا جاۓ۔

ہماری روز مرہ زندگی میں دوسروں سے معاملہ کرنے میں تین پاٹھ کا استعمال نہائت منفعت بخش ہے۔  

  • اخلاقی ضبط نفس – دوسروں سے معاملہ میں یہ بات اہم ہے کہ ہم اپنے فعل اور گفتار پر نظر رکھیں۔ ہمیں کسی ایسے کام سے بچنے کے لئیے جو دوسروں کے لئیے نقصان دہ ہو اخلاقی ضبط نفس کی ضرورت ہوتی ہے۔
  • ارتکاز – ہمیں دوسروں سے بات چیت کے دوران مرتکز رہنا ضروری ہے، تا کہ ہم یہ جان سکیں کہ ان کے اوپر کیا بیت رہی ہے اور ان کی ضروریات کیا ہیں۔ اگر ہمارا من آوارگی کا شکار ہے،مستقل فون کو ہی دیکھے جا رہا ہے، تو اس سے دوسروں کے ساتھ بات چیت بہت مشکل ہو جاتی ہے
  • امتیاز – اگر ہم نے مدّ مقابل کی بات دھیان سے سنی ہے تو ہم امتیازی آگہی کے توسط سے معقول  جواب کا تعیّن کر پائیں گے۔  اس کا مطلب بھی دوسروں سے مناسب سوچ، رویہ اور گفتار اختیار کرنا ہے۔

تینوں پاٹھ شانہ بہ شانہ چلتے ہیں اور ایک دوسرے کو تقویت بخشتے ہیں، اس لئیے یہ ضروری ہے کہ ہم تینوں کا اطلاق بیک وقت کریں۔ جب ہم اکیلے ہوں، تو تین پاٹھ ہمارے اپنے لئیے بھی بہت مفید ہیں:

  • یہ ہمیں اپنی ذات کو ضرر پہنچانے سے باز رکھتے ہیں۔
  • ہمارے من مرتکز ہوتے ہیں، اس لئیے ہم جو کرنا چاہیں کر سکتے ہیں۔
  • ہم اپنی بنیادی سوجھ بوجھ کے ذریعہ اچھے برے کی تمیز کر سکتے ہیں۔

تو اس طرح یہ روز مرہ زندگی کے بنیادی اصول ہیں جنہیں ہم ذاتی معاملات اور دوسروں سے معاملہ کرنے میں استعمال کر سکتے ہیں۔

آٹھ منزلہ راہ عمل

جب ہم تین پاٹھ کی مشق کرتے ہیں تو ان میں سے ایک طریقے کا نام "آٹھ منزلہ راہ عمل" ہے۔ یہ محض آٹھ مختلف قسم کی مشقیں ہیں جو ہم کرتے ہیں جن سے تین پاٹھ استوار ہوتے ہیں۔  

اخلاقی ضبط نفس کی مشق کے لئیے تین مشقیں ہیں:

  • درست گفتار – ہمارا انداز گفتگو۔
  • فعل کی مناسب حدود – ہمارا رویہ کیسا ہے۔
  • حلال رزق – ہم روزی کیسے کماتے ہیں۔ 

ارتکاز کی مشق میں بھی تین چیزیں ہیں:

  • درست جد و جہد – اپنے من کو ضرر رساں خیالات کے تانے بانے سے نجات دلا کر مراقبے کے لئیے موزوں حالات پیدا کرنا۔
  • من کی درست آگہی – اپنے مدعا اور محرک کو مستقل دھیان میں رکھنا۔
  • درست ارتکاز – کسی تعمیری بات پر مرتکز رہنا۔ 

امتیازی آگہی کی مشق کے لئیے دو چیزیں ہیں: 

  • صحیح نظریہ – جس بات کو ہم صحیح اور غلط یا مفید اور ضرر رساں کی درست تمیز کی بنیاد پر سچ مانتے ہیں۔
  • صحیح ارادہ ( صحیح محرک) – من کی وہ مثبت حالت جو ہمارے صحیح نظریہ سے پیدا ہوتی ہے۔

اس کی وضاحت یوں ہے کہ ان آٹھ مشقوں میں سے ہر ایک کے اطلاق کا ایک غلط طریقہ ہے جسے ہم نے ترک کرنا ہے، اور ایک صحیح طریقہ ہے جسے ہم نے اپنانا ہے۔

کلام

جس طرح ہم دوسروں سے مخاطب ہوتے ہیں وہ ہمارے من کی عکاسی کرتا ہے۔ اس سے دوسروں کا ہمارے بارے میں رد عمل متعیّن ہوتا ہے کہ وہ ہمارے متعلق کیسے سوچتے اور محسوس کرتے ہیں اور ہم سے کیسے پیش آتے ہیں۔ اس لئیے ہمیں مفید اور ضرر رساں گفتار میں تمیز کرنا ضروری ہے۔  

غلط کلام

غلط کلام وہ ہے جو عدم مسرت اور مسائل کا سبب بنے:

  • 'دروغ گوئی' – غلط بیانی کر کے دوسروں کو دھوکہ دینا۔ اگر ہماری پہچان کسی جھوٹے اور دھوکے باز کی بن جاۓ، تو کوئی بھی ہماری بات کا یقین نہیں کرے گا، یا ہمارے اوپر بھروسہ نہیں کرے گا، یا ہماری بات سننے کو بھی تیار نہیں ہو گا۔ اس سے ناخوشگوار صورت حال پیدا ہوتی ہے۔
  • 'پھوٹ ڈالنے والی بات کرنا' – لوگوں سے ان کے دوستوں اور ساتھیوں کے متعلق بری باتیں کہنا تا کہ ان کے تعلقات کشیدہ ہو جائں۔ اس سے لوگوں کو ہمارے اوپر چغل خوری کا گمان ہوتا ہے، اور اس سے ہمارے اپنے تعلقات بگڑ جاتے ہیں۔ 
  • 'درشتی سے پیش آنا' – اس سے مراد بد زبانی، چیخنا چلانا اور گالی گلوچ ہے۔ جب ہم لوگوں سے کلام کے ذریعہ بد سلوکی کرتے ہیں تو وہ بھی ہم سے ویسے ہی ہمکلام ہوں گے، اور ماسوا اس کے کہ وہ مساکیت زدہ ہوں وہ ہم جیسے انسان سے جو ان پر مستقل برسے، دور ہی رہیں گے۔
  • 'فضول گوئی' – ہر دم بیکار باتیں کرنا، دوسروں کی بات میں دخل دینا اور بے محل کی بات کرنا، یا گپ بازی کرنا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کوئی بھی آپ کی بات کو اہمیت نہیں دیتا، اور لوگ آپ کی صحبت کو آزار جانتے ہیں۔ اس طرح ہم اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع کرتے ہیں۔ 

درست کلام

مندرجہ بالا چار قسم کی غلط کلامی سے پرہیز کے لئیے مثبت کلام معاون ہے۔ اس ضبط نفس کا پہلا سبق یہ ہے کہ جب ہم کوئی جھوٹی بات کہنے لگیں، کسی پر چِلائں، یا فضول باتیں کرنے لگیں، تو ہمیں احساس ہو کہ یہ ضرر رساں ہے اور عدم مسرت کا باعث ہے، اور یوں ہم اس سے بچنے کی بھرپور کوشش کریں۔ 

یہ کوئی آسان کام نہیں، کیونکہ جس لمحے آپ ایسا کرنے والے ہوں، اور پیشتر اس کے کہ آپ اسے اضطراری طور پر کر گزریں، آپ کو اس کا احساس ہونا لازم ہے۔ اس کی مثال کیک کے ایک ٹکڑے کی سی ہے۔ بعض اوقات ہم دوسرا ٹکڑہ لے سکتے ہیں، لیکن پیشتر اس کے کہ ہم جبراً اسے لیں، ہم یوں سوچ سکتے ہیں،" اگرچہ میں اسے لینا چاہتا ہوں مگر ایسا کرنا ضروری نہیں۔ مجھے اس کیک کی ضرورت نہیں، اس سے میرا وزن بڑھے گا جبکہ مجھے وزن کم کرنا چاہئیے۔" تو یہ وہ بات ہے جو ہم ضبط نفس کے زُمرے میں کر رہے ہیں۔

جب ہمارا من ایسے کام کرنا چاہے، تو قدیم بھارتی گورو شانتی دیو ہمیں لکڑی کے ٹکڑے کی مانند رہنے کی ہدائت دیتا ہے۔ میں چلانے یا برا بٖھلا کہنے پر آمادہ ہوتا ہوں پر پھر محسوس کرتا ہوں کہ اس سے ہم دونوں پریشان ہوں گے لہٰذا میں کچھ نہیں کہتا۔ میں کاٹھ کے ٹکڑے کی مانند ساکت رہتا ہوں۔ میں کوئی احمقانہ لطیفہ یا بیکار بات کہنا چاہتا ہوں، مگر محسوس کرتا ہوں کہ یہ فضول گوئی ہو گی اور میں خاموش رہتا ہوں۔ تو یہ ایسی بات ہے۔ 

ضبط نفس کا دوسرا سبق یہ ہے کہ اس کی بجاۓ آپ کوئی تعمیری کام کریں – جیسے سود مند طریقے سے بات کریں۔ یہ بات اس احساس سے پیدا ہوتی ہے کہ ایسا کرنے سے خوشی ملے گی اور ہر معاملہ میں ہم آہنگی ہو گی۔ ہمیں علت و معلول کے آئینے میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔

موزوں کلام کی تہذیب و تادیب کے لئیے باشعور محنت، سچائی، نرمی، برمحل، موزوں قدر اور بامعنی بات کرنے کا مصمم ارادہ درکار ہیں:

  • ہمیں دوسروں کی قطع کلامی کرنے، مستقل انہیں کال کرنے یا پیغام رسانی بذریعہ ٹیکسٹ کرنے، خصوصاً معمولی باتوں کے متعلق جیسے آج آپ نے ناشتے میں کیا کھایا، یا گپ بازی سے اجتناب کرنا چاہئیے۔ یہ بیکار کی باتیں ہیں جو دوسروں کے کام میں مخل ہوتی ہیں۔ 
  • دوسروں سے ہمکلام ہونے میں گفتنی کی مناسب مقدار یہ ہو گی کہ ہم حد سے بڑھ کر نہ بولیں یا انہیں خواہ مخواہ کسی بات پر قائل کرنے کی کوشش نہ کریں، خصوصاً اگر وہ پہلے سے ہی ہم سے اس پر اتفاق کرتے ہیں۔

بہر حال، ہمیں تمیز کرنا لازم ہے۔ مثلاً، سچ بولنے کے معاملے میں، اگر کسی کی قمیص یا لباس بد صورت ہے تو انہیں تکلیف پہنچے گی۔ آپ یوں نہیں کہتے،" یہ واقعی نہائت بدصورت ہے۔" بعض اوقات آپ کو محتاط ہونا چاہئیے، لیکن یہ اس شخص پر منحصر ہے۔ میری بہن حال ہی میں مجھ سے ملنے آئی تھی، ہم باہر جانے لگے تو اس نے ایک بلاؤز پہنا۔ یہ تھوڑا سا تنگ تھا اس لئیے ٹھیک سے پورا نہیں آیا، لیکن چونکہ وہ میری بہن ہے اس لئیے میں اسے بتا سکتا ہوں کہ یہ اس پر بھدا لگ رہا تھا۔ مگر اپنے گھر والے لوگوں کے علاوہ کسی اور سے ایسا کہنا بہت مشکل ہو گا! آپ اپنی نئی لڑکی دوست سے یوں نہیں کہیں گے،" تمہارا بلاؤز نہائت بھدا ہے۔ کچھ اور پہن لو!" خواہ یہ سچ ہی ہو۔

جہاں تک ترش کلامی کا تعلق ہے، تو بعض اوقات آپ کو کوئی بات سختی سے کہنا ہوتی ہے۔ اگر آپ کا بچہ ماچس کی تیلی یا لائیٹر سے کھیل رہا ہے، تو آپ کو سختی سے بولنا ہو گا۔ اسے ترش کلامی کے زمرے میں نہیں گردانا جاۓ گا، کیونکہ اس میں غصہ شامل نہیں ہے۔ لہٰذا، تحریک نہائت اہم ہے۔

غیر موزوں کلام کی کچھ اور مثالیں

ہم  گفتار کے ان ضرر رساں طریقوں میں اس کو بھی شامل کر سکتے ہیں جو نہ صرف ہم دوسروں سے تخاطب میں استعمال کرتے ہیں بلکہ وہ بھی جس کا رُخ ہماری اپنی طرف ہوتا ہے۔ ہم گفتار کے ان طریقوں کے متعلق ایک بڑے پیمانے پر بھی سوچ سکتے ہیں۔

دروغ گوئی میں ہمارے جذبات کا دوسروں سے بیان یا ہمارے ان کے متعلق ارادوں کے بارے میں بیان شامل ہو سکتا ہے۔ ہم کسی سے نہائت عمدہ طریقے سے پیش آ سکتے ہیں، انہیں یہ بتا کر کہ ہم ان سے محبت کرتے ہیں – یہاں تک کہ خود فریبی میں مبتلا ہو کر – جب کہ ہم محض ان کی دولت یا کسی اور شے پر قبضہ کرنا چاہتے ہوں۔ یہ ایک قسم کا دھوکہ ہے۔ تو یقیناً ہم جا کر ان سے یہ نہیں کہتے،" میں در حقیقت تم سے پیار تو نہیں کرتا، میں صرف تمہاری دولت کا تمنائی ہوں،" کیونکہ ایسا کرنا نا مناسب ہو گا۔ ہمیں اپنے جذبات اور ارادوں  کی حقیقت کا جائزہ لینا ہے۔ 

تفرقہ ڈالنے والی باتیں وہ ہیں جو اس درجہ مذموم ہیں کہ ان سے ہمارے اپنے دوست بھی ہم سے دور بھاگنے لگتے ہیں۔ بعض لوگ ہر وقت شکائت کرتے ہیں یا ہمیشہ منفی رویہ رکھتے ہیں، اور یوں سب لوگ ان سے دور بھاگتے ہیں۔ اگر ہم ایسے ہوں تو کون ہمارے قریب رہنا پسند کرے گا؟ یا بغیر سانس لئیے بولتے چلے جانا تا کہ دوسرے کو کچھ کہنے کا موقع ہی نہ ملے – اس سے لوگ دور بھاگتے ہیں۔ ہم سب ایسے لوگوں کو جانتے ہیں، اور اس کا امکان کم ہے کہ ہم ان سے اکثر ملنا چاہتے ہیں۔ اپنی سوچ مثبت رکھنا اور دوسروں کے بارے میں اچھی باتیں کہنا احسن فعل ہے۔

ترش کلامی کا استعمال اس وقت ہوتا ہے جب ہم نہ صرف اوروں سے بلکہ خود سے بھی بد سلوکی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ کسی کو احمق یا خوفناک کہنا یقیناً بری بات ہے۔ لہٰذا جب اس کا رُخ ہماری اپنی طرف ہوتا ہے تو بھی یہ مذموم بات ہے۔ اس سے یقیناً ہمیں کوئی خوشی نہیں ملتی، لہٰذا یہ بات اہم ہے کہ ہم اپنے بارے میں اچھا رویہ رکھیں، اور یہ کہ ہم اپنے آپ سے کیسے مخاطب ہوتے ہیں۔ 

جہاں تک یاوہ گوئی کا تعلق ہے ہمیں بنا سوچے سمجھے اپنے ذاتی معاملات، ہمارے شکوک و شبہات اور تفکرات کے بارے میں بات نہیں کرنی چاہئیے۔ بعض معاملات ایسے ہوتے ہیں جن کا غیروں سے ذکر نا مناسب ہے۔ مثلاً اگر کوئی آپ سے یہ کہے کہ وہ ہم جنس پرست ہے یا سرطان کا مریض ہے اور آپ کو اسے اپنے تک ہی محدود رکھنے کو کہے تو آپ کو بالکل ویسا ہی کرنا چاہئیے۔ کسی کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانا فضول گوئی میں شامل ہے۔

درست کلام سے مراد مناسب وقت اور موقع پر مناسب گفتار ہے۔ بعض اوقات بات میں رکھ رکھاؤ ملحوظِ خاطر ہوتا ہے اور بعض اوقات بےتکلفی سے بات کی جا سکتی ہے۔ ہمیں یوں بات کرنی چاہئیے جس سے کہ لوگ بےچین نہ ہوں۔ جب آپ کسی بچے سے بات کریں تو اس انداز سے کریں کہ اسے بات سمجھ آۓ، اور اس کا اطلاق بڑوں پر اور دوسری تہذیبوں کے لوگوں پر بھی ہوتا ہے۔

دائرہ عمل (رویہ)

آٹھ منزلہ راہ عمل میں دوسرے نمبر پر مناسب دائرہ عمل ہے جو کہ ایک تکنیکی اصطلاح ہے۔ جب ہم حدود کی بات کرتے ہیں تو ہم ایک خاص حد کی بات کرتے ہیں، جیسے کہ "میں اس حد تک کام کروں گا، مگر اس سے آگے نہیں۔" 

غلط رویّہ

حد سے تجاوز میں تین قسم کا ضرر رساں رویہ شامل ہے:

  • 'زندگی کا خاتمہ کرنا' – کسی جاندار کو مارنا
  • 'کسی چیز پر ناجائز قبضہ کرنا' – پراۓ مال پر قبضہ جمانا، سرقہ
  • 'جنسی بےراہ روی اختیار کرنا۔

جان لینا

اس کا سیدھا سادہ مطلب کسی اور کی جان لینا ہے۔ اس سے مراد محض انسانی جان ہی نہیں بلکہ اس میں تمام جانور، مچھلیاں، حشرات وغیرہ شامل ہیں۔

میرے خیال میں، ہم میں سے بیشتر کے لئیے، جانور اور مچھلی کے شکار کو ترک کرنا کوئی خاص مشکل کام نہیں۔ بعض کے لئیے کیڑے مکوڑوں کو نہ مارنا مشکل ہو سکتا ہے۔ اس کے کئی ایک حل ہو سکتے ہیں جن میں ماضی اور مستقبل کی زندگیوں کے معاملہ کو بیچ میں نہ لایا جاۓ، یہ سوچ کر، " یہ مکھی کسی گزشتہ زندگی میں میری ماں تھی۔" اہم بات یہ ہے کہ اگر کوئی شے ہمیں تنگ کرتی ہے تو ہمارا فطری رد عمل یہ نہیں ہونا چاہئیے کہ اسے جان سے مار ڈالیں۔ اس سے اس چیز کی عادت پختہ ہوتی ہے کہ کوئی بھی شے جو ہمیں ناپسند ہو اسے بذریعہ تشدد تباہ کر دیں، اور یہ محض ناگوار مکھی جو ہمارے سر پر بھنبھنا رہی ہے کو مارنے سے بات آگے بڑھ سکتی ہے۔ اس کے بجاۓ ہمیں ناگوار چیزوں سے نمٹنے کے لئیے امن پسند ذرائع کام میں لانا ہوں گے۔ تو مکھی اور مچھر سے نمٹنے کے لئیے بہتر ہوگا کہ جب وہ دیوار پر بیٹھے تو اس کو کسی گلاس سے ڈھانپ دیں اور پھر اس گلاس کے نیچے کاغذ کا ٹکڑا رکھ کے اسے باہر لیجا کر چھوڑ دیں۔ بےشمار حالات میں ہم ناگوار چیزوں سے نمٹنے کے امن پسند یعنی عدم تشدد کے طریقے استعمال میں لا سکتے ہیں۔

اگر آپ بھارت میں رہتے ہوں، جیسے کہ میں وہاں رہا، تو آپ حشرات کے عادی ہو جاتے ہیں۔ بھارت میں کیڑوں مکوڑوں سے جان چھڑانے کا کوئی طریقہ نہیں۔ میں ٹریول ایجنٹوں کے لئیے ایک اشتہار کے بارے میں سوچا کرتا تھا:" اگر آپ کو کیڑے پسند ہیں تو آپ کو بھارت بہت پسند آۓ گا!" شروع میں جب میں بھارت منتقل ہوا تو مجھے کیڑے مکوڑوں سے کوئی رغبت نہیں تھی، البتہ مجھے سائنسی کہانیاں بہت پسند تھیں۔ میں یوں تصور کرتا تھا کہ اگر میں کسی دور دراز سیارے پر جاؤں اور وہاں صرف ایسے حشرات ہی ہوں تو یہ نہائت قبیح بات ہو گی کہ جب ان سے میرا سامنا ہو تو میری خواہش محض یہ ہو کہ میں انہیں مار ڈالوں! اگر آپ اپنے آپ کو کیڑے کی جگہ رکھ کر سوچیں – تو وہ محض اپنے کام میں مصروف ہیں – تو پھر آپ ان کا بطور ذی حس کے خیال کریں گے۔

ظاہر ہے کہ کئی کیڑے نقصان دہ بھی ہیں، بالکل ویسے ہی جیسے کہ کئی انسان نقصان پہنچاتے ہیں، اور کئی بار ایسے لوگوں کو قابو میں رکھنے کے لئیے سخت اقدام اٹھانا پڑتے ہیں۔ مگر بہترین لائحہ عمل یہ ہو گا کہ خواہ ہم انسانوں سے نبرد آزما ہوں یا گھر کی چیونٹیوں یا لال بیگوں سے، پہلے ہم عدم تشدد کے طریقے استعمال کریں۔

لیکن ذرا ٹڈی دل جو ہماری فصلوں کو چاٹ جاتے ہیں کے متعلق سوچیں، تو یہاں نیت کا عمل سے گہرا تعلق ہے۔ اس کی ایک مثال مہاتما بدھ کا پچھلا جنم تھا جس میں وہ کسی جہاز پر جہاز ران تھا۔ وہاں کوئی شخص سب کو قتل کرنے کا منصوبہ بنا رہا تھا، اور مہاتما بدھ نے دیکھا کہ اس قتلِ عام کو روکنے کا کوئی پر امن طریقہ نہیں تھا؛ اس قاتل کو اس فعل سے باز رکھنے کا ایک ہی طریقہ تھا اور وہ یہ کہ اسی کو مار ڈالا جاۓ۔ لہٰذا مہاتما بدھ نے اس شخص کو مار ڈالا، مگر دل میں درد مندی کا جذبہ لئیے ہوۓ - دوسرے مسافروں کی جان بچانے کی خاطر، اور اس شخص کو بہت بڑی مقدار میں منفی کرم استوار کرنے سے روکنے کی خاطر – غصہ یا خوف کی وجہ سے نہیں۔ مگر مہاتما بدھ نے امر کا اقرار کیا کہ اس نے کسی کی جان لی، اور قطع نظر نیت کے یہ پھر بھی ایک برا فعل تھا، تو اس نے فیصلہ کیا،" میں دوسروں کی خاطر اس فعل کے کرمائی نتائج اپنے اوپر لینے کے لئیے تیار ہوں۔"

لہٰذا، ٹڈی دل جیسے موذی کو درد مندی کے جذبہ تلے نہ کہ غصہ، خوف یا فصل کی کمائی کے لالچ سے مارنے کے نتائج اتنے سنگین نہیں ہوں گے جتنا کہ یہ کام غصہ میں آ کر کرنے کے ہو سکتے ہیں۔ تاہم، مہاتما بدھ کی مانند اس کام کو منفی گرداننا اور اس کے نتائج خواہ وہ کچھ بھی ہوں ان کو بھگتنے کے لئیے تیار رہنا لازم ہے۔

چوری

بیشتر لوگ اپنے مال اسباب کی نسبت اپنی جان سے زیادہ انس رکھتے ہیں، پر پھر بھی، اگر آپ کسی کے مال پر ناجائز قبضہ کر لیں تو اس سے دونوں فریقوں کو بہت پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خصوصاً چور کو ہمیشہ یہ فکر رہتی ہے "کہیں میں پکڑا تو نہیں جاؤں گا؟"
ہمارا مدعا اپنے آپ کو مسائل سے بچانا ہے۔ اگر آپ کسی کیڑے یا مچھلی کو ماریں تو یہ ان کا مسٔلہ ہے۔ مگر یہ ہمارے لئیے بھی پریشانی کی بات ہے کیونکہ اگر ہم مچھروں سے بہت پریشان ہوتے ہیں، تو پھر ہم ہر وقت ان کے ہمارے علاقے میں گھس آنے کی فکر میں رہتے ہیں، اور آدھی رات کو اٹھ کر ان کا تعاقب کرتے ہیں۔ یہ بےچینی کی صورتِ حال ہے۔ اگر ہم ان چیزوں سے نمٹنے کے لئیے پرامن طریقے استعمال کریں تو ہمارے من مزید شانت ہوں گے۔ 

چوری کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے، جس میں آپ چپکے سے کام کرتے ہیں، اور پکڑے جانے کے خوف تلے رہتے ہیں۔ اس کی بنیاد ایک زبردست خواہش ہے، جس میں آپ کے اندر اتنا صبر نہیں کہ آپ محنت کر کے اس چیز کو حاصل کریں لہٰذا آپ اسے کسی اور سے چرا لیتے ہیں۔
قتل اور چوری کے اُلٹ محرکات بھی ہو سکتے ہیں:

  • آپ لگاؤ اور لالچ تلے بھی کسی کی جان لے سکتے ہیں، شائد اس لئیے کہ آپ جانور یا مچھلی کا گوشت کھانا چاہتے ہیں۔ اگر کھانے کو اور کچھ میسر نہیں تو یہ ایک بات ہے، مگر اگر متبادل اشیاء میسر ہیں تو یہ اور بات ہے۔
  • آپ کسی سے ناراض ہیں اور انہیں نقصان پہنچانے کی خاطر ان کی کوئی چیز چرا لیتے ہیں۔

جنسی بےراہ روی  

 یہ ایک مشکل موضوع ہے کیونکہ ہم میں سے بیشتر کے نزدیک جنسی خواہش کے پس پشت شدید آرزو پائی جاتی ہے۔ بدھ مت چند بنیادی راہنما پند کا بیان دیتا ہے کہ کن چیزوں سے پرہیز کیا جاۓ، جو کہ درج ذیل ہیں:

  • اپنے جنسی رویہ سے کسی کو نقصان پہنچانا جس میں زنا بالجبر اور دست درازی شامل ہیں                             
  • کسی کو ہمبستری پر مجبور کرنا، خواہ وہ ہمارا شریک حیات ہی کیوں نہ ہو، جب کہ وہ اس طرف مائل نہ ہوں   
  • کسی اور کے ساتھی کے ساتھ جماع کرنا، یا ہمارے پاس شریک حیات کے ہوتے ہوۓ کسی اور سے مباشرت کرنا۔ ہم خواہ کتنے ہی محتاط کیوں نہ ہوں، اس سے ہمیشہ پریشانی آتی ہے، ہے نا؟

جنسی بےراہ روی کے اور بھی کئی پہلو ہیں مگر اصل بات یہ ہے کہ ہم جانوروں والا رویہ نہ رکھیں۔ کوئی جانور، جب اس کا جی چاہے، کسی بھی دوسرے جانور کے اوپر کود پڑے گا، ارد گرد خواہ کوئی بھی ہو۔ وہ محض خواہش اور شہوت کے غلام ہوتے ہیں – اس سے ہمیں بچنا ہے۔

پس ہمیں کرنا یہ ہے کہ اپنی حدود کا تعیّن کریں اور اپنے جنسی افعال کو ان حدود کے اندر رکھیں، اس سے متجاوز نہیں۔ ان حدود کا تعلق تعدد، مباشرت کے طریقے، مباشرت کے انداز، یا اور کچھ سے بھی ہو سکتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ ہم اپنی جنسی زندگی گزارنے کے کچھ اصول وضع کریں، نہ کہ جانوروں کی طرح جو جی میں آۓ، جہاں کہیں، کسی وقت، کسی کے ساتھ شروع ہو جائں۔ یہ چیز اخلاقی ضبط نفس کے معاملہ میں نہائت اہم ہے۔ ضبط نفس کا مطب ہے کہ اپنی طےشدہ حدود سے تجاوز نہ کرنا، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ایسا کرنے کی بنیاد نفسانی خواہش ہے، اور نفسانی خواہش سے ان گنت مسائل پیدا ہوتے ہیں۔

منشیات کا استعمال

ضرر رساں اعمال میں منشیات کا ذکر نہیں کیا گیا لیکن ہماری بہتری کے لئیے ان کو ترک کرنا لازم ہے۔

ہمارا مقصد توجہ مرکوز کرنا ہے، ہم ضبط نفس استوار کرنا چاہتے ہیں۔ تو اگر ہم نشے میں چُور ہو جائں تو ہمارا ضبط نفس تو گیا، ہے نا؟ اگر ہم نشہ آور ادویات لیں یا بھنگ پئیں تو ہم تمام ارتکاز کھو بیٹھتے ہیں۔ ہمارے من آوارہ گردی اور تخیّل بازی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اگر ہم ان مختلف ادویات یا شراب کے اثرات کا جائزہ لیں، اور پھر اس کا اپنی ذاتی ترقی کے حصول کے منشا سے تقابل کریں تو ہم دیکھیں گے کہ نشہ کرنا اس کے متضاد فعل ہے۔

یہ نہ صرف نشے کے اثر تلے حالت میں رکاوٹیں پیدا کرتا ہے بلکہ اس کا اثر بعد میں بھی کچھ عرصہ تک قائم رہتا ہے! لہٰذا یہ ضروری ہے کہ ہم ان چیزوں کے استعمال میں کسی حد کو ملحوظِ خاطر رکھیں، اور ویسے بہتر تو یہ ہوگا کہ انہیں مکمل طور پر ترک کر دیں۔

درست دائرہ عمل (صحیح رویّہ)

ضبط نفس کی ایک قسم ضرر رساں رویّہ سے پرہیز ہے۔ اس کا دوسرا پہلو تعمیری رویہ اپنانا ہے، جسے ہم "درست رویہ" کہتے ہیں۔ 

تو اس میں کسی کی جان لینے کی بجاۓ آپ جان کا تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ اس کے وسیع تر اطلاق کی ایک صورت ماحول کو نقصان پہنچانے کی بجاۓ اس کا خیال رکھنا ہے، تا کہ جانور اور مچھلیاں سکون سے جی سکیں۔ اپنے پالتو خنزیروں کو کھلانا پلانا، اس لئیے نہیں کہ وہ پل کر موٹے ہو جائں اور آپ انہیں کھا سکیں، بلکہ اس لئیے کہ وہ زندہ رہ سکیں – یہ ہے زندگی کا تحفظ ۔ اپنے کتے کو کھانا کھلانا – یہ بھی زندگی کے تحفظ کا ایک طریقہ ہے! بیماروں کی تیمار داری یا زخمیوں کی دیکھ بھال بھی اس میں شامل ہے۔ 

کسی مکھی یا شہد کی مکھی کا تصور کریں جو آپ کے کمرے میں گھس آئی ہو۔ یہ یہاں خوش نہیں۔ یہ یہاں سے باہر نکلنا چاہتی ہے، مگر نہیں جانتی کہ کیسے۔ تو اگر آپ اسے محض اتنی سی بات پر کہ یہ آپ کے کمرے میں گھس آئی، مار ڈالیں تو یہ کوئی اچھی بات نہیں، ہے نا؟ آپ کھڑکی کھول کر اسے "شو" کہہ کر بھگا سکتے ہیں – یہ زندگی کے تحفظ کی ایک مثال ہے۔ شہد کی مکھی زندہ رہنا چاہتی ہے! اگر کوئی پرندہ غلطی سے اُڑ کر آپ کے کمرے میں آ جاۓ، تو آپ اسے مارنے کے لئیے اپنی بندوق تو نہیں اٹھا لائیں گے، ہے نا؟ مگر مکھی اور پرندے کے درمیاں فرق محض حجم، شکل و صورت، اور آواز کا ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ مکھیاں آپ کے کمرے میں نہ آئیں تو کھڑکی بند رکھیں، یا پردہ ڈال کر رکھیں!

جہاں تک چوری کا معاملہ ہے تو درست فعل یہ ہو گا کہ دوسروں کے مال کی حفاظت کی جاۓ۔ اگر آپ کسی سے کوئی چیز مستعار لیں تو آپ کو پوری کوشش کرنی چاہئیے کہ اسے کوئی نقصان نہ پہنچے۔ آپ لوگوں کو عمدہ اشیا پانے میں ان کی مدد کریں۔ 

جنسی بےراہ روی کی بجاۓ، جس میں نہ صرف دوسروں سے جنسی معاملہ شامل ہے بلکہ اپنے سے بھی، ہمیں جنسی طور پر نرم دل اور مہربان ہونا چاہئیے، نہ کہ ایک کتے کی مانند جو جوش میں ہے۔

اچھے اور برے رویہ کی کچھ اور مثالیں

اگر ہم اپنے مبحث کو مزید کشادہ کریں تو ہم دیکھیں گے کہ ان تین قسم کے رویوں کے اور بھی کئی پہلو ہیں۔ 

مثال کے طور پر، جان سے نہ مارنے کی توسیع میں دوسروں سے جسمانی بد سلوکی نہ کرنا شامل کیا جا سکتا ہے۔ اس میں نہ صرف لوگوں سے جسمانی تشدد سے پرہیز شامل ہے بلکہ ان سے حد سے زیادہ کام نہ لینا یا ان کی ہمت سے بڑھ کر کچھ کرنے کو کہنا جس سے جسمانی چوٹ کا خطرہ ہو، بھی شامل ہے۔ اس کا اطلاق ہم اپنے اوپر بھی کر سکتے ہیں – ہمیں حد سے زیادہ کام، یا گھٹیا خوراک یا نیند پوری نہ کرنے سے گریز کرنا چاہئیے۔ اکثر ہم اپنے رویہ کو دوسروں کے نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں، لیکن اہم بات یہ ہے کہ ہم اس کا اطلاق اپنے اوپر بھی کریں۔ 

جہاں تک چوری کا تعلق ہے، اس میں نہ صرف دوسروں کی چیزوں پر قبضہ شامل ہے بلکہ دوسروں کی اشیا ان کی اجازت کے بغیر استعمال کرنا بھی شامل ہے۔ مثلاً کسی کا فون ان کی اجازت کے بغیر استعمال کرنا اور کوئی مہنگی کال کرنا، یا کسی کی فرج سے بغیر ان کی اجازت کے کچھ نکال کر کھانا۔ سنیما میں بغیر ٹکٹ خریدے گھس جانا، یا – یہ بات لوگ سننا پسند نہیں کرتے – ٹیکس ادا نہ کرنا! یہ چوری ہے۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں،" میں اس لئیے ٹیکس نہیں دینا چاہتا کیونکہ اس پیسے کو جنگیں لڑنے اور ہتھیار خریدنے پر خرچ کیا جاتا ہے ۔" لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ پیسہ سڑکیں بنانے اور ہسپتال اور سکول تعمیر کرنے کے بھی کام آتا ہے۔ اگر آپ یہ سہولتیں چاہتے ہیں تو پھر آپ کو اپنی آمدنی پر ٹیکس بھی دینا چاہئیے۔ 

غیر لائسنس شدہ یا چوری کی ویڈیوز یا سافٹ ویٔر ڈاون لوڈ کرنے کے بارے میں کیا خیال ہے، کیا یہ چوری ہے؟ میرے خیال میں یہ بھی چوری ہے، خصوصاّ اگر یہ صاف طور پر لکھا ہو،" اسے بغیر قیمت ادا کئیے ڈاون لوڈ نہ کریں،" تو پھر یہ صاف ظاہر ہے۔ اس کو چوری کے زمرے سے خارج نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم اصول یہ ہے کہ حدود کا تعیّن کیا جاۓ۔ یہاں ایک طیف موجود ہے – جو کچھ بھی کرنے، بغیر نتائج کی پرواہ کئیے، سے لیکر بالکل کچھ نہ کرنے پر مشتمل ہے۔ جیسے چوری کے معاملے میں، ہم یوں کہیں، "میں کوئی بینک نہیں لُوٹوں گا یا دکان سے کچھ نہیں چراؤں گا، مگر ڈاؤن لوڈ کرنا بغیر ادائیگی کے؟ میں اس وقت اس سے باز نہیں رہ سکتا۔" اس سے کم از کم کوئی حدود تو قائم ہوتی ہے، مگر اس امر کو تسلیم کرنا لازم ہے کہ بغیر ادائیگی کے ڈاؤن لوڈ کرنا چوری ہے۔ ان دو صورتوں یعنی ادائیگی کی اہلیت اور نا اہلیت کے درمیاں بہت بڑا فرق ہے۔ یہ فعل اور بھی سنگین ہے اگر آپ ادائیگی کے قابل ہیں اور آپ ادائیگی نہ کریں، یہ محض کمینگی یا گھٹیا پن ہے۔ ایسی چیز سے پرہیز کرنا چاہئیے۔ 

چوری کے اس پہلو کے معاملہ میں ہم اپنے اوپر نظر ڈال سکتے ہیں – ہم بیکار چیزوں پر پیسہ خرچ کرنا بند کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، جوا کھیلنا اپنے مال و دولت کا ضیاع ہے۔ اور ہمیں اپنے اوپر پیسہ خرچ کرنے میں کنجوسی سے کام نہیں لینا چاہئیے، خصوصاّ جب ہم اس کے اہل ہوں۔ آپ کے پاس اچھی خوراک کھانے اور خریدنے کے لئیے پیسے ہیں، مگر چونکہ آپ کنجوس ہیں اس لئیے آپ گھٹیا اور سستی ترین غذا خریدتے ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے اپنے آپ سے چوری کرنا!

جہاں تک مناسب جنسی فعل کا تعلق ہے، یہ محض اپنے آپ کو دوسروں پر یا ان کے ساتھیوں پر مسلط کرنے پر موقوف  نہیں، بلکہ اس میں ایسے جنسی فعل سے پرہیز بھی شامل ہے جس سے ہماری جسمانی یا جذباتی صحت کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ مثلاّ آپ کی کسی سے ملاقات ہوتی ہے جسے آپ بہت پرکشش پاتے ہیں، اور ایک طرف تو آپ اس سے مباشرت کے خواہاں ہیں۔ مگر مشکل یہ ہے کہ وہ گونا گوں جذباتی اور دیگر مسائل میں گھرے ہوۓ ہیں، اور آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ اگر آپ ان کے زیادہ قریب ہوۓ تو مستقبل میں مسائل پیدا ہوں گے۔ لہٰذا اپنی صحت کی خاطر آپ پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ ہمیں نفس کے پیچھے نہیں لگنا چاہئیے محض اس وجہ سے کہ کوئی انسان خوبصورت ہے۔

اپنی طےشدہ حدود سے تجاوز کی صورت میں ہمیں کیا کرنا چاہئیے

لا محالہ، وقتاّ فوقتاّ، ہم اپنی متعیّن کردہ حدود سے تجاوز کر جاتے ہیں، تو ایسی صورت حال سے نمٹنے کے لئیے بدھ مت کچھ توڑ پیش کرتا ہے:

  • اپنی غلطی کو تسلیم کریں۔ اپنے آپ سے ایمانداری سے کام لیں۔
  • اپنے فعل پر نادم ہوں، کاش میں نے ایسا نہ کیا ہوتا۔ یہ احساس جرم سے مختلف ہے جس میں آپ اپنے آپ کو بہت برا انسان گردانتے ہیں اور اپنے کو معاف نہیں کرتے۔
  • اس بات کا مصمم ارادہ کریں کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔ 
  • اپنی نیت کا اعادہ کریں، کہ آپ حد کو پار نہیں کریں گے کیونکہ اس سے عدم مسرت اور مسائل جنم لیتے ہیں۔  
  • کوئی متضاد رویہ اختیار کریں۔ مثلاّ، اگر آپ کسی پر چِلاۓ ہوں تو آپ ان سے نیک نیتی سے معافی مانگ سکتے ہیں، یوں وضاحت کرتے ہوۓ کہ آپ خراب موڈ میں تھے، یا جو بھی۔

روزگار

اس کا تعلق اس بات سے ہے کہ ہم اپنی روزی کیسے کماتے ہیں، بعض طریقے اخلاقی حدود کے اندر ہیں اور بعض باہر۔

حرام رزق

اس سے مراد کسی نقصان دہ صنعت یا کسی ایسے طریقے سے پیسہ کمانے سے پرہیز ہے جو ہمارے لئیے اور دوسروں کے لئیے نقصان دہ ہو۔ مثال کے طور پر:

  • ہتھیار بنانا یا بیچنا۔ 
  • جانوروں کو ذبح کرنا، شکار کرنا، ماہی گیری کرنا، اور کرم کشی کرنا۔ 
  • شراب اور منشیات بنانا، بیچنا یا پیسہ کے عوض پیش گزار کرنا۔ 
  • جوۓ کا اڈہ چلانا۔
  • فحش مواد چھاپنا یا تقسیم کرنا۔

اس قسم کے ذرائع معاش جو دوسروں کو نقصان پہنچاتے ہیں یا، جیسے فحش لٹریچر کا معاملہ ہے، نفسانی خواہش کو بڑھاتے ہیں۔ اگر ہم کوئی عام سا کام بھی کر رہے ہوں تو ایمانداری سے کام لینا اور بےایمانی سے بچنا لازم ہے:

  • گاہکوں سے زائد وصولی کرنا، ان کی جیب سے زیادہ سے زیادہ پیسے نکلوانے کی کوشش کرنا
  • پیسہ خُرد بُرد کرنا، کاروبار سے اپنے استعمال کے لئیے پیسہ نکالنا
  • بھتہ خوری، پیسہ بٹورنے کی خاطر کسی کو دھمکیاں دینا
  • رشوت خوری 
  • دوسروں کا استحصال 
  • جھوٹی اشتہار بازی 
  • اشیاۓ خوردنی اور دیگر اشیاء میں کمائی بڑھانے کی خاطر ملاوٹ کرنا۔

روزی کمانے کے بےشمار ناجائز طریقے ہیں! ایسے رزق سے بچنے کے لئیے ہمیں اخلاقی ضبط نفس کو مشعلِ راہ بنانا چاہئیے۔

حلال رزق

ہمیں روزی کمانے کے حلال طریقوں کو جن سے معاشرے کو بھی فائدہ پہنچے مد نظر رکھنا چاہئیے، مثلاّ:

  • طِب 
  • سماجی خدمات 
  • جائز کاروبار 
  • ایسی اشیا بنانا اور بیچنا جن سے لوگوں کا بھلا ہو۔

ہر وہ چیز جس سے صحت مند معاشرہ پروان چڑھے اور لوگوں کا بھلا ہو عمدہ ہے ۔ اس کے علاوہ ہمیں چاہئیے:

  • کسی کو دھوکہ نہ دیں، نہ ہی بڑھا چڑھا کر قیمت وصول کریں 
  • ایک قیمت مقرر کریں تا کہ ہم معقول منافع کما سکیں 
  • اپنے کارندوں کو معقول اجرت ادا کریں تا کہ ان کا استحصال نہ ہو۔

ایک سوال جو اکثر اٹھایا جاتا ہے وہ ضرورت کے بارے میں ہے۔ ایک بار میں آسٹریلیا میں جہاں بےشمار بھیڑیں پائی جاتی ہیں، کسی تبتی گورو کے لئیے مترجم کے فرائض ادا کر رہا تھا۔ تو کسی نے یہ پوچھا،" جس شہر میں میں رہتا ہوں وہاں بھیڑیں پالنا ہی ذریعہ معاش ہے، جن سے اون اور گوشت حاصل کیا جاتا ہے۔ ایسی صورت میں میں کیا کروں؟  میں کسی دوسرے شہر منتقل ہونے اور وہاں کوئی اور کام ڈھونڈنے کا متحمّل نہیں۔" تبتی لاما نے جواب دیا،" اصل بات اپنے کام کی ایمانداری سے ادائگی اور دوسروں کو دھوکہ دہی سے گریز ہے، تو تمہارا فرض بھیڑوں سے بد سلوکی سے اجنتاب، ان سے نرم دلی سے پیش آنا، انہیں اچھی طرح کھلانا پلانا اور ان کا خیال رکھنا ہے۔" پس اصل بات نرم دلی اور ایمانداری ہے۔

خلاصہ

آٹھ منزلہ راہ سے جو راہنمائی ہمیں ملتی ہے جب ہم اس کا جائزہ لیتے ہیں، ہمیں انہیں کوئی ایسے قوانین نہیں جاننا چاہئیے جو ہمیں پابند کرتے ہیں، بلکہ انہیں ایسی حدود جاننا چاہئیے جو ہمیں منفی اعمال سے آزاد کرتی ہیں، وہ اعمال جو ہمیشہ ہمیں اور دوسروں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔

Top